SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Tuesday, 17 August 2010 / Published in جلد ششم

قسطوں کا کاروبار


قسطوں میں زیادہ دام دے کر خرید و فروخت جائز ہے

س… ایک شخص ٹرک خریدنا چاہتا ہے، جس کی قیمت ۵۰ہزار روپے ہے، لیکن وہ شخص مجموعی طور پر اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ اس ٹرک کی یکمشت قیمت ایک ہی وقت میں ادا کرسکے، لہٰذا وہ اسے قسطوں کی صورت میں خریدتا ہے، لیکن قسطوں کی صورت میں اسے ٹرک کی اصلی قیمت سے ۳۰ہزار روپے زیادہ ادا کرنے پڑتے ہیں اور ایڈوانس ۲۰ہزار روپے اور ماہوار قسط ۱۵ سو روپے ادا کرنے ہوں گے۔ براہِ مہربانی شریعت کی رُو سے جواب عنایت فرمائیں کہ اس ٹرک کی یا اور اسی قسم کی کسی بھی چیز کی خرید و فروخت جائز ہوگی یا نہیں؟

ج… جائز ہے۔

قسطوں پر گاڑیوں کا کاروبار کرنا ضروری شرطوں کے ساتھ جائز ہے

س… قسطوں پر گاڑیوں کی خرید و فروخت سود کے زُمرے میں آتی ہے یا نہیں؟

ج… اگر بیچنے والا گاڑی کے کاغذات مکمل طور پر خریدار کے حوالے کردے اور قسطوں پر فروخت کرے تو جائز ہے۔ اس میں اُدھار پر بیچنے کی وجہ سے گاڑی کی اصل قیمت میں زیادتی کرنا بھی جائز ہے، یہ سود کے حکم میں نہ ہوگی، لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیں کہ خریدار نقد لے گا یا کہ اُدھار قسطوں پر، تاکہ اسی کے حساب سے قیمت مقرّر کی جائے، مثلاً: ایک چیز کی نقد قیمت: ۰۰۰,۵ روپے اور اُدھار قسطوں پر اس کو: ۰۰۰,۷ روپے میں فروخت کرتا ہے تو اس طرح قیمت میں زیادتی کرنا جائز ہوگا اور سود کے حکم میں نہ ہوگا۔

قسطوں کے کاروبار کے جواز پر علمی بحث

س… روزنامہ ”جنگ“ کی خصوصی اشاعت بعنوان ”اسلامی صفحہ“ میں دِلچسپی اور اشتیاق نے آنجناب کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ کئی بار قارئین نے ”قسطوں کے کاروبار“ کے سلسلے میں آپ سے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں دریافت فرمایا اور آپ نے بالاختصار اس طرح جواب سے نوازا کہ علماء اور فقہاء نے قسطوں کے کاروبار کو، یعنی نقد قیمت کے مقابلے میں اُدھار کی اضافہ شدہ قیمت کو جائز قرار دیا ہے، اور اگر کوئی شرطِ فاسد معاملہٴ ”شراء بالتَّقسیط“ سے وابستہ ہو تو وہ کالعدم ہوجائے گی اور یہ معاملہ (شراء بالتَّقسیط) دُرست ہے، اور آخر میں ”واللہ اعلم بالصواب“ کے الفاظ مرقوم ہوتے ہیں، جس سے شاید کسی قدر شک و شبہ کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے، یا کم از کم ورع و تقویٰ کی علامت ہے۔

          اس سلسلے میں چند معروضات حسبِ ذیل ہیں:

           اصطلاحاً:… جسے عربوں میں ”شراء بالتَّقسیط“ اور پاکستان میں ”بیع بالاجارہ“ کہتے ہیں، اور اس معاملے میں بیع کے مختلف اسماء، مختلف ممالک میں متعارف ہیں، جیسے برطانیہ میں ”ہائرپرچیز“ (Hirepurchase)، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ”انسٹالمنٹ کریڈٹ“ (Instalment Credit)، ”انسٹالمنٹ بائنگ“ (Instalment Buying)، فروخت کی یہ شکلیں بالعموم صرفی قرض (Consumer Credit) کے لئے اختیار کی جاتی ہیں۔

          پسِ منظر اور ابتدا:… مختلف دائرة المعارف و موسوعہ (Encyclopedia) میں مرقوم ہے کہ ”شراء بالتَّقسیط“ کا پسِ منظر گھریلو، دیرپا اور گراں قدر اشیاء کی فراہمی کی ایک معاشی تدبیر ہے، اور ان اشیاء کے حصول کا ایک سہل ذریعہ۔ اس کی ابتدا اُنیسویں صدی کے وسط میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہوئی جبکہ ایک سلائی مشین کمپنی نے اپنی تیارکردہ سلائی مشین کو اپنے صارفین کے لئے اس کی قیمت کو بالاقساط، قسط وار ادائیگی کی صورت میں متعارف کرایا، جس کو دیگر کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی کھپت قابلِ عمل اور منافع بخش تصوّر کرتے ہوئے نہ صرف اپنایا بلکہ دن دُگنا اور رات چوگنا منافع کمانے کا کامیاب کاروباری وسیلہ بنالیا۔

          تعریف اور نوعیت:

          الف:… بیع بالاجارہ: یہ ایک قسم کا اجارہ (معاہدہ کرایہ داری) ہے، جس کی رُو سے کرایہ دار مقرّرہ رقم بالاقساط ادا کرتا ہے اور معاہدہ کے تحت حاصل کردہ اختیارِ خریداری کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ اس معاہدے میں خریدار کی حیثیت معاملہٴ بیع کے خریدار کی نہیں ہوتی، جس میں خریدار کسی شے کو بالفعل خریدتا ہے یا خریداری کی بابت ناقابلِ تنسیخ رضامندی کا اظہار کرتا ہے، اس معاہدے کے تحت خریدار اس وقت تک مالک قرار نہیں پاتا جب تک کہ وہ ساری طے شدہ اقساط ادا نہ کردے۔

          ب:… بعض اہلِ علم کے نزدیک بیع بالاجارہ صارف کے لئے ایک قسم کے قرض کی فراہمی ہے، یعنی صارف کے نقطہٴ نظر سے معاہدہٴ اِستقراض ہے۔ جس کے تحت خریدار سامان کی قیمت کا کچھ حصہ پیشگی ادا کرتا ہے جسے ”ڈاوٴن پیمنٹ“ کہتے ہیں، اور بقیہ واجب الادا رقم (جس میں فروخت کنندہ اپنا نفع بھی شامل کرتا ہے) قسط وار ادا کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتا ہے، جبکہ عموماً اقساط کی ادائیگی کی مدّت چھ ماہ یا دو سال یا زائد ہوتی ہے، یہ تعریف شراء بالتَّقسیط (قسطوں کے کاروبار) سے قریب تر ہے۔

          نوعیت اور ماہیت:… بیع بالاجارہ یا شراء بالتَّقسیط معاملہٴ بیع کی ایک امتیازی قسم ہے، جس میں قیمتِ خرید بالاقساط ادا کی جاتی ہے، اور حقِ تملیک خریدار کو منتقل نہیں ہوتا جبکہ خریدار کو صرف قبضہ اور حقِ استعمال تفویض کیا جاتا ہے۔

          طلب اور رغبت:… نسبتاً گراں قدر اشیاء کی خریداری عامة الناس کے لئے ہمیشہ سے مشکل کا باعث بنی رہی ہے، اس لئے کہ ان اشیاء کی قیمت کی یکمشت ادائیگی ہر شخص کے لئے آسان نہیں ہوتی، بلکہ اکثر کے لئے ناممکن ہوتی ہے، البتہ قسطوں میں ادائیگی مہنگے سامان کو ممکن الحصول بنادیتی ہے، مثال کے طور پر ایسے سامان کی فہرست درج ذیل ہے:

          الف:… کاریں اور کم وزن اُٹھانے والے ٹرک اور بسیں (نئی اور پُرانی)۔

          ب:… موٹر سائیکلیں۔

          ج:… ٹیلی ویژن سیٹ اور ٹیپ ریکارڈر وغیرہ۔

          د:… فرنیچر اور دیگر آرائشی سامان۔

          ہ:… ریفریجریٹر اور عید و بیاہ شادی کے اخراجات و مصارف۔

          و:… دیگر متفرقات۔

          معاشی اہمیت:… معاشی نقطہٴ نظر سے اس طریقہٴ کار سے صارفین وہ تمام اشیاء حاصل کرلیتے ہیں جن کو وہ بعد از ادائیگی ایک طویل عرصے تک زیر استعمال رکھتے ہیں، اگر یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے تو صارف ہمیشہ کے لئے ان اشیاء سے محروم رہیں، ان اشیاء کی موجودگی سے نہ صرف گھریلو مقبوضات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اثاثہ اور زیبائش کی منہ بولتی تصویر ثابت ہوتی ہیں۔

          معاہدہ بیع بالاجارہ کا ڈھانچہ:… فریقین معاہدے کے اسماء مع ولدیت، پتاجات، دستخط اور شاہدین کے اسماء و پتاجات کے علاوہ اشیاء کی قدر و مالیت، تفصیل و تشخیص، قسط وار ادائیگی کی شرح مع شرح قسط، قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں فریقین معاہدے کے اختیارات و فرائض وغیرہ شامل ہوتے ہیں، اور سب سے اہم بات ”کم از کم ادائیگی کی مد“ قابلِ ذکر ہے، جس کی رُو سے خریدار کو تہائی یا چوتھائی رقم پیشگی ادا کرنا پڑتی ہے، مزید برآں دورانِ معاہدہ خریدار نہ کسی شے کی فروخت کرسکتا ہے، نہ ہی رہن رکھ سکتا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا بار ڈال سکتا ہے، حتیٰ کہ وہ کوئی ایسا عمل روا نہیں رکھ سکتا جو بائع کے حقِ ملکیت کے لئے مضرّت رساں ہو۔ غرضیکہ معاہدے میں تمام شرائط اس اَمر کی داعی و متقاضی ہوتی ہیں کہ بائع (بیچنے والے) کے مفاد کو تحفظ فراہم ہو۔

          تنقید:… اس قسم کی بیع پر بالعموم ان الفاظ میں تنقید کی گئی ہے جو کہ حسبِ ذیل ہے:

          الف:… عوام الناس کو اپنے جائز ذرائع آمدنی سے کہیں بالائی سطح پر معیارِ زندگی بحال کرنے پر اُکساتی ہے اور یہ ان کو شدید رغبت دِلاتی ہے کہ ان اشیاء سے اپنے گھروں کو مزین کرلیں جن کی ان کی موجودہ آمدنی سرِدست متحمل نہیں ہوسکتی، مزید اس سے متعلق جتنے قوانین مغربی دُنیا میں اور ہمارے ہاں رائج اور نافذ ہیں وہ سرمایہ کار کمپنیوں کو معتد بہ تحفظات و مراعات فراہم کرتے ہیں اور رغبت اور بلند زندگی کی ہوس میں گرفتار بے چارہ صارف قانونی چارہ جوئی سے محروم رہتا ہے۔

          ب:… یہ خاص قسم کی بیع (خرید و فروخت) معاشرے میں معاشی استحکام کو مخدوش بنادیتی ہے، اور افراطِ زَر کے لئے ایک موٴثر محرک ثابت ہوتی ہے۔

          ج:… اصلیت و ماہیت کے اعتبار سے مقرّرہ شرحِ نفع مروّجہ شرحِ سود سے نہ صرف مماثلت رکھتی ہے، بلکہ سودی شرح سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہ شرحِ منافع صارف کے استحصال کے لئے مثالی کردار ادا کرتی ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مذکورہ بالا شراء بالتَّقسیط اسلام میں جائز ہے؟ جبکہ اس کی نوعیت اور ماہیت مع شروطِ فاسدہ حسبِ ذیل ہے:

          شراء بالتَّقسیط اصلیت و نوعیت کے اعتبار سے ثنائی الوظیفہ اور ینفع لغرضین قرار پائی، کیونکہ اس میں بیع و اجارہ کا باہم دگر اختلاط ہے، بلکہ معاملتین، صفقتین و بیعتین کا انضمام و ادغام ہے، جیسا کہ اس کی تعریف سے اس امر کی تصریح ہوتی ہے، لہٰذا یہ ثنویب تشریح اسلامی میں احسن نہیں ہے، اور دو معاملوں کا معاملہ واحدہ میں مجتمع ہونا اصحیت سے متغائر ہے، بلکہ بعض صورتوں میں شراء بالتَّقسیط اجتماع المعاملتین تک محدود نہیں رہتی بلکہ اجتماع المعاملات کے قالب میں سمو جاتی ہے، جیسے بیع، اِجارہ، کفالت، ضمان اور بیمہ وغیرہ کا اجتماع۔

          نصوصِ شرعیہ:… شراء بالتَّقسیط کے سلسلے میں نصوصِ شرعیہ برائے ملاحظہ و غور و خوض حسبِ ذیل ہیں، جیسے:

          اوّلاً:… اُجرت اور ضمانت ایک ہی جگہ مجتمع نہیں ہوسکتی۔

(دفعہ:۸۶، مجلة الاحکام العدلیہ)

          ثانیاً:… بیع الدین، وھو مالکان الثمن والثمن فیہ موٴجلین معًا وھو بیع منھی عنہ۔ (القسم الأوّل فی المعاملات المادیة، تألیف: السیّد علی فکری ص:۱۹)

          ثالثاً:… بیعتان فی بیعة المنھی عنہ قال ابن مسعود: صفقتان فی صفقة، ولأنہ شرط عقد فی عقد فلم یصح۔

(القسم الأول فی المعاملات المادیة، تألیف: السیّد علی فکری ص:۴۵)

          شروطِ فاسدہ:

          ۱:… اِجارہ کام معاملہ مستقبل کی خریداری سے مشروط ہوتا ہے، اور یہ شرط تقضی الی المنازعة کو بروئے کار لاتی ہے۔

          ۲:… خریدار / مشتری کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ دانستہ اور نادانستہ طور پر اس میں (خریدی ہوئی چیز میں) کسی قسم کا عیب نہ آنے دے، جو کہ معاہدہ میں “Fault Clause” کہلاتی ہے۔

          ۳:… مستعدی سے مرمت کروانا اور حسبِ ضرورت نئے پرزہ جات کی بطریقِ احسن تبدیلی تاکہ اس کی عرفی قدر میں کمی واقع نہ ہو۔

          ۴:… انشورنس و بیمہ کرانا لازمی ہوتا ہے۔

          ۵:… تیسرے شخص کی ضمانت / کفالت کلی کا وجود، اور

          ۶:… مجبوریوں اور کسمپرسی کی صورت میں اگر خریدار کسی واجب الادا قسط کی ادائیگی میں کوتاہی برتے، تو قرقی کا حق یعنی بائع بلامداخلت خریدار فروخت شدہ شے کی بازیابی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

          ۷:… شرحِ نفع کے تعین میں من مانی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔

          حاصلِ کلام یہ ہے کہ بفرضِ محال یہ سرمایہ کار کمپنیاں اور مالیاتی ادارے ان شروطِ فاسدہ میں کسی قسم کی تحریف کی خدمت سر انجام دے بھی لیں، یا کم از کم ان کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی خاطر ان کا رُخ موڑ لیں یا پہلو بدل لیں تب بھی مستہلک (صارف) کے استحصال کے لئے ان کی یہ کاوش اور سعی رُکاوٹ ثابت نہ ہوگی۔ علاوہ ازیں اگر اسلامی تعلیمات ان نیم تعیشاتی سامان کے استعمال کو صراحتاً ناجائز قرار نہیں دیتیں تب بھی معاشیاتِ اسلام اس قسم کی بیعات کو رواج دینا پسند نہیں کرتی، اور اس کی نظر میں یہ اچھوتا اور انوکھا قسم کا استحصالِ صارف، مستحسن نہیں قرار پاتا۔

          آنجناب کی خدمتِ اقدس میں قسطوں کے کاروبار کے سلسلے میں مندرجہ بالا معروضات ارسالِ خدمت ہیں، التماس ہے کہ قرآنِ حکیم، سنتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم، فقہ و فتاویٰ اور اَئمہ و فقہاء کی آراء و تصریحات کی روشنی میں مفصل جواب سے نوازیں۔

ج… ماشاء اللہ! آپ نے خوب تفصیل سے بیع بالاقساط کے بارے میں معلومات جمع کی ہیں، جزاکم الله احسن الجزاء۔ تاہم جو مسئلہ میں نے بالاختصار کہا تھا وہ اس تفصیل کے بعد بھی اپنی جگہ صحیح اور دُرست ہے، یعنی: ”قسطوں پر خرید و فروخت جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی شرطِ فاسد نہ ہو، اگر کوئی شرطِ فاسد لگائی گئی تو یہ معاملہ فاسد ہوگا۔“

          مثلاً: یہ شرط کہ جب تک خریدار تمام قسطیں ادا نہ کردے وہ اس چیز کا مالک نہیں ہوگا، یہ شرط فاسد ہے، بیع کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مشتری کو مالکانہ قبضہ دیا جائے، خواہ قیمت نقد ادا کی گئی ہو یا اُدھار ہو، اور اُدھار کی صورت میں یکمشت ادا کرنے کا معاہدہ ہو یا بالاقساط، ہر صورت میں مشتری کا قبضہ مالکانہ قبضہ تصوّر ہوگا، اور اس کے خلاف کی شرط لگانے سے معاملہ فاسد ہوجائے گا۔ یہیں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس معاملے کو بیع اور اِجارہ سے مرکب کرنا غلط ہے، البتہ اُدھار رقم کی وصولی کے لئے ضمانت طلب کرنے کی شرط صحیح ہے۔ اور یہ شرط بھی صحیح ہے کہ اگر مقرّرہ وقت پر ادا نہ کی گئی تو بائع کو خریدار کی فلاں چیز فروخت کرکے اپنی قیمت وصول کرنے کا حق ہوگا، تاہم یہ ضرور ہے کہ اس کے قرضے سے زائد رقم اسے واپس کردی جائے۔ رہی یہ بات کہ قسطوں پر جو چیز دی جائے اس کی قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے تو اس معاملے کو شریعت نے فریقین کی صوابدید پر چھوڑا ہے، اگر خریدار محسوس کرتا ہے کہ قسطوں کی صورت میں اسے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑے گا تو وہ اس خریداری سے اجتناب کرسکتا ہے، تاہم استحصال کی صورت میں جس طرح گورنمنٹ کو قیمتوں پر کنٹرول کا حق ہے، اسی طرح بیع بالاقساط کی قیمت پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے، چونکہ بالاقساط خریداری عوام کے لئے سہل ہے، اس لئے قطعی طور پر اس پر پابندی لگادینا مصلحتِ عامہ کے خلاف ہے۔ خلاصہ یہ کہ بیع بالاقساط اگر قواعدِ شرعیہ کے ماتحت اور شروطِ فاسدہ سے مبرا ہو تو جائز ہے، ورنہ ناجائز۔

قسط رُکنے پر قسط پر دی ہوئی چیز واپس لے لینا جائز نہیں

س… میری بیوی میرے بیٹے کو اس کی مرضی کے مطابق قسطوں پر سامان فروخت کرنے کی دُکان کھلوانے کے حق میں ہیں، جبکہ میں اس کاروبار کے خلاف ہوں، کیونکہ اس کاروبار میں زبانی طور پر گاہک سے کہا جاتا ہے کہ یہ چیز تم کو قسطوں پر دی جاتی ہے تاکہ تم کو فائدہ پہنچے اور تم آسانی سے ایک بڑی چیز کے مالک بن جاوٴ، اور کاغذات میں کرایہ دار لکھا جاتا ہے۔ قسطیں رُکنے کی صورت میں چیز واپس لے لی جاتی ہے۔ میری بیوی کا کہنا ہے کہ جب بہت سے لوگ اس کاروبار کو کر رہے ہیں تو پھر مولانا صاحب سے دریافت کیوں کرتے ہو؟ ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوچکا ہے، میرا خیال ہے کہ خریدی ہوئی چیز نقص کی بنا پر تو واپس ہوسکتی ہے، مگر فروخت کی ہوئی چیز واپس نہیں ہوتی، واجبات کی ادائیگی کے لئے مہلت دی جاتی ہے۔ اس مسئلے میں آپ کی رائے اسلامی شریعت کے مطابق کیا ہے؟

ج… قسطوں پر چیز دینا تو جائز ہے، مگر اس میں یہ دو خرابیاں جو آپ نے لکھی ہیں، قابلِ اصلاح ہیں۔ ایک خریدار کو ”کرایہ دار“ لکھنا، دُوسرا قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں چیز واپس کرلینا۔ یہ دونوں باتیں شرعاً جائز نہیں۔ اس کے بجائے کوئی ایسا طریقہٴ کار تجویز کیا جانا چاہئے کہ قسطوں کی ادائیگی کی بھی ضمانت مل سکے اور شریعت کے خلاف بھی نہ ہو۔

قسطوں کا مسئلہ

س… ”الف“ ایک عدد سوزوکی، ویگن، بس یا ٹرک نقد رقم ادا کرکے خرید لیتا ہے، اس کے پاس ”ب“ اس گاڑی کی خریداری کے لئے آتا ہے، ”ب“ یہ گاڑی ”الف“ سے قسطوں میں خریدنا چاہتا ہے، جس کے لئے ”الف“ ”ب“ سے مندرجہ ذیل شرائط کا طلب گار ہوتا ہے:

          ۱:… ۱۰ ہزار روپیہ نقد لوں گا، (یہ مختلف گاڑیوں کی قیمت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے)، بقایا رقم دو ہزار روپے ماہوار قسطوں میں لوں گا۔ گاڑی کی اصل منڈی کی قیمت ۴۵ ہزار روپے ہے، میں دس ہزار منافع لوں گا، یعنی ”ب“ نے ۴۵ ہزار روپے کے بجائے ۵۵ہزار روپے ادا کرنا ہیں (دس ہزار نقد دینے کے علاوہ قسطوں میں ۴۵ ہزار روپے ادا کرے گا)، اس صورت میں منافع جو کہ ۱۰ ہزار روپے ہے، اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے، مثلاً: نقد رقم ۱۵ ہزار دی جائے یا قسط فی ماہ کے حساب سے دو ہزار روپے بڑھا یا گھٹادی جائے۔

          ۲:… گاڑی خواہ جل جائے، چوری ہوجائے، ”ب“ نے ہر حالت میں یہ رقم تمام کی تمام ادا کرنی ہے۔

          ۳:… اگر ”ب“ کسی وجہ سے تین ماہ لگاتار قسطیں ادا نہ کرسکا تو ”الف“ کو حق حاصل ہے کہ وہ گاڑی اپنے قبضے میں لے لے اور ”ب“ کو کچھ بھی نہ ادا کرے۔

           بعض وقت یہ صورت بھی ہوجاتی ہے کہ ”ب“ کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ گاڑی نقد میں فروخت کردیتا ہے اور ”الف“ کو ماہوار قسط ادا کرتا رہتا ہے۔ بعض حالات میں گاڑی موجود نہیں ہوتی اور ”الف“، ”ب“ سے کچھ رقم نقد لے لیتا ہے اور وہ رقم اپنی رقم میں شامل کرکے ”ب“ کو گاڑی دیتا ہے، یا نقد رقم دے دیتا ہے، اور ”ب“ گاڑی خرید لیتا ہے (مثلاً: ۴۵ ہزار روپے کی گاڑی کے لئے ۳۵ ہزار روپے ”الف“ دے دیتا ہے، اور ۱۰ ہزار روپے ”ب“ اپنی طرف سے ڈالتا ہے)۔

          مولانا صاحب! کئی احباب اس کاروبار میں لگے ہوئے ہیں، قسطوں کی صورت میں مہنگا بیچنا کیا یہ سود تو نہیں ہے؟

ج… یہاں چند مسائل ہیں:

          ۱:… نقد چیز کم قیمت خرید کر آگے اس کو زیادہ داموں پر قسطوں پر دینا جائز ہے۔

          ۲:… جس شخص نے قسطوں پر وہ چیز خرید لی، وہ اس کا مالک ہوگیا، اور قسطوں کی رقم اس کے ذمہ واجب الادا ہوگئی، اس لئے اگر وہ چاہے تو اس چیز کو آگے فروخت کرسکتا ہے، نقد قیمت پر بھی اور اُدھار پر بھی۔

          ۳:… قسطوں پر خرید لینے کے بعد اگر خدانخواستہ گاڑی کا نقصان ہوجائے تو یہ نقصان خریدار کا ہوگا، قسطوں کی رقم اس کے ذمہ بدستور واجب الادا رہے گی۔

          ۴:… یہ شرط کہ: ”اگر کسی وجہ سے وہ تین ماہ کی قسطیں ادا نہ کرسکا تو ”الف“ گاڑی اپنے قبضے میں لے لے گا، اور اس کی ادا شدہ قسطیں سوختہ ہوجائیں گی“ یہ شرط شرعاً غلط ہے۔ ”الف“ کو یہ تو حق ہے کہ اپنی قسطیں قانونی ذرائع سے وصول کرلے، لیکن وہ گاڑی کو اپنے قبضے میں لینے کا مجاز نہیں اور نہ ادا شدہ قسطوں کو ہضم کرنے کا مجاز ہے۔

          ۵:… ”الف“، ”ب“ سے جو رقم پیشگی لے لیتا ہے، وہ جائز ہے، والله اعلم!

  • Tweet

What you can read next

رشوت
خرید و فروخت اور محنت مزدوری کے اُصول اور ضابطے
حصص کا کاروبار
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP