SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
1
Shaheed-e-Islam
Tuesday, 17 August 2010 / Published in جلد ششم

پرائزبونڈ، بیسی اور اِنعامی اسکیمیں

 

پراویڈنٹ فنڈ کی شرعی حیثیت

س… پراویڈنٹ فنڈ کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟

ج… مفتی محمد شفیع کا فتویٰ ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ لینا جائز ہے۔

بیوہ کو شوہر کی میراث قومی بچت کی اسکیم میں جمع کروانا جائز نہیں

س… ایک شخص اپنے پیچھے ایک بیوہ اور دو بچے چھوڑ کر اس دارِ فانی سے رُخصت ہوگیا۔ اب اس کی بیوی دُوسری شادی کرنا نہیں چاہتی اور شوہر کی چھوڑی ہوئی رقم کو قومی بچت یا کسی اور منافع بخش اسکیم میں لگانا چاہتی ہے، اور اس کے منافع سے (جو دُوسرے معنوں میں سود کہلاتا ہے) اپنی اور اپنے بچوں کی گزر اوقات کرنا چاہتی ہے، کیا اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ جبکہ اسلام میں سود حرام ہے، یہاں تک کہ وہ بدن جنت میں داخل نہ ہوگا جو حرام روزی سے پروَرِش کیا گیا ہو۔

ج… بیوہ کا اس کے شوہر کے ترکہ میں آٹھواں حصہ ہے، باقی سات حصے اس کے بچوں کے ہیں، سود کی آمدنی حرام ہے، اس روپے کو کسی جائز تجارت میں لگانا چاہئے۔

انٹرپرائزز اِداروں کی اسکیموں کی شرعی حیثیت

س… انٹرپرائزز اِداروں کی اسکیموں کے متعلق یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے تمام ممبروں سے قسط وار رقم وصول کرتے ہیں اور ہر مہینے قرعہ اندازی ہوتی ہے، جس کا نام نکلتا ہے اسے موٹرسائیکل کار وغیرہ دے دیتے ہیں اور باقی رقم نہیں لیتے، کیا یہ طریقہ جائز ہے؟ اور وہ چیز اس کے لئے حلال ہے یا نہیں؟ اور باقی ممبر ہر مہینے قسط جمع کراتے رہتے ہیں، ایک آدمی کو تو ایک قسط پر موٹرسائیکل یا کار مل جاتی ہے اور باقیوں کو آخر تک قسط دینی پڑتی ہے، اس کا جواب عنایت فرمائیں کیا یہ اسکیم جائز ہے یا نہیں؟

ج… یہ صورت ناجائز اور لاٹری قسم کی ہے۔

ہلالِ احمر کی لاٹری اسکیم جوئے کی ایک شکل ہے

س… دُوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ایک ادارہ کام کر رہا ہے ”ہلالِ احمر“ کے نام سے، جو دُکھی انسانیت کے نام پر تین روپے فی ٹکٹ کے حساب سے انعامی ٹکٹ فروخت کرتا ہے، ان ٹکٹوں کی قرعہ اندازی کا وہی سسٹم ہے جو کہ انعامی بونڈز کا ہوتا ہے، اس ادارے کی جانب سے ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ اس ادارے کی جانب سے دُکھی انسانیت کی جو خدمت کی جاتی ہے کیا وہ جائز ہے؟ کیونکہ جس رقم سے وہ یہ نیک کام انجام دیتے ہیں، وہ رقم ان ٹکٹوں سے حاصل کی جاتی ہے، جو لوگوں کو انعام کا لالچ دے کر فروخت کئے جاتے ہیں۔ نیز اگر اس ٹکٹ کے خریدنے کے بعد کسی شخص کا انعام نکل آئے تو کیا وہ حلال اور جائز ہوگا یا حرام؟ اکثر ریڈیو پر اس ادارے کی جانب سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہلالِ احمر کے تین روپے والے انعامی ٹکٹ خرید کر دُکھی انسانیت کی خدمت میں حصہ لیں اور لاکھوں روپے کے انعامات حاصل کریں۔

          یہ بتائیں کہ آیا اس طرح سے دُکھی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے؟ اور اگر ہم یہ ٹکٹ خرید لیں تو کیا ہم کو ثواب ملے گا؟ جبکہ یہ ٹکٹ صرف انعام کے لالچ میں خریدے جاتے ہیں۔ پھر اسی ٹکٹ کے خریدنے سے ثواب کا کیا تعلق؟ اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ہمارے دِل میں انعام کا بالکل لالچ نہیں ہے تو کیا اس ٹکٹ کے خریدنے سے ثواب ملے گا؟ میرے خیال میں تو دُکھی انسانیت کی خدمت اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ جو لوگ یہ ٹکٹ خریدتے ہیں وہ بجائے ٹکٹ خریدنے کے ہلالِ احمر کے فنڈ میں بھی رقم دے کر ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔ اور یہ ادارہ لاکھوں روپے کے انعامات ہر ماہ تقسیم کرتا ہے، یہ لاکھوں روپے کی رقم بھی دُکھی انسانیت کی خدمت میں صَرف کی جاسکتی ہے۔ برائے مہربانی اس مسئلے کا حل بتاکر میری اُلجھن دُور فرمائیں۔

ج… ہلالِ احمر کا ادارہ تو بہت ضروری ہے، اور خدمتِ خلق بھی کارِ ثواب ہے، مگر روپیہ جمع کرنے کا جو طریقہ آپ نے لکھا ہے، یہ جوئے کی ایک شکل ہے جو شرعاً جائز نہیں۔

ہر ماہ سو روپے جمع کرکے پانچ ہزار لینے کی پتی اسکیم جائز نہیں

س… ایک شخص تقریباً بیس سال سے حیدرآباد کے ایک علاقے میں رہائش پذیر ہے، نہایت ہی شریف اور بااخلاق آدمی ہے، لوگوں میں انہیں عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دیہی مسائل سے بخوبی واقف ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، حسب و نسب میں اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، لباس اور شکل و صورت میں باشرع ہیں، روزے نماز کے پابند ہیں، اپنے محلے کی جامع مسجد میں اکثر و بیشتر دِینی جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہتے ہیں، اور کبھی کبھی اِمام صاحب کی عدم موجودگی میں پنج وقتہ نماز اور جمعہ کے دن تقریر یا اِمامت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ بعض مرتبہ دُوسرے محلے اور علاقے کی جامع مسجدوں میں بھی ان کے اِماموں کی عدم موجودگی میں نمازِ جمعہ پڑھانے اور تقاریر کرنے کے لئے انہیں مدعو کیا جاتا ہے۔

          انہوں نے اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت ایک گھریلو پتی اسکیم جاری کی ہے، جس کے وہ خود نگرانِ اعلیٰ اور رقم کے ضامن ہیں۔ اس اسکیم میں ڈھائی سو ممبران ہیں، یہ اسکیم ۱۰۰ روپے اور ۲۰۰ روپے ماہوار کی ہے، اور اس کی مدّت پچاس ماہ ہے ۱۰۰ روپے ماہوار والے ممبر کو ۰۰۰,۵ روپے اور ۲۰۰ روپے ماہوار والے ممبر کو ۰۰۰,۱۰ روپے ہر ماہ قرعہ انداز کے ذریعے دئیے جاتے ہیں۔ پچاس ماہ کی مدّت کے بعد قرعہ اندازی سے باقی رہنے والے ممبران کو ان کی جمع شدہ تمام رقم یعنی ۱۰۰ روپے والوں کو ۰۰۰,۵ روپے اور ۲۰۰ روپے والے کو ۰۰۰,۱۰ روپے یکمشت ادا کردئیے جائیں گے۔ کیونکہ پچاس ماہ میں ان کی یہی رقم جمع ہوگی۔ البتہ ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعہ جو نام نکالا جاتا ہے اس ممبر کو یکمشت ۰۰۰,۵ روپے یا ۰۰۰,۱۰ روپے کی رقم بطور امداد اَدا کردی جاتی ہے اور اس کے ذمہ جو باقی اقساط رہ جاتی ہے وہ وصول نہیں کی جاتیں۔ اس کی بقایا اقساط کی ادائیگی کی ذمہ داری پتی کے نگرانِ اعلیٰ پر ہوتی ہے، کیونکہ ہر ماہ ممبر کو رقم ادا کرنے کے بعد جو رقم باقی بچتی ہے، اس کے لئے ممبران نے ان کو یہ حق دیا ہے کہ ان کی اس رقم سے نگرانِ اعلیٰ پچاس ماہ تک جو چاہیں کاروبار کریں، لیکن پچاس ماہ کی مدّت کے بعد باقی تمام ممبران کو مقرّرہ وقت پر ان کی تمام جمع شدہ رقم بغیر کسی نفع یا نقصان پر واپس کرنا ہوگی۔ لہٰذا نگرانِ اعلیٰ شرعی طریقے پر کاروبار کرتے ہیں، اور اس کاروبار کے نفع و نقصان کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ نگرانِ اعلیٰ نہ تو اس جمع شدہ رقم کو بینک میں رکھ کر کوئی سود حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سودی کاروبار میں یہ رقم لگاتے ہیں، یہ بات انہوں نے خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر اور گواہ بناتے ہوئے قسم کھاکر ہم سے کہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف اپنی مدد آپ کے تحت ایک اسکیم ہے، اس میں کوئی سودی لین دین نہیں ہے، بلکہ اکثر وہ اس رقم سے بعض ضرورت مندوں کو قرضِ حسنہ بھی دیتے رہتے ہیں۔ مذکورہ شخص نے یہ گھریلو پتی اسکیم اپنی مدد آپ کا جذبہ پیدا کرنے اور ان میں بچت کی عادت ڈالنے کے لے شروع کی ہے، اس سے ان کا مقصد کسی قسم کی ناجائز دولت کا حصول نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں کیا اس نیک اور دِین دار شخص کو اِمام صاحب کی عدم موجودگی میں پنج وقتہ نماز یا جمعہ کی نماز یا خطبہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ اور ہماری نمازیں اس شخص کے پیچھے ہوں گی یا نہیں؟

ج… گھریلو پتی اسکیم کا جو طریقہٴ کار سوال میں لکھا گیا ہے، یہ شرعاً جوا ہے۔ اس اسکیم میں شرکت حرام ہے اور جس شخص کو ۱۰۰ روپے کے بدلے ۰۰۰,۵ روپے اور ۲۰۰ روپے کے بدلے ۰۰۰,۱۰ روپے ملیں گے، وہ زائد رقم اس کے لئے حرام ہے۔

          نوٹ:… جس نیک شخص نے یہ اسکیم جاری کی ہے، ان کو اس سے توبہ کرنی چاہئے، ورنہ ان صاحب کے پیچھے نماز جائز نہیں۔

پری پیمنٹ اسکیم کی شرعی حیثیت

س… ان دو اسکیموں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

          پہلی اسکیم جو تقریباً ۲۵۰ سے ۳۰۰ ممبران پر مشتمل ہوتی ہے، ہر ممبر ۳۰۰ روپے ماہوار دیتا ہے، ہر مہینے قرعہ اندازی ہوتی ہے، قرعہ میں جس کا نام نکل آتا ہے اس کو مبلغ ۰۰۰,۱۵ روپے یا اس کی مالیت کے برابر دُوسری چیز دی جاتی ہے، اور اس سے باقی قسطیں بھی نہیں لی جاتیں۔

          دُوسری اسکیم ۱۰۰ ممبران پر مشتمل ہے، اور ہر ماہ ایک ممبر ۱۰۰ روپے دیتا ہے، ہر مہینے قرعہ میں نام نکل آنے کی صورت میں تین ہزار روپے کے زیورات اس کو دئیے جاتے ہیں اور اس سے باقی قسطیں نہیں لی جاتیں۔ اس کے علاوہ ہر مہینے چند اشخاص کو اضافی انعام بھی قرعہ اندازی کے ذریعہ دئیے جاتے ہیں۔ پہلی اسکیم کی مدّتِ تکمیل ۵۰ ماہ، اور دُوسری اسکیم کی مدّتِ تکمیل ۳۰ ماہ ہے۔ اسکیم نمبر۱ اور اسکیم نمبر۲ کے قواعد و ضوابط اور شرائط کے دونوں پرچے منسلک ہیں۔

ج… دونوں اسکیمیں سود کی ایک شکل ہیں، اس لئے کہ ہر دو اسکیموں میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ جس ممبر کا بھی نام نکل آیا اس سے بقیہ اقساط نہیں لی جائیں گی، اور نام نکلنے پر اسے ایک مقرّرہ رقم یا اس کے مساوی چیز دی جائے گی۔ دُوسری جانب یہ کہ رقم جمع کرانے کا مقصد اور ارادہ زیادہ رقم حاصل کرنا ہوتا ہے اور اسکیم نکالنے والے کی تحریک بھی یہی ہوتی ہے کہ ہر ممبر قرعہ اندازی میں حصہ لے کر نام نکلنے پر زائد رقم حاصل کرے، اس وجہ سے اس میں جوا اور سود دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، جو کہ حرام ہیں، ناجائز ہیں اور اس میں تعاون بھی گناہ ہے۔

          نیز اسکیم نمبر۱ کی آٹھویں شرط کے مطابق جو ممبر اسکیم جاری نہ رکھ سکے اس کی جمع شدہ رقم سے ۱۰ فیصد کاٹ لینا یہ بھی ناجائز ہے، جبکہ اس کی پوری کی پوری جمع شدہ رقم واپس ہونی چاہئے۔

          نیز اسکیم نمبر۲ میں ۳۰۰ روپے ماہوار کے مقابلے میں قرعہ اندازی میں نام نکل آنے والے ممبر کو جہاں ۰۰۰,۱۵ روپے لینے کا اختیار ہے، وہاں اس کو ۷ تولہ سونا لینے کا بھی اختیار ہے، اگر وہ سونا لے تو یہ اس اعتبار سے ناجائز ہے کہ جب سونا یا چاندی روپے پیسے کے مقابلے میں فروخت کئے جائیں تو اس میں قبضہ ایک ہی مجلس میں فوری طور پر ہونا چاہئے، یعنی اِدھر پیسے لئے اور اُدھر سونا دیا، جبکہ اس صورت میں ممبر نے رقم ایک ماہ قبل دی تھی اور اس کو ۷ تولہ سونا اب دیا جارہا ہے، چنانچہ یہ بیع اُدھار پر ہوئی اور سونا چاندی میں اُدھار کی بیع ناجائز ہے۔

          مندرجہ بالا اُمور کے پیشِ نظر صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دونوں اسکیمیں شریعت کی رُو سے ناجائز ہیں، لہٰذا ان اسکیموں میں رقم لگانا بھی ناجائز ہے۔

بچت سرٹیفکیٹ اور یونٹ وغیرہ کی شرعی حیثیت

س… حکومت کی طرف سے مختلف قسم کے بچت سرٹیفکیٹ اور یونٹ وغیرہ جاری کردہ ہیں، جو کہ ۶ سال کے بعد دُگنے اور ۱۰ سال کے بعد تین گنا قیمت کے ہوجاتے ہیں، اس کی یہ رقم سود شمار ہوگی یا منافع؟

ج… رقم پر مقرّر شدہ منافع شرعاً سود ہے، اور حکومت بھی اس کو سود ہی سمجھتی ہے۔

انجمن کے ممبر کو قرض حسنہ دے کر اس سے ۲۵ روپے فی ہزار منافع وصول کرنا

س… ہم نے فلاحی کاموں کے لئے ایک انجمن تشکیل دی ہے، اور حسبِ ضرورت ایک ممبر کو ہم کچھ رقم قرضِ حسنہ دیتے ہیں، لیکن ہم فی ہزار روپیہ پر ۲۵ روپے منافع انجمنِ ہذا کے لئے ماہانہ وصول کرتے ہیں۔ اب مشترکہ انجمن میں جس آدمی کو یہ رقم دی جاتی ہے، وہ آدمی اس انجمن کا ممبر ہے۔ آپ یہ وضاحت کیجئے کہ فی ہزار ۲۵روپے ماہانہ جو وصول کرتے ہیں، آیا یہ سود ہے؟ یا جائز منافع؟

ج… خالص سود ہے۔

ممبروں کا اقساط جمع کرواکر قرعہ اندازی سے انعام وصول کرنا

س… ایک کمپنی اپنے مقرّر کردہ ممبروں سے ہر ماہ اقساط وصول کرکے قرعہ اندازی کے ذریعہ ایک مقرّر کردہ چیز دیتی ہے، جس ممبر کا نام نکل جاتا ہے، وہ اپنی چیز وصول کرنے کے بعد قسط جمع کرانے سے بَری ہوجاتا ہے۔ مقرّرہ مدّت تک کچھ ممبر باقی رہ جاتے ہیں، تو کمپنی انہیں مع انعامات ان کی جمع شدہ رقم واپس کردیتی ہے۔ اس صورت میں شراکت جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو کوئی ممبر وہ شراکت درمیان میں ختم کرنا چاہے تو کمپنی اس ممبر کی جمع شدہ رقم سے آدھی رقم اپنے پاس رکھتی ہے اور آدھی ممبر کو واپس کرتی ہے۔ اس صورت میں ممبر کو کیا کرنا چاہئے؟ جبکہ اس کی آدھی رقم غبن ہو رہی ہے؟

ج… یہ معاملہ بھی جوئے اور سود کی ایک شکل ہے، اس لئے جائز نہیں۔ اور مطالبے پر کمپنی کا آدھی رقم خود رکھ لینا بھی ناجائز ہے۔ افسوس ہے کہ بہت سے لوگوں نے ایسے دھندے شروع کر رکھے ہیں، مگر نہ حکومت ان پر پابندی لگاتی ہے، نہ عوام یہ دیکھتے ہیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط․․․!

یہ کمیٹی ڈالنا جائز ہے

س… جو لوگ کمیٹی کے نام پر دس آدمی ۳۲ روپیہ فی کس جمع کرتے ہیں، مہینے کے بعد قرعہ اندازی کرکے ممبران میں سے جس کا نام نکل آئے تو مبلغ ۰۰۰,۶ روپے دے دیتے ہیں، جبکہ اس کی جمع شدہ رقم ۹۶۰ روپے ہوتی ہے، کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ جس ممبر کی کمیٹی نکل آئے وہ ۳۲ روپے یومیہ بھی دیتا رہتا ہے اس وقت تک جب تک ۰۰۰,۶ روپے پورے نہیں ہوتے۔

ج… یہ کمیٹی کا طریقہ قرض کے لین دین کا معاملہ ہے، میں تو اس کو جائز سمجھتا ہوں۔

کمیٹی (بیسی) ڈالنا جائز ہے

س… میں نے ایک کمیٹی ڈال رکھی ہے، پچھلے ہفتے ایک صاحب سے سنا ہے یہ کمیٹی جو آج کل ایک عام رواج بن چکی ہے، سراسر سود ہے، لہٰذا مہربانی فرماکر آپ یہ بتائیں کہ کیا شرعی لحاظ سے ایسا کرنا جائز ہے؟

ج… کمیٹی ڈالنے کی جو عام شکل ہے کہ چند آدمی رقم جمع کرتے ہیں اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعہ وہ رقم کسی ایک کو دے دی جاتی ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، جبکہ باری باری سب کو ان کی رقم واپس مل جاتی ہے۔

کمیٹی ڈالنے کا مسئلہ

س… آج کل رواج ہے کہ بارہ یا چوبیس آدمی آپس میں رقم ایک کے پاس جمع کرتے ہیں، مثلاً: فی آدمی ۶۰ روپے، اور ماہ کی آخری تاریخ میں اس پر قرعہ ڈالتے ہیں جس کو آج کل کی اصطلاح میں ”کمیٹی“ بولتے ہیں، ہمارے شہر کے علماء کہتے ہیں کہ یہ سود ہے، مگر اچھے خاصے لوگ اس میں مبتلا ہیں اور کوئی پروا بھی نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں کہ یہ تو ایک دُوسرے کے ساتھ احسان ہے، سود کیسے بنتا ہے؟ تو مہربانی فرماکر شریعتِ مطہرہ کی رُو سے بیان فرمائیں۔

ج… کمیٹی کے نام سے بہت سی شکلیں رائج ہیں، بعض تو صریح سود اور جوئے کے حکم میں آتی ہیں، وہ تو قطعاً جائز نہیں۔ اور جو صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے اس کے جواز میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض ناجائز کہتے ہیں اور بعض جائز۔ اس لئے خود تو پرہیز کیا جائے لیکن دُوسروں پر زیادہ شدّت بھی نہ کی جائے۔

ناجائز کمیٹی کی ایک اور صورت

س… آج کل لوگوں نے ایک نئی کمیٹی ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، مثلاً: ۱۰۰ روپے روز کی کمیٹی ڈالتے ہیں، اس کمیٹی کے ممبران کل ۱۰۰ بنتے ہیں، پندرہ ماہ تک کی کمیٹی ہوتی ہے، وہ ہر ماہ ایک کمیٹی کھولتے ہیں، پندرہ ماہ کے اندر اندر جس ممبر کی کمیٹی کھلتی ہے چاہے پہلے ہی کھلے وہ کمیٹی لے لے گا اور کمیٹی لینے کے بعد وہ کوئی رقم کمیٹی والوں کو ادا نہیں کرے گا۔ یعنی پہلی کمیٹی صرف ۰۰۰,۳ روپے دے کر ۴۵ہزار روپے حاصل کرے گا۔ چند ماہ تک وہ پندرہ ممبران کی کمیٹی کھولیں گے اور انہیں اسی طرح ۴۵ہزار روپے ادا کرتے رہیں گے۔ پندرہ ماہ پورے ہونے کے بعد بقایا ۸۵ ممبران کو بھی وہ ۴۵ ہزار روپے فی ممبر ادا کریں گے۔ اب صورتِ حال کچھ اس طرح بنتی ہے کہ ۱۰۰ ممبران کی ایک ماہ میں انہیں ۵۰۰,۲۵ روپے، ۴۵ ہزار روپے ادا کرنے کے بعد رقم بچتی ہے، پندرہ ماہ تک ان کے پاس کل رقم ۵۰۰,۳۸۲ روپے جمع ہوتی ہے۔ پندرہ ماہ پورے ہونے پر ۱۰۰ ممبران جس میں پندرہ ممبران ہر ماہ نکلنے والی کمیٹی کے بھی شامل ہیں، انہیں کل رقم ادا کرنی ہے ۴۵ ہزار روپے، اس طرح پندرہ ماہ بعد انہیں ۵۰۰,۶۷ روپے کا نقصان ہوگا۔ اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے وہ سیونگ بینک میں منافع حاصل کرنے کے لئے ہر روز رقم جمع کرتے رہتے ہیں، یا پھر وہ ممبران کی رقم سے بزنس کرتے ہیں، وہ اس طرح کہ جب جو چیز مارکیٹ میں سستی ملتی ہے، اس کا ذخیرہ کرلیتے ہیں، اور جب مارکیٹ میں مال ختم یا مہنگا ہوجاتا ہے تو اسے فروخت کردیتے ہیں، یا پھر انعامی بانڈز زیادہ تعداد میں خرید لیتے ہیں، ان میں بھی کوئی نہ کوئی انعام نکل آتا ہے، ان طریقوں سے وہ نقصان کی رقم پوری کرتے ہیں۔

          اب شرعی نقطہٴ نظر سے اس طرح کمیٹی ڈالنا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو پندرہ ممبران تھوڑی تھوڑی رقم دے کر زیادہ رقم حاصل کرتے ہیں، ان کی وہ رقم کون سی کمائی کہلائے گی؟ اور کمیٹی ڈالنے والے نقصان پورا کرنے کے لئے اس طرح منافع بخش کاروبار کرتے ہیں تو ان کا کاروبار اور منافع جائز و حلال ہے یا ناجائز و حرام؟

ج… ایسی کمیٹی سود اور قمار (جوا) کا مجموعہ ہے، اس لئے اس کے حرام اور باطل ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

نیلامی بیسی (کمیٹی) جائز نہیں

س… ہماری تقریباً چالیس آدمیوں کی ایک کمیٹی ہے، جس کو ”بی سی“ کہتے ہیں، یہ نیلامی کمیٹی ہے جس میں ہر ممبر ماہانہ ۱۵۰۰ روپے جمع کرتا ہے جس سے مجموعی رقم ۶۰ہزار روپے بن جاتی ہے۔ یہ نیلامی کمیٹی ہے جب سب ممبر اکٹھے ہوتے ہیں تو اس پر بولی لگتی ہے، یہ ۶۰ ہزار روپے ایک ممبر اپنی مرضی سے ۱۶ ہزار روپے میں لے لیتا ہے، یعنی اس پر کوئی دباوٴ اور جبر نہیں ہوتا۔ اس سے ہم کو آگاہ کریں کہ اس میں گناہ ہے یا نہیں؟ اور یہ ۱۶ ہزار روپے فی ممبر ۴۰۰ روپے سود آتا ہے، وہاں کمیٹی کے رجسٹر میں پورا ۱۵۰۰ روپے لکھ دیتا ہے، یعنی ۴۰۰ منافع ہوا۔

ج… یہ جائز نہیں، بلکہ سود ہے۔

انعامی بونڈز کی رقم کا شرعی حکم

س… میں نے ایک دوست کے مشورے سے ۵۰ روپے کا بونڈ خریدا، فیصلہ ہوا کہ بونڈ کھلنے کی صورت میں آدھا انعام میرا اور آدھا انعام اس کا ہوگا۔ اتفاق سے ایک دن بعد وہ بانڈ ۵۰ہزار روپے کا کھل گیا، چونکہ میں نے اس سے وعدہ کرلیا تھا اس لئے میں نے اس کو ۲۵ہزار روپے ادا کردئیے۔ لیکن مجھے بعد میں پتا چلا کہ انعامی بونڈ کا انعام سود سے بھی بدتر ہے، تو مجھے بہت دُکھ ہوا اور میں نے اس کو استعمال بھی نہیں کیا، اور نہ میں اب استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن افسوس! میرے والدین یہ کہتے ہیں کہ اگر تم یہ پیسہ استعمال نہیں کرتے تو ہمیں دے دو، ہماری مرضی ہم کچھ بھی کریں۔ حالانکہ ہم گھر والے اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کے ہیں۔ بتلائیے اس رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں خاص اور اہم بات یہ بتائی جائے کہ میں اس پیسے کو کہاں صَرف کروں؟

ج… انعامی بونڈز کے نام سے جو انعام دیا جاتا ہے، حقیقتاً یہ سود کی ایک شکل ہے۔ انعامی بونڈز کے اِنعام میں ملنے والی رقم حرام ہے اور اس کا استعمال کرنا جائز نہیں۔ بینک جب انعامی بونڈز کی کوئی سیریز نکالتا ہے اور اس سیریز کے ذریعہ سے جو رقم وہ عوام سے کھینچ لیتا ہے اس رقم کو عموماً بینک کسی کو سودی قرضے پر دے دیتا ہے۔ جس شخص کو قرضہ دیتا ہے اس سے بینک سود وصول کرکے اس سودی رقم میں سے کچھ اپنے پاس رکھتا ہے اور کچھ رقم قرعہ اندازی (لاٹری)کے ذریعہ ان لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے کہ جنھوں نے انعامی بونڈز خریدے تھے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کے بعد جو رقم لوگوں کو ملتی ہے وہ اصل میں سود ہی کی رقم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ بینک اس رقم کو سودی قرضے پر نہیں دیتا بلکہ اس کو کسی کاروبار میں لگاتا ہے اور اس کاروبار سے جو نفع ہوتا ہے وہ نفع قرعہ اندازی کے ذریعہ بونڈز خریدنے والوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے، پھر بھی انعامی بونڈز پر ملنے والی رقم جائز نہیں ہے، اس لئے کہ اوّل تو پارٹنر شپ کے بزنس میں نفع و نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے، جبکہ یہاں بینک کی طرف سے نقصان کا کوئی ذکر ہی نہیں۔

          دُوسری بات یہ کہ تجارتی اور شرعی اُصول کے مطابق پارٹنر شپ کے کاروبار میں جب نفع ہوتا ہے تو اس نفع میں سے ہر پارٹنر (شریک) کو اتنے فیصد ہی حصہ ملتا ہے کہ جتنے فیصد اس نے روپیہ لگایا ہے، نفع کی تقسیم قرعہ اندازی (لاٹری) کے ذریعہ کرنا، اس میں بہت سوں کے ساتھ ناانصافی ہونا یقینی بات ہے، لہٰذا پرائز بونڈز کا انعام ہر اعتبار سے ناجائز اور حرام ہے۔ اور یہ درحقیقت سود اور جوئے دونوں کا مرکب ہے، اگرچہ بینک اسے ”اِنعام“ ہی کہتا رہے۔ زہر کو اگر کوئی تریاق کہے تو وہ تریاق نہیں بنتا، بلکہ زہر اپنی جگہ زہر ہی رہتا ہے۔ یہ وہی پُرانی شراب ہے جو نئی بوتلوں میں بند کرکے، نئے لیبل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔

          آپ کے والدین اگر یہ کہتے ہیں کہ رقم ہمارے حوالے کردو، تو شرعی اعتبار سے اس اَمر میں والدین کی اطاعت جائز نہیں ہے، جس طرح آپ خود حرام کمائی سے بچنا چاہتے ہیں اسی طرح اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کو بھی اس حرام ذریعہ آمدنی سے محفوظ رکھیں اور یہ رقم ان کے حوالے نہ کریں۔

          باقی یہ کہ یہ رقم پھر آپ کہاں استعمال کریں؟ تو اس میں ایک تو یہ ہے کہ اگر آپ نے بینک سے اپنے اِنعام کی رقم نہیں لی ہے تو اَب مت لیجئے، اور اگر آپ اِنعام کی رقم لے چکے ہیں تو اس کو ان لوگوں میں بغیر نیتِ ثواب کے صدقہ کردیں کہ جو لوگ زکوٰة اور صدقہ خیرات کے مستحق ہیں۔

پرائز بونڈز بیچ کر اس کی رقم استعمال کرنا دُرست ہے

س… پرائز بونڈز کی اِنعامی رقم حرام ہے، اگر حرام ہے تو ہم نے جو بونڈز خرید رکھے ہیں وہ کسی آدمی کو بیچ دیں تو آنے والی رقم کیا ناجائز ہوگی؟

ج… اِنعامی بونڈز کی رقم لینا جائز نہیں، جتنے میں خریدا ہے، اتنی ہی رقم میں اسے بیچنا یا بینک کو واپس کردینا دُرست ہے۔

پرائز بونڈز کا حکم

س… پچھلے ہفتے پاکستان ٹیلیویژن کے ایک پروگرام میں پروفیسر علی رضاشاہ نقوی نے ایک سوال: ”کیا پرائز بونڈز کی صورت میں کسی بھی بونڈز ہولڈر کی رقم ضائع نہیں ہوتی، جبکہ جوا اور لاٹری میں صرف ایک آدمی کو رقم ملتی ہے اور دُوسروں کی رُقوم ضائع ہوجاتی ہیں، لہٰذا انعامی بونڈز پر موصولہ رقم کے انعام سے حاصل شدہ رقم سے حج کیا جاسکتا ہے؟“ کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ: ”پرائز بونڈز کرنسی کی ایک دُوسری شکل ہے، جسے ملک میں کہیں بھی کیش کروایا جاسکتا ہے، اِنعام نکلے تو جائز اور حلال ہے، اور اس سے حج کیا جاسکتا ہے۔“ کیا شریعت کی رُو سے واقعی یہ جواب دُرست ہے؟

ج… یہ جواب بالکل غلط ہے، سوال یہ ہے کہ جس شخص کو اِنعامی بونڈز کی رقم ملی، وہ کس مد میں ملی؟ اور شریعت کے کس قاعدے سے اس کے لئے حلال ہوگئی․․․؟

بینک اور پرائز بونڈز سے ملنے والا نفع سود ہے

س… میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جو بینکوں میں رقم رکھوانے سے اور پرائز بونڈز اور سرٹیفکیٹس پر جو نفع ملتا ہے، کیا یہ سود ہے؟ میرے علم میں تو یہ ہے کہ یہ سود ہے، لیکن ایک صاحب فرماتے ہیں کہ: ”اس کو سود ماننے کو ہماری عقل نہیں مانتی کیونکہ یہ تو تجارت ہے، اور جو نفع ملتا ہے وہ سود نہیں بلکہ خالص منافع ہے، اور مُلَّاوٴں نے خواہ مخواہ ہی اسے سود قرار دیا ہے، اس کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے۔“ پس اب آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں اس کی وضاحت کردیجئے تاکہ یہ غلط فہمی دُور ہوجائے۔

ج… یہ بھی سود ہے۔ اگر کسی کی عقل نہ مانتی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کے کسی نیک بندے کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی اصلاح کرانی چاہئے، یا فردائے قیامت کا انتظار کرنا چاہئے، اس دن پتا چل جائے گا کہ مُلَّا ٹھیک کہتا تھا یا مسٹر صاحب کی عقل ٹھیک سوچتی تھی․․․!

اِنعامی اسکیموں کے ساتھ چیزیں فروخت کرنا

س… اب سے کچھ عرصہ پہلے تک مملکتِ پاکستان میں بچوں کے لئے ٹافیاں وغیرہ بنانے والے کاروباری منافع خوروں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا کہ اپنے ناقص مال کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لئے مختلف لاٹریوں اور اِنعامی کوپن کے چکر چلاکر معصوم بچوں کو بیوقوف بنایا جارہا تھا۔ مثلاً: اگر بچے کوئی مخصوص سپاری یا چیونگم خریدیں تو ہر پیکٹ میں ایک سے پانچ یا سات تک کوئی نمبر ہوگا، بچوں سے کہا جاتا ہے اگر وہ یہ نمبر پورے جمع کرلیں تو انہیں ایک عدد گھڑی، گانوں کا کوئی کیسٹ یا کوئی اور قیمتی چیز بطور انعام دی جائے گی۔ معصوم بچے انعام حاصل کرنے کے لالچ میں دھڑا دھڑ ناقص اور صحت کے لئے نقصان دہ چیزیں خرید کر کثرت سے کھاتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو یہ بچے اپنے والدین کا پیسہ برباد کرتے ہیں، اور دُوسری طرف ملک و قوم کی امانت یعنی اپنی صحت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ بچے کتنی بھی خریداری کرلیں مگر وہ نمبر پورے جمع نہیں ہوتے ہیں۔ اب تک یہ سلسلہ بچوں تک محدود تھا، مگر زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اِنعامی اسکیم کی یہ کاروباری حکمتِ عملی بھی کسی وبائی بیماری کی طرح چاروں طرف پھیلتی چلی گئی اور آج ہمارے وطنِ عزیز کی بڑی بڑی کمپنیاں ایک دُوسرے پر بازی لے جانے کے لئے چاروں طرف انعامی اسکیموں کا جال پھیلا رہی ہیں۔ یہ انعامی اسکیمیں اس غریب ملک کے عوام کے ساتھ ایک بڑا ظلم ہے، کیونکہ یہ اسکیمیں انہیں فضول خرچی اور غیرضروری خریداری کی طرف صرف اور صرف انعام کے لالچ کی وجہ سے راغب کر ہی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک عام آدمی کے محدود مالی وسائل نہ صرف بُری طرح متأثر ہوتے ہیں، بلکہ اس کے لئے مالی مشکلات اور ذہنی پریشانیوں کا باعث بھی بنتے ہیں، کیونکہ ان انعامی اسکیموں کے جاری کرنے والے مفاد پرست عناصر نے کمالِ ہوشیاری کے ساتھ ایسے حربے اپنائے ہوئے ہیں کہ اوّل تو اِنعام نکلتا ہی نہیں اور اگر نکلتا ہے تو لاکھوں خریداروں میں صرف ایک آدھ کا، نتیجہ ظاہر ہے مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔

          یہ صورتِ حال نہ صرف مایوس کن بلکہ باعثِ ندامت بھی ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں جہاں کی حکومت ملک کے معاشرے کو اسلامی قانون اور شریعت میں ڈھالنے کی سخت جدوجہد کر رہی ہے، وہاں چند مفاد پرست اور خود غرض عناصر اپنے مالی فائدے کے لئے ملک کے سادہ لوح غریب عوام اور معصوم بچوں و نوجوانوں کے اخلاق کو تباہ کر رہے ہیں، کیونکہ ان لاٹری اسکیموں کا شکار سب سے زیادہ بچے اور نوجوان ہو رہے ہیں، جن میں انعام کی لالچ میں جوئے اور قماربازی کا عنصر جنم لے رہا ہے، جو آگے چل کر ان کی اخلاقی اور معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ ملکی ذرائع ابلاغ جو ہمارے اندر قومی تشخص اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے صحیح فضا بنانے کے ذمہ دار ہیں، انہیں بھی اس وبا اور غیراخلاقی مہم کو گھر گھر پہنچانے کے لئے بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ٹیلیویژن جو کہ حکومتِ پاکستان کا ایک قومی ادارہ ہے، اس پر آج کل اسکیموں کے اشتہارات کی بھرمار ہے۔

          محترمی! خود میرے ساتھ بھی یہ واقعہ ہوچکا ہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے ایک مشہور چائے کمپنی کے کمرشل ریڈیو پروگرام میں بہترین شعر روانہ کرنے پر مجھے چائے کے پورے کارٹن کا حق دار قرار دیا گیا اور ریڈیو پر اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا، کافی عرصہ انتظار کے بعد جب انعام مجھے موصول نہ ہوا تو میں مذکورہ کمپنی کے دفتر گیا، وہاں انہوں نے جواب دیا کہ: ”ہمیں کچھ معلوم نہیں، آپ ریڈیو والوں سے جاکر معلوم کریں۔“ اس طرح کے انعامی چکر آج کل چاروں طرف چل رہے ہیں۔ مہربانی فرماکر آپ فقہِ حنفیہ کی روشنی میں یہ بتائیے کہ کیا یہ انعامی اسکیمیں دِینِ اسلام میں جائز اور حلال ہیں؟ اگر نہیں تو حکومت چاروں طرف پھیلے ہوئے اس غیراخلاقی طوفان کا کوئی نوٹس کیوں نہیں لیتی؟

ج… کسی چیز کے انفرادی جواز و عدمِ جواز سے قطع نظر اس کے معاشرتی فوائد و نقصانات پر غور کرنا چاہئے، آپ نے انعامی لاٹریوں کا جو نقشہ پیش کیا ہے، یہ ملک و ملت کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں۔ اس لئے حکومت کو اس فریب دہی کا سدِ باب کرنا چاہئے۔

          جہاں تک انفرادی جواز کا تعلق ہے، بظاہر کمپنی کی طرف سے انعامی کوپن کا اعلان بڑا دِلکش اور معصوم معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کمپنی انعام کی شرط پر اپنی چیزیں فروخت کرتی ہے اور خریداروں میں سے ہر خریدار گویا اس شرط پر چیز خریدتا ہے کہ اسے یہ انعام ملے گا، گویا اس کاروبار کا خلاصہ ”خرید و فروخت بشرطِ انعام“ ہے، اور شرعاً ایسی خرید و فروخت ناجائز ہے جس میں کوئی ایسی خارجی شرط لگائی جائے جس میں فریقین معاملے میں سے کسی ایک کا نفع ہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ: ”حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خرید و فروخت سے منع فرمایا، جس میں شرط لگائی جائے“ اس لئے یہ انعامی کاروبار شرعاً ناجائز بھی ہے اور معاشرے کے لئے مہلک بھی، حکومت کو چاہئے کہ اس پر پابندی عائد کرے۔

انعامی پروگراموں میں حصہ لینا کیسا ہے؟

س… میں اکثر انعامی پروگراموں میں حصہ لیتا ہوں، اور مختلف کہانیاں اور دیگر معلومات انعامی پروگراموں کے لئے بھیجتا ہوں، جن میں کافی محنت خرچ ہوتی ہے، اگر میرا انعام نکل آئے تو وہ انعام میرے لئے صحیح ہے یا غلط؟

ج… یہ اِنعامی پروگرام بھی مہذّب جوا ہے۔

  • Tweet

What you can read next

وراثت
مضاربت یعنی شراکت کے مسائل
مورث کی زندگی میں جائیداد کی تقسیم
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP