SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Tuesday, 17 August 2010 / Published in جلد ششم

تجارت اور مالی معاملات میں دھوکادہی

 

 

چھوٹے بھائی کے ساتھ دھوکا کرنے والے کا انجام

س… ایک شخص جو نماز، روزہ اور تلاوتِ قرآن کا پابند ہے، پڑھا لکھا دِینی و دُنیاوی علوم سے اچھی طرح باخبر ”الحاج“ شخص ہے، اس نے جو مال بھی کمایا ہے وہ چھوٹے سگے بھائی کے توسط سے کمایا، جس نے اسے سعودی عرب کا ریلیز ویزا اور وہاں کی ملازمت حاصل کرنے میں اس کی معاونت کی۔ چونکہ چھوٹا بھائی ایک طویل عرصے سے ایک مشہور کمپنی میں مارکیٹنگ منیجر کی پوسٹ پر ہے، بڑا بھائی ۶، ۷ سال ملازمت کرنے اور بھاری رقم بچت کرنے کے بعد مدّتِ ملازمت کے خاتمے پر وطن لوٹ آیا اور یہاں آتے ہی اس شخص میں دولت کی حرص و ہوس بڑھتی گئی اور اس نے اپنے محسن یعنی چھوٹے بھائی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کسی ذاتی کام کی ذمہ داری پردیس سے اس پر سونپی اور اس کام کے لئے تقریباً تین لاکھ روپے کا ڈرافٹ اپنے بڑے بھائی کے نام اِرسال کیا۔ اس کے علاوہ سعودیہ بلانے سے قبل اس پر اعتماد کرتے ہوئے ۱۲۰ گز کا پلاٹ اس کے نام پر رکھوالے کی حیثیت سے خریدا۔ عرض یہ کرنا ہے کہ تقریباً چار سال ہوئے یہ بددیانت شخص اپنے چھوٹے بھائی کی تین لاکھ سے زائد کیش رقم اور ایک لاکھ روپے مالیت کے پلاٹ کا مالک بن بیٹھا ہے، جس کا کوئی تحریری ثبوت بھی موجود نہیں۔ مزید برآں یہ کہ وہ اپنے بھائی کے مکان میں جبراً رہ بھی رہا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ خود کو ”صوفی“ کہلواتا ہے، بڑا پرہیزگار اور دِین دار بنا پھرتا ہے۔ چھوٹے بھائی نے ہر طرح سے کوشش کی کہ اس کی نجی رقم وہ واپس کردے، اس کے لئے ہر معزّز طریقہ اختیار کیا، مگر ہر بار وہ ڈاج دے کر بچتا رہا ہے۔ اصل مالک چونکہ پردیس میں رہتا ہے اس لئے مستقل مزاجی سے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

          مولانا صاحب! قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اور حجة الوداع میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی بڑی تفصیل بیان کی ہے کہ: ”کسی شخص کو یہ جائز نہیں کہ اپنے بھائی کا مال غلط طریقے سے کھائے، بجز اس کے کہ اس میں اس کی رضامندی شامل ہو۔“ مولانا صاحب! اصل مالک کو اس بددیانت شخص سے روپیہ حاصل کرنے کے لئے کون سا ہتھکنڈا اختیار کرنا چاہئے؟ اس کے ساتھ عدالتی کارروائی کرنی چاہئے یا خدا کی عدالت میں اس مقدمے کو پیش کردینا چاہئے؟ کیا خداوند تعالیٰ اس خائن شخص کی نیکیاں اور عبادتیں چھوٹے بھائی کے کھاتے میں ڈال دے گا، جس کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے؟ خدا کے حضور میں اس شخص کا کیا انجام ہوگا؟

ج… آپ نے جو کچھ لکھا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو ظاہر ہے کہ کسی کا مال کھانے والا نیک، پرہیزگار، متقی اور صوفی نہیں ہوسکتا، خائن، بددیانت اور غاصب کہلانے کا مستحق ہوگا۔

          رہا یہ کہ ایسے شخص کے ساتھ کیسے نمٹا جائے؟ تو دُنیا میں تو اس کے دو طریقے رائج ہیں، ایک یہ کہ دو چار شریف آدمیوں کو جمع کرکے ان کے سامنے واقعات بیان کئے جائیں اور وہ ان صاحب کو سمجھائیں۔ دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ عدالت سے رُجوع کیا جائے۔

          جہاں تک آخرت کا تعلق ہے، وہاں کسی شخص کے لئے دھوکادہی، فریب اور غلط تأویل کی گنجائش نہیں، ہر انسان کی کارکردگی کا پورا دفتر، نامہٴ عمل کی شکل میں موجود ہوگا، اور ہر ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائے گا، اور وہاں بدلہ چکانے کے لئے ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دِلائی جائیں گی، اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو مظلوم کے گناہوں کا بوجھ ظالم پر ڈال دیا جائے گا۔

          ”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من کانت لہ مظلمة لأخیہ من عرضہ أو شیء فلیتحلّلہ منہ الیوم قبل أن لا یکون دینار ولا درھم، ان کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وان لم یکن حسنات أخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ۔“                                (رواہ البخاری)

          صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو مفلس کون ہے؟ عرض کیا گیا: ہمارے یہاں تو مفلس وہ کہلاتا ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ اور مال و متاع نہ ہو۔ فرمایا: ”میری اُمت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰة لے کر آئے، لیکن (اس کے ذمہ لوگوں کے حقوق بھی ہوں، مثلاً:) ایک شخص کو گالی دی تھی، ایک پر تہمت لگائی تھی، ایک کا مال کھایا تھا، ایک کا خون بہایا تھا، ایک کو مارا پیٹا تھا، اس کی نیکیاں ان تمام اَربابِ حقوق کو دے دی جائیں گی، اور اگر حقوق ابھی باقی تھے کہ نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دئیے گئے پھر اس کو جہنم میں جھونک دیا گیا۔

          ”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: أتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فینا من لا درھم ولا متاع، فقال: ان المفلس من أُمّتی من یأتی یوم القیامة بصلاة وصیام وزکٰوة ویأتی قد شتم ھٰذا، وقذف ھٰذا، وأکل مال ھٰذا، وسفک دم ھٰذا، وضرب ھٰذا، فیعطی ھٰذا من حسناتہ وھٰذا من حسناتہ، فان فنیت حسناتہ قبل أن یقضی ما علیہ أخذ من خطایاھم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار۔“

                    (رواہ مسلم، مشکوٰة ص:۴۳۵)

          اور صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی کے ذمہ اس کے بھائی کا کوئی حق ہو خواہ اس کی جان سے متعلق یا عزّت سے متعلق یا مال سے متعلق، اس کو چاہئے کہ یہیں معاملہ صاف کرکے جائے، اس سے پہلے کہ آخرت میں پہنچے جہاں اس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ نہیں ہوگا۔ اگر اس کے پاس نیکیاں ہوں گی تو لوگوں کے حقوق کے بقدر اَربابِ حقوق کو دے دی جائیں گی، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دئیے جائیں گے۔“                                                 (مشکوٰة)

          اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائیں، آخرت کا معاملہ بڑا ہی سنگین ہے، جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لئے کسی پر ظلم و تعدی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، اور جو شخص کسی کو ستاتا ہے، کسی کی غیبت کرتا ہے، کسی کو ذہنی و جسمانی ایذا پہنچاتا ہے، کسی کا مال کھاتا ہے، قیامت کے دن یہ سب کچھ اُگلنا پڑے گا، ذِلت و رُسوائی الگ ہوگی، اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب الگ ہوگا، اور جہنم کی سزا الگ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی پناہ میں رکھے۔

ڈیوٹی دئیے بغیر گورنمنٹ سے لی ہوئی رقم کا کیا کریں؟

س… میری شادی کو دو سال ہونے والے ہیں، شادی کے وقت میں ٹھٹھہ شہر میں تھی جو کراچی سے ۸۰ میل دُور ہے، میرے شوہر سرکاری ملازم ہیں، لیکن وہ اوتھل میں ڈیوٹی دیتے تھے اور ساتھ ہی کراچی میں (جہاں ہم رہتے تھے) اسپتال میں کورس کرتے رہے اور وہاں سے بھی ان کو اسکالر شپ کے پیسے ملتے تھے۔ شاید ۸، ۹ مہینے وہ اس اسپتال میں ہاوٴس جاب کرتے رہے اور ایک دن بھی اوتھل میں ڈیوٹی نہیں دی اور وہاں کی ڈیوٹی کی پوری تنخواہ چار ہزار وہ لیتے رہے، اور مہینے کے آخر تک وہ پیسے ختم ہوجاتے اور بچتے نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا فرض ہے کہ جہاں وہ سرکاری ملازموں کو ڈیوٹی کے لئے بھیجے تو اس جگہ اچھی رہائش اور باقی سہولتوں کا بھی بندوبست کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں سہولتیں نہیں تھیں اور ان کے بڑے افسر کو پتا تھا۔ اور ایک دفعہ جب وہ اوتھل گئے دُوسرے شہر میں ٹرانسفر کے کام کے لئے، اس وقت دُوسرا افسر آچکا تھا، وہ بہت ناراض ہوا۔ اب ایک سال سے ان کی ٹرانسفر کوئٹہ شہر میں ہے، وہاں یہ کام کرتے ہیں۔ لیکن میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ۶۰ہزار ان مہینوں کی تنخواہ بنتی ہے اوتھل کی ڈیوٹی کی، تو اسلام کی رُو سے یہ ناجائز رقم ہے، ہمارے پاس اس میں سے کچھ بھی نہیں بچی تھی۔ میرے شوہر اس میں سے ۸ہزار بغیر نیت کے غریبوں کو دے چکے ہیں اور باقی رقم وہ کہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ نکالیں گے، جیسے جیسے پیسہ آئے گا۔ تو کیا اس طریقے سے ہماری نماز روزہ قبول نہ ہوگا؟ یا جب تک ہم پوری ناجائز رقم نہ نکال دیں نماز روزہ قبول نہ ہوگا؟ کیا اگر میں اپنے حصے کی رقم نکال دُوں یعنی جب سے شادی کرکے ان کے پاس آکر میں نے اس تنخواہ کا کھانا کھایا، ان کے حساب سے وہ ۲۴ ہزار بنتے ہیں، تو کیا میرا نماز روزہ قبول ہونا شروع ہوجائے گا؟ اس طرح ان کی بھی مدد ہوجائے گی، اگر میں اپنی ملکیت سے یہ ناجائز رقم نکال دُوں گی۔ کیا اس تمام رقم پر زکوٰة بھی ادا کرنی ہوگی؟ جبکہ یہ تنخواہ تو بچتی نہ تھی اور استعمال ہوجاتی تھی مہینے کے اندر اندر۔

ج… یہ ناجائز رقم تھی، آہستہ آہستہ اس کو نکال دیں۔

زائد بل بنوانے والے ملازم کے بل پاس کروانا

س… میں گورنمنٹ میں ملازم ہوں، اور جب سرکاری کام کے لئے فوٹوکاپی کروانی ہوتی ہے تو چپڑاسی مطلوبہ کاپیوں سے زیادہ رقم رسید پر لکھواکر لاتا ہے، اور مجھے ایک فارم پُر کرکے اس رسید کے ساتھ اپنے ماتحت افسر سے تصدیق کرانی ہوتی ہے، کیا اس گناہ میں، میں بھی شریک ہوں؟ حالانکہ میں اس زائد رقم سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا۔

ج… گناہ میں تعاون کی وجہ سے آپ بھی گناہ گار ہیں، اور دُوسروں کی دُنیا کے لئے اپنی عاقبت برباد کرتے ہیں۔

ناحق دُوسرے کی زمین پر قبضہ کرنا

س… ایک شخص اپنی زمین کی پیمائش اور نقشے کی حد سے بڑھ کر اپنے پڑوسی کی زمین میں جو کہ اس کی پیمائش اور نقشے کے مطابق ہو، اس میں گھس کر اپنا مکان تعمیر کرلیتا ہے، اور اس طرح اپنی زمین بڑھاکر اپنے پڑوسی کی زمین کم کردیتا ہے، شریعت کے مطابق وہ شخص کیسا ہے؟

ج… حدیث شریف میں ہے:

          ”من أخذ شبرًا من الأرض ظلمًا فانہ یطوقہ یوم القیامة من سبع أرضین۔“           (متفق علیہ، مشکوٰة ص:۲۵۴)

          ترجمہ:… ”جس شخص نے کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی ناحق قبضہ کرلیا، قیامت کے دن سات طبق زمین کا طوق اس کے گلے میں پہنایا جائے گا۔“ (مشکوٰة بروایت بخاری و مسلم)

موروثی مکان پر قبضے کے لئے بھائی بہن کا جھگڑا

س… عرض ہے کہ ہم دو بہن بھائی ہیں (ایک بھائی، ایک بہن)، والدین گزرگئے، ترکہ میں ایک مکان ہے جس میں ہم رہتے تھے۔ میری بہن نے ایک مکان خریدا مجھے اس میں منتقل کردیا، تقریباً ساڑھے چار سال بعد میری بہن نے وہ مکان فروخت کردیا۔ پھر مجھے اس گھر میں (جو کہ ہمارے والدین کا تھا نہیں آنے دیا، میں کرائے کے مکان میں رہنے لگا۔ تقریباً اَٹھارہ سال ہوئے کرایہ کے مکان میں رہتے ہوئے، میں کرائے کی مد میں تقریباً ۲۰۰,۴۲ روپے ادا کرچکا ہوں۔ میں نے برادری میں درخواست دی تو پنچوں نے میری بہن کو بلایا اور میری درخواست بتائی، جس پر میری بہن نے ساڑھے چار سال کا کرایہ ۲۰۰ روپے ماہوار کے حساب سے ۸۰۰,۱۰روپے ذمہ لگایا۔ اس کے علاوہ میری بہن نے میری طرف ۰۰۰,۲۱ روپے کا قرضہ بتایا، اور کلمہ پڑھ کر کہا کہ یہ میرے ہیں۔ اس کے علاوہ (والدین کے مکان میں جو ترکہ میں ہے) بجلی لگوائی: ۴۰۰ روپے، پانی کا نل لگوایا: ۳۰۰ روپے، گیس لگوایا: ۵۰۰ روپے، مرمت مکان: ۰۰۰,۵ روپے، اس طرح جنرل ٹوٹل: ۰۰۰,۱۷ روپے ہوئے۔ پنچوں نے پھر میرا حساب کیا کہ ترکہ کے مکان میں ۱۹۵۹ء سے رہتی ہو، اور یہ مکان میری بہن سے (جس میں، میں ساڑھے چار سال رہا) بڑا ہے، لہٰذا اس کا کرایہ کم از کم ۲۰۰ روپے ماہوار لگاوٴ، تقریباً ۲۸ سال ہوئے جس کا کرایہ: ۲۰۰/۶۷ روپے ہوا، اور ۶۰۰,۱ روپے نقد کے ہیں، کل رقم: ۸۰۰,۶۸ روپے ہوئے۔ لہٰذا شریعت کی رُو سے بتائیں یہ رقم بہن بھائی میں کس طرح تقسیم کی جائے اور مکان کس طرح تقسیم کیا جائے؟ مہربانی فرماکر بہن کا علیحدہ اور بھائی کا علیحدہ حصہ بتایا جائے تاکہ یہ معاملہ نمٹ سکے۔

ج… والدین نے جو مکان چھوڑا ہے، اس پر دو حصے بھائی کے ہیں، اور ایک حصہ بہن کا، لہٰذا اس کے تین حصے کرکے، دو بھائی کو دِلائے جائیں اور ایک بہن کو۔

          ۲:… بہن جو قرضہ بھائی کے نام بتاتی ہے، اگر اس کے گواہ موجود ہیں یا بھائی اس قرض کا اقرار کرتا ہے، تو بھائی سے وہ قرضہ دِلایا جائے، ورنہ بہن کا دعویٰ غلط ہے، وہ کتنی ہی دفعہ کلمہ پڑھ کر یقین دِلائے۔

          ۳:… بہن نے اپنے بھائی کو جس مکان میں ٹھہرایا تھا اگر اس کا کرایہ طے کرلیا تھا تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ شرعاً کرایہ وصول کرنے کی مجاز نہیں۔

          ۴:… بھائی کے مکان میں جو وہ ۲۸ سال تک رہی ، چونکہ یہ قبضہ غاصبانہ تھا اس لئے اس کا کرایہ اس کے ذمہ لازم ہے۔

          ۵:… بہن نے اس مکان میں جو بجلی، پانی اور گیس پر روپیہ خرچ کیا، یا مکان کی مرمت پر خرچ کیا، چونکہ اس نے بھائی کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے کیا، اس لئے وہ بھائی سے وصول کرنے کی شرعاً مجاز نہیں۔

          خلاصہ یہ کہ بہن کے ذمہ بھائی کے ۲۰۰,۶۷ روپے بنتے ہیں، اور شرعی مسئلے کی رُو سے بھائی کے ذمہ بہن کا ایک پیسہ بھی نہیں نکلتا۔ تاہم پنچایت والے صلح کرانے کے لئے کچھ بھائی کے ذمہ بھی ڈالنا چاہیں تو ان کی خوشی ہے۔

قرض کے لئے گروی رکھے ہوئے زیورات کو فروخت کرنا

س… آج کل غریب علاقوں میں عورتیں اپنے واقف کار لوگوں کے پاس جاکر اپنے زیورات اپنی منہ بولی رقم کے عوض رکھوادیتی ہیں، اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتی ہیں کہ اگر مخصوص مدّت تک رقم واپس نہ دے سکے تو رکھے ہوئے زیورات رکھنے والے کی ملکیت تصوّر ہوں گے۔ اس سلسلے میں آپ مذہبی نقطہٴ نگاہ سے فرمائیں کہ کیا یہ کاروبار جائز ہے؟

ج… اس کو ”رہن“ یا ”گروی رکھنا“ کہتے ہیں، شرعاً اس کی اجازت ہے، مگر جس کے پاس وہ چیز گروی رکھی جائے وہ اس کا مالک نہیں ہوتا، نہ اس کو استعمال کرنے کی اجازت ہے، بلکہ قرض کی مدّت پوری ہونے پر اس کو مالک سے قرض کا مطالبہ کرنا چاہئے، اگر قرض وصول نہ ہو تو مالک کی اجازت سے اس چیز کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلے اور زائد رقم اس کو واپس کردے۔

خرید و فروخت میں دھوکا کرنا

س… میں ایک دُکان دار ہوں، جب کوئی گاہک کسی چیز کے متعلق معلوم کرتا ہے تو میں گول مول سا جواب دیتا ہوں، مثلاً: ”پتہ نہیں، آپ چیک کرلیں“ وغیرہ وغیرہ، حالانکہ مجھے اس چیز کے تمام عیب معلوم ہوتے ہیں، اس طرح کاروبار کی کمائی شرعاً جائز ہے کہ نہیں؟

ج… بہتر تو یہ ہے کہ گاہک کو چیز کے عیوب بتادئیے جائیں، لیکن اگر یہ کہہ دیا جائے کہ: ”یہ جیسی بھی ہے، آپ کے سامنے ہے، اگر پسند ہے تو لے لیجئے، ورنہ چھوڑ دیجئے“ ایسا کہنے سے بھی آپ کا ذمہ بری ہوجاتا ہے۔

  • Tweet

What you can read next

کمیشن
وراثت کے متفرّق مسائل
قرض کے مسائل
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP