SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Monday, 02 October 2017 / Published in Jild-10

قضا اور دیانت میں فرق

قضا اور دیانت میں فرق

 

س… جناب نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب واقعہ مسلوب الاختیار تھا اور جو شخص کسی وجہ سے مسلوب الاختیار ہوجائے تو شریعت اسلامی اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاتی، لیکن جناب کے اس جواب پر کہ ”وہ صاحب مسلوب الاختیار تھا“” کچھ شبہات تحریر کرتا ہوں جو کہ “فتاویٰ خلیلیہ” میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری  مدرس اول مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور نے اسی واقعہ کے متعلق تحریر کئے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریر میں بہت وقت صرف ہوتا ہے پھر آپ جیسے مصروف شخص کے لئے تو اور بھی مشکل ہے لیکن اگر ان شبہات کی مفصل تحقیق ہوجائے تو جناب کی تحریر اِن شاء اللہ ہزاروں لوگوں کے لئے، جو اکابرین علمائے دیوبند کثراللہ سوادہم سے بغض و کینہ رکھتے ہیں رشدو ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے، شبہات مندرجہ ذیل ہیں:

           شبہ اوّل: یہ ہے کہ اس کا یہ دعویٰ کہ ”میں بے اختیار ہوں اور زبان قابو میں نہیں ہے۔“ اس وقت شرعاً معتبر ہوکہ جب اس کی مجبوری و بے اختیاری کا سبب منجملہ ان اسباب عامہ کے ہو کہ جو عامةً سالب اختیار ہوتے ہیں مثلاً جنون، سکر اکراہ حالت موجودہ میں جو حالت اس شخص کو پیش آئی ہے اس کے لئے کوئی ایسا سبب نہیں ہے جو اسباب عامہ سالب اختیار سے ہو، کیونکہ اس کی بے اختیاری کا سبب کوئی اس کے کلام میں ایسا نہیں پایا جاتا جس کو سالب اختیار قرار دیا جائے۔

           شبہ دوئم: یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا سبب ہے بھی تو وہ مولانا کی محبت کا غلبہ ہے اور غلبہٴ محبت سوالب اختیار میں سے نہیں ہے، غلبہٴ محبت میں اطراء کا تحقق ہوسکتا ہے جس کو شارع علیہ التحیة والتسلیم نے ممنوع فرمایا ہے: ”لاتطرونی کما اطرت الیہود والنصاریٰ ولکن قولوا عبدالله ورسولہ۔“ اور اگرغلبہٴ محبت اور اس کا سبب سالب اختیار ہوتا تو ”نہی عن الاطراء” متوجہ نہ ہوتی بلکہ معذور سمجھا جاتا ”نہی عن الاطراء“ خود دال ہے کہ غلبہٴ محبت سالب اختیار نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ”اطراء“ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہی فرمارہے ہیں لہٰذا شرعاً اس کا یہ دعویٰ معتبر نہ ہوگا۔

          شبہ سوئم: یہ ہے کہ یہ شخص اگر اس کی زبان بوقت تکلم قابو میں نہیں تھی تو یہ تو اس کے اختیار میں تھا کہ وہ جب یہ جانتا تھا کہ میں بے اختیار ہوں اور مجبور ہوں اور صحیح تکلم نہیں کرسکتا تو تکلم بکلمة الکفر سے سکوت کرتا۔ لہٰذا ایسی حالت میں اس کلمہ کے تکلم کا یہ حکم ہوگا کہ اس کو اس میں شرعاً معذور نہیں سمجھا جائے گا، علامہ شامی نے حاشیہ ردالمحتار باب المرتد میں لکھا ہے:

          ”وقولہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علیٰ محمل حسن ظاہرہ انہ لایفتی من حیث استحقاقہ للقتل ولامن حیث الحکم ببینونة زوجتہ وقد یقال المراد الاول فقط لان تاویل کلامہ للتباعد عن قتل المسلم بان یکون قصد ذالک التاویل وھذا لاینافی معاملتہ بظاہر کلامہ فیما ہو حق العبد وھو طلاق الزوجة بدلیل ماصرحوا بہ من انہ اذا اراد ان یتکلم بکلمة مباحة فجریٰ علیٰ لسانہ کلمة الکفر خطاء بلا قصد لا یصدقہ القاضی وان کان لا یکفر فیما بینہ وبین ربہ تعالیٰ فتامل ذالک۔“

          اور علامہ شامی دُوسری جگہ باب المرتد میں لکھتے ہیں:

          ”وفی البحر عن الجامع الصغیر اذا اطلق الرجل کلمة الکفر عمداً لکنہ لم یعتقد الکفر قال بعض اصحابنا لایکفر لان الکفر یتعلق بالضمیر علی الکفر وقال بعضہم یکفر وہو الصحیح عندی لانہ استخف بدینہ۔“

          علاوہ ازیں آپ نے صاحب واقعہ کی ”مسلوب الاختیاری“ کے ثبوت میں قرآن مقدس کی جو آیت مبارکہ پیش کی ہے یہ آیت مبارکہ تو صاف طور پر مکرہ کے لئے ہے اور صاحب واقعہ ظاہر ہے کہ مکرہ نہیں تھا ”اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ“۔

ج… آپ حضرات کے پہلے گرامی نامہ کا جواب اپنی ناقص عقل و فہم کے مطابق میں نے قلم برداشتہ لکھ دیا تھا، میرا مزاج ردو کد کا نہیں ہے اس لئے جو شخص میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوتا اس کو لکھ دیتا ہوں کہ اپنی تحقیق پر عمل کرے، اس لئے آپ حضرات نے دوبارہ اس کے بارے میں سوال بھیجے تو میں نے بغیر جواب کے ان کو واپس کردیا، لیکن آپ حضرات نے یہی سوالات پھر بھیج دئیے، اور بضد ہیں کہ میں جواب دوں اس لئے آپ کے اصرار پر ایک بار پھر لکھ رہا ہوں، اگر شفانہ ہو تو آئندہ کسی اور سے رجوع فرمائیں اس ناکارہ کو معذور سمجھیں۔

          ۱:… حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ اس ناکارہ کے شیخ الشیخ ہیں۔ اور میرے لئے سند اور حجت ہیں۔

          ۲:… حضرت نے اس نکتہ پر گفتگو فرمائی کہ آیا قضاءً اس شخص کو مسلوب الاختیار تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ حضرت نے خود بھی تحریر فرمایا ہے کہ فیما بینہ و بین اللہ نہ اس شخص پر ارتداد کا حکم کیا جاسکتا ہے اور نہ تجدید ایمان و نکاح کا اور قضا کا مسئلہ میں پہلے صاف کرچکا ہوں اس کا اقتباس پھر پڑھ لیجئے:

          ”… جہالت کا، نادانی کا، زبان بہک جانے وغیرہ کا جو حوالہ درمختار اور رد محتار سے دیا ہے وہ تو اس صورت میں ہے کہ قاضی کے پاس کسی شخص کی شکایت کی گئی، قاضی نے اس سے دریافت کیا، اس نے یہ عذر پیش کیا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ گستاخی ہے، یا یہ کہ زبان بہک گئی تھی، یا یہ کہ میں مدہوش تھا، اور اس کے اس دعویٰ کے سوا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو قاضی اس کے ان اعذار باردہ کو نہیں سنے گا، بلکہ اس کو سرزنش کرے گا(نہ کہ اس پر سزائے ارتداد جاری کرے گا)۔

          جب زیر بحث مسئلے میں نہ کسی نے قاضی کے پاس شکایت کی، نہ اس نے اپنے جرم کی تاویل کی، صاحب واقعہ پر جو واقعہ غیر اختیاری گزرا تھا اور جس میں وہ ایک مسلوب الاختیار تھا اس کو وہ اپنے شیخ کے سامنے پیش کرتا ہے فرمائیے مسئلہ قضا سے اس کا کیا تعلق؟“

          پس جب حضرت خود تصریح فرماتے ہیں کہ فیما بینہ و بین اللہ اس پر نہ ارتداد کا حکم ہوسکتا ہے، نہ تجدید ایمان و نکاح کا، اور یہ قضیہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا کہ اس پر گفتگو کی جائے کہ قضاءً اس کا کیا حکم ہے؟ تو اس پر بحث کرنے کا نتیجہ کیا ہوا؟

          ۳:… یہیں سے ان تینوں شبہات کا جواب نکل آتا ہے جو آپ نے فتاویٰ خلیلیہ کے حوالے سے کئے ہیں:

          اوّل:… بجا ہے کہ اسباب عامہ سالبتہ الاختیار میں سے بظاہر کوئی چیز نہیں پائی گئی، لیکن سالکین کو بعض اوقات ایسے احوال پیش آتے ہیں، جن کا ادراک صاحب حال کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا، قاضی تو بے شک احوال عامہ ہی کو دیکھے گا، لیکن شیخ، صاحب حال کے اس حال سے صرف نظر نہیں کرسکتا جو سالک کو پیش آیا ہے، اگر وہ مرید کے خاص حال پر نظر نہیں کرتا تو وہ شیخ نہیں بلکہ اناڑی ہے۔ صاحب فتاویٰ خلیلیہ کی بحث تو قضاءً ہے لیکن سلوکی احوال قضا کے دائرہ میں آتے ہی نہیں۔

          دوم:… ”غلبہٴ محبت اطراء میں داخل ہے جو بنص نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے“ بالکل صحیح ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ یہ غلبہٴ محبت قصد و اختیار سے ہو، اور اگر غلبہٴ محبت سے ایسی اضطراری کیفیت پیدا ہوجائے کہ زمام اختیار قبضہٴ قدرت سے چھوٹ جائے تو اس پر اطراء ممنوع کے احکام جاری نہیں ہوں گے، بلکہ سکرو مدہوشی کے احکام جاری ہوں گے، اولیاء اللہ کی ہزاروں شطحیات کی توجیہ آخر اس کے سوا کیا ہے؟

          سوم:… ”جب یہ جانتا تھا کہ زبان قابو میں نہیں تو اس نے سکوت اختیار کیوں نہ کیا، تکلم بکلمة الکفر کیوں کیا؟“ جو الفاظ اس نے ادا کرلئے تھے ان کے بارے میں تو جانتا تھا کہ زبان کے بے قابو ہونے کی وجہ سے اس نے کلمہ کفر بک دیا، لیکن اس نے سکوت اختیار کرنے کے بجائے صحیح الفاظ کہنے کی کوشش دو وجہ سے کی، ایک یہ کہ اسے توقع تھی کہ اب اس کی زبان سے صحیح الفاظ نکلیں گے، جس سے گزشتہ الفاظ کی تلافی ہوجائے گی، دُوسرے یہ کہ اس کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ اگر اسی لمحہ اس کی موت واقع ہوگئی تو نعوذ باللہ کلمہٴ کفر پر خاتمہ ہوا۔ اس لئے وہ کوشش کررہا تھا کہ زبان سے صحیح الفاظ نکلیں، تاکہ گزشتہ الفاظ کی اصلاح بھی ہوجائے اور سوءِ خاتمہ کے اندیشہ سے نجات بھی مل جائے۔

          الغرض یہ تین شبہات جو آپ نے نقل کئے ہیں وہ باب قضا سے ہیں، اور بادنیٰ تامل ان شبہات کو رفع کیا جاسکتا ہے۔

          ۴:… رہا یہ کہ صاحب واقعہ تو مکرہ نہیں تھا پھر میں نے آیت شریفہ ”اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ۔“کیوں پڑھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مکرہ میں سلب اختیار نہیں ہوتا، بلکہ سلب رضا ہوتا ہے، جیسا کہ صاحب ہدایہ نے تصریح فرمائی ہے، اور اسی بنا پر حنفیہ کے نزدیک مکرہ کی طلاق واقع ہوجاتی ہے، جب کہ صاحب واقعہ مسلوب الاختیار ہے۔ تو آیت شریفہ سے استدلال بطور دلالت النص کے ہے، یعنی جب اکراہ کی حالت میں شرط ”قَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ۔“ تکلم بہ کلمہٴ کفر پر موٴاخذہ نہیں تو جس شخص کی حالت مسلوب الاختیار کی ہو اس پر بدرجہٴ اولیٰ موٴاخذہ نہیں ہوگا۔

          ۵:… ہمارے بریلوی بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اکابر کے رفع درجات کے لئے تجویز فرما رکھا ہے۔ اس لئے ان حضرات کے طرز عمل سے نہ ہمارے اکابر کا نقصان ہے، نہ سوائے اذیت کے ہمارا کچھ بگڑتا ہے۔ قرآن کریم نے اخیار تک کے بارے میں فرمایا تھا: ”لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّا اَذَیً“ لیکن اپنے بریلوی دوستوں کی خیر خواہی کے لئے عرض کرتا ہوں کہ:

          ۱:… جن صاحب کے بارے میں گفتگو ہے مدت ہوئی کہ وہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں، اور اس احکم الحاکمین نے جو ہر ایک کے ظاہر و باطن سے واقف ہیں، ان صاحب کے بارے میں فیصلہ کردیا ہوگا، فیصلہ خداوندی کے بعد آپ حضرات کی بحث عبث ہے، اور عبث اور لایعنی میں مشغول ہونا موٴمن کی شان سے بعید ہے۔

          ۲:… تمام عدالتوں میں مدعی علیہ کی موت کے بعد مقدمہ داخل دفتر کردیا جاتا ہے، مرحوم کے انتقال کے بعد نہ آپ اس کو تجدید ایمان کا مشورہ دے سکتے ہیں نہ تجدید نکاح کا، یہ مشورہ اگر دیا جاسکتا تھا تو مرحوم کی زندگی میں دیا جاسکتا تھا۔      

          ۳:… اگر آپ ان صاحب کے کفر کا فتویٰ صادر فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان کا فیصلہ فرمایا ہو تو آپ کا فتویٰ فیصلہ خداوندی کے خلاف ہوا، خود فرمائیے کہ اس میں نقصان کس کا ہوا؟

          ۴:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:

          ”لاتسبوا الاموات فانہم قد افضوا الی ما قدموا“ (مردوں کو برا بھلا نہ کہو! کیوں کہ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا اس کو پاچکے ہیں)۔

          آپ حضرات ایک قصہ پارینہ کو اچھال کر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بھی مول لے رہے ہیں، جس مقدمہ کا فیصلہ اعلیٰ ترین عدالت میں فیصل ہوچکا ہے۔ رجم بالغیب کے ذریعہ اس فیصلہ کی مخالفت کا خدشہ بھی سر لے رہے ہیں، عقل و انصاف کے تقاضوں کو بھی پس پشت ڈال رہے ہیں، اور لایعنی کے ارتکاب میں بھی مشغول ہیں۔

          ان وجوہ سے میرا خیر خواہانہ مشورہ ہے کہ آپ دیوبندیوں کی ضد میں اپنے لئے یہ خطرات نہ سمیٹیں، بحث و تکرار ہی کا شوق ہے تو اس کے لئے بیسیوں موضوع دستیاب ہیں۔ ولله الحمد أوّلًا واٰخرًا!

مراد ما نصیحت بود و کردیم

حوالت باخدا کردیم و رفتیم

  • Tweet

What you can read next

مدارس و مساجد کی رجسٹریشن کا حکم
حضرت مہدی کے بارے میں چند سوالات
تصویر کا حکم
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP