صرف دِل میں خیال آنے سے نذر نہیں ہوتی
س… محترم مولانا صاحب! آپ کے جواب سے کچھ تشفی نہیں ہوتی وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے، “جو کچھ تم مانو گے تو اللہ تعالیٰ کو تمہاری نیت کا علم ہوجائے گا” (سورہ بقرہ: ۲۷۰) نیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: “بے شک تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔” لہٰذا ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔(حوالہ صحیح بخاری کتاب الایمان باب النیة) دُوسری جگہ ایک اور ارشاد بھی ہے: “اور تمہارے چہروں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔” اور ایک روایت میں ہے، آپ نے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔”
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ خلوص نیت کا مقام دل ہے اور چونکہ سائلہ نے خلوص نیت سے دل میں اس کی منت مانی تھی اور جس کو پورا کرنے کے لئے ابھی تک وہ اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں، مگر اپنے حالات کی وجہ سے معذور ہیں اور خود اس کی ادائیگی نہیں کرسکتی ہیں، لہٰذا آپ سے اس کا حل پوچھا ہے، مگر آپ کا جواب ہے کہ دل میں خیال کرلینے سے نیت نہیں ہوتی جب تک کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا نہ کئے جائیں۔
مندرجہ بالا قرآن کی آیت اور دونوں حدیثوں کی روشنی میں آپ کا جواب غیر تسلی بخش ہے، چونکہ سائلہ کی نیت سرسری نہ تھی اور حقیقی نیت تھی جس کی ادائیگی یا متبادل حل کے لئے وہ بے چین ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ نذر کسی ایسی چیز کو اپنے اُوپر واجب کرلینے کو کہتے ہیں جو پہلے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب نہ ہو اور چونکہ سائلہ نے منت مانی تھی چاہے وہ دل میں خیال کرکے کی ہو اس کی ادائیگی ان پر واجب ہوجاتی ہے بصورت دیگر وہ گنہگار ہوتی ہیں۔
دُوسری ایک اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے نذر مت مانا کرو اس لئے کہ نذر تقدیری امور میں کچھ بھی نفع بخش نہیں ہے، بس اس سے اتنا ہوتا ہے کہ بخیل کا مال نکل جاتا ہے، (حوالہ صحیح مسلم کتاب النذر اور صحیح بخاری کتاب الأیمان و النذر) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی نذر لایعنی اور ممنوع ہیں۔ اور اگر میرے سمجھنے میں کچھ غلطی ہے تو میری اصلاح فرمائیں۔
ج… نذر کے معنی ہیں کسی ایسی عبادت کو اپنے ذمہ لازم کرلینا جو اس پر لازم نہیں تھی، اور “اپنے ذمہ کرلینا” زبان کا فعل ہے، محض دل میں خیال کرنے سے وہ چیز اس کے ذمہ لازم نہیں ہوتی، جب تک کہ زبان سے الفاظ ادا نہ کرے، یہی وجہ ہے کہ نماز کی نیت کرلینے سے نماز شروع نہیں ہوتی جب تک تکبیر تحریمہ نہ کہے، حج و عمرہ کی نیت کرنے سے حج وعمرہ شروع نہیں ہوتے جب تک کہ تلبیہ کے الفاظ نہ کہے، طلاق کا خیال دل میں آنے سے طلاق نہیں ہوتی جب تک کہ طلاق کے الفاظ زبان سے نہ کہے، اور نکاح کی نیت کرنے سے نکاح نہیں ہوتا جب تک کہ ایجاب و قبول کے الفاظ زبان سے ادا نہ کئے جائیں، اسی طرح نذر کا خیال دل میں آنے سے نذر بھی نہیں ہوتی جب تک کہ نذر کے الفاظ زبان سے نہ کہے جائیں، چنانچہ علامہ شامی نے کتاب الصوم میں شرح ملتقیٰ سے نقل کیا ہے کہ “نذر زبان کا عمل ہے ۔”
آپ نے قرآن پاک کی جو آیت نقل کی اس میں فرمایا گیا ہے”جو تم نذر مانو” میں بتا چکا ہوں کہ نذر کا ماننا زبان سے ہوتا ہے، اس لئے یہ آیت اس مسئلے کے خلاف نہیں۔
آپ نے جو حدیث نقل کی ہے کہ “اعمال کا مدار نیت پر ہے” اس میں عمل اور نیت کو الگ الگ ذکر کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نیت کرنے سے عمل نہیں ہوتا، بلکہ عمل میں نیت کا صحیح ہونا شرط قبولیت ہے، لہٰذا اس حدیث کی رو سے بھی صرف نیت اور خیال سے نذر نہیں ہوگی جب تک کہ زبان کا عمل نہ پایا جائے۔
دُوسری حدیث میں بھی دلوں اور عملوں کو الگ الگ ذکر کیا گیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف دل کے خیال کا نام عمل نہیں، البتہ عمل کے لئے دل کی نیت کا صحیح ہونا ضروری ہے، اور آپ نے جو حدیث نقل کی ہے کہ “نذر مت مانا کرو” یہ حدیث صحیح ہے مگر آپ نے اس سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے کہ “اس قسم کی نذر لایعنی اور ممنوع ہے” یہ نتیجہ غلط ہے، کیونکہ اگر حدیث شریف کا یہی مطلب ہوتا کہ نذر لایعنی اور ممنوع ہے تو شریعت میں نذر کے پورا کرنے کا حکم نہ دیا جاتا، حالانکہ تمام اکابر امت متفق ہیں کہ عبادت مقصودہ کی نذر صحیح ہے اور اس کا پورا کرنا لازم ہے۔
حدیث میں نذر سے جو ممانعت کی گئی ہے علماء نے اس کی متعدد توجیہات کی ہیں، ایک یہ کہ بعض جاہل یہ سمجھتے ہیں کہ نذر مان لینے سے وہ کام ضرور ہوجاتا ہے، حدیث میں اس خیال کی تردید کے لئے فرمایا گیا ہے کہ نذر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر نہیں ٹلتی، دوم یہ کہ بندے کا یہ کہنا کہ اگر میرے مریض کو شفا ہوجائے تو میں اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا مال صدقہ کروں گا ظاہری صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودے بازی ہے، اور یہ عبدیت کی شان نہیں۔