علاماتِ قیامت
س… ہم آئے دن لوگوں سے سنتے ہیں کہ قیامت آج آئی کہ کل آئی، مگر ابھی تک تو نہیں آئی، کیا اس کی کوئی نمایاں علامتیں ہیں جن کو دیکھ کر آدمی سمجھ لے کہ بس اب قیامت قریب ہے؟ ایسی کچھ نشانیاں بتلادیں تو احسانِ عظیم ہوگا۔
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ زمانے کے بارے میں بہت سے اُمور کی خبر دی ہے، جن میں سے بہت سی باتیں تو صدیوں سے پوری ہوچکی ہیں، بعض کو ہم نے اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھا ہے، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک:
“عن ثوبان رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اذا وضع السیف فی امتی لم یرفع عنھا الٰی یوم القیامة۔”
ترجمہ:…”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک اس سے اُٹھائی نہیں جائے گی۔”
“ولا تقوم الساعة حتٰی یلحق قبائل من امتی بالمشرکین وحتٰی تعبد قبائل من امتی الاوثان۔”
ترجمہ:…”اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کئی قبائل مشرکوں سے جاملیں گے، اور یہاں تک کہ میری امت کے کئی قبائل بت پرستی کرنے لگیں گے۔”
“وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلٰثون، کلھم یزعم انہ نبی الله، وانا خاتم النبیین، لا نبی بعدی۔”
ترجمہ:…”اور میری امت میں تیس جھوٹے کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں!”
“ولا تزال طائفة من امتی علی الحق ظاہرین، لا یضرھم من خالفھم حتٰی یأتی امر الله۔ رواہ ابوداود، والترمذی۔” (مشکوٰة ص:۴۶۵)
ترجمہ:…”اور میری امت میں ایک جماعت غالب حیثیت میں حق پر قائم رہے گی، جو شخص ان کی مخالفت کرے، وہ ان کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ (قیامت) آپہنچے۔”
آخری زمانے کی جنگوں کے بارے میں “ملاحم” کے باب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد مروی ہے:
“عن ذی مخبر قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: ستصالحون الروم صلحا اٰمنا، فتغزون انتم وھم عدوا من ورائکم، فتنصرون وتغنمون وتسلمون ثم ترجعون حتٰی تنزلون بمرج ذی تلول فیرفع رجل من اھل النصرانیة الصلیب فیقول: غلب الصلیب! فیغضب رجل من المسلمین فیدقہ، فعند ذالک تغدر الروم وتجمع للملحمة۔ رواہ ابوداود۔”
(مشکوٰة ص:۴۶۷)
ترجمہ:…”حضرت ذومخبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: تم اہلِ روم (نصاریٰ) سے امن کی صلح کروگے، پھر تم اور وہ مل کر مشترکہ دشمن سے جہاد کروگے، پس تم منصور و مظفر ہوگے، غنیمت پاوٴگے اور تم صحیح سالم رہوگے۔ پھر ٹیلوں والی سرسبز و شاداب وادی میں قیام کروگے، پس ایک نصرانی، صلیب اُٹھاکر کہے گا کہ: صلیب کا غلبہ ہوا! اور ایک مسلمان اس سے مشتعل ہوکر صلیب کو توڑ ڈالے گا، تب رومی عہد شکنی کریں گے، اور لڑائی کے لئے جمع ہوں گے۔”
اسلام اور نصرانیت کی یہ جنگ حدیث کی اصطلاح میں “ملحمة الکبریٰ” (جنگِ عظیم) کہلاتی ہے، اس کی تفصیلات بڑی ہولناک ہیں، جو “ابواب الملاحم” میں دیکھی جاسکتی ہیں، اسی جنگ میں قسطنطنیہ فتح ہوگا اور فتحِ قسطنطنیہ کے متصل دجال کا خروج ہوگا۔
جس امر کی طرف یہاں توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام اور اہلِ نصرانیت کا وہ مشترکہ دشمن کون ہے، جس سے یہ دونوں مل کر جنگ کریں گے؟ کیا دُنیا کی موجودہ فضا اسی کا نقشہ تو تیار نہیں کر رہی․․․؟