حضرت سودہ کو طلاق دینے کے ارادہ کی حکمت
س… ایک آدمی اپنی بیوی کو اس لئے طلاق دے دے کہ وہ بوڑھی ہوگئی اور اس کے قابل نہیں رہی، اس بات کو کوئی بھی بنظرِ استحسان نہیں دیکھتا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے حضرت سودہ کو ان کے بڑھاپے کی وجہ سے طلاق دینا چاہی، پھر جب حضرت سودہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی تو آپ نے طلاق کا ارادہ بدل لیا۔ یہ بات حضور کی ذاتِ اقدس سے بعید معلوم ہوتی ہے اور مخالفوں کے اس اعتراض کو کہ نعوذباللہ تعدّدِ ازواج کی غرض شہوت رانی تھی، تقویت ملتی ہے، حالانکہ حضور کو یتیموں اور بیواوٴں کا ملجا و ماویٰ قرار دیا جاتا ہے۔
ج … عرب میں طلاق معیوب نہیں سمجھی جاتی جتنی کہ ہمارے ماحول میں اس کو قیامت سمجھا جاتا ہے، علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں “تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْھُنَّ وَتُوٴْوِیْ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآءُ” فرماکر آپ کو رکھنے نہ رکھنے کا اختیار دے دیا گیا تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کی علیحدگی کا فیصلہ کر لینا کسی طرح بھی محل اعتراض نہیں۔ اور ازدواجی زندگی صرف شہوت رانی کے لئے نہیں ہوتی موانست اور موالفت اس کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ بہت ممکن ہے کسی وقت کسی بی بی سے موانست نہ رہے اور طلاق کا فیصلہ کرلیا جائے اور حضرت عائشہ کو اپنی باری دے دینا اور اپنے تمام حقوق سے دستبردار ہوجانا حضرت اُمّ الموٴمنین سودہ کا وہ ایثار تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ تبدیل فرمالیا، اس پر اس سے زیادہ گفتگو کرتا لیکن یہاں اشارہ کافی ہے۔