SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Tuesday, 24 August 2010 / Published in جلد ہشتم

تعلیم

 

صنفِ نازک اور مغربی تعلیم کی تباہ کاریاں

س… کیا خواتین کو مروّجہ عصری علوم اور مغربی تعلیم سے آراستہ کرنا شرعاً ناجائز ہے؟ اس کے کیا کیا مفاسد ہیں؟ تفصیل سے روشنی ڈالیں۔

ج… مغربی تہذیب اور اس کے طرزِ تعلیم نے صنفِ نازک کو اقتصادی، معاشرتی، سماجی اور اخلاقی میدان میں کس طرح پامال کیا ہے، اس کے ناموس اور تقدس کو حرص و آز کی قربان گاہ پر کس طرح بھینٹ چڑھایا ہے، اس کی معصومیت، حیا اور شرافت کو مغربیت کی فسوں کاری سے کس طرح شکار کیا ہے۔ اس کے وقار، اس کی عزّت، اس کی اقدار اور وفادارانہ روایات کو دورِ حاضر نے کس طرح کچل کر رکھ دیا ہے، اس کے احساسات، جذبات اور تصوّرات کو اضطراب، بے چینی اور بے اطمینانی کے کس اندھیرے غار میں ڈال دیاہے۔ ان سوالات کے جوابات آج اخبار کے صفحات میں “ہر دیکھنے والی نظر” کے سامنے بکھرے پڑے ہیں، لیکن مغربی افیون کا نشہ، پڑھنے والوں کو ان پر غور و فکر کی مہلت نہیں دیتا۔ ہمیں لکھتے پڑھتے اور کہتے سنتے بھی شرم آتی ہے کہ مغربی تاجروں نے “نصف انسانیت” کو تعلیم و تہذیب، فیشن اور کلچر، مساوات اور حقوق کے پُرفریب نعروں سے تجارتی منڈی میں فروختنی سامان کی حیثیت دے ڈالی ہے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں “عورت” کے نام، نغمہ و کلام، شکل و صورت اور تصویر اور فوٹو کو فروغِ تجارت کا ذریعہ نہیں بنایا ہے۔ عورت کے فطری فرائض بدستور اس کے ذمہ ہیں، خانہ داری اور نسلِ انسانی کی پروَرِش کا پورا بوجھ وہ اب بھی اُٹھاتی ہے، لیکن ظلم پیشہ، کسل پسند اور آرام طلب “مرد” نے “وزارت” سے لے کر ہسپتال کے نرسنگ سسٹم تک زندگی کے ایک ایک شعبے کا بوجھ بھی اس مظلوم اور ناتواں کے نحیف کندھوں پر ڈال دیا ہے۔

          مرد و زَن کی الگ الگ فطری تخلیق، الگ الگ جسمانی ساخت، الگ الگ ذہنی صلاحیت، الگ الگ جذبات و احساسات، الگ الگ طرزِ نشست و برخاست کا فطری تقاضا یہ تھا کہ ان دونوں کے فطری فرائض بھی الگ الگ ہوتے، دونوں کا میدانِ عمل ہی الگ الگ ہوتا، دونوں کے حقوق و واجبات بھی الگ الگ ہوتے، دونوں کی زندگی کا دائرہٴ کار بھی الگ الگ ہوتا، نیز جس طرح عورت اپنے فطری فرائض بجا لانے پر بہرحال مجبور ہے، اسی طرح عقل و انصاف کا تقاضا اور نواعیسِ فطرت کی اپیل ہے کہ وہ مرد اپنے فطری فرائض کے میدان میں مکمل طور پر خود مصروف تگ و تاز ہونے کا بار خود اُٹھائے اور صنفِ نازک کو “اندرونِ خانہ” سے باہر نکال کر “بیرونِ خانہ” رُسوا نہ کرے۔

          مرد اور عورت بلاشبہ انسانی گاڑی کے دو پہئے ہیں، لیکن یہ گاڑی اپنی فطری رفتار کے ساتھ اسی وقت چل سکے گی، جبکہ ان دونوں پہیوں کو اس گاڑی کے دونوں جانب فٹ کیا جائے، گھر کے اندر عورت ہو اور گھر سے باہر مرد ہو، لیکن اگر ان دونوں کو ایک ہی جانب فٹ کردیا جائے یا بٹوارا کرلیا جائے کہ مرد بھی نصف گھر سے باہر کے فرائض انجام دے اور نصف گھر کے اندر کے، اسی طرح عورت کی زندگی کو اندر اور باہر کے فرائض کی دو عملی میں بانٹ دیا جائے تو یا تو یہ گاڑی سرے سے چلے گی ہی نہیں یا اگر چلے بھی تو فطری رفتار سے نہیں چلے گی، بلکہ اس کی رفتار میں کجی، ہچکولے، بے اطمینانی اور سر دردی کا اتنا عظیم طوفان ہوگا کہ انسانی زندگی نمونہ جنت نہیں بلکہ سراپا جہنم زار بن کر رہ جائے گی۔

          آج مغرب کے ارزاں فروشوں نے صنفِ نازک کے گراں مایہ اقدار کو جن سستے داموں بیچ کر زندگی کے جہنم کا ایندھن خریدا ہے، اس سے مشرق و مغرب بیک زبان لرزہ براندام اور نالہ کناں ہیں، اس نے “صنفِ ضعیف” کے طبعی میدانِ عمل پر اس شدّت سے قہقہہ لگایا کہ عورت کو مجبوراً اپنا فطری مقام چھوڑ کر سست وجود اور کسل پسند “مرد” کے میدانِ عمل میں آنا پڑا، اور قانونِ فطرت نے جو ذمہ داری صرف اور صرف مرد پر ڈالی تھی، اس مظلوم کو مردوں کے دوش بدوش اس کا نصف بار اُٹھانا پڑا۔ اس جذبہٴ وفاداری کے تحت جب عورت گھر سے نکل کر “بیرونِ خانہ زندگی” میں گامزن ہوئی تو قدم قدم پر اس کی نسوانیت کا مذاق اُڑایا گیا، سب سے پہلے اس کے سامنے “تعلیم” کے خوش کن عنوان سے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے دروازے کھولے گئے اور معصوم بچیوں کو آزادانہ طور پر لڑکوں کی صفوں میں بیٹھ کر نئی طرزِ زندگی سیکھنے پر مجبور کیا گیا، مخلوط تعلیم نے جس کا رواج اگرچہ کئی جگہ بند کردیا گیا ہے، لیکن ابھی تک اس کی بُرائی اور نفرت سے کما حقہ واقفیت کی نعمت سے لوگ آشنا نہیں ہوسکے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے اخلاق، عادات، اطوار اور جذبات میں جو زہر گھولا ہے اس کے لئے شواہد اور دلائل پیش کرنا غیرضروری ہے، اخبار کے صفحات اور عدالتوں کے ریمارکس اس پر شاہد ہیں۔ اس مرحلے میں (اِلَّا ماشاء اللہ) جو نسوانیت کی مٹی پلید ہوئی اور ہو رہی ہے، اس پر انسانیت بشرطیکہ وہ کسی میں موجود بھی ہو، سر پیٹ کر رہ جاتی ہے اور حیاء و عصمت کی دیوی، اپنا دامن چاک کرلیتی ہے، اس مرحلے میں کتنی ہی دوشیزاوٴں کو اپنے عزّت مآب والدین سے باغی ہوجانا پڑا، کتنے ہی باعزّت خاندانوں کو ذِلت اور رُسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈُوب جانا پڑا اور کتنے ہی گھرانوں کو اپنی شرافت اور برتری کی معراج سے دنایت اور پستی کے تہ خانوں میں گم ہوجانا پڑا۔

          خدا خدا کرکے تعلیم ختم ہوئی، اب ملازمت کی تلاش کا مرحلہ پیش آیا، اس مرحلے میں کن کن لوگوں سے ملاقاتیں کرنا پڑیں، کن کن حیاسوز محفلوں میں حاضری دینا پڑی، کن کن شریفوں کے خندہ زیر لب کا نشانہ بننا پڑا، ایک طویل داستان ہے جو ہر اس خاتون کے سر سے گزرتی ہے جسے یہ مرحلہ پیش آیا ہو، مشرقی مذاق میں اس مرحلے کی تعبیر یوں ہے:

کرکے بی اے اب رشیدہ ڈھونڈتی ہے نوکری

لینے کے دینے پڑے اس گھر کی ویرانی بھی دیکھ

          روزنامہ “کوہستان” لاہور ۲۳/ستمبر ۱۹۶۶ء کی اشاعت (خواتین کا اخبار) میں ایک قابلِ احترام خاتون کا ایک مضمون اسی موضوع پر نظر سے گزرا، جس میں مذکورہ بالا مرحلے میں صنفِ نازک کی لاعلاج پریشانیوں کی ہلکی سی جھلک پیش کی گئی ہے مجھے دُوسروں کی خبر نہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ اپنی ایک بہن کی عجیب و غریب پریشانیٴ احوال کو پڑھ کر دِل ڈُوب گیا، گردن جھک گئی اور دِماغ میں نفسیاتی بحران کی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں سوچنے لگا کہ یا اللہ! شاطر فرنگ کتنا بڑا ظالم تھا، جس نے مشرقی خاتون کو “جنت خانہ” سے باہر نکال کر اس کے تمام تر ضعف اور فطری ناتوانی کے باوجود اسے بے اطمینانی و بے چینی کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی بہن کی دردناک کہانی کے چند اجزاء یہاں نقل کردوں، محترمہ لکھتی ہیں:

          “جی چاہتا ہے اپنی ڈگریوں کو اُٹھاکر بھاڑ میں جھونک دوں، سیما نے اپنی ایم اے تک کی ڈگریاں میز پر زور سے پٹخ دِیں اور کرسی پر گرکر پیشانی کا پسینہ پوچھنے لگی، کیوں خیر تو ہے؟ میں نے حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھا، آج ڈگریوں کی کم بختی کیوں آگئی؟ انہیں حاصل کرنے کے لئے تو تم نے دن رات ایک کردئیے، تمہارے چہرے پر کھنڈی ہوئی یہ زردی اور ہمیشہ کی سردردی ان ڈگریوں ہی نے تو دی ہے۔”

          ان ڈگریوں کے حاصل کرنے پر اسے مجبوراً دن رات ایک کردینا پڑا تھا، اور جس کے نتیجے میں چہرے کی زردی اور دائمی سردردی میں وہ بیچاری مبتلا ہوکر رہ گئی تھی۔ اس سوال کا جواب اس کی طرف سے کیا دیا گیا؟ ذرا اسے پڑھئے اور صنفِ نازک کی “غیر فطری پریشانیوں” کا اندازہ کیجئے! محترمہ لکھتی ہیں کہ:

          “یہ سوال سن کر وہ رو دینے کے انداز میں کہنے لگی: یہی تو دُکھ کی بات ہے، ان ڈگریوں کو حاصل کرنے کا مقصد اگر فریم کرواکے دیوار پر آویزاں کرنا ہے تو پھر ٹھیک ہے، بڑی سے بڑی ڈگری لو، اعلیٰ سے اعلیٰ فریم میں لگاوٴ اور گھروں میں لٹکاوٴ، پر اگر کوئی غریب چاہے کہ اس کی محنت کا ثمر مل جائے، تو مشکل ہے، ڈگریوں کو ماتھے پر سجاکر در، در کی خاک چھانو، کالج اور دفتروں کی چوکھٹیں گھساوٴ، مگر سولہ سال کی محنت کے عوض ملی ہوئی یہ سند تمہیں کہیں نوکری نہ دِلاسکے گی۔”

          یہ تو اس تعلیم کا صرف ایک پہلو ہے، اس کا دُوسرا پہلو اس سے بڑھ کر سنجیدہ و غور و فکر کا مستحق ہے، اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے:

          “اور پھر تم جانتی ہو، وہ سنجیدگی سے بولی: یہ وہ زمانہ نہیں جس میں معمولی پڑھی لکھی گھر گرہستی کو سمجھنے والی عورت ہی آورش سمجھی جاتی ہو۔ آج عظمت اور بڑائی کا معیار بدل گیا ہے، کسی بھی اخبار کے اشتہاروں کے کالم میں دیکھ لو۔ ضرورتِ رشتہ کے عنوان سے دئیے گئے اشتہار میں لیڈی ڈاکٹر اور پروفیسر کو کس طرح ترجیح دی گئی ہوتی ہے۔”

          گویا اس تعلیم نے معاشرت و اقتصاد ہی کو نہیں سماج کو بھی متأثر کیا ہے، ذہنیت بدل کر رکھ دی، مزاج بگاڑ دئیے، اقدار کو مجروح کردیا، کل تک جن چیزوں کو سماجی تعلقات اور رشتہٴ مناکحت کے لئے معیار قرار دیا جاتا تھا، اور وہ واقعتا معیار تھیں بھی، اس تعلیمی ہیضے نے ان تمام پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا، شرافت اور بلندی کا معیار، شستہ اخلاقی، پاکیزہ عادات، عفت و عصمت، اقدار و اطوار نہیں رہے، بلکہ صرف ایک معیار باقی رہ گیا ہے، یعنی وہ لیڈی ڈاکٹر؟ یا پروفیسر؟ کس منصب پر فائز ہے اور ماہوار کتنے روپے کماتی ہے۔ انا لله وانا الیہ راجعون! ممکن ہے جن لوگوں کو ان تلخیوں سے دوچار نہ ہونا پڑا ہو، انہیں یہ “داستانِ درد” بے وزن معلوم ہو، لیکن جن کے سر سے یہ گزری ہے ان کی شہادت کو آخر کیسے نظرانداز کردیا جائے، تعلیمِ جدید کے قصیدہ خوانوں کو اپنی دردمند بیٹی اور بہن کا یہ بیان پورے غور و فکر سے پڑھ کر اپنے موقف پر نظرِ ثانی کرنا پڑے گی، محترمہ لکھتی ہیں:

          “برسوں اسی میدان میں دھکے کھانے کے بعد جب زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سولہ برس کی محنت کا ثمرہ صرف کاغذ کا ایک پرزہ ہے جو زندگی کے لق و دق صحراء میں کسی وقعت کا حامل نہیں، یہ تو کسی کام بھی نہیں آسکتا، پھر جی چاہتا ہے، کاش! ڈھنگ سے برتن مانجھنے ہی سیکھ لئے ہوتے یا ہاتھ میں کوئی اور ہنر ہوتا کہ آج بے بسی اور محتاجی کا احساس یوں شدّت سے کچوکے نہ لگاتا۔”

          اس پر بس نہیں اس تعلیم نے صنفِ نازک کے جذبات پر جو گہرا زخم کیا ہے اسے معلوم کرنے کے لئے بدلتی ہوئی معاشرت پر بالاخانوں میں بیٹھ کر فخر کرنے والوں کو اپنی بہن کا یہ پیغام سن لینا چاہئے، اس پیغام میں اگر تلخی کی جھلک اور بڑے کڑوے کسیلے لہجے کی چبھن محسوس ہو تو انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ کس کی آواز ہے، محترمہ لکھتی ہیں:

          “میں پوچھتی ہوں، کہاں ہیں وہ لوگ جو گھر کی چاردیواری میں مستور، معمولی سی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والی عورت کو آورش جان کر اسے احساسات کے سب سے بلند استھان پر بٹھالیا کرتے تھے، آج زندگی کی اقدار ہی بدل گئیں، غریبوں کو چاہئے کہ اپنی لڑکیوں کو نرسیں بنوایا کریں یا پھر پرائمری اسکولوں میں تیس روپے ماہوار پر اُستانیاں لگادیا کریں، اس سے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتیں، کیونکہ شروع میں ہی ان کا ہر احساس مٹادیا جائے، یا شعور ہونے سے پہلے ہی ان کا شعور ختم کردیا جائے تاکہ وہ زندگی میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتی ہوئی پاگل نہ ہوجائیں، کاغذ کے پرزوں کو سینے سے لگا لگاکر ان کی حسیات چوٹ نہ کھا جائیں۔”

          اس تعلیم کے فضائل کی گنتی میں سرِ فہرست معیارِ زندگی کے بلند کرنے کا نام لیا جاتا ہے اور بڑے بڑے بے سروپا دلائل سے سمجھایا جاتا ہے کہ جب تک تعلیم عام نہ ہوگی زندگی کا معیار بلند نہیں ہوسکتا۔ اگر معیارِ زندگی سے چند بڑے لوگوں کا معیارِ زندگی مراد ہے تو اور بات ہے، ورنہ اگر مجموعی زندگی کا اوسط مراد ہے تو معاف کیجئے! یہ دلیل واقعات سے کوئی میل نہیں کھاتی۔ اس اُلٹ تعلیم سے معیارِ زندگی کے بلند کرنے کی اُمید باندھ لینا خواب خیالی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ آخر امریکہ بہادر سے زیادہ تعلیم کہاں عام ہوگی؟ اور معیارِ زندگی کہاں بلند ہوگا․․․؟ لیکن امریکی صدر آنجہانی کینیڈی نے اعتراف کیا تھا کہ امریکہ میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں پیٹ بھر کر دو دفعہ کھانا میسر نہیں۔ یہی معیار زندگی کا ہوّا ہے جس کے لئے معصوم صنفِ نازک کو گوناگوں پیچیدگیوں میں جکڑ دیا گیا ہے حالانکہ خود “معیارِ زندگی” کے لئے کسی کے پاس کوئی “معیار” نہیں ہے کہ آخر یہ ہے کیا بلا؟ اس کے حدود کیا ہیں؟ یہ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں جاکر ختم ہونے کا نام لیتی ہے․․․؟ محترمہ نے کیا خوب لکھا ہے:

          “سیما بے بسی سے ہنس دی اور بڑے سپاٹ لہجے میں بولی: لوگ پوچھتے ہیں تمہیں معیارِ زندگی بلند کرنا ہے؟ انہیں کیا بتاوٴں کہ یہاں تو زندگی کا سرے سے کوئی معیار ہی نہیں ہے، اسے اُونچا کیا کریں؟ ہم تو چاہتے ہیں زندگی اگر زندگی بن کر گزر جائے تو غنیمت ہے۔”

          اور یہ اس “تعلیمِ جدید” کے ایک مرحلے کا ذکر ہے، یعنی ڈگری حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش، اس مرحلے کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ سب تو نہیں لیکن “بڑے لوگ” اپنی بیٹیوں کو یہاں سے مغرب کی یونیورسٹیوں میں بھیج دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، مشرقی عورت مغربی ماحول میں جاکر تعلیم کے ساتھ کیا کیا سیکھ آتی ہوگی؟ اس کے لئے وہیں کی معاشرت پر نظر کرلینا ہی کافی سبق آموز ہے، اور یہاں آکر یہ “بڑے گھر کی خواتین” مغربی طور طریقوں کی جو تبلیغ فرماتی ہیں، وہ کافی حد تک عبرت ناک ہے۔ اور ان تعلیمی مراحل کو طے کرنے کے بعد اگر کسی خوش بخت کو کوئی ملازمت میسر آہی گئی تو سمجھا جاتا ہے کہ مقصدِ زندگی حاصل ہوگیا ہے، بلاشبہ مزعومہ مقصد ضرور حاصل ہوگیا ہوگا، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی برباد ہوکر رہ گئی، اور صحیح لفظوں میں عورت کی زندگی مرد کی حرص و ہوا کا نشانہ بن گئی۔ ذرا زندگی کے ہر شعبے کی طرف نظر دوڑاوٴ، جہاں جہاں عورت کو جکڑا گیا ہے، دُکانیں نہیں سجتیں، جب تک انہیں بیٹی اور دُلہن کی عریاں اور نیم عریاں تصاویر سے آراستہ نہ کیا جائے، کلب گھروں کی رونق عورتوں سے ہے، سینما ہال کی شان و شوکت عورتوں سے ہے، تفریحی پروگراموں میں عورت کا استعمال، غیرملکی مہمانوں کی آمد ہو تو بچیوں کا استقبال، ناچ اور ڈرامے کا طوفان ہو تو عورت حاضر، ریڈیو اسٹیشن پر اناوٴنسری کی خدمت ہو تو عورت درکار، کتابوں اور رسالوں کی زینت عورت سے، اخبار اور مجلات کا کاروبار عورت کے دم قدم سے۔

          سیاسیات میں صدارت اور وزارت کے لئے عورت، غیرملکی وفود اور سفارت کے لئے عورت، ہوائی مہمانوں کی میزبان ملت کی بہن اور بیٹی، ہسپتالوں میں غیرمحرَم مردوں کی عیادت اور مرہم پٹی کرنے والی قوم کی نونہال، دفتروں میں افسرانِ بالا کے ماتحت کام کرنے والی ملت کی خواتین، اور بعض نجی معاملات میں خدمت بجا لانے والی قوم کی بہو بیٹیاں، ہائے! اکبر مرحوم اگر آج ہوتا تو کیا کچھ نہ کہتا:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر# زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟

کہنے لگیں کہ: عقل پہ مردوں کی پڑ گیا!

          الف:… زمانے کا تغیر، کبھی مسلمان، غیرت مند مسلمان اس منحوس تعلیم کے ابتدائی اثرات کو دیکھ کر “غیرتِ قومی” سے گڑ جایا کرتے تھے، لیکن آج کا مسلمان کہلانے والا، جس کے لئے عورتوں کے منہ کا نقاب پردہٴ عقل کی شکل اختیار کرگیا ہے، اس کے انتہائی “آثارِ بد” پر بھی ماتم نہیں کرتا، وہ اس تعلیمی فضا کی پیدا کردہ ذہنی اور اخلاقی انارکی کو آنکھوں سے دیکھتا ہے، سسکتی ہوئی اور دَم توڑتی ہوئی انسانیت کی آہ و فریاد اور نالہ و گریہ اپنے کانوں سے سنتا ہے، لیکن بڑے فخریہ انداز میں کہتا ہے۔

          سعودی عرب میں شاہ فیصل کے دور میں جس وسیع پیمانے پر اصلاحات ہو رہی ہیں، اس کی خبریں ہمارے ہاں برابر چھپتی رہتی ہیں۔ ۲۷/مئی کے پاکستان ٹائمز میں “سعودی عرب کا بدلتا ہوا معاشرہ” کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے، مضمون نگار “لڑکیوں کی تعلیم” کے ذکر میں لکھتے ہیں:

          “۱۹۶۱ء میں درعیہ میں لڑکیوں کے مدرسے کی پہلی جماعت شروع کی گئی، اس میں صرف ۱۲ طالبات تھیں، اور لوگ اس بدعت سے کچھ متوحش سے تھے، اب اس قسم کے ۱۴ دیہی مراکز میں ۱۵۱۶ دن کی اور ۹۵۲ رات کی جماعتیں ہیں۔”

          مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ان سالوں میں سعودی خواتین عزلت کی زندگی سے نکل کر عوامی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگی ہیں، وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد قومی تعمیر کے کاموں میں شریک ہو رہی ہیں، ان کے لئے مدارس میں بحیثیت اُستانیوں کے، سماجی بہبود کے اداروں میں بطور سماجی کارکنوں کے اور ہسپتالوں میں بحیثیت نرسوں کے برابر مواقع نکل رہے ہیں، (فکر و نظر جلد:۳ شمارہ:۹-۱۰ ص:۶۳۰) اس بنائے افتخار پر اس کے سوا اور کیا عرض کرسکتے ہیں:

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

علم کے حصول کے لئے چین جانے کی روایت

س… اکثر اخبارات، رسائل، کتب، تقاریر وغیرہ میں علم کے عنوان پر جب بھی بات چلتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر تمہیں تحصیلِ علم کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاوٴ” آپ ذرا بتائیے کہ آیا یہ حدیث کتبِ احادیث میں سے کسی میں موجود ہے یا نہیں؟

ج… یہ حدیث علامہ سیوطی نے جامع صغیر ج:۴ ص:۴۴ میں ابنِ عبدالبر کے حوالے سے نقل کی ہے۔ بعض حضرات نے اس کو من گھڑت (موضوع) کہا ہے۔ بہرحال یہ حدیث کسی درجے میں بھی لائقِ اعتبار ہو تو “علم” سے مراد دِینی علم ہے، اور “چین” کا لفظ انتہائی سفر کے لئے ہے، کیونکہ چین اس وقت عربوں کے لئے بعید ترین ملک تھا۔

دِینی تعلیم کی راہ میں مشکلات نیز دِینی اور دُنیاوی تعلیم

س۱:… میں نے بچپن سے آج تک دُنیاوی حاصل کی ہے، اب میں دِین کی تعلیم کی طرف آنا چاہتا ہوں، کیا مجھے کسی قسم کی مشکلات پیش آئیں گی؟

س۲:… میرے والدین کی خواہش ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں، انہوں نے میری تعلیم پر بڑا خرچہ کیا ہے، اگر میں ڈاکٹر نہیں بنتا ہوں تو انہیں بہت افسوس اور دُکھ ہوگا، کیا انہیں دُکھ میں مبتلا کرکے عالمِ دِین بننا جائز ہے؟

س۳:… اگر میں ان کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر بنوں اور اپنی جوانی کو ڈاکٹری کی تعلیم میں صَرف کروں تو اپنے دِین کو قائم رکھ سکوں گا؟ میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں میں مخلوط تعلیم اور دُوسری بُرائیاں ہیں، کیا ان کا گناہ اور وبال بھی میرے سر ہوگا؟

س۴:… روزِ قیامت ایک عالمِ دِین زیادہ مستحقِ اجر و ثواب ہوگا یا وہ شخص جس نے ہر قسم کی مشکلات اور نامساعد حالات میں اپنے دِین کو باقی رکھا؟

س۵:… کیا اس نیت سے یونیورسٹی کے شعبہٴ اسلامیات میں پڑھنا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لینا کہ بعد میں پروفیسر بنوں گا، اچھی تنخواہ اور مراعات حاصل کروں گا ․․․․․ دِین بھی ہوگا اور دُنیا بھی، جائز ہے؟ کیا مدرسے کی تعلیم اور یونیورسٹی کی تعلیم میں کوئی فرق ہے؟

ج۱:… آپ کو مشکلات کا پیش آنا تو لازم ہے۔

ج۲:… اگر آپ ڈاکٹر بن کر دِین پر قائم رہ سکیں تو والدین کی خوشنودی کے لئے ڈاکٹر بن جائیں۔

ج۳:… بُرائیوں کا گناہ تو یقینا ہوگا، اور یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ دِین کو قائم رکھ سکیں گے یا نہیں؟ اگر اہلِ دِین کے ساتھ تعلق جڑا رہا تو توقع ہے کہ دِین قائم رہ سکے گا۔

ج۴:… ظاہر ہے کہ عالمِ حقانی کا اجر بڑھا ہوا ہوگا۔

ج۵:… یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرلینا تو دُنیا ہی کے لئے ہوگا، آپ اسی دُنیا کو دِین بناسکتے ہیں تو آپ کی ہمت ہے، اور مدرسہ کی تعلیم دِین کے لئے ہے، اگر کوئی اس کو دُنیا بنالے تو یہ اس کی بے سمجھی ہے۔

اسلام نے انسانوں پر کون سا علم فرض کیا ہے؟

س… سوال یہ ہے کہ اسلام نے ہم پر کون سا علم فرض کیا ہے؟ کیا وہ علم جو آج کل تعلیمی اداروں میں حاصل کر رہے ہیں یا کوئی اور؟

ج… آج کل تعلیم گاہوں میں جو علم پڑھایا جاتا ہے وہ علم نہیں، بلکہ ہنر، پیشہ اور فن ہے۔ وہ بذاتِ خود نہ اچھا ہے نہ بُرا۔ اس کا انحصار اس کے صحیح یا غلط مقصد اور استعمال پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس علم کو فرض قرار دیا ہے، جس کے فضائل بیان فرمائے ہیں اور جس کے حصول کی ترغیب دی ہے اس سے دِین کا علم مراد ہے اور اسی کے حکم میں ہوگا وہ علم بھی جو دِین کے لئے وسیلے و ذریعے کی حیثیت رکھتا ہو۔

کیا مسلمان عوت جدید علوم حاصل کرسکتی ہے؟

س… میں الحمدللہ پردہ کرتی ہوں، لیکن میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں، آپ مجھے یہ بتائیے کہ اسلام میں جدید تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی تو نہیں، جبکہ یہ تعلیم ایسی ہے کہ آدمی گھر بیٹھے کما سکتا ہے اس کو مرد کے ماحول میں ملازمت کی ضرورت نہیں پیش آئے گی، جبکہ کمپیوٹر کے سامنے وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ ایک ایسا کام ہے کہ ہم جو فالتو وقت ٹی وی وغیرہ کے آگے گزار کر گناہ حاصل کرتے ہیں اس کے یعنی (کمپیوٹر) کے سامنے بیٹھ کر ان لغویات سے بچ سکتے ہیں۔ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ وہ علم جو دُنیاوی عزّت حاصل کرنے کے لئے لیا جائے اس کے لئے عذاب ہے، لیکن میرے دِل میں یہ خیال ہے کہ ہم مسلمان عورتوں کو پردے میں رہتے ہوئے ایسے علوم ضرور سیکھنے چاہئیں کہ ہم کسی بھی طرح ترقی یافتہ قوموں سے پیچھے نہ رہیں۔ نیز اپنے پیروں پر ہم خود کھڑے ہوجائیں۔ نیز وہ لوگ جو پردہ دار عورتوں کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ دقیانوسی عورتیں ہیں ان کو کیا پتا کہ کمپیوٹر وغیرہ کیا ہوتا ہے؟ یا یہ کہ ان کو ایسی تعلیم سے کیا واسطہ؟ اُمید ہے کہ آپ میرا نظریہ سمجھ گئے ہوں گے، میرا نظریہ یہ ہے کہ ایسی تعلیم کہ عورت، مرد کے ماحول میں نکل کر کام کرنے کے بجائے گھر میں بیٹھ کر کمالے، یہ زیادہ بہتر ہے کہ نہیں؟ جو وقت اور حالات آپ دیکھ رہے ہیں، آپ کی نظر میں کیا عورت کو ایسی تعلیم حاصل کرنی چاہئے کہ وہ آپ اپنے پیروں پر خود کھڑی ہوجائے؟ یہ بتائیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ جو ہمارے نبی کا فیصلہ ہوگا وہی ہمارا اِن شاء اللہ فیصلہ ہوگا۔ اگر آپ مجھے مطمئن کردیں تو میں آپ کی بہت مشکور ہوں گی۔

ج… آپ کے خیالات ماشاء اللہ بہت صحیح ہیں، کمپویٹر کی تعلیم ہو یا کوئی دُوسری تعلیم، اگر خواتین ان علوم کو باپردہ حاصل کریں تو کوئی حرج نہیں۔ تعلیم کے دوران یا ملازمت کے دوران نامحرَموں سے اختلاط نہ ہو۔

کونسا علم حاصل کرنا ضروری ہے؟ اور کتنا حاصل کرنا ضروری ہے؟

س… علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ملے۔ علم حاصل کرو کا فقرہ، کیا علمِ دِین کے لئے کہا گیا ہے؟ کیا یہ دُنیا کے تمام علوم کے لئے کہا گیا ہے؟ کیا مرد اور عورتوں پر دُنیوی علوم حاصل کرنا فرض ہے؟

ج… اوّل تو یہ حدیث ہی موضوع اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کا موضوع دُنیا کا علم ہے ہی نہیں، وہ تو آخرت کی دعوت دیتے ہیں، اور انسانیت کو ان عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات کی تعلیم دیتے ہیں جن سے ان کی آخرت بگڑے نہیں، بلکہ سنور جائے۔ اس لئے جو علوم آج کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد “علم حاصل کرو” میں داخل نہیں، ان کا حاصل کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اور ضروری ہے یا غیر ضروری؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔

          دِینی علم بقدرِ ضرورت حاصل کرنا تو سب پر فرض ہے، اور دُنیاوی علوم کسبِ معاش کے لئے ہیں، اور کسبِ معاش عورتوں کے ذمہ نہیں، بلکہ مردوں کے ذمہ ہے، ان کی تعلیم اتنی کافی ہے کہ دِینی رسائل پڑھ سکیں اور لکھ پڑھ سکیں۔ باقی سب زائد ہے۔

کالجوں میں محبت کا کھیل اور اسلامی تعلیمات

س۱:… کیا محبت کوئی حقیقت ہے؟ (میری مراد صرف وہ محبت ہے جس کا ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز میں بڑا چرچا ہے، اور بڑے بڑے عقل مند اسے سچ سمجھتے ہیں)۔

س۲:… کیا اسلام بھی اسے حقیقت سمجھتا ہے؟ جبکہ ہمارے معاشرے میں ان لڑکیوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے جو شادی سے پہلے کسی مرد کا خیال تک اپنے دِل میں نہیں لاتیں۔ میں بھی اس پر یقین رکھتی ہوں اور اس کے مطابق عمل کرتی ہوں لیکن جب سے میں نے کالج میں داخلہ لیا، وہ بھی بحالتِ مجبوری تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے سات آٹھ مہینوں سے میں بہت پریشان ہوں اور ہر دُوسرے روز روتی ہوں لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ اس سلسلے میں اسلام کیا سیدھا راستہ بتاتا ہے؟ برائے مہربانی تسلی بخش جواب دیجئے گا، میں آپ کی بہت احسان مند ہوں گی۔

ج… اسلام میں مرد و عورت کے رشتہٴ محبت کی شکل نکاح تجویز کی گئی ہے، اس کے علاوہ اسلام “دوستی” کی اجازت نہیں دیتا۔ ہماری تعلیم گاہوں میں لڑکے لڑکیاں جس محبت کی نمائش کرتی ہیں، یہ اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ مغرب کی نقالی ہے، اور یہ “منقش سانپ” جس کو ڈَس لیتا ہے وہ اس کے زہر کی تلخی تادمِ آخر محسوس کرتا ہے۔ مغرب کو اسی محبت کے کھیل نے جنسی انارکی کے جہنم میں دھکیلا ہے، ہمارے نوجوانوں کو اس سے عبرت پکڑنی چاہئے۔

انگریزی سیکھنا جائز ہے اور انگریزی تہذیب سے بچنا ضروری ہے

س… انگریزی زبان کو مذہب اسلام میں کیا حیثیت حاصل ہے؟ کیونکہ ہمارے والدین اس زبان سے سخت نالاں ہیں اور اس کے سیکھنے کے حق میں نہیں ہیں، لیکن آج کل کے دور میں انگریزی سیکھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اس کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے، لہٰذا آپ براہِ مہربانی ہمیں بتائیں کہ مسلمانوں کے لئے انگریزی تعلیم حاصل کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ یہ غیرمسلموں کی زبان ہے، کیا مذہب اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم غیرمسلموں کی زبان سیکھیں؟

ج… انگریزی تعلیم سے اگر دِین کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو حرام ہے، اگر دِین کی حفاظت کے ساتھ دُنیوی اور معاشی مقاصد کے لئے حاصل کی جائے تو مباح (جائز) ہے، اور اگر دِینی مقاصد کے لئے ہو تو کارِ ثواب ہے۔ انگریزی زبان سیکھنے پر اعتراض نہیں، لیکن کیا موجودہ نظامِ تعلیم میں دِین محفوظ رہ سکتا ہے؟ انگریزی سیکھے، انگریزی تہذیب نہ سیکھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

دِینی تعلیم کے لئے والدین کی اجازت ضروری نہیں

س… آج کل گھروں میں صرف دُنیاوی تعلیم ہی کی باتیں ہوتی ہیں، دِین کی باتیں تو والدین بتاتے ہی نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص ایسے ماحول میں جانا چاہتا ہو جہاں اس کے علم میں اور ایمان میں اضافہ ہوتا ہو اور گھر والے اس کو نہ جانے دیتے ہوں تو کیا ان کی اطاعت جائز ہے؟

ج… دِین کا ضروری علم ہر مسلمان پر فرض ہے، اور اگر گھر والے کسی شرعی فرض کے ادا کرنے سے مانع ہوں تو ان کی اطاعت جائز نہیں۔

دِینی تعلیم کا تقاضا

س… میں بارہویں جماعت پاس کرکے اب دِینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت سے یہ دریافت کرنا تھا کہ میں نیت کیا رکھوں؟ اور دِین کی تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصود کیا ہے؟ اور طالب علم اور اُستاذ کا تعلق کیسا ہونا چاہئے؟ طالب علم ہونے کے ناتے اُستاذ کے احترام اور ادب کے بارے میں کچھ ضروری باتیں جو دِین کا علم حاصل کرنے میں ضروری ہوتی ہیں، اگر حضرت سمجھادیں تو میرے لئے بڑی کرم نوازی ہوگی۔

ج… دِینی تعلیم سے مقصود صرف ایک ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے اَحکام معلوم کرکے ان پر عمل کرنا اور رضائے الٰہی کے مطابق زندگی گزارنا۔ بس رضائے الٰہی کی نیت کی جائے، علم کے آداب کے لئے ایک رسالہ “تعلیم المتعلّم” اور دُوسرا رسالہ “آداب المتعلّمین” چھپا ہوا موجود ہے، اس کو خرید کر پڑھو اور اس کے مطابق عمل کرو۔

مخلوط تعلیم کتنی عمر تک جائز ہے؟

س… دِینی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا جہاں تک پتا چلتا ہے اور آج کل کے نظامِ تعلیم سے موازنہ کرتا ہوں تو ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ الف:… کیا مخلوط تعلیم کا جواز شریعت میں ہے؟ اگر ہے تو کتنی عمر تک کے بچے بچیاں اکٹھے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟ اگر جواز شریعت میں نہیں تو پھر ذمہ دار افراد علیحدہ انتظام کیوں نہیں کرتے؟ جبکہ علمائے حق اس پر زور دیتے ہیں۔

ج… دس سال کی عمر ہونے پر بچوں کے بستر الگ کردینے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ بچے بچیاں زیادہ سے زیادہ دس گیارہ سال کی عمر تک ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں، اس کے بعد مخلوط تعلیم نہیں ہونی چاہئے۔ دورِ جدید میں مخلوط تعلیم بے خدا تہذیب کی ایجاد کردہ بدعت ہے، جو ناگفتنی قباحتوں پر مشتمل ہے۔ معلوم نہیں ہمارے مقتدر حضرات اس نظامِ تعلیم میں کیوں تبدیلی نہیں فرماتے؟ جبکہ جداگانہ تعلیم کا مطالبہ صرف علمائے کرام ہی کا نہیں طلبہ اور طالبات کا بھی ہے۔

مخلوط نظامِ تعلیم کا گناہ کس پر ہوگا؟

س… میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہوں، دُوسرے اسکولوں کی طرح ہمارے اسکول میں بھی (کو- ایجوکیشن) مخلوط نظامِ تعلیم ہے، یہ وبا کراچی میں تو بہت زیادہ ہے۔ جناب! میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ دِین کے مسائل پوچھنے میں ہم مسلمانوں کو شرم نہیں کرنی چاہئے۔ غرض یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں لڑکے اور لڑکیاں بہت جلد بالغ ہوجاتے ہیں، باقی رہی سہی کسر وی سی آر اور ٹیلی ویژن نے پوری کردی ہے۔

          جنابِ والا! ہماری کلاس میں بالغ لڑکے اور لڑکیاں جب مل کر بیٹھتے ہیں تو دونوں کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں، اس کے علاوہ لڑکیاں اپنے دوست لڑکوں کو اس وقت اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی ہیں جبکہ ان کے گھر والے گھر میں نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہمارے اسکول میں مرد اور عورت اکٹھے تعلیم دیتے ہیں، جب خوبصورت عورت اُستانی پڑھانے کے لئے خوب “میک اَپ” کے ساتھ سامنے آتی ہے تو اس وقت بھی لڑکوں کو بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں۔ اسی طرح جب مرد اُستاد لڑکیوں کے سامنے آتے ہوں گے تو ان کے دِلوں کا کیا حال ہوگا؟ جناب! چند سالوں میں بہت عجیب و غریب واقعات پیش آئے جن کو زبان پر اور قلم کی زد میں لاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ مثلاً: ہمارے اسکول میں لڑکے لڑکیوں کے درمیان بداخلاقی کے کچھ ایسے سنگین واقعات پیش آئے کہ ان کو اسکول سے خارج کرنا پڑا، اور کتنے واقعات ایسے ہیں جو ہوتے ہیں لیکن ہر ایک دُوسرے کے عیوب پر پردہ ڈالتے ہوئے اسے منظرِ عام پر نہیں لاتا۔

          ۱:… کیا پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اس میں مخلوط نظامِ تعلیم شرعاً جائز ہے؟

          ۲:… کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمحرَم مردوں اور عورتوں کو آپس میں مل جل کر تعلیم دینے، تعلیم حاصل کرنے یا بینکوں میں ملازم یا کسی اور ادارے میں کام کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ ایسے میں تمام عورتیں بے پردہ ہوں؟

          ۳:… کیا پاکستان میں پردے کا کوئی قانون نافذ نہیں؟

          ۴:… کیا مخلوط نظامِ تعلیم سے اسلام کا مذاق نہیں اُڑایا جارہا ہے؟

          ۵:… کیا مخلوط نظامِ تعلیم اور مخلوط ملازمتوں کا گناہ اربابِ حکومت پر ہے؟ لڑکوں پر ہے یا لڑکیوں پر ہے؟ مردوں پر ہے یا عورتوں پر ہے؟ ان میں سے کون سب سے زیادہ عذابِ الٰہی کا مستحق ہے؟

ج… آپ کا خط کسی تبصرے کا محتاج نہیں، یہ حکومت کی، والدین کی اور معاشرے کے حساس افراد کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے، اور ان لوگوں کے لئے تازیانہٴ عبرت ہے جو کہ مخلوط (کو- ایجوکیشن) اسکولوں اور اداروں میں اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دِلوانا فخر سمجھتے ہیں اور ان کے بہترین مستقبل کی ضمانت سمجھتے ہیں، ان والدین کو سوچنا چاہئے کہ کہیں یہ مخلوط نظامِ تعلیم ان کے بچوں کی عزّتوں کا جنازہ نہ نکال دے اور کہیں ان کے بہترین مستقبل کے سہانے خواب ڈھیر نہ ہوجائیں۔

مرد، عورت کے اکٹھا حج کرنے سے مخلوط تعلیم کا جواز نہیں ملتا

س… گزارش یہ ہے کہ روزنامہ “جنگ” کراچی میں ایک خاتون کا انٹرویو شائع ہوا ہے، اس کے انٹرویو میں ایک سوال و جواب یہ ہے:

          “سوال:… پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے، مگر یہاں پر اسلامی نقطہٴ نظر سے خواتین کے لئے تعلیمی ماحول کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے، جیسے خواتین یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہ لانا وغیرہ، اس سلسلے میں آپ کچھ اظہارِ خیال فرمائیے۔

          جواب:… پاکستان میں ہر لحاظ سے تعلیمی ماحول خوشگوار ہے، میں دراصل اس کی حمایت میں نہیں ہوں، کیونکہ جب ہم نے خود مردوں کے شانہ بشانہ چلنا ہے تو پھر یہ علیحدگی کیوں؟ اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے “حج” جب اس میں خواتین علیحدہ نہیں ہوتیں تو تعلیم حاصل کرنے میں کیوں علیحدہ ہوں اور ہماری قوم بڑی مہذب و شائستہ ہے، میں نہیں سمجھتی کہ خواتین کو مخلوط تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دُشواری پیش آتی ہے، جب میں نے انجینئرنگ کی تو میں واحد لڑکی تھی اور ایک ہزار لڑکے تھے مگر مجھے کوئی دُشواری پیش نہیں آئی۔ زمانہٴ طالب علمی میں طلبہ و طالبات ایک دُوسرے کے بہت معاون و مددگار ہوتے ہیں۔”

          حضرت! اب سوال یہ ہے کہ کیا مخلوط تعلیم حج کی طرح جائز ہے؟ اس خاتون کا مخلوط تعلیم کو حج جیسے اہم اور دِینی فریضے پر قیاس کرکے مخلوط تعلیم کو صحیح قرار دینا کیسا ہے؟ اور کیا واقعی خواتین کو مخلوط تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دُشواری پیش نہیں آتی؟ اُمید واثق ہے کہ آپ تشفی فرمائیں گے۔

ج… حج کے مقامات تو مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہیں، اس لئے مرد و عورت دونوں کو اکٹھے مناسک ادا کرنے ہوتے ہیں، لیکن حکم وہاں بھی یہی ہے کہ عورتیں حتی الوسع حجاب کا اہتمام رکھیں، مردوں کے ساتھ اختلاط نہ کریں، اور مرد نامحرَم عورتوں کو نظر اُٹھاکر نہ دیکھیں۔ پھر وہاں کے مقامات بھی مقدس، ماحول بھی مقدس اور جذبات بھی مقدس و معصوم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی غالب ہوتا ہے، اس کے برعکس تعلیم گاہوں کا جیسا ماحول ہے سب کو معلوم ہے، پھر وہاں لڑکے لڑکیاں بن ٹھن کر جاتی ہیں، جذبات بھی ہیجانی ہوتے ہیں، اس لئے تعلیم گاہوں کو خانہ کعبہ اور دیگر مقاماتِ مقدسہ پر قیاس کرنا کھلی حماقت ہے۔

  • Tweet

What you can read next

رُسومات
معاملات
سیاست
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP