“مجھ پر حلال دنیا حرام ہوگی” کہنے سے طلاق؟
س… ایک شخص مثلاً زید اپنے گھر بار سے بے ربط عرصہٴ تقریباً دو سال سے بالغدو والآصال بہروپ کی زندگی بسرکررہا ہے، گزشتہ سال ماہ اکتوبر میں متعلقین نے زید سے حقائق معلوم کرنے کے لئے باز پرس کی، منازعت کے بعد مذکور شخص نے روبرو گواہاں کے مندرجہ ذیل تحریر دی:
۱:… ماہ فروری ۱۹۸۸ء تک اپنے اہل و عیال کے پاس پہنچنے کا پابند رہوں گا۔
۲:… معینہ مدت تک مبلغ تین سو روپیہ ماہوار اپنی منکوحہ اور بچوں کے نان و نفقہ کے لئے بھیجتا رہوں گا۔
۳:… انحراف کا نتیجہ مجھ پر حلال دنیا حرام ہوگی۔ یہ یاد رہے مندرجہ ذیل الفاظ سے منحرف ہونے والے کی منکوحہ کو مقاطعہ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا زید نے اس سے تجاوز کیا، اس صورت میں قرآن و سنت کی روشنی میں زید کے لئے کیا حکم ہے؟
ج… فی الخانیة:
“رجل قال کل حلال علی حرام او قال کل حلال او قال حلال الله او قال حلال المسلمین ولہ امراة ولم ینو شیئاً اختلفوا فیہ قال الشیخ الامام ابوبکر محمد بن الفضل والفقیہ ابو جعفر وابوبکر الاسکاف وابوبکر بن سعید رحمہم الله تعالیٰ تبین منہ امرأتہ بتطلیقة واحدة وان نویٰ ثلاثا فثلاث، وان قال لم انو بہ الطلاق، لا یصدق قضاءً لانہ صار طلاقًا عرفًا۔ ولہٰذا لا یحلف بہ الا الرجال۔”
(فتاوی قاضی خان بر حاشیہ فتاویٰ ہندیہ ص:۵۱۹ ج:۱)
ترجمہ:…”خانیہ میں ہے کہ اگر کسی آدمی نے کہا کہ: سب حلال مجھ پر حرام ہے، یا ہر حلال، یا یہ کہ اللہ کی جانب سے تمام حلال، یا مسلمانوں کا حلال مجھ پر حرام ہے، اور اس کی بیوی بھی ہے، یا اس نے کوئی نیت نہیں کی، اس میں (علماء کا) اختلاف ہے، شیخ امام ابوبکر محمد بن فضل، فقیہ ابو جعفر، ابوبکر اسکاف اور ابوبکر بن سعید کے نزدیک (یہ الفاظ کہنے سے) اس کی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی، اگر اس نے تین طلاق کی نیت کی تھی تو تین طلاق واقع ہوجائیں گی، اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو قضاءً اس کو سچا نہیں سمجھا جائے گا، کیونکہ عرف میں یہ طلاق کے الفاظ ہیں۔”
اس روایت سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں زید کے الفاظ:”انحراف کا نتیجہ مجھ پر حلال دنیا حرام ہوگی۔” تعلیق طلاق کے الفاظ ہیں، پس جب اس نے شرط پوری نہیں کی تو اس کی بیوی پر فروری ۱۹۸۸ء گزرنے پر طلاق بائن واقع ہوگئی، عدت پوری ہونے کے بعد عورت دوسری جگہ اپنا عقد کرسکتی ہے۔