SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Tuesday, 17 August 2010 / Published in جلد ششم

رشوت

 

نوکری کے لئے رشوت دینے اور لینے والے کا شرعی حکم

س… رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں، لیکن بعض معاشرتی بُرائیوں کے پیشِ نظر رشوت لینے والا خود مختار ہوتا ہے اور زبردستی رشوت طلب کرتا ہے، اور رشوت دینے والا، دینے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ انکار کرتا ہے تو اس کا کام روک دیا جاتا ہے، کیونکہ بعض کام ہیں جس کے بغیر اس معاشرے میں نہیں رہ سکتا۔ اور بعض لوگ نوکریاں دِلانے کے لئے بھی رشوت لیتے ہیں، اور کیا نوکری حاصل کرنے والا شخص جو رشوت دے کر نوکری حاصل کرتا ہے تو کیا اس کا کمایا ہوا رزق حلال ہوگا؟ کیونکہ ایسا شخص بھی خوشی سے رشوت نہیں دیتا، تو ان حالات میں لینے والا اور رشوت دینے والا ان دونوں کے لئے کیا حکم ہے؟

ج… رشوت لینے والا تو ہر حال میں ”فی النار“ کا مصداق ہے، اور رشوت دینے والے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دی جائے تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ موٴاخذہ نہیں فرمائیں گے۔ رشوت دے کر جو نوکری حاصل کی گئی ہو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ شخص اس ملازمت کا اہل ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اسے ٹھیک ٹھیک انجام دیتا ہے تو اس کی تنخواہ حلال ہے، (گو رشوت کا وبال ہوگا)، اور اگر وہ اس کام کا اہل ہی نہیں تو تنخواہ بھی حلال نہیں۔

دفعِ ظلم کے لئے رشوت کا جواز

س… آپ نے ایک جواب میں لکھا ہے کہ دفعِ مضرّت کے لئے رشوت دینا جائز ہے، حالانکہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں ملعون ہیں، پھر آپ نے کیوں جواز کا قول فرمایا ہے؟

ج… رشوت کے بارے میں جناب نے مجھ پر جو اعتراض کیا تھا، میں نے اعترافِ شکست کے ساتھ اس بحث کو ختم کردینا چاہا تھا، لیکن آنجناب نے اس کو بھی محسوس فرمایا، اس لئے مختصراً پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر اس سے شفا نہ ہو تو سمجھ لیا جائے کہ میں اس سے زیادہ عرض کرنے سے معذور ہوں۔

          جناب کا یہ ارشاد بجا ہے کہ رشوت قطعی حرام ہے، خدا اور رسول نے راشی اور مرتشی دونوں پر لعنت کی ہے، اور اس پر دوزخ کی وعید سنائی ہے۔ لیکن جناب کو معلوم ہے کہ اضطرار کی حالت میں مردار کی بھی اجازت دے دی جاتی ہے، کچھ یہی نوعیت رشوت دینے کی ہے۔ ایک شخص کسی ظالم خونخوار کے حوالے ہے، وہ ظلم دفع کرنے کے لئے رشوت دیتا ہے، فقہائے اُمت اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ”اُمید ہے کہ اس پر موٴاخذہ نہ ہوگا“ اور یہی میں نے لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس پر عام حالات کا قانون نافذ نہیں ہوسکتا، اس لئے رشوت لینا تو ہر حال میں حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے، اور رشوت دینے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ جلبِ منفعت کے لئے رشوت دے، یہ حرام ہے، اور یہی مصداق ہے ان احادیث کا جن میں رشوت دینے پر وعید آئی ہے۔ اور دُوسری صورت یہ کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دینے پر مجبور ہو، اس کے بارے میں فقہاء فرماتے ہیں کہ: ”اُمید ہے کہ موٴاخذہ نہ ہوگا“، اس صورت پر جناب کا یہ فرمانا کہ: ”میں اللہ اور رسول کے مقابلے میں فقہاء کی تقلید پر زور دے رہا ہوں“ بہت ہی افسوس ناک الزام ہے۔ اسی لئے میں نے لکھا کہ: ”آپ ماشاء اللہ خود ”مجتہد“ ہیں، مجتہد کے مقابلے میں مقلد بے چارہ کیا کرسکتا ہے؟“ آپ کا یہ فرمانا کہ: ”عوام علمائے کرام پر اعتماد کرتے ہیں، مگر ان میں خلوص چاہئے“ بجا ہے، لیکن جناب نے تو بے اعتمادی کی بات کی تھی، جس پر مجھے اعترافِ شکست کرنا پڑا۔

کیا رشوت دینے کی خاطر رشوت لینے کے بھی عذرات ہیں؟

س… ایک سوال کرنے والے نے آپ سے پوچھا کہ: ”ایسے موقع پر جبکہ اپنا کام کرانے کے لئے (ناحق) پیسے ادا کئے بغیر کام نہ ہو رہا ہو تو پیسے دے کر اپنا کام کرانا جبکہ کسی دُوسرے کا حق بھی نہ مارا گیا ہو، رشوت ہے کہ نہیں؟“ آپ نے جواب میں فرمایا ہے کہ: ”دفعِ ظلم کے لئے رشوت دی جائے تو توقع ہے کہ گرفت نہیں ہوگی، گو کہ رشوت لینا ہر حال میں حرام ہے، یعنی رشوت لینا ہر حال میں حرام ہے، لیکن ایسی مجبوری ہو تو دینے والا رشوت دے دے اور اُمید رکھے کہ یہ گناہ معاف ہوجائے گا۔“

          رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہیں، اور دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کی خبر دی گئی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، اسے حلال، اور جس کو حلال کیا ہے، اسے حرام نہ کیا کرو۔ آپ عالمِ دِین ہیں، آپ مجھ سے زیادہ ان باتوں کا علم اور شعور رکھتے ہیں، اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بحالتِ مجبوری رشوت دینے سے اس گناہ کی گرفت سے بچنے کی اُمید کی جاسکتی ہے، تو پھر کئی دیگر جرائم کے ارتکاب کا جواز پیدا ہوسکتا ہے، مثلاً: کوئی شخص بیروزگاری کی حالت میں چوری کرے تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے تو اس کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ چوری کے گناہ اور سزا سے بچ جائے گا۔ اسی طرح جھوٹ بولنے کے بغیر زیادہ نقصان کا خطرہ ہو تو ضرورتاً جھوٹ بولنے کی معافی بھی ہوسکتی ہے۔ شدید جذبات سے مغلوب ہوکر زنا کے مرتکب ہونے والے سے بھی رعایت ہوسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میرے محترم! غور فرمائیے، رشوت جیسے قطعی حرام فعل میں رعایت دینے سے بات کہاں تک پہنچ جاتی ہے؟

          علاوہ ازیں آپ کے فتوے سے قارئین پر کیا اثر ہوگا؟ اس پر بھی نگاہ فرمائیے، یہ تو عیاں ہے کہ لوگ مجبور ہوکر رشوت دیتے ہیں، ورنہ حکام یا دفتروں کے پھیرے لگاتے رہو، کام نہیں ہوتا۔ رضا و رغبت سے کوئی رشوت نہیں دیتا۔ دُوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات ایسے ہیں کہ رشوت لینے والے بھی کسی حد تک مجبوری ہی سے لیتے ہیں۔ آپ کے فتوے کا عوام پر یہ اثر ہوگا کہ وہ چند ایک نیک دِل حضرات جو رشوت دینا قطعی حرام سمجھ کر اس کی مدافعت کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہ بھی یہ جان کر کہ مجبوری اور تکلیف (جسے آپ نے ”ظلم“ کہا ہے) سے بچنے کی صورت میں رشوت دے دینے اور اس گناہ کی سزا سے بچ جانے کی توقع ہے، اب اپنی مٹھی آسانی سے ڈھیلی کردیں گے۔

          مولانا صاحب! اس رشوت کے عذاب کا جو قوم پر مسلط ہے، آپ نے اندازہ لگایا ہے؟ رشوت کے ہاتھوں سارا نظامِ حکومت درہم برہم ہوگیا ہے، قرآن و کتاب کی حکمرانی ایک بے معنی سی بات بن کر رہ گئی ہے، عدل و انصاف کا اس سے گلا گھونٹا جارہا ہے، رزقِ حلال کا حصول جو مسلمان کے ایمان کو قائم رکھنے کا تنہا ذریعہ ہے، ایک خواب و خیال بن چکا ہے۔ مختصر یہ کہ ایمان والوں کے معاشرے میں یہودیت (سرمایہ پرستی) فروغ پارہی ہے۔ کیا رشوت ان جرائم کے اثرات سے کم ہے جن کی حد قرآنِ کریم نے مقرّر فرمائی ہے؟ آج رشوت کے بُرے اثرات کا نفوذ ان جرائم سے بھی کہیں زیادہ ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ رشوت کو بھی روکنے کے اقدامات اسی سنجیدگی سے کئے جائیں۔ یہی نہیں بلکہ عوام کے دِل و دِماغ میں بٹھایا جائے کہ حرام کی کمائی اور مسلمان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ساتھ ہی حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ قرآنِ کریم کے معاش کے متعلق اَحکام کے نفاذ کو اوّلیت دی جائے اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سادہ اور درویشانہ زندگی کو اپنے لئے نمونہ بنایا جائے۔ اُمید ہے آپ مجھے اس تلخ نوائی کے لئے معاف فرمائیں گے اور ایک دردمند دِل کی آواز سمجھ کر اسے درخور اعتنا سمجھیں گے۔

ج:… آپ کا خط ہمارے معاشرے کے لئے بھی اور حکومت اور کارکنان کے لئے بھی لائقِ عبرت ہے۔ اور میں نے جو مسئلہ لکھا ہے کہ: ”مظلوم اگر دفعِ ظلم کے لئے رشوت دے کر خونخوار درندوں سے اپنی گردن خلاصی کرائے تو توقع ہے کہ اس پر گرفت نہ ہوگی“ یہ مسئلہ اپنی جگہ دُرست ہے۔ آخر مظلوم کو کسی طرح تو دادرسی کا حق ملنا چاہئے، عام حالات میں جو رشوت کا لین دین ہوتا ہے، یہ مسئلہ اس سے متعلق نہیں۔

انتہائی مجبوری میں رشوت لینا

س… کچھ دن قبل میری ملاقات اپنے ایک کلاس فیلو سے ہوئی جو کہ موجودہ وقت میں آزاد کشمیر کے ایک جنگل میں فارسٹر کی حیثیت سے ملازم ہے، میں نے اس سے رشوت کے سلسلے میں جب بات کی تو اس نے جو کہانی سنائی کچھ یوں تھی:

          میری بیسک تنخواہ ۳۲۵ روپے ہے، کل الاوٴنس وغیرہ ملاکر مبلغ چار سو روپے ماہوار تنخواہ بنتی ہے، میں جس جنگل میں تعینات ہوں وہ میرے گھر سے پندرہ میل کے فاصلے پر ہے، میرا آنے جانے کا کرایہ، میری بیوی، بچے جن کی کل تعداد سات ہے، ان کے کھانے پینے کا انتظام، کپڑا جوتے، علاج معالجہ، مہمان، غرض یہ کہ دُنیا میں جو کچھ بھی نظام ہے وہ جائز طریقے سے مجھے چلانا پڑتا ہے، اور پھر میرے جنگل میں دورے پر آنے والے جنگلات کے افسران جس میں ایف ڈی اور رینجر صاحب اور دیگر افسران یہاں تک کہ صدر آزاد کشمیر بھی سال میں ایک مرتبہ دورہ کرتے ہیں، اب ان سب لوگوں کے دورے کے دوران جتنا بھی خرچہ ہوتا ہے وہ اس علاقے کے فارسٹر اور پٹواری کے ذمے ہوتا ہے جو کہ کبھی دو تین ہزار سے کم نہیں ہوتا، اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں اور پٹواری یہ تین ہزار کہاں سے دیں گے، اگر رشوت نہیں لیں گے؟ یہ سوال اس نے مجھ سے کیا تھا۔ جواب آپ دیں کہ آیا ان حالات میں رشوت لینا کیسا ہے؟

ج… رشوت لینا تو گناہ ہے، باقی یہ شخص کیا کرے؟ اس کا جواب تو افسرانِ بالا ہی دے سکتے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے کہ ملازمین کو اتنی تنخواہ ضرور دی جائے جس سے وہ اپنے بال بچوں کی پروَرِش کرسکیں، اور ان پر اضافی بوجھ بھی، جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے، نہیں ڈالنا چاہئے۔

رشوت کی رقم سے اولاد کی پروَرِش نہ کریں

س… رشوت آج کل ایک بیماری کی صورت اختیار کرگئی ہے، اور اس مرض میں آج کل ہر ایک شخص مبتلا ہے۔ میرے والد صاحب بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔ میں انٹر کا طالب علم ہوں اور مجھے اس بات کا اب خیال آیا کہ میرے والد صاحب میری پڑھائی لکھائی پر، میرے کھانے وغیرہ پر جو کچھ خرچ کر رہے ہیں، وہ سب رشوت سے ہے۔ آپ مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ کیا میں والد صاحب کی حرام کمائی سے پڑھتا لکھتا رہوں، کھاتا پیتا رہوں؟ یا میں اپنا گھر چھوڑ کر کہیں چلا جاوٴں اور محنت کرکے اپنی گزر اوقات کروں یا کوئی اور راستہ اختیار کروں؟

ج… اگر آپ کے والد کی کمائی کا غالب حصہ حرام ہے تو اس میں سے لینا جائز نہیں، آپ اپنے والد صاحب کو کہہ دیجئے کہ وہ آپ کو جائز تنخواہ کے پیسے دیا کریں، رشوت کے نہ دیا کریں۔

شوہر کا لایا ہوا رشوت کا پیسہ بیوی کو استعمال کرنے کا گناہ

س… اگر شوہر رشوت لیتا ہو اور عورت اس بات کو پسند بھی نہیں کرتی ہو، اور اس کے ڈَر سے منع بھی نہیں کرسکتی تو کیا اس کمائی کے کھانے کا عورت کو بھی عذاب ہوگا؟

ج… شوہر اگر حرام کا روپیہ کماکر لاتا ہے تو عورت کو چاہئے کہ پیار محبت سے اور معاملہ فہمی کے ساتھ شوہر کو اس زہر کے کھانے سے بچائے، اگر وہ نہیں بچتا تو اس کو صاف صاف کہہ دے کہ: ”میں بھوکی رہ کر دن کاٹ لوں گی، مگر حرام کا روپیہ میرے گھر نہ لایا جائے، حلال خواہ کم ہو میرے لئے وہی کافی ہے۔“ اگر عورت نے اس دستور العمل پر عمل کیا تو وہ گناہگار نہیں ہوگی، بلکہ رشوت اور حرام خوری کی سزا میں صرف مرد پکڑا جائے گا، اور اگر عورت ایسا نہیں کرتی بلکہ اس کا حرام کا لایا ہوا روپیہ خرچ کرتی ہے تو دونوں اکٹھے جہنم میں جائیں گے۔

رشوت کی رقم سے کسی کی خدمت کرکے ثواب کی اُمید رکھنا جائز نہیں

س… میرے ایک افسر ہیں، جو اپنے ماتحت کی خدمت میں حاتم طائی سے کم نہیں، کسی کو اس کی لڑکی کی شادی پر جہیز دِلاتے ہیں، کسی کو پلاٹ اور کسی کو فلیٹ بُک کرادیتے ہیں، وہ یہ سب اپنے حصے کی رشوت سے کرتے ہیں اور خود ایمان دار ہیں۔ آپ سے مذہب کی رُو سے دریافت کرنا ہے کہ کیا ان کو ان تمام خدمات کے صلے میں ثواب ملے گا اور ان کا ایمان باقی رہے گا؟

ج… رشوت لینا حرام ہے، اور اس حرام روپے سے کسی کی خدمت کرنا اور اس پر ثواب کی توقع رکھنا بہت ہی سنگین گناہ ہے۔ بعض اکابر نے لکھا ہے کہ حرام مال پر ثواب کی نیت کرنے سے ایمان سلب ہوجاتا ہے۔ آپ کے حاتم طائی کو چاہئے کہ رشوت کا روپیہ اس کے مالک کو واپس کرکے اپنی جان پر صدقہ کریں۔

رشوت کی رقم نیک کاموں پر خرچ کرنا

س… اگر کوئی شخص رشوت لیتا ہے اور اس رشوت کی کمائی کو کسی نیک کام میں خرچ کرتا ہے، مثلاً: کسی مسجد یا مدرسہ کی تعمیر میں خرچ کرتا ہے، تو کیا اس شخص کو اس کام کا ثواب ملے گا؟ اگرچہ ثواب و عذاب کے بارے میں خدا تعالیٰ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، مگر خدا اور رسول کے اَحکام و طریقوں کی روشنی میں اس کا جواب دے کر مطمئن فرمائیں۔

ج… رشوت کا پیسہ حرام ہے، اور حدیث میں ارشاد ہے کہ: ”آدمی حرام کماکر اس میں سے صدقہ کرے، وہ قبول نہیں ہوتا“ حضراتِ فقہاء نے لکھا ہے کہ مالِ حرام میں صدقے کی نیت کرنا بڑا ہی سخت گناہ ہے، اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص گندگی جمع کرکے کسی بڑے آدمی کو ہدیہ پیش کرے، تو یہ ہدیہ نہیں گا بلکہ اس کو گستاخی تصوّر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں گندگی جمع کرکے پیش کرنا بھی گستاخی ہے۔

کمپنی کی چیزیں استعمال کرنا

س:۱… اگر کوئی شخص جس کمپنی میں کام کرتا ہو، وہاں سے کاغذ، پنسل، رجسٹر یا کوئی ایسی چیز جو آفس میں اس کے استعمال کی ہو، گھر لے جائے اور ذاتی استعمال میں لے آئے، کیا یہ جائز ہے؟

س:۲… یا آفس میں ہی اسے ذاتی استعمال میں لائے۔

س:۳… گھر میں بچوں کے استعمال میں لائے۔

س:۴… آفس کے فون کو ذاتی کاروبار، یا نجی گفتگو میں استعمال کرے۔

س:۵… کمپنی کی خرید و فروخت کی چیزوں میں کمیشن وصول کرنا۔

س:۶… آفس کے اخبار کو گھر لے جانا وغیرہ۔

ج… سوال نمبر۵ کے علاوہ باقی تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ اگر کمپنی کی طرف سے اس کی اجازت ہے تو جائز ہے، ورنہ جائز نہیں، بلکہ چوری اور خیانت ہے۔ سوال نمبر۵ کا جواب یہ ہے کہ ایسا کمیشن وصول کرنا رشوت ہے، جس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

کالج کے پرنسپل کا اپنے ماتحتوں سے ہدیے وصول کرنا

س… میں ایک مقامی کالج میں پرنسپل ہوں، میرے ماتحت بہت سے لیکچرار، کلرک اور عملہ کام کرتا ہے۔ وہ لوگ مجھے وقتاً فوقتاً تحفے دیتے رہتے ہیں، جن میں برتن، مٹھائیوں کے ڈَبے، بڑے بڑے کیک اور مختلف جگہوں کی سوغات میرے لئے لاتے ہیں، جن میں پاکستان کے مختلف شہروں کی چیزیں ہوتی ہیں، اس کے علاوہ ایڈمیشن کے وقت لوگوں کے والدین کافی مٹھائیوں کے ڈَبے لاتے ہیں اور میں خاموشی سے لے کر رکھ لیتا ہوں۔ میرے گھر والے اور رشتہ دار یہ چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں نہیں لینی چاہئیں کیونکہ یہ رشوت کا معزّز طریقہ ہے۔ جو چیزیں وہ لوگ اپنی خوشی سے مجھے بڑا سمجھ کر دے جاتے ہیں، بتائیے میں لوں یا انکار کردُوں؟ میری بیوی بھی یہ کہتی ہے کہ یہ چیزیں اپنی خوشی سے لاتے ہیں، لینا ہمارا فرض ہے، ہم ان سے مانگتے نہیں۔ آپ جواب ضرور دیں۔

ج… جو لوگ ذاتی تعلق و محبت اور بزرگ داشت کے طور پر ہدیہ پیش کرتے ہیں وہ تو ہدیہ ہے، اور اس کا استعمال جائز اور صحیح ہے۔ اور جو لوگ آپ سے آپ کے عہدے کی وجہ سے منفعت کی توقع پر مٹھائی پیش کرتے ہیں، یعنی آپ نے ان کو اپنے عہدے کی وجہ سے نفع پہنچایا ہے یا آئندہ اس کی توقع ہے، یہ رشوت ہے، اس کو قبول نہ کیجئے، نہ خود کھائیے، نہ گھر والوں کو کھلائیے۔ اور اس کا معیار یہ ہے کہ اگر آپ اس عہدے پر نہ ہوتے، یا اس عہدے سے سبکدوش ہوجائیں تو کیا پھر بھی یہ لوگ آپ کو ہدیہ دیا کریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو یہ ہدیے بھی رشوت ہیں، اور اگر ان ہدیوں کا آپ کے منصب اور عہدے سے کوئی تعلق نہیں تو یہ ہدیے آپ کے لئے جائز ہیں۔

اِنکم ٹیکس کے محکمے کو رشوت دینا

س… اِنکم ٹیکس کا محکمہ خصوصاً اور دیگر سرکاری محکمے بغیر رشوت دئیے کوئی کام نہیں کرتے، جائز کام کے لئے بھی رشوت طلب کرتے ہیں، اگر رشوت نہ دی جائے تو ہر طرح سے پریشان کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ آدمی کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے، مجبوراً آدمی رشوت دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اب گناہ کس پر ہوگا؟ دینے والے پر بھی، یا صرف لینے والے پر؟ (یہاں پر واضح کر دُوں کہ کوئی بھی شخص اپنی جائز اور محنت کی آمدنی سے رشوت دینے کے لئے خوش نہیں، بلکہ مجبور ہوکر دینے پر تیار ہونا پڑتا ہے، بلکہ مجبور کیا جاتا ہے)۔

ج… رشوت اگر دفعِ ظلم کے لئے دی گئی ہو تو اُمید کی جاتی ہے کہ دینے والے کے بجائے صرف لینے والے کو گناہ ہوگا۔

محکمہٴ فوڈ کے راشی افسر کی شکایت افسرانِ بالا سے کرنا

س… میں ایک دُکان دار ہوں، ہمارے پاس ”کے ایم سی“ کی طرف سے فوڈ انسپکٹر پسی ہوئی چیزیں لیبارٹری پر چیک کرانے کے لئے لے جاتے ہیں۔ ہم میں کچھ دُکان دار ایسے بھی ہیں جو ملاوٹ کرکے اشیاء فروخت کرتے ہیں اور فوڈ انسپکٹر کو ہر ماہ کچھ رقم رشوت کے طور پر دیتے ہیں۔ اب جو دُکان دار ملاوٹ نہیں کرتے، ان کی اشیاء میں نادانستہ طور پر مٹی کے ذرّات یا کوئی اور چیز مکس ہوجاتی ہے جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتی اور لیبارٹری میں پتا چل جاتا ہے اور سیمپل فیل ہوجاتا ہے۔ کیا اس صورت میں ہمیں انسپکٹر صاحب کو ماہانہ رقم دینا چاہئے کہ نہیں؟

ج… کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے راشی افسر کی شکایت حکامِ بالا سے کی جائے؟ رشوت کسی بھی صورت میں دینا جائز نہیں۔

ٹھیکے دار کا افسران کو رشوت دینا

س… میں سرکاری ٹھیکے دار ہوں، مختلف محکموں میں پانی کی ترسیل کی لائنیں بچھانے کے ٹھیکے ہم لیتے ہیں، ہم جو ٹھیکے لیتے ہیں وہ باقاعدہ ٹینڈر فارم جمع کراکے مقابلے میں حاصل کرتے ہیں، مقابلہ یوں کہ بہت سے ٹھیکے دار اس ٹھیکے کے لئے اپنی اپنی رقم لکھتے ہیں اور بعد میں ٹینڈر سب کے سامنے کھولے جاتے ہیں، جس کی قیمت کم ہوتی ہے، سرکار اسے ٹھیکہ دے دیتی ہے۔ اس کام میں ہم اپنا ذاتی حلال کا پیسہ لگاتے ہیں اور سرکار نے پانی کے پائپوں کا جو معیار مقرّر کیا ہے وہی پائپ لیتے ہیں جو کہ محکمے سے منظور شدہ کمپنی سے خریدا جاتا ہے، اور جو قسم محکمے والے مقرّر کرتے ہیں، وہی خریدتے ہیں۔ ہم اپنے طور پر کام ایمان داری سے کرتے ہیں، مگر چند ایک چھوٹی چیزیں مثلاً پائپ جوڑنے والا آلہ جس کی موٹائی محکمے والے ۱۰ اِنچ مقرّر کرتے ہیں، وہ ہم پانچ اِنچ موٹائی کا لگادیتے ہیں۔ اس سے لائن کی مضبوطی میں فرق نہیں پڑتا لیکن ہمارے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ محکمے کے افسران جو کہ اس کام پر مأمور ہوتے ہیں ان کو ہمیں لازماً افسران کے عہدوں کے مطابق ٹینڈر کی قیمت کے ۲ فیصد سے ۵ فیصد تک پیسے دینے پڑتے ہیں، جبکہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور محکمے سے تنخواہ لیتے ہیں، اور جو پیسے وہ ہم سے لیتے ہیں وہ سرکار کے خزانے میں نہیں بلکہ ان کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اگر ہم انہیں یہ پیسے نہ دیں تو وہ کام میں رُکاوٹ ڈالتے ہیں، اور اگر ہم سو فیصد کام صحیح کریں جب بھی اس میں نقص نکال کر ہمارے پیسے رُکوادیتے ہیں اور آئندہ کے لئے کاموں میں رُکاوٹ ڈال دیتے ہیں۔ آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ یہ بتائیے کہ ہماری یہ آمدنی حلال ہے کہ نہیں؟ کیونکہ اگر ہم افسران کو پیسہ نہ دیں تو وہ ہماری سو فیصد ایمان داری کے باوجود ہمارے کام بند کرادیتے ہیں اور ہمارے بل رُکوادیتے ہیں۔ کام شروع سے ہم اپنے ذاتی پیسوں سے کرتے ہیں، اور تکمیل کے دوران سرکار ہمیں کچھ ادائیگی کرتی رہتی ہے، جبکہ رقم کا بڑا حصہ ہمارا ذاتی پیسہ ہوتا ہے۔

ج… رشوت ایک ایسا ناسور ہے جس نے پورے ملک کا نظام تلپٹ کر رکھا ہے، جن افسروں کے منہ کو یہ حرام خون لگ جاتا ہے وہ ان کی زندگی کو بھی تباہ کردیتا ہے اور ملکی انتظام کو بھی متزلزل کردیتا ہے، جب تک سرکاری افسروں اور کارندوں کے دِل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے دن کے حساب و کتاب اور قبر کی وحشت و تنہائی میں ان چیزوں کی جواب دہی کا احساس پیدا نہ ہو، تب تک اس سرطان کا کوئی علاج نہیں کیا جاسکتا۔ آپ سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو ان کتوں کو ہڈی ڈالنے سے پرہیز کریں، اور جہاں بے بس ہوجائیں وہاں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔

ٹھیکے داروں سے رشوت لینا

س… میں بلڈنگ ڈپارٹمنٹ میں سب انجینئر ہوں، ملازمت کی مدّت تین سال ہوگئی ہے، ہمارے یہاں جب کوئی سرکاری عمارت تعمیر ہوتی ہے تو ٹھیکے دار کو ٹھیکے پر کام دے دیا جاتا ہے، اور ہم ٹھیکے دار سے ایک لاکھ ۲۰ ہزار روپے کمیشن لیتے ہیں، جس میں سب کا حصہ ہوجاتا ہے (یعنی چپراسی سے لے کر چیف انجینئر تک)، اس میں ۲ فیصد حصہ میرا بھی ہوتا ہے، ایک لاکھ پر دو ہزار، یہ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ہوتا ہے۔ اس وقت میرے زیر نگرانی ۲۰ لاکھ کا کام ہے اور ہر ماہ ۴ لاکھ کے بل بن جاتے ہیں، اس طرح ۸ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ مجھ کو مل جاتے ہیں، جبکہ تنخواہ صرف ۱۷۰۰ روپے ہے۔ ٹھیکے دار حضرات کام کو دئیے ہوئے شیڈول کے مطابق نہیں کرتے، اور ناقص مٹیریل استعمال کرتے ہیں۔ سیمنٹ، لوہا وغیرہ گورنمنٹ کے دئیے ہوئے معیار کے مطابق نہیں لگاتے، حتیٰ کہ بہت سی اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کا صرف کاغذات پر اندراج ہوتا ہے اور درحقیقت جائے وقوع پر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ لیکن ہم لوگوں کو غلط اندراج کرنا پڑتا ہے اور غلط تصدیق کرنا پڑتی ہے۔ جب ہم کسی منصوبے کا اسٹیٹمنٹ بناتے ہیں تو اس کو پہلے سپرنٹنڈنگ انجینئر کے پاس لے جانا پڑتا ہے، جہاں پر سائٹ انچارج سے اس کو پاس کرانے کے لئے آفیسر اور اسٹاف کو کام کی نسبت سے کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد وہ فائل چیف انجینئر کے آفس میں جاتی ہے، وہاں اس کو بھی کام کی نسبت سے کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اور اس کا ایک اُصول بنایا ہوا ہے، اس کے بغیر اسٹیٹمنٹ پاس نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے ہم لوگوں کو بھی ٹھیکے داروں سے مجبوراً کمیشن لینا پڑتا ہے، ورنہ ہم اگلے مراحل میں ادائیگی کہاں سے کریں۔ ٹھیکے دار اس کمی کو پورا کرتا ہے خراب مال لگاکر اور کام میں چوری کرکے، جس کا ہم سب کو علم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح ہم جھوٹ، بددیانتی، رشوت، سرکاری رقم (جو کہ درحقیقت عوام کی ہے) میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس کو بُرا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ میرا دِل اس عمل سے مطمئن نہیں ہے۔ براہِ کرم میری سرپرستی فرماویں کہ آیا میں کیا کروں؟ کیا دُوسروں کو ادا کرنے کے لئے کمیشن لے لوں اور اس میں سے اپنے پاس بالکل نہ رکھوں؟ یا کچھ اپنے پاس بھی رکھوں؟ یا ملازمت چھوڑ دُوں؟ کیونکہ مذکورہ بالا حالات میں سارے غلط اُمور کرنا پڑتے ہیں۔

ج… جن قباحتوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کی اجازت تو نہ عقل دیتی ہے نہ شرع، نہ قانون نہ اخلاق، اگر آپ ان لعنتوں سے نہیں بچ سکتے تو اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ نوکری چھوڑ دیجئے، اور کوئی حلال ذریعہٴ معاش اپنائیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آپ نوکری چھوڑ دیں گے تو بچوں کو کیا کھلائیں گے؟ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ دُوسری جگہ حلال ذریعہ معاش تلاش کرنے کے بعد ملازمت چھوڑئیے، پہلے نہ چھوڑئیے۔ دُوسرا جواب یہ ہے کہ آپ ہمت سے کام لے کر اس بُرائی کے خلاف جہاد کیجئے اور رشوت کے لینے اور دینے سے انکار کردیجئے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے محکمے کے تمام شریکِ کار افسرانِ بالا سے لے کر ماتحتوں تک آپ کے خلاف ہوجائیں گے، اور آپ کے افسر آپ کے خلاف جھوٹے سچے الزامات عائد کرکے آپ کو برخاست کرانے کی سعی کریں گے۔ اس کے جواب میں آپ اپنے مندرجہ بالا خط کو سنوار کر مع ثبوتوں کے صفائی نامہ پیش کردیجئے، اور اس کی نقول صدرِ مملکت، وزیراعظم، صوبائی حکومت کے اَربابِ اقتدار اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی وغیرہ کو بھیج دیجئے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کا محکمہ آپ کو نوکری سے الگ کردے گا، لیکن پھر اِن شاء اللہ آپ پر زیادہ خیر و برکت کے دروازے کھلیں گے۔ اگر آپ محکمے کی ان زیادتیوں سے کسی بڑے اَربابِ حل و عقد کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کی نوکری بھی نہیں جائے گی، البتہ آپ کو کسی غیراہم کام پر لگادیا جائے گا اور آپ کو ۱۷۰۰ روپے میں گزر اوقات کرنی پڑے گی، جس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ آپ خالی وقت میں کوئی کام کرسکیں۔ تو میرے عزیز! جس طرح آپ ہزاروں میں سے ایک ہیں جو مجھ کو ایسا تقوے والا خط لکھ سکتے ہیں، اسی طرح کسی نہ کسی کو اس اندھیرنگری میں حق کی آواز اُٹھانی ہے، اللہ کی مدد آپ کے شاملِ حال ہو اور ہم خیال بندے آپ کی نصرت کریں۔

دفتری فائل دِکھانے پر معاوضہ لینا

س… میں ایک دفتر میں ملازم ہوں، ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی فائل دیکھنے آتا ہے کہ میری فلاں فائل ہے، وہ نکل جائے، یا میری فائل نمبر یہ ہے، اگر دِکھادیں تو بہت مہربانی ہوگی، اور یہ کہ یہ چیز اس میں سے ٹائپ کرکے مجھے دے دیں، ہمارے سینئر کلرک ان سب باتوں کو پورا کردیتے ہیں۔ وہ شخص سینئر صاحب کو کچھ رقم دے دیتا ہے، ہمارے سینئر صاحب اس میں سے ہمیں بھی دیتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ یہ رشوت تو نہ ہوئی؟ اور اگر ہوئی تو بھی تو اس کی ذمہ داری ہمارے سینئر کلرک پر آئے گی یا ہم پر؟ اگر اس مسئلے کا حل بتادیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔

ج… فائل نکلوانے، دِکھانے اور ٹائپ کرنے کی اگر سرکار کی اُجرت مقرّر ہے، تو اس اُجرت کا وصول کرنا صحیح ہے (اور اس کا مصرف وہ ہے جو قانون میں مقرّر کیا گیا ہو)، اس کے علاوہ کچھ لینا رشوت ہے اور گناہ میں وہ سب شریک ہوں گے جن جن کا اس میں حصہ ہوگا۔

کسی ملازم کا ملازمت کے دوران لوگوں سے پیسے لینا

س… کسی ملازم کو تنخواہ کے علاوہ ملازمت کے دوران کوئی شخص خوش ہوکر کچھ پیسے دے تو کیا وہ جائز ہے یا ناجائز؟ کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ان سے مانگتے نہیں ہیں، اور نہ ہم کسی کا دِل دُکھاتے ہیں، تو وہ رشوت نہیں ہے۔ اب آپ کتاب و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ وہ جائز ہیں یا نہیں؟

ج… اگر کام کرنے کا معاوضہ دیتے ہیں تو رشوت ہے، خواہ یہ مانگے یا نہ مانگے، اگر دوستی یا عزیزداری میں ہدیہ دیتے ہیں تو ٹھیک ہے۔

بخوشی دی ہوئی رقم کا سرکاری ملازم کو استعمال کرنا

س… میں جس فرم میں ملازم ہوں، وہاں اشیاء کی نقل و حرکت کے لئے ٹرانسپورٹرز سے معاہدہ ہے، جن کا کرایہ حکومت سے منظور شدہ ہوتا ہے اور انہیں ماہانہ ادائیگی کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے کرایوں کے نرخ میں اضافہ کردیا گیا، لیکن منظوری میں تأخیر کی وجہ سے اس دوران کا حساب کرکے ان کو بقایا جات ادا کئے گئے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس وقت ادائیگی کے بل ادا کئے گئے، لوگوں نے ان سے مٹھائی کا مطالبہ شروع کردیا، جس پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی، لیکن ان سے کہا گیا کہ ہمیں کچھ رقم دے دی جائے جس سے ہم پانچ چھ افراد پارٹی (لنچ یا ڈنر) کرسکیں۔ ان سے یہ رقم وصول کی گئی اور اس وقت یہ صاف طور پر کہہ دیا گیا کہ یہ پیسے کسی اور ضمن میں نہیں بلکہ آپ کی خوشی سے مٹھائی کے طور پر لئے جارہے ہیں۔ جس پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہیں ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔ ایک ٹرانسپورٹر نے اچھی خاصی رقم دی جسے تین افراد نے آپس میں تقسیم کرلیا اور باقی وصول ہونے والی رقم سے چار پانچ مرتبہ لنچ کیا گیا۔ برائے مہربانی آپ یہ وضاحت کردیں کہ یہ رقم کھانا جائز ہے جبکہ کھانے والے حضرات یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ آفس میں افسرانِ بالا کو یا اور لوگوں کو اس بات کا علم نہ ہو، جبکہ اس میں کسی اور منفعت کو دخل نہیں، ہمارا ادارہ ایک نجی ادارہ ہے۔

ج… اس قسم کی شیرینی جو سرکاری اہل کاروں کو دی جاتی ہے، رشوت کی مد میں آتی ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شیرینی نہیں بلکہ زہر ہے۔

رشوت لینے والے سے تحائف قبول کرنا

س… ایک شخص جو کہ ساتھی ہے یا رشتہ دار ہے، نماز روزے کا پابند ہے، یعنی اَحکامِ خداوندی بجا لاتا ہے، وہ ایسے محکمے میں کام کرتا ہے جہاں لوگ کام کے عوض روپیہ دیتے ہیں، حالانکہ وہ خود مانگتا نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ سلسلہ شروع سے چل رہا ہے اس لئے لوگ اس کو بھی بلاتے ہیں یا خود لاکر دیتے ہیں۔ دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس رقم سے خود، اس کے علاوہ دوستوں، رشتہ داروں کو تحفہ اور اس کے علاوہ نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے، آیا اس کا یہ دیا ہوا تحفہ یا نیک کاموں میں لگانا کہاں تک جائز ہے؟ مثال کے طور پر اگر اس نے کسی دوست یا رشتہ دار کو تحفے میں کپڑا دیا جبکہ واپسی کرنا دِل کو توڑنا ہے، جو کہ اسلام نے منع کیا ہے، اور اس کو یہ بات معلوم نہیں کہ یہ کپڑا جائز کمائی کا نہیں ہے، تو آیا اس کپڑے کو پہن کر نماز ہوجائے گی اور نماز پڑھ سکتا ہے کہ نہیں؟

ج… کام کے عوض جو روپیہ اس کو دیا جاتا ہے وہ رشوت ہے، اس کا لینا اس کے لئے جائز نہیں، اگر بعینہ اسی رقم سے کوئی چیز خرید کر وہ کسی کو تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا بھی جائز نہیں، اور اگر اپنی تنخواہ کی رقم سے یا کسی اور جائز آمدنی سے تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا دُرست ہے۔ اور اگر یہ معلوم نہ ہو کہ یہ تحفہ جائز آمدنی کا ہے یا ناجائز کا؟ تو اگر اس کی غالب آمدنی صحیح ہے تو تحفہ لے لینا دُرست ہے، ورنہ احتیاط لازم ہے، اور اگر اس کی دِل شکنی کا اندیشہ ہو تو اس سے تو لے لیا جائے مگر اس کو استعمال نہ کیا جائے، بلکہ بغیر نیتِ صدقہ کے کسی محتاج کو دے دیا جائے۔

کیلنڈر اور ڈائریاں کسی ادارے سے تحفے میں وصول کرنا

س… آج کل کیلنڈر اور ڈائریاں تقسیم کرنے کا رواج عام ہے، اصل میں تو یہ ایک عام اشتہاربازی ہے، مگر یہ چیزیں صرف متعلقہ اشخاص کو دی جاتی ہیں، مثلاً: اگر ایک پارٹی کسی بڑے مالی ادارے یا گورنمنٹ کو کوئی مال فراہم کرتی ہے تو سال کے شروع میں وہ خرید کے شعبے کے افراد کو ڈائری یا کیلنڈر تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔ کیا اس قسم کا تحفہ قبول کرنا ان افراد کو جائز ہے جو کہ کسی ادارے کے خرید کے شعبے میں ملازم ہیں؟ ہمیں یہ ڈَر ہے کہ کہیں یہ رشوت وغیرہ میں تو نہیں آتے۔

ج… اگر یہ ڈائریاں ایسی کمپنی یا ادارے کی جانب سے شائع کی گئی ہوں جن کی آمدنی شرعاً جائز ہے، تو ان کا لینا جائز ہے، ورنہ نہیں۔

رکشا، ٹیکسی ڈرائیور یا ہوٹل کے ملازم کو کچھ رقم چھوڑ دینا یا اُستاذ، پیر کو ہدیہ دینا

س… ہمارے معاشرے میں کارکنان کو طے شدہ اُجرت کے علاوہ کچھ رقم دینے کا رواج ہے، مثال کے طور پر رکشا و ٹیکسی کے میٹر کی رقم کے علاوہ اکثر ریزگاری بچتی ہے، وہ نہ تو رکشا، ٹیکسی ڈرائیور دینا چاہتا ہے اور نہ مسافر لینا چاہتا ہے، اور وہ رقم نذرانہ، شکرانہ یا بزبان انگریزی ”ٹپ“ تصوّر کی جاتی ہے۔ ہم یہ بات معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ڈرائیور حضرات جو رقم واجب کرایہ سے زائد لیتے ہیں وہ جائز ہے یا ناجائز؟ اس سے بڑھ کر مرید، پیر کو، شاگرد، اُستاذ کو، ہوٹل میں کھانا کھانے والا، بیرے کو دیتا ہے، آپ شرعی طور پر فرمائیں کیا یہ رقم خیرات ہے؟ دینے والے کو اس کا ثواب ملے گا؟ لینے والے کا جائز حق ہے؟

ج… اگر یہ زائد رقم خوشی سے چھوڑ دی جائے تو لینے والے کے لئے حلال ہے۔ اور اپنے بزرگوں کو ہدیہ یا چھوٹوں کو تحفے کے طور پر جو چیز برضا و رغبت دی جائے وہ بھی جائز ہے۔

مجبوراً رشوت دینے والے کا حکم

س… حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں دوزخی ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں بہت سی اور احادیث بھی ہوں گی۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس اور ڈرائیور حضرات کے درمیان یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ گاڑیوں سے ماہوار رشوت لیتے ہیں، بعض جگہ جب بھی کسی چوک میں گاڑی مل جائے تو روک کر روپے لیتے ہیں۔ اگر ان کو گاڑی کے کاغذات بتادئیے جائیں، کاغذ مکمل ہونے کی صورت میں پھر بھی وہ کوئی نہ کوئی الزام لگادیتے ہیں۔ مثلاً: ”گاڑی کا رنگ دُرست نہیں ہے، تم تیزرفتاری سے گاڑی چلاتے ہو۔“ اگر ان کو رشوت ۳۰ یا ۵۰ روپے نہ دئیے جائیں اور کہہ دیا جائے کہ چالان کرو اور ہم گورنمنٹ کو فیس دیں گے تو وہ چالان سلپ پر اتنی دفعات لگادیتے ہیں کہ جب ہم مجسٹریٹ کے سامنے جاتے ہیں تو وہ ۵۰۰، ۰۰۰,۱ روپے تک جرمانہ کرتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ ایک ماہ تک لائسنس کا بھی یا گاڑی کے کاغذات کا بھی پتا نہ چلے، یہ کام وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو آئندہ روپے آرام سے دئیے جائیں۔ پھر ایک ڈرائیور مجبوری سے ۳۰ یا ۵۰ روپے دے دیتا ہے اور اس کے عوض وہ اوور لوڈ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ گاڑی کے کاغذ نہیں رکھتے کہ کاغذ ہوتے ہوئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ میرا اس بیان سے مقصد یہ نہیں کہ ہم جرم کرتے رہیں اور روپے دیتے رہیں، بلکہ اگر کسی کا کوئی جرم ہے اور وہ روپے بھی دیتا ہے تو اسلام میں اس کا کیا مقام ہے؟ اگر سب کچھ دُرست ہونے کے باوجود صرف رشوت اس لئے دی جائے کہ وہ ناجائز تنگ کریں گے اور زیادہ روپے دینے پڑیں گے، کیا اس حدیث کی روشنی میں ڈرائیور اور پولیس والا دونوں کے لئے بس وہ حدیث ہوگی، یعنی دونوں کا جرم برابر کا ہوگا؟

ج… کوئی کام غیرقانونی تو حتی الوسع نہ کیا جائے، اس کے باوجود اگر رشوت دینی پڑے تو لینے والے اپنے لئے جہنم کا سامان کرتے ہیں، دینے والا بہرحال مجبور ہے، اُمید ہے کہ اس سے موٴاخذہ نہ ہوگا۔ اور اگر غیرقانونی کام کے لئے رشوت دی جائے تو دونوں فریق لعنت کے مستحق ہیں۔

ملازمین کے لئے سرکاری تحفہ جائز ہے

س… ”جنگ“ اخبار میں ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کے کالم میں آپ نے جو جواب ”تحفہ یا رشوت“ کے سلسلے میں شائع کیا ہے، اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں ملازم ہے اور اپنے کام میں وہ بھرپور محنت کرتا ہے تو ادارہ اس کی خدمات سے خوش ہوکر اگر اسے اضافی تنخواہ یا کوئی تحفہ دیتا ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، حالانکہ اگر یہ اسی عہدے پر قائم نہیں ہوتا تو یقینا نہیں ملتا، کیونکہ اسے اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ لیکن اب چونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ محنت اور خلوص سے کام کر رہا ہے اور انتظامیہ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے انعام دیتی ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ اسلام ہمیشہ محنت کشوں کی حوصلہ افزائی کی تاکید کرتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ کام کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے بلکہ انسان مزید بُرائیوں سے بھی بچتا ہے، لہٰذا مجھ گنہگار کی ناقص رائے ہے کہ آپ مزید اپنے اعلیٰ علمی تجربوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج… حکومت کی طرف سے جو کچھ دیا جائے، اس کے جائز ہونے میں کیا شبہ ہے؟ مگر سرکاری ملازم لوگوں کا کام کرکے ان سے جو ”تحفہ“ وصول کرے وہ رشوت ہی کی ایک صورت ہے۔ ہاں! اس کے دوست احباب یا عزیز و اقارب تحفہ دیں تو وہ واقعی تحفہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ گورنمنٹ یا انتظامیہ اپنے ملازمین کو جو کچھ دیتی ہے، خواہ تنخواہ ہو، بونس ہو، یا انعام ہو، وہ سب جائز ہے۔

فیکٹری کے مزدوروں سے مکان کا نمبر خریدنا

س… ہم ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں، فیکٹری کے قانون کے مطابق سب لوگوں کو نمبروار رہائشی مکان ملتے ہیں، لیکن بہت سے ضرورت مند جس کا نمبر آجاتا ہے اسے پیسے دے کر اس کا نمبر خرید لیتے ہیں اور مکان الاٹ ہوجاتا ہے، آیا یہ جائز ہے؟

ج… کسی شخص کا نمبر نکل آنا ایسی چیز نہیں کہ اس کی خرید و فروخت ہوسکے، اس لئے پیسے دے کر نمبر خریدنا جائز نہیں، اور جس شخص نے پیسے لے کر اپنا نمبر دے دیا اس کے لئے وہ پیسے حلال نہیں ہوں گے، بلکہ ان کا حکم رشوت کی رقم کا ہوگا۔

  • Tweet

What you can read next

تجارت اور مالی معاملات میں دھوکادہی
لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرنا
سود
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP