SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
1
Shaheed-e-Islam
Friday, 13 August 2010 / Published in چلد پنجم

طلاق کے متفرق مسائل

 

جب تک سوتیلی ماں کے ساتھ بیٹے کا زنا ثابت نہ ہو وہ شوہر کے لئے حرام نہیں

س… زید نے اپنی سوتیلی ماں سے زنا کیا، زید کی چچی نے اس کی تمام حرکات کو دیکھا، زید نے چچی سے کہا کہ مجھے معاف کرو، آئندہ کے لئے ایسا نہیں کروں گا اور اس واقعہ کا ذکر کسی نہ کریں۔ صبح ہوتے ہی چچی نے شور مچاکر اس کی تشہیر کردی اور محلے کے ایک عالم کے پاس جاکر پورا واقعہ بیان کیا۔ عالم نے محلہ والوں سے حالات دریافت کئے، معلوم ہوا کہ ان کے تعلقات ماں بیٹے جیسے نہ تھے، تو عالم نے محلہ والوں کو جمع کرکے زید کی چچی سے شہادت طلب کی تو اس نے شہادت دینے سے انکار کردیا کہ مجھے معلوم نہیں۔ مولانا صاحب نے ازراہ احتیاط عمرو (یعنی زید کے باپ) سے کہا کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، اس نے نہیں چھوڑا، کیا یہ عورت عمرو کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو ٹھیک ورنہ حلال ہونے کی کیا صورت ہے؟

ج… جب تک شرعی گواہ موجود نہ ہوں، یا اس عورت کا خاوند تسلیم نہ کرے اس وقت تک حرمت کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا، اور عمرو کا نکاح بدستور باقی رہے گا۔ شکوک و اوہام اور اَٹکل پچو سے شرعاً زنا کا ثبوت نہیں ہوتا۔ ہاں! البتہ اگر صاحبِ واقعہ کو معلوم ہو تو دیانتاً حرمت آجائے گی، اور اگر شرعی گواہوں سے یا خاوند کے اقرار سے زید کا سوتیلی ماں سے زنا ثابت ہوجائے تو پھر عمرو پر اس کی بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔ اس صورت میں خاوند کو چاہئے کہ بیوی کو چھوڑ دے اور چھوڑنے کی بہتر صورت یہ ہے کہ بیوی کو زبان سے کہہ دے کہ: ”میں نے تجھے چھوڑ دیا“ اور پھر دونوں علیحدگی اختیار کرلیں۔ یا مسلمان حاکم میاں بیوی میں تفریق کرادے۔

مطلقہ بیوی کا انتقام اس کی اولاد سے لینا سخت گناہ ہے

س… کوئی شخص اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے اور دُوسری شادی کرلے اور پہلی بیوی سے جو اولاد ہو، اس سے وہ انتقام پہلی بیوی کا لے، یعنی اس کو عاق کرنے کی کوشش کرے، ذرا تفصیل سے بیان کریں، کیا یہ رویہ دُرست ہے؟

ج… مطلقہ بیوی کا انتقام اس کی اولاد سے لینا اور اولاد کو عاق کرنا دونوں باتیں سخت گناہ ہیں، اور عاق کرنے سے بھی اس کی اولاد وراثت سے محروم نہیں ہوگی۔

اگر بہو سسر پر زنا کا دعویٰ کرے تو حرمتِ مصاہرت!

س… اگر ایک بہو اپنے سسر پر زنا کا دعویٰ کرے، اس پر حرمتِ مصاہرہ لازم آتی ہے یا کہ نہیں؟

ج… اگر شوہر اس کی تصدیق نہیں کرتا تو حرمتِ مصاہرہ ثابت نہیں ہوگی۔

کیا بیٹا باپ کی طرف سے ماں کو طلاق دے سکتا ہے؟

س… اگر کسی عورت پر زنا کا الزام عائد ہوتا ہے اور اس کا شوہر اس ملک میں موجود نہیں اور زنا کے گواہ بھی موجود ہیں تو کیا اس کے بیٹے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ماں کو باپ کی طرف سے طلاق دے سکتا ہے؟

ج… کوئی کسی کی طرف سے طلاق نہیں دے سکتا۔

کیا ”تیری داڑھی شیطان کی داڑھی ہے“ کہنے والے کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی؟

س… دو شخص آپس میں ایک دِینی مسئلے پر تنازع کرتے ہیں اور ان میں سے ایک شخص دُوسرے کو غصّے کی حالت میں کہتا ہے: ”تیری داڑھی شیطان کی داڑھی ہے“ اور اس بات کی دو تین بار تکرار کرتا ہے، اس شخص کی بیوی کو طلاق ہوگی یا نہیں؟

ج… اس شخص کا یہ کہنا کہ: ”تیری داڑھی شیطان کی داڑھی ہے“ شرعاً دُرست نہیں، اور یہ قول اس کا نہایت ناپسندیدہ اور داڑھی کی اہانت کا موجب ہے۔ اس لئے وہ سخت گنہگار ہوا، اس کو توبہ و اِستغفار کرنا چاہئے اور آئندہ کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے مکمل احتراز کرنا چاہئے۔ البتہ اس لفظ سے کفر لازم نہیں آتا اور نہ ہی اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوتی ہے، کیونکہ اس شخص کا مقصود داڑھی کی توہین نہیں۔

کسی کے پوچھنے پر شوہر کہے کہ ”میں نے طلاق دے دی ہے“ کیا طلاق ہوجائے گی؟

س… میرے شوہر ہر بات پر یہ دھمکی دیتے تھے کہ: ”میں تمہیں طلاق دے دُوں گا، اور دُوسری شادی کرلوں گا“ یہ جملہ انہوں نے تقریباً ایک لاکھ دفعہ دہرایا ہوگا۔ ہر موقع پر ان کا یہی تکیہ کلام تھا، اس کے بعد انہوں نے مجھے میرے میکے بھیج دیا اور لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ: ”میں نے طلاق دے دی ہے، معاملہ ختم کردیا ہے“ ایک دو جگہ اس طرح بھی ہوا کہ کسی نے پوچھا کہ: تم کیا چاہتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ”طلاق!“ وہ مجھے واپس نہیں بلانا چاہتے اور طلاق دینا چاہتے ہیں، لیکن ان کی یہ کوشش ہے کہ میں طلاق کا مطالبہ کروں تاکہ مجھے مہر معاف کرنا پڑے اور مہر ادا کئے بغیر ان کی خواہش کی تکمیل ہوجائے۔

ج… اگر کسی کے پوچھنے پر شوہر یہ کہہ دے کہ: ”میں نے طلاق دے دی ہے“ تو اس سے طلاق ہوجاتی ہے، آپ اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں دعویٰ کریں اور شہادتوں کے ذریعہ ثابت کریں کہ فلاں فلاں اشخاص کے سامنے اس نے طلاق کے الفاظ کہے ہیں۔ عدالت شہادتوں کی سماعت کے بعد طلاق کا فیصلے دے دی گی اور آپ کا مہر بھی دِلا دے گی۔

نکاح و طلاق کے شرعی اَحکام کو جہالت کی روایتیں کہنے والے کا حکم

س… عید کے بعد سخت غصّے کی حالت میں خاوند نے مجھ سے صاف صاف الفاظ میں اس طرح کہا: ”میری طرف سے تجھے طلاق، طلاق، طلاق، تو آج سے میری ماں کے برابر ہے“ جب غصہ اُترا تو کہنے لگے: ”غصّے کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی، اس کے لئے باقاعدہ درخواست دینا پڑتی ہے، جب کہیں طلاق ہوتی ہے۔“ میں نے اپنے ایک ہمسایہ سے پوچھا، اس نے کہا: اب تو تمہیں طلاق پڑچکی ہے۔ لیکن خاوند کسی طرح نہیں مانتا، میں نے قرآن شریف اور بہشتی زیور دِکھایا تو اس نے نعوذ باللہ بُرا بھلا کہنا شروع کردیا کہ یہ تو جہالت کے وقت کی روایتیں ہیں، آج پڑھا لکھا معاشرہ ہے، اس پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ ویسے میرا تو قرآن شریف اور حدیث پر پورا پورا ایمان ہے، لیکن یہ آدمی مجھے زبردستی گناہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رہا ہے، لیکن میں اِن شاء اللہ انجام کی پروا کئے بغیر ایسا نہ کروں گی چاہے میری حالت کچھ ہو۔

ج… طلاق غصّے ہی میں دی جاتی ہے، ہنسی خوشی میں طلاق کون دیا کرتا ہے؟ غصّے کی حالت میں طلاق ہوجاتی ہے اور زبانی طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے۔ اس شخص کا یہ کہنا کہ: ”یہ تو جہالت کے وقت کی روایتیں ہیں“ کلمہٴ کفر ہے، اس شخص کو اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہئے۔ اور آپ اس کے لئے بالکل حرام ہوچکی ہیں، اس سے علیحدگی اختیار کرلیجئے۔

 

 

 

 

 

پروَرِش کا حق

 

باپ کو بچی سے ملنے کی اجازت نہ دینا ظلم ہے

س… زید اور اس کی بیوی کے درمیان طلاق ہوگئی، ان کی ایک بچی بھی ہے جس کی عمر تقریباً پونے دو سال ہے اور جو اپنی ماں کے پاس اپنے نانا کے گھر ہے۔ زید اپنی مطلقہ کو اَیامِ عدّت کا خرچ بھی دے چکا ہے، نیز بچی کی پروَرِش کا خرچ بھی وہ بذریعہ منی آرڈر متعدّد بار بھیج چکا ہے جو کہ بچی کی ماں وصول نہیں کرتی، زید اپنی بچی سے ملنا چاہتا ہے جبکہ بچی کی ماں اور اس کے نانا بچی کو اپنے باپ سے قطعاً ملنے نہیں دیتے۔ تو شریعت میں اس کے لئے کیا حکم ہے؟ آیا زید اپنی بچی سے مل سکتا ہے یا نہیں؟

ج… باپ اپنی بچی سے جب چاہے مل سکتا ہے، اس سے نہ ملنے دینا ظلم ہے، غالباً ان کو یہ خطرہ ہوگا کہ باپ بچی کو نہ لے جائے اور ماں سے جدا نہ کردے، اگر ایسا اندیشہ ہو تو اس اندیشے کا تدارک کرنا چاہئے۔

بچوں کی پروَرِش کا حق

س… میں نے اپنی بیوی کو بوجہ خلافِ شرع کاموں کی مرتکب ہونے کے طلاق دے دی، الفاظ یوں ادا کئے: ”میں نے اپنی بیوی کو جو میرے نکاح میں ہے، اس کو طلاق دی“ یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا تھا، کیا یہ طلاق ہوگئی ہے؟ مجھے اپنی بیوی کا مہر کتنے دن کے اندر اندر ادا کرنا چاہئے؟ میرے کم عمر بچے، بچی ایک ڈھائی سال کی، ایک ایک سال کی اسی کے پاس ہے، وہ ان کو کتنے عرصے تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے؟ کیا مجھے ان بچیوں کا خرچہ دینا پڑے گا؟

ج… آپ کی بیوی نکاح سے نکل گئی، نکاح ٹوٹ گیا، بیوی حرام ہوگئی، اب دوبارہ رُجوع یا تجدیدِ نکاح کی کوئی صورت نہیں۔ مہر واجب ہے جلد از جلد ادا کردینا چاہئے۔ لڑکیوں کو ماں اپنے پاس ان کے جوان ہونے تک (یعنی ۹برس کی عمر تک) رکھ سکتی ہے، البتہ اگر ماں کی اخلاقی حالت خراب ہو یا وہ بچیوں کے غیرمحارِم میں نکاح کرلے تو اس کا حقِ پروَرِش ساقط ہوجائے گا۔ پروَرِش کا خرچ ہر حال میں باپ کے ذمہ ہوگا۔

بچہ سات برس کی عمر تک ماں کے پاس رہے گا

س… طلاق کی صورت میں بچوں کی پروَرِش کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

ج… طلاق کے بعد بچہ سات سال کی عمر تک اپنی والدہ کے پاس رہتا ہے، اس کے بعد بچے کا والد اس کو لے سکتا ہے، اور لڑکی جوان ہونے تک والدہ کے پاس رہتی ہے، جوان ہونے کے بعد باپ اس کو لے سکتا ہے۔ نکاح کرانے کا اختیار اسی کو ہے اور اگر فساد کا اندیشہ ہو تو باپ بچی کو ۹ برس کی مدّت کے بعد لے سکتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نان و نفقہ

 

بلاوجہ ماں باپ کے ہاں بیٹھنے والی عورت کا خرچہ خاوند کے ذمہ نہیں

س… میری بیوی عرصہ ۷ ماہ سے اپنے والدین کے گھر ناراض ہوکر بیٹھ گئی ہے، اور میں ہر ماہ باقاعدگی سے ان کا خرچہ اور بچوں کا خرچہ مسلسل بھیج رہا ہوں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ آخر کب تک بھیجتا رہوں گا، کیونکہ نہ ان کو میری فکر ہے اور نہ ہی لڑکی کے ماں باپ کو یہ فکر ہے کہ اپنی لڑکی کو شوہر کے پاس بھیجیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ میں ہر ماہ باقاعدگی سے ان کو خرچ وغیرہ بھیجتا رہوں یا نہیں؟

ج… بیوی شوہر سے نان و نفقہ وصول کرنے کی اس وقت تک مستحق ہے جبکہ وہ اپنے شوہر کے گھر آباد ہو، اگر وہ شوہر کی اجازت و منشاء کے بغیر بلاوجہ اپنے میکے میں جابیٹھے تو وہ شرعاً ”ناشزہ“ (نافرمان) ہے، اور ناشزہ کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ نہیں۔

بچے کے اخراجات

س… خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، بیوی کے اصرار پر لڑکا جو کہ طلاق کے وقت پانچ ماہ کا تھا بیوی کے حوالے کردیا، اب جب لڑکا چھ سال کا ہوگیا ہے تو خاوند نے کہا کہ بچہ مجھے دے دو، اس پر بیوی نے مقدمہ کیا کہ یا تو بچہ میرے پاس رہے یا یہ کہ چھ سال بچے کی پروَرِش کا خرچہ مجھے دے جو کہ بیس ہزار روپے ہے۔ کیا باپ کے ذمہ ان گزشتہ سالوں کا خرچ دینا لازمی ہے؟ جبکہ بیوی نے دُوسری شادی بھی کرلی ہے۔

ج… بچے کا خرچ اس کے باپ کے ذمہ ہے، اس کا فرض تھا کہ بچے کے اخراجات ادا کرتا، اور اگر اس نے ادا نہیں کئے تو بچے کی ماں وصول کرنے کی مجاز ہے۔

مطلقہ عورت کے لئے عدّت میں خوراک و رہائش کس کے ذمہ ہے؟

س… مطلقہ عورت نان و نفقہ و خوراک، لباس، مکان، علاج و معالجے کے لئے کتنی رقم پانے کی مستحق ہے؟ کیا برادری والے اس قضیہ کا تصفیہ کرسکتے ہیں؟

ج… مطلقہ عورت کو طلاق دہندہ کے گھر میں عدّت گزارنا لازم ہے، اور وہ عدّت پوری ہونے تک طلاق دہندہ کی جانب سے رہائش اور نان و نفقہ کی مستحق ہے، اور اس کی مقدار کا تعین مرد کی حیثیت کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا جانا چاہئے۔

طلاق دینے والا مطلقہ کو کیا کچھ دے گا؟ اور بچہ کس کے پاس رہے گا؟

س… میاں بیوی میں طلاق ہوجاتی ہے، ان کا ایک بچہ ہے جو تقریباً ایک سال کا ہے، وہ کس کے پاس رہے گا، باپ کے پاس یا ماں کے پاس؟ اس کے علاوہ خاوند بیوی کو کیا کچھ دے گا؟

ج… مذکورہ صورت میں شوہر پر پورا مہر ادا کرنا لازم ہے (اگر پہلے ادا نہ کیا ہو یا عورت نے معاف نہ کردیا ہو)، اس کے علاوہ مطلقہ کو ایک جوڑا دینا مستحب ہے، اور عدّت کے دوران کا نان و نفقہ بھی شوہر کے ذمہ ہے، اس کے علاوہ شوہر کے ذمہ کوئی چیز نہیں۔ بچہ سات برس کی عمر تک اپنی ماں کے پاس رہے گا، سات سال کے بعد باپ اس کو لے سکتا ہے، اور لڑکی جوان ہونے تک اپنی والدہ کے پاس رہے گی اس کے بعد باپ کے پاس۔

بیوی کا نان و نفقہ اور اقارب کے نفقات

س… عرض یہ ہے کہ ازدواجی رشتہ فقہ کی رُو سے ”جدی“ ہے یا ”رحمی“؟ وضاحت سے سمجھائیے، جدی اور رحمی رشتے کے طرفین پر کیا حقوق ہیں؟ مرد کی ماہانہ کمائی اس کا اثاثہ ہوتا ہے، دورِ حاضر کی بیوی کل اثاثہ کی خود کو حق دار اور مختارِ کل متصوّر کرتی ہے، اور شوہر کو اس کے جدی حقوق کی تکمیل میں مختلف طریقوں سے رُکاوٹیں کھڑی کردیتی ہے جس کی وجہ سے مرد سخت گنہگار ہوتا ہے۔ فقہِ حنفیہ کی روشنی میں پوری وضاحت سے سمجھایا جائے کہ شوہر کے ماہانہ اثاثے کے وارث اور حق دار جدی رشتے سے معمر والدین اور حقیقی بہن بھائی غیر شادی شدہ ہیں یا بر بنا رحمی رشتہ بیوی کے والدین اور ان کی اولاد ہیں؟

ج… میاں بیوی کا رشتہ نہ جدی ہے، نہ رحمی، دونوں سے الگ ازدواجی رشتہ ہے۔ شوہر کے ذمہ بیوی کا نان و نفقہ ہے، اور دیگر اہلِ قرابت کے حقوق بھی مرد کے ذمہ ہیں۔ اگر بیوی ان حقوق کی ادائیگی سے مانع نظر آتی ہے تو یہ اس کی کم ظرفی و بے دِینی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ایک بڑے درجے کے اِمام، محدّث، فقیہ اور مجاہد ہوئے ہیں، وہ فرمایا کرتے تھے کہ: ”عورتوں کا وہ فتنہ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے، یہ ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے قطع رحمی کا سبب بنتی ہیں، اور ان کو معمولی رذیل پیشوں کا محتاج کرتی ہیں۔“ اس لئے جس عورت کا شوہر اس کے نان و نفقہ کے حقوق ادا کر رہا ہو اس کے لئے قطعاً جائز نہیں کہ اسے اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی مالی خدمت سے روکے۔ رہا عزیز رشتہ داروں کے حقوق کا تعین، تو یہ مسئلہ کافی تفصیل طلب ہے، اس کا اُصول اور ضابطہ میں عرض کئے دیتا ہوں۔ اگر والدین یا دُوسرے رشتہ دار خود غنی ہوں تو ان کی مالی کفالت آپ کے ذمہ نہیں، اور اگر وہ نادار ہوں تو ان کی کفالت کا بار حصہ رسدی ان لوگوں پر آتا ہے جو ان کے مرنے کے بعد وارث ہوں، مثلاً: آپ کا کوئی عزیز نادار ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ خدانخواستہ اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی وراثت کا کتنا حصہ آپ کو ملے گا؟ بس اس کے مصارف کا اتنا حصہ ہی آپ کے ذمہ واجب ہے، اور اس سے زیادہ محض احسان ہے۔

 

عائلی قوانین

 

عائلی قوانین کا گناہ کس پر ہوگا؟

س… ایک سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ: ”اَیوب خان (سابق صدرِ پاکستان) کے عائلی قوانین کے مطابق کونسلر صاحب کو طلاق کی اطلاع دینا ضروری ہے، اور شوہر تین طلاق کے بعد بھی اپنی بیوی سے بذریعہ کونسلر مصالحت کرسکتا ہے جبکہ تین طلاق کے بعد مصالحت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔“ اگر مصالحت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تو پھر ہمارے اسلامی ملک میں یہ غیراسلامی قانون کیوں نافذ ہے؟ موجودہ دور میں کونسلر بھی موجود ہیں اور یقینا اس قانون پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہوگا، اور بہت سے لوگوں کو قانون کے سائے میں گناہ کی زندگی کی طرف راغب کیا جارہا ہوگا، اس گناہ کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا ہم پر ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ اس قانون کے نفاذ اور مقاصد کا جائزہ لیتے ہوئے یا تو اسلامی سانچے میں اس قانون کو ڈھلوائیں یا پھر اس کو ختم کروائیں۔ جہاں تک میری ناقص رائے کا تعلق ہے تو اَیوب خان (سابق صدرِ پاکستان) کے عائلی قوانین کا صرف ایک مقصد سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ طلاق کے بڑھتے ہوئے رُجحان کو روکا جاسکے، یقینا یہ ایک بُری لعنت ہے لیکن بُرائی کا خاتمہ بُرائی سے کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ اگر عائلی قوانین کے نفاذ کا مطلب طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنا تھا تو کیا اسے اس طرح نافذ نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ہر شخص کو اس بات کا پابند کردیا جائے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینے سے پہلے کونسلر کو مطلع کرے تاکہ طلاق دینے کی وجوہات معلوم کرکے دونوں فریقوں میں مصالحت کی کوشش کروائی جاسکے۔ یقینا اس طرح طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکا جاسکتا ہے۔

ج… آپ کی تجویز بہت مناسب ہے۔ دراصل حضراتِ علمائے کرام کی طرف سے اَیوب خان (سابق صدرِ پاکستان) کو بھی اچھی اچھی تجاویز پیش کی گئی تھیں اور موجودہ حکومت کو بھی پیش کی جاچکی ہیں، لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ عائلی قوانین، جس میں اسلامی اَحکام کو بالکل مسخ کردیا گیا ہے، اب تک پاکستان پر مسلط ہیں۔ بلکہ شرعی عدالت کے دائرہٴ اختیار سے بھی خارج ہیں۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کی کافر حکومت مسلمانوں کے عائلی قوانین کو مسخ کرنے کی جرأت نہیں کرسکی، لیکن پاکستان میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں اسلامی قوانین کی مٹی پلید کی گئی ہے۔ اب یہ ارکانِ اسمبلی کا فرض ہے کہ وہ خدا کے غضب سے ڈریں اور اس خلافِ اسلام قانون کو منسوخ کرائیں۔

خلع کی شرعی حیثیت اور ہمارا عدالتی طریقہٴ کار

س… آپ نے ۱۲/اگست ۱۹۹۴ء کے اسلامی صفحہ اقرأ میں لکھا تھا کہ خلع کے لئے زوجین کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری دے دی تو خلع نہیں ہوگا اور عورت کے لئے دُوسری جگہ نکاح کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

          ۲/ستمبر ۱۹۹۴ء کے روزنامہ ”جنگ“ میں ایک خاتون حلیمہ اسحاق صاحبہ نے آپ کے مسئلے کی مدلل تردید کرتے ہوئے لکھا کہ عورت خود خلع لے سکتی ہے اور عدالت بھی شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع دے سکتی ہے، تین ہفتے بعد ۲۳/ستمبر کے اسلامی صفحہ میں آپ نے دوبارہ وہی مسئلہ لکھا لیکن اس مضمون کا کوئی جواب نہیں دیا۔

          مولانا صاحب! اس مضمون سے بہت سے لوگ شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ حلیمہ اسحاق نے قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ مسئلہ لکھا تھا، مگر آپ اس کے دلائل کا کوئی توڑ نہیں کرسکے، از راہ کرم دلائل کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت کیجئے اور بے شمار لوگوں کے ذہن کی اُلجھن دُور ہو۔

ج… محترمہ حلیمہ اسحاق صاحبہ کا مضمون شائع ہونے پر بہت سے لوگوں نے خطوط اور ٹیلیفون کے ذریعہ اس ناکارہ سے وضاحت طلب کی، اس ناکارہ نے ان کو تو جواب دے دیا اور مسئلے کی وضاحت بھی دوبارہ شائع کردی، لیکن محترمہ حلیمہ کے مضمون سے تعرض کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ ایک نامحرَم خاتون کا نام لیتے ہوئے بھی طبعی طور پر شرم و حیا مانع آتی ہے، چہ جائیکہ ایک خاتون کی تردید میں قلم اُٹھایا جائے۔ اگر محترمہ نے یہ مضمون اپنے والد، بھائی یا شوہر کے نام سے شائع کردیا ہوتا تو اس کی تردید میں یہ طبعی حجاب مانع نہ ہوتا، بہرحال چونکہ اس مضمون سے بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں، اس لئے یہ وضاحت کردینا ضروری ہے کہ محترمہ نے جو کچھ لکھا ہے وہ شرعی مسئلہ نہیں بلکہ ان کی انفرادی رائے اور ان کا اپنا اجتہاد ہے، کیونکہ تمام فقہائے اُمت اس مسئلے پر متفق ہیں کہ خلع ایک ایسا معاملہ (عقد) ہے جو فریقین (میاں بیوی) کی رضامندی پر موقوف ہے، حوالے کے لئے دیکھئے:

          فقہِ حنفی:… السرخسی: مبسوط ج:۶ ص:۱۷۳۔ الکاسانی: بدائع الصنائع ج:۳ ص:۱۴۵، ابنِ عابدین شامی: حاشیہ در مختار ج:۳ ص:۴۴۱۔ عالمگیری ج:۱ ص:۴۸۸۔

          فقہِ شافعی:… اِمام شافعی: کتاب الاُم ج:۵ ص:۲۱۴، ایضاً ج:۵ ص:۲۱۳، ایضاً ج:۵ ص:۲۱۲، ایضاً ج:۵ ص:۲۰۸۔ نووی: شرح مہذب ج:۱۷ ص:۳۔

          فقہِ مالکی:… ابنِ رُشد: بدایة المجتہد ج:۲ ص:۵۱۔ قرطبی: الجامع لاحکام القرآن ج:۳ ص:۱۲۵۔

          فقہِ حنبلی:… ابنِ قیم: زاد المعاد ج:۵ ص:۱۹۶۔ ابنِ قدامہ: المغنی ج:۳ ص:۱۷۴۔

          فقہِ ظاہری:… ابنِ حزم: المحلّٰی ج:۱۰ ص:۲۳۵ و ص:۸۸۔

          لہٰذا شرعاً خلع کے لئے میاں بیوی دونوں کا رضامند ہونا لازم ہے، نہ بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر اس کو خلع لینے پر مجبور کرسکتا ہے، اور نہ شوہر کی رضامندی کے بغیر عورت خلع حاصل کرسکتی ہے، اسی طرح عدالت بھی میاں بیوی دونوں کی رضامندی کے ساتھ تو خلع کا حکم کرسکتی ہے، لیکن اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو کوئی عدالت بھی خلع کا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں۔

          اس شرعی مسئلے کے خلاف محترمہ حلیمہ اسحاق صاحبہ کا یہ کہنا بالکل غلط اور قطعاً بے جا ہے کہ : ”قرآن و سنت کی روشنی میں خلع کے لئے خاوند کی اجازت یا مرضی ضروری نہیں۔“

          اہلِ عقل و فہم کے نزدیک محترمہ کی اس رائے کی غلطی تو اسی سے واضح ہے کہ یہ رائے تمام اکابر اَئمہ مجتہدین کے خلاف ہے، لہٰذا اس رائے کو صحیح ماننے سے پہلے ہمیں یہ فرض کرلینا پڑے گا کہ گزشتہ صدیوں کے تمام اَئمہ دِین، مجتہدین اور اکابر اہلِ فتویٰ نہ قرآن کو سمجھ سکے اور نہ سنت کو۔ قرآن و سنت کو پہلی مرتبہ محترمہ حلیمہ اسحاق نے صحیح سمجھا ہے۔ کسی شخص کی ایسی انفرادی رائے جو اِجماعِ اُمت کے خلاف ہو، اس کے غلط اور باطل ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں، اس رائے کا خلافِ اِجماع ہونا ہی اس کے باطل ہونے کی کافی دلیل ہے۔

          مگر دورِ حاضر کے اہلِ قلم شاید اپنے آپ کو اِمام ابوحنیفہ و اِمام شافعی سے کم نہیں سمجھتے، اس لئے ضروری ہوا کہ محترمہ کے دلائل پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ محترمہ نے اپنے مدعا کے ثبوت میں سورة البقرة کی آیت: ۲۲۹ کا حوالہ دیا ہے، مگر چونکہ یہ آیت شریفہ، محترمہ کے خلاف جاتی تھی اس لئے انہوں نے نہ تو آیت شریفہ کا پورا متن یا ترجمہ نقل کرنے کی زحمت فرمائی، اور نہ اس اَمر کی وضاحت فرمائی کہ انہوں نے اس آیت شریفہ سے یہ ہولناک دعویٰ کیسے کشید کرلیا کہ:

          ”خلع کے لئے خاوند کی اجازت یا مرضی ضروری نہیں۔“

          مناسب ہوگا کہ محترمہ کی غلط فہمی کی اصلاح کے لئے آیت شریفہ کا مستند ترجمہ نقل کردیا جائے، اس کے بعد قارئینِ کرام کو آیت کے مضمون پر غور و فکر کی دعوت دی جائے، تاکہ قارئین معلوم کرسکیں کہ آیا یہ آیت شریفہ، محترمہ حلیمہ اسحاق صاحبہ کے مدعا کی تائید کرتی ہے یا اس کی نفی کرتی ہے؟

          حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر ”بیان القرآن“ میں آیت شریفہ کا تشریحی ترجمہ حسبِ ذیل دیا گیا ہے:

          ”اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ (بیبیوں کو چھوڑتے وقت ان سے) کچھ بھی لو (گو وہ لیا ہوا) اس (مال) میں سے (کیوں نہ ہو) جو تم (ہی) نے ان کو (مہر میں) دیا تھا، مگر (ایک صورت میں البتہ حلال ہے وہ) یہ کہ (کوئی) میاں بی بی (ایسے ہوں کہ) دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ضابطوں کو (جو دربارہٴ ادائے حقوقِ زوجیت ہیں) قائم نہ کرسکیں گے، سو اگر تم لوگوں کو (یعنی میاں بی بی کو) یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔“

(حضرت تھانوی: بیان القرآن ج:۱

ص:۱۳۳ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

          اس آیت شریفہ کے مضمون کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:

          ۱:… اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو چھوڑنا چاہے تو بیوی سے کچھ مال لینا اس کے لئے حلال نہیں، خواہ وہ مال خود شوہر ہی کا دیا ہو کیوں نہ ہو۔

          ۲:… صرف ایک ہی صورت ایسی ہے جس میں شوہر کے لئے بیوی سے معاوضہ لینا حلال ہے، وہ یہ کہ میاں بیوی دونوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے مقرّر کردہ ضابطوں کو قائم نہیں کرسکیں گے۔

          ۳:… پس اگر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے کہ میاں بیوی دونوں یہ محسوس کرتے ہوں کہ اب وہ میاں بیوی کی حیثیت سے حدودِ خداوندی کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں کو خلع کا معاملہ کرلینے میں کوئی گناہ نہیں، اور اس صورت میں بیوی سے بدل خلع کا وصول کرنا شوہر کے لئے حلال ہوگا۔

          ۴:… اور خلع کی صورت یہ ہے کہ عورت شوہر کی قیدِ نکاح سے آزادی حاصل کرنے کے لئے کچھ مال بطور ”فدیہ“ پیش کرے، اور شوہر اس کی پیشکش کو قبول کرکے اسے قیدِ نکاح سے آزاد کردے۔

          آیت شریفہ کا یہ مضمون (جو میں نے چار نمبروں میں ذکر کیا ہے) اتنا صاف اور ”دو اور دو چار“ کی طرح ایسا واضح ہے کہ جو شخص سخن فہمی کا ذرا بھی سلیقہ رکھتا ہو وہ اس کے سوا کوئی دُوسرا نتیجہ اخذ ہی نہیں کرسکتا۔

          ہر شخص کھلی آنکھوں دیکھ رہا ہے کہ قرآنِ کریم کی اس آیتِ مقدسہ نے (جس کو ”آیتِ خلع“ کہا جاتا ہے) خلع کے معاملے میں اوّل سے آخر تک میاں بیوی دونوں کو برابر کے شریک قرار دیا ہے، مثلاً:

          Y:…”اِلَّآ اَنْ یَخَافَا“ (اِلَّا یہ کہ میاں بیوی دونوں کو اندیشہ ہو)۔

          Y:…”اَلَّا یُقِیْمَا“ (کہ وہ دونوں قائم نہیں کرسکیں گے اللہ تعالیٰ کی حدود کو)۔

          Y:…”فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا“ (پس اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں خداوندی حدود کو قائم نہیں کرسکیں گے)۔

          Y:…”فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا“ (تب ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں)۔

          Y:…”فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ“ (اس مال کے لینے اور دینے میں، جس کو دے کر عورت قیدِ نکاح سے آزادی حاصل کرے)۔

          فرمائیے! کیا پوری آیت میں ایک لفظ بھی ایسا ہے جس کا مفہوم یہ ہو کہ عورت جب چاہے شوہر کی رضامندی کے بغیر اپنے آپ خلع لے سکتی ہے؟ اس کے لئے شوہر کی رضامندی یا مرضی کی کوئی ضرورت نہیں؟ آیت شریفہ میں اوّل سے آخر تک ”وہ دونوں، وہ دونوں“ کے الفاظ مسلسل استعمال کئے گئے ہیں، جس کا مطلب اناڑی سے اناڑی آدمی بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ: ”خلع ایک ایسا معاملہ ہے جس میں میاں بیوی دونوں برابر کے شریک ہیں، اور ان دونوں کی رضامندی کے بغیر خلع کا تصوّر ہی ناممکن ہے۔“

          یاد رہے کہ پوری اُمت کے علماء و فقہاء اور اَئمہ دِین نے آیت شریفہ سے یہی سمجھا ہے کہ خلع کے لئے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے، جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا، مگر حلیمہ اسحاق صاحبہ کی ذہانت آیت شریفہ سے یہ نکتہ کشید کر رہی ہے کہ جس طرح طلاق مرد کا انفرادی حق ہے، اسی طرح خلع عورت کا انفرادی حق ہے، جس میں شوہر کی مرضی و نامرضی کا کوئی دخل نہیں۔ فقہائے اُمت کے اجماعی فیصلے کے خلاف اور قرآنِ کریم کے صریح الفاظ کے علی الرغم قرآنِ کریم ہی کے نام سے ایسے نکتے تراشنا ایک ایسی ناروا جسارت ہے جس کی توقع کسی مسلمان سے نہیں کی جانی چاہئے اور جس کو کوئی مسلمان قبول نہیں کرسکتا۔

 

          محترمہ حلیمہ اسحاق کی ذہانت نے یہ فتویٰ بھی صادر فرمایا ہے کہ عدالت اگر محسوس کرے کہ زوجین اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو قائم نہیں کرسکتے تو وہ از خود زوجین کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

          اُوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ تمام فقہائے اُمت اس اَمر پر متفق ہیں کہ خلع، میاں بیوی دونوں کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر دونوں خلع پر رضامند نہ ہوں یا ان میں سے ایک راضی نہ ہو تو خلع نہیں ہوسکتا، لہٰذا حلیمہ صاحبہ کا یہ فتویٰ بھی اِجماعِ اُمت کے خلاف اور صریحاً غلط ہے، محترمہ نے اپنے غلط دعویٰ پر آیت شریفہ سے جو استدلال کیا ہے وہ انہی کے الفاظ میں یہ ہے:

          ”اس آیت مبارکہ میں لفظ ”خفتم“ استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے: ”پس اگر تمہیں خوف ہو“ یعنی صرف شوہر اور بیوی کو مخاطب کیا ہوتا تو لفظ ”خفتما“ استعمال ہوتا، جس سے مراد ہے: ”تم دونوں“، مگر لفظ ”خفتم“ کا استعمال اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اجتماعی طور پر شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ قاضی یا حاکم کو بھی اختیار دیا ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ دونوں یعنی شوہر اور بیوی اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے تو تمہیں اختیار ہے کہ ان کو الگ کردو۔“

          محترمہ کا یہ استدلال چند وجوہ سے غلط در غلط ہے:

          اوّل:… محترمہ کے یہ الفاظ کہ: ”تو تمہیں اختیار ہے کہ انہیں الگ کردو“ قرآنِ کریم کے کسی لفظ کا مفہوم نہیں، نہ قرآنِ کریم نے قاضی یا حاکم کو میاں بیوی کے درمیان تفریق کا کسی جگہ اختیار دیا ہے، اس مفہوم کو خود تصنیف کرکے محترمہ نے بڑی جرأت و جسارت کے ساتھ اس کو قرآنِ کریم سے منسوب کردیا ہے۔

          دوم:… آیت شریفہ میں: ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ سے جو جملہ شروع ہوتا ہے وہ جملہ شرطیہ ہے، جو شرط اور جزا پر مشتمل ہے، اس جملے میں شرط تو وہی ہے جس کا ترجمہ محترمہ نے یوں نقل کیا ہے یعنی:

          ”اگر تم سمجھتے ہو کہ دونوں یعنی شوہر اور بیوی اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے تو ․․․․․۔“

          اس ”تو“ کے بعد شرط کی جزا ہے، لیکن وہ جزا کیا ہے؟ اس میں محترمہ حلیمہ اسحاق کو اللہ تعالیٰ سے شدید اختلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے اس شرط کی جزا یہ ذکر فرمائی ہے:

          ”فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ“

          ترجمہ:… ”․․․․․ تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے اور دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑائے۔“                       (ترجمہ حضرت تھانوی)

          لیکن محترمہ فرماتی ہیں کہ نہیں! اس شرط کی جزا یہ نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے، بلکہ اس شرط کی جزا یہ ہے کہ:

          ”تو (اے حکام!) تم کو اختیار ہے کہ تم ان دونوں میاں بیوی کو الگ کردو۔“

          گویا حلیمہ اسحاق صاحبہ ․․․نعوذ باللہ․․․ اللہ تعالیٰ کی غلطی نکال رہی ہیں کہ ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کی جو جزا اللہ تعالیٰ نے ”فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ“ کے بلیغ الفاظ میں ذکر فرمائی ہے، یہ غلط ہے، اس کی جزا یہ ہونی چاہئے تھی:

”فلکم ان تفرقوا بینھما۔“

(تو تم کو اختیار ہے کہ تم ان دونوں کے درمیان از خود علیحدگی کردو)

          کیسا غضب ہے کہ پورا ایک فقرہ تصنیف کرکے اسے قرآن کے پیٹ میں بھرا جاتا ہے، اور اس پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہی ہیں قرآن و سنت کی روشنی میں کہہ رہی ہیں، انا لله وانا الیہ راجعون!

          سوم:… محترمہ فرماتی ہیں کہ:

          ”اللہ تعالیٰ نے اجتماعی طور پر شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ قاضی یا حاکم کو بھی اختیار دیا ہے ․․․․․۔“

          ”شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ“ کے الفاظ سے واضح ہے کہ محترمہ کے نزدیک بھی ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کا اصل خطاب تو میاں بیوی ہی سے ہے، البتہ ”ان کے ساتھ ساتھ“ یہ خطاب دُوسروں کو بھی شامل ہے، اب دیکھے کہ قرآنِ حکیم کی رُو سے صورتِ مسئلہ یہ ہوئی کہ:

          Y:…خلع میاں بیوی کا شخصی اور نجی معاملہ ہے۔

          Y:…خلع کے ضمن میں قرآنِ کریم بار بار میاں بیوی دونوں کا ذکر کرتا ہے (جیسا کہ اُوپر معلوم ہوچکا ہے)۔

          Y:…اور ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ میں بھی اصل خطاب انہی دونوں سے ہے (اگرچہ ”ان دونوں کے ساتھ ساتھ“ قاضی یا حاکم بھی شریک ہیں)۔

          ان تمام حقائق کے باوجود جب خلع کے فیصلے کی نوبت آتی ہے تو محترمہ فرماتی ہیں کہ میاں بیوی دونوں سے یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ آیا وہ خلع کے لئے تیار ہیں یا نہیں؟ بلکہ عدالت اپنی صوابدید پر علیحدگی کا یک طرفہ فیصلہ کرسکتی ہے، خواہ میاں بیوی ہزار خلع سے انکار کریں، مگر عدالت یہی کہے گی:

          ”ما بدولت قطعی طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ دونوں حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکتے، لہٰذا مابدولت ان دونوں سے پوچھے بغیر دونوں کی علیحدگی کا فیصلہ صادر فرماتے ہیں، کیونکہ حلیمہ اسحاق کے بقول قرآن نے ہمیں اس کے اختیارات دئیے ہیں۔“

          کیا محترمہ کا یہ نکتہ عجیب و غریب نہیں کہ جن لوگوں کے بارے میں علیحدگی کا فیصلہ صادر کیا جارہا ہے ان سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں، بس عدالت کا ”سکھا شاہی فیصلہ“ بیوی کو حلال و حرام کرنے کے لئے کافی ہے؟ کیا قرآنِ کریم میں دُور دُور بھی کہیں یہ مضمون نظر آتا ہے؟

          چہارم:… ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں مفسرین کے تین قول ہیں، ایک یہ کہ یہ خطاب بھی میاں بیوی سے ہے، نہ کہ حکام سے، جیسا کہ حضرت تھانوی کی تشریح اُوپر گزرچکی ہے۔

          دُوسرا قول یہ ہے کہ یہ خطاب میاں بیوی کے علاوہ حکام کو بھی شامل ہے، اب اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ یہ خطاب حکام سے ہے تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خلع کے قضیہ میں بسااوقات حکام سے مرافعہ کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لئے حکام کو اس خطاب میں اس لئے شریک کیا گیا کہ اگر خلع کا معاملہ حکام تک پہنچ جائے تو ان کے لئے لازم ہوگا کہ فریقین کو مناسب طرزِ عمل اختیار کرنے پر آمادہ کریں، اور اگر فریقین خلع ہی پر مصر ہوں تو خلع کا معاملہ خوش اُسلوبی سے طے کرادیں، جیسا کہ صاحبِ کشاف، بیضاوی اور دیگر مفسرین نے اس کی تقریر کی ہے۔ بہرحال ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کا خطاب اگر حکام سے بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے کسی طرح یہ لازم نہیں آتا کہ عدالتوں اور قاضیوں کو خلع کی یک طرفہ ڈگری جاری کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، اور یہ کہ انہیں زوجین کی رضامندی معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔

          تیسرا قول یہ ہے کہ: ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کا خطاب میاں بیوی کے ساتھ ساتھ دونوں خاندانوں کے سربر آوردہ اور سنجیدہ افراد اور حکام و ولاة سب کو عام ہے، جیسا کہ بعض مفسرین نے اس کی تصریح فرمائی ہے، اس قول کے مطابق اس تعبیر کے اختیار کرنے میں ایک بلیغ نکتہ ملحوظ ہے۔

          شرح اس کی یہ ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی کا معاملہ نہایت سنگین ہے، شیطان کو جتنی خوشی میاں بیوی کی علیحدگی سے ہوتی ہے اتنی خوشی لوگوں کو چوری اور شراب نوشی جیسے بدترین گناہوں میں ملوّث کرنے سے بھی نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں ہے کہ شیطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے، پھر اپنے لشکروں کو لوگوں کو بہکانے کے لئے بھیجتا ہے، ان شیطانی لشکروں میں شیطان کا سب سے زیادہ مقرّب اس کا وہ چیلا ہوتا ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ گمراہ کرے، ان میں سے ایک شخص آتا ہے اور شیطان کو بتاتا ہے کہ آج میں نے فلاں فلاں گناہ کرائے ہیں (مثلاً: کسی کو شراب نوشی میں اور کسی کو چوری کے گناہ میں مبتلا کیا ہے)، تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا، پھر ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں (میاں بیوی کے پیچھے پڑا رہا، ایک دُوسرے کے خلاف ان کو بھڑکاتا رہا اور میں) نے آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا، یہاں تک آج اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کراکے آیا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شیطان اس سے کہتا ہے کہ: ہاں! تو نے کارنامہ انجام دیا ہے، یہ کہہ کر شیطان اس سے بغل گیر ہوتا ہے۔                  (مشکوٰة ص:۱۸ بروایت صحیح مسلم)

          شیطان کی اس خوشی کا سبب یہ ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی سے بے شمار مفاسد جنم لیتے ہیں، پہلے تو یہ گھر اُجڑتا ہے، پھر ان کے بچوں کا مستقبل بگڑتا ہے، پھر دونوں خاندانوں کے درمیان بغض و عداوت اور نفرت و حقارت کی مستقل خلیج حائل ہوجاتی ہے اور ایک دُوسرے کے خلاف جھوٹ طوفان، طعن و تشنیع اور غیبت و چغل خوری تو معمولی بات ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک دُوسرے کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں، اور یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا رہتا ہے۔

          یہی وجہ ہے کہ شیطان کو زوجین کی تفریق سے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ کسی اور گناہ سے نہیں ہوتی، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مباح چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا ہے:

          ”أبغض الحلال الی الله الطّلاق۔“

                              (مشکوٰة ص:۲۸۳ بروایت ابوداوٴد)

          ترجمہ:… ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے۔“

          اور یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی شدید ضرورت کے عورت کے مطالبہٴ طلاق کا لائقِ نفرت قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے:

          ”جس عورت نے اپنے شوہر سے شدید ضرورت کے بغیر طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔“

 (مشکوٰة ص:۲۸۳ بروایت مسندِ احمد، ترمذی، ابوداوٴد، دارمی، ابنِ ماجہ)

          ایک اور حدیث میں ہے کہ:

          ”اپنے کو قیدِ نکاح سے نکالنے والی اور خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں۔“            (مشکوٰة ص:۲۸۴ بروایت نسائی)

          عورت بے چاری جذباتی ہوتی ہے، گھر میں ذرا سی نرمی، گرمی یا تلخ کلامی ہوئی، آٹھ بچوں کی ماں ہونے کے باوجود فوراً کہہ دے گی کہ:”مجھے طلاق دے دو“، شوہر کہتا ہے کہ: ”اچھا دے دیں گے!“ تو کہتی ہے کہ: ”نہیں اسی وقت دو، فوراً دو“ بعض اوقات مرد بھی (اپنی مردانگی، حوصلہ مندی اور صبر و تحمل کی صفات کو چھوڑ کر) عورت کی ان جذباتی لہروں کے سیلاب میں بہہ کر طلاق دے ڈالتا ہے، اور اس کا نتیجہ، معمولی بات پر خانہ ویرانی نکلتا ہے، بعد میں دونوں اس خانہ ویرانی پر ماتم کرتے ہیں، اس قسم کے سیکڑوں نہیں، ہزاروں خطوط اس ناکارہ کو موصول ہوچکے ہیں۔

          ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں میاں بیوی کے علاوہ دونوں خاندانوں کے معزّز افراد کے ساتھ حکام کو شریک کرنے سے ․․․ واللہ اعلم․․․ مدعا یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کسی وقتی جوش کی بنا پر خلع کے لئے آمادہ ہو بھی جائیں تو دونوں خاندانوں کے بزرگ اور نیک اور خدا ترس حکام ان کو خانہ ویرانی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں، اور اگر معاملہ کسی طرح بھی سلجھنے نہ پائے تو پھر اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ دونوں کی خواہش و رضامندی کے مطابق ان کو خلع ہی کا مشورہ دیا جائے، ایسی صورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:

          ”اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ حدوں کو قائم نہیں رکھ سکتے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس مال کے لینے اور دینے میں، جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑائے۔“

          اس تقریر سے معلوم ہو اکہ ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں حکام کو شریک کرنے کا مطلب وہ نہیں جو محترمہ حلیمہ صاحبہ نے سمجھا ہے کہ حکام کو خلع کی یک طرفہ ڈگری دینے کا اختیار ہے، بلکہ اس سے مدعا یہ ہے کہ خلع کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش کی جائے، اور دونوں کے درمیان مصالحت کرانے اور گھر اُجڑنے سے بچانے کی ہر ممکن تدبیر کی جائے، جیسا کہ دُوسری جگہ ارشاد ہے:

          ”اور اگر تم کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکشی کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھیجو، اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔“

                              (النساء:۳۵، ترجمہ حضرت تھانوی)

          الغرض اس خطاب کو عام کرنے سے مدعا یہ ہے کہ حتی الامکان میاں بیوی کی علیحدگی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے، دونوں خاندانوں کے معزّز افراد بھی اور خدا ترس حکام بھی کوشش کریں کہ کسی طرح ان کے درمیان مصالحت کرادی جائے۔ ہاں! اگر دونوں خلع ہی پر مصر ہیں تو دونوں کے درمیان خوش اُسلوبی سے خلع کرادیا جائے۔ بہرحال محترمہ حلیمہ صاحبہ کا ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ سے یہ نکتہ پیدا کرنا کہ عدالت کو زوجین کی رضامندی کے بغیر بھی خلع کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، منشائے الٰہی اور فقہائے اُمت کے اجماعی فیصلے کے قطعاً خلاف ہے۔

          محترمہ مزید لکھتی ہیں:

          ”حضرت ابوعبیدہ بھی اس آیت کی تفسیر یونہی فرماتے ہیں کہ لفظ ”خِفْتُمْ“ کا استعمال زوجین کے ساتھ ساتھ حَکَم اور قاضی سے بھی متعلق ہے، بلکہ وہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر بیوی شوہر سے کہہ دے کہ مجھے تم سے نفرت ہے، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی تو خلع واقع ہوجاتا ہے۔“

          یہاں چند اُمور لائقِ توجہ ہیں:

          اوّل:… یہ ”حضرت ابوعبیدہ“ کون بزرگ ہیں؟ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا لفظ سن کر ذہن فوراً منتقل ہوتا ہے کہ اسلام کی مایہ ناز ہستی امین الاُمت حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی طرف، جن کا شمار عشرہٴ مبشرہ میں ہوتا ہے، لیکن محترمہ کی مراد غالباً ان سے نہیں، کیونکہ تفسیر کی کتاب میں حضرت ابوعبیدہ سے یہ تفسیر منقول نہیں۔

          خیال ہوا کہ شاید محترمہ کی مراد مشہور اِمامِ لغت ابوعبیدہ معمر بن مثنیٰ (المتوفی ۲۱۰ھ قریباً) ہوں، لیکن ان سے بھی ایسا کوئی قول کتابوں میں نظر نہیں آیا۔

          البتہ اِمام قرطبی نے تفسیر میں اور حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں اِمام ابوعبید القاسم بن سلام (المتوفی ۲۲۴ھ) کا یہ تفسیری قول نقل کیا ہے، خیال ہوا کہ محترمہ کی مراد شاید یہی بزرگ ہوں، اور ان کی ”ذہانت“ نے ابوعبید کو ”حضرت ابوعبیدہ“ بنادیا ہو، اور ان کے نام پر ”رضی اللہ عنہ“ کی علامت بھی لکھوادی ہو، کاش! کہ محترمہ نے وضاحت کردی ہوتی، اور اسی کے ساتھ کتاب کا حوالہ لکھنے کی بھی زحمت فرمائی ہوتی تو ان کے قارئین کو خیال آرائی کی ضرورت نہ رہتی۔

          دوم:… اِمام قرطبی اور حافظ ابنِ حجر نے ابوعبید کا یہ تفسیری قول نقل کرکے اس کی پُرزور تردید فرمائی ہے۔

          اِمام قرطبی لکھتے ہیں کہ: ابوعبید نے ”الا ان یخافا“ میں حمزہ کی قرائة (بصیغہ مجہول) کو اختیار کیا ہے اور اس کی توجیہ کے لئے مندرجہ بالا تفسیر اختیار کی۔

          قرطبی، ابوعبید کے قول کو نقل کرکے اس پر درج ذیل تبصرہ فرماتے ہیں:

          ”ابوعبید کے اس اختیار کردہ قول کو منکر اور مردود قرار دیا گیا ہے، اور مجھے معلوم نہیں کہ ابوعبید کے اختیار کردہ حروف میں کوئی حرف اس سے زیادہ بعد از عقل ہوگا، اس لئے کہ یہ نہ تو اِعراب کے لحاظ سے صحیح ہے، نہ لفظ کے اعتبار سے، اور نہ معنی کی رُو سے۔“ (القرطبی: الجامع لاحکام القرآن ج:۳ ص:۱۳۸)

          اور حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:

          ”ابوعبید نے ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کی اس تفسیر کی تائید کے لئے حمزہ کی قرائة ”الا ان یخافا“ (بصیغہ مجہول) کو پیش کرکے کہا ہے کہ مراد اس سے حکام کا خوف ہے، اور اِمامِ لغت نحاس نے ان کے اس قول کو یہ کہہ کر مردود قرار دیا ہے کہ: ”یہ ایسا قول ہے کہ نہ اِعراب اس کی موافقت کرتے ہیں، نہ لفظ اور نہ معنی“ اور اِمام طحاوی نے اس کو یہ کہہ کر رَدّ کیا ہے کہ یہ قول شاذ اور منکر ہے، کیونکہ یہ قول اُمت کے جم غفیر کے مذہب کے خلاف ہے۔ نیز از رُوئے عقل و نظر بھی غلط ہے، کیونکہ طلاق، عدالت کے بغیر ہوسکتی ہے تو اسی طرح خلع بھی ہوسکتا ہے۔“

                              (فتح الباری ج:۹ ص:۳۹۷)

          محترمہ حلیمہ صاحبہ نے یہ تو دیکھ لیا کہ ابوعبید نے بھی ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں غیرزوجین کو شامل قرار دیا ہے، مگر نہ تو یہ سوچا کہ ابوعبید کا موقف نقل کرکے قرطبی اور ابنِ حجر نے اس کا منکر اور باطل و مردود ہونا بھی نقل کیا ہے۔ چونکہ محترمہ کا نظریہ خود بھی باطل و مردود تھا، لامحالہ اس کی تائید میں بھی ایک منکر اور باطل و مردود قول ہی پیش کیا جاسکتا تھا، اقبال کے پیر رُومی کے بقول:

”زانکہ باطل باطلاں را می کشد“

          سوم:… اِمام ابوعبید کے اس تفسیری قول کو اختیار کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ سلف میں اس مسئلے میں اختلاف ہوا کہ آیا خلع، زوجین کی باہمی رضامندی سے بھی ہوسکتا ہے یا اس کے لئے عدالت میں جانا ضروری ہے؟ جمہور سلف و خلف کا قول ہے کہ اس کے لئے عدالت میں جانا کوئی ضروری نہیں، دونوں باہمی رضامندی سے اس کا تصفیہ کرسکتے ہیں، لیکن بعض تابعین یعنی سعید بن جبیر، اِمام حسن بصری اور اِمام محمد بن سیرین قائل تھے کہ اس کے لئے عدالت میں جانا ضروری ہے، اِمام ابوعبید نے بھی اسی قول کو اختیار کیا، اِمام قتادہ اور نحاس فرماتے تھے کہ ان حضرات نے یہ مسلک زیاد بن ابیہ سے لیا ہے، حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:

          ”اِمام قتادہ اس مسئلے میں حسن بصری پر نکیر فرماتے تھے کہ: ”حسن نے یہ مسئلہ صرف زیاد سے لیا ہے“ یعنی جب زیاد حضرت معاویہ کی جانب سے عراق کا امیر تھا، میں (یعنی حافظ ابنِ حجر) کہتا ہوں کہ زیاد اس کا اہل نہیں کہ اس کی اقتدا کی جائے۔“                                (فتح الباری صفحہ مذکورہ)

          اور اِمام قرطبی اس قول کو رَدّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

          ”یہ قول بے معنی ہے، کیونکہ مرد جب اپنی بیوی سے خلع کرے گا تو یہ خلع اسی مال پر ہوگا جس پر دونوں میاں بیوی راضی ہوجائیں، حاکم، مرد کو خلع پر مجبور نہیں کرسکتا، لہٰذا جو لوگ خلع کے لئے عدالت میں جانا ضروری قرار دیتے ہیں، ان کا قول قطعاً مہمل اور لایعنی ہے۔“

                    (قرطبی: الجامع لاحکام القرآن ج:۳ ص:۱۳۸)

          چہارم:… اُوپر جو مسئلہ ذکر کیا گیا کہ آیا خلع کا معاملہ عدالت ہی میں طے ہونا ضروری ہے، یا عدالت کے بغیر بھی اس کا تصفیہ ہوسکتا ہے؟ اس میں تو ذرا سا اختلاف ہوا، کہ جمہورِ اُمت اس کے لئے عدالت کی ضرورت کے قائل نہیں تھے، اور چند بزرگ اس کو ضروری سمجھتے تھے (بعد میں یہ اختلاف بھی ختم ہوگیا، اور بعد کے تمام اہلِ علم اس پر متفق ہوگئے کہ عدالت میں جانے کی شرط غلط اور مہمل ہے، جیسا کہ آپ ابھی سن چکے ہیں)۔

          لیکن محترمہ حلیمہ صاحبہ نے جو فتویٰ صادر فرمایا ہے کہ عدالت، زوجین کی رضامندی کے بغیر بھی خلع کا فیصلہ کرسکتی ہے، یقین کیجئے کہ اہلِ علم میں ایک فرد بھی اس کا قائل نہیں، نہ اِمام ابوعبید، نہ حسن بصری نہ کوئی اور۔ لہٰذا زوجین کی رضامندی کے بغیر عدالت کا یک طرفہ فیصلہ باجماعِ اُمت باطل ہے، اور یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص، دُوسرے کی بیوی کو اس کی اجازت کے بغیر طلاق دے ڈالے۔ ہر معمولی عقل و فہم کا شخص بھی جانتا ہے کہ ایسی نام نہاد طلاق یکسر لغو اور مہمل ہے، جس کا زوجین کے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ ٹھیک اسی طرح زوجین کی رضامندی کے بغیر خلع کا عدالتی فیصلہ بھی قطعی لغو اور مہمل ہے، جو کسی بھی طرح موٴثر نہیں۔ محترمہ حلیمہ صاحبہ کی ذہانت چونکہ ان دونوں مسئلوں میں فرق کرنے سے قاصر تھی، اس لئے انہوں نے اِمام ابوعبید کے قول کا مطلب یہ سمجھ لیا کہ عدالت خلع کی یک طرفہ ڈگری دے سکتی ہے۔

          پنجم:… محترمہ نے ”حضرت ابوعبیدہ“ سے جو یہ نقل کیا ہے کہ:

          ”اگر بیوی شوہر سے کہہ دے کہ مجھے تم سے نفرت ہے، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی تو خلع واقع ہوجاتا ہے۔“

          انہوں نے اس کا حوالہ نہیں دیا کہ انہوں نے یہ فتویٰ کہاں سے نقل کیا ہے، جہاں تک اس ناکارہ کے ناقص مطالعے کا تعلق ہے، ایسا فتویٰ کسی بزرگ سے منقول نہیں، نہ ”حضرت ابوعبیدہ“ سے، اور نہ کسی اور ”حضرت“ سے۔ ممکن ہے کہیں ایسا قول منقول ہو اور میری نظر سے نہ گزرا ہو، لیکن سابقہ تجربات کی روشنی میں اَغلب یہ ہے کہ یہ فتویٰ بھی محترمہ کی عقل و ذہانت کی پیداوار ہے۔ خدا جانے اصل بات کیا ہوگی؟ جس کو محترمہ کی ذہانت نے اپنے مطلب پر ڈھال لیا۔

          بہرحال محترمہ کا یہ فقرہ کتنا خطرناک ہے؟ انہوں نے اس کا اندازہ ہی نہیں کیا! یہاں اس کے چند مفاسد کی طرف ہلکا سا اشارہ کردینا کافی ہوگا:

          اوّلاً:… مکرّر عرض کرچکا ہوں کہ خلع کے لئے باجماعِ اُمت، فریقین کی رضامندی شرط ہے۔ محترمہ کا یہ فتویٰ اِجماعِ اُمت کے خلاف ہونے کی وجہ سے آیت شریفہ: ”نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی“ کا مصداق ہے، جس میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اہلِ ایمان کے راستے کو چھوڑ کر چلنے والوں کو ہم دوزخ میں داخل کریں گے۔

          ثانیاً:… ہر شخص جانتا ہے کہ عورت کی حیثیت ”خلع لینے والی“ کی ہے، خلع دینے والی کی نہیں، خود محترمہ بھی عورت کے لئے ”خلع لینے“ کا لفظ استعمال کر رہی ہیں، لیکن محترمہ کے مندرجہ بالا فتویٰ سے لازم آئے گا کہ عورت جب چاہے شوہر کے خلاف اظہارِ نفرت کرکے، اسے چھٹی کراسکتی ہے، اور اس کو خلع دے سکتی ہے۔

          ثالثاً:… محترمہ نے یہ مضمون عدالتی خلع کے جواز کے لئے لکھا ہے، حالانکہ اگر صرف عورت کے اظہارِ نفرت کرنے سے خلع واقع ہوجاتا ہے تو عدالتوں کو زحمت دینے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

          رابعاً:… اللہ تعالیٰ نے: ”اَلَّذِیْ بِیَدِہ عُقْدَةُ النِّکَاحِ“ فرماکر نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں دی ہے، کہ وہی اس کو کھول سکتا ہے، لیکن محترمہ اپنے فتویٰ کے ذریعہ نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ سے چھین کر عورت کے ہاتھ میں تھما رہی ہیں، کہ وہ جب چاہے مرد کے خلاف اظہارِ نفرت کرکے خلع واقع کردے، اور مرد کو بیک بینی و دوگوش گھر سے نکال دے، تاکہ امریکہ کے ”ورلڈ آرڈر“ کی تکمیل ہوسکے، اور مغربی معاشرے کی طرح مشرقی معاشرے میں بھی طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں نہ ہو، بلکہ عورت کے ہاتھ میں ہو، گویا محترمہ حلیمہ صاحبہ کو فرمودہٴ خداوندی: ”اَلَّذِیْ بِیَدِہ عُقْدَةُ النِّکَاحِ“ سے اختلاف ہے، اور امریکی نظام پر ایمان ہے۔

          خامساً:… محترمہ کے اس فتویٰ سے لازم آئے گا کہ ہمارے معاشرے میں ۹۹۹ فی ہزار جوڑے نکاح کے بغیر گناہ کی زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ عورت کی نفسیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ: ”اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ پوری زندگی بھی احسان کرو، پھر کوئی ذرا سی ناگوار بات اس کو تم سے پیش آجائے تو فوراً کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“

(صحیح بخاری ج:۱ ص:۹)

          اب ہر خاتون کو زندگی میں کبھی نہ کبھی شوہر سے ناگواری ضرور پیش آئی ہوگی ․․․ اِلَّا ما شاء اللہ ․․․ اور اس نے اپنی ناگواری کے اظہار کے لئے شوہر کے خلاف نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ہوگا۔ محترمہ کے فتویٰ کی رُو سے ایسی تمام عورتوں کا خلع واقع ہوگیا، نکاح فسخ ہوگیا، اور اب وہ بغیر تجدیدِ نکاح میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں، اور گناہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ محترمہ کے فتویٰ کے مطابق یا تو ایسی عورتوں کو فوراً گھر چھوڑ کر اپنی راہ لینی چاہئے، یا کم سے کم دوبارہ عقد کی تجدید کرلینی چاہئے، تاکہ وہ گناہ کے وبال سے بچ سکیں، کیا محترمہ حلیمہ صاحبہ قرآن و سنت کی روشنی میں عورتوں کی یہی راہ نمائی کرنے چلی ہیں․․․؟

 

          محترمہ نے اپنے اس دعویٰ پر کہ عدالت، شوہر کی مرضی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے سکتی ہے، حدیث شریف سے بھی استدلال کیا ہے، جس کے الفاظ محترمہ نے درج ذیل نقل کئے ہیں:

          ”جب ایک خاتون جمیلہ (ثابت بن قیس کی بیوی-ناقل) جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا ․․․․․ خدا کی قسم! میں اس کے ایمان یا پاکیزگی پر شک نہیں کرتی، مگر میں اور وہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے کہ مجھے اس سے نفرت ہوگئی ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھجوروں کا باغ جو تمہیں مہر میں ملا ہے، واپس کردو۔“

          محترمہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ:

          ”اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں، اگر ایک عورت، قاضی یا حاکم کو اس بات پر مطمئن کردے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو حاکم یا عدالت کو اختیار ہے کہ وہ نکاح کو فسخ کردے۔“

          یہاں چند اُمور لائقِ توجہ ہیں:

          اوّل:… محترمہ کا یہ فقرہ کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”کھجوروں کا جو باغ تمہیں مہر میں ملا ہے، واپس کردو“ قطعاً خلافِ واقعہ ہے، کیونکہ حدیث میں تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے دریافت فرمایا کہ: ”کیا تم اس کو اس کا باغ واپس کردوگی؟“ (أتردّین علیہ حدیقتہ؟)۔

(مشکوٰة ص:۲۸۳ بروایت بخاری)

          دونوں فقروں میں زمین و آسمان کا فرق اور مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے، محترمہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو فقرہ منسوب کیا ہے وہ ایک حکم ہے، اور حدیث کا جو فقرہ میں نے صحیح بخاری سے نقل کیا وہ ایک سوالیہ فقرہ ہے۔ اگر محترمہ، حکم اور سوال کے درمیان امتیاز کرنے سے عاری ہیں تو ان کی عقل و ذہانت لائقِ داد ہے، اور اگر انہوں نے جان بوجھ کر سوالیہ فقرے کو حکم میں تبدیل کرلیا ہے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان و افترا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق ہے کہ:

          ”من کذب علیّ متعمّدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔“                       (رواہ البخاری، مشکوٰة ص:۳۲)

          ترجمہ:… ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف غلط بات منسوب کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔“

          دوم:… محترمہ نے حدیث کا ایک جملہ نقل کرکے اس کا مطلب بگاڑا، اور اس بگاڑے ہوئے مفہوم سے فوراً یہ نتیجہ نکال لیا کہ: ”خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں، عدالت کو اختیار ہے کہ از خود نکاح فسخ کردے۔“ لیکن حدیث کا اگلا جملہ جو اِن کے دعوے کی نفی کرتا تھا، اسے حذف کردیا۔ پوری حدیث یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے دریافت فرمایا کہ: کیا تم شوہر کا دیا ہوا باغ اسے واپس کردوگی؟ اور اس نے ”ہاں“ میں اس کا جواب دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر سے فرمایا: ”اقبل الحدیقة وطلقھا تطلیقة“ یعنی: ”اپنا باغ واپس لے لو، اور اس کو ایک طلاق دے دو۔“(چنانچہ شوہر نے یہی کیا)۔

          پوری حدیث سامنے آنے کے بعد محترمہ کا اخذ کردہ نتیجہ سرے سے غلط ہوجاتا ہے کہ خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں، بلکہ عدالت کو از خود نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ محترمہ نے حدیث کا ایک حصہ نقل کرکے اور ایک حصہ حذف کرکے وہی طرزِ عمل اختیار کیا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”أَفَتُوٴْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ“ (پھر کیا تم کتاب کے ایک حصے پر تو ایمان رکھتے ہو، اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو؟)۔

          سوم:… محترمہ تو حدیث کا آدھا ٹکڑا (وہ بھی تحریف کرکے) نقل کرتی ہیں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلیتی ہیں کہ عدالت، شوہر کی رضامندی کے بغیر فسخِ نکاح کا حکم کرسکتی ہے، لیکن جن اَئمہ دِین کو حق تعالیٰ شانہ نے عقل و ایمان اور علم و عرفان سے بہرہ ور فرمایا ہے، وہ اس حدیث سے ․․․ محترمہ کے بالکل برعکس․․․ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ زوجین کے درمیان ان کی رضامندی کے بغیر تفریق کردینا عدالت کا کام نہیں، اِمام ابوبکر جصاص رازی ”اَحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں:

          ”اگر یہ اختیار حاکم کو ہوتا کہ جب وہ دیکھے کہ زوجین، حدود اللہ کو قائم نہیں کریں گے تو ان کے درمیان خلع کا فیصلہ کردے، خواہ زوجین خلع کو چاہیں یا خلع سے انکار کریں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے اس کا سوال ہی نہ فرماتے، اور نہ شوہر سے یہ فرماتے کہ اس کو خلع دے دو، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود خلع کا فیصلہ دے کر عورت کو مرد سے چھڑا دیتے، اور شوہر کو اس کا باغ لوٹادیتے، خواہ وہ دونوں اس سے انکار کرتے، یا ان میں سے ایک فریق انکار کرتا۔ چنانچہ لعان میں زوجین کے درمیان تفریق کا اختیار چونکہ حاکم کو ہوتا ہے اس لئے وہ لعان کرنے والے شوہر سے نہیں کہتا کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو، بلکہ از خود دونوں کے درمیان تفریق کردیتا ہے۔“

 (الجصاص: اَحکام القرآن ج:۱ ص:۳۹۵ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور)

          اور حافظ ابنِ حجر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”اقبل الحدیقة وطلقھا تطلیقة“ (باغ واپس لے لو، اور اس کو ایک طلاق دے دو) کے تحت لکھتے ہیں:

          ”امر اصلاح وارشاد لا ایجاب“

          ترجمہ:… ”یہ فرمانِ نبوی اصلاح و ارشاد کے لئے ہے، بطور واجب کے نہیں۔“

          معلوم ہوا کہ اس واقعہ میں شوہر کی مرضی کے بغیر خلع کا یک طرفہ فیصلہ نہیں فرمایا گیا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کو مشورہ دیا کہ اس سے باغ واپس لے کر اس کو طلاق دے دیں۔

          گزشتہ مباحث سے کچھ انداز ہوا ہوگا کہ محترمہ حلیمہ صاحبہ اپنے غلط موقف کو ثابت کرنے کے لئے قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کے مطالب کو بگاڑنے کی کیسی سعیٴ بلیغ فرماتی ہیں، کاش! کوئی ہمدردی و خیرخواہی سے ان کو مشورہ دیتا کہ یہ میدان جس میں آپ نے قدم رکھا ہے، بڑا پُرخار ہے، جس سے دامنِ ایمان کے تار تار ہونے کا اندیشہ ہے، قرآن و حدیث اور فقہِ اسلامی کا فہم ان کے بس کی بات نہیں، ان کے ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اس میدان میں ترکتازی سے احتراز فرمائیں۔

 

          محترمہ، ہمیں عدالتی طریقِ کار سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

          ”یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہماری عدالتوں کا ایک طریقہٴ کار یہ بھی ہے کہ وہ دورانِ مقدمہ شوہر اور بیوی کو بلاکر ایک موقع اور دیتے ہیں، لیکن اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ زوجین کا اکٹھا رہنا ناممکن ہے تو اس صورت میں عدالت خلع کی ڈگری کردیتی ہے، اور یوں عدّت کے بعد اگر کوئی عورت عقدِ ثانی کرتی ہے تو نہ عقدِ ثانی حرام ہے، اور نہ ہی قرآن و سنت اس بات کی ممانعت کرتی ہے۔“

          اس سلسلے میں گزارش ہے کہ عدالتیں اگر میاں بیوی کو مصالحت کا موقع دیتی ہیں تو بہت اچھا کرتی ہیں، تاہم شرعی نقطہٴ نظر سے ہمارے موجودہ عدالتی نظام میں (خصوصاً عائلی مسائل کے حوالے سے) متعدّد سقم پائے جاتے ہیں، چونکہ خلع کا مسئلہ خالص شرعی مسئلہ ہے، جس سے حلال و حرام وابستہ ہے، اس لئے عدالتی نظام کی ان خامیوں کی اصلاح بہت ضروری ہے، چند اُمور کی جانب مختصراً اشارہ کرتا ہوں:

          ۱:… ہمارے یہاں یہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے کہ جس شخص کو جج کے منصب پر فائز کیا جائے وہ رائج الوقت قانون کا ماہر ہو، اور ایک عرصہ تک اس نے بحیثیت وکیل کے قانونی تجربہ بھی بہم پہنچایا ہو، لیکن شریعتِ اسلامی نے منصبِ قضا کے لئے جو شرائط مقرّر کی ہیں، مثلاً: اس کا مسلمان ہونا، مرد ہونا، عادل ہونا، شرعی قانون کا ماہر ہونا، ان شرائط کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ جس جج کی عدالت میں خلع کا مقدمہ جاتا ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ مسلمان بھی ہے یا نہیں؟ اور شرعی قانون کا ماہر ہونا تو درکنار وہ ناظرہ قرآن بھی صحیح پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ کسی غیرمسلم کا فیصلہ مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے معاملات میں شرعاً نافذ و موٴثر نہیں، اس لئے ضروری ہے کہ یہ اُصول طے کردیا جائے کہ خلع کے جو مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں ان کی سماعت صرف ایسا جج کرسکے گا جو مسلمان ہو، نیک اور خدا ترس ہو، اور شرعی مسائل کی نزاکتوں سے بخوبی واقف ہو، چونکہ خلع سے حلال و حرام وابستہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس میں شرعی اُصول و قواعد کی پابندی کی جائے۔

          ۲:… موجودہ عدالتی نظام میں سب سے زیادہ موٴثر کردار قانون کے ماہرین (وکلاء) حضرات کا ہے کہ وہی فریقین کی طرف سے عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور عدالت کی قانونی راہ نمائی کرتے ہیں، لیکن وکیل صاحبان کا طرزِ عمل عموماً یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے موٴکل کا موقف قطعاً غلط اور باطل ہے، وہ اس باطل کی پیروی کے لئے مستعد ہوجاتے ہیں، اور پھر اس باطل کو حق اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے نہ صرف خود عدالت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، بلکہ اپنے موٴکل کو بھی جھوٹا بیان تلقین کرتے ہیں، اور یہ جھوٹا بیان اس کو اس طرح رَٹاتے ہیں جس طرح قرآن حفظ کرنے والا بچہ مکتب میں قرآنِ کریم کے الفاظ کو رَٹتا ہے۔ کوئی خاتون خلع کی درخواست عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے بھی وکیل صاحبان کی خدمات حاصل کرنا ناگزیر ہوتا ہے، اور وکیل صاحبان اس سے بھی جھوٹا بیان دِلواتے ہیں۔ خیال کیجئے کہ عورت کا جو دعویٰ اس طرح کے وکیلانہ جھوٹ پر مبنی ہو، اور عدالت اس جھوٹ کو سچ سمجھ کر اسے خلع کی یک طرفہ ڈگری دے دے تو کیا یہ عدالتی فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کو تبدیل کرنے میں موٴثر ہوسکتا ہے․․․؟

          ۳:… عدالت کا منصب فریقین کے ساتھ انصاف کرنا ہے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ عدالت کا جھکاوٴ کسی ایک فریقِ مقدمہ کی طرف نہ ہو، لیکن مغربی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر ہمارے یہاں گویا یہ اُصول طے کرلیا گیا ہے کہ خلع کے مقدمے میں مرد ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور عورت ہمیشہ معصوم و مظلوم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خلع کے قریباً سو فیصد فیصلے عورت کے حق میں کئے جاتے ہیں، جب عدالت نے ذہنی طور پر شروع ہی سے عورت کی طرف داری کا اُصول طے کرلیا ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ اس کا فیصلہ انصاف کی ترازو میں کیا وزن رکھتا ہے؟ اور وہ شرعاً کیسے نافذ و موٴثر ہوسکتا ہے؟ اور اس کے ذریعہ عورت پہلے شوہر کے لئے حرام اور دُوسرے کے لئے حلال کیسے ہوسکتی ہے․․․؟

          ۴:… مفتی اور قاضی کے منصب میں یہ فرق ہے کہ مفتی کے سامنے جو صورتِ مسئلہ پیش کی جائے وہ اس کا شرعی حکم لکھ دیتا ہے، اس کو اس سے بحث نہیں کہ سوال میں جو واقعات درج ہیں وہ صحیح ہیں یا نہیں؟ نہ اس کے ذمہ اصل حقائق کی تحقیق و تفتیش لازم ہے۔ برعکس اس کے قاضی کا منصب یہ ہے کہ مدعی نے اپنے دعویٰ میں جو واقعات ذکر کئے ہیں ان کے ایک ایک حرف کی تحقیق و تفتیش کرکے دیکھے کہ ان میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ؟ اور جب تحقیق و تفتیش کے بعد دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی الگ الگ ہوجائے تو اس کی روشنی میں عدل و انصاف کی ترازو ہاتھ میں لے کر خدا لگتا فیصلہ کرے۔

          لیکن ہمارے یہاں خلع کے مقدمات میں تحقیق و تفتیش کی ضرورت کو نظرانداز کردیا گیا ہے، گویا عدالتیں قاضی کے بجائے مفتی کا کردار ادا کرتی ہیں، مدعیہ کی جانب سے جو واقعات پیش کئے جاتے ہیں، جن کو وکیل صاحبان نے اپنی خاص مہارت کے ذریعہ بات کا بتنگڑ بناکر خوب رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا ہوتا ہے، عدالت انہی کو وحیٴ آسمانی اور حرفِ آخر سمجھ کر ان کے مطابق یک طرفہ ڈگری صادر کردیتی ہے۔ شوہر کو حاضرِ عدالت ہونے کی بھی زحمت نہیں دی جاتی، نہ صحیح صورتِ حال کو معلوم کرنے کی تکلیف اُٹھائی جاتی ہے، عدالت زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ شوہر کے نام نوٹس جاری کردیتی ہے کہ وہ:

          ”فلاں تاریخ کو حاضرِ عدالت ہوکر اپنا موقف پیش کرے ورنہ اس کے خلاف کاروائی یک طرفہ عمل میں لائی جائے گی۔“

          مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عدالت جانا نہ جانا برابر ہے، کیونکہ عدالتی فیصلہ تو بہرصورت اس کے خلاف ہونا ہے، اس لئے وہ عدالت کے نوٹس کا نوٹس ہی نہیں لیتا، ادھر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ اس نے شوہر کے نام نوٹس بھجواکر قانون و انصاف کے سارے تقاضے پورے کردئیے ہیں، اب اگر وہ عدالت میں نہیں آئے گا تو اپنا نقصان کرے گا، اس لئے وہ خلع کی یک طرفہ ڈگری جاری کردیتی ہے۔

          دراصل خلع کے مقدمہ کو بھی دیوانی مقدمات پر قیاس کرلیا گیا ہے کہ مالیاتی مقدمہ میں اگر مدعا علیہ حاضرِ عدالت ہوکر اپنا دفاع نہیں کرے گا تو فیصلہ اس کے خلاف ہوجائے گا، اس لئے وہ اس کے خوف کی بنا پر خود حاضرِ عدالت ہوگا۔ حالانکہ خلع کا مقدمہ عورت کے ناموس کے حلال و حرام سے متعلق ہے، اس میں ایسی تساہل پسندی کسی طرح بھی روا نہیں ہوسکتی، اور جب عدالت اپنا منصبی فرض، جو شرعاً اس کے ذمہ ہے بجا نہ لائے تواس کے یک طرفہ فیصلے کے بارے میں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ شرعاً نافذ و موٴثر ہے؟ ہماری عدالتیں آخر ایسی بے اختیار کیوں ہیں کہ وہ مدعاعلیہ کو عدالت میں بلانے سے عاجز ہوں، اور بغیر تحقیق و تفتیش کے حلال و حرام کے یک طرفہ فیصلے کرنے کی انہیں ضرورت پیش آئے․․․؟

          ۵:… میاں بیوی کے درمیان کشاکشی کا اندیشہ ہو تو حق تعالیٰ شانہ نے حکام اور دونوں خاندانوں کے لوگوں کو حکم فرمایا ہے کہ ان کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں، چنانچہ ارشاد ہے:

          ”اور اگر تم کو ان دونوں کے درمیان کشاکشی کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی، جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو، مرد کے خاندان سے، اور ایک آدمی، جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو، عورت کے خاندان سے (تجویز کرکے اس کشاکشی کو رفع کرنے کے لئے ان کے پاس) بھیجو (کہ وہ جاکر تحقیقِ حال کریں، اور جو بے راہی پر ہو یا دونوں کا کچھ کچھ قصور ہو، سمجھائیں) اگر ان دونوں آدمیوں کو (سچے دِل سے) اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرمائیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔“

                    (النساء:۳۵، مأخوذ از ترجمہ حضرت تھانوی)

          لیکن ہمارے یہاں اس حکمِ الٰہی کو یکسر نظرانداز کردیا گیا اور ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ کو تمام عائلی مسائل کا واحد حل قرار دے لیا گیا۔ چنانچہ میاں بیوی کے درمیان مصالحت کرانے کا یہ قرآنی حکم گویا منسوخ کردیا گیا، لڑکے اور لڑکی کے خاندان کے لوگ تو اس کے لئے کوئی قدم کیا اُٹھاتے؟ ہماری عدالتیں بھی قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں، بلکہ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ بعض دفعہ میاں بیوی دونوں شریفانہ زندگی گزارنے کے لئے تیار ہیں، لیکن لڑکی کے والدین خلع کا جھوٹا دعویٰ کرکے خلع کی یک طرفہ ڈگری حاصل کرلیتے ہیں، اور عدالت میاں بیوی سے پوچھتی تک نہیں۔ چنانچہ ۱۲/اگست کو جس سوال کا جواب میں نے دیا تھا (اور جس کی تردید کے لئے حلیمہ اسحاق صاحبہ نے قلم اُٹھایا) اس میں اس مظلوم لڑکی نے، جس کو ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ عدالت نے عطا فرمادی تھی، یہی لکھا تھا کہ میں اور میرا میاں دونوں گھر آباد کرنا چاہتے ہیں، لیکن میرے والدین نے میری طرف سے خلع کا دعویٰ کرکے میرے میاں کی اطلاع کے بغیر خلع کی یک طرفہ ڈگری حاصل کرلی۔ انصاف کیا جائے کہ جس فیصلے میں قرآنِ کریم کے مندرجہ بالا حکم کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہو، جس میں زوجین کی خواہش کے باوجود ان کو ملنے کا موقع نہ دیا گیا ہو، اور جس میں زوجین کی خواہش کو پامال کرتے ہوئے ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ دے دی گئی ہو، ایسے فیصلے کے بارے میں کس طرح کہہ دیا جائے کہ وہ شرعاً نافذ اور موٴثر ہے؟ اس سے میاں بیوی کا نکاح ختم ہوگیا، اور اب عورت عقدِ ثانی کے لئے آزاد ہے․․․؟

          یہ میں نے موجودہ عدالتی نظام کے چند اصلاح طلب اُمور کی نشاندہی کی ہے، ورنہ ایسے اُمور کی فہرست طویل ہے، جس کی تفصیل کے لئے مستقل فرصت درکار ہے:

اند کے با تو گفتم درد دل و ترسیدم

کہ آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

          جب تک شریعتِ اسلامی کی روشنی میں ان اُمور کی اصلاح نہیں کی جاتی، عدالت کا یک طرفہ فیصلہ شرعاً کالعدم قرار پائے گا، اس لئے نہ تو میاں بیوی کا نکاح ختم ہوگا، اور نہ عورت کو عقدِ ثانی کی شرعاً اجازت ہوگی۔

 

          محترمہ بڑے معصومانہ انداز میں سوال کرتی ہیں کہ:

          ”بالفرض اگر ہم یہ مان لیں کہ خلع کے لئے شوہر کی اجازت اور مرضی ضروری ہے تو پھر خلع اور طلاق میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟“

          اُوپر تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے کہ قرآن و سنت اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے خلع میاں بیوی دونوں کی اجازت اور مرضی کے بغیر نہیں ہوتا، اور محترمہ نے قرآن و سنت سے اس کے خلاف جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خلع کے لئے شوہر کی اجازت اور مرضی ضروری نہیں، اس کا غلط اور باطل ہونا بھی پوری وضاحت سے عرض کیا جاچکا ہے۔ رہا محترمہ کا یہ سوال کہ پھر خلع اور طلاق کے درمیان کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق اور مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے، جسے فقہ کا ایک مبتدی طالبِ علم بھی جانتا ہے۔

          طلاق مرد کا انفرادی حق ہے، جس میں بیوی کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں، جب مرد طلاق کا لفظ استعمال کرے تو خواہ وہ چاہتی ہو یا نہ چاہتی ہو، اور اس طلاق کو قبول کرے یا قبول نہ کرے، بہرصورت طلاق واقع ہوجاتی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ طلاق کا لفظ استعمال کرتے ہوئے مرد کی رضامندی بھی ضروری نہیں، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے، اور پھر دعویٰ کرے کہ میں نے طلاق دِل کی رضامندی کے ساتھ نہیں دی تھی، بلکہ یوں ہی عورت کو ڈرانے دھمکانے کے لئے دی تھی، یا محض مذاق کے طور پر دی تھی، تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس خلع میں دونوں کی رضامندی شرط ہے، اگر مرد عورت کو خلع کی پیشکش کرے تو جب تک عورت اس کو قبول نہ کرے، خلع نہیں ہوگا، اسی طرح اگر عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر کے قبول کئے بغیر خلع نہیں ہوگا، ایک چیز (خلع) دونوں فریقوں کی رضامندی پر موقوف ہے، اور دُوسری چیز (طلاق) دونوں کی رضامندی کے بغیر بھی واقع ہوجاتی ہے، کیسی عجیب بات ہے کہ آپ کو ان دونوں کے درمیان فرق محسوس نہیں ہوتا․․․؟

          اور آپ کا یہ تصوّر کہ جس طرح مرد، عورت کو اس کی مرضی کے بغیر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح عورت، مرد کی رضامندی کے بغیر اس سے خلع لے سکتی ہے، یہ دورِ جدید کا وہ مغربی تصوّر ہے، جس سے شریعت کا پورا عائلی نظام تلپٹ ہوجاتا ہے، اور جس سے اللہ تعالیٰ کی وہ حکمتِ بالغہ باطل ہوجاتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ”نکاح کی گرہ“ مرد کے ہاتھ میں رکھی تھی، عورت کے ہاتھ میں نہیں۔

 

          محترمہ لکھتی ہیں:

          ”کیا ہم جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فیصلہ کرسکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔“

          بلاشبہ، کسی اُمتی کی مجال نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فیصلہ کرے (اور اگر کوئی کرے گا تو خلع کی یک طرفہ عدالتی ڈگری کی طرح وہ فیصلہ کالعدم اور باطل ہوگا)، لیکن محترمہ کو سوچنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کرنے کی جسارت کون کر رہا ہے؟

          آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمیلہ کی درخواستِ خلع پر ان کے شوہر سے فرمایا تھا کہ: ”اپنا باغ (جو تم نے اس کو مہر میں دیا تھا) واپس لے لو اور اس کو طلاق دے دو۔“ لیکن محترمہ حلیمہ اسحاق فرماتی ہیں کہ خلع کے لئے شوہر سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، یہ عورت کا انفرادی حق ہے، اور عدالت شوہر سے پوچھے بغیر دونوں کے درمیان علیحدگی کراسکتی ہے۔ فرمائیے! یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف ہے یا نہیں․․․؟

          محترمہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں کرسکتیں جس میں عورت کی درخواستِ خلع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر سے پوچھا تک نہ ہو، اور صرف عورت کی درخواستِ خلع پر اس کے ہاتھ میں ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ تھمادی ہو۔ اب آپ خود انصاف کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (میری جان اور میرے ماں باپ آپ پر قربان) کی مخالفت کون کر رہا ہے؟ حضراتِ فقہائے اُمت ، یا خود محترمہ حلیمہ اسحاق․․․؟

”منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر!“

          محترمہ لکھتی ہیں کہ:

          ”خلع عورت کا ایک ایسا حق ہے جو اسے خدا نے دیا ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کرکے مہرِ تصدیق لگائی ہے۔“

          اللہ و رسول کی بات سر آنکھوں پر، آمنا و صدقنا۔ مگر محترمہ یہ تو فرمائیں کہ قرآنِ کریم کی کون سی آیت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو کہ خلع عورت کا انفرادی حق ہے، جب اس کا جی چاہے مرد کو خلع دے کر اس کی چھٹی کراسکتی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے جس میں عورت کے اس انفرادی حق کو بیان کیا ہو کہ عورت شوہر کی اجازت و مرضی کے بغیر اس کو خلع دے سکتی ہے؟

          بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ضرورت محسوس کرے تو شوہر سے خلع کی درخواست کرسکتی ہے اور ”بدلِ خلع“ کے طور پر مالی معاوضے کی پیشکش کرسکتی ہے، ”خلع کا حق“ اور ”خلع کے مطالبے کا حق“ دو الگ الگ چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، یہ حق نہیں دیا کہ وہ از خود مرد کو خلع دے کر چلتا کرسکتی ہے۔

          اس کی مثال ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو حق دیا ہے کہ حدودِ شرعیہ کی رعایت رکھتے ہوئے جہاں چاہے نکاح کرسکتا ہے، یہ حق مرد کو بھی ہے اور عورت کو بھی، لیکن نکاح کا یہ حق یک طرفہ نہیں، کیونکہ نکاح ایک ایسا عقد ہے جو دونوں فریقوں کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اسی طرح خلع بھی ایک ایسا عقد ہے جس کے ذریعہ دونوں فریق ازالہٴ نکاح بالعوض کا معاملے طے کرتے ہیں۔ جس طرح نکاح کا پیغام بھیجنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے لیکن عملاً نکاح اس وقت ہوگا جب دونوں فریق (اصالةً یا وکالةً) نکاح کا ایجاب و قبول کرلیں گے۔ اسی طرح خلع کی پیشکش کرنا عورت کا حق ہے، لیکن عملاً خلع اس وقت ہوگا جب دونوں فریق اس عقد کا ایجاب و قبول کرلیں گے، بخلاف طلاق کے، کہ وہ عقد نہیں، بلکہ یمین ہے، مرد کو اس یمین کا اختیار دیا گیا ہے، خواہ دُوسرا فریق اس کو قبول کرے یا نہ کرے، بلکہ دُوسرے فریق کو اس کا علم بھی ہو یا نہ ہو۔

          الغرض! خلع لینا عورت کا حق ہے، لیکن عملاً اس کو خلع اس وقت ملے گا جب شوہر اس کو خلع دے گا۔ ”خلع لینا“ کا لفظ خود بتاتا ہے کہ وہ شوہر سے خلع لے سکتی ہے، اس کو از خود خلع نہیں دے سکتی، خلع لینا اس کا حق ہے، خلع دینا اس کا حق نہیں۔

 

          اپنے مضمون کے آخر میں محترمہ لکھتی ہیں:

          ”مندرجہ بالا سطور سے اُمید ہے کہ بہت سی ایسی خواتین کے شکوک و شبہات دُور ہونے میں مدد ملے گی جو یا تو صحیح رہنمائی نہ ملنے پر، یا پھر کسی دباوٴ میں آکر چاہنے کے باوجود اپنا یہ حق استعمال نہیں کرسکتیں۔“

          میں محترمہ کا ممنون ہوں کہ ان کی تحریر کی وجہ سے مجھے خلع کے مسئلے کی وضاحت کا موقع ملا، مجھے اُمید ہے کہ اس وضاحت کے بعد وہ تمام عورتیں (اور ان کے والدین) جو عدالت سے خلع کی یک طرفہ ڈگری حاصل کرکے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہیں کہ ان کا پہلا نکاح ختم ہوچکا ہے، اس لئے وہ بلاتکلف عقدِ ثانی کرلیتی ہیں، ان کی غلط فہمی دُور ہوجائے گی، اور وہ اچھی طرح جان لیں گی کہ:

          Y:…قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کی رُو سے خلع اس وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی دونوں اس پر راضی اور متفق ہوجائیں۔

          Y:…باجماعِ اُمت، شوہر کی طرف سے دُوسرا کوئی فرد یا ادارہ یا عدالت اس کی بیوی کو طلاق دینے یا خلع دینے کی مجاز نہیں ہے، اگر کسی شوہر کی بیوی کو اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر کسی فرد نے، کسی ادارے نے، یا کسی عدالت نے طلاق دے دی یا خلع دے دیا تو وہ شرعاً کالعدم ہے، یہ عورت بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے، جب تک کہ اس سے طلاق یا خلع نہ لے۔

          Y:…ایسی عورت جس کو شوہر کی مرضی کے بغیر کسی ادارے نے طلاق یا خلع دے دیا ہو وہ چونکہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے، اس لئے اس کا عقدِ ثانی باطل ہے، اگر وہ دُوسری جگہ عقد کرے گی تو ہمیشہ کے لئے گناہ کی زندگی گزارے گی، اور اس کا وبال دُنیا و آخرت میں اس کو بھگتنا ہوگا۔

          نوٹ:… میں نے یہ مضمون حلیمہ اسحاق کی اس ”آزاد فکری“ کے جواب میں لکھا ہے کہ عورت کو خلع کا یک طرفہ حق ہے، اور یہ کہ عدالت کو خلع کی یک طرفہ ڈگری جاری کرنے کا اختیار ہے۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ بعض حالات میں عورت نہایت مشکل میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے، اور اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہٴ کار نہیں رہتا کہ عدالت اس کے معاملے میں مداخلت کرے۔ مثلاً: شوہر نامرد ہونے کے باوجود عورت کو رہائی نہیں دیتا، کبھی متعنت ہوتا ہے کہ نہ عورت کو آباد کرتا ہے اور نہ آزاد کرتا ہے، یا شوہر لاپتا ہے، یا مجنون ہے جس کی وجہ سے عورت سخت مشکلات سے دوچار رہتی ہے، ایسی صورتوں میں مسلمان حاکم کو خاص شرائط کے ساتھ تفریق کا حق ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ!

  • Tweet

What you can read next

نابالغ اولاد کا نکاح
عدّت
جہیز
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP