عورتوں کا جمعہ اور عیدین میں شرکت
س… بعض حضرات اس پر زور دیتے ہیں کہ عورتوں کو جمعہ، جماعت اور عیدین میں ضرور شریک کرنا چاہئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ، جماعت اور عیدین میں عورتوں کی شرکت ہوتی تھی، بعد میں کون سی نئی شریعت نازل ہوئی کہ عورتوں کو مساجد سے روک دیا گیا؟
ج… جمعہ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں کے ذمہ نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شرو فساد سے خالی تھا، ادھر عورتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں، میلی کچیلی جائیں، زینت نہ کریں، خوشبو نہ لگائیں اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیر لہن۔” (رواہ ابوداؤد مشکوٰة ص:۹۶)
ترجمہ:…”اپنی عورتوں کو مسجدوں سے روکو، اور ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہترہیں۔”
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“صلوة المرأة فی بیتہا افضل من صلاتہا فی حجرتہا وصلاتہا فی مخدعہا افضل من صلوتہا فی بیتہا۔” (رواہ ابو داؤد مشکوٰة ص:۹۶)
ترجمہ:…”عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا اپنے گھر کی چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔”
مسند احمد میں حضرت ام حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ نے فرمایا:
“قد علمت انک تحبین الصلٰوة معی، وصلاتک فی بیتک خیر لک من صلاتک فی حجرتک، وصلاتک فی حجرتک خیر من صلاتک فی دارک، وصلاتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک، وصلاتک فی مسجد قومک خیر لک من صلاتک فی مسجدی۔ قال: فامرت فبنیت مسجد فی اقصیٰ شیٴ من بیتہا واظلمہ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیت الله عزوجل۔”(مسند احمدج:۶ ص:۳۷۱)
“وقال الہیثمی ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالله بن سوید الانصاری، و ثقہ ابن حبان۔”
(مجمع الزوائد ج:۲ ص:۳۴)
ترجمہ:… “مجھے معلوم ہے کہ تم کو میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور احاطے میں نماز پڑھنااپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سنکر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دور اور تاریک ترین کونے میں ان کے لئے نماز کی جگہ بنادی جائے، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔”
ان احادیث سے عورتوں کے مساجد میں آنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشائے مبارک بھی معلوم ہوجاتا ہے، اور حضرات صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق بھی۔
یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سعادت کی بات تھی، لیکن بعد میں جب عورتوں نے ان قیود میں کوتاہی شروع کردی جن کے ساتھ ان کو مساجد میں جانے کی اجازت دی گئی تو فقہائے امت نے ان کے جانے کو مکروہ قرار دیا، ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:
“لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔”
(صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴)
ترجمہ:…”عورتوں نے جو نئی روش اختراع کرلی ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے، جس طرح بنو اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔”