SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Monday, 02 October 2017 / Published in Jild-10

فلمی دُنیا سے معاشرتی بگاڑ

فلمی دُنیا سے معاشرتی بگاڑ

س… محترم مولانا صاحب! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

          برائے نوازش مندرجہ سوالات پر اپنا فتویٰ صادر فرمائیں:

          پاکستان میں سینماوٴں اور ٹیلیویژن پر جو فلمیں دکھائی جاتی ہیں، ان میں جو ایکٹر، ایکٹرس، رقاصائیں، گویے اور موسیقی کے ساز بجانے والے کام کرتے ہیں۔ یہ ایکٹر، ایکٹرس اور رقاصائیں کسی زمانے کے کنجروں اور میراثیوں سے بھی زیادہ بے حیائی اور بے شرمی کے کردار پیش کرنے میں سبقت لے گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں، بوس و کنار کرتے ہیں،نیم برہنہ پوشاک پہن کر اداکاری کرتے ہیں، اور فلموں میں فرضی شادیاں بھی کرتے ہیں، کبھی وہی ایکٹرس ان کی ماں کا، کبھی بہن کا، اور کبھی بیوی کا کردار ادا کرتی ہے، یہ لوگ اس معاش سے دولت کماکر حج کرنے بھی جاتے ہیں، اور بعض ان میں میلاد اور قرآن خوانی بھی کراتے ہیں، ظاہر ہے کہ مولوی صاحبان کو بھی مدعو کرتے ہوں گے، ان لوگوں کے ذمہ حکومت کی طرف سے انکم ٹیکس کے لاکھوں ہزاروں روپے واجب الادا بھی ہیں، یہ لوگ حج سے آنے کے بعد بھی وہی کردار پھر اپناتے ہیں۔

س…۱: یہ ایکٹر، ایکٹرس، رقاصائیں،گویے اور طبلے سارنگیاں بجانے والے وغیرہ جو اس معاش سے دولت کماتے ہیں، کیا ایسی کمائی سے حج اور زکوٰة کا فریضہ ادا ہوتا ہے؟ کیا میلاد اور قرآن خوانی کی محفل میں ان معاش کے لوگوں کے ساتھ شامل ہونا، کھانا پینا وغیرہ شریعت اسلامی کی رو سے جائز ہے؟

س…۲: کیونکہ ان لوگوں کے کردار بے شرمی، بے حیائی کے برملا مناظر فلموں اور ٹیلیویژن پر عام طور پر پیش ہوتے ہیں، کیا شریعت اسلامی کی رو سے ان کے جنازے پڑھانے اور ان میں شمولیت جائز ہے؟

س…۳: کیا علمائے کرام پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ وہ حکومت کو مجبور کریں کہ ایسی فلمیں سینماوٴں اور ٹیلیویژن پر ایسے لچر اور بے حیائی کے کردار دکھانے بند کئے جائیں؟ اور کیا خواتین کا فلموں میں کام کرنا جائز ہے؟ والسلام

خیر اندیش خاکسار

محمد یوسف – انگلینڈ

ج… فلمی دُنیا کے جن کارناموں کا خط میں ذکر کیا گیا ہے، ان کا ناجائز و حرام اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہونا کسی تشریح و وضاحت کا محتاج نہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے صحیح فہم اور انسانی حس عطا فرمائی ہو، وہ جانتا ہے کہ ان چیزوں کا رواج انسانیت کے زوال و اِنحطاط کی علامت ہے، بلکہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کا یہ آخری نقطہ ہے، جس کے بعد خالص “حیوانیت” کا درجہ باقی رہ جاتا ہے:

آ تجھ کو بتاوٴں میں تقدیر اُمم کیا ہے؟

شمشیر و سناں اوّل، طاوٴس و رباب آخر

                    (علامہ اقبال)

          جب اس پر غور کیا جائے کہ یہ چیزیں مسلمان معاشرے میں کیسے دَر آئیں؟ اور ان کا رواج کیسے ہوا؟ تو عقل چکرا جاتی ہے۔ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کی پاک اور مقدس زندگیاں ہیں اور وہ رشکِ ملائکہ معاشرہ ہے جو اسلام نے تشکیل دیا تھا۔ دُوسری طرف سینماوٴں، ریڈیو اور ٹیلیویژن وغیرہ کی بدولت ہمارا آج کا مسلمان معاشرہ ہے۔ دونوں کے تقابلی مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے کو اسلامی معاشرے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ ہم نے اپنے معاشرے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک اَدا اور ایک ایک سنت کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیا ہے، اور اس کی جگہ شیطان کی تعلیم کردہ لادینی حرکات کو ایک ایک کرکے رائج کرلیا ہے، (الحمدللہ! اب بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر بڑی پامردی و مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں، مگر یہاں گفتگو افراد کی نہیں، بلکہ عمومی معاشرے کی ہو رہی ہے)۔ شیطان نے مسلم معاشرے کا حلیہ بگاڑنے کے لئے نہ جانے کیا کیا کرتب ایجاد کئے ہوں گے، لیکن شاید راگ رنگ، یہ ریڈیائی نغمے، یہ ٹیلیویژن اور وی سی آر، شیطانی آلات میں سرِفہرست ہیں، جن کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو گمراہ اور ملعون قوموں کے نقشِ قدم پر چلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارا “مہذب معاشرہ” ان فلموں کو “تفریح” کا نام دیتا ہے، کاش! وہ جانتا کہ یہ “تفریح” کن ہولناک نتائج کو جنم دیتی ہے․․․؟ مسلمان اس “تفریح” میں مشغول ہوکر خود اپنی اسلامیت کا کس قدر مذاق اُڑا رہے ہیں اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کو کیسے کھلونا بنا رہے ہیں۔

          اس فلمی صنعت سے جو لوگ وابستہ ہیں، وہ سب یکساں نہیں، ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا ضمیر اس کام پر انہیں ملامت کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو قصوروار سمجھتے ہیں اور انہیں احساس ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں مبتلا ہیں، اس لئے وہ اس گنہگار زندگی پر نادم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دِل میں ایمان کی رمق اور انسانیت کی حس ابھی باقی ہے، گو اپنے ضعفِ ایمان کی بنا پر وہ اس گناہ کو چھوڑ نہیں پاتے اور اس آلودہ زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ہمت نہیں کرتے، تاہم غنیمت ہے کہ وہ اپنی حالت کو اچھی نہیں سمجھتے، بلکہ اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا ضمیر ان کھلے گناہوں کو “گناہ” تسلیم کرنے سے بھی انکار کرتا ہے، وہ اسے لائقِ فخر آرٹ اور فن سمجھ کر اس پر ناز کرتے ہیں، اور بزعمِ خود اسے انسانیت کی خدمت تصوّر کرتے ہیں، ان لوگوں کی حالت پہلے فریق سے زیادہ لائقِ رحم ہے، کیونکہ گناہ کو ہنر اور کمال سمجھ لینا بہت ہی خطرناک حالت ہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھئے کہ ایک مریض تو وہ ہے جسے یہ احساس ہے کہ وہ مریض ہے، وہ اگرچہ بدپرہیز ہے اور اس کی بدپرہیزی اس کے مرض کو لاعلاج بناسکتی ہے، تاہم جب تک اس کو مرض کا احساس ہے، توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے علاج کی طرف توجہ کرے گا۔ اس کے برعکس دُوسرا مریض وہ ہے جو کسی ذہنی و دماغی مرض میں مبتلا ہے، وہ اپنے جنون کو عین صحت سمجھ رہا ہے، اور جو لوگ نہایت شفقت و محبت سے اسے علاج معالجے کی طرف توجہ دِلاتے ہیں وہ ان کو “پاگل” تصوّر کرتا ہے۔ یہ شخص جو اپنی بیماری کو عین صحت تصوّر کرتا ہے اور اپنے سوا دُنیا بھر کے عقلاء کو اَحمق اور دیوانہ سمجھتا ہے، اس کے بارے میں خطرہ ہے کہ یہ اس خوش فہمی کے مرض سے کبھی شفایاب نہیں ہوگا۔

          جو لوگ فلمی صنعت سے وابستہ ہیں، ان کے زرق برق لباس، ان کی عیش و عشرت، اور ان کے بلند ترین معیارِ زندگی میں حقیقت ناشناس لوگوں کے لئے بڑی کشش ہے۔ ہمارے نوجوان ان کی طرف حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان جیسا بن جانے کی تمنائیں رکھتے ہیں۔ لباس کی تراش خراش میں ان کی تقلید و نقالی کرتے ہیں۔ لیکن کاش! کوئی ان کے نہاں خانہٴ دِل میں جھانک کر دیکھتا کہ وہ کس قدر ویران اور اُجڑا ہوا ہے، انہیں سب کچھ میسر ہے مگر سکونِ قلب کی دولت میسر نہیں، یہ لوگ دِل کا سکون و اطمینان ڈھونڈھنے کے لئے ہزاروں جتن کرتے ہیں، لیکن جس کنجی سے دِل کے تالے کھلتے ہیں وہ ان کے ہاتھ سے گم ہے، ایک ظاہر بین ان کے نعرہ: “بابر بہ عیش کوش! کہ عالم دوبارہ نیست” کو لائقِ رشک سمجھتا ہے، مگر ایک حقیقت شناس ان کے دِل کی ویرانی و بے اطمینانی کو دیکھ کر دُعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سزا کسی دُشمن کو بھی نہ دے۔ جس جرم کی، دُنیا میں یہ سزا ہو، سوچنا چاہئے کہ اس کی سزا مرنے کے بعد کیا ہوگی․․․؟

          ابھی کچھ عرصہ پہلے فلموں کی نمائش سینما ہالوں یا مخصوص جگہوں میں ہوتی تھی، لیکن ٹیلیویژن اور وی سی آر نے اس جنسِ گناہ کو اس قدر عام کردیا ہے کہ مسلمانوں کا گھر گھر “سینما ہال” میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بڑے شہروں میں کوئی خوش قسمت گھر ہی ایسا ہوگا جو اس لعنت سے محفوظ ہو۔ بچوں کی فطرت کھیل تماشوں اور اس قسم کے مناظر کی طرف طبعاً راغب ہے، اور ہمارے “مہذب شہری” یہ سمجھ کر ٹیلیویژن گھر میں لانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر یہ چیز اپنے گھر میں نہ ہوئی تو بچے ہمسایوں کے گھر جائیں گے۔ اس طرح ٹیلیویژن رکھنا فخر و مباہات کا گویا ایک فیشن بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر “ٹیلیویژن” کے سوداگروں نے اَزراہِ عنایت قسطوں پر ٹیلیویژن مہیا کرنے کی تدبیر نکالی، جس سے متوسط بلکہ پسماندہ گھرانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی اور حکومت نے لوگوں کے اس رُجحان کا “احترام” کرتے ہوئے نہ صرف ٹیلیویژن درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ جگہ جگہ ٹیلیویژن اسٹیشن قائم کرنے شروع کردئیے ہیں۔ گویا حکومت اور معاشرے کے تمام عوامل اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مگر اس کی حوصلہ شکنی کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ریڈیو اور ٹیلیویژن کے گانوں کی آوازوں سے خانہٴ خدا بھی محفوظ نہیں، عام بسوں اور گاڑیوں میں ریکارڈنگ قانوناً ممنوع ہے، مگر قانون کے محافظوں کے سامنے بسوں، گاڑیوں میں ریکارڈنگ ہوتی ہے۔

          فلموں کی اس بہتات نے ہماری نوخیز نسل کا کباڑا کردیا ہے، نوجوانوں کا دین و اخلاق اور ان کی صحت و توانائی اس تفریح کے دیوتا کے بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ بہت سے بچے قبل اَزوقت جوان ہوجاتے ہیں، ان کے ناپختہ شہوانی جذبات کو تحریک ہوتی ہے جنھیں وہ غیرفطری راستوں اور ناروا طریقوں سے پورا کرکے بے شمار جنسی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں، ناپختہ ذہنی اور شرم کی وجہ سے وہ اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو بھی نہیں بتاسکتے، ان کے والدین ان کو “معصوم بچہ” سمجھ کر ان کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ پھر عورتوں کی بے حجابی، آرائش و زیبائش اور مصنوعی حسن کی نمائش “جلتی پر تیل” کا کام دیتی ہے۔ پھر مخلوط تعلیم اور لڑکوں اور لڑکیوں کے بے روک ٹوک اختلاط نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ راقم الحروف کو نوجوانوں کے روزمرّہ بیسیوں خطوط موصول ہوتے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ نوجوانوں کے لئے آہستہ آہستہ جہنم کدے میں تبدیل ہو رہا ہے۔ آج کوئی خوش بخت نوجوان ہی ہوگا، جس کی صحت دُرست ہو، جس کی نشوونما معمول کے مطابق ہو، اور جو ذہنی انتشار اور جنسی انارکی کا شکار نہ ہو۔ انصاف کیجئے کہ ایسی پود سے ذہنی بالیدگی اور اُولوالعزمی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے جس کے نوّے فیصد افراد جنسی گرداب میں پھنسے ہوئے ناخدایانِ قوم کو یہ کہہ کر پکار رہے ہیں:

درمیان قعرِ دریا تختہ بندم کردہ

باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش!

          جو شخص بھی اس صورتِ حال پر سلامتیٴ فکر کے ساتھ ٹھنڈے دِل سے غور کرے گا وہ اس فلمی صنعت اور ٹیلیویژن کی لعنت کو “نئی نسل کا قاتل” کا خطاب دینے میں حق بجانب ہوگا۔

          یہ تو ہے وہ ہولناک صورتِ حال، جس سے ہمارا پورا معاشرہ بالخصوص نوخیز طبقہ دوچار ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورتِ حال کی اصلاح ضروری نہیں؟ کیا نوخیز نسل کو اس طوفانِ بلاخیز سے نجات دِلانا ہمارا دینی و مذہبی اور قومی فرض نہیں؟ اور یہ کہ بچوں کے والدین پر، معاشرے کے بااثر افراد پر اور قومی ناخداوٴں پر اس ضمن میں کیا فرائض عائد ہوتے ہیں․․․؟

          میرا خیال ہے کہ بہت سے حضرات کو تو اس عظیم قومی المیہ اور معاشرتی بگاڑ کا احساس ہی نہیں، اس طبقے کے نزدیک لذّتِ نفس کے مقابلے میں کوئی نعمت، نعمت نہیں، نہ کوئی نقصان، نقصان ہے، خواہ وہ کتنا ہی سنگین ہو۔ ان کے خیال میں چشم و گوش اور کام و دہن کے نفسانی تقاضے پورے ہونے چاہئیں، پھر “سب اچھا” ہے۔

          بعض حضرات کو اس پستی اور بگاڑ کا احساس ہے، لیکن عزم و ہمت کی کمزوری کی وجہ سے وہ نہ صرف یہ کہ اس کا کچھ علاج نہیں کرسکتے، بلکہ وہ اپنے آپ کو زمانے کے بے رحم تھپیڑوں کے سپرد کردینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ “صاحب! کیا کیجئے زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے” کا جو فقرہ اکثر زبانوں سے سننے میں آتا ہے وہ اسی ضعفِ ایمان اور عزم و ہمت کی کمزوری کی چغلی کھاتا ہے۔ ان کے خیال میں گندگی میں ملوّث ہونا تو بہت بُری بات ہے، لیکن اگر معاشرے میں اس کا عام رواج ہوجائے اور گندگی کھانے کو معیارِ شرافت سمجھا جانے لگے تو اپنے آپ کو اہلِ زمانہ کی نظر میں “شریف” ثابت کرنے کے لئے خود بھی اسی شغل میں لگنا ضروری ہے۔

          بعض حضرات اپنی حد تک اس سے اجتناب کرتے ہیں، لیکن وہ اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں، نہ اس کے خلاف لب کشائی کی ضرورت سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہ مرض لاعلاج ہے، اور اس کی اصلاح میں لگنا بے سود ہے۔ ان پر مایوسی کی ایسی کیفیت طاری ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے؟

          بعض حضرات اس کی اصلاح کے لئے آواز اُٹھاتے ہیں، مگر ان کی اصلاحی کوششیں صدا بہ صحرا یا نقارخانے میں طوطی کی آواز کی حیثیت رکھتی ہے۔

          راقم الحروف کا خیال ہے کہ اگرچہ پانی ناک سے اُونچا بہنے لگا ہے، اگرچہ پورا معاشرہ سیلابِ مصیبت کی لپیٹ میں آچکا ہے، اگرچہ فساد اور بگاڑ مایوسی کی حد تک پہنچ چکا ہے، لیکن ابھی تک ہمارے معاشرے کی اصلاح ناممکن نہیں، کیونکہ اکثریت اس کا احساس رکھتی ہے کہ اس صورتِ حال کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اس لئے اُوپر سے نیچے تک تمام اہلِ فکر اس کی طرف متوجہ ہوجائیں تو ہم اپنی نوجوان نسل کی بڑی اکثریت کو اس طوفان سے بچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کچھ انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے، جن کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:

          ۱:… تمام مسلمان والدین کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعے فلمی نغمے سناکر اور فلمی مناظر دِکھاکر نہ صرف دُنیا و آخرت کی لعنت خرید رہے ہیں، بلکہ خود اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ اگر وہ خدا وہ رسول پر ایمان رکھتے ہیں، اگر انہیں قبر و حشر میں حساب کتاب پر ایمان ہے، اگر انہیں اپنی اولاد سے ہمدردی ہے تو خدارا! اس سامانِ لعنت کو اپنے گھروں سے نکال دیں۔ ورنہ وہ خود تو مرکر قبر میں چلے جائیں گے، لیکن ان کے مرنے کے بعد بھی اس گناہ کا وبال ان کی قبروں میں پہنچتا رہے گا۔

          ۲:… معاشرے کے تمام بااثر اور دردمند حضرات اس کے خلاف جہاد کریں، محلے محلے اور قریہ قریہ میں بااثر افراد کی کمیٹیاں بنائی جائیں، وہ اپنے محلے اور اپنی بستی کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے موٴثر تدابیر سوچیں، اور اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اس سے بچانے کی کوشش کریں۔ نیز حکومت سے پُرزور مطالبہ کریں کہ ہماری نوجوان نسل پر رحم کیا جائے اور نوجوان نسل کے “خفیہ قاتل” کے ان اَڈّوں کو بند کیا جائے۔

          ۳:… سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ اُصول طے شدہ ہے کہ حکومت کے اقدام سے اگر کسی نیکی کو رواج ہوگا تو تمام نیکی کرنے والوں کے برابر ارکانِ حکومت کو بھی اَجر و ثواب ہوگا۔ اور اگر حکومت کے اقدام یا سرپرستی سے کوئی بُرائی رواج پکڑے گی تو اس بُرائی کا ارتکاب کرنے والوں کے برابر ارکانِ حکومت کو گناہ بھی ہوگا۔ اگر ریڈیو کے نغمے، ٹیلیویژن کی فلمیں اور راگ رنگ کی محفلیں کوئی ثواب کا کام ہے تو میں ارکانِ حکومت کو مبارک باد دیتا ہوں کہ جتنے لوگ یہ “نیکی اور ثواب کا کام” کر رہے ہیں ان سب کے “اَجر و ثواب” میں حکومت برابر کی شریک ہے۔ اور اگر یہ بُرائی اور لعنت ہے تو اس میں بھی حکومت کے ارکان کا برابر کا حصہ ہے۔ سینما ہال حکومت کے لائسنس ہی سے کھلتے ہیں، اور ریڈیو اور ٹی وی حکومت کی اجازت ہی سے درآمد ہوتے ہیں، اور حکومت ہی کی سرپرستی میں یہ ادارے چلتے ہیں، جو اپنے نتائج کے اعتبار سے انسانیت کے سفاک اور قاتل ہیں۔ میں اپنے نیک دِل اور اسلام کے علمبردار حکمرانوں سے بصد ادب و احترام اِلتجا کروں گا کہ خدا کے لئے قوم کو ان لعنتوں سے نجات دِلائیے، ورنہ: “تیرے رَبّ کی پکڑ بڑی سخت ہے․․․!” خصوصاً جبکہ ملک میں اسلامی نظام کا سنگِ بنیاد رکھا جارہا ہے، ضروری ہے کہ معاشرے کو ان غلاظتوں سے پاک کرنے کا اہتمام کیا جائے، ورنہ جو معاشرہ ان لعنتوں میں گلے گلے ڈُوبا ہوا ہو اس میں اسلامی نظام کا پنپنا ممکن نہیں۔

          ۴:… حضراتِ علمائے اُمت سے درخواست ہے کہ وہ اپنے خطبات و مواعظ میں اس بلائے بے درماں کی قباحتوں پر روشنی ڈالیں، اور تمام مساجد سے اس مضمون کی قراردادیں حکومت کو بھیجی جائیں کہ پاکستان کو فلمی لعنت سے پاک کیا جائے۔

          الغرض! اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لئے ان تمام لوگوں کو اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے جو پاکستان کو قہرِ الٰہی سے بچانا چاہتے ہیں۔

          کہا جاسکتا ہے کہ ہزاروں افراد کا روزگار فلمی صنعت اور ٹیلیویژن سے وابستہ ہے، اگر اس کو بند کیا جائے تو یہ ہزاروں انسان بے روزگار نہیں ہوجائیں گے؟ افراد کی بے روزگاری کا مسئلہ بلاشبہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، لیکن سب سے پہلے تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا چند انسانوں کو روزگار مہیا کرنے کے بہانے سے پوری قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلا جاسکتا ہے؟ اُصول یہ ہے کہ اگر کسی فرد کا کاروبار ملت کے اجتماعی مفاد کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کاروبار کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چوروں اور ڈاکووٴں کا پیشہ بند کرنے سے بھی بعض لوگوں کا “روزگار” متأثر ہوتا ہے، تو کیا ہمیں چوری اور ڈکیتی کی اجازت دے دینی چاہئے؟ اسمگلنگ بھی ہزاروں افراد کا پیشہ ہے، کیا قوم و ملت اس کو برداشت کرے گی؟ شراب کی صنعت اور خرید و فروخت اور منشیات کے کاروبار سے بھی ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، کیا ان کی بھی کھلی چھٹی ہونی چاہئے․․․؟ ان سوالوں کے جواب میں تمام عقلاء بیک زبان یہی کہیں گے کہ جو لوگ اپنے روزگار کے لئے پورے معاشرے کو داوٴ پر لگاتے ہیں ان کو کسی دُوسرے جائز کاروبار کا مشورہ دیا جائے گا، لیکن معاشرے سے کھیلنے کی اجازت ان کو نہیں دی جائے گی۔ ٹھیک اسی اُصول کا اطلاق فلمی صنعت پر بھی ہوتا ہے، اگر اس کو معاشرے کے لئے مضر ہی نہیں سمجھا جاتا تو یہ بصیرت و فراست کی کمزوری ہے، اور اگر اس کو معاشرے کے لئے، خصوصاً نوجوان اور نوخیز نسل کے لئے مضر سمجھا جاتا ہے تو اس ضرَرِ عام کے باوجود اسے برداشت کرنا حکمت و دانائی کے خلاف ہے۔

 

          جو لوگ فلمی صنعت سے وابستہ ہیں ان کے لئے کوئی دُوسرا روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے، مثلاً: سینما ہالوں کو تجارتی مراکز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کہ یہ فلمی کھیل تماشے قوم کے اخلاقی ڈھانچے ہی کے لئے تباہ کن نہیں، بلکہ اقتصادی نقطہٴ نظر سے بھی ملک کے لئے مہلک ہیں۔ جو افرادی و مادّی قوّت ان لایعنی اور بے لذّت گناہوں پر خرچ ہو رہی ہے وہ اگر ملک کی زرعی، صنعتی، تجارتی اور سائنسی ترقی پر خرچ ہونے لگے تو ملک ان مفید شعبوں میں مزید ترقی کرسکتا ہے، اس کا مفاد متعلقہ افراد کے علاوہ پوری قوم کو پہنچے گا۔

 

          الغرض! جو حضرات فلمی لائن سے وابستہ ہیں ان کی صلاحیتوں کو کسی ایسے روزگار میں کھپایا جاسکتا ہے جو دینی، معاشرتی اور قومی وجود کے لئے مفید ہو۔

  • Tweet

What you can read next

تین طلاق کا حکم
گاؤں میں جمعہ
کیا یہ صدقہ میں شمار نہیں ہوگا؟
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP