حضرت آدم اور ان کی اولاد کے متعلق سوالات
س… کہا جاتا ہے کہ ہم سب آدم و حوا کی اولاد ہیں اس حوالے سے حسب ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
س… حضرت آدم و حوا کی کیا کوئی بیٹی تھی؟
ج… بیٹیاں بھی تھیں۔
س… اگر ان کی کوئی بیٹی تھی؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم کے بیٹوں سے ہی اس کی شادی ہوئی ہوگی اور اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب یعنی پوری نوع انسانی حرامی ہے؟
ج… حضرت آدم علیہ السلام کے یہاں ایک پیٹ سے دو اولادیں ہوتی تھیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، ایک پیٹ کے دو بچے آپس میں سگے بھائی بہن کا حکم رکھتے تھے، اور دُوسرے پیٹ کے بچے ان کے لئے چچا زاد کا حکم رکھتے تھے، یہ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت تھی، ایک پیٹ کے لڑکے لڑکی کا عقد دُوسرے پیٹ کے لڑکے لڑکی سے کردیا جاتا تھا۔
س… قصہٴ بنی آدم کی روایتی تشریح کے حوالے سے حسب ذیل قرآنی آیات کی کیا تشریح ہوگی؟
الف:… “ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا” (۱۲/۲۳) یاد رہے کہ مٹی کا پتلا نہیں کہا گیا ہے۔
ج… “مٹی کے خلاصہ” کا مطلب یہ ہے کہ روئے زمین کی مٹی کے مختلف انواع کا خلاصہ اور جوہر، اس سے حضرت آدم علیہ السلام کا قالب بنایا گیا، پھر اس میں رُوح ڈالی گئی۔
ب:… تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ سے وقار کے آرزومند نہیں ہوتے اور یقینا اس نے تمہیں مختلف مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے… اور تمہیں زمین سے اگایا ہے ایک طرح کا اگانا۔ (۱۳،۱۷/۷۱)
یہاں مختلف “مراحل سے گزار کر پیدا کرنے” اور “زمین سے اگانے” کا کیا مطلب ہے؟
ج… یہاں عام انسانوں کی تخلیق کا ذکر ہے کہ غذا مختلف مراحل سے گزر کر مادئہ منویہ بنی، پھر ماں کے رحم میں کئی مراحل گزرنے کے بعد آدمی پیدا ہوتا ہے۔
س… سورئہ اعراف کی آیات ۱۱ تا ۲۵ کا مطالعہ کیجئے، ابتداء میں نوع انسانی کی تخلیق کا تذکرہ ہے، پھر آدم کیلئے سجدہ، پھر اس کے بعد ابلیس کا انکار اور چیلنج، لیکن چیلنج کے مخاطب صرف آدم اور اس کی بیوی نہیں، تثنیہ کا صیغہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا، اس کا مطلب ہے تعداد زیادہ تھی ایسا کیسے ہوگیا؟ جبکہ وہاں صرف آدم و حوا ہی تھے، اس کے بعد آدم و حوا کا تذکرہ ہے جن کے لئے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، لیکن آخر میں جہاں ہبوط کا ذکر ہے وہاں پھر جمع کا صیغہ ہے ایسا کیوں ہے؟
ج… حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے قصہ سے مقصود اولاد آدم کو عبرت و نصیحت دلانا ہے، اس لئے اس قصہ کو اس عنوان سے شروع کیا کہ ہم نے “تم کو پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں۔” یہ بات چونکہ آدم علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ ان کی اولاد کو بھی شامل تھی اس لئے اس کو خطاب جمع کے صیغہ سے ذکر کیا، پھر سجدہ کے حکم، اور ابلیس کے انکار اور اس کے مردود ہونے کو ذکر کرکے ابلیس کا یہ انتقامی فقرہ ذکر کیا کہ میں “ان کو گمراہ کروں گا۔” چونکہ شیطان کا مقصود صرف آدم علیہ السلام کو گمراہ کرنا نہیں تھا، بلکہ اولاد آدم سے انتقام لینا مقصود تھا، اس لئے اس نے جمع غائب کی ضمیریں ذکر کیں، چنانچہ آگے آیت:۲۷ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ “اے اولاد آدم شیطان تم کو نہ بہکادے، جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا۔” اس سے صاف واضح ہے کہ شیطان کی انتقامی کاروائی اولاد آدم کے ساتھ ہے۔
اور ہبوط میں جمع کا صیغہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم و حواء علیہما السلام کے علاوہ شیطان بھی خطاب میں شامل ہے۔
نیز تثنیہ کے لئے جمع کا خطاب بھی عام طور سے شائع و ذائع ہے، اور بایں نظر بھی خطاب جمع ہوسکتا ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی خطاب میں ملحوظ رکھا گیا ہو۔
س… ابتدا میں بشرکا ذکر ہے اور ضمیر واحد غائب کی ہے لیکن جب ابلیس چیلنج دیتا ہے تو ضمائر جمع غائب شروع ہوجاتی ہیں کیوں؟
ج… اُوپر عرض کرچکا ہوں کہ شیطان کے انتقام کا اصل نشانہ اولاد آدم ہے، اور شیطان کے اس چیلنج سے اولاد آدم ہی کو عبرت دلانا مقصود ہے۔
س… اگر حضرت آدم نبی تھے تو نبی سے خطا کیسے ہوگئی اور خطا بھی کیسی؟
ج… حضرت آدم علیہ السلام بلاشبہ نبی تھے، خلیفة اللہ فی الارض تھے، ان کے زمانہ میں انہی کے ذریعہ احکامات الٰہیہ نازل ہوتے تھے، رہی ان کی خطا! سو اس کے بارے میں خود قرآن کریم میں آچکا ہے کہ: “آدم بھول گئے” اور بھول چوک خاصہٴ بشریت ہے، یہ نبوت و عصمت کے منافی نہیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ اگر روزہ دار بھول کر کھالے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔