تین طلاق کا حکم
س… گزارش خدمت ہے کہ آپ کا کالم بہت مفید ہے، اور لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں، لیکن ایک بات سمجھ نہیں آئی جو طلاق کے بارے میں ہے کہ تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دینے کے بعد بغیر مقررہ تین ماہ گزرنے کے طلاق ہوجاتی ہے۔
میاں بیوی کئی سال اکٹھے رہتے ہیں، ان کے پیارے پیارے بچے بھی ہوتے ہیں، انسان ہونے کے ناطے کسی وقت غصہ آہی جاتا ہے، اور بکواس منہ سے نکل جاتی ہے، لیکن بعد میں ندامت ہوتی ہے، تو یقینا خدا تعالیٰ جو بہت ہی غفور الرحیم ہے معاف فرمادیتا ہے، ورنہ تو کئی گھر اجڑ جائیں۔
قانون کے تحت تین طلاقیں تین ماہ میں پوری ہوتی ہیں، خواہ ایک ہی وقت میں دی جائیں، تین ماہ گزر جانے کے بعد تو خدا تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائے گا کیونکہ تین ماہ کی مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اگر تین طلاقیں ایک دم دینے پر فوری طور پر طلاق ہوجاتی ہو تو پھر تو یورپ وامریکہ والی طلاق بن جاتی ہے، جو یقینا اسلامی نہیں۔
اب اصل بات لکھتا ہوں، جو امید ہے کہ آپ من و عن شائع فرمائیں گے اور جواب سے نوازیں گے تاکہ سب لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
آپ کے کالم میں متعدد بار جواب میں پڑھا کہ تین بار ایک ہی وقت دی گئی طلاق، طلاق ہوگئی، مدت کا ذکر نہیں ہوتا کہ کتنے عرصہ کے بعد طلاق واقع ہوگی، یعنی فوری طلاق ہوگئی، قرآن کریم میں تو خدا تعالیٰ نے طلاق کو سخت ناپسند فرمایا ہے، اور صرف انتہائی صورت میں جب گزارے کی صورت نہ ہو، طلاق کی اجازت دی ہے، اور اس میں بھی تین طلاقیں رکھی ہیں تاکہ تین ماہ کے عرصہ میں احساس ہونے پر رجوع ہوسکے۔
انگریزی حکومت میں (یہ قانون اب بھی ہوگا) اگر کوئی شخص بغیر اطلاع دئیے ڈیوٹی سے غیرحاضر ہوتا تو اگر چھ ماہ کے اندر واپس آجاتا تو وہ فارغ نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ اپنی ملازمت میں ہی رہتا تھا، دہلی میں ایک دوست کے ساتھ ایسا واقعہ ہوا تھا کہ چھ ماہ کے اندر واپس حاضر ہوجانے سے اس کی ملازمت ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری رہی۔
اسی طرح طلاق کے لئے جو تین ماہ کی مدت ہے اس سے طلاق دینے والے کو اس کے اندر طلاق واپس لینے کا حق ہے، ہاں تین ماہ گزر جانے کے بعد واپسی کی صورت نہیں رہے گی، اگر تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دینے سے فوراً طلاق ہوجاتی ہے، تو پھر تو یورپ و امریکہ والی طلاق ہوجائے گی جو یقینا اسلامی نہیں۔
میری ناقص رائے میں ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دی جانے پر آپ کے جواب میں تین ماہ کی مہلت کا بھی ذکر آنا چاہئے، بصورت دیگر گھر بھی اُجڑیں گے اور بچے بھی۔
ج … شرعی مسئلہ تو وہی ہے جو میں نے لکھا، اور ائمہ اربعہ اور فقہائے امت اسی کے قائل ہیں، آپ نے جو شبہات لکھے ہیں ان کا جواب دے سکتا ہوں، مگر ضرورت نہیں سمجھتا، اگر کسی طرح کی گنجائش ہوتی تو اس کے اظہار میں بخل نہ کیا جاتا، لیکن جب گنجائش ہی نہ ہو تو کم از کم میں تو اپنے آپ کو اس سے معذور پاتا ہوں۔
زہر کھانا قانوناً منع اور شرعاً حرام ہے، لیکن اگر کوئی کھا بیٹھے اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر یہ لکھ دے کہ اس زہر سے اس کی موت واقع ہوگئی ہے تو مجرم ڈاکٹر نہیں کہلائے گا، اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس نے زہر کے اثر اور نتیجہ کو ذکر کردیا۔