اذان سے قبل مروّجہ صلوٰة و سلام پڑھنے کی شرعی حیثیت
س…۱: کچھ دنوں پہلے میری ایک شخص سے اس بات پر تکرار ہوئی کہ اذان سے قبل مروّجہ صلوٰة و سلام جس کا رواج آج کل عام ہوگیا ہے یہ بدعت ہے یا نہیں، میرا موقف یہ تھا کہ اذان سے قبل مروّجہ صلوٰة وسلام چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں لہٰذا یہ بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے جبکہ اس شخص کا کہنا تھا کہ مروجہ صلوٰة و سلام بدعت تو ہے لیکن بدعت حسنہ ہے اور اس کے کرنے والے کو اجر و ثواب ملے گا اور اپنے موقف کی وضاحت کے لئے اس نے در مختار اور چند اور فقہ کی کتابوں اور بعض علمائے دیوبند کی عبارتوں سے مثلاً مولانا عبدالشکور لکھنوی فاروقی کی کتاب “علم الفقہ” کے حوالے سے کہا کہ ان بزرگوں نے بھی مروّجہ صلوٰةو سلام قبل الاذان کو بدعتِ حسنہ قرار دیا ہے اور اس کے کرنے کو باعث اجرو ثواب لکھا ہے، مزید اس نے یہ بھی کہا کہ مدارس عربیہ وغیرہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں نہیں تھے لہٰذا یہ بھی بدعت ہیں پھر تم مدارس وغیرہ کیوں بناتے ہو، ازراہ کرم آپ ان چند اُمور کا جواب باصواب عنایت فرما کر میرا اور میرے چند ساتھی دوستوں کا خلجان دُور فرمائیں، اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
ج… درمختار میں صلوٰة وسلام قبل الاذان کو ذکر نہیں کیا بلکہ بعد الاذان کو ذکر کیا ہے، در مختار کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے: فائدہ: اذان کے بعد سلام کہنا ربیع الآخر ۷۸۱ھ میں سوموار کی رات کو عشاء کی اذان میں ایجاد ہوا، پھر جمعہ کے دن، پھر دس سال بعد مغرب کے علاوہ تمام نمازوں میں، پھر مغرب میں دو مرتبہ اور یہ بدعتِ حسنہ ہے۔
لیکن محشّی نے اس کو ناقابلِ التفات کہا ہے۔ جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آٹھ سو سال بعد ایجاد ہوئی ہو اس کو دین میں کیسے داخل کیا جاسکتا ہے؟
الغرض در مختار کا حوالہ تو اس نے بالکل غلط دیا اور مولانا عبدالشکور لکھنوی کی کتاب “علم الفقہ” میرے پاس نہیں۔ اس سے کہا جائے کہ اس کا فوٹو اسٹیٹ مجھے بھیج دیں۔