ایصالِ ثواب کے کھانے سے خود کھانے کا حکم
س… آپ نے فرمایا “ایصال ثواب کا کھانا منع ہے” میں جب اپنے والدین یا مشائخ کے ایصال ثواب کے لئے کھانا تیار کراتا ہوں تو اس میں سے خود بھی کھاتا ہوں اور اپنے ہمسایوں اور کچھ فقرأ و مساکین کو بھی دیتا ہوں۔ ابھی عید پر ایک جانور حضور علیہ السلام کی طرف سے ایصال ثواب کیا، خود بھی کھایا اور دوسروں کو بھی کھلایا، کیا یہ سب ناجائز ہوا؟ خانقاہ مشائخ میں جو ہر وقت دیگیں چڑھی رہتی ہیں جس کو عرف میں لنگر کہتے ہیں وہ ایصال ثواب ہی کا کھانا ہوتا ہے جس کو بڑے بڑے اولیأ اللہ بڑی رغبت سے کھایا کرتے تھے، حضرت نظام الدین اولیأ کا لنگر، حضرت گنج شکر رحمہ اللہ کا لنگر مشہور ہے، جس پر وہ اپنے مشائخ کی فاتحہ ایصال ثواب کیا کرتے تھے، سچے عقیدت مند لنگر کی دال اور سوکھی روٹی کو اپنے گھر کے مرغن کھانوں پر ترجیح دیتے اور تبرک کہتے تھے، شہدائے کربلا کو کھانے اور شربت وغیرہ سے ایصال ثواب کرتے ہیں، غنی اور فقیر سب کھاتے ہیں، اور ایصال ثواب صرف کھانے ہی سے نہیں بلکہ ہر نیک کام جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے، کرکے، ہوسکتا ہے؟ لوگ اپنے مردوں کے ایصال ثواب کے لئے درخت لگاتے ہیں، پل، سڑک، کنواں بنواتے ہیں، اس سے غنی فقیر سب مستفید ہوتے ہیں، سو اگر ایصال ثواب کا کھانا ناجائز تو ان اشیأ سے استفادہ بھی ناجائز، حضرت سعد نے اپنی ماں کے ایصال ثواب کے لئے جو کنواں کھدوایا تھا اس سے بغیر تخصیص غنی فقیر سب مسلمان استفادہ کرتے تھے، جس زمانے کے اعراس جائز تھے وہاں بڑے بڑے مشائخ اولیأ اللہ جاتے تھے اور ایصال ثواب کا کھانا کھایا کرتے تھے۔
ج… ۱:…ایصال ثواب تو اسی طعام کا ہوگا جو مستحقین کو کھلایا جائے، جو خود کھالیا یا عزیز و اقارب کو کھلایا اس کا ایصال ثواب نہیں۔
۲:…قربانی سے مقصود “اراقة الدم” ہے، جب آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کردی تو بشرط قبولیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا ثواب پہنچ گیا۔ گوشت خود کھالیں یا محتاجوں میں تقسیم کردیں یا دعوت کرکے کھلادیں۔
۳:…مشائخ کے یہاں لنگر ایصال ثواب کے لئے نہیں ہوتے بلکہ واردین اور صادرین کی ضیافت کے لئے ہوتے ہیں اور اس کو تبرک سمجھنا مشائخ سے محبت اور عقیدت کی بنأ پر ہے، اس لئے نہیں کہ یہ کھانا چونکہ فلاں بزرگ کے ایصال ثواب کے لئے ہے اس لئے متبرک ہے۔ اور اس کھانے پر اپنے مشائخ کا نام پڑھنا بھی ان مشائخ کی نسبت کے لئے ہے گویا اپنے مشائخ کو بھی اس ایصال ثواب میں شریک کرلیا گیا ہے اور سب سے اہم تر یہ کہ مشائخ کا عمل شریعت نہیں کہ اس کی اقتدأ لازمی ہو، البتہ ان اکابر سے ہماری عقیدت اور حسن ظن کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے افعال و اقوال اور ان کے احوال کی ایسی توجیہہ کریں کہ یہ چیزیں شریعت کے مطابق نظر آئیں، اگر ہم کوئی ایسی توجیہہ نہیں کرسکتے تب بھی ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے یہ سمجھیں کہ ان بزرگوں کے پیش نظر کوئی توجیہہ ہوگی، الغرض ان پر طعن بھی نہ کریں اور ان کے افعال کو شریعت بھی نہ بنائیں۔