SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Tuesday, 17 August 2010 / Published in جلد ششم

مکان، زمین، دُکان اور دُوسری چیزیں کرایہ پر دینا

 

زمین بٹائی پر دینا جائز ہے

س… زمین داری یا بٹائی پر زمین کے خلاف اب تک جو شرعی دلائل سامنے آئے ہیں ان میں ایک دلیل یہ ہے کہ چونکہ یہ معاملہ سود سے ملتا جلتا ہے، جس طرح سودی کاروبار میں رقم دینے والا فریق بغیر کسی محنت کے متعین حصے کا حق دار رہتا ہے، اور نقصان میں شریک نہیں ہوتا، اسی طرح کاشت کے لئے زمین دینے والا جسمانی محنت کے بغیر متعین حصے (آدھا، تہائی) کا حق دار بنتا ہے اور نقصان سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ معاملہ ”سود“ کے ضمن میں آجاتا ہے۔ کاشتکاری میں مالک کی زمین بالکل محفوظ ہوتی ہے، پھر وہ جب چاہے کاشت کار سے زمین لے سکتا ہے۔ زمین میں کاشت کی وجہ سے زمین کی قیمت، زرخیزی اور صلاحیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، جس قباحت کی وجہ سے سود ناجائز ہے، یہی قباحت بٹائی میں بھی موجود ہے۔ مندرجہ بالا دلیل میرے خیال میں مکان کرائے پر دینے پر بھی صادق آتی ہے، کیونکہ مالکِ مکان بغیر کسی محنت کے متعین کرایہ وصول کرتا ہے اور ملکیت بھی محفوظ رہتی ہے۔

ج… زمین کو ٹھیکے پر دینا اور مکان کا کرایہ لینا تو سب اَئمہ کے نزدیک جائز ہے، زمین بٹائی پر دینے میں اختلاف ہے، مگر فتویٰ اسی پر ہے کہ بٹائی جائز ہے، اس کو ”سود“ پر قیاس کرنا غلط ہے، البتہ ”مضاربت“ پر قیاس کرنا صحیح ہے، اور مضاربت جائز ہے۔

مزارعت جائز ہے

س… اسلام میں مزارعت جائز ہے یا ناجائز ہے؟ ترمذی، ابنِ ماجہ، نسائی، ابوداوٴد، مسلم اور بخاری کی بہت ساری احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت کو سودی کاروبار قرار دیا ہے، مثلاً: رافع بن خدیج کے صاحبزادے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک ایسے کام سے روک دیا ہے جو ہمارے لئے فائدہ مند تھا، مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لئے زیادہ فائدہ مند ہے (ابوداوٴد)۔

          ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک کھیت کے پاس سے ہوا، آپ نے پوچھا: یہ کس کی کھیتی ہے؟ عرض کیا: میری کھیتی ہے، تخم اور عمل میرا ہے اور زمین دُوسرے مالک کی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سودی معاملہ طے کیا ہے (ابوداوٴد)۔

ج… شریعت میں مزارعت جائز ہے، احادیثِ مبارکہ میں اور صحابہ کرام کے عمل سے اس کا جواز ثابت ہے۔ جن احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ایسی مزارعت پر محمول ہیں جن میں غلط شرائط لگادی گئی ہوں۔

          نوٹ:… بٹائی یا مزارعت سے متعلق تمام مشہور احادیث کی تفسیر اگلے سوال کے جواب میں ملاحظہ فرمالی جائے۔

بٹائی کے متعلق حدیثِ مخابرہ کی تحقیق

س… کیا حدیثِ مخابرہ میں بٹائی کی ممانعت آئی ہے؟ جیسا کہ ”بینات“ کے ایک مضمون سے واضح ہوتا ہے۔

ج… ”بینات“ بابت ذی الحجہ ۱۳۸۹ھ (فروری ۱۹۷۰ء) میں محترم مولانا محمد طاسین صاحب زید مجدہم نے ”رِبا“ کے بہتر۷۲ اَبواب پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

          ”اسی طرح مزارعت کو بھی ایک حدیث میں ورباء سے تعبیر کیا گیا ہے، اور دُوسری حدیث میں اس کو نہ چھوڑنے والوں کو ویسی ہی دھمکی دی گئی ہے جو قرآن میں ”رِبا“ سے باز نہ آنے والوں کو دی گئی ہے:

          ”عن رافع بن خدیج رضی الله عنہ أنہ زرع أرضًا فمرّ بہ النبی صلی الله علیہ وسلم وھو یسقیھا فسألہ: لمن الزرع؟ ولمن الأرض؟ فقال: زرعی وببذری وعملی لی الشطر ولبنی فلان الشطر۔ فقال: أربیتما، فرد الأرض علٰی أھلھا وخذ نفقتک۔“

                    (ابوداوٴد ج:۲ ص:۱۲۷، طبع ایچ ایم سعید)

          ترجمہ:… ”حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک کھیتی کاشت کی، وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، جبکہ وہ اس کو پانی دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ: یہ کس کی کھیتی ہے اور کس کی زمین ہے؟ میں نے جواب دیا: کھیتی میرے بیج اور عمل کا نتیجہ ہے، اور آدھی پیداوار میری اور آدھی بنی فلاں کی ہوگی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے رِبا اور سود کا معاملہ کیا، زمین اس کے مالکوں کو واپس کردو اور اپنا خرچ ان سے لے لو۔“

          ”عن جابر بن عبدالله رضی الله عنہ قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: من لم یذر المخابرة فلیوٴذن بحرب من الله ورسولہ۔“

                    (ابوداوٴد ج:۲ ص:۱۲۷، طبع ایچ ایم سعید)

          ترجمہ:… ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جو شخص ”مخابرہ“ کو نہ چھوڑے، اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔“

          یہ دونوں روایتیں چونکہ مولانا محترم کے مضمون میں محض برسبیل تذکرہ آگئی ہیں، اس لئے ان کے مالہ وما علیہ سے بحث نہیں کی گئی۔ اس سے عام آدمی کو یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ اسلام میں ”مزار(۱)عت“ مطلقاً ”رِبا“ کا حکم رکھتی ہے، اور جو لوگ یہ معاملہ کرتے ہیں ان کے خلاف خدا اور رسول کی جانب سے اعلانِ جنگ ہے۔ لیکن اہلِ علم کو معلوم ہے کہ ”مزارعت“ اسلام میں مطلقاً ممنوع نہیں۔

          مولانا کی تحریر کی وضاحت کے لئے تو اتنا اجمال بھی کافی ہے کہ مزارعت کی بعض صورتیں ناجائز ہیں، ان احادیث میں ان ہی سے ممانعت فرمائی گئی ہے، اور ان پر ”رِبا“ (سود) کا اطلاق کیا گیا ہے۔ مولانا موصوف اس اطلاق کی توجیہ کرنا چاہتے ہیں کہ: ”رِبا“ کی مختلف قسمیں ہیں، جن میں قباحت و بُرائی کے اعتبار سے فرق و تفاوت ہے۔ احادیث میں بعض ایسے معاشی معاملات کو جن میں ”رِبا“ سے ایک گونہ مشابہت و مماثلت پائی جاتی تھی ”رِبا“ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی طرح مزارعت (کی ناجائز صورتوں) کو بھی ”رِبا“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن بعض ملاحدہ نے ان کو غلط محمل پر محمول کیا ہے، اس بنا پر ضروری ہوا کہ اس اجمال کی تفصیل بیان کی جائے اور ان روایتوں کا صحیح محمل بیان کیا جائے۔

          ایک شخص جو اپنی زمین خود کاشت نہیں کرسکتا، یا نہیں کرتا، وہ اسے کاشت کے لئے کسی دُوسرے کے حوالے کردیتا ہے، اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں:

          اوّل:… یہ کہ وہ اسے ٹھیکے پر اُٹھادے اور اس کا معاوضہ زَرِ نقد کی صورت میں وصول کرے۔ اسے عربی میں ”کراء الأرض“ کہا جاتا ہے، فقہاء اسے اِجارات کے ذیل میں لاتے ہیں اور یہ صورت بالاتفاق جائز ہے۔

          دوم:… یہ کہ مالک، زَرِ نقد وصول نہ کرے، بلکہ پیداوار کا حصہ مقرّر کرلے، اس کی پھر دو صورتیں ہیں:

          ۱:… یہ کہ زمین کے کسی خاص قطعے کی پیداوار اپنے لئے مخصوص کرلے، یہ صورت بالاتفاق ناجائز ہے اور احادیثِ مخابرہ میں اسی صورت کی ممانعت ہے، جیسا کہ آئندہ معلوم ہوگا۔

          ۲:… یہ کہ زمین کے کسی خاص قطعے کی پیداوار اپنے لئے مخصوص نہ کرے، بلکہ یہ طے کیا جائے کہ کل پیداوار کا اتنا حصہ مالک کو ملے گا اور اتنا حصہ کاشتکار کو (مثلاً: نصف، نصف)۔

          یہ صورت مخصوص شرائط کے ساتھ جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک جائز اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہے، چنانچہ:

          ”عن ابن عمر رضی الله عنھما قال: عامل النبی صلی الله علیہ وسلم خیبر بشطر ما یخرج منھا من ثمر أو زرع۔“

(صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۳، صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۴، جامع ترمذی ص:۱۶۶، ابوداوٴد ص:۴۸۴، ابنِ ماجہ ص:۱۷۷، طحاوی ج:۲ ص:۲۸۸)

          الف:… ”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر سے یہ معاملہ طے کیا تھا کہ زمین (وہ کاشت کریں گے اور اس) سے جو پھل یا غلہ حاصل ہوگا اس کا نصف ہم لیا کریں گے۔“

          ”عن ابن عباس رضی الله عنھما قال: أعطی رسول الله صلی الله علیہ وسلم خیبر بالشطر ثم أرسل ابن رواحة فقاسمھم۔“(طحاوی ج:۲ ص:۲۸۸، ابوداوٴد ص:۴۸۴)

          ب:… ”حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین نصف پیداوار پر اُٹھادی تھی، پھر عبداللہ بن رواحہ کو بٹائی کے لئے بھیجا کرتے تھے۔“

          ج:… ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کی زمین اللہ تعالیٰ نے ”فیٴ“ کے طور پر دی تھی․․․․․․ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (یہودِ خیبر) کو حسبِ سابق بحال رکھا اور پیداوار اپنے لئے اور ان کے لئے نصف رکھی، اور عبداللہ بن رواحہ کو اس کی تقسیم پر مأمور فرمایا تھا۔“

          صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، حذیفہ بن یمان، سعد بن ابی وقاص، ابنِ عمر، ابنِ عباس جیسے اکابر صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے مزارعت کا معاملہ ثابت ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری دور تک مزارعت پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔

          چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ارشاد مروی ہے:

          ”کنا لا نری بالخبر بأسًا حتّٰی کان عام أول فزعم رافع أن نبی الله صلی الله علیہ وسلم نفی عنہ۔“

                              (صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۲)

          ترجمہ:… ”ہم مزارعت میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، اب یہ پہلا سال ہے کہ رافع کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔“

          ایک اور روایت میں ہے:

          ”کان ابن عمر رضی الله عنھما یکری مزارعہ علٰی عھد النبی صلی الله علیہ وسلم، وأبی بکر، وعمر، وعثمان، وصدرًا من امارة معاویة ثم حدِّث عن رافع بن خدیج أن النبی صلی الله علیہ وسلم نھی عن کراء المزارع۔“                     (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)

          ترجمہ:… ”حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین کرائے (بٹائی) پر دیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں۔ پھر انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بتایا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر اُٹھانے سے منع کیا ہے۔“

          ایک اور روایت میں ہے:

          ”عن طاوٴس عن معاذ بن جبل: أکری الأرض علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم وأبی بکر وعمر وعثمان علی الثلث والربع فھو یعمل بہ الٰی یومک ھٰذا۔“                               (ابنِ ماجہ ص:۱۷۷)

          ترجمہ:… ”حضرت طاوٴس سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد تک میں زمین بٹائی پر دی تھی، پس آج تک اسی پر عمل ہو رہا ہے۔“

          حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ یمن سے متعلق ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجا تھا۔ وہاں کے لوگ مزارعت کا معاملہ کرتے تھے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے، جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”حلال و حرام کا سب سے بڑا عالم“ فرمایا تھا، اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ خود بھی مزارعت کا معاملہ کیا۔ حضرت طاوٴس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ (حضرت معاذ بن جبل) نے یمن کی اراضی میں جو طریقہ جاری کیا تھا، آج تک اسی پر عمل ہے۔

          اس باب کی تمام روایات و آثار کا استیعاب مقصود نہیں، نہ یہ ممکن ہے، بلکہ صرف یہ دیکھنا ہے کہ دورِ نبوّت اور خلافتِ راشدہ کے دور میں اکابر صحابہ کا اس پر عمل تھا اور مزارعت کے عدمِ جواز کا سوال کم از کم اس دور میں نہیں اُٹھا تھا، جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں مزارعت کی اجازت ہے اور احادیثِ ”مخابرہ“ میں جس مزارعت سے ممانعت فرمائی گئی ہے اس سے مزارعت کی وہ شکلیں مراد ہیں جو دورِ جاہلیت سے چلی آتی تھیں۔

          بعض دفعہ ایک بات کسی خاص موقع پر مخصوص انداز اور خاص سیاق میں کہی جاتی ہے، جو لوگ اس موقع پر حاضر ہوں اور جن کے سامنے وہ پورا واقعہ ہو ، جس میں وہ بات کہی گئی تھی، انہیں اس کے مفہوم کے سمجھنے میں دِقت پیش نہیں آئے گی، مگر وہی بات جب کسی ایسے شخص سے بیان کی جائے جس کے سامنے نہ وہ واقعہ ہوا ہے جس میں یہ بات کہی گئی تھی، نہ وہ متکلم کے اندازِ تخاطب کو جانتا ہے، نہ اس کے لب و لہجے سے واقف ہے، نہ کلام کے سیاق کی اسے خبر ہے، اگر وہ اس کلام کے صحیح مفہوم کو نہ سمجھ پائے تو محلِ تعجب نہیں: ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ“ یہی وجہ ہے کہ آیات کے اَسبابِ نزول کو علمِ تفسیر کا اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

          ”والذی لا الٰہ غیرہ! ما نزلت من اٰیة من کتاب الله الا وأنا أعلم فیمن نزل وأین نزلت، ولو أعلم مکان أحد أعلم بکتاب الله منی تنالہ المطایا لأتیتہ۔“

                              (الاتقان، النوع الثامن)

          ترجمہ:… ”اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کتاب اللہ کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس کے حق میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی۔ اور اگر مجھے کسی ایسے شخص کا علم ہوتا جو مجھ سے بڑھ کر کتاب اللہ کا عالم ہو اور وہاں سواری جاسکتی تو میں اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔“

          اسی قسم کا ایک ارشاد حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا بھی نقل کیا گیا ہے، وہ فرمایا کرتے تھے:

          ”والله! ما نزلت اٰیة الا وقد علمت فیم أنزلت وأین أنزلت ان ربی وھب لی قلبًا عقولًا ولسانًا سوٴلًا۔“

                              (الاتقان، النوع الثمانون)

          ترجمہ:… ”بخدا! جو آیت بھی نازل ہوئی، مجھے معلوم ہے کہ کس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی۔ میرے رَبّ نے مجھے بہت سمجھنے والا دِل، اور بہت پوچھنے والی زبان عطا کی ہے۔“

          اور یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے: ”اِنَّا نَحْنَ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ“ کا وعدہ پورا کرنے کے لئے جہاں قرآن مجید کے ایک ایک شوشے کو محفوظ رکھا، وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کے ایک ایک گوشے کی بھی حفاظت فرمائی، ورنہ خدا جانے ہم قرآن پڑھ پڑھ کر کیا کیا نظریات تراشا کرتے․․․! اور یہی وجہ ہے کہ تمام اَئمہ مجتہدین کے ہاں یہ اُصول تسلیم کیا گیا کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھیک مفہوم سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ اکابر صحابہ نے اس پر کیسے عمل کیا اور خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کے کیا معنی سمجھے گئے۔

          یہ اکابر صحابہ جو مزارعت کا معاملہ کرتے تھے، مزارعت کی ممانعت ان کے لئے صرف شنیدہ نہیں تھی، دیدہ تھی۔ وہ یہ جانتے تھے کہ مزارعت کی کون سی قسمیں زمانہٴ جاہلیت سے رائج تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ممنوع قرار دیا۔ اور مزراعت کی کون سی صورتیں باہمی شقاق و جدال کی باعث ہوسکتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی۔ مزارعت کی جائز و ناجائز صورتوں کو وہ گویا اسی طرح جانتے تھے جس طرح وضو کے فرائض و سنن سے واقف تھے۔ ان میں ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جو مزارعت کے کسی ناجائز معاملے پر عمل پیرا ہو، ظاہر ہے کہ اس صورت میں کسی نکیر کا سوال کب ہوسکتا تھا؟ یہ صورتِ حال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور تک قائم رہی۔ مزارعت کے جواز و عدمِ جواز کا مسئلہ پوری طرح بدیہی اور روشن تھا، اور اس نے کوئی غیرمعمولی نوعیت اختیار نہیں کی تھی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد کچھ حالات ایسے پیش آئے جن سے یہ مسئلہ بدیہی کے بجائے نظری بن گیا، اور بحث و تمحیص کی ایک صورت پیدا ہوگئی۔ غالباً بعض لوگوں نے مسئلہ مزارعت کی نزاکتوں کو پوری طرح ملحوظ نہ رکھا اور مزارعت کی بعض ایسی صورتیں وقوع میں آنے لگیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، اس پر صحابہ کرام نے نکیر فرمائی اور مزارعت سے ممانعت کی احادیث بیان فرمادیں۔

          ”نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَارَعَةِ۔“

          ”نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُخَابَرَةِ۔“

          ”نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ کِرَاءِ الْأَرْضِ۔“

          ترجمہ:… ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مزارعت“ سے منع فرمایا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مخابرت“ سے منع فرمایا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔“

          ادھر بعض لوگوں کو ان احادیث کا مفہوم سمجھنے میں دِقت پیش آئی، انہوں نے یہ سمجھا کہ ان احادیث کا مقصد ہر قسم کی مزارعت کی نفی کرنا ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ بحث و نظر کا موضوع بن گیا۔

          اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو افاضل صحابہ کرام اس وقت موجود تھے، انہوں نے اس نزاع کا فیصلہ کس طرح فرمایا؟

          حدیث کی کتابوں میں ممانعت کی روایتیں تین صحابہ سے مروی ہیں: رافع بن خدیج، جابر بن عبداللہ اور ثابت بن ضحاک، رضی اللہ عنہم۔

          حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کی روایت اگرچہ نہایت مختصر اور مجمل ہے، تاہم اس میں یہ تصریح ملتی ہے کہ زمین کو زَرِ نقد پر اُٹھانے کی ممانعت نہیں ہے۔

          ”ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم نھی عن المزارعة وأمر بالموٴاجرة، وقال: لا بأس بھا۔“

(صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۴، طحاوی ج:۲ ص:۲۱۳، میں صرف پہلا جملہ ہے)

          ترجمہ:… ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع فرمایا اور زَرِ نقد پر زمین دینے کا حکم فرمایا، اور فرمایا: اس کا مضائقہ نہیں۔“

          حضرت جابر اور حضرت رافع رضی اللہ عنہما کی روایات میں خاصا تنوّع پایا جاتا ہے، جس سے ان کا صحیح مطلب سمجھنے میں اُلجھنیں پیدا ہوئی ہیں، تاہم مجموعی طور پر دیکھئے تو ان کی کئی قسمیں ہیں، اور ہر قسم کا الگ الگ محل ہے۔

          حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی روایات کے بارے میں یہاں ”خاصے تنوّع“ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے، حضراتِ محدثین اسے ”اِضطراب“ سے تعبیر کرتے ہیں۔

          اِمام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

          ”حدیث رافع حدیث فیہ اضطراب، یروی ھٰذا الحدیث عن رافع بن خدیج عن عمومتہ، ویروی عنہ عن ظھیر بن رافع، وھو أحد عمومتہ، وقد روی ھٰذا الحدیث عنہ علٰی روایات مختلفة۔“

                              (جامع ترمذی ج:۱ ص:۱۶۶)

          اِمام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

          ”وأما حدیث رافع بن خدیج رضی الله عنہ فقد جاء بألفاظ مختلفة اضطرب من أجلھا۔“

 (شرح معانی الآثار ج:۲ ص:۲۸۵، کتاب المزرعة والمساقاة)

          شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

          ”وقد اختلف الرواة فی حدیث رافع بن خدیج اختلافًا فاحشًا۔“            (حجة اللہ البالغہ ج:۲ ص:۱۱۷)

          اوّل:… بعض روایات میں ممانعت کا مصداق مزارعت کا وہ جاہلی تصوّر ہے جس میں یہ طے کرلیا جاتا تھا کہ زمین کے فلاں عمدہ اور زَرخیز ٹکڑے کی پیداوار مالک کی ہوگی اور فلاں حصے کی پیداوار کاشتکار کی ہوگی، اس میں چند در چند قباحتیں جمع ہوگئی تھیں۔

          اوّلاً:… معاشی معاملات باہمی تعاون کے اُصول پر طے ہونے چاہئیں، اس کے برعکس یہ معاملہ سراسر ظلم و استحصال اور ایک فریق کی صریح حق تلفی پر مبنی تھا۔

          ثانیاً:… یہ شرط فاسد اور مقتضائے عقد کے خلاف تھی، کیونکہ جب کسان کی محنت تمام پیداوار میں یکساں صرف ہوئی ہے تو لازم ہے کہ اس کا حصہ تمام پیداوار میں سے دیا جائے۔

          ثالثاً:… یہ قمار کی ایک شکل تھی، آخر اس کی کیا ضمانت ہے کہ مالک یا کسان کے لئے جو قطعہ مخصوص کردیا گیا ہے، وہ بار آور بھی ہوگا؟

          رابعاً:… اس قسم کی غلط شرطوں کا نتیجہ عموماً نزاع و جدال کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، ایسے جاہلی معاملے کو برداشت کرلینے کے معنی یہ تھے کہ اسلامی معاشرے کو ہمیشہ کے لئے جدال و قتال کی آماج گاہ بنادیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ان کے ہاں اکثر و بیشتر مزارعت کی یہی غلط صورت رائج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح فرمائی، غلط معاملے سے منع فرمایا اور مزارعت کی صحیح صورت پر عمل کرکے دِکھایا۔ مندرجہ ذیل روایات اس پر روشنی ڈالتی ہیں:

          ”عن رافع بن خدیج حدّثنی عمّای أنھم کانوا یکرُون الأرض علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بما ینبُت علی الأربعاء أو بشیء یستثنیہ صاحب الأرض فنھانا النبی صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک، فقلت لرافع: فکیف ھی بالدینار والدراھم؟ فقال رافع: لیس بھا بأسٌ بالدینار والدراھم، وکأنّ الذی نُھی عن ذٰلک ما لو نظر فیہ ذوُو الفھم بالحلال والحرام لم یجیزوہ لما فیہ من المخاطرة۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)

          الف:… ”رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے چچا بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ زمین مزارعت پر دیتے تو یہ شرط کرلیتے کہ نہر کے متصل کی پیداوار ہماری ہوگی، یا کوئی اور استثنائی شرط کرلیتے (مثلاً: اتنا غلہ ہم پہلے وصول کریں گے، پھر بٹائی ہوگی)، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت رافع سے کہا: اگر زَرِ نقد کے عوض زمین دی جائے اس کا کیا حکم ہوگا؟ رافع نے کہا: اس کا مضائقہ نہیں! لیث کہتے ہیں: مزارعت کی جس شکل کی ممانعت فرمائی گئی تھی، اگر حلال و حرام کے فہم رکھنے والے غور کریں تو کبھی اسے جائز نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس میں معاوضہ ملنے نہ ملنے کا اندیشہ (مخاطرہ) تھا۔“

          ”حدثنی حنظلة بن قیس الأنصاری قال: سألت رافع بن خدیج عن کراء الأرض بالذھب والورق، فقال: لا بأس بہ، انما کان الناس یوٴاجرون علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم علی المأذیانات واقبال الجداول وأشیاء من الزرع فیھلک ھٰذا ویسلم ھٰذا ویسلم ھٰذا ویھلک ھٰذا فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا فلذٰلک زجر عنہ، وأما شیء معلوم مضمون فلا بأس بہ۔“     (صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۳)

          ب:… ”حنظلہ بن قیس کہتے ہیں: میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ: سونے چاندی (زَرِ نقد) کے عوض زمین ٹھیکے پر دی جائے،ا س کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں! دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ جو مزارعت کرتے تھے (اور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا) اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ زمین دار، زمین کے ان قطعات کو جو نہر کے کناروں اور نالیوں کے سروں پر ہوتے تھے، اپنے لئے مخصوص کرلیتے تھے، اور پیداوار کا کچھ حصہ بھی طے کرلیتے، بسااوقات اس قطعے کی پیداوار ضائع ہوجاتی اور اس کی محفوظ رہتی، کبھی برعکس ہوجاتا۔ اس زمانے میں لوگوں کی مزارعت کا بس یہی ایک دستور تھا، اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے منع کیا، لیکن اگر کسی معلوم اور قابلِ ضمانت چیز کے بدلے میں زمین دی جائے تو اس کا مضائقہ نہیں۔“

          اس روایت میں حضرت رافع رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ خاص طور پر توجہ طلب ہے:

”فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا۔“

ترجمہ:… ”لوگوں کی مزارعت کا بس یہی ایک دستور تھا۔“

          اور ان کی بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے:

          ترجمہ:… ”ان دنوں سونا چاندی نہیں تھے۔“

          اس کا مطلب ․․․واللہ اعلم․․․ یہی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے، ان دنوں زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج تو قریب قریب عدم کے برابر تھا، مزارعت کی عام صورت بٹائی کی تھی، لیکن اس میں جاہلی قیود و شرائط کی آمیزش تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نفسِ مزارعت کو نہیں بلکہ مزارعت کی اس جاہلی شکل کو ممنوع قرار دیا اور مزارعت کی صحیح صورت معین فرمائی۔ یہ صورت وہی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر سے معاملہ فرمایا، اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپ کے بعد اکابر صحابہ نے عمل کیا۔

          ”جابر بن عبدالله رضی الله عنہ یقول: کنا فی زمن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نأخذ الأرض بالثلث أو الربع بالمأذیانات فنھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک۔“

                    (شرح معانی الآثار للطحاوی ج:۲ ص:۲۸۹)

          ج:… ”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین لیا کرتے تھے نصف پیداوار پر، تہائی پیداوار پر، اور نہر کے کناروں کی پیداوار پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا۔“

          د:… ”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگ اپنی زمین مزارعت پر دیا کرتے تھے، شرط یہ ہوتی تھی کہ جو پیداوار گول (الساقیہ) پر ہوگی اور جو کنویں کے گرد و پیش پانی سے سیراب ہوگی، وہ ہم لیا کریں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہی فرمائی، اور فرمایا: سونے چاندی پر دیا کرو۔“

          ”عن نافع أن ابن عمر رضی الله عنہ کان یکری مزارعہ علٰی عھد النبی صلی الله علیہ وسلم وأبی بکر وعمر وعثمان وصدرًا من امارة معاویة ثم حدث عن رافع بن خدیج: أن النبی صلی الله علیہ وسلم نھی عن کراء المزارع، فذھب ابن عمر الٰی رافع وذھبت معہ فسألہ، فقال: نھی النبی صلی الله علیہ وسلم عن کراء المزارع، فقال ابن عمر: قد علمت أنا کنا نکری مزارعنا علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بما علی الأربعاء شیء من التین۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)

          ہ:… ”حضرت نافع کہتے ہیں: حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین مزارعت پر دیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور تک بھی۔ پھر ان سے بیان کیا گیا کہ رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابنِ عمر، حضرت رافع کے پاس گئے، میں بھی ساتھ تھا، ان سے دریافت کیا، انہوں نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ ابنِ عمر نے فرمایا: آپ کو یہ تو معلوم ہی ہے کہ ہماری مزارعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس پیداوار کے عوض ہوا کرتی تھی جو نہروں پر ہوتی تھی اور کچھ گھاس کے عوض، (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سے منع فرمایا تھا)۔“

          حضرت رافع بن خدیج، جابر بن عبداللہ، سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی ان روایات سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مزارعت کی وہ جاہلی شکل کیا تھی جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔

          دوم:… نہی کی بعض روایات اس پر محمول ہیں کہ بعض اوقات زائد قیود و شرائط کی وجہ سے معاملہ کنندگان میں نزاع کی صورت پیدا ہوجاتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ تم اس قسم کی مزارعت کے بجائے زَرِ نقد پر زمین دیا کرو۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ مزارعت سے منع فرماتے ہیں، تو آپ نے افسوس کے لہجے میں فرمایا:

          ”یغفر الله لرافع بن خدیج، أنا والله أعلم بالحدیث منہ، انما رجُلان – قال مسدد: من الأنصار ثم اتفقا- قد اقتتلا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان کان ھٰذا شأنکم فلا تکروا المزارع۔“

           (ابوداوٴد ص:۴۸۱ واللفظ لہ، ابنِ ماجہ ص:۱۷۷)

          ترجمہ:… ”اللہ تعالیٰ رافع کی مغفرت فرمائے، بخدا! میں اس حدیث کو ان سے بہتر سمجھتا ہوں۔“

          قصہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انصار کے دو شخص آئے ان کے مابین مزارعت پر جھگڑا تھا، اور نوبت مرنے مارنے تک پہنچ گئی تھی، (قد اقتتلا) آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:

          ”ان کان ھٰذا شأنکم فلا تکروا المزارع۔“

          ترجمہ:… ”جب تمہاری حالت یہ ہے تو مزارعت کا معاملہ ہی نہ کرو۔“

          رافع نے بس اتنی بات سن لی: ”تم مزارعت کا معاملہ نہ کیا کرو“۔

          ”عن سعد بن أبی وقاص رضی الله عنہ قال: کان أصحاب المزارع یکرون فی زمان رسول الله صلی الله علیہ وسلم مزارعھم بما یکون علی الساق من الزرع فجاؤا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فاختصموا فی بعض ذٰلک، فنھاھم رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یکروا بذٰلک وقال: اکروا بالذھب والفضة۔“              (نسائی ج:۲ ص:۱۵۳)

          ترجمہ:… ”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمین دار اپنی زمین اس پیداوار کے عوض جو نہروں پر ہوتی تھی، دیا کرتے تھے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور مزارعت کے سلسلے میں جھگڑا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر مزارعت نہ کیا کرو، بلکہ سونے چاندی کے عوض دیا کرو۔“

          ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص مقدمے کا فیصلہ فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں کو فہمائش کی تھی کہ وہ آئندہ ”مزارعت“ کے بجائے زَرِ نقد پر زمین لیا دیا کریں۔

          سوم:… احادیثِ نہی کا تیسرا محمل یہ تھا کہ بعض لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد زمین تھی اور بعض ایسے محتاج اور ضرورت مند تھے کہ وہ دُوسروں کی زمین مزارعت پر لیتے، اس کے باوجود ان کی ضرورت پوری نہ ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو، جن کے پاس اپنی ضرورت سے زائد اراضی تھی، ہدایت فرمائی تھی کہ وہ حسنِ معاشرت، مواسات، اسلامی اُخوّت اور بلند اخلاقی کا نمونہ پیش کریں اور اپنی زائد زمین اپنے ضرورت مند بھائیوں کے لئے وقف کردیں، اس پر انہیں اللہ کی جانب سے جو اَجر و ثواب ملے گا، وہ اس معاوضے سے یقینا بہتر ہوگا جو اپنی زمین کا وہ حاصل کرتے تھے۔

          ”عن رافع بن خدیج رضی الله عنہ قال: مر النبی صلی الله علیہ وسلم علٰی أرض رجل من الأنصار قد عرف أنہ محتاج، فقال: لمن ھٰذہ الأرض؟ قال: لفان أعطانیھا بالأجر، فقال: لو منحھا أخاہ۔ فأتی رافع الأنصار، فقال: ان رسول الله نھاکم عن أمر کان لکم نافعًا وطاعة رسول الله أنفع لکم۔“ (نسائی ج:۲ ص:۱۵۱)

          ترجمہ:… ”رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی زمین پر سے گزرے، یہ صاحب محتاجی میں مشہور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ زمین کس کی ہے؟ اس نے بتایا کہ فلاں شخص کی ہے، اس نے مجھے اُجرت پر دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کاش! وہ اپنے بھائی کو بلا عوض دیتا۔ حضرت رافع رضی اللہ عنہ انصار کے پاس گئے، ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روک دیا ہے جو تمہارے لئے نفع بخش تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل تمہارے لئے اس سے زیادہ نافع ہے۔“

          ”عن جابر رضی الله عنہ: سمعت النبی صلی الله علیہ وسلم یقول: من کانت لہ أرض فلیھبھا أو لیعرھا۔“

          ترجمہ:… ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس کے پاس زمین ہو، اسے چاہئے کہ وہ کسی کو ہبہ کردے یا عاریةً دے دے۔“

          ”عن ابن عباس رضی الله عنھما: أن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لأن یمنح أحدکم أخاہ أرضہ خیر لہ من أن یأخذ علیھا کذا وکذا۔“

          ترجمہ:… ”ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: البتہ یہ بات کہ تم میں سے ایک شخص اپنے بھائی کو اپنی زمین کاشت کے لئے بلاعوض دے دے اس سے بہتر ہے کہ اس پر اتنا اتنا معاوضہ وصول کرے۔“

          یعنی ہم نے مانا کہ زمین تمہاری ملکیت ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ قانون کی کوئی قوّت تمہیں ان کی مزارعت سے نہیں روک سکتی، لیکن کیا اسلامی اُخوّت کا تقاضا یہی ہے کہ تمہارا بھائی بھوکوں مرتا رہے، اس کے بچے سسکتے رہیں، وہ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رہے، لیکن تم اپنی ضرورت سے زائد زمین جسے تم خود کاشت نہیں کرسکتے، وہ بھی اسے معاوضہ لئے بغیر دینے کے لئے تیار نہ ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ مسلمان بھائی کی ضرورت پورا کرنے پر حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے کتنا اجر و ثواب ملتا ہے؟ یہ چند ٹکے جو تم زمین کے عوض قبول کرتے ہو، کیا اس اَجر و ثواب کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟

          آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ مہاجرین کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کے بعد حضراتِ انصار نے ”اسلامی مہمانوں“ کی معاشی کفالت کا بارِگراں جس خندہ پیشانی سے اُٹھایا، اِیثار و مروّت، ہمدردی و غم خواری اور اُخوّت و مواسات کا جو اعلیٰ نمونہ پیش کیا، ”نھی عن کراء الأرض“ کی احادیث بھی اسی سنہری معاشی کفالت کا ایک باب ہے۔

          اِمام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر یہ باب قائم کرکے اسی طرف اشارہ کیا ہے:

          ”باب ما کان أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم یواسی بعضھم بعضًا فی الزراعة والثمرة۔“

                              (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)

          ذرا تصوّر کیجئے! ایک چھوٹا سا قصبہ (المدینہ) اس میں انصار کی کل آبادی ہی کتنی تھی؟ ان کا ذریعہٴ معاش کیا تھا؟ لے دے کر یہی زمینیں! جو اسلام سے پہلے خود ان کی اپنی ضروریات کے لئے بھی بصد مشکل کفالت کرتی ہوں گی، ان کی جاں نثاری و بلند ہمتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ عہد کرلیا تھا کہ ہم اپنی اور اپنے بال بچوں کی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی کفالت کریں گے۔ انہوں یہ عہد جس طرح نبھایا وہ سب کو معلوم ہے (رضی الله عنھم وارضاھم وجزاھم عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء) اطراف و اکناف سے کھنچ کھنچ کر قافلوں کے قافلے یہاں جمع ہو رہے تھے اور حضراتِ انصار ”أھلًا وسھلًا ومرحبًا“ کہہ کر ان کا استقبال فرما رہے تھے۔ کون اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ چھوٹی سی بستی اور اس کے یہ چند گنے چنے ”انصار الاسلام“ کتنے معاشی بوجھ کے نیچے دَب گئے ہوں گے، لیکن صد آفرین ان وفاکیش فدائیوں کو! کہ ایک لمحے کے لئے انہوں نے اس بوجھ سے اُکتاہٹ کا احساس تک نہیں کیا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مہمانوں کی خاطر اپنا سب کچھ پیش کردیا، گویا ان کا اپنا کچھ نہیں تھا، جو کچھ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، اور ان کی حیثیت محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کارندوں کی تھی۔ سوچنا چاہئے کہ ان حالات میں ”انصار الاسلام“ کو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں: ”جس کے پاس زمین ہو وہ اپنے بھائی کو ہبہ کردے یا اسے عاریةً دے دے“ کیا اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اسلام میں مزارعت کا باب ہی سرے سے مفقود ہے؟ ان احادیث کو مدینہ طیبہ کے معاشی دباوٴ اور حضراتِ انصار کی ”کفالتِ اسلامیہ“ کے پسِ منظر میں پڑھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ ان کا منشا یہ نہیں کہ اسلام میں مزارعت ناجائز ہے، (اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ یہ معاملہ کیوں کرتے؟) بلکہ ان کا منشا یہ ہے کہ بقول سعدی:

ہر چہ درویشاں را است وقف محتاجاں است

          آپ اپنی ضرورت پوری کیجئے اور زائد اَز ضرورت کو ضرورت مندوں کے لئے حسبةً للہ وقف کردیجئے، یہ تھے احادیثِ نہی کے تین محمل، جس کی وضاحت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمائی، اور جن کا خلاصہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ کے الفاظ میں یہ ہے:

          ”وکان وجوہ التابعین یتعاملون بالمزارعة، ویدل علی الجواز حدیث معاملة أھل خیبر وأحادیث النھی عنھا محمولة علی الاجارة بما علی المأذیانات أو قطعة معینة، وھو قول رافع رضی الله عنہ، أو علی التنزیہ والارشاد، وھو قول ابن عباس رضی الله عنھما، أو علٰی مصلحة خاصة بذٰلک الوقت من جھة کثرة مناقشتھم فی ھٰذہ المعاملة حیئنذ، وھو قول زید رضی الله عنہ، والله أعلم!“     (حجة الله البالغہ ج:۲ ص:۱۱۷)

          ترجمہ:… ”(صحابہ کے بعد) اکابر تابعین مزارعت کا معاملہ کرتے تھے، مزارعت کے جواز کی دلیل اہلِ خیبر سے معاملے کی حدیث ہے، اور مزارعت سے ممانعت کی احادیث یا تو ایسی مزارعت پر محمول ہیں جس میں نہروں کے کناروں (مأذیانات) کی پیداوار یا کسی معین قطعے کی پیداوار طے کرلی جائے، جیسا کہ حضرت رافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یا تنزیہ و ارشاد پر، جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، یا اس پر محمول ہیں کہ مزارعت کی وجہ سے بکثرت مناقشات پیدا ہوگئے تھے، اس مصلحت کی بنا پر اس سے روک دیا گیا، جیسا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا، واللہ اعلم!“

          قریب قریب یہی تحقیق حافظ ابنِ جوزی نے ”التحقیق“ میں، اور اِمام خطابی نے ”معالم السنن“ میں کی ہے، مگر اس مقام پر حافظ تورپشتی شارح مصابیح (رحمہ اللہ) کا کلام بہت نفیس و متین ہے، وہ فرماتے ہیں:

          ”مزارعت کی احادیث جو موٴلف (صاحبِ مصابیح) نے ذکر کی ہیں اور جو دُوسری کتبِ حدیث میں موجود ہیں، بظاہر ان میں تعارض و اختلاف ہے، ان کی جمع و تطبیق میں مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے نہیٴ مزارعت کے باب میں کئی حدیثیں سنی تھیں جن کے محمل الگ الگ تھے، انہوں نے ان سب کو ملاکر روایت کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی فرماتے ہیں: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے“، کبھی کہتے ہیں: ”میرے چچاوٴں نے مجھ سے بیان کیا“، کبھی کہتے ہیں: ”میرے دو چچاوٴں نے مجھے خبر دی“ بعض احادیث میں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ غلط شرائط لگالیتے تھے اور نامعلوم اُجرت پر معاملہ کرتے تھے، چنانچہ اس کی ممانعت کردی گئی۔ بعض کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی اُجرت میں ان کا جھگڑا ہوجاتا تاآنکہ نوبت لڑائی تک پہنچ جاتی۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اگر تمہاری یہ حالت ہے تو مزارعت کا معاملہ ہی نہ کرو“ یہ بات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے۔ بعض احادیث میں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا کہ مسلمان اپنے بھائی سے زمین کی اُجرت لے، کبھی ایسا ہوگا کہ آسمان سے برسات نہیں ہوگی، کبھی زمین کی روئیدگی میں خلل ہوگا، اندریں صورت اس بے چارے کا مال ناحق جاتا رہے گا، اس سے مسلمانوں میں باہمی نفرت و بغض کی فضا پیدا ہوگی، یہ مضمون حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے سمجھا جاتا ہے کہ: ”جس کی زمین ہو، وہ خود کاشت کرے یا کسی بھائی کو کاشت کے لئے دے دے“ تاہم یہ بطور قانون نہیں بلکہ مروّت و مواسات کے طور پر ہے۔ بعض احادیث میں ممانعت کا سبب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاشتکاری پر فریفتہ ہونے، اس کی حرص کرنے اور ہمہ تن اسی کے ہو رہنے کو ان کے لئے پسند نہیں فرمایا، کیونکہ اس صورت میں وہ جہاد فی سبیل اللہ سے بیٹھ رہتے، جس کے نتیجے میں ان سے غنیمت و فیٴ کا حصہ فوت ہوجاتا (آخرت کا خسارہ مزید برآں رہا) اس کی دلیل ابواُمامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔

          (اشارة الٰی ما رواہ البخاری من حدیث أبی أُمامة رضی الله عنہ: لا یدخل ھٰذا یبتا الا دخلہ الذل)۔“

          اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں مزارعت نہ مطلقاً جائز ہے، نہ مطلقاً ممنوع، بلکہ اس بات کی تمام احادیث کا مجموعی مفاد ”کج دار و مریز“ کی تلقین ہے، حضراتِ فقہائے اُمت نے اس باب کی نزاکتوں کو پوری طرح سمجھا، چنانچہ تمام فقہی مسالک میں ”کج دار و مریز“ کی دقیق رعایت نظر آئے گی، اور یہ بحث و تحقیق کا ایک الگ موضوع ہے، والله ولی البدایة والنھایة!

مکان کرایہ پر دینا جائز ہے

س… کرایہ جو جائیداد وغیرہ سے ملتا ہے کیا سود ہے؟ ہمارے ایک بزرگ جو دِین کی کافی سمجھ رکھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ: ”سود مقرّر ہوتا ہے، اور اس میں فائدے کی شکل بھی ہوتی ہے، نقصان کا پہلو نہیں ہوتا، اور یہی صورت کرائے آمدنی کی ہے“ معلوم ہوا ہے، اگرچہ میں نے خود نہیں پڑھا ہے کہ محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے بھی جائیداد کے کرایہ کو ”سود“ قرار دیا ہے۔

ج… اگر جائیداد سے مراد زمین، مکان، دُکان وغیرہ ہے تو ان چیزوں کو کرایہ پر دینے کی حدیث میں اجازت آئی ہے، اس لئے اس کو ”سود“ سمجھنا اور کہنا غلط ہے۔

زمین اور مکان کے کرایہ کے جواز پر علمی بحث

س… روزنامہ ”جنگ“ میں ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا اور مکان کا کرایہ لینا ”سود“ ہے۔ یہ کہاں تک دُرست ہے؟

ج… روزنامہ ”جنگ“ ۱۳/نومبر ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں جناب رفیع اللہ شہاب صاحب کا ایک مضمون ”سود کی مصطفوی تشریح“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ فاضل مضمون نگار نے احادیث کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ: ”اسلام زمین کو بٹائی پر دینے اور مکان کرائے پر چڑھانے کو سود قرار دیتا ہے“ چونکہ اس سلسلے میں بہت سے سوالات آرہے ہیں، اس لئے بعض اکابر نے حکم دیا کہ ان مسائل کی وضاحت کردی جائے تو مناسب ہوگا کہ قارئین کے لئے موصوف کی تحریر پوری نقل کردی جائے تاکہ موصوف کے مدعا اور ان مسائل کی وضاحت کے سمجھنے میں کوئی اُلجھن نہ رہے۔

          موصوف لکھتے ہیں:

          ”ملکِ عزیز میں نظامِ مصطفی کی طرف پیش قدمی جاری ہے، لیکن اس مقصد کے لئے جس قدر ہوم ورک کی ضرورت ہے ہمارے اہلِ علم اس کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے بلکہ اہم ترین معاملات تک میں محض سنی سنائی باتوں پر اکتفا کی جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ”سود“ ہے جو اسلام میں سب سے سنگین جرم ہے۔ اس جرم کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم نے کسی انسانی جان کے قتل کرنے کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے، لیکن سود کو اس سے بھی زیادہ سنگین جرم قرار دیتے ہوئے اسے اللہ اور رسول سے لڑائی قرار دیا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم اسلام کے سب سے سنگین جرم کے بارے میں ابھی تک غفلت سے کام لے رہے ہیں۔

          عام طور پر ہمارے ہاں بینک سے ملنے والے منافع کو سود سمجھا جاتا ہے اور اس کے علاوہ جتنے معاملات بھی اس سنگین جرم کی تعریف میں آتے ہیں، ان سے پہلوتہی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام (جو نظامِ مصطفی کی ضد ہے) نے اسلامی ممالک میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جب سود کے اَحکامات نازل ہوئے تھے اس وقت بینک نام کی کوئی چیز نہ تھی، احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ان اَحکامات کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاروباری مقامات پر تشریف لے گئے اور مختلف قسم کے کاروبار کی تفصیلات دریافت کیں، اور ایسے تمام معاملات کہ جن میں بغیر کسی محنت کے منافع حاصل ہوتا، مثلاً: آڑھت کا کاروبار، اسے آپ نے سود قرار دیا۔

                              (نیل الاوطار ج:۵ ص:۱۷۴)

          تفسیر مواہب الرحمن کے صفحہ:۱۲۱ پر درج ہے کہ:

          اسی سلسلے میں آپ کھیتوں میں بھی گئے تو وہاں حضرت رافع بن خدیج (جو ایک کھیت کا کاشت کر رہے تھے) سے ان کی ملاقات ہوئی، آپ نے کھیتی باڑی کی تفصیلات پوچھیں، تو انہوں نے بتایا کہ زمین فلاں شخص کی ہے اور وہ اس میں کام کر رہے ہیں، جب فصل ہوگی تو دونوں فریق برابر بانٹ لیں گے۔ آپ نے فرمایا: تم سودی کاروبار کر رہے ہو، اس لئے اسے ترک کرکے اتنی محنت کا معاوضہ لے لو۔

           (سنن ابی داوٴد، کتاب البیوع، باب المخابرہ، ج:۲)

          ایک دُوسرے صحابی جابر بن عبداللہ سے جب کھیتی باڑی کی یہی تفصیلات سنیں تو آپ نے فرمایا کہ: جو زمین کے بٹائی کے معاملے کو ترک نہ کرے گا وہ اللہ اور رسول کے ساتھ لڑائی کے لئے تیار ہوجائے۔                            (ایضاً)

          خیال رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کی بٹائی کے حوالے سے جو سود کی تشریح فرمائی آج کے جدید دور کے بڑے بڑے ماہرینِ معاشیات بھی اس کی یہی تعریف فرماتے ہیں۔ لارڈ کینز جو دورِ جدید کا ایک عظیم ماہرِ معاشیات ہے، اپنی مشہور کتاب جنرل تھیوری کے صفحہ:۲۴۲ اور ۲۴۳ میں سود کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: ”زمانہٴ قدیم میں سود زمین کے کرائے کی شکل میں ہوتا تھا جسے آج کل بٹائی کا نظام کہتے ہیں۔“

          بہت سے صحابہ کرام کے پاس اپنی خود کاشت سے زائد زمین تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کی بٹائی کے معاملے کو سود قرار دے دیا تو انہوں نے اسے بیچنے کا پروگرام بنایا، لیکن جب اس سلسلے میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے اس زائد زمین کو بیچنے کی اجازت نہ دی، بلکہ فرمایا کہ: اپنے ضرورت مند بھائیوں کو مفت دے دو۔ اپنی زمین کسی کو مفت دے دینا آسان نہ تھا، اس لئے اکثر صحابہ نے بار بار اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے دریافت کی اور آپ نے ہر بار یہی جواب دیا۔ بخاری شریف اور مسلم میں اس مضمون کی کئی احادیث ہیں۔

          بعض اصحاب رسول کے پاس فاضل اراضی تھیں، آپ نے فرمایا کہ: جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو بخش دے، اور اگر انکار کرے تو اپنی زمین روک رکھے۔                         (نیل الاوطار ج:۵ ص:۲۹۰)

          مختصر یہ کہ سود کی اس تشریح کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کی خرید و فروخت سے منع فرمایا۔ خیال رہے کہ اس زمانے میں زمین ہی سرمایہ داری کا بڑا ذریعہ تھی۔

          سرمایہ داری کا دُوسرا بڑا ذریعہ مکانات تھے، یہ مکانات زیادہ تر مکہ شریف میں واقع تھے، کیونکہ وہ ایک بین الاقوامی شہر تھا جہاں لوگ حج اور تجارت کے مقاصد کے لئے آتے جاتے تھے، آپ نے مکہ شریف کے مکانوں کا کرایہ بھی سود قرار دے کر مسلمانوں کو اس کے لینے سے منع کردیا، اور فرمایا کہ: ”جس نے مکہ شریف کی دُکانوں کا کرایہ کھایا اس نے گویا سود کھایا۔“          (ہدایہ ج:۴ ص:۴۵۷، مطبوعہ دہلی)

          یہ دونوں معاملات ایسے ہیں کہ ان میں لگائے ہوئے سرمایہ کی قیمت دن بدن بڑھتی رہتی ہے، جبکہ بینک میں جمع شدہ رقم کی قیمت دن بدن گھٹتی جاتی ہے، اس لئے مذکورہ بالا دونوں معاملات کا سود، بینک کے سود سے کئی درجے زیادہ خطرناک ہے۔ اُمید ہے کہ علمائے اسلام عامة الناس کو سود کی یہ مصطفوی تشریح سمجھاکر انہیں شریعتِ اسلامی کی رُو سے سب سے بڑے سنگین جرم سے بچانے کی کوشش کریں گے۔“

ج… فاضل مضمون نگار نے اپنے پورے مضمون میں ایک تو افسانہ طرازی اور تاریخ سازی سے کام لیا ہے، اور پھر تمام مسائل پر ایک خاص ذہن کو سامنے رکھ کر غور کیا ہے، ان کے ایک ایک نکتے کا تجزیہ ملاحظہ فرمائیے۔

          مزارعت:

          جناب رفیع اللہ شہاب کے مضمون کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی زمین خود کاشت کرے اس کے لئے تو زمین کی پیداوار حلال ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زمین کی خود کاشت نہ کرسکے بلکہ اسے بٹائی پر دے دے یا ٹھیکے اور مستأجری پر دے دے تو یہ سود ہے، کیونکہ بقول ان کے: ”ایسے تمام معاملات سود ہیں جن میں بغیر کسی محنت کے منافع حاصل ہوتا ہے“ اور وہ اس نظریے کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ یہ نظریہ موجودہ دور کے سوشلزم کا تو ہوسکتا ہے، مگر اسلام سے اس نظریے کا کوئی تعلق نہیں۔

          موصوف نے مزارعت کی ممانعت کے سلسلے میں ابوداوٴد کے حوالے سے حضرت رافع بن خدیج اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما کی دو روایتیں نقل کی ہیں، جن میں مخابرة کو ”سود“ قرار دیا گیا ہے۔ کاش! وہ اسی کے ساتھ ان دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے جو ان احادیث کے راوی ہیں، اس کی وجہ بھی نقل کردیتے تو مسئلہ صحیح طور پر منقح ہوکر سامنے آجاتا۔ آئیے! ان دونوں بزرگوں ہی سے دریافت کریں کہ اس ممانعت کا منشا کیا تھا؟

          ”عن رافع بن خدیج حدثنی عمّای أنھم کانوا یکرُون الأرض علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بما ینبُت علی الأربعاء أو بشیء یستثنیہ صاحب الأرض فنھانا النبی صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک، فقلت لرافع: فکیف ھی بالدینار والدراھم؟ فقال رافع: لیس بھا بأسٌ بالدینار والدراھم، وکأنّ الذی نُھی عن ذٰلک ما لو نظر فیہ ذوُو الفھم بالحلال والحرام لم یجیزوہ لما فیہ من المخاطرة۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)

          الف:… ”رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے چچا بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ زمین مزارعت پر دیتے تو یہ شرط کرلیتے کہ نہر کے متصل کی پیداوار ہماری ہوگی یا کوئی اور استثنائی شرط کرلیتے (مثلاً: اتنا غلہ پہلے ہم وصول کریں گے پھر بٹائی ہوگی)، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت رافع سے کہا: اگر زَرِ نقد کے عوض زمین دی جائے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ رافع نے کہا: اس کا مضائقہ نہیں۔ لیث کہتے ہیں: مزارعت کی جس شکل کی ممانعت فرمائی گئی تھی اگر حلال و حرام کی فہم رکھنے والے لوگ غور کریں تو کبھی اسے جائز نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اس میں معاوضہ ملنے نہ ملنے کا اندیشہ (مخاطرہ) تھا۔“

          نیز رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی اس مضمون کی روایات کے لئے دیکھئے:

          صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۳، ابوداوٴد ص:۴۸۱، ابنِ ماجہ ص:۱۷۹، نسائی ج:۲ ص:۱۵۳، شرح معانی الآثار ج:۲ ص:۲۱۴، وغیرہ۔

          ”حدثنی حنظلة بن قیس الأنصاری قال: سألت رافع بن خدیج عن کراء الأرض بالذھب والورق، فقال: لا بأس بہ، انما کان الناس یوٴاجرون علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم علی المأذیانات واقبال الجداول وأشیاء من الزرع فیھلک ھٰذا ویسلم ھٰذا، ویسلم ھٰذا ویھلک ھٰذا، فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا فلذٰلک زجر عنہ، وأما شیء معلوم مضمون فلا بأس بہ۔“          (صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۳)

          ترجمہ:… ”حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ: میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ: سونے چاندی (زَرِ نقد) کے عوض زمین ٹھیکے پر دی جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں! دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ جو مزارعت کرتے تھے (اور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا) اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ زمین دار، زمین کے ان قطعات کو جو نہر کے کناروں اور نالیوں کے سروں پر ہوتے تھے، اپنے لئے مخصوص کرلیتے تھے اور پیداوار کا کچھ حصہ بھی طے کرلیتے، بسااوقات اس قطعے کی پیداوار ضائع ہوجاتی اور اس کی محفوظ رہتی، کبھی برعکس ہوتا، اس زمانے میں لوگوں کی مزارعت کا بس یہی ایک دستور تھا، اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے منع کیا۔ لیکن اگر کسی معلوم اور قابلِ ضمانت چیز کے بدلے میں زمین دی جائے تو اس کا مضائقہ نہیں۔“

          ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین لیا کرتے تھے نصف پیداوار پر، تہائی پیداوار پر اور نہر کے کناروں کی پیداوار پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا۔“

                                       (مسلم ج:۲ ص:۱۲)

          حضرت رافع اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما کے ارشادات ہی سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت کی مطلقاً ممانعت نہیں فرمائی تھی، بلکہ مزارعت کی ان غلط صورتوں کو ”رِبا“ فرمایا تھا جن میں ناجائز شرطیں لگادی جائیں، مثلاً: یہ کہ زمین کے فلاں زَرخیز قطعے کی پیداوار مالک کو ملے گی اور باقی پیداوار تہائی یا چوتھائی کی نسبت سے تقسیم ہوگی، اس قسم کی مزارعت (جس میں غلط شرطیں رکھی گئی ہوں) باجماعِ اُمت ناجائز ہے۔

          مزارعت سے ممانعت کی یہ توجیہ جو حضرت رافع اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے خود فرمائی ہے، وہ دیگر اکابر صحابہ کرام سے بھی منقول ہے، مثلاً:

          ”عن سعد قال: کنّا نکری الأرض بما علی السواقی من الزرع، وما سعد بالماء منھا، فنھانا رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک، وأمرنا أن نکریھا بذھب أو فضة۔“

           (ابوداوٴد ص:۴۸۱، شرح معانی الآثار و طحاوی ص:۲۱۵)

          ترجمہ:… ”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: لوگ اپنی زمین مزارعت پر دیا کرتے تھے، شرط یہ ہوتی تھی کہ جو پیداوار (الساقیہ) پر ہوگی اور جو کنویں کے گرد و پیش پانی سے سیراب ہوگی وہ ہم لیا کریں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہی فرمائی اور فرمایا: سونے چاندی پر دیا کرو۔“         

          اس قسم کی مزارعت کو جیسا کہ اِمام لیث سعد نے فرمایا، حلال و حرام کی فہم رکھنے والا کوئی شخص حلال نہیں کہہ سکتا۔

          جس شخص نے اسلام کے معاملاتی نظام کا صحیح نظر سے مطالعہ کیا ہو اسے معلوم ہوگا کہ شریعت نے بعض معاملات کو ان کے ذاتی خبث کی وجہ سے ممنوع قرار دیا ہے، بعض کو غیرمنصفانہ قیود و شرائط کی وجہ سے، اور بعض کو اس وجہ سے کہ ان میں اکثر منازعات و مناقشات کی نوبت آسکتی ہے۔ مزارعت کی یہ صورتیں جن غلط قیود و شرائط پر ہوتی تھیں ان میں لڑائی جھگڑے کی صورتیں کھڑی ہوجاتی تھیں۔ اس لئے ان کی ممانعت قرینِ مصلحت ہوئی، چنانچہ جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو علم ہوا کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ مزارعت سے منع کرتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا:

          ”یغفر الله لرافع بن خدیج، أنا والله! أعلم بالحدیث منہ، انما رجُلان – قال مسدد: من الأنصار ثم اتفقا – قد اقتتلا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان کان ھٰذا شأنکم فلا تکروا المزارع۔“

           (ابوداوٴد ج:۲ ص:۴۸۱، ابنِ ماجہ ص:۱۷۷)

          ترجمہ:… ” اللہ تعالیٰ رافع کی مغفرت فرمائے، بخدا! میں اس حدیث کو ان سے بہتر سمجھتا ہوں، قصہ یہ ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انصار کے دو شخص آئے جن کے درمیان مزارعت کا جھگڑا تھا، اور نوبت مرنے مارنے تک پہنچ گئی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب تمہاری یہ حالت ہے تو تم مزارعت کا معاملہ نہ کیا کرو۔“

          ”عن سعد بن أبی وقاص رضی الله عنہ قال: کان أصحاب المزارع یکرون فی زمان رسول الله صلی الله علیہ وسلم مزارعھم بما یکون علی الساق من الزرع فجاؤا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فاختصموا فی بعض ذٰلک، فنھاھم رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یکروا بذٰلک وقال: اکروا بالذھب والفضة۔“              (نسائی ج:۲ ص:۱۵۳)

          ترجمہ:… ”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمین دار اپنی زمین اس پیداوار کے عوض دیا کرتے تھے جو نہروں اور گولوں پر ہوتی تھیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور مزارعت کے سلسلے میں جھگڑا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی مزارعت نہ کیا کرو، بلکہ سونے چاندی کے عوض دیا کرو۔“

          ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مطلق مزارعت کے معاملے سے ممانعت نہیں فرمائی گئی تھی بلکہ یہ ممانعت خاص ان صورتوں سے متعلق تھی جن میں غلط شرائط کی وجہ سے نزاع و اختلاف کی نوبت آتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین کو زَرِ نقد پر ٹھیکے پر دینے کی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی۔ اس لئے فاضل مضمون نگار کا یہ نظریہ سرے سے باطل ہوجاتا ہے کہ: ”ایسے تمام معاملات، جن میں بغیر کسی محنت کے منافع حاصل ہوتا ہے، اسے آپ نے ”سود“ قرار دیا۔“ اگر مزارعت کی ممانعت کا سبب یہ ہوتا کہ اس میں بغیر محنت کے منافع حاصل ہوتا ہے تو یہ علت تو زمین کو ٹھیکے اور مستأجری پر دینے میں بھی پائی جاتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت کیونکر دے سکتے تھے۔

          الغرض! فاضل مضمون نگار جس نظریے کو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے ہیں اور جس پر جدید دور کے لادِین ماہرینِ معاشیات کو بطور سند پیش فرما رہے ہیں، اسلام سے اس کا دُور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، اور نہ ان احادیث کا یہ مفہوم ہے جو موصوف نے اپنے نظریے کی تائید میں نقل کی ہیں۔ یہ بڑی سنگین بات ہے کہ ایک اُلٹا سیدھا مفروضہ قائم کرکے اسے جھٹ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا جائے، اور لوگوں کو باور کرایا جائے کہ یہی اسلام کا نظریہ ہے، جسے نہ صحابہ کرام نے سمجھا، نہ تابعین نے، اور نہ بعد کے اکابرینِ اُمت نے․․․!

          یہاں یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ مزارعت کا معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے دور سے آج تک مسلمانوں کے درمیان رائج چلا آتا ہے، اِمام بخاری رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:

          ”عن أبی جعفر رحمہ الله قال: ما بالمدینة أھل بیت ھجرة لا یزرعون علی الثلث والربع، وزارع علی وسعد بن مالک وعبدالله بن مسعود وعمر بن عبدالعزیز والقاسم وعروة واٰل أبی بکر واٰل عمر واٰل علی وابن سیرین، وقال عبدالرحمٰن بن الأسود: کنت أشارک عبدالرحمٰن بن یزید فی الزرع، وعامل عمر الناس علٰی ان جاء عمر بالبذر من عندہ فلہ الشطر وان جاؤا بالبذر فلھم کذا۔“          (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۳)

          ترجمہ:… ”حضرت ابو جعفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: مدینہ طیبہ میں مہاجرین کا کوئی خاندان ایسا نہیں تھا جو بٹائی کا معاملہ نہ کرتا ہو۔ حضرت علی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت قاسم، حضرت عروہ، حضرت ابوبکر کا خاندان، حضرت عمر کا خاندان، حضرت علی کا خاندان، ابنِ سیرین ان سب نے مزارعت کا معاملہ کیا۔ عبدالرحمن بن اسود کہتے ہیں کہ میں عبدالرحمن بن یزید سے کھیتی میں شراکت کیا کرتا تھا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے اس طرح معاملہ کرتے تھے کہ اگر حضرت عمر بیج اپنے پاس سے دیں تو نصف پیداوار ان کی ہوگی، اور اگر کاشتکار بیج خود ڈالیں تو ان کا اتنا حصہ ہوگا۔“

          انصاف کیا جائے کہ کیا یہ تمام حضرات، رفیع اللہ شہاب صاحب کے بقول ”سودخور“ اور خدا اور رسول سے جنگ کرنے والے تھے․․․؟

          زمین کی خرید و فروخت:

          فاضل مضمون نگار نے زمین کی خرید و فروخت کو بھی ”سودی کاروبار“ شمار کیا ہے، اور اس لئے انہوں نے ایک عجیب و غریب کہانی تصنیف فرمائی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

          ”بہت سے صحابہ کرام کے پاس اپنی خود کاشت سے زائد زمین تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کی بٹائی کے معاملے کو سود قرار دیا تو انہوں نے اس کو بیچنے کا پروگرام بنایا، لیکن جب انہوں نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے اس زائد زمین کو بیچنے کی اجازت نہ دی، بلکہ فرمایا کہ: اپنے ضرورت مند بھائیوں کو مفت دے دو۔ اپنی زمین کسی کو مفت دینا آسان نہ تھا، اس لئے اکثر صحابہ نے بار بار اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے دریافت فرمائی اور آپ نے ہر بار یہی جواب دیا، بخاری شریف اور مسلم میں اس مضمون کی کئی احادیث ہیں۔“

          شہاب صاحب نے اپنی تصنیف کردہ کہانی کے لئے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی کئی احادیث کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ یہ ساری کی ساری داستان موصوف کی اپنی طبع زاد ہے، صحیح بخاری و صحیح مسلم کی کسی حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ:

          الف:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بٹائی کو سود قرار دیا تھا۔

          ب:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو سن کر صحابہ کرام نے فاضل اراضی کے فروخت کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔

          ج:… انہوں نے اپنا یہ پروگرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرکے آپ سے زمین فروخت کرنے کی اجازت چاہی تھی۔

          د:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس پروگرام کو مسترد کردیا تھا اور زمین فروخت کرنے کی ممانعت فرمادی تھی۔

          ہ:… باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین فروخت کرنے سے صریح ممانعت فرمادی تھی اور اس کو سود قرار دے دیا تھا، لیکن صحابہ کرام بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت طلب کرتے تھے، اور ہر بار ان کو یہی جواب ملتا تھا۔

          فاضل مضمون نگار نے – صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے حوالے سے- اس کہانی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی سیرت و کردار کا جو نقشہ کھینچا ہے، کیا عقلِ سلیم اس کو قبول کرتی ہے․․․؟

          سب جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہاجرین رُفقاء کے ساتھ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے ہیں تو مدینہ طیبہ کی اراضی کے مالک انصار تھے، ان حضرات کا کردار زمینوں کے معاملے میں کیا تھا؟ اس سلسلے میں صحیح بخاری سے دو واقعات نقل کرتا ہوں:

          ”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قالت الأنصار للنبی صلی الله علیہ وسلم: اقسم بیننا وبین اخواننا النخیل، قال: لا، فقالوا: فتکفونا الموٴنة ونشرککم فی الثمرة، قالوا: سمعنا وأطعنا۔“

                              (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۲)

          اوّل:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضراتِ انصار نے یہ درخواست کی کہ ہمارے یہ باغات ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کردیجئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم کام کیا کرو اور ہمیں پیداوار میں شریک کرلیا کرو، سب نے کہا: سمعنا واطعنا۔

          ”عن یحیٰی بن سعید قال: سمعت أنسًا رضی الله عنہ قال: أراد النبی صلی الله علیہ وسلم أن یقطع من البحرین فقالت الأنصار: حتّٰی تقطع لاخواننا من المھاجرین مثل الذی تقطع لنا ․․․․الخ۔“

                              (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۲۰)

          دوم:… یہ کہ جب بحرین کا علاقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ نگیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلاکر انہیں بحرین کے علاقے میں قطعاتِ اراضی (جاگیریں) دینے کی پیشکش فرمائی، اس پر حضراتِ انصار نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب تک آپ اتنی ہی جاگیریں ہمارے مہاجر بھائیوں کو عطا نہیں کرتے، ہم یہ قبول نہیں کرتے۔

          کیا انہیں حضراتِ انصار کے بارے میں شہاب صاحب یہ داستان سرائی فرما رہے ہیں کہ: ”سود کی حرمت سن کر انہوں نے اپنی زمین فروخت کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح ممانعت کے باوجود وہ اس سودخوری پر مصر تھے“؟ کیا ستم ہے کہ جن ”انصارِ اسلام“ نے خدا اور رسول کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ لٹادیا تھا، ان پر ایسی گھناوٴنی تہمت تراشی کی جاتی ہے․․․!

          خلاصہ یہ کہ زمین کی خرید و فروخت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً ممانعت نہیں فرمائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک زمینوں کی خرید و فروخت ہوتی رہی ہے اور کبھی کسی نے اس کو ”سود“ قرار نہیں دیا۔

          فاضل مضمون نگار نے ”نیل الاوطار“ کے حوالے سے جو روایت نقل کی ہے کہ:

          ”بعض اصحابِ رسول کے پاس فاضل اراضی تھی، آپ نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو بخش دے، اور اگر انکار کرے تو اپنی زمین کو روک رکھے۔“

          یہ حدیث صحیح ہے، مگر اس سے نہ مزارعت کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، اور نہ زمینوں کی خرید و فروخت کا ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں جہاں یہ حدیث ذکر کی گئی ہے وہاں اس کی شرح بھی بایں الفاظ موجود ہے:

          ”قال عمرو: قلت لطاوٴس: لو ترکت المخابرة فانھم یزعمون أن النبی صلی الله علیہ وسلم نھی عنہ، قال: أی عمرو! فانی أعطیھم وأعینھم وان أعلمھم أخبرنی یعنی ابن عباس أن النبی صلی الله علیہ وسلم لم ینہَ عنہ، ولٰکن قال: أن یمنح أحدکم أخاہ خیرٌ لہ من أن یأخذ علیہ خرجًا معلومًا۔“

                   (صحیح بخاری ص:۳۱۳، صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۴)

          ترجمہ:… ”عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ: میں نے حضرت طاوٴس سے کہا کہ: آپ بٹائی کے معاملے کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اے عمرو! میں غریب کسانوں کو زمین دے کر ان کی اعانت کرتا ہوں، اور لوگوں میں جو سب سے بڑے عالم ہیں، یعنی حضرت عبداللہ بن عباس انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت نہیں فرمائی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ تم میں کا ایک شخص اپنے بھائی کو اپنی زمین بغیر معاوضے کے کاشت کے لئے دے دے یہ اس کے لئے بہتر ہے بجائے اس کے کہ اس پر کچھ مقرّرہ معاوضہ وصول کرے۔“

          مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایثار و مواسات کی تعلیم کے لئے تھا، چنانچہ اِمام بخاری نے ان احادیث کو حسبِ ذیل عنوان کے تحت درج فرمایا ہے:

          ”باب ما کان أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم یواسی بعضھم بعضًا فی المزارعة۔“

          ترجمہ:… ”اس کا بیان کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام زراعت کے بارے میں ایک دُوسرے کی کیسے غم خواری کرتے تھے۔“

          اس حدیث کی نظیر ایک دُوسری حدیث ہے جو صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

          ”بینما نحن فی سفر مع النبی صلی الله علیہ وسلم اذ جائہ رجل علٰی راحلة لہ قال: فجعل یصرف بصرہ یمینًا وشمالًا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من کان معہ فضل ظھر فلیعد بہ علٰی من لا ظھر لہ، ومن کان لہ فضل من زاد فلیعد بہ علٰی من لا زاد لہ، قال: فذکر من أصناف المال ما ذکر حتّٰی رأینا أن لا حق لأحد منا فی فضلٍ۔“            (صحیح مسلم ج:۱ ص:۸۱)

          ترجمہ:… ”ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ایک آدمی ایک اُونٹنی پر سوار ہوکر آیا اور دائیں بائیں نظر گھمانے لگا، (وہ ضرورت مند ہوگا) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زائد سواری ہو وہ ایسے شخص کو دے ڈالے جس کے پاس سواری نہیں، اور جس کے پاس زائد توشہ ہو وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس توشہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی انداز میں مختلف چیزوں کا تذکرہ فرمایا، یہاں تک کہ ہم کو یہ خیال ہوا کہ زائد چیز میں ہم میں سے کسی کا حق نہیں ہے۔“

          بلاشبہ یہ اعلیٰ ترین مکارمِ اخلاق کی تعلیم ہے، اور مسلمانوں کو اسی اخلاقی بلندی پر ہونا چاہئے، لیکن کون عقل مند ہوگا جو یہ دعویٰ کرے کہ اسلام میں زائد اَز حاجت چیز کا رکھنا یا اسے فروخت کرنا ہی ممنوع و حرام ہے؟ ٹھیک اسی طرح اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو بٹائی یا کرایہ پر دینے کے بجائے اپنے ضرورت مند بھائیوں کو مفت دینے کی تعلیم فرمائی تو یہ اخلاق و مروّت اور غم خواری و مواسات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، لیکن اس سے یہ نکتہ کشید کرنا کہ اسلام، زمین کی بٹائی کو یا اس کی خرید و فروخت کو ”سود“ قرار دیتا ہے، بہت بڑی جرأت ہے․․․!

سخن شناس نہ دلبرا! خطا ایں جا است

          مکانوں کا کرایہ:

          فاضل مضمون نگار کے نظریہ کے مطابق مکانوں کا کرایہ بھی ”سود“ ہے، اس لئے انہوں نے یہ افسانہ تراشا ہے کہ:

          ”اس زمانے میں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) زمین ہی سرمایہ داری کا بڑا ذریعہ تھا، سرمایہ داری کا دُوسرا بڑا ذریعہ کرایہ کے مکانات تھے، یہ مکان زیادہ تر مکہ شریف میں واقع تھے، کیونکہ وہ ایک بین الاقوامی شہر تھا، جہاں لوگ حج اور تجارت کے مقاصد کے لئے آتے جاتے تھے، آپ نے مکہ شریف کے مکانوں کا کرایہ بھی سود قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے منع کردیا، اور فرمایا کہ جس نے مکہ شریف کی دُکانوں کا کرایہ کھایا اس نے گویا سود کھایا۔“

          موصوف کا یہ افسانہ بھی حسبِ عادت خود تراشیدہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سرمایہ داری کا ذریعہ نہ زمین تھی، نہ مکانوں کا کرایہ تھا، چنانچہ مدینہ طیبہ میں زمینوں کے مالک حضراتِ انصار تھے، مگر ان میں سے کسی کا نام نہیں لیا جاسکتا کہ وہ سرمایہ داری میں معروف تھا، اس کے برعکس حضرت عثمان غنی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی خاصے متمول تھے، حالانکہ وہ اس وقت نہ کسی زمین کے مالک تھے، نہ ان کی کرائے کی دُکانیں تھیں، اور اہلِ مکہ میں بھی کسی ایسے شخص کا نام نہیں لیا جاسکتا جو محض کرائے کے مکانوں کی وجہ سے ”سرمایہ دار“ کہلاتا ہو، تعجب ہے کہ موصوف ہر جگہ افسانہ تراشی سے کام لیتے ہیں․․․!

          پھر یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر زمین کی ملکیت سرمایہ داری کا ذریعہ تھی اور شہاب صاحب کے بقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اَحکام سرمایہ داری ہی کے مٹانے کے لئے دئیے تھے تو سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیم کو جاگیریں کیوں مرحمت فرمائی تھیں؟ اگر ان کے اس فرضی افسانے کو تسلیم کرلیا جائے کہ اس زمانے میں زمین ہی سرمایہ داری کا سب سے بڑا ذریعہ تھی تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سرمایہ داری کو فروغ دینے کا الزام عائد نہیں ہوگا․․․؟

          موصوف کا یہ کہنا کہ: ”کرائے کے مکان سب سے زیادہ مکہ مکرّمہ ہی میں تھے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرّمہ کے مکانوں کا کرایہ لینے سے منع فرمادیا“ یہ بھی محض مہمل بات ہے۔ اگر یہ حکم تمام شہروں کے لئے ہوتا تو صرف مکہ مکرّمہ کی تخصیص کیوں کی جاتی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرایہ داری سے مطلقاً منع فرماسکتے تھے۔

          موصوف نے ”ہدایہ“ کے حوالے سے جو حدیث نقل کی ہے، اس کا وجود حدیث کی کسی کتاب میں نہیں، اور ”ہدایہ“ کوئی حدیث کی کتاب نہیں کہ کسی حدیث کے لئے صرف اس کا حوالہ کافی سمجھا جائے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ ”ہدایہ“ میں بہت سی روایات بالمعنی نقل ہوئی ہیں، اور بعض ایسی بھی جن کا حدیث کی کتابوں میں کوئی وجود نہیں۔

          اور اگر بالفرض کوئی حدیث مکہ مکرّمہ کے بارے میں وارِد بھی ہو تو کون عقل مند ہوگا جو مکہ مکرّمہ کے مخصوص اَحکام کو دُوسری جگہ ثابت کرنے لگے۔ مکہ کی حدود میں درخت کاٹنا اور پھول توڑنا بھی ممنوع ہے اور اس پر جزا لازم آتی ہے۔ وہاں شکار کرنا بھی حرام ہے، کیا ان اَحکام کو دُوسری جگہ بھی جاری کیا جائے گا؟ مکہ مکرّمہ کی حرمت کے پیشِ نظر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے مکانوں کے کرایہ پر چڑھانے کو بھی ناپسند فرمایا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہی حکم باقی شہروں کا بھی ہے؟

          جہاں تک مکہ مکرّمہ کے مکانات کرائے پر چڑھانے کا حکم ہے، اس پر اتفاق ہے کہ موسمِ حج کے علاوہ مکہ مکرّمہ کے مکانات کرائے پر دینا جائز ہے، البتہ بعض حضرات موسمِ حج میں اس کو پسند نہیں فرماتے تھے، انہی میں ہمارے اِمام ابوحنیفہ بھی شامل ہیں۔ لیکن جمہور اَئمہ کے نزدیک موسمِ حج میں بھی مکانات کرائے پر چڑھانا دُرست ہے۔ ہمارے اَئمہ میں اِمام ابویوسف اور اِمام محمد بھی اسی کے قائل ہیں، اور فقہِ حنفی میں فتویٰ بھی اسی قول پر ہے۔ مکہ مکرّمہ کے علاوہ دُوسرے شہروں میں مکان کرایہ پر دینا سب کے نزدیک جائز ہے۔

          آڑھت:

          آڑھت اور دلالی کو سود قرار دینے کے لئے موصوف نے ”نیل الاوطار“ جلد:۵ صفحہ:۱۷۴ کے حوالے سے یہ کہانی درج فرمائی ہے:

          ”حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ان اَحکامات کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاروباری مقامات پر تشریف لے گئے، اور مختلف قسم کے کاروبار کی تفصیلات دریافت کیں اور ایسے تمام معاملات کو کہ جن میں بغیر کسی محنت کے منافع حاصل ہوتا ہے، مثلاً: آڑھت کا کاروبار، اسے آپ نے سود قرار دے دیا۔“

          ”نیل الاوطار“ کے نہ صرف محولہ بالا صفحے میں، بلکہ اس سے متعلقہ تمام اَبواب میں بھی کہیں یہ کہانی درج نہیں کہ سود کے اَحکامات نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاروبار کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے بازار تشریف لے گئے ہوں اور ایسے تمام معاملات کو جن میں بغیر محنت کے سرمایہ حاصل ہوتا ہے، آپ نے سود قرار دے دیا ہو۔ فاضل مضمون نگار کو غلط مفروضے گھڑنے اور ان کے لئے فرضی کہانیاں تصنیف کرنے کا اچھا ملکہ ہے۔ یہاں بھی انہوں نے ایک عدد کہانی تصنیف فرمائی، حالانکہ اگر ذرا بھی تأمل سے کام لیتے تو انہیں واضح ہوجاتا کہ یہ کہانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے حالات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ اوّل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کاروبار کی ان صورتوں سے واقف تھے جو اکثر و بیشتر رائج تھیں، علاوہ ازیں تمام کاروباری حضرات بارگاہِ نبوی کے حاضرباش تھے، ان کے شب و روز اور سفر و حضر صحبتِ نبوی میں گزرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دریافت فرماسکتے تھے کہ ان کے ہاں کون کون سی صورتیں رائج ہیں۔ محض کاروبار کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے آپ کو بازار جانے کی زحمت کی ضرورت نہ تھی، اتفاقاً کبھی بازار کی طرف گزر ہوجانا دُوسری بات ہے۔

          اور موصوف کا یہ ارشاد کہ: ”آپ نے تمام ایسے معاملات کو جن میں بغیر محنت کے سرمایہ حاصل ہوتا ہے، سود قرار دے دیا“ یہ بھی موصوف کا خود تصنیف کردہ نظریہ ہے، جسے وہ زبردستی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر رہے ہیں۔

          جہاں تک ”آڑھت“ کا تعلق ہے جسے موصوف اپنے تصنیف کردہ نظریے کے مطابق ”سود“ فرما رہے ہیں، حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”آڑھت“ کو ”تجارت“ اور ”آڑھتیوں“ کو ”تاجر“ فرمایا ہے، چنانچہ جامع ترمذی میں بہ سندِ صحیح حضرت قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

          ”خرج علینا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ونحن نسمی السماسرة فقال: یا معشر التجار! ان الشیطان والاثم حضران البیع فشوبوا بیعکم بالصدقة۔ قال الترمذی: حدیث قیس بن أبی غرزة حدیث حسن صحیح۔“      (ترمذی ج:۱ ص:۱۴۵، مطبوعہ مجتبائی دہلی)

          ترجمہ:… ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں آڑھتی اور دلال کہا جاتا تھا، آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت میں شیطان اور گناہ بھی شامل ہوجاتے ہیں، اس لئے اپنی خرید و فروخت میں صدقہ کی آمیزش کیا کرو۔“

          اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آڑھت کو بھی تجارت کی مد میں شمار فرمایا ہے، کیونکہ آڑھتی یا بائع (بیچنے والا) کا وکیل ہوگا، یا مشتری (خریدنے والا) کا، دونوں صورتوں میں اس کا تاجر ہونا واضح ہے۔

          البتہ احادیثِ طیبہ میں آڑھت کی ایک خاص صورت کی ممانعت ضرور فرمائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی دیہاتی فروخت کرنے کے لئے کوئی چیز بازار میں لائے اور وہ اسے آج ہی کے نرخ پر فروخت کرنا چاہتا ہو، لیکن کوئی شہری اس سے یوں کہے کہ میاں تم یہ چیز میرے پاس رکھ جاوٴ، جب یہ چیز مہنگی ہوگی تو میں اس کو فروخت کردُوں گا، اس کی ممانعت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

          ”عن ابن عباس رضی الله عنھما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا تلقوا الرکبان ولا یبیع حاضر لبادٍ، فقیل لابن عباس: ما قولہ: لا یبیع حاضر لبادٍ؟ قال: لا یکون لہ سمسارا۔“

                              (نیل الاوطار ج:۵ ص:۱۶۴)

          ترجمہ:… شہر سے باہر نکل کر تجارتی قافلوں کا مال نہ خریدا کرو، اور کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے بیع نہ کرے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا کہ: کوئی شہری، دیہاتی کے لئے دلال نہ بنے۔“

          اس حدیث کے ذیل میں شوکانی لکھتے ہیں:

          ”حنفیہ کا قول ہے کہ یہ ممانعت اس صورت کے ساتھ خاص ہے جبکہ گرانی کا زمانہ ہو اور وہ چیز ایسی ہے کہ اہلِ شہر کو اس کی ضرورت ہے۔ شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ ممنوع صورت یہ ہے کہ کوئی شخص شہر میں سامان لائے وہ اسے آج کے نرخ پر آج بیچنا چاہتا ہے لیکن کوئی شہری اس سے یہ کہے کہ تم اسے میرے پاس رکھ دو، میں اسے زیادہ داموں پر تدریجاً فروخت کردُوں گا۔ اِمام مالک سے منقول ہے کہ دیہاتی کے حکم میں صرف وہی شخص آتا ہے جو دیہاتی کی طرح بازار کے نرخ سے بے خبر ہو، لیکن دیہات کے جو لوگ بازار کے بھاوٴ سے واقف ہیں وہ اس حکم میں داخل نہیں (یعنی ان کی چیز شہری کے لئے فروخت کرنا دُرست ہے)۔“

          ابنِ منذر نے جمہور سے نقل کیا ہے کہ یہ نہی تحریم کے لئے اس وقت ہے جبکہ:

          ۱:… بائع عالم ہو۔

          ۲:… سامان ایسا ہو کہ اس کی ضرورت عام اہلِ شہر کو ہے۔

          ۳:… بدوی نے وہ سامان اَز خود شہری کو پیش نہ کیا ہو۔ (ایضاً)

          اس پوری تفصیل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی کا منشا کیا ہے اور فقہائے اُمت نے اس سے کیا سمجھا ہے۔

          شہری کو دیہاتی کا سامان فروخت کرنے کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی اس کی وجہ بھی وہ نہیں جو ہمارے فاضل مضمون نگار بتارہے ہیں، (یعنی بغیر محنت کے سرمایہ کا حصول)، بلکہ اس کی وجہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمادی ہے:

          ”عن جابر رضی الله عنہ أن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لا یبیع حاضر لبادٍ دعوا الناس یرزق الله بعضھم من بعض۔ رواہ الجماعة الا البخاری۔“

                              (نیل الاوطار ج:۵ ص:۲۶۳)

          ترجمہ:… ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے۔ لوگوں کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض سے رزق پہنچائے۔“

          مطلب یہ کہ دیہاتی لوگ آکر شہر میں مال خود فروخت کریں گے تو اس سے ارزانی پیدا ہوگی، لیکن اگر شہری لوگ ان سے مال لے کر رکھ لیں اور مہنگا ہونے پر فروخت کریں تو اس سے مصنوعی قلّت اور گرانی پیدا ہوگی۔

          فرمائیے! اس ارشادِ مقدس میں فاضل مضمون نگار کے نظریے کا دُور دُور بھی کہیں کوئی سراغ ملتا ہے․․․؟

          بینک کا سود:

          عجیب بات ہے کہ ہمارے فاضل مضمون نگار ایک طرف ”سود کی مصطفوی تشریح“ کے ذریعہ ایسے معاملات ناجائز قرار دے رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے دور سے آج تک بغیر کسی نکیر کے رائج چلے آتے ہیں۔ لیکن دُوسری طرف بینک کے سود کو، جس کی حرمت میں کسی ادنیٰ مسلمان کو بھی شک نہیں ہوسکتا، بہت ہی معصوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر موصوف کا بس چلے تو وہ اس کے حلال ہونے ہی کا فتویٰ دے ڈالیں، موصوف بینک کے سود کی جس طرح وکالت فرماتے ہیں، اس کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیے:

          ”عام طور پر ہمارے بینک کی جانب سے ملنے والے منافع کو سود سمجھا جاتا ہے ․․․․․․․ جب سود کے اَحکام نازل ہوئے تھے اس وقت بینک نام کی کوئی چیز نہ تھی۔“

          گویا بینک کی طرف سے ملنے والا منافع بہت ہی معصوم ہے، لوگ خواہ مخواہ اس کو سود سمجھ رہے ہیں۔ اور مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں:

          ”یہ دونوں معاملات (یعنی زمین اور کرائے کے مکانات) ایسے ہیں کہ ان میں لگائے ہوئے سرمائے کی قیمت دن بدن بڑھتی رہتی ہے، جبکہ بینک میں جمع شدہ رقم کی قیمت دن بدن گھٹتی جاتی ہے، اس لئے مذکورہ بالا دونوں معاملات کا ”سود“ بینک کے سود سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔“

          موصوف کی منطق یہ ہے کہ بینک سے جو ”منافع“ ملتا ہے، وہ تو بہت معمولی ہے اور پھر اس رقم کی قوّتِ خرید بھی کم ہوتی رہتی ہے، لیکن زمین اور مکانوں سے جو کرایہ ملتا ہے، جو بینک کے سود کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتا ہے، اور پھر زمین اور مکانوں کی قیمت دن بدن گھٹتی نہیں بڑھتی ہے، اس لئے بینک کا ”منافع“ حرام ہے، تو زمین اور مکانوں کا کرایہ اس سے بڑھ کر حرام ہونا چاہئے۔ یہ ”سود“ کو حلال ثابت کرنے کی ٹھیک وہی دلیل ہے جو قرآنِ کریم نے کفار کی زبانی نقل کی ہے: ”اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِبٰوا“ کہ اگر سودی کاروبار میں نفع ہوتا ہے تو بیع میں اس سے بڑھ کر نفع ہوتا ہے، لہٰذا اگر سودی کاروبار حرام ہے تو بیع بھی حرام ہونی چاہئے، اور اگر بیع حلال ہے تو سود کیوں حرام ہے؟ قرآنِ کریم نے جو جواب آپ کے پیشرووٴں کو دیا تھا، وہی جواب موصوف کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:

”وَأَحَلَّ اللهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا“

ترجمہ:… ”حالانکہ حلال کیا ہے اللہ نے بیع کو اور حرام کیا ہے سود کو۔“

          اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں بحث یہ نہیں کہ کس صورت میں نفع زیادہ ہوتا ہے اور کس میں کم؟ بلکہ بحث اس میں ہے کہ کون سی صورت شرعاً جائز اور صحیح ہے، اور کون سی باطل اور حرام؟ فاضل مضمون نگار سے درخواست ہے کہ وہ زمین اور مکان کے کرائے کا حرام ہونا شرعی دلائل سے ثابت فرمائیں، خود تصنیف کردہ کہانیوں سے نہیں۔ تو ہمیں اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دینے میں کوئی تأمل نہیں ہوگا، لیکن یہ دلیل کہ فلاں کاروبار میں نفع زیادہ ہوتا ہے اور فلاں میں کم! پس اگر کم نفع کا معاملہ حرام ہے تو زیادہ نفع کا معاملہ کیوں حرام نہیں؟ یہ دلیل محض بچگانہ ہے، سب کو معلوم ہے کہ دس ہزار کی رقم کو اگر بینک میں رکھ دیا جائے تو اس پر اتنا سود نہیں ملے گا جس قدر منافع کہ اس رقم کو کسی صحیح تجارت میں لگانے سے ہوگا۔ اگر موصوف کی دلیل کو یہاں بھی جاری کردیا جائے تو کل وہ یہ فتویٰ بھی صادر فرمائیں گے کہ کسی نفع بخش تجارت میں روپیہ لگانا بھی حرام اور سود ہے۔ کیونکہ اس سے بینک کے سود کی شرح سے زیادہ منافع حاصل ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم نصیب فرمائے!

          فاضل مضمون نگار کی خدمت میں چند معروضات:

          جناب رفیع اللہ شہاب کے مضمون سے متعلقہ مسائل کی وضاحت تو ہوچکی، جی چاہتا ہے کہ آخر میں موصوف کی خدمت میں چند دردمندانہ معروضات اور مخلصانہ گزارشات پیش کردی جائیں، اُمید ہے کہ وہ ان گزارشات کو جذبہٴ اِخلاص پر محمول کرتے ہوئے ان کی طرف توجہ فرمائیں گے۔

          اوّل:… کوئی شخص نظریات ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا نہیں ہوتا، بلکہ شعور و احساس کے بعد جیسی تعلیم و تربیت ہو اور جیسا ماحول آدمی کو میسر آئے اس کا ذہن اسی قسم کے نظریات میں ڈھل جاتا ہے، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں اسی مضمون کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے:

          ”کل مولود یولد علی الفطرة فأبواہ یھوّدانہ أو ینصّرانہ أو یمجّسانہ۔“          (صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۸۵)

          ترجمہ:… ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی بنادیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔“

          آپ محنت اور سرمایہ کے بارے میں جو نظریات پیش فرماتے ہیں، یا اس قسم کے دیگر نظریات جو وقتاً فوقتاً جناب کے قلم سے نکلتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ اس تعلیم و تربیت اور ماحول کا اثر ہے جس میں آپ نے شعور کی آنکھ کھولی، اور جس کا رنگ اور مزاج آپ کے افکار و نظریات پر اثر انداز ہوا۔ آپ کو ایک بار مخلی بالطبع ہوکر اس پر غور کرنا چاہئے کہ یہ ماحول، اور یہ تعلیم و تربیت آیا دِینی اقدار کی حامل تھیں یا نہیں؟ یہ ایک معیار اور کسوٹی ہے جس سے آپ اپنے نظریات کی صحت و سقم کو پَرکھ سکتے ہیں۔ دورِ جدید کے جو حضرات جدید نظریات پیش کرتے ہیں، ان کے نظریات اکثر و بیشتر اجنبی ماحول اور غیرقوموں کی تعلیم و تربیت کی پیداوار ہوتے ہیں، بعد میں وہ ان نظریات کے لئے قرآن و حدیث کے حوالے بھی دینے لگتے ہیں، گو وہ نظریہ قرآن و حدیث نے نہیں دیا تھا، نظریہ باہر سے لایا گیا، بعد میں قرآن و حدیث کو اس پر منطبق کرنے کی کوشش کی گئی، یہ طرزِ فکر لائقِ اصلاح ہے۔ ایک مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ تمام خارجی و بیرونی افکار سے خالی الذہن ہوکر دِینی نظریات کو اپنائے اور اس کے لئے قرآن و سنت کی سند لائے، والله الموفق!

          دوم:… یوں تو پاکستان میں نظریاتی آزادی ہے، جو شخص جیسا نظریہ چاہے رکھے، کوئی روک ٹوک نہیں۔ اور آج کے دور میں کاغذ و قلم کی فراوانی اور پریس کی سہولت بھی عام ہے۔ جیسے نظریات بھی کوئی پھیلانا چاہے بڑی آزادی سے پھیلاسکتا ہے۔ لیکن کسی نظریے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرنا بہت ہی سنگین جرم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی تواتر سے مروی ہے:

          ”من کذب علیَّ متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔“

          ترجمہ:… ”جس نے عمداً میری طرف کوئی غلط بات منسوب کی، وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔“

          آپ کے اس مختصر سے مضمون میں بہت سی ایسی باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں، جو قطعاً خلافِ واقعہ ہیں۔

          سوم:… دِین فہمی کے معاملے میں میری اور آپ کی رائے حجت نہیں، بلکہ اس بارے میں حضراتِ صحابہ و تابعین اور اَئمہ ہدیٰ کا فہم لائقِ اعتماد ہے۔ قرآنِ کریم کی کسی آیت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد سے کوئی ایسی بات نکال لینا جو صحابہ و تابعین اور اکابرِ اُمت کے فہم و تعامل سے ٹکراتی ہو، ہمارے لئے کسی طرح روا نہیں۔ آج کل اس معاملے میں بڑی بے احتیاطی ہو رہی ہے، اور اسی کی جھلک آپ کے مضمون میں بھی نظر آتی ہے۔ سلامتی کا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے نظریات کی تصحیح ان اکابر کے تعامل سے کریں، یہ نہیں کہ اپنے نظریات کے ذریعہ ان اکابر کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے بیٹھ جائیں، حتیٰ کہ جو اُمور ان اکابر کے درمیان مختلف فیہ نظر آتے ہوں، ان میں بھی کسی ایک جانب کو گمراہی نہیں کہہ سکتے۔

          چہارم:… آنجناب نے اپنے مضمون کے آغاز میں علمائے کرام پر اہم دِینی معاملات میں غفلت برتنے کا الزام عائد کیا ہے، اور مضمون کے آخر میں علمائے کرام کو نصیحت فرمائی ہے:

          ”اُمید ہے علمائے اسلام عامة الناس کو سود کی یہ مصطفوی تشریح سمجھاکر انہیں شریعتِ اسلامی کی رُو سے سب سے بڑے سنگین جرم سے بچانے کی کوشش کریں گے۔“

          یہ تو اُوپر تفصیل سے عرض کرچکا ہوں کہ آپ نے مضمون میں جو کچھ لکھا ہے وہ ”سود کی مصطفوی تشریح“ نہیں، بلکہ اپنے چند ذہنی مفروضوں کو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرکے اس کا نام ”مصطفوی تشریح“ رکھ دیا ہے۔ اس لئے علمائے کرام سے یہ توقع تو نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ کسی کے خود تراشیدہ نظریات کو ”مصطفوی تشریح“ تسلیم کرلیں، اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے پھریں۔ البتہ آپ سے یہ گزارش ضرور کروں گا کہ علمائے کرام کے بارے میں آپ نے غفلت اور کوتاہی کا جو اِلزام عائد کیا ہے، اس سے آپ کو رُجوع کرلینا چاہئے۔ بلاشبہ علمائے کرام معصوم نہیں، انفرادی طور پر ان سے فکری لغزشیں یا عملی کوتاہیاں ضرور ہوسکتی ہیں، لیکن پوری کی پوری جماعتِ علماء کو موردِ طعن بنانا اور ان پر دِین کے اہم ترین معاملات میں غفلت و کوتاہی کا اِلزام عائد کرنا بڑی بے جا بات ہے۔ دِین بہرحال علمائے دِین ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، اور علمائے کرام کی پوری کی پوری جماعت کو مطعون کرنا درحقیقت دِین سے بے اعتمادی ظاہر کرنے کو مستلزم ہے۔ اور حضرت مجدّد کے الفاظ میں: ”تجویز نہ کند ایں معنی مگر زندیقے کہ مقصودش ابطال شطر دین است، یا جاہلے کہ از جہل خود بے خبر است۔“

          موجودہ دور کے علماء اگر حضرات صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کے راستے سے ہٹ گئے ہیں اور ان اکابر کے خلاف کوئی بات کہتے ہیں تو آپ اس کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ علمائے کرام اِن شاء اللہ اس کو ضرور قبول فرمائیں گے۔ لیکن اگر علمائے اُمت، بزرگانِ سلف کے نقشِ قدم پر گامزن ہیں تو آپ کا طعن علماء پر نہیں ہوگا بلکہ سلف صالحین پر ہوگا، اور اس کی قباحت میں اُوپر عرض کرچکا ہوں۔

          آخر میں پھر گزارش کرتا ہوں کہ ان گزارشات کو اِخلاص پر مبنی سمجھتے ہوئے ان پر توجہ فرمائیں۔

وصلی الله تعالٰی علٰی خیر خلقہ صفوة البریة سیّدنا محمد واٰلہ واَتْباعہ اِلٰی یوم الدین!

مکان اور شامیانے، کراکری، کرایہ پر دینا جائز ہے

س… اگر کوئی شخص مکان خرید کر کرائے پر دیتا ہے، تو اس طرح سے اس مکان کا کرایہ سود ہے یا نہیں؟ جو سامان ہم بیاہ شادیوں پر کرایہ کا لیتے یا دیتے ہیں، مثلاً: شامیانے اور کراکری وغیرہ کا سامان وہ بھی کیا سود ہے؟

ج… مکان اور سامان کرایہ پر لینا جائز ہے، اس کی آمدنی سود میں شمار نہیں ہوتی۔

جائیداد کا کرایہ اور مکان کی پگڑی لینا

س… کیا کسی خالی دُکان یا مکان کا گڈوِل یعنی پگڑی لینا جائز ہے یا ناجائز؟

ج… پگڑی کا رواج عام ہے، مگر اس کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا۔

س… کرایہ جائیداد ماہوار لینے کے بارے میں کیا رائے ہے؟

ج… جائیداد کا کرایہ لینا دُرست ہے۔

پگڑی سسٹم کی شرعی حیثیت

س… آج کل دُکانوں کو پگڑی سسٹم پر فروخت کیا جارہا ہے، یعنی ایک دُکان کو کرایہ پر دینے سے پہلے کچھ رقم مانگی جاتی ہے، مثلاً: ایک لاکھ روپیہ اور پھر کرایہ بھی ادا کرنا ہوگا، لیکن پیشگی رقم دینے کے باوجود دُکان دار کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے، اور اگر مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں تو پھر کرایہ کس چیز کا مانگا جاتا ہے؟

ج… پگڑی کا طریقہ شرعی قواعد کے مطابق جائز نہیں۔

کرائے پر لی ہوئی دُکان کو کرایہ پر دینا

س… ایک صاحب نے ایک دُکان مع اس کے فرنیچر اور فٹنگ کے مالکِ جائیداد سے مبلغ ۲۴ہزار روپے میں لی ہے، اور اس کا کرایہ بھی پچاس روپے ماہانہ دیتے ہیں، احقر ان سے یہ دُکان دو سو پچاس روپے ماہانہ کرایہ پر لیتا ہے، آیا اس صورت میں شرعاً ان کے لئے اور میرے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟

ج… اس دکان کا کرایہ پر لینا آپ کے لئے جائز ہے، اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔

سرکاری زمین قبضہ کرکے کرایہ پر دینا

س… غیرآباد جگہ جو جنگل تھا اس میں مکان بنالئے گئے، سرکاری جگہ ہے، اس کا کرایہ لینا ٹھیک ہے یا نہیں؟

ج… حکومت کی اجازت سے اگر مکان بنوائے گئے تو کرایہ وغیرہ لینا جائز ہے۔

وڈیو فلمیں کرائے پر دینے کا کاروبار کرنا

س… کیا ویڈیو فلمیں کرائے پر دینے والوں کا کاروبار جائز ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ کاروبار کرنے والے کی نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور دُوسرے نیک افعال قبول ہوں گے؟

ج… فلموں کے کاروبار کو جائز کیسے کہا جاسکتا ہے․․․؟ اس کی آمدنی بھی حلال نہیں، نماز، روزہ اور حج، زکوٰة فرائض ہیں، وہ ادا کرنے چاہئیں، اور وہ ادا ہوجائیں گے، مگر ان میں نور پیدا نہیں ہوگا جب تک آدمی گناہوں کو ترک نہ کرے۔

کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم

س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟

ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔

س… کیا مالکِ مکان اپنی مرضی سے اس رقم کو استعمال کرسکتا ہے؟

ج… مالک کی اجازت سے استعمال کرسکتا ہے۔

س… مالکِ مکان اگر اس رقم کو ناجائز ذرائع میں استعمال کرلے تو کیا گناہ کرایہ دار پر بھی ہوگا؟

ج… نہیں۔

س… کیا کرایہ دار کو سالانہ اس رقم کی زکوٰة ادا کرنی ہوگی؟

ج… جی ہاں۔

س… کیا مالکِ مکان اس رقم کو جائز ذرائع میں استعمال کرنے سے بھی گناہگار ہوگا؟

ج… اجازت کے ساتھ ہو تو گناہگار نہیں۔

س… اگر کرایہ دار اس رقم کو بطور قرضہ مالکِ مکان کو دیتا ہے تو اس صورت میں مکان والا متوقع گناہ سے بَری سمجھا جائے گا؟

ج… اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ گناہگار نہیں ہوگا۔

س… مالکِ مکان ایک طرف کرایہ میں بھاری رقم لیتا ہے، پھر ایڈوانس کے نام کی رقم سے فائدہ اُٹھاتا ہے، پھر سال دو سال میں کرایہ میں اضافہ بھی کرتا ہے، تو کیا یہ صریح ظلم نہیں، اس مسئلے کا سرِ عام عدالت کے واسطے سے، یا علمائے کرام کی تنبیہ کے ذریعے سے سدِ باب ضروری نہیں؟

ج… زَرِ ضمانت سے مقصد یہ ہے کہ کرایہ دار بسااوقات مکان کو نقصان پہنچادیتا ہے، بعض اوقات بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالکِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، اس کے لئے کرایہ دار سے زَرِ ضمانت رکھوایا جاتا ہے، ورنہ اگر پورا اعتماد ہو تو زَرِ ضمانت کی ضرورت نہ رہے۔

غاصب کرایہ دار سے آپ کو آخرت میں حق ملے گا

س… میرا مکان ایک ڈاکٹر نے کرایہ پر لے کر مطب میں تبدیل کرلیا تھا، اور پندرہ ماہ کا کرایہ بھی مع بجلی، پانی، سوئی گیس کے بل بھی ادا نہیں کئے۔ مکان خالی کرکے چلے گئے ہیں۔ میری عمر تقریباً ۷۵ سال ہے، میں عدالتوں اور وکیلوں کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتی ہوں، کیا مجھ کو روزِ قیامت میرا حق ملے گا؟

ج… قیامت کے دن تو ہر ایک حق دار کو اس کا حق دِلایا جائے گا، آپ کو بھی آپ کا حق ضرور دِلایا جائے گا۔

کرایہ کے مکان کی معاہدہ شکنی کی سزا کیا ہے؟

س… میں نے اپنی دُکان ایک شخص کو اس شرط کے ساتھ کرایہ پر دی جو کہ معاہدے میں تحریر ہے کہ اگر میری مرضی نہ ہوئی تو ۱۱ ماہ بعد دُکان خالی کرالوں گا۔ معاہدے میں جس پر دو مسلمان گواہوں کے دستخط بھی موجود ہیں، اس طرح تحریر ہے: ”ختم ہونے میعاد پر مقر نمبر ایک (کرایہ دار)، مقر نمبر دو (مالک) جدید دُوسرا کرایہ نامہ تحریر کراکے کرایہ دار رہ سکیں گے، ورنہ خود فوراً دُکان خالی کرکے قبضہ و دخل مقر نمبر دو (مالک) کے سپرد کردیں گے، اور بقیہ رقم ڈپازٹ مقر نمبر دو سے حاصل کرلیں گے“ میں نے میعاد ختم ہونے سے تین ماہ قبل ذاتی کاروبار کرنے کے لئے کرایہ دار سے دُکان خالی کرنے کے لئے کہا، اس نے گواہوں کے رُوبرو دُوسری دُکان تلاش کرکے دُکان خالی کرنے کا اقرار کیا، اور اس طرح ٹال مٹول کرکے سولہ ماہ گزار دئیے، اور پھر صاف انکار کردیا۔ میں نے دو سال گزرنے کے باوجود اس وجہ سے کرایہ نامہ بھی نہیں لکھا اور نہ اس نے اب تک دُکان خالی کی۔ موجودہ عدالتی قانون کے مطابق اس طرح کے معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں، نہ معاہدہ توڑنے کی کوئی سزا ہی ہے، یہ ایگریمنٹ صرف دِل کو تسلی دینے کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شریعت میں یہ معاہدہ وعدہ خلافی میں آتا ہے، اور اسلامی قانون کے مطابق شریعت میں اس کے خلاف کی سزا کیا ہے؟ اور پاکستان کی اسلامی حکومت میں اس پر عمل کیوں نہیں ہو رہا ہے؟

ج… معاہدہ شکنی گناہِ کبیرہ ہے، آپ پاکستان کے اس قانون کو جو معاہدہ شکنی کو جائز کہتا ہے، شرعی عدالت میں چیلنج کرسکتے ہیں۔

کرایہ دار کا مکان خالی کرنے کے عوض پیسے لینا

س… میرے شوہر نے اپنا مکان ایک شخص کو بارہ سال قبل ۱۹۷۲ء میں دو سو پچاس روپے ماہوار کرایہ پر دیا تھا، اور اسٹامپ پر گیارہ ماہ کا معاہدہ ہوا تھا، جس کی رُو سے گیارہ مہینے کے بعد مالکِ مکان اپنا مکان خالی کرواسکتا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، تب کرایہ دار مذکور نے بڑی مشکل سے چند معزّز لوگوں کے مجبور کرنے اور احساس دِلانے سے ۱۹۷۷ء میں کرایہ میں سو روپے کا اضافہ کیا۔ ۱۹۷۹ء میں مجھے اپنے شوہر کے مکان کی ضرورت پڑی تو میں نے اس شخص کو مکان خالی کرنے کو کہا تو کرایہ دار اور اس کے لڑکے آگ بگولہ ہوگئے اور دھمکی اور دھونس کے ساتھ مکان خالی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے اور میرے دیور نے چند معزّزین سے رُجوع کیا، انہوں نے کرایہ دار اور اس کے لڑکوں کو سمجھایا اور احساس دِلایا کہ ایک بیوہ اور اس کے تین چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں، ایک بوڑھی ساس اور معذور دیور کا ہی خیال کرو۔ بہت سمجھانے بجھانے کے بعد آخر کرایہ دار مذکورہ مکان خالی کرنے پر راضی ہوا کہ بہت جلد مکان خالی کردُوں گا۔ مگر ڈھائی سال تک ٹال مٹول اور بہانے بازی کرتا رہا، تو ہم نے کرایہ دار کو آگاہ کیا کہ اب ہم مارشل لا سے رُجوع کریں گے، تو کرایہ دار، محلے کے ایک شخص کو ساتھ لے کر ہمارے پاس آیا اور وعدہ کیا کہ دو مہینے میں ہر صورت میں مکاں خالی کردُوں گا، اور اس محلے والے نے بھی گواہی دی اور دو ماہ کے بعد مکان خالی کرنے کا دونوں حضرات جو آپس میں رشتہ دار ہیں وعدہ کرکے چلے گئے۔ اس دوران کرایہ دار نے وکیل وغیرہ سے مشورہ کیا اور کرایہ کورٹ میں جمع کرادیا، جب کافی دنوں کے بعد کورٹ سے نوٹس آیا تو ہمیں کرایہ دار کی بدعہدی اور وعدہ شکنی کا علم ہوا، تو ہم نے کرایہ دار سے اس وعدہ شکنی اور مکان خالی نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے مکان خالی کرنے سے صاف انکار کیا اور بڑی رعونت سے کہا: ”مکان پہلے ہندو کا تھا، میں اپنے نام کر واسکتا تھا، اور اگر مکان خالی کروانا ہے تو اَسّی ہزار روپے مجھے دو تو ایک مہینے میں مکان خالی کردُوں گا۔“ اس کی اس بدنیتی اور فریب کاری سے جتنا دُکھ پہنچا، آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ میں نے ایک درخواست مارشل لا حکام کو دی اور ایک درخواست ڈی ایم ایل اے کو کھلی کچہری میں پیش کی، حیدرآباد کے متعدّد چکر لگانے کے بعد امنِ عامہ سے متعلق ایس ڈی ایم نے دونوں فریقوں یعنی کرایہ دار اور مکان کے مالک کی حیثیت سے میرا معاہدہ کرادیا کہ کرایہ دار کے طلب کردہ آٹھ ہزار روپے مالکِ مکان کی بیوہ، کرایہ دار کو مکان خالی کرنے کے عوض دیں گی اور تین مہینے کے عرصے میں کرایہ دار مکان خالی کردے گا اور آٹھ ہزار روپے لے لے گا۔ یہ معاہدہ دونوں فریقوں کی رضامندی سے طے ہوا تھا اور دونوں فریقوں یعنی کرایہ دار اور میں نے معاہدے پر دستخط کئے، ایس ڈی ایم (برائے امنِ عامہ) نے اپنی مہر لگائی اور دستخط کئے، تین مہینے کی مدّت پوری ہوجانے پر مقرّر تاریخ کو میں مکان کا قبضہ لینے پہنچی، تو مجھے بڑی تکلیف اور پریشانی کا سامنا ہوا، اور شدید ذہنی اذیت پہنچی، کرایہ دار اور اس کے لڑکوں نے نیچے گودام کے دروازے غائب کرکے گودام میں بھینسیں لاکر باندھ دیں، اور مختلف طریقوں سے مجھے خوف زدہ کیا اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا: ”ہم مکان خالی نہیں کرسکتے، جب ہمیں مکان ملے گا جب خالی کریں گے“ اس کے بعد میں نے ایس ڈی ایم صاحب سے دوبارہ رُجوع کیا اور پھر حیدرآباد کے متعدّد چکر لگائے جس میں میرا وقت اور پیسہ ضائع ہوا اور سفر کی صعوبت اُٹھائی، مگر ایس ڈی ایم صاحب جو ایک معزّز سرکاری افسر ہیں، جنھوں نے دونوں فریقوں کے مابین معاہدہ کرایا تھا وہ بھی کرایہ دار مذکور کو جس نے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کی، معاہدے کی پابندی کرانے سے قاصر رہے، اور درخواست پر کچھ لکھ کر کہا کہ میں یہ واپس مارشل لا حکام کو بھیج رہا ہوں، وہی فیصلہ کریں گے۔ مگر آج سات آٹھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ میں نے کرایہ دار کے ناجائز مطالبے پر آٹھ ہزار روپے محض اس لئے دینے منظور کئے تھے کہ ہم لوگ مزید پریشانی اور تکالیف سے بچ جائیں گے، حالانکہ کرایہ دار بارہ سال قبل ۲۵۰ روپے ماہوار پر قیام پذیر ہوا تھا اور ان بارہ سالوں کے طویل عرصے میں صرف ایک بار ۱۹۷۷ء میں کرائے میں سو روپے کا اضافہ کیا تھا۔ جبکہ آج مہنگائی کے سبب کرائے بھی چار پانچ گنا بڑھ چکے ہیں، اور خود حکومت نے سالانہ دس فیصد اضافے کا اختیار دے رکھا ہے، اس طرح کرایہ دار ہم مجبوروں کا حق غصب کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ محترم مولانا صاحب! آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اور اسلامی قانون کی رُو سے بتائیں کہ اس کی کیا سزا ہے؟

ج… شرعی حکم یہ ہے کہ جب مالکِ مکان کو ضرورت ہو، وہ مکان خالی کرواسکتا ہے، اور کرایہ دار کے ذمہ معاہدے کے مطابق مکان خالی کردینا لازم ہے، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ظالم و غاصب کی حیثیت سے پیش ہوگا۔ اور آج کل جو رسم چل نکلی ہے کہ کرایہ دار کچھ معاوضہ لے کر مکان خالی کرتا ہے (جیسا کہ آپ کا کرایہ دار کے ساتھ آٹھ ہزار روپے کا معاہدہ کرایا گیا) کرایہ دار کے لئے اس رقم کا وصول کرنا، مردار اور خنزیر کی طرح قطعی حرام ہے۔ جو شخص، خدا، رسول اور آخرت کی جزا و سزا پر ایمان رکھتا ہو، وہ ایسی حرام خوری کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ اب یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ آپ کا کرایہ دار مالکِ مکان سے اس ”جرم“ میں کہ اس نے چودہ سال اس مکان میں کیوں ٹھہرنے دیا، آٹھ ہزار کا ہرجانہ مانگ رہا ہے، اس کو ”اندھیر نگری“ ہی کہا جائے گا۔ رہا یہ کہ حاکم آپ کو انصاف دِلادیں گے، مجھے اس کی توقع نہیں، کیونکہ اوّل تو ہمارے اُونچے افسران کو اُونچا سنائی دیتا ہے، کسی بے کس یتیم، کسی بیوہ، لاچار، اپاہج اور کسی پیرِ ناتواں کی آہیں ان کے ایوانوں تک شاذ و نادر ہی پہنچتی ہیں۔ دُوسرے ہمارے ہاں انصاف خواہی کسی کمزور آدمی کا کام نہیں، جناب گورنر یا وفاقی محتسبِ اعلیٰ تک رسائی کسی بڑے آدمی ہی کی ہوسکتی ہے، نہ آپ کی قسم کے گمنام لوگوں کی درخواستوں کی، اور نہ مجھ ایسے کے کالم کی۔ آپ صبر کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو انصاف دِلائیں گے۔

کرایہ دار کا بلڈنگ خالی نہ کرنا ناجائز ہے

س… میں ایک کمرشل بلڈنگ کا مالک ہوں، جس کو کرایہ پر لینے کے لئے ایک شخص نے مجھ سے درخواست کی، شرائط طے ہوگئیں، دو معزّزین کی موجودگی میں اس نے ضمناً یقین دہانی کرائی کہ دورانِ مدّتِ کرایہ داری مذکورہ شرائط پوری کرتا رہے گا اور بعد اختتام میعاد بلڈنگ مذکورہ خالی کرکے صلح صفائی کے ماحول میں حوالہ مالک کردے گا۔ چنانچہ اس یقین دہانی کی بنا پر تمام شرائط دو گواہان کی موجودگی میں اسٹامپ پر معاہدہ تحریر و تکمیل کرے بعدالت رجسٹرار صاحب تصدیق کرالیا گیا۔ میعاد کرایہ داری پانچ سال ختم ہوگئی ہے، لیکن کرایہ دار بلڈنگ مذکورہ کو خالی کرکے قبضہ دینے سے گریز کر رہا ہے۔ میرا بیٹا جو کہ بیرونِ ملک ملازم تھا، اب واپس وطن آچکا ہے، اس کے دو بیٹے اور بذاتِ خود بیکار ہیں، ہم سب کو رزقِ حلال کمانے کے لئے سب سے اوّل اپنی مملوکہ جگہ کی ضرورت ہے، ہمارے پاس ماسوا مذکورہ جائیداد کے کوئی دُوسری کاروباری جگہ نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی دُوسرا ذریعہٴ معاش۔ حصولِ انصاف اور عدالتی دادرسی کے لئے مروّجہ قانون کے مطابق بہت طولانی، گراں اور کٹھن منزلیں طے کرنا پڑتی ہیں، جو اسلامی دور میں ننگِ ملک و قوم ہے۔ اَز راہِ کرم میرے مندرجہ بالا حلفیہ بیان کی روشنی میں مالکِ مکان، کرایہ دار کی ذمہ داریوں، فرائض اور حقوق کی وضاحت فرمائیں۔ شرعی نقطہٴ نگاہ سے اس کا سہل اور فوری حل کیا ہوسکتا ہے؟

ج… سہل اور فوری حل تو خوفِ خدا ہے۔ جب ایک شخص نے پانچ سال کی میعاد کا معاہدہ کرکے مکان کرائے پر لیا ہے تو میعاد گزرنے کے بعد اس کے لئے مکان کا استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں۔ اگر مسلمان حلال و حرام کا لحاظ رکھیں تو آدھے جھگڑے فوراً نمٹ جائیں۔

کرایہ وقت پر ادا نہ کرنے پر جرمانہ صحیح نہیں

س… دُکان دارانِ جامع مسجد محمدی کے درمیان چار روپے کے اسٹامپ پر یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ہر دُکان دار ہر ماہ کی دس تاریخ تک کرایہ ادا کردے گا، بروقت کرایہ نہ دینے کی صورت میں کچھ رقم یومیہ جرمانہ ادا کریں گے۔ یہ معاہدہ دُکان کرایہ پر لیتے وقت بخوشی و رضا ہوا تھا، اس طرح جرمانہ وصول کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… شرعاً اس طرح مالی جرمانہ وصول کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

دُکان حجام کو کرایہ پر دینا

س… ایک حجام (نائی) مجھ سے ایک دُکان کرایہ پر لیتا ہے، اسے حمام بنانا چاہتا ہے، صاف بات یہ ہے کہ حمام میں لوگوں کی داڑھی وغیرہ (شیو) بنایا جائے گا، انگریزی بال بنائے جائیں گے، لہٰذا ایسی صورت میں دُکان کے کرایہ کا میرے لئے کیا حکم ہے؟

ج… آپ حرام کی رقم لینے پر مجبور نہیں ہیں، اس کو کہہ دیں کہ داڑھی مونڈنے کے پیسے میں نہیں لوں گا، مجھے حلال کے پیسے لاکر دو، خواہ کسی سے قرض لے کر دو۔

  • Tweet

What you can read next

سوتیلے اعزّہ میں تقسیمِ وراثت کے مسائل
امانت
مال قبضے سے قبل فروخت کرنا
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP