SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Tuesday, 24 August 2010 / Published in جلد ہشتم

جائز و ناجائز

 

کیا اُلٹی مانگ نکالنے والے کا دِین ٹیڑھا ہوتا ہے؟

س… کیا واقعی یہ حقیقت ہے کہ جس کی مانگ ٹیڑھی ہو اس کا دِین ٹیڑھا ہے؟ اور کیا اُلٹی کنگھی کرنا گناہِ کبیرہ ہے؟

ج… اس میں فاسق و فاجر اور کفار کی مشابہت ہے، اور یہ علامت ہے دِل کے ٹیڑھا ہونے کی، اور دِل کے ٹیڑھا ہونے سے پناہ مانگی گئی ہے۔

بچوں کو ٹائی پہنانے کا گناہ اسکول کے ذمہ داروں پر ہے

س… ہمارے قریبی اسکول میں بچوں کے یونیفارم میں “ٹائی” بھی شامل ہے، جبکہ ہماری دانست میں ٹائی لگانا ممنوع ہے، جب اسکول کی سربراہ سے اس سلسلے میں بات کی گئی تو انہوں نے حوالہ مہیا کرنے پر اسکول میں ٹائی اُتار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ سے یہی دریافت کرنا ہے کہ ٹائی جائز ہے یا ناجائز؟ اگر ناجائز ہے تو کن وجوہات کی بناء پر؟

ج… “ٹائی” دراصل عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے، جو انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیب کے نشان کے طور پر اختیار کیا تھا، اس لئے ایک مسلمان کے لئے ٹائی باندھنا عیسائیوں کی تقلید کی وجہ سے حرام ہے، اور اسکول کے بچوں کے لئے اس کو لازم قرار دینا نہایت ظلم ہے، بچے تو معصوم ہیں، مگر اس کا گناہ اسکول کے ذمہ داروں پر پڑے گا۔

اَحکامِ شریعت کے خلاف جلوس نکالنے والی عورتوں کا شرعی حکم

س… بات یہ ہے کہ ایک گروہ کے لوگ اللہ کی کتاب کو اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں، فقط آخری نبی نہیں مانتے جس کی بنا پر ان کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا ہے۔ اخباروں کے ذریعہ آپ کو اور عوام کو بھی معلوم ہوچکا ہے کہ چند خواتین نے لاہور میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے خلاف جلوس نکالا اور اسلامی اَحکام کو ماننے سے انکار کیا، تو کیا یہ خواتین ایمان سے خارج اور مرتد نہیں ہوئیں؟ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نام نہاد مسلمان کا یہودی کے حق میں ہمارے پیارے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے پر سر گردن سے جدا کردیا تھا، اس طرح نوح علیہ السلام کی اہلیہ کو اپنے نبی اور شوہر کی اطاعت نہ کرنے پر جہنم میں ڈال دیا، اور فرعون کافر کی اہلیہ حضرت آسیہ کو جنت میں ایمان کی بدولت اعلیٰ مقام عطا کردیا جس کی شہادت قرآنِ پاک میں موجود ہے۔

          سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن عورتوں نے اللہ اور رسولِ خدا کے خلاف احتجاج کیا ہے، مندرجہ بالا کی روشنی میں مرتد ہوگئیں یا نہیں؟ ان کا نکاح اپنے مسلمان شوہروں سے باقی رہا ہے یا از خود فسخ ہوگیا؟ اگر وہ مرجائیں تو مسلمانوں کی قبروں میں کیا دفن کی اجازت ہے؟ ان کی اولاد سے مسلمان شادی بیاہ کا رشتہ قائم کرسکتے ہیں یا نہیں؟

          یہ بات قابلِ ستائش اور مبارک بادی ہے کہ لاہور کی نرسوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کی اور مغرب زدہ و دریدہ دہن اور اسلام دُشمن جلوس خواتین سے بیزاری کا برملا اظہار کیا، جس کے صلے میں جنت کی خواتین بی بی آسیہ اور رابعہ خاتون اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہم نشینی کی سعادت حاصل کریں گی۔ اس ضمن میں ایک بات عرض کرنا ہے کہ علمائے دِین کو حضرت اِمامِ اعظم اور دیگر علمائے حق کا کردار ادا کرنے میں کیا رُکاوٹ ہے؟ شریعت عدالت سے ملحدہ او دریدہ دہن عورتوں کے خلاف رٹ کی درخواست پر ان عورتوں کے کافرانہ احتجاج پر ان کی حیثیت کو متعین کرالیا جائے کہ یہ موٴمنہ ہیں یا نوح علیہ السلام کی اہلیہ اور لوط علیہ السلام کی اہلیہ کی فہرست میں شامل ہیں، جن کا انجام قرآن نے بتادیا ہے۔

          مکرّر عرض ہے کہ ایک حدیث کے مفہوم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے اگر وہ اَوامر کے فروغ میں مدد نہ کریں اور بُرائی کو اپنی طاقت سے نہ روکیں تو مبادا کوئی ظالم ملک پر اللہ تعالیٰ مسلط نہ کردے، جو بوڑھے اور بچوں پر رحم نہ کرے اور ظلم سے نجات کی دُعا مانگی جائے اور اللہ تعالیٰ دُعا قبول نہ کریں، جس کا مظاہرہ ۷۱ ۱۹ء کی جنگ میں ہوا اور حاجیوں کی دُعا رَدّ کردی گئی۔

          اس لئے پاکستان کے حکمران اور خدا کی دی ہوئی زمامِ اقتدار کے مالک ملک سے اگر فحاشی، بدکاری اور سنگین جرائم کو نہیں روک سکتا تو اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوگی، اس لئے چند روزہ عیش کو شیطان کا سبز باغ سمجھ کر فوراً تائب ہوجائیں تاکہ زلزلہ کا آنا بند ہوجائے، فاعتبروا یا اولی الأبصار!

ج… کوئی مسلمان جو اللہ و رسول پر ایمان رکھتا ہو وہ اسلام اور اسلامی اَحکام کے خلاف کیسے احتجاج کرسکتا ہے؟ جن خواتین نے اسلامی اَحکام کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا، میرا قیاس یہ ہے کہ وہ جلوس سے پہلے بھی مسلمان نہیں تھیں، اور اگر تھیں تو اس احتجاج کے بعد اسلام سے خارج ہوگئیں۔ اگر انہیں آخرت کی نجات کی کچھ بھی فکر ہے تو اپنے اس فعل پر ندامت کے ساتھ توبہ کریں اور اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کریں، لیکن اندازہ یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ان کو اپنے کئے پر ندامت نہیں ہوگی، بلکہ وہ مسئلہ بتانے والوں کو گالیاں دیں گی۔

مدینہ منوّرہ کے علاوہ کسی دُوسرے شہر کو “منوّرہ” کہنا

س… میری نظر سے ایک رسالہ گزرا ہے، جس میں پاکستان کے ایک شہر کو “المنوّرة” کہا گیا ہے، حالانکہ ایسا لفظ ہم نے کبھی کسی اور جگہ نہیں پڑھا۔ مذکورہ شہر میں ایک مخصوص عقائد کے لوگ (قادیانی) بستے ہیں، کیا اس طرح کے الفاظ کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟

ج… “المنوّرة” کا لفظ مدینہ طیبہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، “المدینة المنوّرة” کے مقابلے میں مخصوص عقائد کے لوگوں (قادیانیوں) کا “ربوة المنوّرة” کہنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چشم نمائی، شر انگیزی اور مسلم آزاری کی شرمناک کوشش ہے، اور یہ ان کے کفر و ضلالت کی ایک تازہ دلیل ہے۔

عربی سے ملتے ہوئے اُردو الفاظ کا مفہوم الگ ہے

س… مولانا صاحب! عموماً ہمارے ہاں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض اچھے لفظوں کو غلط معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ایک لفظ ہے “صلوٰة” جس کا مطلب نماز ہے، مگر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ یہ لفظ اُردو زبان میں محاورے کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا مفہوم ڈانٹ پھٹکار، گالی گلوچ، جلی کٹی وغیرہ ہوتا ہے، جیسے: صلواتیں سنانا، صلواتیں پڑھنا۔ اور مثلاً ایک لفظ ہے “رقیب” جو عام طور پر حاسد، مخالف یا دُشمن شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے رقیبِ رُو سیاہ وغیرہ، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے یہ کیسا طرزِ عمل ہے جس میں عربی زبان کے اتنے مقدس الفاظ کو اُردو میں ایک مضحکہ خیز ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا جائے؟ ایسے لوگوں کے لئے کیا حکم ہے، کیا وہ گناہگار ہوتے ہیں؟ مہربانی فرماکر مفصل و مدلل جواب دیجئے تاکہ میری طرح کے دِین کے اور بہت سے ادنیٰ طالب علموں کی تشفی ہوسکے، کیونکہ بہت سے غیرمسلم جو ان باتوں کو سمجھتے ہیں، وہ ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں کہ تم کیسے مسلمان ہو جو خود اپنے مذہبی اُمور کو تماشا بناتے ہو؟

ج… ان الفاظ کا اُردو محاورہ عربی محاورے سے الگ ہے، جو لوگ اُردو ترکیب میں “رقیب” کا لفظ استعمال کرتے ہیں ان کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ نہیں ہوتا کہ یہ عربی میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے، اور پھر عربی میں بھی ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی آتے ہیں، اس لئے نہ ایک زبان کے محاورے کو دُوسری زبان کے محاورے پر قیاس کیا جاسکتا ہے، اور نہ ایک لفظ کے معنی سے دُوسرے معنی کا انکار کیا جاسکتا ہے۔

کسی کی نجی گفتگو سننا یا نجی خط کھولنا

س… کچھ اداروں میں یہ غلط طریقہٴ کار رائج ہے کہ وہاں کے ملازمین کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سنی جاتی ہے اور کسی ملازم کے نام کوئی خط آئے، چاہے وہ ذاتی ہو یا دفتری، کھول لیا جاتا ہے، اور اس کے بعد انتظامیہ کی اگر مرضی ہو تو اسے دے دیا جاتا ہے، ورنہ اسے پتا ہی نہیں چل پاتا کہ اس کے نام کوئی خط آیا تھا۔ آپ اسلامی نقطہٴ نگاہ سے بتائیں کہ یہ دونوں حرکتیں کیسی ہیں؟

ج… کسی کی نجی گفتگو یا نجی خط اس کی امانت ہے، گفتگو کا سننا اور کسی کے خط کا کھولنا اس امانت میں خیانت ہے، اور خیانت گناہِ کبیرہ ہے۔ اس لئے کسی کی گفتگو سننا اور اس کے خط کا کھولنا ناجائز ہے، اِلَّا یہ کہ یہ شبہ ہو کہ یہ گفتگو یا خط اس شخص کے خلاف ہے۔

اغوا کرنے کا گناہ کس پر ہوگا؟

س… کافی عرصہ سے میرے ذہن میں بھی ایک مسئلہ موجود ہے جو معاشرے کی پیداوار ہے۔ آج کل روز اخبارات جہاں بہت سی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں وہاں کچھ ایسی خبریں بھی ہوتی ہیں جو رونے پر مجبور کردیتی ہیں، یعنی عورتوں کو اغوا کرنا اور ان کی بے عزتی۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جو ہنستی زندگی کو ہمیشہ کے لئے آنسووٴں میں دھکیل دیتا ہے اور یہ سب عورتوں کی بے پردگی و بے حجابی اور غلط کتابوں کا نتیجہ ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایسے آدمیوں کے لئے قرآن میں کیا حکم ہے؟ اور ایسی عورتوں کے لئے، بعض ایسی لڑکیاں جو دھوکے سے ایسے حالات کا شکار ہوجاتی ہیں اور وقت گزرنے پر ان کو احساس ہوتا ہے، ان کے لئے قرآن کا کیا کہنا ہے؟ اور گناہ گار کون ہے؟

ج… آپ نے اس آفت کا سبب تو خود ہی لکھ دیا ہے، یعنی عورتوں کی بے پردگی اور بے حجابی۔ لہٰذا حسبِ مراتب وہ سب لوگ مجرم ہیں جو اِن اسباب کے محرک ہیں یا جو قدرت کے باوجود ان اسباب کا انسداد نہیں کرتے۔ باقی اغوا کرنے والے اور اغوا شدہ لڑکیاں (اگر وہ برضا و رغبت گئی ہوں) چوراہے پر سولی دئیے جانے کے لائق ہیں۔

خواہشاتِ نفسانی کی خاطر مسلک تبدیل کرنا

س… موٴرخہ ۴/نومبر کو مفتی عبدالروٴف صاحب نے طلاق کے موضوع پر لکھتے وقت ایک جملہ اس طرح لکھا ہے: “طلاق کے حکم کو ختم کرنے کے لئے دُوسرا مسلک اختیار کرنا حرام ہے۔” اب تک میں یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی ہی حرام ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کسی مسلک کا چھوڑ دینا کسی طرح بھی اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، چنانچہ آپ سے درخواست ہے کہ کیا آپ بتائیں گے کہ حرام کی جامع تعریف کیا ہے؟

ج… محض خواہشِ نفس اور مطلب براری کے لئے کوئی مسلک اختیار کرنا، اِتباعِ ہویٰ ہے، جس کا حرام ہونا قرآن و سنت میں منصوص ہے۔ جو شخص مطلب نکالنے کے لئے مسلک بدل سکتا ہے، وہ دِین بھی بدل سکتا ہے، چنانچہ اکابر نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو شخص خواہشِ نفس کے لئے فقہی مسلک بدل لیتا ہے اندیشہ ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر نہ ہو، نعوذ باللہ!

ضرب المثل میں “نماز بخشوانے گئے روزے گلے پڑے” کہنا

س… بعض افراد دورانِ گفتگو ضرب المثل کے طور پر ایسی مثال دیتے ہیں جو کہ ایک مسلمان کو نہیں کہنی چاہئے، مثلاً: “گئے تھے نماز بخشوانے، روزے گلے پڑگئے” وغیرہ وغیرہ۔ برائے مہربانی ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار فرمادیں تاکہ لوگ اس گفتگو سے توبہ کریں۔

ج… گو محاورے میں نماز روزے کی توہین مقصود نہیں ہوتی، مگر پھر بھی ایسی مثال نہیں دینی چاہئے۔

مزار پر پیسے دینا شرعاً کیسا ہے؟

س… میں جس روٹ پر گاڑی چلاتا ہوں اس راستے میں ایک مزار آتا ہے، لوگ مجھے پیسے دیتے ہیں کہ مزار پر دے دو، مزار پر پیسے دینا کیسا ہے؟

ج… مزار پر جو پیسے دئیے جاتے ہیں، اگر مقصود وہاں کے فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا ہو تو جائز ہے، اور اگر مزار کا نذرانہ مقصود ہوتا ہے تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ یہ تو میں نے اُصول اور ضابطے کی بات لکھی ہے، لیکن آج کل لوگوں کے حالات کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ عوام کا مقصد دُوسرا ہے، اس لئے اس کو ممنوع کہا جائے گا۔

خواب کی بنا پر کسی کی زمین میں مزار بنانا

س… مولانا صاحب! ہمارے قصبے سے کوئی ایک میل دُور ایک کھیت میں ایک پیر صاحب دریافت ہوئے ہیں، وہ ایسے کہ ایک عورت نے خواب میں دیکھا کہ پیر صاحب کہتے ہیں کہ فلانی جگہ پر میرا مزار بناوٴ۔ لوگوں نے مزار بنادیا، آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس مزار پر روزانہ تقریباً ۲۰۰ سے زائد آدمی دُعا مانگنے آتے ہیں، جس مالک کی یہ زمین ہے وہ بہت تنگ ہے اور کہتا ہے کہ میری زمین سے یہ جعلی مزار ہٹاوٴ لیکن وہ نہیں ہٹاتے۔ آپ بتائیں کہ اس کا کیا حل ہے؟

ج… ایک عورت کے کہنے کی بنا پر مزار بنالینا بدعقلی ہے، کہ بیٹھے بٹھائے شرک و بدعت کا اَڈّہ بنادیا جائے۔ زمین کے مالک کو چاہئے کہ وہ اس کو ہموار کردے اور لوگوں کو وہاں آنے سے روک دے۔

دست شناسی اور علم الاعداد کا سیکھنا

س… میرا سوال یہ ہے کہ علم پامسٹری، علم کیرل، علم جفر، دست شناسی، قیافہ شناسی وغیرہ اور پیش گوئی سے بہت سے لوگ مستقبل کے بارے میں ذاتی یا قومی باتیں بتاتے ہیں، مثلاً: دست شناسی میں ہاتھ دیکھ کر مستقبل اور اچھائی بُرائی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اسی طرح علم اعداد کے تحت لوگوں کا مستقبل بتایا جاتا ہے، میرے ذہن میں یہ سوال ہے کہ آیا یہ سب علوم دُرست ہیں؟ کیا ان پر یقین کرنا صحیح فعل ہے؟ یاد رہے کہ بعض اوقات ان لوگوں کی کہی ہوئی بات سو فیصدی صحیح ہوتی ہے اور اکثر لوگ ان کی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں، اور بعض مایوسی کا شکار ہوکر غلط اقدامات کر بیٹھتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے آپ میرے اس سوال کا جواب ضرور دیں گے۔

ج… ان علوم کے بارے میں چند باتوں کو سمجھ لینا ضروری ہے۔

          اوّل:… مستقبل بینی کے جتنے طریقے ہیں، سوائے انبیاء علیہم السلام کی وحی کے، ان میں سے کوئی بھی قطعی و یقینی نہیں، بلکہ وہ اکثر حساب اور تجربے پر مبنی ہیں، اور تجربہ و حساب کبھی صحیح ہوتا ہے، کبھی غلط۔ اس لئے ان علوم کے ذریعہ کسی چیز کی قطعی پیش گوئی ممکن نہیں کہ وہ لازماً صحیح نکلے، بلکہ وہ صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔

          دوم:… کسی غیریقینی چیز کو یقینی اور قطعاً سمجھ لینا عقیدہ اور عمل میں فساد کا موجب ہے، اس لئے ان علوم کے نتائج پر سو فیصد یقین کرلینا ممنوع ہے کہ اکثر عوام ان کو یقینی سمجھ لیتے ہیں۔

          سوم:… مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں دو قسم کی ہیں، بعض تو ایسی ہیں کہ آدمی ان کا تدارک کرسکتا ہے، اور بعض ایسی ہیں کہ ان کا تدارک ممکن نہیں۔ ان علوم کے ذریعہ اکثر پیش گوئیاں اسی قسم کی کی جاتی ہیں جن سے سوائے تشویش کے اور کوئی نفع نہیں ہوتا، جیسا کہ سوال میں بھی اس طرح اشارہ کیا گیا ہے، اس لئے ان علوم کو علومِ غیرمحمودہ میں شمار کیا گیا ہے۔

          چہارم:… ان علوم کی خاصیت یہ ہے کہ جن لوگوں کا ان سے اشتغال بڑھ جاتا ہے، خواہ تعلیم و تعلّم کے اعتبار سے، یا استفادے کے اعتبار سے، ان کو اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق نہیں رہتا، یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور خصوصاً ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ان علوم میں مشغول نہیں ہونے دیا، بلکہ ان کے اشتغال کو ناپسند فرمایا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے سچے جانشین بھی ان علوم میں اشتغال کو پسند نہیں کرتے۔ پس ان علوم میں سے جو اپنی ذات کے اعتبار سے مباح ہوں، وہ ان عوارض کی وجہ سے لائقِ احتراز ہوں گے۔

بیت الخلا میں اخبار پڑھنا

س… بیت الخلا میں اسلامی کتب کے علاوہ کوئی کتاب یا اخبار پڑھنا یا اور باتیں کرنا کیسا ہے؟

ج… بیت الخلا پڑھنے یا باتیں کرنے کی جگہ تھوڑی ہے، اس جگہ اخبار یا کتاب پڑھنا گناہ ہے۔

محبت اور پسند کو بُرا سمجھنا

س… ہمارے گھروں میں محبت یا پسند کو اتنا بُرا کیوں سمجھا جاتا ہے؟ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی اپنا شریکِ حیات وقت سے کچھ پہلے منتخب کرلے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟

ج… محبت تو بُری نہیں، لیکن اس کا بے قید ہونا بُرا ہے، اور یہ بے قیدی آدمی کی صحت و عمر اور دِین و دُنیا دونوں کو غارت کردیتی ہے۔

نامحرَم عورتوں سے آشنائی اور محبت کو عبادت سمجھنا کفر کی بات ہے

س… محمد بن قاسم نے تو سترہ سال کی عمر میں سندھ کو فتح کیا تھا جبکہ آج کل کے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے اکثر طالب علم غیرمحرَم لڑکیوں کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں، بس اسٹاپوں پر کھڑے ہوکر غیرمحرَم لڑکیوں پر آوازیں کسنا، بس میں بیٹھ کر گھر تک ان کا پیچھا کرنا اور ان سے خط و کتابت کرنا نوجوان نسل کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کالج کے لڑکوں سے ایک مرتبہ میری بحث ہوئی، وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہم لڑکیوں کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں، وہ پیار اور محبت میں کرتے ہیں اور پیار کرنا کوئی گناہ نہیں بلکہ عبادت ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں یہ کس نے بتایا کہ پیار کرنا عبادت ہے؟ تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہمارے ریڈیو، ٹی وی اور سینما دن رات ہمیں یہی سبق سکھاتے ہیں کہ پیار ہی سے زندگی ہے اور پیار کرنا بھی ایک عبادت ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یقینا انسانوں اور مخلوقِ خدا سے پیار کرنا عبادت ہے، لیکن اس عبادت کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھوکے کو کھانا کھلایا جائے، کسی یتیم، بیوہ یا غریب کی مدد کی جائے، کسی مصیبت زدہ سے اظہارِ غم خواری کرکے اس کا دُکھ بانٹا جائے، ضرورت کے وقت کسی مجبور اور مظلوم انسان کی مدد کی جائے، اور شادی کے بعد اپنی بیوی سے محبت کی جائے، یہ سب باتیں پیار کا اصل مفہوم ہیں، اور عبادت کے زُمرے میں آتی ہیں۔ لیکن وہ لوگ اپنی اس ضد پر قائم ہیں کہ غیرمحرَم لڑکیوں سے راہ و رسم بڑھانا بھی اس پیار میں شامل ہے جو عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ ازراہِ کرم آپ شریعت کی روشنی میں اس مسئلے کا جواب مرحمت فرمائیں۔

ج… غیرمحرَم سے تعلق و آشنائی حرام ہے، اسے پاک محبت سمجھنا جہالت ہے، اور حرام کو حلال بلکہ عبادت سمجھنا کفر کی بات ہے۔

بینک کے تعاون سے ریڈیو پر دِینی پروگرام پیش کرنا

س… ریڈیو سے ایک پروگرام “روشنی” کے عنوان سے نشر ہوتا ہے جو زیادہ تر ․․․․․․․ کی آواز میں ہوتا ہے، لیکن اس پروگرام کے بعد بتایا جاتا ہے کہ یہ پروگرام آپ کی خدمت میں فلاں بینک کے تعاون سے پیش کیا گیا۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتائیں کہ کیا سود کا کاروبار کرنے والے ادارے کے ذریعے ایسے پروگرام وغیرہ نشر کرنا ٹھیک ہیں؟ کیونکہ سود حرام ہے۔

ج… حرام کا مال کسی نیک کام میں خرچ کرنا دُرست نہیں، بلکہ دُہرا گناہ ہے، یہ پروگرام “روشنی” نہیں بلکہ “ظلمت” ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے ایک شخص کی بھی اصلاح نہیں ہوتی۔

کنواری عورت کا اپنے آپ کو کسی کی بیوی ظاہر کرکے ووٹ ڈالنا

س… ہمارے معاشرے میں جس طرح کی دُوسری اخلاقی بیماریاں پھیل رہی ہیں، اس سے زیادہ جعلی ووٹ ڈالنے کی بیماری سرطان کی طرح پھیل رہی ہے۔ خصوصاً خواتین میں تو یہ بیماری عام ہے۔ ایک عورت خواہ مخواہ دُوسرے مرد کی زوجہ اپنے آپ کو ظاہر کرکے ووٹ ڈالتی ہے۔ اب تصفیہ طلب دو اُمور ہیں۔ اوّلاً: شرعی نقطہٴ نظر سے اس کی حیثیت کیا ہے؟ آیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اگر کسی اسلام پسند فرد کے لئے کیا جائے؟ ثانیاً: اگر کوئی کنواری لڑکی پولنگ عملے کے سامنے کسی شخص کی زوجہ اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور وہ فرد اگر قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کرے کہ فلاں میری زوجہ ہے اور پولنگ عملہ گواہی بھی دے دیتا ہے تو کیا وہ لڑکی جس نے جعلی ووٹ ڈالنے کے لئے اپنے آپ کو شادی شدہ ظاہر کیا تھا اس مذکورہ شخص کی بیوی ہوجائے گی؟ شریعت اس بات میں کیا فرماتی ہے؟

          نوٹ:… یاد رہے کہ ووٹ ڈالتے وقت اپنا اصلی نام نہیں بتاتی بلکہ انتخابی فہرست والا نام بتاتی ہے۔

ج… ووٹ کی حیثیت، جیسا کہ حضرتِ اقدس مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے، شہادت کی ہے اور جھوٹی گواہی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “اکبر کبائر” میں شمار فرمایا۔ یعنی سات بڑے گناہ جو تمام گناہوں میں بدتر ہیں اور آدمی کے دِین و دُنیا دونوں کو برباد کرنے والے ہیں، اس سے معلوم ہوا ہوگا کہ ووٹ میں جعل سازی کتنا بڑا گناہ ہے؟ اور جو شخص اتنے بڑے گناہ کو حلال سمجھے وہ نہ اسلام پسند ہے اور نہ شرافت پسند۔

          ۲:… جو عورت جعل سازی سے اپنے آپ کو کسی کی بیوی ظاہر کرے اس اظہار سے اس کا نکاح اس مرد سے منعقد نہیں ہوتا، اور جب نکاح ہوا ہی نہیں تو عدالت میں اس کو ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا، البتہ یہ شخص اگر چاہے تو ایسی عورت کو جعل سازی کی سزا عدالت سے دِلواسکتا ہے۔

مجبوراً قبلہ رُخ پیشاب کرنا

س… اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ ایک طرف قبلہ ہو، دُوسری طرف بیت المقدس اور تیسری طرف افراد ہوں تو کس طرف رُخ کرکے قضائے حاجت کی جائے؟

ج… پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پشت کرنا مکروہ ہے، اور آدمیوں کی طرف (خواہ مرد ہوں یا عورتیں) منہ کرنا حرام ہے، باقی ہر طرف جائز ہے، مرد اور عورت سب کے لئے ایک ہی حکم ہے۔

کیا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا سنت ہے؟

س… ایک مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ایک لحاظ سے سنتِ رسول ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض دفعہ کھڑے ہوکر پیشاب کیا کرتے تھے۔ کیا یہ دُرست ہے؟

ج… بالکل غلط ہے، جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عذر کی بنا پر کیا ہو وہ عام سنت نہیں ہوتی۔

مجبوراً کھڑے ہوکر پیشاب کرنا

س… پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر میں ۹۵ فیصد ہوٹلوں، ریلوے اسٹیشنوں، اسپتالوں، تفریح گاہوں، سرکاری اور نجی دفاتر کے باتھ رومز یعنی پیشاب گھروں میں کھڑے کھڑے پیشاب کرنے کا انتظام ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کھڑے کھڑے پیشاب کرنا طبّی اور مذہبی لحاظ سے دُرست ہے؟

ج… ایک گنوار کا لڑکا انگریزی پڑھتا تھا، کسی نے گنوار سے پوچھا کہ لڑکا کتنا پڑھ گیا ہے؟ کہنے لگا: کھڑے ہوکر پیشاب تو کرنے لگا ہے۔ جدید تہذیب نے انسانی معاشرے کو حیوانیت میں تبدیل کردیا ہے، یہ حیوانوں کی طرح کھڑے ہوکر کھاتے پیتے ہیں اور کھڑے ہوکر بول و براز کرتے ہیں، استنجا اور صفائی کی ان کو ضرورت ہی نہیں۔ اس حیوانی معاشرے میں انسانوں کو مشکلات کا پیش آنا قدرتی بات ہے۔

درخت کے نیچے پیشاب کرنا

س… کسی درخت، پودے وغیرہ کے نیچے پیشاب کرنا صحیح ہے یا نہیں؟

ج… جو درخت سایہ دار ہو جس کے نیچے لوگ آرام کرتے ہوں، اس کے نیچے پیشاب کرنا ممنوع ہے، اسی طرح ہر ایسی جگہ پیشاب و پاخانہ کی ممانعت ہے جس سے لوگوں کو تکلیف ہو۔

دوائی میں شراب ملانا

س… کیا دوائی میں شراب ملانا جائز ہے؟

ج… دوائی میں شراب ملانا جائز نہیں، البتہ اگر بیماری ایسی ہو کہ اطباء کے نزدیک اس کا علاج شراب کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تو جس طرح جان بچانے کے لئے مردار کھانے کی اجازت ہے، اسی طرح اس کی بھی ہوگی۔

آیة الکرسی پڑھ کر تالی بجانا حرام ہے

س… میرے گھر میں سونے سے پہلے روزانہ آیة الکرسی پڑھ کر زور سے تالی بجائی جاتی ہے، عقیدہ یہ ہے کہ تالی کی آواز جتنی دُور جائے گی، گھر ہر بلا اور چور سے اتنا ہی محفوظ رہے گا، آیة الکرسی تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اس کے بابرکت ہونے میں کچھ شک نہیں ہوسکتا، لیکن تالی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟

ج… اس طرح تالی بجانا حرام ہے، اور یہ عقیدہ کہ تالی بجانے سے بلائیں دُور ہوتی اور چور بھاگ جاتے ہیں جاہلانہ توہم پرستی ہے۔ آیة الکرسی پڑھنا صحیح ہے اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔

احادیث یا اسلامی لٹریچر مفت تقسیم کرنے پر اجر و ثواب

س… اگر کوئی شخص اسلامی مسائل، احادیث یا اَحکامات رضائے الٰہی اور عوام الناس کے فہم کے لئے چھپواکر مفت تقسیم کرے تو آیا اسے اس کا اجر ملے گا یا نہیں؟ جبکہ مشتہر کرنے والے شخص کا ارادہ یہ ہو کہ یہ عمل میرے لئے ثواب کا ذریعہ بنے، یا ان اَحکامات میں سے کوئی شخص ان پر عمل کرے اور وہ میرے لئے باعثِ مغفرت ہوجائے۔

ج… اس نیک عمل کے موجبِ اَجر و ثواب ہونے میں کیا شک ہے؟ بشرطیکہ مقصود محض رضائے الٰہی ہو، اور مسائل مستند اور صحیح ہوں۔

وڈیو سینٹر پر قرآن خوانی کرنا دِین سے مذاق ہے

س… وڈیو سینٹر کے افتتاح کے موقع پر قرآن خوانی کرنے اور کرانے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟

ج… یہ لوگ گناہگار تو ہیں ہی، مجھے تو اس میں یہ بھی شبہ ہے کہ وہ اس فعل کے بعد مسلمان بھی رہے یا نہیں․․․؟

مسجد میں قالین یا اور کوئی قیمتی چیز استعمال کرنا

س… مسجد میں قالین یا دُوسری قیمتی اشیاء استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… جائز ہے۔

کہانی کی کتابیں، رسالے، ڈائجسٹ پڑھنا شرعاً کیسا ہے؟

س… کہانی کی کتابیں، رسالے، ڈائجسٹ اور دُوسری فحش کتابیں پڑھنی چاہئیں کہ نہیں؟ اگر پڑھے تو گناہ ہے یا نہیں؟

ج… اخلاقی، اصلاحی اور سبق آموز کہانیاں پڑھنا جائز ہے، فحش اور گندی کہانیاں جن سے اخلاق تباہ ہوں، پڑھنا حرام ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا کہنا

س… حضرت! عرض ہے کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ کے شجرات اور حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے قصائد میں ایک دو مقام ایسے ہیں جن کو بریلوی حضرات سامنے رکھ کر ہمارے نوجوانوں کے ذہن خراب کرتے ہیں، ہمیں ان اَشعار کا مطلب اور حکم مطلوب ہے، اُمید ہے دست شفقت دراز فرمائیں گے، ان اَشعار کی فوٹوکاپی ارسالِ خدمت ہے۔

ج۱:… اصطلاحات کے فرق سے مفہوم میں فرق ہوجاتا ہے۔ “مشکل کشا” فارسی کا لفظ ہے، اور اس کے معنی ہیں: “مشکل مسائل کو حل کرنے والا” اور یہ لقب حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا، عربی میں اس کا ترجمہ “حل العویصات” ہے، اُردو میں آج کل “مشکل کشا” کے معنی سمجھے جاتے ہیں: “لوگوں کے مشکل کام کرنے والا۔” حاجی صاحب کے شعر میں وہ معنی مراد ہیں، یہ معنی مراد نہیں۔

          ۲:… حضرت نانوتوی کے قصیدے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوحانیت سے استشفاع ہے، “کرمِ احمدی” کو خطاب ہے، اور یہ استمداد دُنیا کے کاموں کے لئے نہیں، بلکہ آخرت میں نجات اور دُنیا میں استقامت علی الدین کے لئے ہے۔ جس طرح عشاق اپنے محبوبوں کو خطاب کرتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی آواز ان کے محبوب کے کان تک نہیں پہنچتی، اور واقعتا ان کو سنانا مقصود بھی نہیں ہوتا، بلکہ اظہارِ عشق و محبت کا ایک پیرایہ ہے۔ اسی طرح اکابر کے کلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خطاب کیا گیا ہے وہاں بھی اظہارِ عشق و محبت اور طلبِ شفاعت مقصود ہے، نہ کہ اس زندگی میں اپنے کاموں کے لئے مدد طلب کرنا۔ اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ بندوں کے اعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر پیش کئے جاتے ہیں، سو اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی خیال سے خطاب کرتا ہے کہ اس کا یہ معروضہ بارگاہِ نبوی پر پیش ہوگا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے نام خط لکھ رہا ہو، اور اس سے اپنے خط پر خطاب کر رہا ہو، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مکتوب الیہ اس خط کو پڑھے گا۔

          الغرض اگر عقیدہ فاسد نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں تو ان خطابات کی صحیح توجیہ ممکن ہے، ہاں! عقیدہ فاسد ہو تو خطاب ممنوع ہوگا۔

          نوٹ:… اس ناکارہ نے “اِختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم” میں بھی اس پر تھوڑا سا لکھا ہے، اس کو بھی ملاحظہ فرمالیں۔

تبلیغ والوں کا شبِ جمعہ کی پابندی کرنا کیسا ہے؟

س… سالوں سال تبلیغی جماعت والے شبِ جمعہ مناتے چلے آرہے ہیں، اور کبھی بھی ناغہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، خدانخواستہ اسی عمل کی بنا پر تو اس حدیث کے زُمرے میں نہیں آتا ہے کہ: “لا تختصوا لیلة الجمعة ․․․․ الخ” اور نیز اس پر دوام کیا بدعت تو نہ ہوگا؟

ج… تعلیم و تبلیغ کے لئے کسی دن یا رات کو مخصوص کرلینا بدعت نہیں، نہ اس کا التزام بدعت ہے۔ دِینی مدارس میں اسباق کے اوقات مقرّر ہیں، جن کی پابندی التزام کے ساتھ کی جاتی ہے، اس پر کبھی کسی کو بدعت کا شبہ نہیں ہوا․․․!

وکیل کی کمائی شرعاً کیسی ہے؟

س… میں بارہویں کلاس کا طالب علم ہوں اور آرٹس کا طالب علم ہوں۔ میں وکیل بننا چاہتا ہوں، مگر میں نے کئی لوگوں سے سنا ہے کہ وکیل کی کمائی حرام کی کمائی ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی وکیل کی کمائی حرام کی کمائی ہوتی ہے؟ کیا اسے کسی طرح بھی حلال نہیں کہا جاسکتا؟

ج… وکیل اگر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرکے فیس لے تو ظاہر ہے کہ یہ حلال نہیں ہوگی، اور اگر کسی مقدمے کی صحیح پیروی کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی کمائی کو حرام کہا جائے، اب یہ خود دیکھ لیجئے کہ وکیل حضرات مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے کتنا جھوٹ ملاتے ہیں․․․؟

جعلی ڈگری لگاکر ڈاکٹر کی پریکٹس کرنا

س… اگر کوئی شخص ڈاکٹری کی ڈگری نہیں رکھتا اور ڈاکٹر کا بورڈ اور جعلی ڈگری لگاکر پریکٹس کرتا ہے تو کیا اس طرح سے حاصل آمدنی حرام ہے؟ اور یہ کس درجے کا گناہگار ہے؟

ج… اگر ڈاکٹر کا فن نہیں رکھتا تو گناہگار ہے، اس کی آمدنی ناجائز ہے، اور اگر کوئی شخص اس غلط دوائی سے مرگیا تو اس پر تاوان ہے۔

ترکِ سگریٹ نوشی کے لئے جرمانہ مقرّر کرنا

س… ایک آدمی یا دو آدمی آپس میں بیٹھ کر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم آئندہ سگریٹ نوشی نہیں کریں گے، اگر آئندہ سگریٹ نوشی کے مرتکب ہوں گے تو مبلغ ۵۰۰ ریال بطور جرمانہ ادا کریں گے۔ ان میں سے اگر کوئی فریق عہدشکنی کردے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ ذرا وضاحت سے لکھ دیں تاکہ ہماری مشکل دُور ہو۔

ج… یہ آپ نے نہیں لکھا کہ جرمانہ کس کو ادا کرنا تھا، اگر یہ مطلب تھا کہ جو فریق عہدشکنی کرے گا تو دُوسرے ساتھیوں کو جرمانہ دے گا تو یہ صحیح نہیں، اور اس پر کچھ لازم نہیں، اور اگر یہ طے ہوا تھا کہ جو فریق عہدشکنی کرے گا وہ پانچ سو ریال راہِ اللہ میں دے گا تو یہ نذر ہوئی، اور اس کے ذمہ اس رقم کا فی سبیل اللہ دینا ضروری ہے۔

اپنے مکان کا چھجا گلی میں بنانا

س… ہمارا محلہ مسرّت کالونی (ملیر سٹی) جو کافی گنجان ہے، یہاں ایک گلی ہے جس کی لمبائی ۱۰۰ فٹ ہے اور چوڑائی ۶ فٹ ہے، اس گلی کے دونوں بازو میں دو مکان ہیں، اس میں سے ایک مکان کے مالک ڈاکٹر صاحب ہیں، جو ضعیف العمر ہیں، انہوں نے چند ماہ قبل گلی کی طرف اپنے مکان کی تعمیر شروع کی، جب مکان کی تعمیر کا کام چھت پر آیا تو وہ گلی میں اپنے نئے مکان کی چھت کے ساتھ ۳ فٹ کا چھجا تعمیر کروانے لگے، اہلِ محلہ نے مشترکہ طور پر اس کی مخالفت کی۔ اہلِ محلہ کا جواز یہ ہے کہ اس گلی سے بجلی کی لائن آتی ہے جس کے لئے دونوں اطراف کھمبے لگے ہوئے ہیں، ٹیلی فون کی لائن بھی اس گلی سے گزر رہی ہے، نیز گلی اندھیری ہوجائے گی۔ واضح ہو کہ گلی کے دُوسرے بازو کے مالک مکان نے کوئی چھجا تعمیر نہیں کیا ہے اور نہ ارادہ ہے، اہلِ محلہ نے آپس میں مل بیٹھ کر مشترکہ فیصلہ کیا، جس میں ڈاکٹر صاحب بھی شریک تھے کہ گلی میں کوئی چھجا تعمیر نہیں ہوگا اور مکان کو بغیر چھجے کے تعمیر کرنے کا فیصلہ دے دیا۔ خیر ڈاکٹر صاحب کا مکان بھی تعمیر ہوگیا، اب جب محکمہٴ بجلی نے بجلی کی لائن نصب کرنے کے لئے گلی میں کام شروع کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کام بند کرادیا اور بجلی والوں کو واپس کردیا کہ یہ لائن گلی سے نہیں جائے گی، گلی میں چھجا تعمیر کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس عمل سے محلے کے ۲۰ مکانات بجلی کی بہتر سہولت سے محروم رہ گئے اور اسٹریٹ لائٹ جو ان پولوں پر لگنی تھی وہ بھی رُک گئی۔ واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب اپنی زمین کی ایک ایک اِنچ جگہ تعمیر کراچکے ہیں اور گلی جو کہ سرکاری ہے، اس کو ہر طرح سے استعمال کر رہے ہیں، یعنی گلی میں گٹر لائن ڈالے ہوئے ہیں اور اپنے مکان میں داخل ہونے کے لئے چبوترہ (ایک اسٹپ، One Step) بھی گلی میں بنایا ہوا ہے، یہ بھی راہ داری میں رُکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ مگر اہلِ محلہ کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔ اہلِ محلہ ڈاکٹر صاحب کے اس عمل پر خاصے ناراض ہیں اور ان کے متعلق طرح طرح کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ لہٰذا مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں کیا ڈاکٹر صاحب کا عمل شرعاً جائز ہے؟ کیا یہ حقوق العباد کی نفی نہیں ہے؟ نیز یہ بھی مشورہ دیں کہ یہ مسئلہ ان سے کس طرح حل کرایا جائے؟

ج… چونکہ ڈاکٹر صاحب کے اس عمل سے گلی والوں کے حقوق متأثر ہوتے ہیں، اس لئے ان کی اجازت و رضامندی کے بغیر ڈاکٹر صاحب کا چھجا بنانا جائز نہیں۔

کمپنی سے سفر خرچ وصول کرنا

س… زید جس کمپنی میں ملازم ہے، اس کمپنی کی طرف سے دُوسرے شہروں میں مال کی فروخت اور رقم کی وصولی کے لئے جانا پڑتا ہے، جس کا پورا خرچہ کمپنی کے ذمہ ہوتا ہے، بعض شہروں میں زید کے ذاتی دوست ہیں جن کے پاس ٹھہرنے کی وجہ سے خرچہ نہیں ہوتا۔ کیا زید دُوسرے شہروں کے تناسب سے ان شہروں کا خرچہ بھی اپنی کمپنی سے وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟

ج… اگر کمپنی کی طرف سے یہ طے شدہ ہے کہ ملازم کو اتنا سفر خرچ دیا جائے خواہ وہ کم خرچ کرے یا زیادہ، اور کرے یا نہ کرے، اس صورت میں تو زید اپنے دوست کے پاس ٹھہرنے کے باوجود کمپنی سے سفر خرچ وصول کرسکتا ہے، اور اگر کمپنی کی طرف سے طے شدہ نہیں بلکہ جس قدر خرچ ہو ملازم اس کی تفصیلات جزئیات لکھ کر کمپنی کو دیتا ہے اور کمپنی سے بس اتنی ہی رقم وصول کرلیتا ہے جتنی اس نے دورانِ سفر خرچ کی تھی تو اس صورت میں کمپنی سے اتنا ہی سفر خرچ وصول کرسکتا ہے جتنا کہ اس کا خرچ ہوا۔

رفاہی کام کے لئے اللہ واسطے کے نام سے دینا

س… ہم نے مسافروں کی سہولت کے لئے جنرل بس اسٹینڈ بھکر میں جنرل پوسٹ آفس بھکر میں درخواست دی کہ مسافروں کو یا وہاں کے مقامی لوگوں کو خط ڈاک میں ڈالنے کی بہت تکلیف ہوتی ہے اور شہر جنرل بس اسٹینڈ سے تقریباً تین میل دُور ہے، لہٰذا مہربانی کرکے یہاں پر لیٹربکس بڑا لگایا جائے، ڈاک خانے والوں نے درخواست اس شرط پر منظور کی ہے کہ لیٹربکس کا جو خرچہ آتا ہے وہ اَڈّے والے خود کریں اور ہم لیٹربکس دے دیں گے۔ خرچے کی وضاحت میں آپ کو کردیتا ہوں، یعنی لیٹربکس کو نصب کرنے پر بجری سیمنٹ اور اِینٹوں کا خرچہ، مستری مزدوری کا خرچ۔ ہم نے لیٹربکس کو نصب کرنے کے لئے چندہ کیا ہے جو تقریباً ۱۲۲ روپے ہے، کیونکہ یہ ایک رفاہی کام ہے اور خدمتِ خلق ہے، ہم نے ایک آدمی سے چندہ مانگا، اس نے کہا میں اللہ واسطے یا صدقہ کرکے دیتا ہوں، اس نے پانچ روپے دئیے ہیں، کیا اس رفاہی کام میں اس کا اللہ واسطے کا دیا ہوا روپیہ کارِ ثواب ہے؟ کیا یہ اس کا اللہ واسطہ یا صدقہ ہوسکتا ہے؟

ج… رفاہی کام بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جاسکتا ہے، اس لئے اس شخص کا اس کام کے لئے اللہ واسطے کے نام سے دینا صحیح ہے۔

سگریٹ نوشی شرعاً کیسی ہے؟

س… سگریٹ پینا کیسا ہے؟ اگر مکروہ ہے تو کون سا مکروہ؟ میں نے ایک رسالے میں پڑھا تھا کہ اِمامِ حرم نے (مجھے نام یاد نہیں رہا) یہ فتویٰ دیا ہے کہ سگریٹ پینا حرام ہے، دلیل یہ دی ہے کہ ایک تو ہر نشہ حرام ہے، دُوسرے سگریٹ سے قدرتی نشوونما رُک جاتی ہے۔ آج تک کسی سرجن یا ڈاکٹر نے سگریٹ کے فائدے نہیں بتائے سوائے مضرات کے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ سگریٹ خودکشی کا ایک مہذب طریقہ ہے۔

          تیسری دلیل یہ ہے کہ کسی چیز کو بے کار جلانا حرام ہے، اور سگریٹ کا جلانا بھی بے کار ہے، کیونکہ اس کے جلانے میں کوئی فائدہ نہیں۔

          چوتھی دلیل یہ ہے کہ از رُوئے حدیث ایذائے مسلم حرام ہے اور سگریٹ سے دُوسروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ راقم الحروف نے بچشمِ خود یہ بھی دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ سگریٹ پیتے ہی مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔ اور لیلة القدر میں یہ بھی دیکھا ہے کہ مسجد سے نکلتے ہی مسجد کے دروازے کے پاس سگریٹ پیتے ہیں اور پھر فوراً مسجد میں داخل ہوجاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ آپ ذرا ایسے مسلمانوں کو اَحکامِ شرعیہ سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ سگریٹ حرام ہے کہ نہیں؟

ج… آپ کے دلائل خاصے مضبوط ہیں، اُمید ہے کہ دیگر اہلِ علم اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔ بندے کے نزدیک عام حالات میں سگریٹ مکروہِ تحریمی ہے۔

چنگی ناکہ کم دینے کے لئے خریداری بل کم بنوانا

س… ہم باہر سے جو سامان لاتے ہیں اس پر چنگی ناکہ ادا کرنا پڑتا ہے اور چنگی والے خریداری بل دیکھ کر چار فی صد وصول کرتے ہیں، ہم سیٹھوں سے جعلی بل بنوالیتے ہیں جس سے ناکہ کم ادا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ایسا کرنا یعنی جعلی بل بنواکر ناکہ چنگی کم ادا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ جبکہ سرکاری ناکہ کم ہوتا ہے لیکن ٹھیکیدار بولی بڑھا بڑھاکر تقریباً دوگنا زیادہ کرلیتے ہیں، اگر یہ ٹھیکیدار بولی بڑھاکر ٹھیکہ زیادہ نہ کریں تو سرکاری شرح کم ہوگی۔

ج… جعل سازی کو جائز تو نہیں کہا جاسکتا، مگر چنگی وصول کرنا خود بھی ظلم ہے ، اور ظلم سے بچنے کے لئے اس میں کچھ تخفیف ہوجائے تو ہوجائے۔

یہود و نصاریٰ سے ہمدردی فاسقانہ عمل ہے

س… مردان کے ایک صاحب کے سوال: “سونا مرد کے لئے حرام ہے تو سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز جائز ہوگی یا نہیں؟” کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ:

          “نماز اللہ کی بارگاہ میں حاضری ہے، جو شخص عین حاضری کی حالت میں بھی فعلِ حرام کا مرتکب ہو اور حق تعالیٰ شانہ کے اَحکام کو توڑنے پر مصر ہو، خود ہی سوچ لیجئے کہ کیا اس کو قرب و رضا کی دولت میسر آئے گی․․․؟”

          متذکرہ بالا جواب کے تناظر میں حسبِ ذیل چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔ سورہٴ فاتحہ (اُمّ القرآن) ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے، جس میں اللہ جل شانہ کے حکم کے مطابق مغضوبین و ضالین کے خلاف اللہ سے پناہ مانگی جاتی ہے، (اے اللہ! مجھ کو مغضوبین و ضالین کی راہ پر چلنے سے بچا) اور مغضوبین و ضالین کے متعلق علمائے حق نے غالباً ترمذی شریف کی احادیث سے یہود و نصاریٰ مراد لئے ہیں، پھر بھی کوئی مسلمان یہود و نصاریٰ کو قابلِ اعتماد دوست اور ہمدرد بناتا ہے تو ایسے مسلمان کے لئے آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور مدد کا مستحق ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے شخص کی نماز و دیگر عبادات منافقانہ نہیں ہوں گی؟ اس سلسلے میں سورہٴ مائدہ کی آیات نمبر ۱۶۲ تا ۱۶۵ کے حوالے کے ساتھ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ یہ بھی حقیقت واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو ہمیشہ یہود و نصاریٰ سے من حیث القوم تکلیف ہی پہنچی اور متواتر ان کے خلاف جہاد کیا۔

ج… منافقانہ عمل کہنا تو صحیح نہیں، البتہ گناہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کا عمل فاسقانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر گناہ سے محفوظ رکھیں۔

عزّت کے بچاوٴ کی خاطر قتل کرنا

س… کسی مسلمان یا غیرمسلم نے کسی مسلمان لڑکی کی عزّت پر حملہ کیا تو کیا مسلمان لڑکی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی عزّت بچانے کے لئے حملہ آور کو قتل کردے؟

ج… بلاشبہ جائز ہے۔

عصمت پر حملے کے خطرے سے کس طرح بچے؟

س… کسی مسلمان کی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کی عصمت کو خطرہ لاحق ہے، بچاوٴ کی کوئی صورت نہیں، تو کیا مسلمان مرد کو یہ جائز ہے کہ وہ عزّت پر حملہ ہونے سے پہلے چاروں میں سے کسی کو قتل کردے؟

ج… ان چاروں کو قتل کرنے کے بجائے حملہ آور کو قتل کردے یا خود شہید ہوجائے۔

عصمت کے خطرے کے پیشِ نظر لڑکی کا خودکشی کرنا

س… اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور خودکشی کرنے والے کو جہنم کا سزاوار کہا ہے، زندگی میں بعض مرتبہ ایسے سنگین حالات پیش آتے ہیں کہ لڑکیاں اپنی زندگی کو قربان کرکے موت کو گلے لگانا پسند کرتی ہیں، دُوسرے الفاظ میں وہ خودکشی کرلیتی ہیں۔ مثلاً: اگر کسی لڑکی کی عصمت کو خطرہ لاحق ہو اور بچاوٴ کا کوئی بھی راستہ نہ ہو تو وہ اپنی عصمت کی خاطر خودکشی کرلیتی ہے، اس کا عظیم مظاہرہ تقسیمِ ہند کے وقت دیکھنے میں آیا، جب بے شمار مسلمان خواتین نے ہندووٴں اور سکھوں سے اپنی عزّت محفوظ رکھنے کی خاطر خودکشی کرلی، باپ اپنی بیٹیوں کو اور بھائی اپنی بہنوں کو تاکید کرتے تھے کہ وہ کنویں میں کود کر مرجائیں لیکن ہندووٴں اور سکھوں کے ہاتھ نہ لگیں۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں براہِ کرم یہ بتائیں کہ مندرجہ بالا حالات میں لڑکیوں اور خواتین کا خودکشی کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… قانون تو وہی ہے جو آپ نے ذکر کیا۔ باقی جن لڑکیوں کا آپ نے ذکر کیا ہے توقع ہے کہ ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ ہوگا۔

کیا کوڑے مارنے کی سزا خلافِ شریعت ہے؟

س… کیا اسلام میں کوڑے مارنے کی سزا خلافِ شریعت ہے؟ اور اگر واقعی اسلام میں کوڑوں کی سزا کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر ایک جلیل القدر صحابی نے یہ سزا اپنے بیٹے کو کیوں دی؟

ج… اسلام میں بعض جرائم پر کوڑوں کی سزا تو رکھی گئی ہے، لیکن اس سے یہ فوجی یا جلادی کوڑے مراد نہیں جن کا آج کل رواج ہے۔ وہ کوڑے اتنے ہلکے پھلکے ہوتے تھے کہ سو کوڑے کھاکر بھی آدمی نہ صرف زندہ بلکہ تندرست رہ سکتا تھا اور وہ کوڑے ٹکٹکی باندھ کر ایک ہی جگہ نہیں مارے جاتے تھے، نہ کوڑے لگانے کے لئے خاص جلاد رکھے جاتے تھے۔ “اسلام میں کوڑے کی سزا” سن کر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید اسلام بھی موجودہ دور کے جلادی کوڑوں کو روا رکھتا ہے۔

          ایک جلیل القدر صحابی کے اپنے بیٹے کو کوڑوں کی سزا دینے کے جس واقعے کی طر ف آپ نے اشارہ کیا ہے، اگر اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، جو عام طور سے واعظ حضرات میں مشہور ہے، تو یہ واقعہ غلط اور موضوع اور من گھڑت ہے۔

بے نمازی کے ساتھ کام کرنا

س… میں ایک ایسے آدمی کے ساتھ کام کرتا ہوں جو نماز نہیں پڑھتے، بلکہ جمعہ تک نہیں پڑھتے، کیا ایسے آدمی کے ساتھ کام کرنا جائز ہے؟

ج… کام تو کافر کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں، وہ صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو نماز کی ترغیب دینا ضروری ہے، آپ ان کو کسی بہانے کسی نیک صحبت میں لے جایا کیجئے، اس سے اِن شاء اللہ تعالیٰ وہ نمازی ہوجائیں گے۔

گورنمنٹ کے محکموں میں چوری شخصی چوری سے بدتر ہے

س… تقریباً دو سال پہلے میرے بڑے بھائی اور میرے والد مرحوم نے بجلی چوری کرنے کا طریقہ اپنایا تھا، جو اَبھی جاری ہے۔ کہتے ہیں کہ جو شخص دُنیا میں کوئی اچھا عمل یا بُرا عمل چھوڑ جاتا ہے اس کو مرنے کے بعد بھی قبر میں اس کا بدلہ ملتا رہتا ہے، کہتے ہیں کہ جب تک بُرا عمل دُنیا میں ہوتا رہے گا اس کا گناہ مرحوم اور جو اُن کا ساتھی ہوگا اسے ملتا رہے گا۔ بجلی کیونکہ ایک قومی ادارہ ہے، یہ ایک قوم کی امانت ہے اور اسی طرح ٹیلی فون، ٹیکس کی چوری وغیرہ جو بھی چوری کرتا ہے یا مدد کرتا ہے، کہتے ہیں کہ قیامت کے روز اس کا بدلہ اعمال کی کرنسی سے لیا جائے گا، یعنی اعمال لے لئے جائیں گے۔ ہمارے یہاں جو بجلی چوری ہوتی ہے اس لحاظ سے ہم اس بجلی کے استعمال سے جو نیک عمل یا عبادت اس کی روشنی میں کریں گے یقینا وہ قابلِ قبول نہیں ہوگی، کیونکہ چوری کرنا حرام ہے، اور حرام چیز استعمال کرکے نیک کام کرے تو وہ بھی یقینا قبول نہیں ہوگا۔ مولانا صاحب! یہ سوال جو میں نے کیا ہے اور اس سوال میں جو میں نے اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا جواب دیں۔ ہمارے دُوسرے ایسے مسلمان بھائیوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ گورنمنٹ کے مال کی چوری کا بھی اللہ کے یہاں نیکیوں کے بدلے سے چوری کا خسارہ پورا کیا جائے گا، ہوسکے تو ایسے لوگوں کا انجام حدیث سے ثابت فرمائیے۔

ج… آپ کے خیالات صحیح ہیں، گو تعبیرات صحیح نہیں۔ جس طرح شخصی املاک کی چوری گناہ ہے، اسی طرح قومی املاک میں چوری بھی گناہ ہے، بلکہ بعض اعتبارات سے یہ چوری زیادہ سنگین ہے، کیونکہ ایک آدمی سے تو معاف کرانا بھی ممکن ہے اور پوری قوم سے معاف کرانے کی کوئی صورت ہی نہیں۔

رکشے کے میٹر کو غلط کرکے زائد پیسے لینا

س… ہمارے محلہ میں اکثریت رکشہ، ٹیکسی والوں کی ہے، ان لوگوں کے ساتھ اکثر میری تکرار ہوجاتی ہے، چونکہ حکومت نے رکشے کا میٹر ایک روپیہ بیس پیسہ فی میل اور ٹیکسی کا میٹر دو روپے فی میل مقرّر کیا ہے، یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت وقتاً فوقتاً پیٹرول مہنگا کرتی ہے اور رکشہ ٹیکسی کا کرایہ زیادہ نہیں کرتی، اس لئے ہمارا اس موجودہ ریٹوں پر گزارا نہیں ہوتا ہے، تو مجبوراً ہم لوگ ایک روپیہ بیس پیسہ کے بجائے دو روپے اور دو روپے کے بجائے ڈھائی روپے چلاتے ہیں۔ حالانکہ میرے خود بھی دو رکشے اسی دو روپے میں چل رہے ہیں، واضح طور پر لکھ دیجئے کہ یہ زائد جو کمائی ہم لوگ کرتے ہیں حلال ہے یا حرام؟ باوجود اس کے کہ حکومت کے مقرّر کردہ ریٹ کے مطابق ان لوگوں کو روزانہ ساٹھ روپے سے لے کر ستر اَسّی روپے تک بچت ہوتی ہے۔

ج… جو لوگ رکشہ، ٹیکسی پر سفر کرتے ہیں ان کے ذہن میں تو یہی ہے کہ رکشہ، ٹیکسی والے حکومت کے مقرّر کردہ ریٹ پر چلتے ہیں، اس صورت میں رکشہ، ٹیکسی والے کا اپنے طور پر کرایہ بڑھاکر وصول کرنا مسافر کی رضامندی سے نہیں، بلکہ دھوکے سے ہے، اس لئے زائد رقم ان کے لئے حلال نہیں۔ البتہ اگر مسافر سے یہ طے کرلیا جائے کہ میں اتنے پیسے زائد لوں گا اور وہ اس پر راضی ہوجائے تو جائز ہے۔

مذہبی شعار میں غیرقوم کی مشابہت کفر ہے

س… ایک حدیث سنی ہے جس کا مفہوم میری سمجھ میں اس طرح آیا کہ: “جو شخص جس کسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ کل قیامت کے دن اسی کے ساتھ اُٹھایا جائے گا” ہم لوگ سر کے بالوں سے لے کر پیر کے ناخنوں تک غیروں کی مشابہت کرتے ہیں۔ داڑھی پر اُسترا چلاتے ہیں، قمیص اور پتلون انگریزی اپناتے ہیں، غرض ہر طرح انگریز کا طریقہ اپناتے ہیں، کوئی زیادہ دِین دار ہو تو قمیص کے کالر تبدیل کرلیتا ہے، شکل قمیص کی انگریزی ہوتی ہے، گھڑی بائیں ہاتھ میں باندھتے ہیں۔ برائے مہربانی یہ بتائیں کہ ہمارا طریقہ یہ کیا ہے؟ کیا یہ انگریزی طریقہ نہیں ہے؟ اور یہ حدیث ہم پر صادق نہیں آتی ہے؟

ج… یہ حدیث صحیح ہے، اور کسی قوم سے تشبہ کا مسئلہ خاصا تفصیل طلب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی غیرقوم کے مذہبی شعار میں ان کی مشابہت کرنا تو کفر ہے، جیسے ہندووٴں کی طرح چوٹی رکھنا، یا زنار پہننا، یا عیسائیوں کی طرح صلیب پہننا۔ اور جو چیز کسی قوم کا مذہبی شعار تو نہیں لیکن کسی خاص قوم کی وضع قطع ہے، ان میں مشابہت کفر نہیں، البتہ گناہِ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ داڑھی منڈانا مجوسیوں کا شعار تھا۔ اور جو چیز کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں، ان میں مشابہت نہیں، البتہ اگر کوئی شخص مشابہت کے ارادے سے ان چیزوں کو اختیار کرے گا وہ بھی اس حدیث کا مصداق ہے۔

نعتیں ترنم کے ساتھ پڑھنا

س… حمد و نعتیں اور اسلام کے پروگرام میں کبھی خواتین اور کبھی خواتین و مرد ایک ساتھ، کبھی مرد لحن سے اور کبھی ترنم سے پڑھتے ہیں جب عورتیں یا مرد اور عورتیں ایک ساتھ حمد یا نعت یا سلام ریڈیو پر پڑھتے ہوں تو اسے ہر مرد اور عورت کو سننا جائز ہے؟ اگر نہیں تو کس طرح سنا جاسکتا ہے؟

ج… حمد و نعت تو بہت اچھی چیز ہے، بلکہ بہترین عبادت کہنا چاہئے بشرطیکہ حمد و نعت کے مضامین خلافِ شرع نہ ہوں، جیسا کہ آج کل کے بہت سے نعت گو خلافِ شرع مضامین کا طومار باندھ دیتے ہیں۔ جہاں تک پڑھنے کا تعلق ہے، اگر مرد، مردوں کے مجمع میں اور کوئی عورت خواتین کی محفل میں پڑھے اور اس کی آواز نامحرَم مردوں تک نہ پہنچے تب تو صحیح ہے، لیکن مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ پڑھنا ناجائز ہے۔

قرآن مجید کی ٹیوشن پڑھانا جائز ہے

س… میں کسی ادارے میں ملازمت کرتا ہوں اور میری نامعقول تنخواہ ہے، اور گھر کی فیملی زیادہ ہے، گھر کا واحد سہارا ہوں۔ فارغ ٹائم میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں اور میں حافظِ قرآن ہوں، بچوں کو قرآنی تعلیم دیتا ہوں، جو تنخواہ ملتی ہے اس سے اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرتا ہوں۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں ٹیوشن فیس لینا جائز ہے کہ نہیں؟

ج… ٹیوشن ایک جز وقتی ملازمت ہے، پس فارغ وقت میں ٹیوشن پڑھائی جائے تو اس وقت کی اُجرت لینا جائز ہے۔

اپنے آپ کو تیل ڈال کر جلانے والے کا شرعی حکم

س… کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میری ہمشیرہ نے اپنے سسرال والوں کے ظلم سے تنگ آکر اپنے آپ پر مٹی کا تیل چھڑک کر اپنے جسم کو آگ لگالی، اور وہ بُری طرح جل گئی، تین دن تک وہ موت و حیات کی کشمکش میں رہی، اس کے بعد انتقال ہوگیا۔ آیا اس کی موت کو اپنی موت کہیں گے یا خودکشی؟

ج… یہ خودکشی نہیں تو اور خودکشی کسے کہتے ہیں․․․؟

غلط عمر لکھواکر ملازمت کی تنخواہ لینا

س… پاکستان میں عموماً حضرات اپنے بچوں کی عمر کم لکھواتے ہیں تاکہ مستقبل میں فائدے ہوں، مثلاً: ریٹائر ہونے کی عمر میں ۲ یا ۳ سال کا ناجائز اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس اضافے سے جو تنخواہ ملتی ہے کیا وہ جائز ہے یا ناجائز؟ کیونکہ وہ زائد سال کسی اور کا حق ہے جو عمر بڑھواکر کسی شخص نے حاصل کئے۔

ج… تنخواہ تو خیر حلال ہے اگر کام حلال ہو، مگر جھوٹ کا گناہ ہمیشہ سر ر ہے گا۔

مقرّر شدہ تنخواہ سے زیادہ بذریعہ مقدمہ لینا

س… میں ایک جگہ کام کرتا تھا، اب جی بھرگیا ہے، ۵ سال ہوگئے ہیں نوکری کرتے ہوئے۔ مالک کے ساتھ جو معاہدہ تھا یعنی تنخواہ مقرّر تھی وہ مجھے ملتی رہی ہے۔ ہر ماہ مقرّر کی ہوئی تنخواہ مجھے برابر ملتی رہی ہے۔ اب ایک آدمی نے مشورہ دیا ہے کہ تم کورٹ میں مقدمہ کرو، کافی رقم ملے گی۔ جبکہ مجھے میرا حق یعنی جو تنخواہ مقرّر تھی وہ مجھے ملتی رہی ہے۔ اب اگر میں مقدمہ کروں اور مجھے جو رقم ملے گی اس رقم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ جائز ہے؟

ج… آپ سے جتنی تنخواہ کا معاہدہ ہوا تھا وہ تو آپ کے لئے حلال ہے، اس سے زیادہ اگر آپ وصول کریں گے تو غصب ہوگا، اگر آپ کو وہ تنخواہ کافی نہیں تو آپ معاہدہ فسخ کرسکتے ہیں۔

غیرحاضریاں کرنے والے ماسٹر کو پوری تنخواہ لینا

س… ایک صاحبِ علم آدمی ایک اسکول میں ماسٹر ہے، مگر وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے معاملات میں اس قدر مصروف ہے کہ باقاعدگی سے اسے اسکول میں حاضری کا موقع نہیں ملا کرتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ مہینے میں کوئی ۱۷، ۱۸ حاضریاں اس کی بنیں گی، تو کیا اس کو اس بنا پر پوری تنخواہ وصول کرنا جائز ہوگا کہ وہ خدمتِ خلق اور لوگوں کے کاموں میں مصروف ہے جبکہ اسکول میں ایسا دُوسرا ماسٹر موجود ہو جو اس کے پیریڈ لے سکے؟

ج… ماسٹر صاحب کو تنخواہ تو پڑھانے کی ملتی ہے، خدمتِ خلق کی نہیں ملتی۔ اس لئے وہ جتنی پڑھائی کریں بس اتنی ہی تنخواہ کے مستحق ہیں، اس سے زیادہ ناجائز لیتے ہیں۔

غلط بیانی سے عہدہ لینے والے کی تنخواہ کی شرعی حیثیت

س… پاکستان سے ایک صاحب جعلی سرٹیفکیٹ بنواکر یہاں سعودیہ میں ایک بڑی پوسٹ پر آکر فائز ہوئے، پاکستان کے متعلقہ حکام بہت حیرت زدہ ہوئے، اس لئے کہ پاکستان میں یہ صاحب ماضی میں اس عہدے کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرچکے تھے اور اپنی نالائقی کی بنا پر اسسٹنٹ کے عہدے سے بھی متعلقہ محکمے سے نکالے جاچکے تھے۔ اسسٹنٹ سے آگے محنت کرکے قانونی طور پر ترقی کرنا ان کے لئے قطعی ناممکن تھا، اس طرح انہوں نے اس دُنیا میں تو چالاکی سے جعلی سرٹیفکیٹ کے ذریعہ دُوسرے ملک والوں کو بے وقوف بنالیا اور یہاں اس بڑے عہدے پر جیسے تیسے کام کر رہے ہیں، اس طرح انہوں نے پاکستان سے آنے والے ایک موزوں اور قابل انسان کی حق تلفی بھی کی۔ اب ان کی اس کمائی کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا بہت سے حج اور عمرے کرنے سے ان کا یہ جان بوجھ کر کیا ہوا گناہ دُھل سکتا ہے؟

ج… جھوٹ اور جعل سازی کے ذریعہ کوئی عہدہ و منصب حاصل کرنا یہ تو ظاہر ہے کہ حرام ہے، اور جھوٹ، دغابازی اور فریب دہی پر جتنی وعیدیں آئی ہیں، یہ شخص ان کا مستحق ہے، مثلاً: جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت، ارشادِ نبوی ہے کہ دھوکا کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ اس لئے جعل سازی خواہ چھوٹی کی ہو یا بڑی، ایسے شخص کے بدکار، گناہگار ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہئے۔ باقی رہا یہ مسئلہ ایسے شخص کی کمائی بھی حلال ہے یا نہیں؟ اس کے لئے یہ اُصول یاد رکھنا چاہئے کہ اگر یہ شخص اس منصب کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے اور کام بھی صحیح کرتا ہے تو اس کی تنخواہ حلال ہے، اور اگر منصب کا سرے سے اہل نہیں، یا کام ٹھیک سے انجام نہیں دیتا تو اس کی تنخواہ حرام ہے، اس اُصول کو وہ صاحب ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری و غیرسرکاری افسران و ملازمین پیشِ نظر رکھیں۔ میرے مشاہدے و مطالعے کی حد تک ہمارے افسران و ملازمین میں سے پچاس فیصد حضرات ایسے ہیں جو یا تو اس منصب کے اہل ہی نہیں، محض سفارش یا رشوت کے زور سے اس منصب پر آئے ہیں، یا اگر اہل ہیں تو اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر نہیں بجالاتے، ایسے لوگوں کی تنخواہ حلال نہیں۔ وہ خود بھی حرام کھاتے ہیں اور گھر والوں کو بھی حرام کھلاتے ہیں۔

اوور ٹائم لکھوانا اور اس کی تنخواہ لینا

س… میں نماز روزے کا سختی سے پابند ہوں اور حلال رزق میری جستجو ہے۔ لیکن ایک رُکاوٹ پیش آرہی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔ بزرگوارم! میں ایک مالیاتی ادارے میں ملازم ہوں جہاں مقرّر شدہ اوقات کار ختم ہونے کے بعد مزید چند گھنٹے خدمات سرانجام دینا پڑتی ہیں، جس کا علیحدہ سے معاوضہ دیا جاتا ہے، جس کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ تمام ملازمین کو جنھوں نے اوور ٹائم کیا ہوتا ہے اوور ٹائم ختم کرنے کے بعد ایک رجسٹر پر دستخط کرنے پڑتے ہیں، جس میں ٹوٹل اوور ٹائم کتنے گھنٹے کیا اور ساتھ میں وقت اور دستخط تحریر کرنا پڑتے ہیں، لیکن اس تحریر کردہ اور دستخط شدہ وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی چھٹی کرلی جاتی ہے اور صرف ایک گھنٹہ کام کیا جاتا ہے، کافی اداروں میں ایسا ہوتا ہے، تو مزید جو دو گھنٹے کا بھی (جس میں ہم کام نہیں کرتے، چھٹی کرجاتے ہیں) معاوضہ وصول کرتے ہیں کیا وہ ہمارے لئے حلال ہے؟ ہم اسے اپنے بال بچوں کے پیٹ کے لئے استعمال کرسکتے ہیں؟

ج… معاوضہ صرف اتنے وقت کا حلال ہے جس میں کام کیا ہو، اس سے زیادہ وقت کا رجسٹر میں اندراج کرنا جھوٹ اور بددیانتی ہے، اور اس کا معاوضہ وصول کرنا قطعی حرام ہے۔

غلط اوور ٹائم کی تنخواہ لینا

س… آج کل خاص طور پر سرکاری دفاتر میں یہ بیماری عام ہے کہ لوگ بوگس اوور ٹائم اور بوگس ٹی اے ڈی اے حاصل کرتے ہیں جس سے گورنمنٹ کو کروڑوں روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے، اس طرح بعض لوگ مہینے میں ۸ یا ۱۰ دن دفتر آتے ہیں مگر تنخواہ پورا مہینہ حاصل کرتے ہیں۔

          الف:… وہ لوگ جو اوور ٹائم ٹی اے، ڈی اے اور بوگس تنخواہ حاصل کرتے ہیں، ان کی کمائی کیسی ہے؟

          ب:… جو افسران اوور ٹائم، ٹی اے، ڈی اے اور تنخواہ تیار کرتے ہیں اور ان کاغذات پر کئی افسران دستخط بھی کرتے ہیں، کیا انہیں بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے یا وہ بھی اس کام میں برابر کے شریک ہیں؟ ان لوگوں کی کمائی سے زکوٰة، صدقات اور دُوسرے فلاحی کاموں میں خرچ کی گئی رقم قابلِ قبول ہے یا نہیں؟

ج… ظاہر ہے کہ ان کی کمائی خالص حرام ہے، اور جو افسران اس کی منظوری دیتے ہیں وہ اس جرم اور حرام کام میں برابر کے مجرم ہیں۔ صدقہ و خیرات حلال کمائی سے قبول ہوتی ہے، حرام سے نہیں۔ حرام مال سے صدقہ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص گندگی کا پیکٹ کسی کو تحفے میں دے۔

سرکاری ڈیوٹی صحیح ادا نہ کرنا قومی و ملّی جرم ہے

س… زید کا بحیثیت ورکس شاپ اٹینڈنٹ کے تقرّر کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنے فرائضِ منصبی قطعی طور پر انجام نہیں دیتا، لیکن حکومت سے ماہانہ تنخواہ وصول کرتا ہے، کیا اس کی ماہانہ تنخواہ شرعی حدود کے مطابق جائز ہے؟

ج… جس کام کے لئے کسی کا تقرّر کیا گیا ہو اگر وہ اس کام کو ٹھیک ٹھیک انجام دے گا تو تنخواہ حلال ہوگی ورنہ نہیں۔ جو سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر ادا نہیں کرتے تو وہ خدا کے بھی خائن ہیں اور قوم کے بھی خائن ہیں، اور ان کی تنخواہ شرعاً حلال نہیں۔ دُنیا میں اس خیانت کا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑتا ہے کہ اچھی آمدنی، اچھی رہائش اور اچھی خاصی آسائش اور آسودگی کے باوجود ان کا سکون غارت اور رات کی نیند حرام ہوجاتی ہے، طاعت و عبادت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے اور آخرت کا عذاب مرنے کے بعد سامنے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں۔ بہرحال اپنی ڈیوٹی ٹھیک طور پر بجا نہ لانا ایک ایسا دِینی، اخلاقی اور قومی و ملّی جرم ہے کہ آدمی اس گناہ کی معافی بھی نہیں مانگ سکتا۔

پریشانیوں سے گھبراکر مرنے کی تمنا کرنا

س… اب دُنیا میں جینا مشکل ہوگیا ہے، دِل چاہتا ہے کہ موت آجائے، دُنیا کے حالات دگرگوں ہوچکے ہیں۔ بندے کو پانچ چھ ماہ سے پریشانیوں اور بخار نے ایسا گھیرا ہے کہ جان نہیں چھوٹتی، کیا اس طرح کہنا جائز ہے؟

ج… پریشانیوں پر اَجر تو ایسا ملتا ہے کہ عقل و تصوّر میں نہیں آسکتا، لیکن اجر صابرین کے لئے ہے، اور پریشانیوں سے تنگ آکر موت کی تمنا کرنا حرام بھی ہے اور اَجر کے منافی بھی:

اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

مرکے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے

ماں باپ سے متعلق قرآنِ کریم کے اَحکامات کا مذاق اُڑانا

س… اگر ایک لڑکا نہایت اُونچی تعلیم اور صاف ستھرے ماحول میں پروَرِش پاکر بعد شادی اور حصولِ ملازمت کے اپنے والد، بھائیوں اور بہنوں سے نامعقول عذر لے کر ہر قسم کا تعلق منقطع کرلے بلکہ نفرت کرنے لگے اور اپنی زوجہ اور اس کے عزیزوں کو خوش کرنے کے لئے ان کو ذہنی تکلیف میں ڈال کر خوش ہو۔ پابند نماز ہونے کے باوجود ان اَحکامات کا مذاق اُڑائے جو ماں باپ اور بزرگوں کے احترام کے سلسلے میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ شرعاً اور اخلاقاً کیا وعید بیان کی گئی ہے؟

ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “والدین کا نافرمان جنت میں نہیں جائے گا” والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید تو قرآنِ کریم اور حدیث شریف میں بہت ہی آئی ہے، قرآن و حدیث کا مذاق اُڑانے والا مسلمان کیسے رہ سکتا ہے․․․؟ اس لئے آپ کی لکھی ہوئی کہانی پر مجھے تو یقین نہیں آیا۔

پنشن جائز ہے، اس کی حیثیت عطیہ کی ہے

س… گورنمنٹ ملازمین کو مدّتِ ملازمت ختم کرنے کے بعد پنشن بطور حق ملتی ہے، مروّجہ قانون کے مطابق پنشنر کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی نصف پنشن کی حد تک گورنمنٹ کو بیچ دے، یعنی پنشن کی اس رقم کے بدلے (عوض) یکمشت رقم نقد لے لے۔ اس کو انگریزی میں کمیوٹیشن آف پنشن کہتے ہیں، اس کے لئے شرط ہے کہ پنشنر بالکل تندرست ہو اور مقامی سوِل سرجن اس کو تندرست تسلیم کرکے سرٹیفکیٹ دے۔ بصورتِ دیگر کمیوٹیشن منظور نہیں ہوتا۔ عام طور پر جب پنشنر تندرست ہو تو زندگی کی آخری حد ستر سال مانی جاتی ہے، اور اسی حساب سے یکمشت رقم پنشن کی رقم کے بدلے یا عوض میں ادا کی جاتی ہے، اور اب وہ ہمیشہ کے لئے پنشن کے اس حصے سے جو وہ کمیوٹ کرچکا ہے، محروم ہوجاتا ہے۔ اس طرح بعض حالات میں اگر پنشنر جلد انتقال کرجائے گورنمنٹ نقصان میں رہتی ہے، اور اگر ستر سے زیادہ زندہ رہے تو خود پنشنر نقصان میں رہتا ہے، اب جبکہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہیں، جوأ، شراب وغیرہ بند اور زکوٰة وصول کی جارہی ہے تو کیا یہ مروّجہ قانون مذکورہ بالا شکل میں جوأ یا شرط کے ممنوعہ حدود میں شامل نہیں ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس حالت میں کیا گورنمنٹ کو ان تمام پنشنروں کو جو ستر سال کی حد پوری کرچکے ہیں اور اب بھی زندہ ہیں ان کی کمیوٹڈ پنشن اب بحالی نہیں کرنی چاہئے جس طرح سود (ربا) کے حرام ہوتے ہی اصل کے سوا تمام قسم کا سود وصول کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور عملاً معاف کردیا گیا۔ از راہ کرم جواب اخبار “جنگ” کے کالم “آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں عنایت فرمادیں تاکہ دیگر علمائے کرام کو بھی رائے زنی کا موقع ملے۔ نیز کیونکہ معاملہ حکومتِ وقت سے متعلق ہے، اس لئے موٴدّبانہ عرض ہے کہ جواب للہ کسی ایسی تأویل و توجیہ سے پاک ہو جو اُصولِ مُسلّمہ کے خلاف ہو، اللہ تعالیٰ جناب کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔

ج… پنشن کی حیثیت ایک لحاظ سے عطیہ کی ہے، اس لئے جو معاملہ پنشنر اور حکومت کے درمیان طے ہوجائے وہ صحیح ہے، یہ جوأ اور قمار نہیں۔

بچوں کے نسب کی تبدیلی

س… ۱۹۷۶ء میں میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا تھا، اس کے دو بچے تھے، بھائی کے انتقال کے وقت بڑے لڑکے کی عمر ۳ سال تھی اور چھوٹے کی عمر ایک سال تھی، ان دنوں میں کراچی میں سروِس کر رہا تھا، بھائی کے انتقال کے بعد میں نے اپنے والدین کی رضامندی سے تقریباً ڈھائی سال کے بعد اپنی بھابھی سے شادی کرلی، اس وقت بڑے لڑکے کی عمر تقریبا چار سال تھی۔ میرے دونوں بھتیجے مجھے ابو ہی کہتے ہیں اور میں انہیں ان کے والد کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ میں شادی کے چھ مہینے بعد بچوں کو کراچی لے آیا تھا، پھر میں نے انہیں اسکول میں داخل کروادیا تھا، بچوں کے والد کے نام کی جگہ میں نے اپنے نام کو شامل کیا تھا، یعنی اپنا نام درج کروادیا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ بچوں کو میں ان کے والدین کے متعلق اس وقت تک نہ بتاوٴں جب تک وہ سمجھدار نہ ہوجائیں ابھی میں اس لئے نہیں بتا رہا ہوں کہ کہیں وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوجائیں۔ اب اللہ کے فضل و کرم سے میرے بھی دو بچے ہیں لیکن میں اپنے بچوں سے زیادہ بھائی کے بچوں کو عزیز رکھتا ہوں۔ آپ از راہ کرم مہربانی کرکے اسلامی رُو سے مجھے بتائیے کہ میں نے جو بھائی کے نام کی جگہ بچوں کے اسکول میں اپنی ولدیت لکھوائی ہے دُرست ہے یا غلط؟

ج… اگرچہ بچوں کی مصلحت کے لئے آپ نے ایسا کیا تھا، لیکن بچوں کے نسب کو یکسر بدل دینا گناہ ہے، جائز نہیں۔ ان بچوں کی ولدیت ان کے باپ ہی کی لکھوانی چاہئے۔

مقدس اسمائے مبارکہ

س… اخبارات، رسائل وغیرہ میں قرآنی آیت اور اللہ تعالیٰ کے نام لکھتے ہیں جو کہ ردّی اخبار کی صورت میں زمین پر پڑے رہتے ہیں، بعض اوقات ایسی خستہ حالت اور گندگی میں پڑے ہوتے ہیں کہ اُٹھانے کو بھی دِل نہیں چاہتا، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر ایسے نام مثلاً: عبدالرحمن وغیرہ لکھے ہوں تو انہیں مٹادینا کافی ہے۔

ج… ایسے مقدس اسمائے مبارکہ جہاں ملیں ان کو حفاظت سے رکھ دیا جائے اور بعد میں دریا برد کردیا جائے۔

افسران کی وجہ سے غلط رپورٹ پر دستخط کرنا

س… ہم جہاں کام کرتے ہیں وہاں انسانی جانوں کے تحفظ کا مسئلہ پیش پیش ہوتا ہے، اور جب ہم ان کی صحیح رپورٹ اپنے افسر کو دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ انسانوں کے لئے مضرِ صحت ہے اور بڑے افسرانِ بالا کو مطلع کردیا جائے، لیکن اس کے برعکس ہمارا اُوپر کا افسر اس رپورٹ کو ایک طرف رکھ کر اپنی طرف سے غلط رپورٹ بناکر ہم سے دستخط لے لیتا ہے اور اس کو افسرانِ بالا کو بھجوادیتا ہے، صرف ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ عرصے سے یہ ہو رہا ہے، کیا یہ گناہ ہے؟ اگر ہے تو اس سے کیسے نجات مل سکتی ہے؟ جبکہ ہمارے افسر کے ہاتھ ہماری سالانہ رپورٹ ہے، اگر ہم انکار کرتے ہیں تو ہماری نوکری کو داغ لگنے کا خطرہ ہے۔

ج… آپ کے افسر کا غلط رپورٹ دینا تین گناہوں کا مجموعہ ہے، جھوٹ، فرضِ منصبی میں خیانت، بددیانتی اور انسانی صحت سے کھیلنا اور آپ لوگوں کا نوکری کی خاطر اس کی غلط رپورٹ پر دستخط کرنا خود کو ان گناہوں میں ملوّث کرنا ہے۔ اس کی تدبیر یہ ہوسکتی ہے کہ اپنا نام و نشان بتائے بغیر اس افسر کی بددیانتی کی شکایت صدرِ محترم، گورنر صاحب، تمام افسرانِ بالا تک پہنچائی جائے۔ نیز قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران اور معاشرے کے دیگر موٴثر افراد کے علم میں یہ بات لائی جائے، اس کے بعد بھی اگر افسرانِ بالا اس پر توجہ نہیں کریں گے تو وبال ان پر ہوگا، اور آپ موٴاخذہ سے بری الذمہ ہوں گے۔ ہر محکمے میں اگر ماتحت لوگ اپنے افسران کی غلط روی کی نشاندہی کریں تو میرا اندازہ ہے کہ سرکاری مشینری کی بڑی اصلاح ہوسکتی ہے۔ خیانت و بددیانتی کو پنپنے کا موقع اس لئے ملتا ہے کہ ماتحت ملازمین اپنی نوکری کی فکر میں افسران کی خیانت و بددیانتی سے مصالحت کرلیتے ہیں۔

کسی پر بغیر تحقیق کے الزامات لگانا

س… زید نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جس کی ایک لڑکی بھی ہے، جس کی عمر تقریباً ۱۳ سال ہے، نکاح کے تقریباً ۴ ماہ بعد کچھ ایسے واقعات رُونما ہوئے جس کی وجہ سے زید نے اس عورت کو طلاق دے دی۔ طلاق دینے کے بعد اس نے زید کو مختلف طریقوں سے بدنام کرنا شروع کردیا۔ اس دوران اس عورت نے زید پر الزام لگایا کہ میری لڑکی کہتی ہے کہ زید نے مجھ کو مختلف طریقوں سے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے اور مجھ سے چھیڑ چھاڑ کی ہے اور یہ واقعات اس زمانے کے بیان کرتی ہے جبکہ اس کی ماں زید کے نکاح میں تھی۔ جبکہ زید کہتا ہے کہ یہ الزام قطعاً غلط ہے اور زید کی سابقہ زندگی جس حسن و خوبی سے گزری ہے اس سے عوام الناس بخوبی واقف ہیں۔ اب یہ الزام جو زید پر لگاکر بدنام کیا گیا ہے اس سے لوگوں کو تعجب ہے۔ اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے زید کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور مخالفت کے درپے ہیں۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ بغیر تحقیق یہ الزام جس کا کوئی گواہ بھی نہیں ہے کہاں تک معتبر ہے؟

ج… کسی کو بدنام کرنا، جھوٹے الزامات لگانا، اسی طرح جھوٹے الزامات کو صحیح تسلیم کرلینا اور کسی کی آبرو پر حملہ کرنا سخت گناہ ہے، اور یہ بدترین کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اسلام میں اس قسم کے اُمور کے لئے نہایت سخت اَحکام ہیں، مسلمانوں کو قرآنِ کریم میں ہدایت دی گئی ہے کہ جس امر کی تم کو تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ چلو، لہٰذا لوگوں کا بغیر تحقیق کئے ہوئے زید کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دینا نہایت غلط ہے، زید کو حسبِ سابق اِمام برقرار رکھا جائے۔

گمشدہ چیز کا صدقہ کرنا

س… عرض یہ ہے کہ مجھے ایک عدد گھڑی دفتر کے باتھ رُوم سے ملی ہے، میں نے اس کی اطلاع قریب کے تمام دفتروں میں کردی، قریبی مسجد میں اعلان کروادیا۔ اس کے علاوہ اشتہار لکھ کر مناسب جگہوں پر لگادیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے اور اس کا اصل مالک مل جائے تو اس کی امانت اس کو واپس کردوں۔ اس واقعے کو عرصہ ڈیڑھ ماہ ہوچکا ہے، لیکن اس کا مالک نہیں ملا۔ آپ سے التماس ہے کہ شرعی نقطہٴ نظر سے اس کا حل بتائیں کہ اس گھڑی کا استعمال کیسا ہے؟

ج… اگر اس کے مالک کے ملنے کی توقع نہ ہو تو مالک کی طرف سے صدقہ کردیا جائے، بعد میں اگر مالک مل جائے تو اس کو اختیار ہے کہ وہ اس صدقہ کو جائز رکھے یا آپ سے گھڑی کی قیمت وصول کرے، یہ صدقہ آپ کی طرف سے سمجھا جائے گا۔

دُکان پر چھوڑی ہوئی چیزوں کا کیا کریں؟

س… میری دُکان پر گاہک آتے ہیں، کبھی کبھار کوئی گاہک میری دُکان پر کھانے کی چیزیں جس میں فروٹ وغیرہ شامل ہوتا ہے بھول کر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ آپ سے معلوم کرنا ہے کہ ان چیزوں کا کیا کیا جائے؟

          ۱:… اگر ان چیزوں کو امانتاً رکھ لیا جاتا ہے تو یہ خراب ہوجاتی ہے، زیادہ دیر رکھنے کی وجہ سے۔

          ۲:… کیا کسی غریب کو دینا جائز ہے یا خود رکھ سکتا ہے؟

          ۳:… یا پھر انہیں خراب ہونے دیں؟

ج… ان پھلوں کے خراب ہونے سے پہلے تک تو مالک کا انتظار کیا جائے، جب خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو مالک کی طرف سے کسی محتاج کو دے دئیے جائیں۔ اگر بعد میں مالک آئے تو اس کو صحیح صورت سے آگاہ کردیا جائے، اگر مالک اس صدقہ کو جائز رکھے تو ٹھیک، ورنہ مالک کو ان پھلوں کی قیمت ادا کردیں اور یہ صدقہ آپ کی طرف سے شمار ہوگا۔

گمشدہ بکری کے بچے کو کیا کیا جائے؟

س… کیا فرماتے ہیں علمائے دِین اس مسئلے میں کہ ایک زیر تعمیر پلاٹ پر تقریباً دو ماہ کا ایک بکری کا بچہ نمازِ فجر سے قبل آگیا، جس کو بارہا بھگایا لیکن وہ نہیں گیا۔ اڑوسی پڑوسی سے دریافت کیا، کسی نے اپنا نہیں بتایا۔ اس علاقے کے چرواہے سے دریافت کیا، اس نے بھی انکار کیا، مسجد کے لاوٴڈ اسپیکر سے کہلوایا، مگر کوئی لینے نہیں آیا۔ اب وہ تقریباً دس ماہ کا ہوگیا ہے، از رُوئے شرع کیا قانون لاگو ہوتا ہے؟

ج… اگر تلاش کے باوجود اس بکری کے بچے کا مالک نہیں مل سکا تو اس کا حکم گمشدہ چیز کا ہے کہ مالک کی طرف سے صدقے کی نیت کرکے کسی غریب محتاج کو دے دیا جائے، اگر بالفرض کبھی مالک مل جائے تو اس کو اختیار ہوگا، خواہ اس صدقے کو برقرار رکھے یا آپ سے اس کی قیمت وصول کرلے۔ دُوسری صورت میں یہ صدقہ آپ کی طرف سے ہوجائے گا۔

ساس کو بوسہ دینا

س… میری منگنی ہوچکی ہے، میں اپنی ساس سے اپنی ماں کی طرح محبت کرتا ہوں، اور ماں ہی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں۔ ان کی عمر ۶۰ سال ہے، کیا میں ان کی پیشانی پر بوسہ دے سکتا ہوں؟ کیا شادی کے بعد بوسہ دے سکتا ہوں؟

ج… اگر شہوت کا اندیشہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔

اِنجکشن کے نقصان دینے پر دُوسرا لگاکر دونوں کے پیسے لینا

س… میرے پاس ایک مریض آیا، جس کو بخار تھا، میں نے اس کو انجکشن لگایا، اتفاق سے وہ انجکشن اس کو موافق نہ آسکا اور اسے اس انجکشن کا رَدِّعمل ہوگیا، میں نے اس مریض کو پہلے انجکشن کا توڑ لگایا، پہلے انجکشن کی قیمت ۲۰ روپے تھی جبکہ دُوسرے انجکشن کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔ آنجناب سے دریافت یہ کرنا ہے کہ ۲۰ روپے لوں یا دونوں انجکشن کی قیمت جو ۱۲۰ روپے بنتی ہے؟

ج… اگر آپ مستند ڈاکٹر صاحب ہیں اور آپ نے پہلا انجکشن لگانے میں کسی غفلت و کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا، تو آپ کے لئے دونوں کے پیسے وصول کرلینا جائز ہے، اور اگر آپ مستند معالج نہیں، یا آپ نے غفلت و کوتاہی کا ارتکاب کیا، تو دونوں کی رقم آپ کے لئے حلال نہیں۔

میاں بیوی کا ایک دُوسرے کے مخصوص اعضاء دیکھنا

س… جماع کے وقت بیوی کا تمام بدن، مقامِ خاص اور دُوسرے اعضاء دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… میاں بیوی کا ایک دُوسرے کے بدن کو دیکھنا جائز ہے، لیکن بے ضرورت دیکھنا اچھا نہیں۔

بیوی کے پستان چوسنا

س… ایک شوہر اپنی بیوی کی چھاتی چوستا ہے تو اس میں سے پانی نکلتا ہے اور وہ تھوک دیتا ہے، جبکہ بیوی حمل سے نہیں ہے۔ کیا یہ فعل ناجائز اور گناہ ہے؟ اگر بیوی حمل سے ہو تو کیا تب بھی گناہ ہوگا؟

ج… منہ لگانا جائز ہے، مگر دُودھ پینا جائز نہیں، بیوی حاملہ ہو یا نہ ہو۔

سورة النساء کی آیت:۳۱ سے عورتوں کے لئے کاروبار کرنے کی اجازت ثابت نہیں ہوتی

س… موٴرخہ ۲۰/جنوری ۱۹۹۲ء کے روزنامہ “جنگ” میں ایک محترمہ نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کے نومنتخب عہدیداران کے استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے سورة النساء کی آیت نمبر:۳۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عورت جو کماتی ہے وہ اس کا حصہ ہے اور مرد جو کماتا ہے وہ اس کا حصہ ہے، لہٰذا عورتوں کو کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ: “مردوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال حصہ ثابت ہے۔” قرآن مجید کے ترجمہ سے کہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں کاروبار اعلانیہ کرسکتی ہیں جبکہ ہر شخص کی طرح عورتوں کو بھی ان کے اعمال کا حصہ ملے گا اور مردوں کو بھی ان کے اعمال کا حصہ ملے گا۔ تو محترمہ نے کاروبار کا مفہوم کہاں سے نکال لیا؟ اس سے قبل ایک مولانا صاحب نے بھی مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کے ریفرنڈم کے زمانے میں خطاب کے دوران اسی قسم کا ترجمہ کیا تھا اور ان کو مرحوم نے مجلسِ شوریٰ کا ممبر نامزد کیا تھا، کیونکہ مرحوم نے بھی اس زمانے میں پاک پتن شریف میں تقریر کرتے ہوئے خواتین کے اجتماع سے خطاب کے دوران یہی ترجمہ کیا تھا کہ عورت کاروبار کرسکتی ہے، جس کی تائید کرنے پر مولانا محترم کو مجلسِ شوریٰ کا ممبر نامزد کیا گیا۔ لہٰذا آپ سے موٴدّبانہ گزارش ہے کہ آپ براہِ کرم مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ کا صحیح ترجمہ شائع فرماکر اُمتِ مسلمہ کو کسی نئے تنازع سے بچائیں۔

ج… یہاں دو مسئلے الگ الگ ہیں۔ اوّل یہ کہ عورت کے لئے کسبِ معاش کا کیا حکم ہے؟ میں اس مسئلے کی وضاحت پہلے بھی کرچکا ہوں کہ اسلام نے بنیادی طور پر کسبِ معاش کا بوجھ مرد کے کندھوں پر ڈالا ہے اور خواتین کے خرچ اخراجات ان کے ذمے ڈالے ہیں، خاص طور پر شادی کے بعد اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔ اور یہ ایک ایسی کھلی ہوئی حقیقت ہے جس پر دلائل پیش کرنا کارِ عبث نظر آتا ہے۔ اِبلیسِ مغرب نے صنفِ نازک پر جو سب سے بڑا ظلم کیا ہے وہ یہ کہ “مساواتِ مرد و زن” کا فسوں پھونک کر عورت کو کسبِ معاش کی گاڑی میں جوت کر مردوں کا بوجھ ان پر ڈال دیا، اور جن حضرات کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ اسی مسلک کے نقیب اور داعی ہیں، اور اس کی وجہ سے جو جو خرابیاں مغربی معاشرے میں رُونما ہوچکی ہیں وہ ایک مسلمان معاشرے کے لئے لائقِ رشک نہیں بلکہ لائقِ شرم ہیں۔ ہاں! بعض صورتوں میں بے چاری عورتوں کو مردوں کا یہ بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے، ایسی عورتوں کا کسبِ معاش پر مجبور ہونا ایک اضطراری حالت ہے اور اپنی عفت و عصمت اور نسوانیت کی حفاظت کرتے ہوئے وہ کوئی شریفانہ ذریعہٴ معاش اختیار کریں تو اس کی اجازت ہے۔

          دُوسرا مسئلہ بیگم صاحبہ کا قرآنِ کریم کی آیت سے استدلال ہے، اس کے بارے میں مختصراً یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ آیتِ شریفہ کا موصوفہ کے دعویٰ کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں بلکہ یہ آیت ان کے دعوے کی نفی کرتی ہے، کیونکہ اس آیت شریف کا نزول بعض خواتین کے اس سوال پر ہوا تھا کہ ان کو مردوں کے برابر کیوں نہیں رکھا گیا؟ مردوں کو میراث کا دُگنا حصہ ملتا ہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع تفسیر “معارف القرآن” میں لکھتے ہیں:

          “ماقبل کی آیتوں میں میراث کے اَحکام گزرے ہیں، ان میں یہ بھی بتلایا جاچکا ہے کہ میّت کے ورثاء میں اگر مرد اور عورت ہو اور میّت کی طرف سے رشتے کی نسبت ایک ہی طرح کی ہو تو مرد کو عورت کی بہ نسبت دُگنا حصہ ملے گا، اسی طرح کے اور فضائل بھی مردوں کے ثابت ہیں۔ حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس پر ایک دفعہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: ہم کو آدھی میراث ملتی ہے اور بھی فلاں، فلاں فرق ہم میں اور مردوں میں ہے۔

          مقصد اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی تمنا تھی کہ اگر ہم لوگ بھی مرد ہوتے تو مردوں کے فضائل ہمیں بھی حاصل ہوجاتے، بعض عورتوں نے یہ تمنا کی کاش! ہم مرد ہوتے تو مردوں کی طرح جہاد میں حصہ لیتے اور جہاد کی فضیلت ہمیں حاصل ہوجاتی۔

          ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مرد کو میراث میں دُگنا حصہ ملتا ہے اور عورت کی شہادت بھی مرد سے نصف ہے، تو کیا عبادات و اعمال میں بھی ہم کو نصف ہی ثواب ملے گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں دونوں قولوں کا جواب دیا گیا ہے، حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قول کا جواب “وَلَا تَتَمَنَّوْا” سے دیا گیا اور اس عورت کے قول کا جواب “لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ” سے دیا گیا۔”

                    (تفسیر معارف القرآن ج:۲ ص:۳۸۸)

          خلاصہ یہ کہ آیت شریفہ میں بتایا گیا کہ مرد و عورت کے خصائص الگ الگ اور ان کی سعی و عمل کا میدان جدا جدا ہے، عورتوں کو مردوں کی اور مردوں کو عورتوں کی ریس کیا؟ اس کی تمنا بھی نہیں کرنی چاہئے۔ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کی اپنی سعی و عمل کا پھل ملے گا، مردوں کو ان کی محنت کا اور عورتوں کو ان کی محنت کا، مرد ہو یا عورت، کسی کو اس کی محنت کے ثمرات سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔

          بیگم صاحبہ نے جو مضمون اس آیت شریفہ سے اخذ کرنا چاہا ہے، وہ یہ ہے کہ مردوں کی دُنیوی کمائی ان کو ملے گی، عورتوں کا اس میں کوئی حق نہیں، اور عورتوں کی محنت مزدوری ان کی ہے، مردوں کا اس میں کوئی حق نہیں۔ اگر یہ مضمون صحیح ہوتا تو دُنیا کی کوئی عدالت بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر نہ ڈالا کرتی اور عدالتوں ں میں نان و نفقہ کے جتنے کیس دائر ہیں ان سب کو یہ کہہ کر خارج کردینا چاہئے کہ محترمہ کی تفسیر کے مطابق مرد کی کمائی مرد کے لئے ہے، عورت کا اس میں کوئی حق نہیں۔ استغفراللہ! تعجب ہے کہ ایسی کھلی بات بھی لوگوں کی عقل میں نہیں آتی۔

ایک عبادت کے لئے دُوسری عبادت کا چھوڑنا

س… ایک شخص ہے، وہ اپنے پورے کنبے والدین، بیوی بچوں کی کفالت کرتا ہے اور ہر وقت اسی فکر میں رہتا ہے، جس کے بعد بڑی مشکل سے اس کا گزر اوقات ہوتا ہے، مگر وہ اس کسبِ معاش میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ اس کو نماز وغیرہ کا وقت نہیں ملتا، کیا ایسے شخص کا یہ کسبِ معاش عبادت کے درجے میں نہیں ہوگا؟

ج… یہ شخص اگر کسبِ معاش اس لئے کرتا ہے کہ اس کو خدائے تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے والدین اور اولاد کے لئے رزقِ حلال کی کوشش کرو، اور واقعی رزقِ حلال کے لئے کوشش کرتا ہے تو واقعی وہ عبادت میں مصروف ہے، کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص روزی اس لئے کماتا ہے کہ اپنے بال بچوں کی پروَرِش کرے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور اسے خدائے تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو وہ شخص ہر وقت عبادت میں مصروف ہے اور اس کی یہ کمائی بھی عبادت کے درجے میں ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دُوسرے فرائض سے غافل ہوجائے، جس طرح والد کی خدمت کرنے والا اور والدہ کی خدمت نہ کرنے والا قابلِ موٴاخذہ ہے، ایک اولاد کی پروَرِش کرنے والا اور دُوسری اولاد کی پروَرِش نہ کرنے والا قابلِ موٴاخذہ ہے، اس کی مثال بالکل اس طرح ہوگی کہ ایک شخص کسی جگہ نوکری کرتا ہے اور اس کے ذمہ دو کام لگائے جاتے ہیں، اب اگر وہ ایک کام میں اتنا منہمک ہوجائے کہ دُوسرے کام سے جاتا رہے تو ایسے شخص کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی نوکری کے فرائض پورے کر رہا ہے، بلکہ اس کو نوکری سے جواب مل جائے گا۔ اسی طرح خدائے تعالیٰ نے فرائض مقرّر کئے ہیں، اب جو شخص جس جس فرض کو پورا کرے گا تو اس کو اس فرض کی ادائیگی کا ثواب ملے گا، اور اگر ایک فرض میں بھی کوتاہی کرے گا تو وہ اس فرض کے سلسلے میں پکڑا جائے گا اور اس کو اس جرم کی سزا دی جائے گی۔ کسی ایک فرض کی ادائیگی سے دُوسرے فرض سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا۔

قرآن، خدا اور رسول کا واسطہ نہ ماننا

س… اگر کسی شخص کو خدا، رسول اور قرآن کا واسطہ دیا جائے، مگر وہ پھر بھی نہ مانے تو کیا گناہ ہوتا ہے؟

ج… ایسا شخص گنہگار ہی نہیں سنگ دِل بھی ہے۔

خبروں سے پہلے ریڈیو پر دُرود پڑھنا کیسا ہے؟

س… آج کل صبح روزانہ ریڈیو پاکستان سے خبروں سے قبل دُرود شریف پڑھا جاتا ہے، لیکن ترنم سے اس کا کیا جواز ہے؟ کیا ایسی کوئی نظیر ہے یا اکابرین میں سے کسی نے ایسا کیا ہے؟

ج… درسِ حدیث سے پہلے دُرود شریف پڑھنا تو اکابر کا معمول دیکھا۔ شاید “خبروں کے درس” کو بھی درسِ حدیث پر قیاس کرلیا ہوگا، لیکن اس کے لئے صنفِ نازک اور ترنم کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ ہماری عقل و فہم سے اُونچی چیز ہے۔

غیرمسلم کے مرنے پر “اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” پڑھنا

س… جس طرح انسان مسلمان کے مرنے پر “اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” دُعائیہ کلمات پڑھتے ہیں، کیا دُعائیہ کلمات غیرمسلم کے مرنے پر پڑھ سکتا ہے؟ کوئی شخص یہ کہے کہ: “یہ دُعا ہر شخص کے لئے پڑھی جاسکتی ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، کوئی یہ کہے کہ میں اس چیز کو نہیں مانتا کہ یہ دُعا صرف مسلم کے لئے ہی پڑھی جائے” اس کے ایمان کی کیا حالت ہوگی؟ اس کا جواب حدیث کی رُو سے یعنی حدیث کے تحت دیا جائے۔

ج… میرے علم میں نہیں کہ کسی کافر کی موت پر “اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” پڑھی گئی ہو، قرآنِ کریم میں اس دُعا کا پڑھنا مصیبت کے وقت بتایا گیا ہے، اگر کوئی شخص کسی غیرمسلم کے مرنے کو بھی اپنے حق میں مصیبت سمجھتا ہے تب تو واقعی اس دُعا کو پڑے گا، مگر حدیث شریف میں تو یہ ہے کہ فاجر کے مرنے سے اللہ کی زمین اور اللہ کے بندے راحت پاتے ہیں۔

زَبور، تورات، اِنجیل کا مطالعہ کس کے لئے جائز ہے؟

س… میں عرصہ دراز سے ایک مسئلے میں اُلجھا ہوا ہوں اور وہ یہ کہ کیا اس نیت سے زَبور، تورات یا اِنجیل کا مطالعہ کرنا دُرست ہے کہ اس سے اسلام کی حقانیت معلوم ہوجائے۔ یا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ دُوسرے مذاہب اور اسلام میں کیا فرق ہے؟ ان کے پڑھنے سے یہ مقصود ہو کہ قرآن کسی قوم یا معاشرے کی کس طرح اور کن اُصولوں پر تشکیل کرنے کا حکم دیتا ہے اور دُوسری مقدس کتابیں کسی معاشرے کو تشکیل دینے میں کیا اُصول دیتی ہیں اور دونوں کے کیا فوائد ہیں؟

          میرے ایک دوست نے کہا کہ: “دیکھو بھائی! جب تک ہم زَبور، اِنجیل اور تورات وغیرہ کا مطالعہ نہیں کریں گے، ہم کس طرح یہ ثابت کرسکیں گے کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے اور دُوسرے مذاہب میں فلاں فلاں کوتاہیاں ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ پہلے اسلام کا کچھ مطالعہ رکھتے ہوں، پھر ان کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ واقعی ان کتابوں میں رَدّ و بدل ہوچکا ہے۔” اگر میرے دوست کی بات صحیح مان لی جائے تو پھر وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب شاید تورات پڑھ رہے تھے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصّے سے لال ہوگیا کا واقعہ کس طرف جائے گا؟

          میں نے ایک مولوی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ تورات وغیرہ کا مطالعہ صرف علمائے کرام کو جائز ہے، کیونکہ ان کا اسلام کے بارے میں کافی مطالعہ ہوتا ہے، مگر آج کل کے علمائے کرام تو فرقہ پرستی کے اندھیرے گڑھے میں گرچکے ہیں، خدا سے دُعا ہے کہ تمام مسلمان علماء فرقہ پرستی سے باہر نکلیں اور آپس میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں۔

ج۱:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ آپ نے ذکر کیا ہے، مشکوٰة ص:۳۰ پر مسند احمد اور شعب الایمان بیہقی کے حوالے سے، اور ص:۳۲ پر دارمی کے حوالے سے مذکور ہے۔ مجمع الزوائد (ج:۱ ص:۱۷۳) میں اس واقعے کی متعدّد روایات موجود ہیں:

          “عن جابر عن النبی صلی الله علیہ وسلم حین اتاہ عمر فقال: انا نسمع احادیث من یھود تعجبنا افتری ان نکتب بعضھا، فقال: امتھوکون انتم کما تھوکت الیھود والنصاریٰ؟ لقد جئتکم بھا بیضاء نقیة ولو کان موسٰی حیًّا ما وسعہ الا اتباعی۔ رواہ احمد والبیھقی فی شعب الایمان۔”         (مشکوٰة ص:۳۰)

          ۲:… اس حدیث کے پیشِ نظر مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت (جو کامل و مکمل ہے) کے بعد یہود و نصاریٰ کی کتابوں کے مطالعے اور ان سے استفادے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ یہ چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عتاب اور ناراضی کی موجب ہے۔

          ۳:… خط کے شروع میں ان کتابوں کے مطالعے کے جو مقاصد بیان کئے گئے ہیں، وہ معتدبہ نہیں، اور پھر ہر شخص اس کا اہل بھی نہیں، چونکہ مسائل کی علمی استعداد کے بارے میں ہمیں علم نہیں، اس لئے اس کو ان مقاصد کے لئے ان کتابوں کے مطالعے کا مشورہ نہیں دیا جاسکتا۔

          ۴:… اہلِ کتاب کو جواب و الزام کا جو مقصد “دوست” نے بیان کیا، وہ اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن یہ عوام کا کام نہیں، بلکہ اہلِ علم میں سے بھی صرف ان حضرات کا کام ہے جو فنِ مباحثہ و مناظرہ میں ماہر ہوں، دُوسرے لوگوں کو یہ چاہئے کہ ایسے موقع پر ایسے اہلِ علم سے رُجوع کریں۔

          ۵:… مولوی صاحب نے جو بات کہی وہ صحیح ہے، لیکن اس موقع پر فرقہ پرستی کا قصہ چھیڑنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عیسائیت کے موضوع پر ایسے ماہرین اہلِ علم موجود ہیں جو اس کام کو خوش اُسلوبی سے کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے فرضِ کفایہ بجا لارہے ہیں۔

          ۶:… جو اہلِ علم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ ان سے استفادے کے لئے نہیں کرتے، اس لئے حدیثِ مذکور کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا۔

          ۷:… پی ایچ ڈی کرنے والے حضرات بھی اگر اسلام کے اُصول و فروع سے بخوبی واقف ہوں اور ان کا مقصد کتبِ سابقہ سے استفادہ نہ ہو تو ان کا بھی وہی حکم ہے جو جواب نمبر۶ میں لکھا گیا ہے۔

          ان نکات میں آپ کے تمام خدشات کا جواب آگیا۔

          ۸:… آخر میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ اس موضوع پر بصیرت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی کتاب “اظہار الحق” کا مطالعہ فرمائیں۔ اصل کتاب عربی میں ہے اس کا اُردو ترجمہ “بائبل سے قرآن تک” کے نام سے دارالعلوم کراچی کی طرف سے تین جلدوں میں شائع ہوچکا ہے۔

عورت کا عورت کو بوسہ دینا

س… محترم کی خدمت میں اس سے پہلے بھی یہ سوال پوچھ چکی ہوں کہ کیا اسلام میں دوست کی کِس (Kiss) (بوسہ لینا) لینا جائز ہے یا ناجائز؟ مگر جناب نے میری اس بات کا کوئی نوٹس ہی نہ لیا، کیا وجہ ہے؟ کیا ہماری اس پریشانی کو حل نہیں کرسکتے؟ پلیز جلد از جلد میرے اس سوال کا جواب دیں، کیونکہ ہم جب بھی دو دوست آپس میں Kissکرنے لگتی ہیں تو فوراً اس عمل سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے حالانکہ قرآن و حدیث کی رُو سے تو ایک دُوسرے کو پاک بوسہ دینا چاہئے۔

ج… مرد کا مرد کو اور عورت کا عورت کو بوسہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ شہوت اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔                                                        (در مختار)

پردے کی مخالفت کرنے والے والدین کا حکم ماننا

س… میرے والدین پردہ کرنے کے خلاف ہیں، میں کیا کروں؟

ج… اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے پردگی کے خلاف ہیں، آپ کے والدین کا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ ہے، آپ کو چاہئے کہ اس مقابلے میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں۔ والدین اگر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے جہنم میں جانا چاہتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ نہ جائیں۔

کیا فقہِ حنفی کی رُو سے چار چیزوں کی شراب جائز ہے؟

س… چونکہ ہماری فقہ شریف (فقہِ حنفیہ) میں چار قسم کی شراب حلال ہے، ہدایہ شریف کتاب الاشربہ میں حضرت الامام الاعظم ابوحنیفہ نے گیہوں، جو، جوار اور شہد کی شراب حلال لکھی ہے اور اس کے پینے والے پر اگر نشہ بھی ہوجائے تو اس کی حد نہیں۔

          ہم نے ایک کمپنی قائم کی ہے، جس کا نام “حنفی وائن اسٹور” رکھا ہے، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر اس میں بیئر، وہسکی، برانڈی اور شمپیٴن فروخت کریں تو یہ جائز ہوگا یا نہیں؟

ج… فقہِ حنفی میں فتویٰ اس پر ہے کہ ہر نشہ آور شراب حرام ہے، نجس ہے اور قابلِ حد ہے۔                                           (شامی ج:۶ ص:۴۵۵ طبع جدید)

وڈیو گیمز کی دُکان میں قرآن کا فریم لگانا

س… وڈیو گیمز کی ایک دُکان میں تیز میوزک کی آواز، نیم عریاں تصویریں دیواروں پر لگی ہوئیں، جدید دور کے ترجمان لڑکے اور لڑکیاں گیمز کھیلنے میں مصروف اور کھلے ہوئے قرآن کا فریم لگا ہوا۔ دُکان کے مالک لڑکے سے کہا کہ یہ قرآن کی بے حرمتی ہے کہ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے تم نے اس کا فریم بھی لگایا ہوا ہے۔ کہنے لگا کہ: “یہ ان تمام چیزوں سے اُوپر ہے” پوچھا: کیوں لگایا؟ بولا: “برکت کے لئے!” اس سے پہلے کہ میں کوئی قدم اُٹھاوٴں آپ سے عرض ہے کہ کیا ایسے مقامات پر قرآن یا اس کی آیات کا لگانا جائز ہے؟ اگر یہ بے حرمتی ہے تو مسلمان کی حیثیت سے ہماری کیا ذمہ داری ہوگی؟ کیونکہ یہ چیزیں اب اکثر جگہوں پر دیکھی جاتی ہیں۔

ج… ناجائز کاروبار میں “برکت” کے لئے قرآن مجید کی آیات لگانا بلاشبہ قرآنِ کریم کی بے حرمتی ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے تو ہمارا فرض یہ ہے کہ ایسے گندے اور حیاسوز کاروبار ہی کو رہنے نہ دیا جائے۔ جس گلی، جس محلے میں ایسی دُکان ہو، لوگ اس کو برداشت نہ کریں۔ قرآنِ کریم کی اس بے حرمتی کو برداشت کرنا تو پورے معاشرے کے لئے اللہ تعالیٰ کے قہر کو دعوت دینا ہے․․․!

امتحان میں نقل کروانے والا اُستاذ بھی گناہگار ہوگا

س… آج کل کے امتحانات سے ہر ایک بخوبی واقف ہے، امتحانات میں ٹیچر دو قسم کے ہوتے ہیں، پہلا وہ جو اپنے فرض کو بخوبی انجام دیتا ہے اور طالب علموں کو نقل سے روکتا ہے۔ دُوسرا وہ جو اپنے فرض کو کوتاہی سے ادا کرتا ہے اور طالب علموں کو نقل کرنے سے نہیں روکتا اور خود یہ کہتا ہے کہ: “ایک دُوسرے کی مدد کرو” وہ خود دروازے پر کھڑا ہوجاتا ہے اور جب کوئی چیک کرنے آتا ہے تو طالب علموں کو خبردار کرتا ہے۔ جو ٹیچر طلباء کو روکتا ہے تو وہ طالب علم اس کے دُشمن ہوجاتے ہیں اور جب ٹیچر باہر نکلتا ہے تو اسے اذیت پہنچاتے ہیں۔ اس صورت میں اس ٹیچر کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے؟ کیا وہ بھی دُوسرے ٹیچروں کی طرح ہوجائے؟ دُوسرا ٹیچر جو اپنے فرض کو صحیح طرح ادا نہیں کرتا، کیا وہ گناہ کا مرتکب نہیں ہوگا؟ کیا طالب علم دونوں صورتوں میں گناہگار ہوتا ہے؟ اس صورت میں تو طالب علم گناہگار ہوتا ہوگا کہ اسے نقل سے روکا جائے اور جب بھی وہ نقل کرے، لیکن کیا اس صورت میں بھی گناہگار ہوتا ہے کہ جب ٹیچر خود نقل کرنے کی اجازت دے دیں؟

ج… امتحان میں نقل کرنا خیانت اور گناہ ہے، اگر اُستاذ کی اجازت سے ہو تو اُستاذ اور طالب علم دونوں خائن اور گناہگار ہوں گے، اور اگر اُستاذ کی اجازت کے بغیر ہے تو صرف طالب علم ہی خائن ہوں گے۔

صرف اپنا دِل بہلانے کے لئے شعر پڑھنا

س… آپ کے کالم میں میں نے پڑھا تھا کہ ایسی شاعری جس سے کسی کے جذبات اُبھریں، منع ہے، لیکن اگر بالفرض میں شاعری کروں صرف جذبات کی آگ بجھانے کے لئے اور وہ اشعار صرف میرے پاس رہیں، کوئی اور انہیں نہ پڑھ سکے، صرف اپنے لئے اشعار لکھے جائیں تو ایسی صورت میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟

ج… حق تعالیٰ شانہ کی حمد و ثنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ جمیلہ اور اخلاقِ عالیہ پر مشتمل شعر کہہ لیا کریں، اسی طرح عقل و دانش اور علم و حکمت کے اشعار کی بھی اجازت ہے، اس کے علاوہ شعر و شاعری فضول ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا سینہ شعروں سے بھرا ہوا ہو۔

شعائرِ اسلام کی توہین اور اس کی سزا

س… اسلام آباد میں گزشتہ دنوں دو روزہ بین الاقوامی سیرت کانفرنس برائے خواتین منعقد ہوئی، جس میں عالمِ اسلام کی جید عالمِ دِین خواتین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں جہاں اسلام کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے کام ہوا وہاں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ ٹیلی ویژن کی ایک ادیبہ نے کہا کہ: “مردوں میں کوئی نہ کوئی کجی رکھی گئی ہے، یہ قدرت کی مصلحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹا نہیں تھا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے باپ نہیں۔”

(بحوالہ رپورٹ روزنامہ “جسارت” صفحہ نمبر:۲ موٴرخہ ۲۴/دسمبر ۱۹۸۶ء)

          آپ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیے کہ ایسا کیوں تھا؟ اور ایک اسلامی حکومت میں ایسی خواتین کے لئے کیا سزا ہے؟ برائے کرم آپ اخبار “جنگ” کے توسط سے جواب دیجئے تاکہ عام مسلمان بھی فائدہ اُٹھاسکیں۔

ج… حدیث شریف میں ہے کہ: “عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور اس کو سیدھا کرنا ممکن نہیں، اگر اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو ٹوٹ جائے گی اور اس کا ٹوٹنا طلاق ہے۔”                      (مشکوٰة شریف ص:۲۸۰)

          ادیبہ صاحبہ نے (جو شاید اس اجتماع کے شرکاء میں سب سے بڑی عالمِ دِین کی حیثیت میں پیش ہوئی تھیں) اپنے اس مصرعے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد کے مقابلے کی کوشش کی ہے۔

          ادیبہ کی عقل و دانش کا عالم یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادوں کے عمر نہ پانے کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو نقص اور کجی سے تعبیر کرتی ہیں، اِنَّا ِللهِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ! حالانکہ اہلِ فہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں نقص نہیں، کمال ہیں، جس کی تشریح کا یہ موقع نہیں۔

          رہا یہ کہ ایک اسلامی حکومت میں ایسی دریدہ دہن عورتوں کی کیا سزا ہے؟ اس کی سزا تو خود “اسلامی حکومت” نے تجویز کردی ہے کہ اس محترمہ کو ٹیلی ویژن کی ادیبہ بنادیا ہے، کسی پردہ نشین کے لئے اس سے بڑھ کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ ٹی وی کی اسکرین پر اپنی آبرو کی عام نمائش کرانے پر مجبور ہو۔

استمنیٰ بالید کی شرعی حیثیت

س… کراچی ہسپتال لمیٹڈ، جس کے بانیٴ اعلیٰ ڈاکٹر سیّد مبین اختر ہیں، کا جریدہ “نوجوانوں کے جنسی مسائل” اتفاقاً میرے ہاتھ لگ گیا، اس کے مطالعے کے دوران میری نظر سے چند ایسی باتیں گزریں جن کے متعلق انہوں نے حضرت اِمام مالک، اِمام شافعی، اِمام ابوحنیفہ اور اِمام احمد کے فتاویٰ کا حوالہ اور حدیثوں کا ذکر کیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ حضور پُرنور، محبوبِ خدا، نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق بھی ظاہر کیا ہے، اس لئے میں ان باتوں کی شرعی حیثیت اور تصدیق چاہتا ہوں، کیونکہ میرے ناقص علم کے مطابق ان کا بیان غلط اور گمراہ کن ہے۔

          میں اس جریدے کے متعلقہ صفحات کی تصویری نقول ہمرشتہ ہذا کر رہا ہوں تاکہ خود مطالعہ فرماکر مجھے جواب سے جلد سرفراز فرمائیں۔

          صفحہ:۱۱ پر “اسلام میں مشت زنی” کے عنوان کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

          “اِمام ابوحنیفہ کا یہ خیال ہے کہ کسی بڑے گناہ سے بچنے کے لئے شدّتِ جذبات میں یہ ہوجائے تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے گا۔ اِمام احمد بن حنبل کے خیال میں مشت زنی بالکل حلال ہے اور جائز، اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔”

          کیا ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان دُرست ہے؟ اگر دُرست ہے تو حوالے کی کتب وغیرہ کے نام سے مطلع فرمائیں۔

          جریدے کے صفحہ:۱۶ پر ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:

          “اسلام میں تو بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خود تو بارہ بیویاں تھیں اور یہ حدیثوں میں مذکور ہے کہ بسااوقات ایک ہی رات میں وہ سب بیویوں سے مباشرت کرلیتے تھے، اگر یہ اتنا نقصان دہ عمل ہوتا تو یقینا دِینِ فطرت نہ اتنی بیویوں کی اجازت دیتا اور نہ اس قسم کے عمل کی اجازت ہوتی۔”

          کیا ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد دُرست ہے؟ ایسا کن احادیث میں مذکور ہے؟ دُرست ہونے کی صورت میں حدیثوں سے مطلع فرمائیں۔

          اسی صفحے کے کالم دو کی آخری سطور اور کالم تین میں ڈاکٹر موصوف نے فرمایا ہے کہ:

          “مباشرت سے پہلے عضو سے منی کے قطرے رِستے ہیں۔ حدیثوں میں بھی اس کا ذکر آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کروایا کہ اس کو پاک کیسے کرنا چاہئے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اگر منی رِسنا شروع کردے اور زور سے نہ نکلے جیسا کہ مباشرت میں نکلتی ہے تو صرف عضو کا دھو دینا کافی ہوتا ہے، اور اگر زور سے نکلے جیسا کہ مباشرت میں نکلتی ہے یا احتلام میں نکلتی ہے تو پھر غسل ضروری ہے۔”

          کیا حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم فرمایا تھا؟ یہ حکم کن احادیث میں مذکور ہے؟ احادیث اور اَحکامِ شرعیہ سے مطلع فرمائیں تاکہ تسلی ہو اور دِینی معلومات میں اضافہ ہو۔ بے حد مشکور و ممنون ہوں گا۔

          اگر ڈاکٹر صاحب موصوف کے بیانات غلط اور اَحکاماتِ شرعیہ کے خلاف ہیں تو برائے مہربانی مطلع فرمائیں۔

ج… ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں نوجوانوں کی غلط رہنمائی کی گئی ہے۔ آج کل نوجوان ویسے بھی بہت سے جنسی امراض میں مبتلا ہیں، اگر انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے غلط مشوروں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا شروع کردیا، پھر تو ان کی صحت و کردار کا خدا ہی حافظ ہے۔

          ڈاکٹر صاحب نے مشت زنی کے بارے میں اعتراف کیا ہے کہ اِمام مالک و اِمام شافعی اس کو حرام اور گناہ سمجھتے ہیں، لیکن موصوف نے اِمام ابوحنیفہ اور اِمام احمد کی طرف جو جواز کا قول منسوب کیا ہے، غلط ہے۔ یہ فعلِ قبیح اَئمہ اَربعہ کے نزدیک حرام ہے، یہاں میں فقہائے اَربعہ کے مذاہب کی کتابوں کے حوالے درج کردیتا ہوں۔

          فقہِ حنبلی:… اِمام موفق الدین عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ مقدسی (المتوفی ۶۲۰ھ) “المغنی” شرح مختصر خرقی میں لکھتے ہیں:

          “ولو استمنٰی بیدہ فقد فعل محرّمًا، ولا یفسد صومہ بہ الا ان ینزل، فان نزل فسد صومہ۔”

                    (المغنی مع الشرح الکبیر ج:۳ ص:۴۸)

          ترجمہ:… “اگر کسی نے اپنے ہاتھ سے منی خارج کی تو اس نے حرام کا ارتکاب کیا، اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اِلَّا یہ کہ اِنزال ہوجائے، اگر اِنزال ہوجائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔”

          اِمام شمس الدین ابو الفرج عبدالرحمن بن ابی عمر محمد بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی (المتوفی ۶۸۲ھ) الشرح الکبیر میں لکھتے ہیں:

          “ولو استمنٰی بیدہ فقد فعل محرّمًا، ولا یفسد صومہ بمجردہ، فان انزل فسد صومہ۔”

                              (حوالہ بالا ج:۳ ص:۳۹)

          ترجمہ:… “اور اگر کسی نے اپنے ہاتھ سے منی خارج کی تو اس نے حرام کا ارتکاب کیا اور اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، لیکن اگر اِنزال ہوگیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔”

          دونوں عبارتوں کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے ہاتھ سے مادّہٴ منویہ خارج کرنے کی کوشش کی اس نے فعلِ حرام کا ارتکاب کیا، اگر اِنزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اگر اِنزال نہیں ہوا تو روزہ فاسد نہیں ہوا، یہ دونوں اِمام احمد بن حنبل کے مذہب کی مستند کتابیں ہیں، اور ان میں اس فعل کے حرام ہونے کی تصریح کی گئی ہے، جواز کا قول سرے سے نقل ہی نہیں کیا۔ بعض حضرات نے اِمام احمد بن حنبل سے جواز کا جو قول نقل کیا ہے (اور جس سے ڈاکٹر صاحب کو دھوکا ہوا ہے) یا تو اس کی نقل میں غلطی ہوئی ہے، یا ممکن ہے کہ پہلے ان کا قول جواز کا ہو، بعد میں اس سے رُجوع کرلیا ہو۔ بہرحال اِمام احمد بن حنبل کا مذہب وہی سمجھا جائے گا جو ان کی مستند کتابوں میں نقل کیا گیا ہے۔

          فقہِ شافعی:… اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن علی بن یوسف الشیرازی الشافعی (المتوفی ۴۷۶ھ) “المہذب” میں لکھتے ہیں:

          “ویحرم الاستمناء لقولہ عزّ وجلّ: “وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ” ولأنھا مباشرة تفضی الی قطع النسل فحرم کاللواط، فان فعل عزّر ولم یحد ․․․․ الخ۔”                           (شرح مہذب ج:۲۰ ص:۳۱)

          ترجمہ:… “اور مشت زنی حرام ہے، کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھنے والے ہیں، لیکن اپنی بیویوں سے یا شرعی لونڈیوں سے، کیونکہ ان پر کوئی الزام نہیں” اور نیز اس لئے کہ یہ ایسی مباشرت ہے جس کا انجام قطعِ نسل ہے، اس لئے لواطت کی طرح یہ بھی حرام ہے، پس اگر کسی نے یہ فعل کیا تو اس پر تعزیر لگے گی، حد جاری نہیں ہوگی۔”

          فقہِ مالکی:… اِمام ابوبکر محمد بن عبداللہ المعروف بہ ابن العربی المالکی (المتوفی ۵۴۳ھ) “اَحکام القرآن” میں لکھتے ہیں:

          “قال محمد بن عبدالحکم: سمعت حرملة بن عبدالعزیز قال: سئلت مالکًا عن الرجل یجلد عمیرة، فتلا ھٰذہ الاٰیة: “وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ، فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ۔” (الموٴمنون:۵ – ۷) وعامة العلماء علٰی تحریمہ وھو الحق الذی لا ینبغی ان یدان الله الا بہ۔”

(اَحکام القرآن ابنِ عربی ج:۳ ص:۱۳۱۰، الجامع لاحکام القرآن، قرطبی ج:۱۲ ص:۱۰۵)

          ترجمہ:… “محمد بن الحکم کہتے ہیں: میں نے حرملہ بن عبدالعزیز سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ: میں نے اِمام مالک سے مشت زنی کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: “اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھنے والے ہیں، لیکن اپنی بیویوں یا شرعی لونڈیوں سے، کیونکہ ان پر کوئی الزام نہیں، ہاں! جو اس کے علاوہ کا طلب گار ہو ایسے لوگ حدِ شرعی سے نکلنے والے ہیں” اور عام علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور یہی وہ حق ہے جس کو اپنے لئے دِینِ خداوندی قرار دینا چاہئے۔”

          فقہِ حنفی:… فقہِ حنفی کے مشہور متن درمختار میں ہے:

          “فی الجوھرة: الاستمناء حرام، وفیہ التعزیر۔”

           (ردّ المحتار حاشیہ در مختار ج:۴ ص:۲۷ کتاب الحدود)

          ترجمہ:… “جوہرہ میں ہے کہ: مشت زنی حرام ہے، اور اس میں تعزیر لازم ہے۔”

          علامہ ابنِ عابدین شامی اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:

          “قولہ: الاستمناء حرام، ای بالکف اذا کان لاستجلاب الشھوة۔ اما اذا غلبت الشھوة ولیس لہ زوجة ولا أمَة ففعل ذٰلک لتسکینھا فالرجاء انہ لا وبال علیہ، کما قالہ ابو اللیث، ویجب لو خاف الزنا۔”

           (ردّ المحتار حاشیہ در مختار ج:۴ ص:۲۷ کتاب الحدود)

          ترجمہ:… “اپنے ہاتھ سے منی خارج کرنا حرام ہے، جبکہ یہ فعل شہوت لانے کے لئے ہو، لیکن جس صورت میں کہ اس پر شہوت کا غلبہ ہو، اور اس کی بیوی یا لونڈی نہ ہو، اگر وہ شہوت کی تسکین کے لئے ایسا کرلے تو اُمید ہے کہ اس پر وبال نہیں ہوگا، جیسا کہ ابو اللیث نے فرمایا ہے، اور اگر زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسا کرنا واجب ہے۔”

          اس عبارت سے چند باتیں معلوم ہوئیں:

          اوّل:… اگر شہوت کا اس قدر غلبہ ہے کہ کسی طرح سکون نہیں ہوتا اور قضائے شہوت کا صحیح محل بھی موجود نہیں تو اِمام فقیہ ابو اللیث کا قول ہے کہ اگر تسکینِ شہوت کی نیت سے ایسا کرلے تو اُمید رکھنی چاہئے کہ اس پر وبال نہیں ہوگا۔

          یہاں ڈاکٹر صاحب سے دو غلطیاں ہوئیں، ایک یہ کہ یہ اِمام ابوحنیفہ کا قول نہیں، بلکہ بعد کے مشائخ کی تخریج ہے، اس کو اِمام ابوحنیفہ کا قول قرار دینا غلط ہے۔

          دوم:… یہ کہ ڈاکٹر صاحب اس کو عام اجازت سمجھ گئے، حالانکہ یہ ایک خاص حالت کے اعتبار سے ہے۔

          اس کی مثال ایسی ہے کہ رشوت قطعی حرام ہے، لیکن فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر ظالم کو رشوت دے کر اس کے ظلم سے بچا جائے تو اُمید کی جاتی ہے کہ رشوت دینے والے پر موٴاخذہ نہیں ہوگا، اب اگر اس مسئلے سے کوئی شخص یہ کشید کرلے کہ رشوت حلال ہے، بعض صورتوں میں فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے، تو صحیح نہیں ہوگا۔ حرام اپنی جگہ حرام ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص شدید مجبوری کی حالت میں یا اس سے بڑے حرام سے بچنے کے لئے اس کا ارتکاب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہی اُمید رکھنی چاہئے کہ اس کی مجبوری پر نظر فرماتے ہوئے اس سے موٴاخذہ نہیں فرمائیں گے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس کو جواز کی آڑ بناکر نوجوانوں کو اس کی باقاعدہ دعوت دینی شروع کردی۔

          ۲:… ڈاکٹر صاحب کی یہ بات تو صحیح ہے کہ اسلام نے چار تک شادی کرنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ ان کے حقوق ادا کرنے کی صلاحیت رکھے اور عدل و انصاف کے ساتھ حقوق ادا بھی کرے، ورنہ احادیث شریفہ میں اس کا سخت وبال ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد صحیح نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیک وقت بارہ بیویاں تھیں، اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم “بسااوقات” ایک ہی شب میں تمام ازواج سے فارغ ہولیتے تھے۔

          آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی کل تعداد مشہور اور معتمد روایت کے مطابق گیارہ ہے، ان میں حضرت اُمّ الموٴمنین خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال تو مکہ مکرّمہ میں ہجرت سے تین سال قبل رمضان ۱۰نبوت میں ہوگیا تھا، اور ان کی موجودگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور عقد نہیں فرمایا۔ اور اُمّ الموٴمنین حضرت زینب بن خزیمہ اُمّ المساکین رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان ۳ھ میں عقد کیا اور آٹھ مہینے بعد ربیع الثانی ۴ھ میں ان کا انتقال ہوگیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت نو ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن موجود تھیں، جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

          “حضرت عائشہ، حضرت صفیہ، حضرت اُمِّ حبیبہ، حضرت سودہ، حضرت اُمِّ سلمہ، حضرت ماریہ قبطیہ، حضرت حفصہ، حضرت زینب بنت جحش اور حضرت میمونہ، رضی اللہ عنہن۔”

          تمام ازواج سے فارغ ہونے کا واقعہ کبھی شاذ و نادر ہی پیش آیا، اس کو “بسااوقات” کے لفظ سے تعبیر کرنا دُرست نہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ جنت کے چالیس مردوں کی طاقت عطا کی گئی تھی، اور جنت میں آدمی کو سو مردوں کی طاقت ہوگی، حافظ ابنِ حجر ان روایات کو نقل کرکے لکھتے ہیں:

          “فعلٰی ھٰذا یکون حساب قوة نبینا (صلی الله علیہ وسلم) أربعة آلاف۔”

 (فتح الباری ج:۱ ص:۳۷۸، کتاب الغسل، باب اذا جامع ثم عاد)

          اس لئے دُوسرے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔

          ۳:… ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ: “مباشرت سے پہلے عضو سے منی کے قطرے رِستے ہیں ․․․․ الخ” بالکل غلط ہے۔ غالباً موصوف نے مذی اور منی کے درمیان فرق نہیں کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے “مذی” کا حکم دریافت کروایا تھا، “منی” کا نہیں۔

          جو لیس دار رقیق مادّہ شہوت کی حالت میں غیرمحسوس طور پر خارج ہوتا ہے وہ “مذی” کہلاتا ہے، اس کے خروج سے شہوت ختم نہیں ہوتی۔ اور جو مادّہ قوّت اور دفق کے ساتھ (کود کر) خارج ہوتا ہے اور جس کے خروج کے بعد شہوت کو تسکین ہوجاتی ہے اسے “منی” کہا جاتا ہے، “مذی” سے غسل لازم نہیں آتا، منی کے خروج سے لازم آتا ہے۔

          ۴:… مشت زنی یا کثرتِ جماع کا اثر انسانی صحت پر کیا ہوتا ہے؟ یہ اگرچہ شرعی مسئلہ نہیں کہ ہمیں اس پر گفتگو کی ضرورت ہو۔ تاہم چونکہ ڈاکٹر صاحب نے “مشت زنی” ایسے فعل کی ترغیب کے لئے یہ نکتہ بھی اُٹھایا ہے کہ اس سے انسانی صحت متأثر نہیں ہوتی، بلکہ “مشت زنی” اور کثرتِ جماع صحت کے لئے مفید ہے، اس لئے یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ نظریہ دُنیا بھر کے اطباء و حکماء کی تحقیق اور صدیوں کے تجربات کے قطعاً خلاف ہے۔ وظیفہٴ زوجیت اگر حدِ اعتدال کے اندر ہو تو اس کو تو مفیدِ صحت کہا جاسکتا ہے، مگر اَغلام، لواطت، مشت زنی اور دیگر غیرفطری طریقوں سے مادّہ کا اخراج ہرگز مفیدِ صحت نہیں ہوسکتا، بلکہ انسانی صحت کے لئے مہلک ہے۔ اسی طرح وظیفہٴ زوجیت ادا کرنے میں حدِ اعتدال سے تجاوز بھی غارت گرِ صحت ہے۔

سر کے بالوں کو صاف کرانا

س… ایک مولانا یہ فرماتے ہیں کہ: “سر پر پٹھوں کا رکھنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے، سوائے حج و عمرہ کے سر منڈانا بدعت ہے۔” لہٰذا جناب تحقیق کرکے تحریر فرمائیں کہ کیا حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں سر منڈایا ہے؟ اور خلفائے راشدین کا کیا عمل ہے؟ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا، اَئمہ اَربعہ کا کیا مذہب ہے؟ اور صحاحِ ستہ کے محدثین کا کیا مسلک ہے؟

ج… ومن الله الصدق والصواب:

          آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حج و عمرہ کے علاوہ سر مبارک کے بال صاف کرانا میرے علم میں نہیں ہے، البتہ بعض احادیث میں سر منڈانے کا جواز معلوم ہوتا ہے، اور وہ درج ذیل ہیں:

          ۱:… “عن ابن عمر رضی الله تعالٰی عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم رأی صبیًا قد حلق بعض رأسہ وترک بعضہ فنھاھم عن ذٰلک فقال: احلقوہ کلہ او اترکوہ کلہ۔”              (ابوداوٴد ج:۲ ص:۲۲۱)

          ترجمہ:… “حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور کچھ چھوڑ دیا گیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا: یا تو پورا سر منڈاوٴ، یا پورا چھوڑ دو۔”

          ۲:… “عن عبدالله بن جعفر رضی الله عنہما ان النبی صلی الله علیہ وسلم امھل آل جعفر ثلاثًا ان یأتیھم، ثم اتاھم فقال: لا تبکوا علٰی اخی بعد الیوم، ثم قال: ادعوا لی بنی أخی، فجییٴ بنا کأننا افرخ، فقال: ادعوا لی الحلاق، فحلق روٴسنا۔” (ابوداوٴد ج:۲ ص:۲۲۱)

          ترجمہ:… “حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (جب ان کے والد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ جنگِ موتہ میں شہید ہوئے تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آلِ جعفر کو تین دن تک (اظہارِ غم) کی مہلت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف نہیں لائے، پھر (تین دن بعد) ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: “آج کے بعد میرے بھائی پر نہ رونا” پھر فرمایا: “میرے بھتیجوں کو میرے پاس بلاوٴ” چنانچہ ہمیں لایا گیا گویا ہم چوزے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “حلاق کو بلاوٴ” چنانچہ (حلاق بلایا گیا اور) اس نے ہمارے سر کے بال صاف کئے۔”

          ۳:… “عن ابی ھریرة رضی الله تعالٰی عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: من کان لہ شعر فلیکرمہ۔”                (ابوداوٴد ج:۲ ص:۲۱۷)

          ترجمہ:… “حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس کے بال رکھے ہوئے ہوں اسے چاہئے کہ ان کو اچھی طرح رکھے (کہ تیل لگایا کرے اور کنگھی کیا کرے)۔”

          حدیثِ اوّل (حدیث نھی عن القزع) کے ذیل میں “لامع الدراری” میں حضرت شیخ نوّر اللہ مرقدہ نے “تقریر مکی” کے حوالے سے حضرتِ اقدس گنگوہی قدس سرہ کا ارشاد نقل کیا ہے:

          “وفی تقریر المکی: قال قدس سرہ القزع فی اللغة حلق بعض الرأس وترک بعضہ فھو مکروہ تحریمًا کیف ما کان، لاطلاق النھی عنہ ․․․․ الٰی قولہ․․․․ فالحاصل ان السنة حلق الکل او ترک الکل وما سواھما کلّہ منھی عنہ۔”

                    (لامع ج:۳ ص:۳۳۰ مطبوعہ سہارنپور)

          ترجمہ:… “تقریر مکی میں ہے کہ: حضرت گنگوہی قدس سرہ نے فرمایا کہ: لغت میں “قزع” کے معنی ہیں: سر کے کچھ حصے کو مونڈ دیا جائے اور کچھ چھوڑ دیا جائے، یہ مطلقاً مکروہِ تحریمی ہے، خواہ کسی شکل میں ہو، کیونکہ ممانعت مطلق ہے ․․․․․ حاصل یہ کہ سنت یا تو پورے سر کا حلق کرنا ہے یا پورے کا چھوڑ دینا، ان دونوں صورتوں کے سوا ہر صورت ممنوع ہے۔”

          اور دُوسری حدیث کے ذیل میں حضرتِ اقدس سہارنپوری قدس سرہ “بذل المجھود” میں تحریر فرماتے ہیں:

          “وفیہ ان الکبیر من اقارب الأطفال یتولٰی امرھم وینظر فی مصالحھم من حلق الرأس وغیرہ۔”

                    (بذل ج:۵ ص:۷۷، مطبوعہ سہارنپور)

          ترجمہ:… “اس حدیث سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ بچوں کے اقارب میں جو بڑا ہو وہ بچوں کے معاملات کا متولّی ہوگا، اور ان بچوں کی ضروریات و مصالح مثلاً سر منڈانا وغیرہ (کا نظر رکھے گا)۔”

          اکابر کی ان تصریحات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے سر کے بال اُتارنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اس لئے حضرت گنگوہی قدس سرہ “حلق” کو سنت سے تعبیر فرماتے ہیں۔

          حضراتِ خلفائے راشدین میں خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے حج و عمرہ کے علاوہ سر کے بال صاف کرانے کی روایت نہیں ملی، البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ سر کے بال صاف کراتے تھے:

          “عن علی رضی الله عنہ قال: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: من ترک موضع شعرة من جنابة لم یغسلھا فعل بھا کذا وکذا فی من النار۔ قال علیٌّ: فمن ثم عادیت رأسی، فمن ثم عادیت رأسی، فمن ثم عادیت رأسی، وکان یجز شعرہ رضی الله عنہ۔”

                              (ابوداوٴد ج:۱ ص:۳۳)

          ترجمہ:… حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے غسلِ جنابت میں بدن کے ایک بال کی جگہ کو بھی چھوڑ دیا کہ اس کو نہ دھویا، اس کو دوزخ میں ایسے ایسے جلایا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ (اس حدیث کو بیان کرکے) فرماتے تھے کہ: اسی لئے میں نے اپنے سر سے دُشمنی کر رکھی ہے، تین بار فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے سر کے بال تراشا کرتے تھے (اسی کو دُشمنی سے تعبیر فرمایا)۔”

          دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ (صاحبِ سرِّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے بھی مروی ہے کہ وہ سر منڈاتے تھے:

          “عن ابی البختری قال: خرج حذیفة رضی الله عنہ وقد جم شعرہ، فقال: ان تحت کل شعرة لا یصیبھا الماء جنابة فعافوھا فلذٰلک عادیت رأسی کما ترون۔”

                    (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۱ ص:۱۰۰)

          ترجمہ:… “ابو البختری کہتے ہیں کہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ اپنے بال صاف کئے ہوئے تھے، پس فرمایا کہ: ہر بال کے نیچے جس کو پانی نہ پہنچا ہو جنابت ہے، پس اس سے نفرت کرو، اسی بنا پر میں نے اپنے سر سے دُشمنی کر رکھی ہے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔”

          بظاہر یہ دونوں حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر کے بال تراشتے ہوں گے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصویب و تقریر فرمائی ہوگی، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سر کے بال تراشنا نہ صرف ایک خلیفہ راشد (حضرت علی کرّم اللہ وجہہ) اور ایک عظیم المرتبت صحابی (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ) کی سنت ہے، بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری سنت ہے۔

          اَئمہ اَربعہ رحمہم اللہ کی فقہی کتابوں میں بھی سر منڈانے یا کترانے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

          فقہِ حنفی:… درمختار میں منظومہ وھبانیہ سے نقل کیا ہے:

          “وقد قیل حلق الرأس فی کل جمعة یحب وبعض بالجواز یعبّر۔”

          ترجمہ:… “اور کہا گیا ہے کہ ہر جمعہ کو سر منڈانا مستحب ہے اور بعض حضرات اس کو جواز سے تعبیر کرتے ہیں۔”

          علامہ ابنِ عابدین شامی اس کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:

          “وفی الروضة للزندویسی: ان السنة فی شعر الرأس اِمّا الفرق واِمّا الحلق وذکر الطحاوی: ان الحلق سنّةٌ ونسب ذٰلک الی العلماء الثلاثة۔”

                              (ردّ المحتار ج:۶ ص:۴۰۷، کراچی)

          ترجمہ:… “زندویسی کی الروضہ میں ہے کہ: سر کے بالوں میں سنت یا تو مانگ نکالنا ہے یا حلق کرنا ہے، اور اِمام طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ: حلق سنت ہے اور انہوں نے اس کو ہمارے اَئمہ ثلاثہ (اِمام ابوحنیفہ، اِمام ابویوسف اور اِمام محمد رحمہم اللہ) کی طرف منسوب کیا ہے۔”

          فتاویٰ عالمگیری میں علامہ شامی کی نقل کردہ عبارت “تاتارخانیہ” کے حوالے سے نقل کرکے اس پر یہ اضافہ کیا ہے:

          “یستحب حلق الرأس فی کل جمعة۔”

                    (فتاویٰ ہندیہ ج:۵ ص:۳۵۷، کوئٹہ)

          ترجمہ:… “ہر جمعہ کو سر کا منڈوانا سنت ہے۔”

          فقہِ شافعی:… اِمام محی الدین نووی شرح مہذب میں لکھتے ہیں:

          “(فرع) أما حلق جمیع الرأس فقال الغزالی لا بأس بہ لمن أراد التنظیف ولا بأس بترکہ لمن أراد دھنہ وترجیلہ، ھٰذا کلام الغزالی، وکلام غیرہ من أصحابنا فی معناہ۔ وقال احمد بن حنبل رحمہ الله: لا بأس بقصہ بالمقراض۔ وعنہ فی کراھة حلقہ روایتان، والمختار ان لا کراھة فیہ ولٰکن السنّة ترکہ فلم یصح ان النبی صلی الله علیہ وسلم حلقہ الَّا فی الحج والعمرة ولم یصح تصریح بالنھی عنہ۔ ومن الدلیل علٰی جواز الحلق وانہ لا کراھة فیہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما قال: رأی رسول الله صلی الله علیہ وسلم صبیًا قد حلق بعض شعرہ وترک بعضہ فنھاھم عن ذٰلک وقال: “احلقوہ کلہ أو اترکوہ کلہ” رواہ أبو داود بأسناد صحیح علٰی شرط البخاری ومسلم۔ وعن عبدالله بن جعفر رضی الله عنھما ان النبی صلی الله علیہ وسلم أمھل آل جعفر ثلاثًا ثم أتاھم فقال: “لا تبکوا علٰی أخی بعد الیوم” ثم قال: “ادعوا لی بنی أخی” فجییٴ بنا کأنا أفرخ، فقال: “ادعوا لی الحلاق” فأمرہ فحلق روٴسنا۔ حدیث صحیح رواہ أبو داود بأسناد صحیح علٰی شرط البخاری ومسلم۔”

           (المجموع شرح المھذب، ج:۱ ص:۲۹۵، ۲۹۶)

          ترجمہ:… “(مسئلہ) رہا پورے سر کا منڈوانا تو اِمام غزالی فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس شخص کے لئے جو صفائی کرنا چاہتا ہو، اور حلق نہ کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں اس شخص کے لئے جو تیل لگانے اور کنگھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ یہ اِمام غزالی کا ارشاد ہے اور ہمارے دُوسرے حضرات (شافعیہ) کا کلام بھی اسی کے ہم معنی ہے۔ اِمام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ: قینچی سے سر کے بال کترانے میں کوئی حرج نہیں اور سر کا منڈانا مکروہ ہے یا نہیں؟ اس میں اِمام احمد سے دو روایتیں ہیں، مختار یہ ہے کہ اس میں کوئی کراہت نہیں، لیکن سنت یہ ہے کہ حلق نہ کرایا جائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حج و عمرہ کے علاوہ حلق کرانا ثابت نہیں اور اس کی ممانعت کی تصریح بھی ثابت نہیں، اور اس بات کی دلیل کہ حلق جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا کچھ سر منڈا ہوا تھا اور کچھ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: یا تو پورا سر منڈاوٴ یا پورا چھوڑ دو۔ اس حدیث کو اِمام ابوداوٴد نے ایسی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے جو بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آلِ جعفر کو تین دن تک (اظہارِ غم) کی مہلت دی، پھر ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: آج کے بعد میرے بھائی پر نہ رونا۔ پھر فرمایا: میرے بھتیجوں کو میرے پاس بلاوٴ، ہمیں بلایا گیا، گویا ہم پرندے کے چوزے تھے (کم سنی اور بال بڑھے ہوئے ہونے کی وجہ سے چوزے سے تشبیہ دی) فرمایا: حجام کو بلاوٴ! حلاق آیا تو اس کو حکم فرمایا، اس نے ہمارے سر کے بال مونڈ دئیے۔”

          فقہِ حنبلی:… جیسا کہ اُوپر اِمام نووی کی عبارت سے معلوم ہوا، اِمام احمد کے نزدیک قینچی سے تراشنا بلاکراہت جائز ہے (خود اِمام احمد کا عمل بھی اسی پر تھا) اور حلق میں ان سے دو روایتیں ہیں، راجح اور مختار یہ ہے کہ حلق بھی بغیر کراہت کے جائز ہے، اِمام ابنِ قدامہ مقدسی حنبلی نے “المغنی” میں اس کو تفصیل سے لکھا ہے، ان کی عبارت درج ذیل ہے:

          “(فصل) واختلف الروایة عن احمد فی حلق الرأس فعنہ أنہ مکروہ لما روی عن النبی صلی الله علیہ وسلم انہ قال فی الخوارج: “سیماھم التحلیق” فجعلہ علامة لھم، وقال عمر لصبیغ: لو وجدتک محلوقا لضربت الذی فیہ عیناک بالسیف، وروی عن النبی صلی الله علیہ وسلم انہ قال: “لا توضع النواصی الا فی الحج والعمرة” رواہ الدارقطنی فی الافراد۔ وروی أبو موسٰی عن النبی صلی الله علیہ وسلم: “لیس منا من حلق” رواہ أحمد۔ وقال ابن عباس: الذی یحلق رأسہ فی المصر شیطان، قال احمد: کانوا یکرھون ذٰلک۔ وروی عنہ لا یکرہ ذٰلک لٰکن ترکہ أفضل۔ قال حنبل: کنت أنا وأبی نحلق روٴسنا فی حیاة أبی عبدالله فیرانا ونحن نحلق فلا ینھانا وکان ھو یأخذ رأسہ بالجملین ولا یحفیہ ویأخذہ وسطًا، وقد روی ابن عمر أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم رأی غلامًا قد حلق بعض رأسہ وترک بعضہ فنھاھم عن ذٰلک، رواہ مسلم، وفی لفظ قال: “احلقہ کلہ أو دعہ کلہ”۔ وروی عن عبدالله بن جعفر أن النبی صلی الله علیہ وسلم لما جاء نعی جعفر أمھل آل جعفر ثلاثًا أن یأتیھم، ثم أتاھم فقال: “لا تبکون علٰی أخی بعد الیوم” ثم قال: “ادعوا بنی أخی” فجییٴ بنا، قال: “ادعوا لی الحلاق” فأمر بنا فحلق روٴسنا۔ رواہ ابوداود الطیالسی ولأنہ لا یکرہ استئصال الشعر بالمقراض وھٰذا فی معناہ وقول النبی صلی الله علیہ وسلم: “لیس منا من حلق” یعنی فی المصیبة لأن فیہ: “أو صلق أو خرق” قال ابن عبدالبر: وقد أجمع العلماء علٰی اباحة الحلق وکفٰی بھٰذا حجة۔ وأما استئصال الشعر بالمقراض فغیر مکروہ، روایة واحدة قال أحمد: انما کرھوا الحلق بالموسٰی وأما بالمقراض فلیس بہ بأس لأن ادلة الکراھة تختص بالحلق۔”

                    (المغنی مع الشرح الکبیر ج:۱ ص:۷۳، ۷۴)

          ترجمہ:… “سر کا حلق کرانے کے بارے میں اِمام احمد سے روایتیں مختلف ہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ یہ مکروہ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کے بارے میں فرمایا کہ: “ان کی علامت سر منڈانا ہے” پس سر منڈانے کو خوارج کی علامت قرار دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبیغ سے فرمایا تھا کہ: اگر تیرا سر منڈا ہوا ہوتا تو تلوار سے تیرا سر اُڑا دیتا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیشانی کے بال صاف نہ کرائے جائیں مگر حج و عمرہ میں، اس کو دارقطنی نے افراد میں روایت کیا ہے، اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ہم میں سے نہیں وہ شخص جس نے حلق کیا۔” یہ مسند احمد کی روایت ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ: جو شخص شہر میں اپنے سر کا حلق کراتا ہے وہ شیطان ہے۔ اِمام احمد نے فرمایا کہ: سلف اس کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اِمام احمد سے دُوسری روایت یہ ہے کہ: یہ مکروہ تو نہیں، لیکن نہ کرنا افضل ہے۔ حنبل کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد اِمام احمد کی حیات میں سر منڈایا کرتے تھے، آپ دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے، اور خود قینچی سے کتراتے تھے، اُسترے سے صاف نہیں کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا کچھ سر منڈا ہوا تھا اور کچھ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا (یہ صحیح مسلم کی روایت ہے) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “پورا صاف کراوٴ یا پورا چھوڑ دو” اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ (شہیدِ موتہ) کے انتقال کی خبر آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آلِ جعفر کو تین دن (اظہارِ غم) کی مہلت دی، ان کے پاس تشریف نہیں لائے، تین دن کے بعد تشریف لائے تو فرمایا: آج کے بعد میرے بھائی پر نہ رونا۔ پھر فرمایا: میرے بھائی کے بچوں کو میرے پاس لاوٴ! ہمیں لایا گیا تو فرمایا: حلاق کو بلاوٴ! حلاق آیا تو اسے ہمارے سروں کا حلق کرنے کا حکم فرمایا۔ (یہ ابوداوٴد طیالسی کی روایت ہے) اور سر منڈانا اس لئے بھی مکروہ نہیں کہ باریک قینچی سے سر کے بالوں کو بالکل صاف کردینا مکروہ نہیں، اور حلق میں بھی یہی چیز ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: “ہم میں سے نہیں جس نے حلق کیا” اس سے مراد مصیبت میں حلق کرنا ہے، کیونکہ اسی حدیث میں یہ بھی ہے: “او صَلَقَ وخَرَق” یعنی “یا چِلّایا یا کپڑے پھاڑے۔” حافظ ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ: “حلق کے مباح ہونے پر اہلِ علم کا اجماع ہے” اور یہ کافی دلیل ہے۔ رہا قینچی سے بالوں کا باریک کاٹنا، اس میں ایک ہی روایت ہے کہ یہ مکروہ نہیں، اِمام احمد فرماتے ہیں کہ انہوں نے اُسترے سے حلق کرنے کو مکروہ سمجھا ہے، قینچی سے کترنے کا کوئی حرج نہیں، کیونکہ کراہت حلق کے ساتھ خاص ہے۔”

          فقہِ مالکی:… حضراتِ مالکیہ کے سب سے بڑے ترجمان الامام الحافظ ابو عمرو ابن عبدالبر کا قول “المغنی” کے حوالے سے اُوپر آچکا ہے کہ:

          “اجمع العلماء علٰی اباحة الحلق۔”

          اور حافظ ابنِ قدامہ مقدسی کے بقول: “وکفٰی بہ حجة” (یہ دلیل و برہان کے لحاظ سے کافی ہے) حافظ ابنِ عبدالبر کا قول علامہ عینی نے بھی شرح بخاری میں نقل کیا ہے:

          “وادعٰی ابن عبدالبر الاجماع علٰی اباحة حلق الجمیع۔”            (عمدة القاری ج:۲۲ ص:۵۸، بیروت)

          ترجمہ:… اور حافظ ابنِ عبدالبر نے حلق کے مباح ہونے پر اِجماع کا دعویٰ کیا ہے۔”

          مندرجہ بالا فقہی مذاہب کی تفصیل کے بعد حضراتِ محدثین رحمہم اللہ کے مسلک کی وضاحت غیرضروری ہے، تاہم ان حضرات کا مسلک ان کے تراجم ابواب سے واضح ہے، حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث “نھی عن القزع” کی ترمذی کے علاوہ سب حضرات نے تخریج کی ہے اور اس پر درج ذیل ابواب قائم کئے ہیں:

          صحیح بخاری ج:۲ ص:۸۷۷، باب القزع (کتاب الباس)۔

          صحیح مسلم ج:۲ ص:۲۰۳، باب کراھة القزع (کتاب اللباس والزینة)۔

          نسائی ج:۲ ص:۲۷۵، النھی عن القزع (کتاب الزینة)۔

          ابنِ ماجہ ص:۲۵۹، النھی عن القزع (کتاب اللباس)۔

          ابو داوٴد ج:۲ ص:۲۲۱، باب فی الصبی لہ ذوابة (کتاب الترجل)۔

          علاوہ ازیں اِمام نسائی، نے ج:۲ ص:۲۷۴ میں “الرخصة فی حلق الرأس” کا اور اِمام ابوداوٴد نے “باب فی حلق الرأس” کا عنوان بھی قائم کیا ہے، مگر “کراھة حلق الرأس” کا عنوان کسی نے قائم نہیں کیا۔ اس سے ان حضرات کا مسلک واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے نزدیک “قزع” مکروہ ہے، یعنی یہ کہ سر کے کسی حصے کے بال اُتار دئیے جائیں اور کسی حصے کے چھوڑ دئیے جائیں، لیکن تمام سر کے بال اُتار دینا مکروہ نہیں۔

          خلاصہ یہ کہ صحیح احادیث میں سر کے بال اُتارنے کی اجازت دی گئی ہے، صحابہ میں سے بعض اکابر و اجلہ کا اس پر عمل ثابت ہے، اور بقول ابنِ عبدالبر “تمام علماء کا اس کے جواز پر اِجماع ہے۔” یہی اَئمہ اَربعہ کا مسلک ہے اور یہی حضراتِ محدثین کا، اس لئے اس کو ناجائز یا بدعت کہنا، جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے، بے جا جسارت ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سر پر بال رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا معمول مبارک تھا، لیکن چونکہ یہ سنتِ تشریعیہ نہیں، بلکہ سنتِ عادیہ ہے اس لئے اگرچہ حلق و قصر بلاکراہت جائز ہے، تاہم بال رکھنا اَوْلیٰ و افضل ہے، یہ مضمون اِمام نووی کی عبارت میں آچکا ہے، علامہ علی قاری حدیث ابنِ عمر:

“احلقوہ کلّہ أو اترکوہ کلّہ”

اسے پورا منڈاوٴ یا پورا چھوڑ دو۔

          کے ذیل میں لکھتے ہیں:

          “(او اترکوہ کلّہ) فیہ اشارة الی الحلق فی غیر الحج والعمرة جائز، وان الرجل مخیّرٌ بین الحلق والترک، لٰکن الأفضل ان لا یحلق الا فی احد النسکین، کما کان علیہ صلی الله علیہ وسلم مع اصحابہ رضی الله عنھم، وانفرد منھم علیٌّ کرّم الله وجھہ۔”                            (مرقاة ج:۴ ص:۴۰۹، بمبئی)

          ترجمہ:… “اس میں اشارہ ہے کہ حج و عمرہ کے بغیر بھی حلق جائز ہے اور یہ کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ حلق کرائے یا چھوڑ دے، لیکن افضل یہ ہے کہ حج و عمرہ کے بغیر حلق نہ کرائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عام صحابہ رضوان اللہ علیہم کا یہی معمول تھا اور حضرت علی کرّم اللہ وجہہ حلق کرانے میں منفرد تھے۔”

          اسی مسئلے پر حضرت حکیم الاُمت تھانوی قدس سرہ کے دو فتوے نظر سے گزرے، اتماماً للفائدہ پیش کرتا ہوں:

          “سر کے بال کٹوانا:

          سوال (۲۹۵)… زید کہتا ہے کہ سارے سر میں بال رکھانا سنت ہے، اور بلا حج سر منڈوانا خلافِ سنت ہے، اور خشخشے بال رکھانے والے کو سخت مخالفِ سنت خیال کرکے قابلِ ملامت کہتا ہے۔ عمرو کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سر منڈاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس فعل سے بھی منع نہ فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ سر منڈانا بھی غیر اَیامِ حج میں سنت ہے، اور خشخشے بال رکھنے کی ممانعت نہیں، وہ اپنی اصل پر رہیں گے، اور اصل اباحت و جواز ہے۔ خشخشے بال رکھنا قرونِ ثلاثہ سے ثابت ہے یا نہیں؟ اور ان کو جو زید بدعت کہتا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ اور ایسے بال رکھانے والا شرعاً قابلِ ملامت ہے یا نہیں؟

          الجواب:… سنت مطلقہ یہ ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور عبادت کیا ہے، ورنہ سننِ زوائد سے ہوگا، تو بال رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور عادت کے ہے، نہ بطور عبادت کے، اس لئے اَوْلیٰ ہونے میں تو شبہ نہیں، مگر اس کے خلاف کو خلافِ سنت نہ کہیں گے، اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی نہ ہوتی، چہ جائیکہ وہ حدیث بھی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ فرمانا یقینی دلیل ہے بال نہ رکھنے کی جواز بلا کراہت کے اور خلافِ سنت نہ ہونے کے، پس جس حالت میں بالکل منڈوادینا جائز ہے تو قصر کرانے میں کیا حرج ہے؟

للاجماع علٰی تساوی حکم القصر والحلق لشعر الرأس فی مثل ھٰذا الحکم والی التساوی اشیر بقولہ تعالٰی: “مُحَلَّقِیْنَ رُئُوْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ” والله تعالٰی اعلم۔

۱۸/ربیع الاوّل ۱۳۲۱ھ۔”              (امداد ج:۲ ص:۱۵۲)

          “سر کے بال کٹوانا:

          سوال (۲۹۶)… بعد سلام مسنون عرض ہے کہ ایک خط مولوی اسحاق صاحب کا کوئٹہ بلوچستان سے آیا ہے، مضمون یہ ہے کہ آج بعد نمازِ مغرب حضور (شاہ ابوالخیر صاحب) نے فرمایا: یہ کتاب الاسماء والکنی کہ ہم نے حیدرآباد سے منگائی ہے، اور اس سے پہلے کہیں دُنیا میں اس کی زیارت میسر نہیں ہوئی، مدینہ منوّرہ میں قبہ شیخ الاسلام میں کہ سلطان رُوم کا کتب خانہ بے نظیر ہے، اس میں بھی یہ کتاب نہیں دیکھی تھی، اس میں ہم نے ایک وہ مسئلہ دیکھا کہ ہم کو آج تک معلوم نہ تھا اور تم کو بھی معلوم نہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ فرمایا: خشخشی بال جیسے تیرے ہیں اور ہندوستان میں بہت مروّج ہیں، یہ عمل قومِ لوط کا ہے، اگر سر پر بال ہوں تو اس قابل ہوں کہ ان میں مانگ نکالی جائے یا بالکل منڈائے جائیں، صرف یہ دونوں شکلیں مسنون ہیں۔ میں نے اس وقت توبہ کی۔ پھر فرمایا کہ: اگر تم حلق کو دوست رکھتے ہو تو حلق کراتے رہو اور اگر فرق کو دوست رکھتے ہو تو اس نیت سے بالوں کی پروَرِش کرو۔ اور فرمایا کہ: اس اثر کو لکھ کر مشہور کردو اور میرٹھ بھیج دو، سب خادم توبہ کریں اور خشخشی بال نہ رکھیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ: یہ رسم کن لوگوں سے اختیار کی ہے؟ میں نے عرض کیا: نصاریٰ سے مأخوذ ہے۔ وہ اثر یہ ہے:

          “من کتاب الکنی للدولابی قال: حدثنی ابراھیم بن الجنید قال حدثنی الھیثم بن خارجة قال حدثنا ابو عمران سعید بن میسرة البکری الموصلی عن انس بن مالک قال: انہ دخل علیہ شاب قد سکن علیہ شعر لہ فقال مالک: والسکینة افرقہ اوجزہ فقال لہ رجل: یا ابا حمزة! من کانت السکینة؟ قال: فی قوم لوط، قال: کانوا یسکنون شعورھم ویمضغون العلک فی الطریق والمنازل ویحذفون ویفرجون اقبیتھم الٰی خواصرھم۔ انتھٰی۔”

          (سکینة الشعر، بالوں کا سیدھا کھڑا چھوڑنا، نہ منڈانا، نہ مانگ نکالنی) خط کا مضمون یہاں ختم ہوگیا۔

          مضمونِ بالا کو ملاحظہ فرماکر ارشاد فرمائیے کہ بالوں کا قینچی سے کتروانا جیسا کہ مروّج ہے، جائز ہے یا نہیں؟ اور مشابہت قومِ لوط ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو اَثرِ مذکور کا کیا مطلب ہے؟ اور اگر ناجائز اور حرام ہے تو “مُحَلِّقِیْنَ رُئُوْسَھُمْ اَوْ مُقَصِّرِیْنَ” کا کیا جواب ہے ؟ یا یہ حکم خاص حجاج ہی کے لئے ہے، اور یہ بھی ارشاد فرمائیے کہ اگر بالوں کا کتروانا جائز ہے تو تمام بال رکھنا اور مانگ نکالنا بہتر ہے یا حلق یا قصر؟ اور حلق سے قصر بہتر ہے یا نہیں؟ مفصل مدلل مع حوالہ بیان فرمائیے، کیونکہ اکثر لوگ حتیٰ کہ اکثر علماء بھی قصر کراتے ہیں، اگر یہ امر ناجائز ہو تو اس سے توبہ کی جائے، اور اگر جائز ہے تو اَثرِ مذکور کا مطلب صاف صاف شافی، تسکین بخش ایسا ارشاد فرمایا جائے کہ اطمینان ہوجائے۔

          الجواب:… جواز تقصیر کا حج کے ساتھ مخصوص ہونا محتاجِ دلیل ہے، اور شاید کسی کو شبہ ہو کہ اس کی نسبت “یأخذ من کل شعرة قدر الأنملة” لکھا ہے، تو سمجھنا چاہئے کہ یہ مقدار ادنیٰ کی ہے، مقصود نفی زائد کی نہیں ہے۔ چنانچہ ردّ المحتار میں بدائع سے نقل کیا ہے: قالوا یجب ان یزید فی التقصیر علٰی قدر الأنملة ․․․․ الخ۔ اور اسی طرح رُبع کی تخصیص بیانِ ادنیٰ کے لئے ہے، چنانچہ در مختار میں تصریح ہے: تقصیر الکل مندوب، پس وہ شبہ رفع ہوگیا، اور فارق منتفی ہے، لہٰذا جواز عام ہے۔ اور اگر کوئی شخص اَثرِ مذکور کو فارق کہے تو بایں وجہ صحیح نہیں کہ اَثرِ مذکور ثبوتاً و دلالةً مخدوش ہونے کے علاوہ مفید مقصود کو نہیں، اوّلاً یہ کہ جب تک اس کے رُواة کی توثیق نہ ہو اس وقت تک اس کی صحت یا حسن ثابت نہیں، اور حدیث ضعیف حسبِ تصریح اہلِ علم کسی حکمِ شرعی کے لئے مثبت نہیں ہوسکتی۔(۱) ثانیاً یہ کہ سکینہ کی یہ تفسیر جو سوال میں مذکور ہے محتاجِ دلیل ہے، خواہ لغت ہو یا نقلِ صحیح ہو، اور یہ دونوں امر بذمہ مستدل ہیں۔ تیسرے اس میں “جزو” کا لفظ بطور تخیر آیا ہے اور “جز” کے معنی لغت اور استعمال میں مطلق قطع کے ہیں مخصوص حلق کے ساتھ نہیں، بلکہ مخصوص بالوں کے ساتھ بھی نہیں، چنانچہ مشکوٰة باب الترجل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: “فقالت امی لا اجزھا” اور آگے اس کی علت بیان فرمائی: “کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یمدہ” اور ظاہر ہے کہ یہ علت مقتضی عموم معنی جز کو ہے۔ اور شمائل ترمذی میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: “فأتی بجنب مشوی ثم أخذ الشفرة فجعل یجزّ لی” اس میں دو نسخے ہیں: حاء اور جیم، اس سے عموم غیرشعر کے لئے ظاہر ہے۔ چوتھے ممکن ہے کہ یہ حکم مقید اس صورت کے ساتھ ہو کہ جب بال مانگ نکالنے کے قابل ہوں اور پھر مانگ نہ نکالی جائے جس کو سدل کہتے ہیں جس کے باب میں حدیث میں آیا ہے: “فسدل النبی صلی الله علیہ وسلم ناصیہ ثم فرق بعدہ” متفق علیہ کذا فی المشکٰوة باب الترجُّل۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی کے بالوں کا سدل فرمایا، لیکن بعد میں مانگ نکالنے لگے۔ بخلاف اس صورت کے چھوٹے چھوٹے بال ہوں، خواہ بڑھے نہ ہوں یا کٹا دئیے ہوں، اس صورت میں یہ حکم نہ ہو، چنانچہ افرقہ او جزہ، علیٰ سبیل التخییر فرمانا اس منع بالمعنی الاصطلاح کی سند ہوسکتی ہے کیونکہ تخییر موقوف ہے دونوں شقوں کے امکان عادی پر، اور امکان فرق موقوف ہے بالوں کے بڑے ہونے پر۔ پانچویں ممکن ہے کہ یونہی مخصوص ہو اس صورت کے ساتھ جبکہ اہلِ باطل کی وضع پر ہوں، جیسا اس وقت نئی فیشن ایجاد ہوئی ہے، یا یہ کہ کسی فساد کی نیت سے ہو، جیسا کہ دُوسرے متعاطفات بھی اس پر دال ہیں، ورنہ لازم آتا ہے کہ مضغ علک اور قباء میں چاک دونوں پہلووٴں پر رکھنا بھی مطلقاً ناجائز ہو، ولا قائل بہ، پس ان وجوہ سے یہ اثر مخصص یا مفسر جواز تقصیر کا نہیں ہوسکتا، بخلاف نہی عن القزع کے کہ بوجہ صحتِ حدیث کے اطلاق حلق کو مقید کرسکتا ہے، پس تقصیر فی نفسہ بحالہ جائز رہا، البتہ عارض تشبہ سے جہاں تشبہ لازم آتا ہو بعض صورتیں ممنوع ہوجائیں گی، ھٰذا ما حضر لی الآن، ولعل الله یحدث بعد ذٰلک امرًا، والله اعلم! ۲۴/ربیع الثانی ۱۳۲۴ھ۔”

 (امداد ج:۲ ص:۱۷۲، امداد الفتاویٰ ج:۴ ص:۲۲۴ تا ۲۲۶)

غیرمسلم کی تعزیت

س… ۲۴/فروری ۱۹۸۵ء مطابق ۳/جمادی الاخریٰ ۱۴۰۵ھ اتوار کی شام کو ادارہ طلوعِ اسلام کے بانی مسٹر غلام احمد پرویز انتقال کرگئے، ان کی عمر ۸۲ سال تھی اور وہ گزشتہ چار ماہ سے علیل تھے۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے ان کی بیوہ کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے:

          “مرحوم تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، اور انہوں نے اس دوران علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے خیالات سے بھی بھرپور استفادہ کیا، مرحوم نے بعد ازاں اپنی تمام تر توانائی اسلام کے مطالعہ اور اسے دُوسروں تک پہنچانے کے لئے وقف کردی تھی، اس شعبے میں مرحوم کے لاتعداد شاگرد موجود ہیں، مرحوم کو تحریکِ پاکستان کے عظیم کارکن اور عظیم مفکر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں قبول فرمائے۔”

          کیا کسی مسلمان کو ایسے منکرِ حدیث کی تعزیت کرنا اور اسے “مرحوم” کہنا جائز ہے؟

ج… کسی مرنے والے کے وارثوں سے تعزیت تو اچھی بات ہے، لیکن جنابِ صدر کی طرف سے پرویز صاحب کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، ان پر دِینی حلقوں میں اظہارِ ناپسندیدگی کیا جائے گا۔ مسٹر پرویز کے خیالات کوئی ڈھکے چھپے نہیں تھے، موصوف نے جس طرح اسلام کو مسخ کیا، جس طرح قطعیاتِ اسلام کا انکار کیا اور جس طرح پورے اسلام کو “عجمی سازش” قرار دیا، اسے “اسلام کا مطالعہ” نہیں، بلکہ “اسلام کا مسخ” ہی کہا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج سے تقریباً بیس سال پہلے عرب و عجم اور تمام اسلامی فرقوں کے اہلِ علم نے فتویٰ دیا کہ پرویزی نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور جو شخص ان نظریات کا قائل ہو اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ چنانچہ “علماء کا متفقہ فتویٰ: پرویز کافر ہے” کے نام سے یہ تحریر شائع ہوچکی ہے۔

          صدرِ مملکت فرماتے ہیں کہ پرویز نے بانیٴ پاکستان اور علامہ اقبال کے خیالات سے بھرپور استفادہ کیا، اگر یہ استفادہ اسی طرح مسخ و تحریف کے ذریعہ کیا گیا تھا تو اس کو “بھرپور استفادہ” کا نام دینا ہی غلط ہے، لیکن اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ان بزرگوں کے خیالات و نظریات بھی وہی تھے جن کی ترجمانی مسٹر پرویز مدة العمر کرتے رہے تو اہلِ اسلام کی نظر میں ان دونوں بزرگوں کی حیثیت کیا ہوگی․․․؟

          جنابِ صدر نے پرویز کے لئے یہ دُعا بھی فرمائی کہ: “اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں قبول فرمائے۔” جوارِ رحمت کا جو تصوّر مسلمانوں کے نزدیک ہے، مسٹر پرویز اس کے قائل ہی نہیں تھے، وہ اسے عیسائی عقیدہ قرار دیتے تھے اور علامہ اقبال کے حوالے سے اس کا یوں مذاق اُڑاتے تھے:

آں بہشتے کہ خدائے بتو بخشد ہمہ ہیچ

تاجزائے عمل تست چناں چیزے ہست

                              (لغات القرآن، مادّہ: ر-ح-م)

          جو لوگ خدا تعالیٰ کی بخشی ہوئی بہشت کو “ہمہ ہیچ” کہہ کر پائے استحقار سے ٹھکرادیتے ہوں، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے “جوارِ رحمت” کی دُعا کے کیا معنی ہیں؟

          عجیب بات ہے کہ علامہ اقبال تو خدا تعالیٰ کی بخشی ہوئی جنت کو “ہمہ ہیچ” اور جزائے عمل کو “چیزے ہست” کہتے ہیں، لیکن اعلم الاوّلین والآخرین خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

          “لن ینجی احدًا منکم عملہ، قال رجل: ولا ایاک یا رسول الله! قال: ولا ایّای! الَّا ان یتغمدنی الله منہ برحمة ولٰکن سددوا۔”

          ترجمہ:… “تم میں سے کسی کا عمل اس کو ہرگز نجات نہیں دِلائے گا، ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا: مجھے بھی نہیں، اِلَّا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانک لیں، لیکن سیدھے راستے پر چلتے رہو۔”

          دُوسری حدیث میں ہے:

          “ما من احد یدخلہ عملہ الجنة، قیل: ولا انت یا رسول الله! قال: ولا انا، الَّا ان یتغمدنی ربی برحمة (وفی روایة: الَّا ان یتغمدنی الله منہ بمغفرة ورحمة)۔”

                    (صحیح مسلم جلد دوم ص:۳۷۶، ۳۷۷)

          ترجمہ:… “تم میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جسے اس کا عمل جنت میں داخل کردے، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا: مجھے بھی نہیں، اِلَّا یہ کہ میرا رَبّ مجھے اپنی رحمت و مغفرت سے ڈھانپ لے۔”

“بہ بیں تفاوت راہ از کجا است تا بہ کجا”

          اخبار میں یہ دِلچسپ خبر بھی دی گئی ہے کہ:

          “ان کی نمازِ جنازہ پیر ۲۵/فروری کو شام ۴ بجے، ۲۵-بی گلبرگ نمبر۲، مین مارکیٹ، ان کی رہائش گاہ پر ادا کی جائے گی۔”

          مسٹر پرویز تو “نماز” نام کی کسی عبادت ہی کے قائل نہیں تھے اور مسلمانوں کی نماز کو “مجوسیوں کا طریقہ” کہا کرتے تھے، معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی “نمازِ جنازہ” کس طریقے سے ادا کی گئی؟ اور کس نے ادا کرائی․․․؟

          جہاں تک پرویز صاحب کی ذات کا تعلق ہے وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں، یقینا وہ ان تمام غیبی حقائق کا بچشمِ خود مشاہدہ کر رہے ہوں گے جن کا وہ مذاق اُڑایا کرتے تھے، چونکہ ان کا مقدمہ سب سے بڑی عدالت میں پہنچ چکا ہے اس لئے ان کی ذات کے بارے میں لب کشائی کرنے کے بجائے ہم یہ کہیں گے کہ جن خیالات و نظریات کا وہ ساری عمر پرچار کرتے رہے، وہ سراسر کفر و ضلالت ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو ان کے برپا کردہ فتنے سے محفوظ رکھے۔

اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ لفظ “صاحب” کا استعمال

س۱:… جناب محترم! ہم ادب کے طور پر “صاحب” لفظ استعمال کردیتے ہیں، تمام انبیاء کرام علیہم السلام، جملہ صحابہ کرام اور دِین کے تمام بزرگوں کے لئے، بلکہ اپنے بزرگوں کے لئے بھی۔ جنابِ عالی! یہ لفظ یعنی “صاحب” ہم اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ نہ زبان پر کہتے ہیں، نہ لکھتے ہیں، کیا یہ بات کوئی گناہ یا خلافِ ادب تو نہیں ہے؟ واضح فرمادیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا رَبّ ہے، پروردگار ہے۔

س۲:… آج کل دیکھا جاتا ہے کہ کیلنڈروں اور کتابوں کے سرِورق وغیرہ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم یا قرآن پاک کی آیت ٹیڑھی اور ترچھی لکھی جاتی ہے، کیا ایسا لکھنا خلافِ ادب اور باعثِ گناہ تو نہیں؟

س۳:… کیا سورہٴ اِخلاص تین بار پڑھنے سے تمام قرآن شریف کی تلاوت کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے؟

س۴:… کیا دُعا کے اوّل اور آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود شریف پڑھے بغیر دُعا قبول نہیں ہوتی؟

س۵:… اگر کوئی شخص کسی صاحبِ طریقت سے بیعت ہو تو پیر صاحب کے بتلائے ہوئے اذکار پہلے پڑھے یا وہ اذکار جن کا کتبِ فضائل میں ذکر ملتا ہے، جیسے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جو شخص صبح کو سورہٴ یٰسین پڑھ لے گا (شام تک کی) اس کی حاجتیں پوری ہوجائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ اگر کسی آدمی کے پاس وقت کم ہو تو وہ کون سے اذکار پڑھے، احادیث میں مذکورہ یا صاحبِ طریقت کے جس سے بیعت ہو،؟ اسی طرح اگر کوئی بیعت سے پہلے احادیث کے اذکار کو جو پڑھ رہا ہو وہ بند کرلے تو گناہ تو نہیں؟ تہجد کی نماز چند دن پڑھتا ہوں، چند دن نہیں پڑھتا، اس کے متعلق واضح فرمادیں، بغیر وضو چارپائی پر لیٹے لیٹے احادیث شریف کی کتاب پڑھ رہا ہو تو گناہگار ہوگا یا بے ادب؟ کیا دُرود شریف بغیر وضو پڑھ سکتا ہے؟

س۶:… دُرود شریف کا ثواب زیادہ ہے یا اِستغفار کا؟

ج۱:… پُرانے زمانے کی اُردو میں “اللہ صاحب فرماتا ہے” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، مگر جدید اُردو میں ان کا استعمال متروک ہوگیا، گویا اُس زمانے میں یہ تعظیم کا لفظ سمجھا جاتا تھا، مگر جدید زبان میں یہ اتنی تعظیم کا حامل نہیں رہا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے لئے یا انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابہ و تابعین کے لئے استعمال کیا جائے۔

ج۲:… اگر ان کو ادب و احترام سے رکھا جاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں، اور اگر ان کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو تو نہیں لکھنی چاہئیں۔

ج۳:… ایک حدیث میں یہ مضمون ہے کہ “قُلْ ھُوَ اللهُ اَحَدٌ” تہائی قرآن کے برابر ہے۔                                                                (ترمذی)

ج۴:… دُعا کے اوّل و آخر دُرود شریف کا ہونا دُعا کی قبولیت کے لئے زیادہ اُمید بخش ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ دُعا آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کے اوّل و آخر میں دُرود شریف نہ ہو۔

ج:۵… جن اوراد و اذکار کو معمول بنالیا جائے، خواہ شیخ کے بتانے سے یا ازخود، ان کے چھوڑنے میں بے برکتی ہوتی ہے، اس لئے بھی معمولات کی پابندی کرنی چاہئے اور ایک وقت نہ ہوسکے تو دُوسرے وقت پورے کرلے۔ تہجد کی نماز میں ازخود ناغہ نہ کرے۔ بغیر وضو حدیث شریف کی کتاب پڑھنا خلافِ اَوْلیٰ ہے۔ دُرود شریف بے وضو جائز ہے، باوضو پڑھے تو اور بھی اچھا ہے۔

ج:۶… دونوں کا ثواب اپنی اپنی جگہ ہے، اِستغفار کی مثال برتن مانجھنے کی ہے، اور دُرود شریف کی مثال برتن قلعی کرنے کی۔

بچی کو جہیز میں ٹی وی دینے والا گناہ میں برابر کا شریک ہے

س… گزارش ہے کہ میری دو بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی کی شادی میں نے کردی ہے، اس کی شادی پر میں نے ٹی وی جہیز میں دیا تھا، یہ خیال تھا کہ ٹی وی ناجائز تو ہے لیکن رسمِ دُنیا اور بیوی اور بچوں کے اصرار پر دے دیا۔ اب پتا چلا کہ ٹی وی تو اس کے استعمال کی وجہ سے حرام ہے، اپنی غلطی کا بہت افسوس ہوا اور اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا رہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں اس وقت دُوسری بیٹی کی شادی کر رہا ہوں، میں نے بیوی اور بچوں کو کہا ہے کہ ٹی وی کی جگہ پر سونے کا سیٹ دے دیں یا کوئی چیز اسی قیمت کی دے دیں، لیکن سب لوگ میری مخالفت کر رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کسی کی پسند ناپسند سے شرعی اَحکام تبدیل نہیں ہوسکتے، براہِ مہربانی پوری تفصیل سے اس مسئلے پر روشنی ڈالیں، میں بہت پریشان ہوں۔

ج… جزاکم الله احسن الجزاء! اللہ تعالیٰ نے آپ کو دِین کا فہم نصیب فرمایا ہے، جس طرح پسند و ناپسند سے اَحکام نہیں بدلتے، اسی طرح بیوی بچے آپ کی قبر میں اور آپ ان کی قبر میں نہیں جائیں گے۔ جس بچی کی شادی کرنی ہے اس کو کہہ دیا جائے کہ: “ٹی وی تو میں لے کر دوں گا نہیں، زیورات کا سیٹ بنوالو، یا نقد پیسے لے لو، اور ان پیسوں سے جنت خریدو یا دوزخ خریدو، میں بری الذمہ ہوں، میں خود اژدہا خرید کر اس کو تمہارے گلے کا طوق نہیں بناوٴں گا۔”

نعت پڑھنا کیسا ہے؟

س… ایک صاحب مجلسِ حمد و نعت کے دوران حمد تو سن لیتے ہیں، لیکن جوں ہی نعت شروع ہوتی ہے اور اس میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ گرامی آتا ہے، پڑھنے والے کو ٹوک کر کہتے ہیں: “یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اللہ پڑھ” ان کا یہ انداز کس حد تک دُرست ہے؟ انہیں یہ اعتراض بھی ہے کہ آج کے مسلمانوں کے دِل میں مدینہ کا بت بسا ہے (نعوذ باللہ)۔

ج… “نعت” کے معنی ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات بیان کرنا۔ اگر نعتیہ اشعار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح کمالات و اوصاف ذکر کئے گئے ہوں تو ان کا پڑھنا اور سننا لذیذ ترین عبادت ہے، ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ بجائے خود عبادت ہے، دُوسرے یہ ذریعہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اضافے و ترقی کا، اور یہ دُنیا و آخرت کی سعادت کا ذریعہ ہے۔ وہ صاحب کسی اور مذہب کے ہوں گے، ورنہ کسی مسلمان کے منہ سے یہ بات نہیں نکل سکتی۔

مسجدِ نبوی اور روضہٴ اطہر کی زیارت کے لئے سفر کرنا

س… میں نے ایک کتاب میں بھی پڑھا ہے کہ مسجدِ نبوی کی زیارت کی نیت سے سفر نہیں کرسکتے اور سنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک پر شفاعت کی درخواست ممنوع ہے۔ بتلائیں کہ کیا یہ ٹھیک ہے؟ اور روضہٴ مبارک پر دُعا مانگنا کیسا ہے؟ اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ کس طرف منہ کرکے دُعا مانگیں گے؟ آیا کعبہ کی جانب یا روضہٴ مبارک کی جانب؟ اور مسجدِ نبوی میں کثرتِ دُرود افضل ہے یا تلاوتِ قرآن؟

ج… یہ تو آپ نے غلط سنا یا غلط سمجھا ہے کہ مسجدِ نبوی (علٰی صاحبہا الصلوات والتسلیمات) کی نیت سے سفر نہیں کرسکتے، اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ مسجد شریف کی نیت سے سفر کرنا صحیح ہے۔ البتہ بعض لوگ اس کے قائل ہیں کہ روضہٴ مقدسہ کی زیارت کی نیت سے سفر جائز نہیں، لیکن جمہور اکابرِ اُمت کے نزدیک روضہٴ شریف کی زیارت کی بھی ضرور نیت کرنی چاہئے۔ اور روضہٴ اطہر پر حاضر ہوکر شفاعت کی درخواست ممنوع نہیں۔ فقہائے اُمت نے زیارتِ نبوی کے آداب میں تحریر فرمایا ہے کہ بارگاہِ عالی میں سلام پیش کرنے کے بعد شفاعت کی درخواست کرے۔ اِمام جزری رحمة اللہ علیہ “حصن حصین” میں تحریر فرماتے ہیں کہ: اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (کی قبر مبارک) کے پاس دُعا قبول نہ ہوگی تو اور کہاں ہوگی؟ صلوٰة و سلام اور شفاعت کی درخواست پیش کرنے کے بعد قبلہ رُخ ہوکر دُعا مانگے۔ مدینہ طیبہ میں دُرود شریف کثرت سے پڑھنا چاہئے اور تلاوتِ قرآنِ کریم کی مقدار بھی بڑھادینی چاہئے۔

شادی یا کسی اور معاملے کے لئے قرعہ ڈالنا

س… ایک حدیث میں یہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں جایا کرتے تھے تو اپنی بیویوں کے لئے قرعہ ڈالا کرتے تھے، جس بیوی کا نام قرعہ میں نکل آتا تھا وہی آپ کی شریکِ سفر ہوا کرتی تھیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم موجودہ دور میں کن کن باتوں کے لئے قرعہ ڈال سکتے ہیں؟ مثلاً: شادی کا معاملہ ہو تو کیا لڑکی / لڑکے کا نام قرعہ میں ڈال کر معلوم کیا جاسکتا ہے؟ یہ بھی بتائیے کہ قرعہ ڈالنے کا صحیح طریقہ کیا ہے جس سے کسی طرح کی غلطی اور شک و شبہ کا اندیشہ نہ رہے۔

ج… جن چیزوں میں کئی لوگوں کا استحقاق مساوی ہو، اس پر قرعہ ڈالا جاتا ہے، مثلاً: مشترک چیز کی تقسیم میں حصوں کی تعیین کے لئے، یا دو بیویوں میں سے ایک کو سفر میں ساتھ لے جانے کے لئے۔ رشتے وغیرہ کی تجویز میں اگر ذہن یکسو نہ ہو تو ذہن کی یکسوئی کے لئے اِستخارے کے بعد قرعہ ڈالا جاسکتا ہے، اس میں اصل چیز تو اِستخارہ ہی ہے، قرعہ محض اپنے ذہن کو ایک طرف کرنے کے لئے ہوگا۔

ٹی وی میں کسی کے کردار کی تحقیر کرنا

س… حال ہی میں ٹی وی پر ایک ڈرامہ “پہچان” دِکھایا گیا، اس میں شامل کردار گھریلو اختلافات کی وجہ سے کورٹ میں جاتے ہیں، گھر کے سربراہ ایک اُستاد کا رول ادا کر رہے تھے، جنھوں نے اپنی تمام زندگی ایمان داری و صداقت اور بے لوث خدمت میں گزاری، اور وہ سب کچھ نہ کچھ دے سکے جو ان کی بیوی اور بچوں کی بے ہودہ ضرورت اور فرمائش تھی اور ان سب نے اُستاد صاحب کی کورٹ میں جو بے عزتی کی وہ معاشرے میں تصوّر بھی نہیں کی جاتی۔ بیوی نے الگ ڈائیلاگ کے ذریعے ذلیل کیا، پھر ان کے بڑے بیٹے نے کلمہ طیبہ پڑھ کر وکیل کے کہنے پر عدالت میں کہا: “جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے علاوہ کچھ نہ کہوں گا” اور اس گستاخ لڑکے نے بھی کلمہ پڑھ کر اپنے والد صاحب “اُستاد” کی انتہا درجے کی کھلی عدالت میں بے عزتی کی۔ مولانا صاحب! اس طرح کے ڈرامے لکھنے والے اور اس میں اس قسم کا کردار ادا کرنے والوں کے لئے اسلام میں کیا حکم ہے؟ ایک تو ڈرامہ اس قسم کا تھا، دُوسری اہم بات یہ کہ کلمہ طیبہ پڑھ کر یہ کہا گیا کہ: “جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا، اس کے علاوہ کچھ نہ کہوں گا” جبکہ یہ سارا جھوٹ عظیم ہے۔ کلمہ جیسی نعمتِ عظمیٰ کو گواہ بناکر سارا جھوٹ بولا گیا، ایسے لوگوں کے لئے اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ آیا یہ لوگ مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں جنھوں نے “کلمے” کو مذاق بنا رکھا ہے؟

ج… میرے خیال میں تو ڈرامہ کرنے والوں نے معاشرے کی عکاسی کی ہوگی، اور مقصد یہ ہوگا کہ لوگوں کی اصلاح ہو، لیکن عملاً نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ نوجوان نسل ان ڈراموں سے انارکی سیکھتی ہے اور ان جرائم کی عملی مشق کرتی ہے جو ٹی وی کی فلموں میں اسے دِکھائے جاتے ہیں۔ جس ڈرامے کا آپ نے ذکر کیا ہے اس سے بھی نئی نسل کو یہی سبق ملا ہوگا کہ ایمان داری، صداقت اور بے لوث خدمت کا تصوّر فضول اور دقیانوسی خیال ہے اور ایسے والد صاحبان کی اسی طرح بے عزتی کرنی چاہئے۔

          رہا یہ کہ ایسے ڈرامے لکھنے والوں کا اور دِکھانے والوں کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ تو یہ سوال خود انہی حضرات کو کرنا چاہئے تھا، مگر وہ شاید اسلام سے اور کلمہ طیبہ سے ویسے ہی بے نیاز ہیں، اس لئے نہ انہیں اسلام کے اَحکام معلوم کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کلمہ طیبہ یا شعائرِ اسلام کی توہین کا احساس ہے، ایسے لوگوں کے لئے بس یہ دُعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی اصلاح کی توفیق نصیب فرمائیں۔

“بسم اللہ” کی بجائے ۷۸۶ تحریر کرنا

س… ہمارا ایک مسئلے پر بحث و مباحثہ چلتا رہا، جس میں ہر ایک شخص اپنے اپنے خیالات پیش کرتا رہا، مگر تسلی ان باتوں سے نہ ہوئی۔ بحث کا مرکز “۷۸۶” تھا جو کہ عام خط و کتابت میں پہلے تحریر کیا جاتا ہے، جس کا مقصد ہم “بسم الله الرحمن الرحیم” جانتے ہیں۔ آیا خط کے اُوپر ۷۸۶ لکھنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے ۷۸۶ کیا ہے اور کس طرح بسم اللہ مکمل بنتا ہے؟ اور ہاں کئی آدمیوں کی رائے ہے کہ یہ ہندووٴں کے کسی آدمی نے بات نکالی ہے تاکہ مسلمانوں کو اس کے لکھنے کے ثواب سے محروم کیا جائے۔ یعنی مکمل وضاحت فرمائیں تاکہ کوئی ایسی غلطی یا بات نہ ہو کہ ہم گناہ کے مرتکب ہوں۔

ج… ۷۸۶ بسم اللہ شریف کے عدد ہیں، بزرگوں سے اس کے لکھنے کا معمول چلا آتا ہے، غالباً اس کو رواج اس لئے ہوا کہ خطوط عام طور پر پھاڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں، جس سے بسم اللہ شریف کی بے ادبی ہوتی ہے، اس بے ادبی سے بچانے کے لئے غالباً بزرگوں نے بسم اللہ شریف کے اعداد لکھنے شروع کئے، اس کو ہندووٴں کی طرف منسوب کرنا تو غلط ہے، البتہ اگر بے ادبی کا اندیشہ نہ ہو تو بسم اللہ شریف ہی کا لکھنا بہتر ہے۔

مدارس کے چندے کے لئے جلسہ کرنا

س… مدارس کا چندہ وعظ و جلسے کی شکل بناکر ایک دِلچسپ تقریر کرکے وصول کرنا کیسا ہے؟ یا جلسے کے علماء بلائے بھی اسی مقصد کے لئے جائیں کہ کچھ تقریر کرکے چندہ کریں گے، یہ کیسا ہے؟

ج… دِینی مقاصد کے لئے چندہ کرنا تو احادیث شریفہ سے ثابت ہے، اور کسی اجتماع میں موٴثر انداز میں اس کی ترغیب دینا بھی ثابت ہے، بلکہ دورانِ خطبہ چندے کی ترغیب دِلانا بھی احادیث میں موجود ہے، البتہ اگر کسی جگہ چندے سے علم اور اہلِ علم کی بدنامی ہوتی ہو تو ایسا چندہ کرنا خلافِ حکمت ہے، والله اعلم!

مشترکہ مذاہب کا کیلنڈر

س… احقر کا نام سلیم احمد ہے اور امریکہ کے شہر شکاگو میں ۱۸ سال سے مقیم ہے۔ حضرتِ والا کی خدمت میں اس خط کے ساتھ ۱۹۹۵ء کا کیلنڈر روانہ کر رہا ہوں جس کے بارے میں مسئلہ دریافت طلب ہے۔ یہ کیلنڈر امریکہ کے تمام مذاہب کے لوگ مل کر چھپواتے ہیں اور پھر ان کو فروخت کرتے ہیں۔ اس سال بھی یہ کلینڈر مسجد میں ۱۵ ڈالر کا (ڈاکٹر محمد صغیرالدین جن کا تعلق اِنڈیا حیدرآباد سے ہے اور وہ تقریباً یہاں پر ۲۵ یا ۳۰ سال سے مقیم ہیں) انہوں نے فروخت کیا اور لوگوں کی توجہ اس طرف دِلائی کہ اس کو خریدیں، اس کیلنڈر میں جولائی کے ماہ میں اسلام کے بارے میں بتایا گیا ہے، اس سلسلے میں چند سوالات خدمتِ اقدس میں پیش کرتا ہوں، اُمید ہے کہ حضرتِ والا اپنی مصروفیات میں سے چند لمحات احقر کے لئے نکال کر جواب سے جلد از جلد مطلع فرمائیں گے۔

          ۱:… آیا شرعاً یہ کیلنڈر بنوانا جس میں تمام مذاہب کی تبلیغ کی جارہی ہو اس میں اسلام کو بھی اسی طرح شامل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

          ۲:… آیا شرعاً اس کا خریدنا اور گھر میں لٹکانا جائز ہے یا نہیں؟

          ۳:… آیا شرعاً اس طریقے سے اسلام کی تبلیغ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

          ۴:… اس کا خریدنے والا، بیچنے والا اور اس کام میں حصہ لینے والا شرعاً مجرم ہوگا یا نہیں؟

ج… اس کیلنڈر کا شائع کرنا، اس کی اشاعت میں شرکت کرنا، اس کا فروخت کرنا، اس کا خریدنا، الغرض کسی نوع کی اس میں شرکت و اعانت کرنا ناجائز ہے، اور اس مسئلے کے دلائل بہت ہیں، مگر چند عام فہم باتوں کا ذکر کرتا ہوں۔

          ۱:… اس کیلنڈر میں بارہ مذاہب کا تعارف ہے، گویا مسلمان، جو اس میں حصہ لیں گے، وہ گیارہ مذاہبِ باطلہ کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنیں گے، اور باطل کی اشاعت کرنا اور اس کا ذریعہ بننا، اس کے حرام اور ناجائز ہونے میں کسی معمولی عقل و فہم کے آدمی کو بھی شبہ نہیں ہوسکتا۔

          ۲:… اس کیلنڈر میں اسلام کو من جملہ مذاہب کے ایک مذہب شمار کیا گیا ہے، دیکھنے والے کا تأثر یہ ہوگا کہ جس طرح دُوسرے دِین و مذاہب ہیں، اسی طرح دِینِ اسلام بھی ایک مذہب ہے، جس کو بعض لوگ سچا دِین سمجھتے ہیں، جیسا کہ دُوسرے گیارہ مذاہب کو ماننے والے سچا دِین سمجھتے ہیں۔ جبکہ قرآنِ کریم کا اعلان یہ ہے کہ دِینِ برحق صرف اسلام ہے، باقی سب باطل ہیں: “اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَام”۔ اب کسی مسلمان کا اس بارہ مذہبی کیلنڈر کی اشاعت میں حصہ لینا گویا اس قرآنی اعلان کی نفی کرنا ہے۔

          ۳:… کیلنڈر میں جگہ جگہ بت بنے ہوئے ہیں، صلیب آویزاں ہے، اور تصویریں بنی ہوئی ہیں، کوئی بھی سچا مسلمان کفر و بت پرستی کے اس نشان کو اپنے گھر میں آویزاں نہیں کرسکتا، نہ اس کو خرید سکتا ہے۔

          ۴:… جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ اس کیلنڈر کو مساجد میں لایا جاتا ہے اور وہاں ۱۵ ڈالر میں اس کو فروخت کیا جاتا ہے۔ اوّل تو مسجد کے اندر خرید و فروخت ہی حرام ہے، کیونکہ یہ مسجد کو بازار بنانے کے ہم معنی ہے۔ علاوہ ازیں بتوں کو قرآنِ کریم نے رِجس یعنی گندگی فرمایا اور مساجد کو ہر طرح کی ظاہری و معنوی گندگی سے پاک رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ مسجد میں اس بتوں والے کیلنڈر کا لانا گویا خانہٴ خدا کو بت خانہ بنانا اور اس گندگی سے آلودہ کرنا ہے، جو صریحاً حرام اور ناجائز ہے۔

          رہا یہ خیال کہ: “ہم اس کیلنڈر کے ذریعہ اسلام کا تعارف کراتے ہیں” مذکورہ بالا مفاسد کے مقابلے میں لائقِ اعتبار نہیں، اس قسم کے ناجائز اور حرام ذرائع سے مذاہبِ باطلہ کی اشاعت تو ہوسکتی ہے، دِینِ برحق ان ذرائع کا محتاج نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت سے ایسے ممالک تشریف لے گئے جہاں کوئی ان کی زبان بھی نہیں سمجھتا تھا، لیکن لوگ ان کے اعمال و اخلاق اور ان کی سیرت اور کردار کو دیکھ کر مسلمان ہوتے تھے، آج بھی گئے گزرے دور میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے موجود ہیں جن کے اخلاق و اعمال کو دیکھ کر لوگ اسلام کی حقانیت کے قائل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائی جو ممالکِ غیر میں رہائش پذیر ہیں، اگر وہ اپنی وضع قطع، اپنے اخلاق و اعمال اور اپنے طور و طریق کو ایسا بنالیں جو اسلام کی منہ بولتی تصویر ہو تو لوگ ان کے سراپا کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہوجائیں۔

          گویا ایک مسلمان کی شکل و صورت، وضع قطع، سیرت و کردار اور چال ڈھال ایسی ہو کہ دیکھنے والے پکار اُٹھیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام جارہا ہے۔ ایسا ہو تو ہر مسلمان اسلام کا مبلغ ہوگا اور اسے غیرشرعی مصنوعی ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ برعکس اس کے اگر مسلمان غیرملکوں میں جاکر “ہر کہ درکان نمک رفت نمک شد” کا مصداق بن جائے، غیرمسلموں کی سی شکل و صورت، انہی کی سی وضع و قطع، انہی کی سی معاشرت وغیرہ، تو اس کے بعد اسلام کا تعارف ایسے غیرشرعی کیلنڈروں کے ذریعے بھی کرائیں تو لغو اور بے سود ہے۔ جس اسلام نے خود ان کی شخصیت کو متأثر نہیں کیا، اس کا تعارف غیرمسلموں پر کیا اثرانداز ہوگا․․․؟

          خلاصہ یہ کہ ایسے کیلنڈر کا افادی پہلو تو محض وہمی اور خیالی ہے اور اس کے مفاسد اس قدر ہیں کہ ذرا سے تأمل سے ہر مسلمان پر واضح ہوسکتے ہیں، اس لئے ایسے کیلنڈر کی اشاعت میں حصہ لینا کسی مسلمان کے روا نہیں۔

شہریت کے حصول کے لئے اپنے کو “کافر” لکھوانا

س… یورپ کے کچھ ممالک کی حکومتوں کی یہ پالیسی ہے کہ وہ دُوسرے ملکوں کے ان لوگوں کو سیاسی پناہ دیتے ہیں جو اپنے ملک میں کسی زیادتی یا امتیازی سلوک کے شکار ہوں۔ ہمارے کچھ پاکستانی بھی حصولِ روزگار کے سلسلے میں وہاں جاتے ہیں اور مستقل قیام یا شہریت حاصل کرنے کے لئے وہاں کی حکومت کو تحریری درخواست دیتے ہیں کہ وہ قادیانی ہیں، چونکہ پاکستان میں قادیانیوں سے زیادتی کی جاتی ہے اس لئے ان کو وہاں پر سیاسی پناہ دی جائے۔ اس طرح وہاں پر قیام کرنے کی اجازت حاصل کرلیتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد ان کو وہاں کی شہریت بھی مل جاتی ہے۔ ان لوگوں کو اگر سمجھایا جائے کہ اس طرح قادیانی بن کر روزگار حاصل کرنا شرعی طور پر گناہ ہے اور اس طرح وہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں مگر ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ صرف روزگار حاصل کرنے کے لئے قادیانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ورنہ وہ اب بھی دِل و جان سے اسلام پر قائم ہیں۔ وہاں کی شہریت حاصل کرکے وہ پاکستان آکر یہاں مسلمان گھرانوں میں شادی بھی کرلیتے ہیں، اور لڑکی والوں سے یہ بات چھپائی جاتی ہے کہ لڑکے نے قادیانی بن کر غیرملکی شہریت حاصل کی ہے اور لڑکی والے بھی اس لالچ میں کہ ان کی لڑکی کو بھی یورپ کی شہریت مل جائے گی، کوئی تحقیق نہیں کرتے۔ حالانکہ لڑکے کے قریبی عزیز و اقارب کو یہ بات معلوم ہوتی ہے، اس طرح جھوٹ موٹ اپنے آپ کو قادیانی ظاہر کرنے سے چاہے وہ صرف وہاں رہائش حاصل کرنے کے لئے بولا گیا ہو، کیا وہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں؟

ج… جو شخص جھوٹ موٹ کہہ دے کہ میں ہندو ہوں یا عیسائی ہوں یا قادیانی ہوں، وہ اس کے کہنے کے ساتھ ہی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس کا حکم مرتد کا حکم ہے۔

س… وہ جو کسی مسلمان لڑکی سے شادی کرتے ہیں، کیا ان کا نکاح جائز ہے؟ اگر ان کا نکاح جائز نہیں تو اب ان کو کیا کرنا چاہئے؟

ج… ایسے شخص سے کسی مسلمان لڑکی کا نکاح نہیں ہوتا، اگر دھوکے سے نکاح کردیا گیا تو پتا چلنے کے بعد اس نکاح کو کالعدم سمجھا جائے اور لڑکی کا عقد دُوسری جگہ کردیا جائے، چونکہ نکاح ہی نہیں ہوا اس لئے طلاق لینے کی ضرورت نہیں۔

س… کیا لڑکی کے والدین اور لڑکی جس کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں، وہ بھی گناہ میں شامل ہیں؟

ج… جی ہاں! وہ بھی گناہگار ہوں گے، مثلاً: کسی مسلمان لڑکی کا نکاح کسی سکھ سے کردیا جائے تو ظاہر ہے یہ کہ کام کرنے والے عنداللہ مجرم ہوں گے۔

س… لڑکے کے وہ عزیز و اقارب جو یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی لڑکی والوں سے بات چھپاتے ہیں اور نکاح میں شریک ہوتے ہیں، کیا وہ بھی گناہگار ہوں گے؟

ج… جن عزیز و اقارب نے صورتِ حال کو چھپایا وہ خدا کے مجرم ہیں، اور اس بدکاری کا وبال ان کی گردن پر ہوگا۔

س… کیا وہ دوبارہ اسلام میں داخل ہوسکتے ہیں، اگر ہاں تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اور کیا کوئی کفارہ بھی دینا ہوگا؟

ج… دوبارہ اسلام میں داخل ہوسکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اعلان کردیں کہ وہ قادیانی نہیں اور وہاں کی حکومت کو بھی اس کی اطلاع کردیں۔

س… جو شادی شدہ آدمی وہاں جاکر یہ حرکت کرتے ہیں، کیا ان کا نکاح قائم ہے؟ اگر نہیں تو ان کو کیا کرنا چاہئے؟ تاکہ ان کا نکاح بھی قائم رہے اور وہ دوبارہ اسلام میں داخل ہوسکیں۔

ج… چونکہ ایسا کرنے سے وہ مرتد ہوجاتے ہیں اس لئے ان کا پہلا نکاح فسخ ہوگیا، تجدیدِ اسلام کے بعد نکاح کی بھی تجدید کریں۔

نامحرَم مردوں سے چوڑیاں پہننا

س… ہماری مائیں بہنیں جو کہ برقع کا اہتمام کرتی ہیں لیکن عید وغیرہ کے موقع پر جب چوڑیاں پہنتی ہیں اور اپنا ہاتھ نامحرَم انسان کے ہاتھ میں دیتی ہیں تو ایسے پردے کا فائدہ ہے یا معذوری ہے؟

ج… عورتوں کا نامحرَم مردوں سے چوڑیاں پہننا حرام ہے، حدیث میں اس کو خنزیر کا گوشت چھونے سے بھی بدتر فرمایا ہے۔

کسی کو کافر کہنا

س… ایک عالم دُوسرے عالم کو اختلاف کی وجہ سے قادیانی کہتا ہے، ایسے شخص کا کیا حکم ہے اور کیا اس کا نکاح باقی رہا؟

ج:۱… حدیث میں ہے کہ جس نے دُوسرے کو کافر کہا، ان میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا، اگر وہ شخص جس کو کافر کہا واقعتا کافر تھا تو ٹھیک، ورنہ کہنے والا کفر کا وبال لے کر جائے گا۔ کسی کو کافر کہنا گناہِ کبیرہ ہے۔

          ۲:… وہ خود عالم ہے، اپنے نکاح کے بارے میں خود جانتا ہوگا۔ اُوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ گناہِ کبیرہ ہے، اور ایک عالم کا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہونا بے حد افسوسناک ہے، ان صاحب کو توبہ کرنی چاہئے اور مظلوم سے معافی مانگنی چاہئے۔

ایام کے چیتھڑوں کو کھلا پھینکنا

س… مخصوص ایام میں خواتین جو کپڑا استعمال کرتی ہیں اس کو پھینکنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ سننے میں آیا ہے کہ ان پر کسی کی نگاہ پڑے تو اس کپڑے کا سارا عرق قیامت کے دن اس کو پلایا جائے گا جس نے یہ پھینکا ہے۔ عام طور پر خواتین انہیں کاغذ میں لپیٹ کر پھینکتی ہیں، کیا یہ طریقہ دُرست ہے؟ آپ اس کی شرعی حیثیت بتاکر میری پریشانی کو دُور فرمادیں۔

ج… مستورات کے استعمال شدہ چیتھڑوں کو کھلا پھینکنا تو بے ہودگی ہے، مگر قیامت کے دن عرق پلانے کی جو بات آپ نے سنی ہے، میں نے کہیں نہیں پڑھی۔

شرٹ، پینٹ اور ٹائی کی شرط والے کالج میں پڑھنا

س… ہم طلبہ “پین اسلامک گروپ آف انڈسٹریز” کے اسٹاف کالج میں زیر تعلیم ہیں۔ یہاں کے قواعد و ضوابط کے مطابق پینٹ، شرٹ اور “ٹائی” لگانا ضروری ہے۔ جو بھی طالب علم بغیر ٹائی کلاس میں آتا ہے اس کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسلام کے نقطہٴ نظر سے ٹائی کا کیا مقام ہے؟ اور ایسے شخص کے بارے میں جو کہ ٹائی لگاتا یا لگواتا ہے کیا حکم ہے؟ جبکہ تمام اسٹاف اساتذہ اور طلبہ مسلمان ہیں۔

ج… اس سے قطع نظر کہ ٹائی لگانا جائز ہے یا کہ ناجائز، سوال یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے کب تک اسلامی تہذیب و اخلاق کا مقتل بنے رہیں گے؟ بقول اکبر# مرحوم:

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

          مذکورہ بالا کالج کے قواعد و ضوابط انگریزی دور کی یادگار اور پاکستان کے دعویٴ اسلامیت کی نفی کرتے ہیں۔ آپ ان قواعد و ضوابط کے خلاف احتجاج کیجئے اور حکومت سے مطالبہ کیجئے کہ ان بھونڈے اور ناروا قواعد کو منسوخ کیا جائے۔

  • Tweet

What you can read next

متفرق مسائل
معاملات
صدقہ، فقراء وغیرہ سے متعلق مسائل
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP