اولیاء اللہ کے مزارات پر نذر
س… کعبہ کی نیاز کے اونٹ کے سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ اولیاء اللہ کے مزارات پر اگر نذر سے مراد وہاں کے فقراء پر تصدق ہو اور ایصال ثواب صاحب مزار کو ہو تو یہ جائز ہے۔
بے شک ربط شیخ اور فیضان شیخ کے حصول کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے اور تمام مشائخ میں اس کا معمول ہے، مگر افسوس کہ ہمارے سلسلے میں اس کا فقدان ہے بلکہ منع کیا جاتا ہے، میں نے نہیں دیکھا اور سنا کہ کسی نے اپنے شیخ کے لئے صدقہ کیا ہو۔ نقد، کھانا، کپڑا کسی قسم کا بھی نہ گھر پر نہ مزار پر اور نہ دُوسرے اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کا اہتمام ہے، جب کہ حدیث شریف میں تو عام موٴمنین کی قبور کی زیارت کی تاکید کی گئی ہے، اسی طرح اور بہت سے طریقت کے اعمال جن سے تزکیہٴ نفس اور تصفیہٴ قلب میں مدد ملتی ہے اور بغرض علاج ہر سلسلے میں رائج ہیں (بدعات کو چھوڑ کر) ہمارے سلسلے میں رائج نہیں، حلقہ بنا کر ذکر کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں، نماز، روزہ اور دُوسرے فرائض و واجبات تو سالک وغیر سالک دونوں میں مشترک ہیں، تمام مشائخ اس بات پر متفق ہیں خالی نماز روزہ وغیرہ سے نفس کا تزکیہ اور وصول نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ باطنی اعمال، تصحیح نیت، غنٰی، توکل ماسوا سے گریز اور دُوسری ریاضت و مجاہدات جو متقدمین میں رائج تھے خصوصاً طعام، کلام، منام، انام کی تقلیل وغیرہ نہ ہو۔ مختصر یہ کہ مشائخ ہیں، خلفاء کی لمبی لمبی فہرستیں ہیں، مریدین کی فوج کی فوج ہے، مگر وہ رُوح نہیں اور نہ وہ آثار کسی میں نظر آتے ہیں، جو مجاہدات سے مرتب ہوتے ہیں، الا ما شاء اللہ، جب کہ دُوسرے سلاسل مثلاً سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بہت سے بزرگوں میں وہ صفات دیکھی گئی ہیں جو اس طریق کے لوازم میں سے ہیں، بعد وفات بھی اپنے مریدین اور عقیدتمندوں پر بذریعہ خواب یا مراقبہ یا واقعہ اپنے فیضان جاری رکھتے ہیں اور ان کی نگہداشت کرتے رہتے ہیں اس طرح جیسے ایک چرواہا اپنی بکریوں کی۔
دُوسری بات یہ کہ شیخ اور پیر طریقت بننے کے لئے جن شرائط اور اوصاف اور باطنی کمالات کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ تمام مستند کتب تصوف میں لکھا ہے اور خاص طور پر امداد السلوک میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر یہ اوصاف شیخ میں نہ ہوں تو اس کا شیخ طریقت بننا حرام ہے، توجناب یہ باتیں آج کل اکثر مشائخ میں نہیں پائی جاتیں (آپ جیسے کچھ بزرگ یقینا ان اوصاف کے حامل ہوں گے مگر میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں)َ۔
ج… ربط شیخ بذریعہ ایصال ثواب اور بذریعہ زیارت قبور ضرور ہونا چاہئے، یہ کثیر النفع ہے، الحمد للہ اس ناکارہ کو اس کا فی الجملہ اہتمام رہتا ہے۔
امداد السلوک کی شرط پر تو آج شاید ہی کوئی پورا اترے، یہ ناکارہ حلفاً عرض کرے کہ اس شرط پر پورا نہیں اترتا تو حانث نہیں ہوگا، اس لئے یہ ناکارہ مشائخ حقہ کی طرف محول کرنا ضروری سمجھتا ہے، پہلے تو مطلقاً انکار کردیتا تھا کہ میں اہل نہیں ہوں لیکن میرے بعض بڑوں نے مجھے بہت ڈانٹا کہ تم حضرت شیخ کی اجازت کی توہین کرتے ہو، تب سے اپنی نااہلی کے باوجود بیعت لینے لگا اور اب تو بلاشبہ اور ڈھیٹ ہوگیا ہوں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم فرمائے جن میں پیر اور شیخ اس روسیاہ جیسے لوگ ہوں، بس وہی قصہ ہے جو تذکرة الرشید میں حضرت گنگوہی قدس سرہ نے ایک ڈاکو کے پیر بننے کا لکھا ہے۔