SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Friday, 13 August 2010 / Published in چلد پنجم

طلاقِ مغلّظہ

 

تین طلاقیں دینے والا اب کیا کرے؟

س… ایسے کسی مسئلے کی نشاندہی فرمائیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا گیا ہو کہ میں نے اپنی بیوی کو تیسری مرتبہ طلاق دے دی ہے، اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ مہربافی فرماکر حدیثِ مبارکہ مع ضروری حوالہ جات و روایات تحریر فرمائیں۔ واضح رہے کہ میرا استفسار اکٹھی، یکبارگی یا بیک مجلس تین یا زیادہ طلاقوں کے بارے میں نہیں ہے۔

ج… اِمام بخاری رحمہ اللہ نے ”باب من اجاز طلاق الثلاث“ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے رفاعہ قرظی کی بیوی کا واقعہ نقل کیا ہے، کہ رفاعہ نے اسے تین طلاقیں دے دی تھیں، اس نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کرلیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ وہ عورت سے صحبت پر قادر نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟ (اس نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) یہ نہیں ہوگا، یہاں تک کہ دُوسرے شوہر سے صحبت نہ کرو:

          ”حدثنا سعید بن عفیر قال: حدثنی اللیث، حدثنی عقیل عن ابن شھاب قال: أخبرنی عروة بن الزبیر أن عائشة أخبرتہ أن امرأة رفاعة القرظی جائت الی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقالت: یا رسول الله! ان رفاعة القرظی طلقنی فبت طلاقی وانی نکحت بعدہ عبدالرحمٰن بن الزبیر القرظی وانما معہ مثل الھدبة، قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لعلک تریدین أن ترجعی الی رفاعة، لا حتی یذوق عسیلتک وتذوقی عسیلتہ۔“                    (صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۹۱)

          اسی قسم کا ایک واقعہ فاطمہ بنت قیس کا بھی صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ ان کے شوہر نے تیسری طلاق دے دی تھی۔

تین طلاق کے بعد رُجوع کا مسئلہ

س… ایک وقت میں تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں ہوجاتی ہیں، اور پھر سوائے حلالہ کے رُجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی، یہ حنفیہ کا مسلک ہے۔ لیکن اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابو رکانہ نے اُمِّ رکانہ کو تین طلاقیں دیں، جب آپ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے ان کو رُجوع کی اجازت دے دی۔

ج… صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اَئمہٴ اَربعہ رحمہم اللہ کا اس پر اتفاق ہے کہ تین طلاقیں خواہ ایک لفظ میں دی گئی ہوں یا ایک مجلس میں، وہ تین ہی ہوتی ہیں۔ ابو رکانہ کا جو واقعہ آپ نے نقل کیا ہے اس میں بڑا اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں، بلکہ ”طلاقِ البتہ“ دی تھی۔ بہرحال جب دُوسری احادیث میں وضاحت موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اَئمہٴ دِین رحمہم اللہ بھی اس پر متفق ہیں تو اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ اہلحدیث حضرات کا فتویٰ صحیح نہیں، ان کو غلط فہمی ہوئی ہے، اس لئے جو شخص شریعت کے حلال و حرام کی پابندی کرنا چاہتا ہو اس کو اہلحدیث کے اس فتویٰ پر عمل کرنا حلال نہیں۔

حلالہ شرعی کی تشریح

س… کیا حلالہ جائز ہے یا ناجائز؟ قرآن پاک و حدیث کی رُو سے تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔ میری والدہ کو میرے والد صاحب نے سوچ سمجھ کر ۳ بار لفظ ”طلاق“ دہراکر طلاق دی، اور پھر حلالہ کرکے عدّت گزرنے کے بعد نکاح کروالیا۔ حلالہ کچھ اس طرح کیا کہ ایک شخص کو پوری تفصیل سے آگاہ کرکے نکاح کے بعد طلاق دینے پر آمادہ کیا، اس شخص نے نکاح کے دن بغیر ہم بستری کے اسی وقت دروازے کے قریب والدہ کے سامنے کھڑے ہوکر ۳ بار طلاق دے دی اور پھر عدّت گزرنے کے بعد ہمارے والد نے ہماری ماں سے دوبارہ نکاح کروالیا اور ایک ساتھ رہنے لگے۔ یہ حلالہ صحیح ہوا یا غلط؟ اس کی روشنی میں والدہ صاحبہ سے دوبارہ نکاح جائز ہوا یا نہیں؟

ج… قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ اگر شوہر بیوی کو تیسری طلاق دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں رہتی یہاں تک کہ وہ عورت (عدّت کے بعد) دُوسرے شوہر سے نکاح (صحیح) کرے، (اور نکاح کے بعد دُوسرا شوہر اس سے صحبت کرے، پھر مرجائے یا اَز خود طلاق دے دے اور اس کی عدّت گزر جائے، تب یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی، اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کرسکے گا)، یہ ہے حلالہ شرعی۔

          تین طلاق کے بعد عورت کا کسی سے اس شرط پر نکاح کردینا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا، یہ شرط باطل ہے، اور حدیث میں ایسا حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ تاہم ملعون ہونے کے باوجود اگر دُوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے دے تو عدّت کے بعد عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی۔

          اور اگر وہ صحبت کئے بغیر طلاق دے دے (جیسا کہ آپ نے اپنی والدہ کا قصہ لکھا ہے) تو عورت پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔

          اور اگر دُوسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا، لیکن اس شخص کا اپنا خیال ہے کہ وہ اس عورت کو صحبت کے بعد فارغ کردے گا تو یہ صورت موجبِ لعنت نہیں۔ اسی طرح اگر عورت کی نیت یہ ہو کہ وہ دُوسرے شوہر سے طلاق حاصل کرکے پہلے شوہر کے گھر میں آباد ہونے کے لائق ہوجائے گی، تب بھی گناہ نہیں۔

تین طلاق کے بعد ہمیشہ کے لئے تعلق ختم ہوجاتا ہے

س… تین طلاق کے بعد کیا ہمیشہ کے لئے تعلق ختم ہوجاتا ہے؟ یا کوئی شرعی طریقہ رُجوع ہے کہ نہیں؟

ج… تین طلاق کے بعد نہ رُجوع کی گنجائش رہتی ہے، نہ دوبارہ نکاح کی، عدّت کے بعد عورت دُوسرے شوہر سے نکاح (صحیح) کرکے ہم بستری کرے، پھر دُوسرا شوہر مر جائے یا اَز خود طلاق دے دے اور اس کی عدّت گزر جائے، تب پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے، اس کے بغیر نہیں۔

”میں اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق رجعی دیتا ہوں“ کا حکم

س… زید اپنی بیوی کو لینے سسرال جاتا ہے، وہاں چند ناخوشگوار باتوں کے بعد زید اپنے سسر کے ہاتھ میں تحریری طلاق دے دیتا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ”میں اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق رجعی دیتا ہوں“ تو کیا یہ طلاقِ ثلاثہ واقع ہوگئی؟

ج… جی ہاں! واقع ہوگئی، تین بار طلاق لکھنے کے بعد اس کے ساتھ ”رجعی“ کا لفظ لکھنا بے معنی اور مہمل ہے۔

تین بار طلاق کا کوئی کفارہ نہیں

س… ایک شخص بے پناہ غصّے کی حالت میں اپنی بیوی کو یہ کہہ دے کہ: ”تم میری ماں بہن کی جگہ ہو، میں نے تمہیں طلاق دی“ اور یہ جملہ وہ تین سے بھی زیادہ مرتبہ دہرائے تو یقینا طلاق ہوجائے گی۔ آپ یہ فرمائیں کہ کیا وہ دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے بغیر کسی کفارہ کے رہ سکتے ہیں؟

ج… تین بار طلاق دینے سے طلاقِ مغلّظہ ہوجاتی ہے، اور دونوں میاں بیوی ایک دُوسرے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتے ہیں، اس کا کوئی کفارہ نہیں۔ بغیر تحلیلِ شرعی کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ آپ نے جس شخص کا واقعہ لکھا ہے انہیں چاہئے کہ فوراً علیحدگی اختیار کرلیں ورنہ ساری عمر بدکاری کا وبال ہوگا۔

کیا مطلقہ، بچوں کی خاطر اسی گھر میں رہ سکتی ہے؟

س… میری ایک سہیلی ہے، اس کے شوہر نے ایک دن غصّے میں ایک تحریر لکھی، لیکن وہ بیوی کو نہیں دی بلکہ ان کے پاس ہی رہی، لیکن بیوی کی نظر اس پر پڑگئی، اور اس نے وہ تحریر پڑھ لی، اب آپ بتائیں کہ طلاق ہوئی کہ نہیں؟ تحریر یہ ہے: ”میں نے تین طلاق دیں قبول کریں“ اگر طلاق ہوجاتی ہے اور میاں بیوی آپس میں ازدواجی تعلق نہ رکھیں لیکن دُنیا اور بچوں کی وجہ سے ایک ہی جگہ رہیں تو یہ ممکن ہے یا نہیں؟ کیونکہ بچوں کے پاس ویسے بھی کوئی اور رشتہ دار خاتون کی ضرورت ہوگی تو اس حالت میں کیا کرنا چاہئے؟

ج… شوہر نے جب اپنی بیوی کے نام یہ تحریر لکھ دی تو تین طلاقیں واقع ہوگئیں، خواہ وہ پرچہ بیوی کو دیا ہو یا نہ دیا ہو، اب ان دونوں کی حیثیت اجنبی مرد و عورت کی ہے، عورت اپنے بچوں کے پاس تو رہ سکتی ہے مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ شیطان دونوں کو بہکاکر گناہ میں مبتلا نہیں کردے گا․․․؟ اس لئے دونوں کو الگ رہنا چاہئے۔

کیا تین طلاق کے بعد بچوں کی خاطر اسی گھر میں عورت رہ سکتی ہے؟

س… مجھے شوہر نے طلاق دے دی ہے، جو اس طرح ہوئی کہ ایک دن گھریلو معاملے پر جھگڑا ہوا، انہوں نے مجھے مارا، پھر بلند آواز سے چیختے ہوئے کہا: ”میں نے تجھے طلاق دی، نکل جا میرے گھر سے۔“ محلے کے لوگ شور سن کر جمع ہوگئے تھے، انہیں سمجھانے لگے، مگر وہ نہیں مانے، پھر کہا: ”تجھے طلاق دی“۔ طلاق کے الفاظ اسی طرح دونوں بار تین مرتبہ سے بھی زیادہ دفعہ کہے۔ محلے والوں کے کہنے پر میں نے سارے حالات دارالعلوم لکھ کر بھیجے، جنھوں نے کہہ دیا کہ طلاق ہوگئی۔ میں اس واقعے کے بعد کئی ماہ تک وہیں الگ کمرے میں رہی، پھر جب مرد کی نیت خراب دیکھی تو وہاں سے اپنے عزیز کے گھر پنجاب چلی گئی۔ اور دو مہینے عدّت گزارنے کے بعد آئی تو وہ یہ کہہ کر کہ میرے سے کوئی واسطہ نہیں رہے گا، بچوں کی خاطر چل کر رہ۔ میں بچوں کی ممتا میں مجبور ہوکر چلی گئی، کچھ دن تو وہ ٹھیک رہا پھر اس کا ارادہ بدلنے لگا، وہ کسی مولوی صاحب سے لکھواکر بھی لایا کہ طلاق نہیں ہوئی، مگر میں نہیں مانی اور اس سے صاف کہہ دیا کہ میں اپنی عاقبت خراب نہیں کروں گی، تمہارا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر وہ مختلف بہانوں سے جھگڑے کرنے لگا، ایک دن تنگ آکر میں نے اپنی جان ہی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، مگر بچ گئی۔ میں سخت مصیبت میں ہوں، محلے والوں کو طلاق کا پتا ہے، ان کے سامنے ہوئی، میں نے ان لوگوں سے کہہ رکھا ہے کہ بچوں کی خاطر رہ رہی ہوں، ان کے باپ سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے، میرے بچے بڑے ہیں، لیکن مذہب سے ناواقف ہیں۔ ان کا باپ ان کو ورغلاتا ہے، خدا کے خوف سے ڈرتی ہوں لہٰذا مجھے آپ بتائیں کہ تین مرتبہ کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے؟ میرے ایک عزیز کہتے ہیں کہ غصّے میں کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔ مرد بھی اب اسی طرح کی باتیں کرتا ہے کہ میں نے دِل سے نہیں کہا تھا، اور مجھے گمراہ کرتا ہے۔ ایک رشتہ دار نے کہا شریف عورتیں مرکر گھر سے نکلتی ہیں۔ میں آپ سے خدا اور اس کے رسول کا حکم معلوم کرنا چاہتی ہوں، تفصیل سے بتائیں اللہ آپ کو اس کی جزا دے گا۔ میں خدا کی خوشنودی اور آخرت کی اچھائی چاہتی ہوں، میں مرنا گوارا کرلوں گی لیکن گناہ اور حرام کاری کی زندگی بسر نہیں کروں گی۔

ج… آپ کو پکی طلاق ہوچکی ہے، اس شخص کا آپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا، اگر آپ کو عزّت و آبرو کا خطرہ ہے تو وہاں کی رہائش ترک کرکے کسی اور جگہ منتقل ہوجائیں، دارالعلوم کا فتویٰ بالکل صحیح ہے۔

”میں نے تم کو آزاد کیا اور میرے سے کوئی رشتہ تمہارا نہیں ہے“ تین دفعہ کہنے سے کتنی طلاقیں ہوں گی؟

س… میری شادی کو چار سال ہوگئے ہیں، میرے شوہر نے مجھے تین مرتبہ یہ لفظ کہا کہ: ”میں نے تم کو آزاد کیا اور میرے سے کوئی رشتہ تمہارا نہیں ہے“، اور یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا، اب آپ مجھے بتائیں کہ میں اپنے شوہر کے نکاح میں ہوں یا نہیں؟

ج… ”تم کو آزاد کیا“ کا لفظ تین مرتبہ کہنے سے تین طلاقیں واقع ہوگئیں، اور دونوں کا میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوگیا۔

تین طلاق والے طلاق نامے سے عورت کو لاعلم رکھ کر اس کو ساتھ رکھنا بدکاری ہے

س… میری بیوی نہایت بدزبان، بدتمیز اور نافرمان ہے، ایک دفعہ جب اس نے میری اور میرے والدین کی بہت زیادہ بے عزّتی کی تو میں نے غصّے میں آکر وکیل کے ذریعہ قانونی طور سے ایک طلاق نامہ تیار کروایا، جس میں، میں نے، وکیل نے اور دو گواہوں نے دستخط بھی کئے تھے اور جس میں صاف اور واضح طور سے درج تھا کہ: ”میں نے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دی اور آج سے میرا اور اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔“ اس کے بعد وہ طلاق نامہ میں چند ناگزیر حالات کی بنا پر اپنی بیوی کو نہ دے سکا اور آج تک وہ طلاق نامہ میرے پاس محفوظ ہے، جبکہ میں بادِلِ نخواستہ اور مجبوراً بیوی کے ساتھ رہ بھی رہا ہوں اور حقوقِ زوجیت بھی ادا کر رہا ہوں۔ مہربانی فرماکر بتائیے کہ کیا طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ اور کیا میں گناہِ کبیرہ کا مرتکب تو نہیں ہو رہا ہوں؟ اگر اس سلسلے میں کوئی کفارہ ادا کرنا چاہوں تو وہ کیا ہوسکتا ہے؟

ج… جب بدزبان، بدتمیز اور نافرمان بیوی کو آپ نے تین طلاقیں لکھ دیں تو وہ آپ پر اسی لمحہ حرام ہوگئی، خواہ اس کو طلاق کا علم ہوا یا نہیں، اور تین طلاق کے بعد جو آپ اس سے جنسی ملاپ کرتے ہیں یہ خالص بدکاری ہے، اور گناہِ کبیرہ کیا ہوگا․․․؟ کفارہ یہ ہے کہ اس گناہ سے توبہ کریں اور اس کو فوراً اپنے سے علیحدہ کردیں، حلالہ شرعی کے بعد وہ آپ کے نکاح میں دوبارہ آسکتی ہے اس سے پہلے نہیں۔

تین طلاق کے بعد اگر تعلقات قائم رکھے تو اس دوران پیدا ہونے والی اولاد کی کیا حیثیت ہوگی؟

س… میرے بڑے بیٹے نے اپنی منہ زور اور نافرمان بیوی کو تقریباً سات سال قبل دِلبرداشتہ ہوکر عدالت سے تحریری طور پر بمعرفت وکیل ڈاک سے رجسٹری ایک طلاق نامہ روانہ کیا جو اس کے بھائی نے وصول کیا۔ طلاق نامے کا مضمون انگریزی میں تحریر تھا، طلاق نامے میں میرے بیٹے نے اپنی منکوحہ بیوی کو تین دفعہ یعنی ”میں نے تمہیں طلاق دی“ لکھا۔ یہ طلاق میرے بیٹے نے بغیر کسی جبر و دباوٴ اور غصّے کی حالت میں دی تھی، اس وقت اس کی بیوی تقریباً چھ ماہ کے حمل سے تھی، اس کی خوشدامن اور دیگر افرادِ خانہ کہتے ہیں کہ یہ طلاق حمل کے دوران نہیں ہوئی، مگر میں اور دیگر افراد کا کہنا ہے کہ قرآن و سنت کی رُو سے طلاق ہوگئی، مگر اس کے سسرال والے اس بات کو نہیں مانتے اور اس سے قطعی انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ سے سوال ہے کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ اور اس دوران یعنی تقریباً سات سال سے دونوں بطور میاں بیوی کے رہ رہے ہیں اور اس درمیان ان کی دو بچیاں پیدا ہوئیں تو یہ بچیاں کس زُمرے میں آتی ہیں؟ براہِ کرم شریعت کی رُو سے جواب عنایت فرمائیں۔

ج… حمل کی حالت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور وضعِ حمل سے عدّت ختم ہوجاتی ہے۔ آپ کے بیٹے نے اپنی بیوی کو جو تین طلاقیں دیں وہ واقع ہوچکی ہیں، اور وہ دونوں ایک دُوسرے پر قطعی حرام ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد اگر وہ میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں تو وہ گناہ اور بدکاری کے مرتکب ہوئے ہیں، اور ان کے ہاں جو اولاد اس عرصے میں ہوئی اس کا نسب صحیح نہیں، اس کی حیثیت ”ناجائز اولاد“ کی سی ہے، ان کو چاہئے کہ فوراً علیحدگی اختیار کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگیں۔

رُجوع کے بعد تیسری طلاق

س… میری شادی ۹ سال پہلے ہوئی تھی، شادی کے ایک سال بعد پہلی بیٹی ہوئی، ایک دن گھر سے باہر جاتے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ: ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں“ یہ الفاظ میں نے دو مرتبہ کہے، اس کے فوراً بعد ہم نے رُجوع کرلیا اور اس کے بعد ہمارے ہاں چار بیٹیاں اور ہوچکی ہیں۔ ایک مرتبہ پھر میں نے گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہا کہ: ”تمہیں طلاق دیتا ہوں“۔ جنابِ عالی! اس کے بعد ہم نے ایک حافظ صاحب سے معلوم کیا کہ اس طرح طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ تو انہوں نے ہم سے یہی کہا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ ان دو طلاقوں کے بعد فوراً رُجوع کرلیا تھا اس لئے وہ موٴخر ہوگئی ہیں، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

ج… دو طلاقوں کے بعد آپ نے جو رُجوع کرلیا تھا وہ صحیح تھا، مگر شوہر کو صرف تین طلاقوں کا حق دیا گیا ہے، اس لئے ان دو طلاقوں سے رُجوع کرلینے کے بعد آپ کے پاس صرف ایک طلاق باقی رہ گئی تھی، جب آپ نے یہ تیسری طلاق بھی دے دی تو بیوی قطعی حرام ہوگئی، اب دوبارہ نکاح کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی، اس لئے اب حلالہ شرعی کے بغیر دونوں ایک دُوسرے کے لئے حلال نہیں ہوسکتے۔ عورت عدّت کے بعد دُوسری جگہ نکاح کرکے دُوسرے شوہر سے صحبت کرے، دُوسرا شوہر صحبت کے بعد فوت ہوجائے یا اَز خود طلاق دے دے اور اس کی عدّت بھی گزر جائے تب اگر وہ چاہے تو آپ کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

تین طلاقیں لکھ کر پھاڑ دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے

س… عرض یہ ہے کہ میں نے شادی کی تھی، کچھ عرصے کے بعد میں نے کئی لوگوں کے کہنے پر بے وقوفی سے ایک پرچہ لکھا جس میں لکھا کہ: ”میری بیوی فلاں بنت فلاں مجھ پر تین طلاق ہے۔“ تین طلاق کا لفظ میں نے تین دفعہ لکھا، وہ پرچہ لکھواکر پھاڑ دیا، پھر دُوسرا پرچہ بھی اسی نوعیت کا لکھا جس کو میں نے روانہ کردیا، لیکن ان کو ملا نہیں ہے۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیں طلاق ہوگئی یا نہیں؟ کس صورت میں رُجوع کیا جاسکتا ہے؟

ج… تین طلاقیں ہوگئیں، اب رُجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے، نہ دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کا دُوسری جگہ نکاح ہو، وہاں آباد ہو، پھر طلاق ہو۔

کیا نصِ قرآنی کے خلاف حضرت عمر نے تین نشستوں میں طلاق کے قانون کو ایک نشست میں تین طلاقیں ہوجانے میں بدل دیا؟

س… مندرجہ ذیل تحریر میں نے ایک ہفت روزہ ”ملت“ اسلام آباد کے صفحہ:۱۴ اور ۱۵ سے نقل کی ہے، یہ ہفت روزہ ۱۶/ستمبر ۱۹۷۹ء تک کا ہے۔ یہ سوال و جواب فقہِ حنفیہ کے ماہر دانشور ”ڈاکٹر مطلوب حسین“ سے کیا گیا ہے، ڈاکٹر صاحب کا سوال و جواب درج ذیل ہے:

          ”س:… کیا نصِ قرآنی کے خلاف کسی کو قانون وضع کرنے کا حق نہیں؟

          ج:… حالات کے تقاضوں کے تحت ایسا کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً قرآن میں ”نصِ مبین“ موجود ہے کہ طلاق تین نشستوں میں دی جائے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں برق رفتار فتوحات کے نتیجے میں مصری، شامی اور ایرانی عورتیں عرب معاشرے کا حصہ بنیں اور عرب ان کے حسن سے متأثر ہوکر ان سے نکاح کرنے کے خواہاں ہوئے تو ان مصری، شامی اور ایرانی عورتوں نے یہ شرط عائد کی کہ ہمارے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے اپنی سابقہ بیویوں کو طلاق دینی ہوگی۔ چنانچہ بہت سے عربوں نے ان عورتوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی بیویوں کو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا شروع کردیں، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ایسا کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی اور وہ ان عورتوں سے شادی کرنے کے بعد دوبارہ اپنی پہلی بیویوں سے رُجوع کرلیتے۔ اس طرح ہر گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب ان حالات کا علم ہوا تو انہوں نے یہ حکم جاری کیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دیں تو یہ صحیح طلاق تصوّر ہوگی۔ بعد کے فقہاء نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسی فیصلے کی بنا پر ایسی طلاق کو ”طلاقِ بدعی“ کے نام سے اپنی فقہ میں شامل کرلیا۔ لیکن آج کا معاشرہ اور دور وہ نہیں، جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور اِمام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ رہتے تھے، لہٰذا آج ایک ہی نشست میں دی گئی تین طلاقیں موٴثر نہیں ہوسکتیں، کیونکہ آج فتوحات کا نہیں بلکہ وہ دور ہے جس میں یہ نصِ قرآنی نازل ہوئی تھی۔“

          اس ضمن میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب چاہتا ہوں:

          ۱:… کیا تاریخی حوالہ جات اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے اُوپر بیان کئے ہیں؟ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا واقعی ان ہی حالات میں یہ سخت فیصلہ نافذ کیا تھا؟

          ۲:… اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ڈاکٹر صاحب نے جو فیصلہ نکالا ہے، کیا وہ دُرست ہے؟ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

          اس کے علاوہ ایک مسئلہ اور ہے، میں نے ایک حدیث پڑھی ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ: ”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی، اور پھر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اقدام سے آگاہ کیا، جس پر سروَرِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور ان کو بیوی کی طرف لوٹادیا اور تاکید کی کہ اگر طلاق دینا ہو تو پاکی میں دو۔“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حالتِ حیض میں طلاق موٴثر نہیں ہوتی۔ اسی طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حالتِ حمل میں بھی طلاق واقع نہیں ہوتی، اس ضمن میں وضاحت سے حقیقت بیان فرمادیں، شکریہ!

ج… ڈاکٹر صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ لکھا، وہ واقعہ نہیں بلکہ من گھڑت افسانہ ہے۔ طلاق ایک نشست میں یا ایک لفظ میں بھی اگر تین بار دے دی جائے تو واقع ہوجاتی ہے، یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، اور اسی پر تمام فقہائے اُمت، جن کے قول کا اعتبار ہے، متفق ہیں کہ تین طلاقیں خواہ ایک نشست میں دی گئی ہوں یا ایک لفظ میں، وہ تین ہی ہوں گی۔

          حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کی صحیح حقیقت یہ ہے کہ بعض حضرات ایک طلاق دینا چاہتے تھے، مگر تاکید کے لئے اس کو تین بار دہراتے تھے، گویا تین بار طلاق کے الفاظ دہرانے کی دو شکلیں تھیں، ایک یہ کہ ارادہ بھی تین ہی طلاق دینے کا کیا گیا ہو، اور دُوسری یہ کہ ارادہ تو ایک ہی طلاق دینے کا ہے مگر اس کو پختہ کرنے کے لئے تین بار لفظ دہرایا گیا ہو، (جس طرح نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ بعض لوگ تین بار دہراتے ہیں)، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں پر امانت و دیانت کا غلبہ تھا، اس لئے یہ خیال نہیں کیا جاتا تھا کہ کوئی شخص طلاق دیتے وقت تو تین طلاق کے ارادے سے تین بار الفاظ کہے، بعد میں یہ کہنے لگے کہ میں نے تو ایک ہی کا ارادہ کیا تھا۔ بعد میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگوں کی دیانت اور امانت کا وہ معیار باقی نہیں رہا تو حکم فرمادیا کہ جو شخص طلاق کے الفاظ تین بار دہرائے گا، ہم ان کو تین ہی سمجھیں گے، اور آئندہ کسی کا یہ عذر قبول نہیں کریں گے کہ میں نے تو ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا تھا، تین کا نہیں۔

          اس سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی نصِ قرآنی کو نہیں بدلا، اور یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ دیانت و امانت کا جو معیار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھا اب اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین کے تین ہی ہونے کا فیصلہ فرمایا تو ہمیں اس کی پابندی بدرجہٴ اَوْلیٰ کرنی چاہئے۔

          قرآنِ کریم کی کسی نصِ قطعی کو تبدیل کرنا کفر ہے، اور کوئی موٴمن اس کو گوارا نہیں کرسکتا۔ رہا ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ: ”قرآن میں ”نصِ مبین“ موجود ہے کہ طلاق تین نشستوں میں دی جائے“ اوّل تو یہ بات ہی خلافِ واقعہ ہے، قرآنِ کریم میں ”الطّلاق مرتان“ فرماکر یہ بتایا گیا ہے کہ جس طلاق سے رُجوع کیا جاسکتا ہے وہ صرف دو مرتبہ ہوسکتی ہے، اگر اس کے بعد کوئی شخص تیسری طلاق دے ڈالے تو رُجوع کا حق نہ ہوگا، اور وہ مطلقہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ دُوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ رہا یہ کہ دو یا تین مرتبہ کی طلاق ایک مجلس میں دی گئی یا متعدّد مجلسوں میں؟ قرآنِ کریم کے الفاظ دونوں صورتوں کو شامل ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ: ”قرآن میں نصِ مبین موجود ہے کہ طلاق تین نشستوں میں دی جائے“ بالکل غلط اور مہمل بات ہے۔ ہاں! اگر ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے سیاق اور طرزِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق الگ الگ وقفوں سے دینی چاہئے، تو ایک معقول بات ہوتی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر دو یا تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی جائیں تو قرآنِ کریم ان کو موٴثر نہیں سمجھتا یا ان کو ایک ہی طلاق قرار دیتا ہے۔

          ڈاکٹر صاحب نے اپنی ڈاکٹری کے زور میں ایک ظلم تو یہ کیا کہ ایک غلط مضمون کو قرآنِ کریم کی ”نصِ مبین“ سے منسوب کردیا، اور دُوسرا ظلم یہ کیا کہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو قرآن کی ”نصِ مبین“ سے انحراف قرار دیا۔ ان دونوں مظالم پر تیسرا ظلم یہ ڈھایا کہ اس سے یہ خبیث عقیدہ کشید کرلیا کہ ہر شخص کو قرآن کی ”نصِ مبین“ کے بدل ڈالنے کا اختیار ہے۔ قرآنِ کریم نے: ”یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ“ کہہ کر اسی قماش کے لوگوں کا ماتم کیا ہے۔

          حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے بحالتِ حیض جس بیوی کو ایک طلاق دی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رُجوع کا حکم فرمایا تھا، اور اس طلاق کو واقع شدہ قرار دیا تھا۔ چنانچہ فقہائے اُمت متفق ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا گناہ ہے، اور اگر رجعی طلاق دی ہو تو رُجوع کرلینا ضروری ہے، لیکن حیض میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی، اس لئے یہ کہنا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق موٴثر نہیں ہوتی، قانونِ شرعی سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اسی طرح یہ سمجھنا کہ حالتِ حمل میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، عامیانہ جہالت ہے۔ قرآنِ کریم میں جہاں مطلقہ عورتوں کی عدّت بیان کی گئی ہے وہاں مطلقہ حاملہ کی عدّت وضعِ حمل بیان کی گئی ہے۔

خود طلاق نامہ لکھنے سے طلاق ہوگئی

س… ایک شخص پندرہ روپے کے اسٹامپ پر اپنی بیوی کا تین بار نام تحریر کرکے تین بار ”طلاق“ لفظ لکھ کر دُوسری شادی کرلیتا ہے، دُوسری شادی کے ورثاء کو طلاق نامے کی فوٹواسٹیٹ کاپی دیتا ہے، لیکن اصل طلاق نامہ جس پر بیوی کو طلاق دی گئی ہے نہیں دیتا، طلاق نامے پر اس کے اور گواہ کے دستخط ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تحریر کی رُو سے عورت کو طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں؟

ج… جب اس نے خود طلاق نامہ لکھا ہے تو طلاق واقع ہونے میں کیا شک ہے․․․؟ تین طلاق کے بعد پہلی بیوی اس کے لئے حرام ہوگئی، وہ عدّت کے بعد جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

شوہر نے طلاق دے دی تو ہوگئی، عورت کا قبول کرنا نہ کرنا، شرط نہیں

س… میرے اور شوہر کے درمیان جھگڑا ہوا جو کہ تقریباً دو ماہ سے جاری تھا، لیکن اس دن طول پکڑگیا اور نوبت مارپیٹ تک آئی، اور اسی دوران شوہر نے کہا: ”ایسی بیوی پر لعنت ہے اور میں نے تم کو طلاق دی“ یہ الفاظ انہوں نے دو مرتبہ بڑی آسانی سے ادا کئے، تیسری مرتبہ کہا تھا کہ پڑوسن نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، لیکن ہاتھ ہٹانے کے بعد تیسری مرتبہ پھر انہوں نے یہ الفاظ ادا کئے، اور میں حلفیہ طور پر یہ بیان لکھ رہی ہوں، اور جواب میں، میں نے کہا کہ: ”میں نے طلاق منظور کی“۔ اس کے بعد جب کچھ غصہ ٹھنڈا ہوا تو کچھ لوگوں نے میرے شوہر سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کہا تھا؟ تو انہوں نے پہلے تو کہا کہ مجھ کو کچھ یاد نہیں ہے کہ میں نے کیا کہا؟ لیکن بعد میں کہتے ہیں کہ میں نے یہ کہا تھا کہ اگر تم چاہتی ہو تو میں تم کو طلاق دیتا ہوں۔ اور اس کے بعد میں نے علمائے دِین و مفتی سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر عورت تین مرتبہ سن لے اور جواب میں ہاں کہہ دے تو طلاق ہوجاتی ہے، کیایہ دُرست ہے؟

ج… شوہر اگر تین مرتبہ طلاق دے دے تو تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، خواہ عورت نے قبول کیا ہو یا نہ کیا ہو، گویا عورت کا قبول کرنا یا نہ کرنا کوئی شرط نہیں۔ آپ کے شوہر نے چونکہ تین مرتبہ طلاق دے دی جسے آپ نے اپنے کانوں سے سنا اس لئے میاں بیوی کا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، نہ طلاق سے رُجوع ہوسکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح ہی کی گنجائش ہے، عدّت کے بعد آپ جہاں چاہیں عقد کرسکتی ہیں۔

”میں نے تجھے طلاق دی“ کہنے سے طلاق ہوگئی، خواہ طلاق دینے کا ارادہ نہ ہو

س… میرے شوہر نے مجھ سے ۱۵ یا ۱۶ دفعہ یہ کہا کہ: ”میں نے تجھے طلاق دی“۔ کہتے ہیں: ”میں تمہیں ۱۰۰ دفعہ بھی کہوں تو طلاق نہیں ہوتی، جب تک دِل سے نہ دی جائے۔“ لیکن میرا دِل بہت ڈرتا ہے، میں سمجھ رہی ہوں کہ طلاق ہوگئی ہے خواہ دِل سے نہ بھی کہیں، یہ فقرہ کہہ دینے سے طلاق ہوجاتی ہے، جبکہ ہم ازدواجی زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ دوبارہ صحیح معنوں میں میاں بیوی کہلاسکیں؟

ج… ”میں نے تمہیں طلاق دی“ کا لفظ اگر شوہر زبان سے نکال دے خواہ دِل میں طلاق دینے کا ارادہ نہ ہو، تب بھی اس سے طلاق ہوجاتی ہے، اور اگر یہ فقرہ تین بار استعمال کیا جائے تو میاں بیوی ہمیشہ کے لئے ایک دُوسرے کے لئے حرام ہوجاتے ہیں۔ شوہر ۱۵ یا ۱۶ بار آپ کو یہ لفظ کہہ چکے ہیں اس لئے آپ دونوں کے درمیان میاں بیوی کا تعلق نہیں رہا، فوراً علیحدگی اختیار کرلیجئے۔

حالتِ حیض میں بھی طلاق ہوجاتی ہے

س… میرے شوہر نے مجھے سخت غصّے میں لفظ ”میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی“ پھر دو تین جملے بُرا بھلا کہا، پھر کہا کہ:”جا چلی جا اب میں نے تجھے طلاق دے دی ہے۔“ میرا شوہر بعد میں بھی کئی بار کہتا رہا کہ: ”طلاق دی“ وغیرہ۔ کبھی ایک بار، کبھی دو بار، تین بار یاد نہیں کہ کہا یا نہیں، کیونکہ ہر بار یہی کہا کہ تیسری بار کہا تو برباد ہوجائے گی، دو تین بار جب کہا جب میں ناپاک (حیض کی حالت میں) تھی، پھر بھول گئے یہ باتیں، لیکن میں شدید اذیت میں گرفتار ہوں کہ کیا کروں؟

ج… آپ کے بیان کے مطابق شوہر طلاق کے الفاظ تین بار سے زائد استعمال کرچکا ہے، اس لئے اب مصالحت کی گنجائش نہیں، دونوں ایک دُوسرے کے لئے حرام ہوچکے ہیں۔ آپ کے شوہر کو یہ غلط فہمی ہے کہ طلاق کے الفاظ بیک وقت تین بار کہے جائیں تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ یہ وہم غلط ہے، شریعت نے مرد کو کل تین طلاقوں کا اختیار دیا ہے، اب خواہ کوئی شخص یہ اختیار ایک ہی بار استعمال کرے یا متفرّق طور پر کرے، جب تیسری طلاق دے گا تو بیوی حرام ہوجائے گی۔ اور آپ کا خیال ہے کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، یہ خیال بھی غلط ہے، حیض کی حالت میں طلاق دینا جائز نہیں، لیکن اگر کوئی اس حالت میں طلاق دے دے تو وہ بھی واقع ہوجاتی ہے۔

طلاق غصّے میں نہیں تو کیا پیار میں دی جاتی ہے؟

س… میرے شوہر غصّے میں کئی بار لفظ ”طلاق“ کہہ چکے ہیں، مگر وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے، کہتے ہیں: ”غصّے میں طلاق نہیں ہوتی“ جبکہ میں کہتی ہوں کہ طلاق ہر حال میں ہوجاتی ہے۔ میری شادی کو صرف دو سال ہوئے ہیں اس درمیان تقریباً ۲۰ بار لفظ ”طلاق“ کہہ چکے ہیں، ذرا ذرا سی بات پر طلاق دے دیتے ہیں اور پھر رُجوع بھی کرلیتے ہیں۔ غصّے میں کہتے ہیں کہ: ”میں نے تجھے طلاق دے دی ہے، مگر پھر بھی تم بے غیرت بن کر میرے گھر میں رہتی ہو۔“ پھر جب غصہ ختم ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں: ”تم اسی گھر میں رہوگی تم تو میری بیوی ہو اور ہمیشہ رہوگی۔“

ج… جاہلیت کے زمانے میں یہ دستور تھا کہ بدمزاج شوہر جب چاہتا طلاق دے دیتا اور پھر جب چاہتا رُجوع کرلیتا، سو بار طلاق دینے کے بعد بھی رُجوع کا حق سمجھتا، اسلام نے اس جاہلی دستور کو مٹادیا اور اس کی جگہ یہ قانون مقرّر کیا کہ شوہر کو دو بار طلاق کے بعد تو رُجوع کا حق ہے، لیکن تیسری طلاق کے بعد بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی، شوہر کو رُجوع کا حق نہ ہوگا، سوائے اس صورت کے کہ اس مطلقہ عورت نے عدّت کے بعد کسی اور جگہ نکاح کرکے وظیفہٴ زوجیت ادا کیا ہو، پھر وہ دُوسرا شوہر مرجائے یا طلاق دے دے تو اس کی عدّت ختم ہونے کے بعد عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی۔ آپ کے شوہر نے پھر سے جاہلی دستور کو زندہ کردیا ہے، آپ اس کے لئے قطعی حرام ہوچکی ہیں، اس منحوس سے فوراً علیحدگی اختیار کرلیجئے۔ اس کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ: ”غصّے میں طلاق نہیں ہوتی“ طلاق غصّے میں نہیں تو کیا پیار میں دی جاتی ہے․․․؟

طلاق کے گواہ موجود ہوں تو قسم کا کچھ اعتبار نہیں

س… میرے داماد نے میری لڑکی کو میرے اور میری بیوی اور گھر کے سارے افراد کے سامنے کئی مرتبہ طلاق دی ہے، بلکہ ہمارے محلے میں آکر انتہائی مشتعل انداز میں گالی گلوچ کے ساتھ اہلِ محلہ سے مخاطب ہوکر کئی مرتبہ اس شخص نے کہا کہ: ”میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ، محلہ والوں کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، طلاق دی ہے، طلاق دی ہے۔“ اس وقت محلہ والے بہت سارے موجود تھے، اب وہ اتنے گواہ ہونے کے باوجود اس دی گئی طلاق سے منحرف ہو رہا ہے اور بڑی بڑی قسمیں کھاتا ہے، یہاں تک کہ وہ قرآن شریف بھی اُٹھانے کو کہتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے، اس تمام واقعے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ شریعت کے مطابق یہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟

ج… طلاق کے گواہ موجود ہیں تو اس کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں، شرعاً طلاق ہوگئی۔

زبردستی طلاق

س… میرے والدین نے مجھے بہت تنگ کیا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو، لیکن میں طلاق دینے پر رضامند نہیں تھا، کیونکہ میں اپنا گھر بسانا چاہتا تھا، لیکن میرے والد نے اور کچھ بڑوں نے مجھے مجبور کیا، لیکن میں نے پھر بھی کہا کہ میں طلاق نہیں دُوں گا، تو میرے والد نے ان آدمیوں کو کہا کہ اگر یہ لڑکا طلاق نہیں دیتا تو اسے جیل بھیج دو، میں غریب آدمی مجبور ہوگیا اور کچھ ڈَر بھی گیا جس کی وجہ سے میں نے ”طلاق، طلاق، طلاق“ تین بار کہا، جبکہ میں نے نہ اپنی بیوی کا نام لیا اور نہ ہی اشارہ کیا صرف منہ سے تین بار مجبوری کی طلاق کہہ دیا۔ اور جب میں نے طلاق دی اس وقت میری بیوی حاملہ تھی، اب آپ سے گزارش ہے کہ مجھے آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟

ج… چونکہ گفتگو آپ کی بیوی کی طلاق ہی کی ہو رہی تھی، اس لئے جب آپ نے ”طلاق، طلاق، طلاق“ کہا تو گو بیوی کا نام نہیں لیا مگر طلاق بیوی کی طرف ہی منسوب ہوگی، اور چونکہ آپ نے دو صورتوں میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہوئے بطورِ خود طلاق دی ہے، اگرچہ والد کے اصرار پر دی ہے، لیکن دی ہے اپنے اختیار اور ارادے سے، اس لئے تین دفعہ طلاق واقع ہوگئی، آپ دونوں ایک دُوسرے کے لئے حرام ہوگئے، بغیر تحلیلِ شرعی کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ والد صاحب سے کہئے کہ ان کی مراد تو پوری ہوگئی اب آپ کی شادی دُوسری جگہ کردیں۔

مختلف الفاظ استعمال کرنے سے کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

س… ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، آج سے تو میرے اُوپر حرام ہے، میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں، اب تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری بہن“ مذکورہ بالا چار جملے لکھ کر شوہر کسی بچے کے ہاتھ اپنی بیوی کو بھیج دیتا ہے، جبکہ اس کی بیوی پڑھی لکھی نہیں ہے اور اس کی بیوی پہلے سے حاملہ ہے اور خط لینے سے بھی انکار کرتی ہے، کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگئی؟ جبکہ مذکورہ بالا جملوں سے صاف ظاہر ہے کہ طلاق نامہ تحریر کرتے وقت اس کی نیت کیا تھی، شوہر اپنی تحریر پر قائم بھی ہے۔

ج… اس صورت میں پہلے تین فقروں سے تین طلاق واقع ہوگئیں اور چوتھا فقرہ لغو رہا۔

طلاق کے الفاظ تبدیل کردینے سے طلاق کا حکم

س… ہمارے گاوٴں میں ایک بہت ہی شریف اور نیک لڑکی ہے، جس کی شادی کو ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا، وہ حاملہ بھی ہے، کچھ دن پہلے اس کے میاں نے کسی معمولی سی بات پر اس کو ایک کاغذ پر لکھ دیا کہ: ”میں نے اپنی بیوی فلاں بنت فلاں کو طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی۔“ جب لڑکی نے اور اس کی ماں نے یہ پڑھا تو رونے لگیں تو اس لڑکے نے وہ کاغذ ان سے چھین کر اس پر الف الف بڑھا دیا یعنی ”اطلاق دی، اطلاق دی، اطلاق دی“، اس کے بعد وہ لڑکا کہنے لگا کہ میں نے مذاق کیا ہے طلاق نہیں دی۔ لڑکی کا والد کہتا ہے کہ حاملہ کو طلاق نہیں ہوسکتی۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں کہ اس مسئلے میں شرعی حکم کیا ہے؟ اگر طلاق نہیں ہوئی تو وہ دونوں میاں بیوی بن کر ایک ساتھ رہیں، اگر طلاق ہوگئی ہے تو ان کو گنہگار ہونے سے منع کیا جائے۔

ج… طلاق مذاق میں بھی ہوجاتی ہے اور حالتِ حمل میں بھی۔ اس لڑکی کو تین طلاقیں واقع ہوگئیں، اب دونوں ایک دُوسرے پر ہمیشہ کے لئے قطعی طور پر حرام ہوگئے ہیں، بغیر تحلیلِ شرعی کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

”تمہیں طلاق“ کا لفظ کہا، ”دیتا ہوں“ نہیں کہا، اس کا حکم

س… اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو ۲ طلاق دے دے پھر تیسری بار وہ ”میں تمہیں طلاق“ (وقفہ) دیتا ہوں نہیں کہتا۔ آیا طلاق ہوگئی یا نہیں یا اس کا کوئی کفارہ ہے؟

ج… ”تمہیں طلاق“ کے الفاظ سے بھی طلاق ہوجاتی ہے، اس لئے صورتِ مسئولہ میں تین طلاق واقع ہوگئیں۔

تین دفعہ طلاق دینے سے تین طلاقیں ہوجائیں گی

س… ایک مرد مسلمان نے اپنی مدخول بہا (جس سے صحبت کی ہو) مسلمان بیوی کو دو سے زائد مرتبہ کہا کہ: ”میں نے تجھے طلاق دی“ یا ”میں تجھ کو طلاق دیتا ہوں“ یا یوں کہے کہ: ”میں نے تجھ کو تین طلاق دی“ یا ”میں تجھ کو تین طلاق دیتا ہوں“ یا اسی قسم کی تحریر خود تحریر کرے یا تحریر کو سن کر اپنے دستخط یا نشانِ انگوٹھا ثبت کرے تو کیا صورتِ حال ہوگی؟ کیا بیوی پر ایک طلاق وارد ہوگی؟ کیا مرد رُجوع کرسکتا ہے؟ کیا مرد کو دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا؟ کیا بیوی رجعت سے انکار کرسکتی ہے؟ کیا بیوی مطلقاً حرام ہوگئی؟

ج… جب اس نے تین طلاقیں دی ہیں تو تین ہی ہوں گی، ”تین“، ”ایک“ تو نہیں ہوتے۔ تین طلاق کے بعد نہ رُجوع کی گنجائش رہتی ہے، نہ حلالہ شرعی کے بغیر دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، بیوی حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی۔

طلاق نامے کی رجسٹری ملے یا نہ ملے یا ضائع ہوجائے، بہرحال جتنی طلاقیں لکھیں، واقع ہوگئیں

س… میری شادی میرے پھوپھی زاد کے ساتھ لندن میں ہوئی، ناچاقیوں کے بعد بات اتنی بڑھی کہ مجھے گھر سے نکلنے کے لئے کہا گیا اور کہا گیا کہ: ”ہم پھر تمہیں دوبارہ واپس گھر میں بلالیں گے۔“ چنانچہ میں پاکستان آگئی لیکن ابھی چار پانچ ماہ بھی پاکستان میں آئے ہوئے نہ ہوئے تھے کہ لندن سے طلاق روانہ کردی گئی۔ اب میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر مرد طلاق بذریعہ رجسٹری بھیج دے اور وہ بھی باہوش و حواس اور بارضا و رغبت دی گئی ہو تو وہ عورت جس کو طلاق روانہ کی گئی ہو، اسے پڑھے بغیر پھاڑ دے یا وصول ہی نہ کرے تو کیا اس سے طلاق نہیں ہوتی؟ اور اگر عورت کو معلوم نہ بھی ہو کہ رجسٹری میں طلاق آئی ہے اور گھر کا دُوسرا فرد اسے پڑھ کر پھاڑ دے اور عورت کو مطلع نہ کرے کہ تمہیں طلاق بھیجی گئی ہے تو اس سلسلے میں بھی یہی پوچھنا ہے کہ کیا اس طرح طلاق واقع نہ ہوگی؟ میرے لئے پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ اب وہ لوگ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ طلاق قانونی لحاظ سے موٴثر نہیں کہ نہ ہی اس سلسلے میں وہاں یعنی لندن کے قانون سے، اور نہ ہی یہاں کے کسی قانونی ذریعے سے یہ دی گئی ہے، اس لئے یہ طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لئے ہم سے رُجوع کرلیں جبکہ میں اس سلسلے میں تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مولوی حضرات سے (لندن میں) بھی پوچھا ہے، وہ کہتے ہیں طلاق واقع نہیں ہوئی کہ یہ ایک دم سے تین لکھ دی گئی ہیں، جبکہ طلاق وقفے وقفے سے دی جائے تو واقع ہوتی ہے، ورنہ بے شک دن میں سو بار بھی مرد یہ کہہ دے کہ: ”میں فلاں کو طلاق دیتا ہوں“ تو وہ ایک ہی گنی جائے گی، یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا ایک بار ہی یا ایک ہی دن میں تین بار طلاق لکھ دینے یا کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی؟ ان لوگوں نے مجھے اس شک میں ڈال دیا ہے کہ جب تک علاقے کے کونسلر کو مطلع نہ کیا جائے طلاق واقع نہیں ہوتی، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب طلاق دی جائے تو علاقے کے کونسلر کو اطلاع کرنا ضروری ہے، اس کے علاوہ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ جب تک نکاح میں کونسلر صاحب موجود نہ ہوں تو نکاح بھی نہیں ہوتا۔ اگر میری طلاق غیرموٴثر ہے تو یہ کس طرح موٴثر ہوسکتی ہے؟ اس کا بھی تفصیلاً ذکر کردیں تو مہربانی ہوگی۔

ج… شوہر کے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، خواہ بیوی کو اس کا علم ہو یا نہ ہو، اور بیوی طلاق نامے کی رجسٹری وصول کرے یا نہ کرے، اور وصول کرکے خواہ اس کو رکھے یا پھاڑ دے، طلاق ہر حال میں واقع ہوجائے گی، اس لئے یہ عام خیال کہ اگر بیوی طلاق نامے کی رجسٹری وصول نہ کرے، یا وصول کرکے پھاڑ دے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، بالکل غلط ہے۔

          ایوب خان (سابق صدرِ پاکستان) کی نافذ کردہ ”شریعت“ جو (عائلی قوانین کے نام سے ہے) پاکستان میں نافذ ہے، اس کے مطابق کونسلر صاحب کو طلاق کی اطلاع دینا اور اس کی جانب سے مصالحت کی کوشش کا انتظار کرنا ضروری ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں ایسی کوئی شرط نہیں، بلکہ جب شوہر نے طلاق دے دی تو طلاق واقع ہوگئی، خواہ کونسلر صاحب کو اطلاع کی ہو یا نہ کی ہو۔

          صحابہ و تابعین اور اَئمہٴ اَربعہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں، اور اس کے بعد مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ لیکن ایوب خان کی ”شریعت“ میں جو پاکستان میں ”عائلی قوانین“ کے نام سے نافذ ہے، شوہر کو تین طلاق دینے کے بعد بھی مصالحت کا اختیار دیا گیا ہے۔ آپ کے شوہر نے آپ کو جو طلاق نامہ بھیجا ہے وہ میں نے پڑھا ہے اس میں ”طلاقِ مغلّظہ“ کا لفظ لکھا گیا ہے، اس طلاق نامے کے بعد میاں بیوی کا رشتہ قطعی طور پر ختم ہوچکا ہے، نہ مصالحت کی گنجائش ہے اور نہ دوبارہ نکاح کرنے کی۔ جن مولویوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوتی، ان کا فتویٰ بالکل غلط اور تمام اَئمہ فقہاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل اور مردُود ہے، آپ اس فتویٰ کو ہرگز قبول نہ کریں ورنہ ساری عمر بدکاری کا گناہ ہوگا۔

کیا تین طلاق کے بعد دُوسرے شوہر سے شادی کرنا ظلم ہے؟

س… ایک شخص بدکار، نشہ کرنے والا اور دیگر عیوب میں غرق ہے، اور اپنی بیوی کو جو نہایت پارسا، دِین دار اور نیک ہے، طلاق دیتا ہے۔ طلاق حالتِ نشہ میں نہیں دی تھی، بعد میں یہی شخص تائب ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی بیوی سے شادی کرلے، لیکن طلاق کے بعد جب تک وہ عورت کسی دُوسرے شخص کے نکاح میں نہ جائے وہ اپنے شوہر سے نکاح نہیں کرسکتی۔ مگر عورت کا عذر یہ ہے کہ غلطی خاوند کی تھی اور وہ اپنے پہلے شوہر کے علاوہ کسی دُوسرے شخص سے نکاح اور نکاح کے بعد مباشرت کا تصوّر بھی نہیں کرسکتی۔ وہ کہتی ہے کہ اسلام میں بے گناہ پر کبھی ظلم نہیں جاری ہوسکتا ہے اور عورت کی غلطی نہیں ہے، لہٰذا اس کو کسی دُوسرے آدمی سے نکاح پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور وہ اپنے شوہر ہی سے نکاح چاہتی ہے۔ اسلام کی رُو سے انہیں مسئلے کا حل بتائیں، کیا عورت پر پہلے ظلم کے بعد اس کی مرضی کے خلاف دُوسرا نکاح لازم ہے؟ اجماع کیا ہے؟ اور حالات کے پیشِ نظر عورت کا یہ کہنا کہ میرے اُوپر ہی ظلم کیوں ہے اور کس قانون کی بنا پر؟ اور کیا قانون تبدیل نہیں ہوسکتا ہے؟

ج… یہاں چند باتیں سمجھ لینا ضروری ہیں:

          اوّل:… یہ کہ تین طلاق کے بعد عورت طلاق دینے والے پر قطعی حرام ہوجاتی ہے، جب تک وہ دُوسری جگہ نکاحِ شرعی کرکے اپنے دُوسرے شوہر سے وظیفہٴ زوجیت ادا نہ کرے، اور وہ اپنی خوشی سے طلاق نہ دے اور اس کی عدّت گزر نہ جائے، یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی، نہ اس شرط کے بغیر ان دونوں کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، یہ قرآنِ کریم کا قطعی اور دو ٹوک فیصلہ ہے، جس میں نہ کوئی استثناء رکھا گیا ہے اور نہ اس میں کسی ترمیم کی گنجائش ہے۔

          دوم:… قرآنِ کریم کا فیصلہ عورت کو سزا نہیں، بلکہ اس مظلومہ کی حمایت میں اس کے طلاق دینے والے ظالم شوہر کو سزا ہے۔ گویا اس قانون کے ذریعہ اس شوہر کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سرزنش کی گئی ہے کہ اب تم اس شریف زادی کو اپنے گھر آباد کرنے کے اہل نہیں رہے ہو، بلکہ اب ہم اس کا عقد قانوناً دُوسری جگہ کرائیں گے اور تمہیں اس شریف زادی کو دوبارہ قیدِ نکاح میں لانے سے بھی محروم کردیا گیا ہے، جب تک کہ تمہیں عقل نہ آجائے کہ کسی شریف خاتون کو تین طلاق دینے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

          سوم:… خالقِ فطرت کا ارشاد فرمودہ یہ قانون سراسر مظلوم عورت کی حمایت میں ہے، لیکن یہ عجیب و غریب عورت ہے کہ وہ ظالم کے ساتھ تو پیوند جوڑنا چاہتی ہے مگر خالقِ کائنات، جو خود اسی کی بھلائی کے لئے قانون وضع کر رہا ہے اس کے قانون کو اپنے اُوپر ظلم تصوّر کرتی ہے۔ اور پھر ایک ایسا شخص جو شرابی ہے، ظالم ہے اور جس پر وہ ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی ہے اس سے تو خدا تعالیٰ کی حد کو توڑ کر نکاح کرنے کی خواہش مند ہے اور اسے کسی نیک، پارسا، شریف النفس مسلمان کے ساتھ نکاح کرنے کا جو مشورہ دیا جارہا ہے، اسے اپنے حق میں ظلم تصوّر کرتی ہے۔ انصاف کیجئے! کہ اگر تین طلاق دینے والا ظالم ہے اور اس کو اس کی سزا ملنی چاہئے تو یہ بیگم صاحبہ جو اس ظالم سے تعلق قائم کرنے میں خدا کے اَحکام کو بھی ظلم تصوّر کرتی ہیں، اس ظالم سے کیا کم ظالم ہیں․․․؟ یہ سزا عورت کو نہیں بلکہ اس ظالم مرد کو دی گئی ہے جسے عورت اپنی حماقت سے اپنے حق میں ظلم تصوّر کرتی ہے۔ وہ اس ظالم سے دوبارہ نکاح کرنے پر کیوں بضد ہے؟ اسے چاہئے کہ کسی اور جگہ اپنا عقد کرکے شریفانہ زندگی بسر کرے اور اس ظالم کو عمر بھر منہ نہ لگائے۔

          چہارم:… یہاں یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ جس طرح زہر کھانے کا اثر موت ہے، زہر دینے والا ظالم ہے، مگر جب اس نے مہلک زہر دے دیا تو مظلوم کو موت کا منہ بہرحال دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح تین طلاق کے زہر کا اثر حرمتِ مغلّظہ ہے، یعنی یہ خاتون دُوسری جگہ چاہے تو نکاح کرسکتی ہے (اس کو دُوسری جگہ نکاح کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرتا)، لیکن پہلے شوہر کے لئے وہ حلال نہیں رہی۔ اگر وہ پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دُوسری جگہ عقد اور خانہ آبادی نہ ہو۔ پس جس طرح موت نتیجہ ہے زہرخوری کا، اسی طرح یہ حرمتِ مغلّظہ نتیجہ ہے تین طلاق کا۔ اگر یہ ظلم ہے تو یہ ظلم بھی تین طلاق دینے والے ہی کی طرف سے ہوا ہے کسی اور کی طرف سے نہیں۔ اگر عورت اسی ظالم کے گھر بخوشی رہنا چاہتی ہے تو اسے اس کے ظلم کا نتیجہ بھی بخوشی بھگتنا ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ اس قانون میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔

کیا شدید ضرورت کے وقت حنفی کا شافعی مسلک پر عمل جائز ہے؟

س… اختر نے غیرکفو میں شادی کی، اس کی بیوی اپنے والدین کے گھر زیادہ رہتی تھی، اختر اس کی طرف رغبت بہت کرتا تھا، لیکن ایک دن بیوی کے غیرمتوازن رویے سے تنگ آکر اس نے قسم کھائی کہ اگر اَب کی بار بغیر کسی خاص وجہ کے میں اپنے سسرال کے گھر بیوی سے ملنے گیا تو مجھ پر میری بیوی تین دفعہ طلاق ہوگی۔ ایک ماہ اپنے کو روکے رکھا اپنے گھر میں، پھر خواہشِ نفس نے شدید تقاضا کیا، کچھ کتب دیکھیں معلوم ہوا اسے کہ طلاق سہ گانہ بیک نشست اُمت کے درمیان مختلف فیہ ہے، اجتہادی مسائل جو کتاب ہے مولوی جعفر شاہ ندوی صاحب کی، اس میں دیکھا کہ طلاقِ ثلاثہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفة الرسول صدیقِ اکبر کے دور میں ایک کا حکم رکھتی تھی، یعنی رجعی، اور عمر فاروق کا مسلک سیاسی تھا، شرعی نہ تھا۔ یہ بات فتاویٰ رشیدیہ میں دیکھی۔ اور حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی کے نزدیک عند شدید ضرورت عمل حنفی کا شافعی مسلک پر جائز ہے، جن کے ہاں طلاقِ ثلاثہ رجعی ہے۔ ان وجوہات نے اس کی ہمت بندھائی، اور سسرال چلا گیا، تمتع کیا اپنی بیوی سے۔ اب آیا اس کی بیوی کو طلاق ہوگئی یا کچھ گنجائش باقی ہے؟ عند ضرورت حنفی کا عمل اُوپر شافعی فقہ کے مسئلے میں رُجوع کی صورت میں اس کی عاقبت تو سلامت ہوگی، اگر نہیں تو اسے کیا کرنا چاہئے؟

ج… ”اجتہادی مسائل“ میں جعفر شاہ ندوی نے جو کچھ لکھا ہے، وہ قطعاً غلط اور مہمل ہے۔ تین طلاقیں جو بیک وقت دی گئی ہوں وہ جمہور صحابہ و تابعین اور چاروں اِماموں کے نزدیک تین ہی ہوتی ہیں، اس لئے یہاں اِمام شافعی یا کسی اور اِمام کا اختلاف ہی نہیں کہ ان کے قول پر فتویٰ دیا جائے۔ اختر کے دِل میں سسرال کے گھر جاکر بیوی سے ملنے کا شدید تقاضا پیدا ہوتا ہے اور اسے کوئی ”خاص وجہ“ وہاں جانے کی نظر نہیں آتی، وہ کتابیں دیکھنا شروع کرتا ہے تاکہ اسے ”بغیر کسی خاص وجہ کے“ وہاں جانے کا حیلہ مل جائے، اسے جعفر شاہ ندی کی کتاب میں یہ بات مل جاتی ہے کہ تین طلاقیں جو بیک وقت دی گئی ہوں وہ ایک ہی ہوتی ہیں، اس سے وہ یہ غلط نتیجہ اخذ کرلیتا ہے کہ اِمام شافعی کا مسلک بھی یہی ہوگا جو جعفر شاہ نے لکھا ہے، اور پھر وہ اس کے ساتھ ایک اُصول اور ملالیتا ہے کہ بوقتِ ضرورت حنفی کو اِمام شافعی کے مذہب پر عمل کرنا جائز ہے، ان تمام اُمور سے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر میں ”کسی خاص وجہ کے بغیر“ بھی بیوی سے ملنے سسرال چلا جاوٴں تو ایک ہی رجعی طلاق ہوگی، چنانچہ اس کی بنیاد پر وہ ”بغیر کسی خاص وجہ کے“ وہاں چلا جاتا ہے، اس لئے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، اور بغیر شرعی حلالہ کے اب دونوں کا نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

شوہر کو تحلیلِ شرعی سے نکاح کرنے کے بعد دوبارہ تین طلاقوں کا حق ہوگا

س… ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، عدّت گزرنے کے بعد اس عورت نے دُوسری جگہ نکاح کرلیا، کچھ مدّت بعد دُوسرے شخص نے بھی مذکورہ خاتون کو طلاق دے دی، اب یہ خاتون دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کرنا چاہتی ہے، نکاح کے بعد اس شخص کو زیادہ سے زیادہ کتنی طلاقیں دینے کا اختیار ہوگا؟ جبکہ اس سے قبل تو یہ شخص اپنی تین طلاقوں کا حق استعمال کرچکا ہے۔

ج… دُوسرے شوہر سے نکاح اور صحبت کرنے کے بعد جب اس عورت کو دُوسرے شوہر سے طلاق ہوگئی اور اس کی عدّت ختم ہونے کے بعد اس نے پہلے شوہر سے دوبارہ عقد کرلیا تو پہلا شوہر نئے سرے سے تین طلاقوں کا مالک ہوجائے گا، خواہ پہلے اس نے ایک یا دو طلاق دی ہو، یا تین طلاقیں دی ہوں، ہر صورت میں تحلیلِ شرعی کے بعد دوبارہ تین طلاقوں کا مالک ہوگا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

الاشفاق علیٰ اَحکام الطّلاق

شیخ محمد زاہد الکوثری

 

مسئلہ طلاق میں دورِ حاضر کے متجدّدین کے شبہات اور ایک مصری علامہ کی طرف سے ان کا شافی جواب

 

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!

          طلاق کے مسائل میں بعض حلقوں کی جناب سے کج بحثی کے نمونے سامنے آتے رہتے ہیں، اس نوعیت کی غلط بحثیں ایک عرصہ پہلے مصر میں اُٹھائی گئی تھیں، جن کا شافی اور مسکت جواب وہاں کے محقق اہلِ علم کی جانب سے دیا گیا۔ چنانچہ ”نظام الطّلاق“ کے نام سے مصر کے قاضی احمد شاکر نے ایک رسالہ لکھا جس میں غلط رو طبقے کی بھرپور نمائندگی کی گئی، اس کے جواب میں خلافتِ عثمانیہ کے آخری نائب شیخ الاسلام مولانا الشیخ محمد زاہد الکوثری نے ”الاشفاق علیٰ اَحکام الطّلاق“ کے نام سے ایک رسالہ لکھا، جس میں اس قسم کے خود رو مجتہدین کی علمی بضاعت سے نقاب کشائی کی گئی اور کتاب و سنت سے طلاق کے اَحکام کو ثابت کیا گیا۔ بعض احباب کے اصرار پر اس کا ترجمہ ماہنامہ ”بینات“ کراچی میں بالاقساط شائع ہوتا رہا ہے، اور اَب اسے ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں شامل کیا جارہا ہے، والله الموفق!

                                       محمد یوسف لدھیانوی عفا اللہ عنہ

 

 

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین، والعاقبة للمتقین، ولا عدوان الا علی الظالمین، والصلٰوة والسلام علٰی سید الخلق محمد واٰلہ وصحبہ أجمعین

          یہ اَمر پوشیدہ نہیں کہ اَئمہ متبوعین کے مذاہب، مخصوص حالات میں، مخصوص عدالتی مسائل میں، ایک دُوسرے سے مدد حاصل کرتے ہیں، اور جب کوئی ایسی ضرورت داعی ہو تو دُوسرے مذہب کے مسائل پر عمل کرنے کا دستور بھی فقہائے مذاہب نے ذکر کردیا ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ خواہشِ نفس کی تعمیل کے لئے اپنے مذہب سے یا تمام مذاہب سے بغاوت کی جائے اور اَحکامِ شرعیہ کے بجائے خودساختہ قوانین کو جاری کردیا جائے، جیسا کہ دورِ حاضر میں اسلامی ممالک کے متجدّدین نے یہی رَوِش اپنا رکھی ہے، وہ ہر نئی چیز کو للچائی ہوئی نظر سے، اور ہر قدیم کو نظرِ استخفاف سے دیکھنے کے عادی ہیں، حالانکہ ہر وہ اُمت جو اپنے موروثی مفاخر کی حفاظت و پاسبانی کے لئے مرمٹنے کا اہتمام نہیں کرتی وہ گویا اس اَمر کا اقرار کرتی ہے کہ وہ کوئی شرف و مجد نہیں رکھتی، اور اس کا دامن اپنے اسلاف کے مفاخر سے یکسر خالی ہے، چہ جائیکہ وہ اُمت جو دُوسری قوموں میں مدغم ہونے کی کوشش کر رہی ہو!

          فقہِ اسلامی عروجِ اسلام کے دور میں صدیوں تک ہر زمان و مکاں کے لئے صلاحیت رکھتی تھی، پس یہ غیرمعقول بات ہوگی کہ یہ اس زمانے کے لئے صلاحیت نہ رکھتی ہو، جس میں کھلی آنکھوں سے قوانینِ مغرب میں خلل کا مشاہدہ کیا جارہا ہے، یہاں تک کہ ان قوانین کے فساد کی وجہ سے مغربی معاشرے انحلال اور زبوں حالی کا شکار ہیں۔

          سب جانتے ہیں کہ جب عوام کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ ایسے حیلے ایجاد کرلیتے ہیں جو عدالتی فیصلوں میں عدل پروری کا راستہ روک دیتے ہیں، لیکن بالغ نظر قاضی (جج صاحبان) ایسا نظام وضع کرنے سے عاجز نہیں جو عدل و انصاف کی پاسبانی کا کفیل ہو، اور جس کو حیلہ گروں کے ہاتھ نہ چھو سکیں، خواہ وہ کسی زمان و مکاں میں ہو، اسی مدعا کو بیان کرتے ہوئے ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں: ”فیصلہ ایسا ناپ تول کر کرو کہ جو لوگوں کی صلاح کا ضامن ہو، اور جب وہ بگڑ جائیں تو استحسان سے کام لو۔“ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے: ”لوگوں کے لئے اسی کے بقدر فیصلے رُونما ہوتے ہیں جس قدر انہوں نے جرائم ایجاد کرلئے ہوں۔“

          پس جب کوئی اجتماعی مرض رُونما ہو، جیسے طلاق کو کھلونا بنانا، مثلاً ایک شخص بلاوجہ طلاق کی قسم کھالیتا ہے، دُوسرا شخص بے سبب جلدبازی سے تین طلاق اکٹھی دے ڈالتا ہے، تو اس بیماری کا علاج یہ نہیں کہ طلاق کو کھلونا بنانے کی راہ ہموار کرکے ان مریضوں کی ہم نوائی کی جائے، اور یہ کہہ کر ان کے نکاحوں کو شبہ و شبہ میں ڈال دیا جائے کہ: ”طلاق کی قسم کھانا کوئی چیز نہیں“ اور ”تین طلاق ایک ہوتی ہے، یا ایک بھی نہیں ہوتی“ اور اس پر بغیر دلیل و برہان کے فلاں کے قول اور فلاں کی رائے کے حوالے دئیے جائیں۔

          یہ ہم نوائی ان مریضوں کی خیرخواہی نہیں، بلکہ یہ اس بیماری کے جان لیوا ہونے میں اضافہ کرے گی، اور ان کے شگاف کو رفو کرنا ناممکن ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی عصمت کو کلمة اللہ کے ذریعہ حلال کرنے میں جو حکمت رکھی ہے، کہ کھیتی اور نسل میں برکت حاصل ہو، یہ حکمت باطل ہوجائے گی، اور بعض نام نہاد فقیہ اور خود رو مجتہد، جن کی آراء و خواہشات کو کسی جگہ قرار نہیں، ان کے کلمہ کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی جگہ حلت و حرمت کے معاملے میں نافذ کرنا لازم آئے گا۔

          اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ان قطعی مسائل کے خلاف خروج و بغاوت کی جائے جو اَئمہ متبوعین نے کتاب و سنت سے سمجھے ہیں، اور اس خروج و بغاوت کے لئے ایسے شاذ لوگوں کے اقوال کا سہارا لیا جائے جو ان سے غلط فکری کی بنا پر صادر ہوئے ہیں، یا ایسے لوگوں کی آراء پر اعتماد کیا جائے جو دِین و دیانت کے لحاظ سے ناقابلِ اعتماد ہیں، اور جو زمین میں فساد مچاتے ہیں، کیونکہ شیطان نے ان کے لئے ان کے بُرے اعمال کو آراستہ کر دِکھایا ہے۔

          اسی ہم نوائی کی بدولت اسلامی قانون، اپنے نافرمان بیٹوں کے ہاتھوں، اپنے بہت سے ابواب میں عدالتوں سے بے دخل کیا جاچکا ہے، اس کا یہ سبب نہیں کہ اسلامی قانون ہر زمان و مکان کے لئے صلاحیت نہیں رکھتا، تاوقتیکہ اس کے ستونوں کو اُکھاڑ نہ دیا جائے، یا اس کے ہاتھ پاوٴں نہ کاٹ دئیے جائیں۔

          آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان ابنائے زمانہ میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کے دِل کو چین نصیب نہیں جب تک کہ شرع کے باقی ماندہ حصے کا بھی عدالتوں سے صفایا نہ کردیں، اور یہ کام لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے شرع ہی کے نام سے کیا جارہا ہے، جس سے اصل مدعا خواہش پرست مریضوں کی ہم نوائی اور مستشرقین کے شاگردوں (مستغربین) کی خواہشات کی پیروی ہے۔ جبکہ ہم ایسے دور کے آنے سے، جس میں کامل حقوق دِلانے کے دعوے کئے جارہے ہیں، یہ توقع رکھتے تھے کہ تمام جدید قوانین پر نظرِ ثانی کی جائے گی اور جن قوانین میں اصلاح کی ضرورت ہے، فقہِ اسلامی کی مدد سے ان میں اصلاح کی جائے گی، کیونکہ جس حکومت کے ہاتھ میں عالَمِ اسلام کی قیادت ہے اس کے لئے یہی شایانِ شان ہے اور ایسی حکومت سے بجا طور پر یہی توقع رہی ہے۔

          رہا کتاب و سنت کو ایسے معنی پہنانا جن کے وہ متحمل نہیں، اور بظاہر کتاب و سنت سے استدلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے قوانین کی تائید کرنا جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، یہ دونوں باتیں سوائے کھلی تلبیس کے، اور سوائے ایسے دھوکے کے، جس کے پس پردہ مقاصدِ مذمومہ صاف جھلکتے ہوں، اور کچھ نہیں دیتے۔

          جو لوگ مسلمانوں کو ان کے دِین کے بارے میں شک و شبہ میں ڈالنا چاہتے ہیں، وہ گھات میں ہیں، وہ ان نام نہاد فقیہوں کے کرتوتوں کے حوالے سے فقہِ اسلام کو بدنام کرنے میں فرصت کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے، حالانکہ فقہِ اسلامی ایسے لوگوں سے اور ان کے اعمال سے بَری ہے۔ یہاں معاندینِ اسلام کے سازشی کردار کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ازہر کے ایک مستشرق اُستاذ نے ایک سال پہلے ”تاریخِ فقہِ اسلامی“ پر تین لیکچر دئیے تھے جن کے آخر میں وہ کہتا ہے:

          ”اسلامی شریعت اور رائج الوقت کے درمیان ایک اور تعلق ہے، جو شریعت کی گزشتہ تاریخ سے کلّی طور پر مخالف ہے، اور یہ تعلق تاریخِ شرع کے آخر دور میں پایا جاتا ہے، اور وہ ہے شرع کے کئی کئی رنگ بدلنے کا موجودہ دور، حوالے کے طور پر ہمارے لئے اسلامی قانون میں ان ترمیمات کا ذکر کردینا کافی ہے جو مصر میں ۱۹۲۰ء سے احوالِ شخصیّہ (پرسنل لا) میں کی گئیں۔“

          جو شخص اس فقرے کا مدعا سمجھتا ہے اس کے لئے اس میں بڑی عبرت کا سامان ہے، یہ مستشرق یہ کہنا چاہتا ہے کہ دیکھ لو! تم وہی ہو جنھوں نے شریعت میں نئے اَحکام کا گھسیڑنا جائز قرار دے دیا ہے، یہ جدید اَحکام جو شرع کے لئے قطعاً غیرمانوس اور اجنبی ہیں دراصل مغرب سے درآمد کئے گئے ہیں، اگرچہ ان اَحکام کے اصل مأخذ کی پردہ داری کے لئے کچھ لوگوں کے اقوال کا حوالہ دیا جاتا ہے، ”آج سے کل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے“۔

”قیاس کن از گلستان من بہار مرا“

          اس سلسلے کی بہت سی اَلم ناک یادیں ہمارے ذہن میں محفوظ ہیں، مگر ان کے تذکرے سے تجدیدِ اَلم کے سوا اور کیا فائدہ؟ کچھ عرصہ ہوا کہ مجھے یہ خبر ملی کہ ایک قاضی صاحب نے ایک رسالہ شائع کیا ہے، جس میں موصوف نے ایسی رائے پیش کی ہے جس کے نتیجے میں، اس ملک کی عدالتوں میں فقہِ متوارث کا جو بچا کھچا حصہ باقی ہے اور جو کتاب و سنت سے مأخوذ اور تمام فقہائے اُمت کے درمیان متفق علیہ چلا آتا ہے، اس کا بھی صفایا ہوجائے گا۔ میں نے اس کو ایک ایسے شخص کی جانب سے، جو اپنے آپ کو ”قاضیٴ شرع“ شمار کرتا ہے، بڑی بات سمجھا، پھر میں نے ان رسائل میں غور کیا جو شہر میں پھیلائے جارہے ہیں، اور جو پیغامِ ربانی کے طرز کے خلاف ہیں، اور میں نے اپنے دِل میں کہا کہ یہ رسالہ جو موصوف کے قلم و زبان اور فکر و جنان کے حوالے سے نکلا ہے، یہ کسی مجمع فقہی کی جانب سے نہیں، بلکہ کسی مستشرق کی محفلِ غربی کی جانب سے ہے، جس کا پودا یہودی ہاتھوں نے لگایا ہے، اور جس کی شاخیں وادیٴ نیل میں قبطیوں کی مدد سے پھل پھول رہی ہیں۔

          دریں اثنا کہ میں اس قصے پر اس نقطہٴ نظر سے غور کر رہا تھا، اور جن عبرتوں پر یہ مشتمل ہے، ان سے عبرت حاصل کر رہا تھا کہ قضا و قدر نے یہ رسالہ میرے مطالعے کے لئے بھجوادیا، میں نے اس کی ورق گردانی کی تو معلوم ہوا کہ تجربہ خبر کی تصدیق کر رہا ہے۔

          سب سے پہلے میری نظر رسالے کے نام ”نظام الطّلاق“ پر پڑی جو رسالے کی لوح پر خطِ عجمی سے لکھا ہوا تھا، اور جو اس کے مشتملات کی عجمیت کا پتا دیتا تھا، اس نام پر قرآنِ کریم کی آیت سوار تھی جو اسے ”ہاویہ“ میں گرا رہی تھی، اس کا عملِ طالح اس کو درکِ اَسفل کی طرف کھینچ رہا تھا، جو کلماتِ سافلہ کا مقام ہے، دیکھنے والے کو اس منظر اور اس عنوان سے ایسا خیال ہو رہا تھا کہ گویا: ”ایک مغربی اُلو“ نے مسلمانوں کے آسمان کا حلقہ بنا رکھا ہے، وہ نہایت مکروہ آواز میں بول رہا ہے کہ:

          ”اے مسلمانو! تمہاری عدالتوں میں اَحکامِ شرعیہ کے نفاذ کا دور لد گیا، دیکھو یہ جدید وضع قانون، اَحکامِ شرع کی جگہ نافذ ہوگا۔“

          سب جانتے ہیں کہ نظام اور قانون ان خودساختہ دساتیر کی اصطلاحات ہیں، جو اَحکامِ شرعیہ کی روشنی میں وضع نہیں کئے جاتے، یہ دونوں لفظ نہ کتاب و سنت میں وارد ہیں، اور نہ فقہائے اُمت ان کا استعمال کرتے ہیں، گویا موٴلف ”وضعی قوانین“ اور اَحکامِ شرعیہ کو ایک ہی وادی سے سمجھتے ہیں، جن اَحکام کو ہم ”شرعی“ کہتے ہیں اور جن کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ کتاب و سنت سے مأخوذ ہیں، فاضل موٴلف ان کو بھی قوانینِ وضعیہ کے طرز کی چیز سمجھتے ہیں، جو وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی ہے۔

          صدر اسلام سے موجودہ صدی تک تمام مسلمان اپنے تمام تر فقہی اختلافات کے باوجود تین طلاق بلفظ واحد کو قرآن و سنت کی رُو سے بینونت مغلظہ مانتے آئے ہیں، اچانک ایک ہوا پرست بیک جنبشِ قلم اسے بینونت مغلظہ سے ایک رجعی طلاق میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، جب یہ حالت ہے تو کوئی تعجب نہیں کہ کل یہ ہوا پرست یہاں تک جرأت کرے کہ اس حکم کے بالکلیہ لغو قرار دینے کا مطالبہ کرنے لگے، کیونکہ اس دور میں اَحکامِ شرعیہ سے مادر پدر آزادی نے معاشرے کے افراد پر اپنی طنابیں کھینچ لی ہیں، اور ہر وہ شخص جو اپنی ماں کی زبان جانتا ہو اس کے دِل میں منصبِ اجتہاد پر فائز ہوکر لوگوں کے سامنے اچانک ایسی آراء پیش کرنے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے جو اُمت کے مزاج کو یکسر درہم برہم کرڈالیں۔

          رسالے کے نام کے بعد میں نے رسالے کے ابتدائیے کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ موٴلف اپنے رسالے کی تمہید میں اس پر فخر کر رہے ہیں کہ ان کے والد گرامی ․․․جنھوں نے عہدہٴ قضا کی خاطر اپنا اصل مذہب چھوڑ کر حنفی مذہب اختیار کرلیا تھا ․․․ پہلے شخص تھے جنھوں نے مذہبِ حنفی کے مطابق فیصلے کرنے کے بجائے دُوسرے مذاہب کے مطابق فیصلے کرکے مذہب کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کیا، حالانکہ ان کو اس باغیانہ تغییر و تبدیل کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ پیش آمدہ مشکل کو حل کرنے کے لئے وہ بڑی آسانی سے یہ مقدمہ کسی مالکی مذہب کے عالم کے سپرد کرسکتے تھے، (فاضل موٴلف اپنے والد کے جس کارنامے پر فخر کر رہے ہیں، غور کیجئے تو یہ لائقِ فخر نہیں، بلکہ لائقِ ماتم ہے، کہ ایک شخص مال و جاہ کی اندھی خواہش کی خاطر جھوٹ موٹ ایک مذہب کا لبادہ اوڑھ لے، اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فقہ کے لئے سب سے خطرناک آفت وہ شخص ہے جس کو اہلِ فقہ کی طرح فقہ کا ذوق حاصل نہ ہو، مگر محض جاہ و مال کی خاطر کسی فقہی مکتبِ فکر سے منسلک ہوجائے)۔

          مصنف کو اپنے والد کا یہ کارنامہ ذکر کرنے کے بعد کہ اس نے سب سے پہلے مذہب کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا تھا، یہ خیال ہوا کہ وہ تین طلاق کے ایک ہونے کا فارمولا پیش کرکے اپنے والد کی طرح بغاوت میں مقتدا بن جائے گا، لیکن اپنے والد کی طرح صرف مذہب کے خلاف بغاوت نہیں، بلکہ تمام فقہی مذاہب اور پوری اُمتِ مسلمہ کے خلاف بغاوت۔ اگر جناب موٴلف اس نکتے پر ذرا سا غور کرلیتے کہ: ”شاید لوگ ابھی مغرب پرستی میں اس حد تک نہ پہنچے ہوں کہ وہ ہر ہویٰ پرست کے کہنے پر فقہِ متوارث کو بالکلیہ خیرباد کہنے پر تیار ہوجائیں گے“ تو شاید انہیں اس تمہید سے شرم آتی۔

          علاوہ ازیں شیر کے بچے کی شہادت اس کے باپ کے حق میں کیا قیمت رکھتی ہے؟ یہ بات کم از کم ان حضرات کی نظر سے مخفی نہیں رہ سکتی جو عہدہٴ قضا سے منسلک ہیں، اور یہ شیر ․․․اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے․․․ ابھی تک تاریخ کی نام وَر شخصیات میں داخل نہیں ہوا، اور اس کے سپرد صرف ازہر میں اس کی کارگزاری ہے، اور ازہر کی وکالت، قضائے سوڈان، مجلسِ تشریعی، اور محافلِ ماسونیہ۔ اور اس کے کارنامے صرف طبع زاد رسائل اور مقالات عمورات تک محدود ہیں اور بس۔ جیسا کہ شیر بچوں کے باپ کے کارناموں کی تحسین شیر کے بچوں کی نہیں بلکہ وہ بھی تاریخ کے سپرد ہے، عمرِ طویل کے بعد عمر کے اس دور میں بھی ان کا انجام بخیر ہوسکتا ہے، بشرطیکہ وہ ان جرائم سے توبہ و اِنابت اختیار کریں، جن کا ارتکاب اس رسالے میں ان کے ہاتھوں نے کیا ہے، خصوصاً کتاب اللہ کی، سنتِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور فقہائے اُمت کی مخالفت کا جرم، زائغین کی افترا پردازی کے باوجود، جیسا کہ آپ عنقریب سفیدہٴ صبح کا ظہور مشاہدہ کریں گے۔

          یا سبحان اللہ! اس کا کیسے تصوّر کیا جاسکتا ہے کہ جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور جمہور فقہائے اَمصار قرن ہا قرن تک غلطی میں پڑے رہیں، اور یہ غلطی اس دن تک قائم رہتی ہے جس دن کہ موٴلف، ان کو لغتِ عربی کے اسرار و رموز سمجھانے کے لئے یہ رسالہ لکھ کر شائع کرتا ہے، چودہ سو سال کے طویل دور میں کسی بندہٴ خدا کو یہ ہوش نہیں آتا کہ طلاق دیتے ہوئے تین کا لفظ ذکر کرنا صرف لغو ہی نہیں، بلکہ ناممکن اور محال ہے، پہلی مرتبہ اس یکتا موٴلف کو اس مسئلے میں حق کا انکشاف ہوتا ہے، اور یہ انکشاف موٴلف کی عربیتِ خالصہ کی بدولت ہوتا ہے جس کو ․․․چشمِ بددُور! وادیٴ نیل کے قبطیوں کے درمیان رہنے کے باوجود․․․ عجمیت چھو تک نہیں گئی، اور اسباطِ بنی اسرائیل کی زبان سے اس میں ذرا بھی بگاڑ پیدا نہیں ہوا، نیز موٴلف کو یہ انکشاف اس کے بے مثال تفقّہ کی بنا پر ہوتا ہے، جس کی مثل علمائے اہلِ سنت میں سے کسی ایک سے بھی نقلِ صریح، صحیح کے ساتھ منقول نہیں، اور کسی ایک مذہب میں بھی قبول نہیں کیا گیا، سوائے روافض اور اسماعیلیوں کے، جن میں عبیدیون بھی شامل ہیں، جو اَئمہ کو خدا مانتے ہیں۔

          پس حرام ہے! ہزار مرتبہ حرام․․․! اس شخص پر جو کتاب اللہ کی وجوہِ دلالت میں ایسی جرأت و بے باکی کا مظاہرہ کرتا ہو، اور جو حدیث و فقہ اور اُصول میں ایسی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہو، (اس کے لئے حرام ہے) کہ فقہ و حدیث کے دقیق مسائل پر قلم اُٹھائے، یہ سمجھتے ہوئے کہ مصر و ہند کی چند ایسی مطبوعات کا جمع کرلینا، جو اَغلاط و تصحیفات سے پُر ہیں، اس کو اِجتہاد کی بلند چوٹی تک پہنچادے گا، بدوں اس کے کہ اس کو ایسی وہبی صلاحیتیں حاصل ہوں جو اس میدان میں گوئے سبقت لے جانے میں اس کی مدد کریں، اور بدوں اس کے کہ اس نے ان دونوں علوم کی تعلیم کسی ماہر اُستاذ سے پائی ہو جو باخبری اور کفایت کے ساتھ اس کی تربیت کرتا۔ قدیم زمانے میں کسی شاعر نے کہا ہے:

ما العلم مخزون کتب لدیک منھا الکثیر

لا تحسبنک بھٰذا یومًا فقیھًا تصیر

فللدجاجة ریش لٰکنھا لا تطیر

          ترجمہ:۱:… ”علم اس کا نام نہیں جو کتابوں میں لکھا ہوا ہے، تیرے پاس ان میں سے بہت کتابیں ہیں۔

          ۲:… ہرگز نہ سمجھنا کہ تم اس کے ذریعہ کسی دن فقیہ بن جاوٴگے۔

          ۳:… دیکھو! مرغی کے بھی پَر ہوتے ہیں، لیکن وہ اُڑتی نہیں۔“

          اور شرع میں اہلِ علم سے الگ رائے رکھنا اور ایسی بات کہنا جو کسی نے نہ کہی ہو، یہ دونوں باتیں آدمی کی عقل میں خلل کا پتا دیتی ہیں، حافظ ابن ابی العوام اپنی کتاب ”فضائل ابی حنیفہ و اَصحابہ“ میں اپنی سند کے ساتھ اِمام زفر بن الہذیل کا قول نقل کرتے ہیں کہ:

          ”میں کسی شخص سے صرف اس حد تک مناظرہ نہیں کرتا کہ وہ خاموش ہوجائے، بلکہ یہاں تک مناظرہ کرتا ہوں کہ وہ پاگل ہوجائے، عرض کیا گیا: وہ کیسے؟ فرمایا: ایسی بات کہنے لگے جو کسی نے نہیں کہی۔“

          میں اپنا دِینی واجب سمجھتا ہوں کہ ان صاحب کو وصیت کروں ․․․بشرطیکہ سرگردانی نے اس میں اتنی عقل چھوڑی ہو کہ وہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو ․․․ کہ وہ فقہ و حدیث پر قلم نہ اُٹھایا کرے، کیونکہ اس کی تحریروں سے قطعی طور پر واضح ہوچکا ہے کہ یہ دونوں اس کا فن نہیں، اور عقل مند آدمی اس کام کو ترک کردیتا ہے جس کو ٹھیک طرح نہ جانتا ہو، عربی شاعر کہتا ہے:

خلق الله للحرب رجالًا ورجالًا لقصعة وثرید

          ترجمہ:… ”اللہ تعالیٰ نے جنگ کے لئے پیدا کیا ہے کچھ لوگوں کو، اور کچھ اور لوگوں کو پیالہ اور ثرید کے لئے۔“

          ان دونوں علوم میں غلط روی خالص دِین میں غلط روی ہے، اور ان دونوں میں سرگردانی دُنیا و آخرت میں ہلاکت کا موجب ہے، موٴلف کے لئے یہی کافی ہے کہ عہدہٴ قضا، جو مقدّر سے اس کے ہاتھ لگ گیا ہے، اسے سنبھالے رکھے، اور اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان سے توبہ و اِنابت اختیار کرے۔

          چونکہ موٴلف کے رسالے پر کسی نے گفتگو نہیں کی، اس لئے ہم اس رسالے کے بعض مقاماتِ زیغ پر کلام کریں گے، جس سے اِن شاء اللہ تعالیٰ واضح ہوجائے گا کہ ٹیلے کے پیچھے کیا ہے؟ اس سے جمہور کو خبردار کرنا مقصود ہے کہ وہ موٴلف کے کلام سے دھوکا نہ کھائیں، نیز موٴلفِ رسالہ کے اس دامِ فریب سے بچانا مقصود ہے کہ اس نے بے محل آیاتِ شریفہ درج کرکے ان کی غلط تأویلات کی ہیں جن کے مدخل و مخرج کا اسے علم نہیں، اسی طرح بے موقع احادیث نقل کی ہیں، مگر نہ تو موٴلف نے ان متون کے معانی کو سمجھا ہے، اور نہ وہ ان کی اسانید کے رجال سے واقف ہے، واقعہ یہ ہے کہ جس شخص نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم کو محض کتابوں کی ورق گردانی سے حاصل کیا ہو، کسی اُستاذ سے نہ سیکھا ہو، جو لغزش کے مواقع میں اس کی راہ نمائی کرے، اس کا یہی حال ہوتا ہے۔

          اور میں جن مسائل میں اس خود رو مجتہد کے ساتھ مناقشہ کروں گا ان میں بحول اللہ وقوّتہ ایک لمحے کے لئے بھی اس کا قدم ٹکنے کی گنجائش نہیں چھوڑوں گا، کیونکہ جو شخص حق سے ٹکڑ لیتا ہے اس کے پاس اصلاً کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی اور میں نے ان اوراق میں جو کچھ لکھا ہے اس کو ”الاشفاق علیٰ اَحکام الطّلاق“ کے نام سے موسوم کرتا ہوں۔

والله سبحانہ ولی الھدایة، وعلیہ الاعتماد فی البدایة والنھایة وھو حسبی ونعم الوکیل!

۱:…کیا رجعی طلاق سے عقدِ نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

          موٴلفِ رسالہ صفحہ:۱۴-۱۵ پر لکھتے ہیں:

          ”عقود میں عام قاعدہ یہ ہے کہ عقد سے وہ تمام حقوق فریقین پر لازم ہوجاتے ہیں جن کا عقد کے ذریعہ ہر ایک نے التزام کیا ہو۔“

          آگے چل کر لکھتے ہیں:

          ”اور طلاق خواہ رجعی ہو یا غیر رجعی، وہ عقدِ نکاح کو زائل کردیتی ہے، ابن السمعانی کہتے ہیں کہ: حق یہ ہے کہ قیاس اس بات کو مقتضی تھا کہ طلاق جب واقع ہو تو نکاح زائل ہوجائے، جیسا کہ عتق میں رقیت زائل ہوجاتی ہے، مگر چونکہ شرع نے نکاح میں رُجوع کا حق رکھا ہے اور عتق میں نہیں رکھا، اس بنا پر ان دونوں کے درمیان فرق ہوگیا۔“

          موٴلفِ رسالہ اس قاعدے سے دو باتیں ثابت کرنا چاہتا ہے، ایک یہ کہ اگر شارع کی جانب سے اِذن نہ ہوتا تو مرد کا یک طرفہ طلاق دینا صحیح نہ ہوتا، چونکہ مرد کو طلاق دینے کا اختیار اِذنِ شارع پر موقوف ہے لہٰذا اس کی طلاق کا صحیح ہونا بھی اِذنِ شارع کے ساتھ مقید ہوگا۔ پس اگر کوئی شخص شارع کی اجازت کے خلاف طلاق دے تو اس کی طلاق باطل ہوگی، کیونکہ وہ تقاضائے عقد کی بنا پر یک طرفہ طلاق کا اختیار نہیں رکھتا۔

          دُوسری بات وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ جب طلاقِ رجعی سے نکاح زائل ہوگیا تو عورت دُوسری اور تیسری طلاق کا محل نہ رہی خواہ وہ ابھی تک عدّت کے اندر ہو۔

          موٴلف کے نظریے کی بنیاد انہی دو باتوں پر قائم ہے، لیکن جو شخص کتاب و سنت سے تمسّک کا مدعی ہو، اس کا نصوص کی موجودگی میں محض تخیل اور اَٹکل پچو قیاس آرائی پر اپنے نظریے کی بنیاد رکھنا کتنی عجیب بات ہے؟ اور اگر موٴلف کا مقصود خالی فلسفہ آرائی ہے اور وہ بزعمِ خود تھوڑی دیر کے لئے ”اہلِ رائے“ کی صف میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے تب بھی اس کے علم سے یہ بات تو اوجھل نہیں رہنی چاہئے کہ مسلمان محض طبعیتِ عقد کی بنا پر تو کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہوتا، بلکہ اس لئے مالک ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے تصرفات کا اختیار دیا ہے، نیز اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے تھا کہ عورت نکاح کے وقت مرد کے اس حق کو جانتی تھی کہ وہ جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، اور اس نے نکاح میں یہ شرط بھی نہیں رکھی کہ اس کا شوہر اگر فلاں فلاں کام کرے گا تو اسے اپنے نفس کا خیار ہوگا، بلکہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس نے نکاح قبول کرلیا، تو گویا اس نے شوہر کے حقِ طلاق کا بھی التزام کرلیا۔ اب اگر اسے طلاق دی جارہی ہے تو اس کے التزام پر دی جارہی ہے، لہٰذا اس پر کوئی ایسی چیز لازم نہیں کی جارہی جس کا اس نے التزام نہیں کیا۔ اب غور فرمائیے کہ موٴلفِ رسالہ کے اس نظریے کی کیا قیمت رہ جاتی ہے؟ اور جب یہ نظریہ خود گرتی ہوئی دیوار پر قائم ہے تو اس پر موٴلف جن مسائل کا ہوائی قلعہ تعمیر کر نا چاہتا ہے وہ کب تعمیر ہوسکتا ہے․․․؟

          یہی حال اس کے اس دعویٰ کا ہے کہ: ”رجعی طلاق سے نکاح زائل ہوجاتا ہے“ یہ قطعاً باطل رائے ہے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے مخالف اور اَئمہٴ دِین کے علم و تفقہ سے خارج ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

          ”وَبُعُوْلَتُھُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ․․․․“

                                       (البقرة:۲۲۸)

          ترجمہ:… ”اور ان کے شوہر حق رکھتے ہیں ان کے واپس لوٹانے کا عدّت کے اندر۔“

          دیکھئے! اللہ تعالیٰ نے عدّت کے دوران مردوں کو ان کے شوہر ٹھہرایا ہے، اور انہیں اپنی بیویوں کو سابقہ حالت کی طرف لوٹانے کا حق دیا ہے، مگر اس ”خود ساختہ مجتہد“ کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان زوجیت کا تعلق باقی نہیں رہا۔ اور اگر وہ لفظ رَدّ سے تمسّک کا ارادہ کرے گا تو اچانک اسے ایسے رَدّ کا سامنا کرنا ہوگا جس سے وہ محسوس کرے گا کہ وہ ڈُوبتے ہوئے، تنکے کا سہارا لینا چاہتا ہے۔ نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

          ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ․․․․“

                                       (البقرة:۲۲۹)

          ترجمہ:… ”طلاق دو مرتبہ ہوتی ہے، پھر یا تو روک لینا ہے معروف طریقے سے۔“

          پس روک رکھنے کے معنی یہی ہیں کہ جو چیز قائم اور موجود ہے اسے باقی رکھا جائے، یہ نہیں کہ جو چیز زائل ہوچکی ہے اسے دوبارہ حاصل کیا جائے، ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ طلاقِ رجعی کے بعد انقضائے عدّت تک نکاح باقی رہتا ہے۔ اسی طرح جو احادیث حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے طلاق دینے کے قصے میں مروی ہیں، وہ بھی ہمارے مدعا کی دلیل ہیں، خصوصاً حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث مسندِ احمد میں، جس کے الفاظ یہ ہیں:

          ”لیراجعھا فانھا امرأتہ۔“

          ترجمہ:… ”وہ اس سے رُجوع کرلے کیونکہ وہ اس کی بیوی ہے۔“

          اگر یہ روایت صحیح ہے، جیسا کہ موٴلفِ رسالہ کا دعویٰ ہے، تو یہ حدیث اس مسئلے میں نصِ صریح ہے کہ طلاقِ رجعی واقع ہونے کے بعد بھی وہ عورت اس کی بیوی ہے۔

          اور مطلقہ رجعیہ سے رُجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے ازدواجی تعلق کی پہلی حالت کی طرف لوٹادیا جائے، جبکہ رجعی طلاق کے بعد عورت کی حیثیت یہ ہوگئی تھی کہ اگر اس سے رُجوع نہ کیا جاتا تو انقضائے عدّت کے بعد وہ بائنہ ہوجاتی۔

          صوم و صلوٰة اور حج و زکوٰة وغیرہ کی طرح ”مراجعت“ (طلاق سے رُجوع) کا لفظ اپنے ایک خاص شرعی معنی رکھتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک مراد لئے جاتے رہے ہیں، جو شخص اس لفظ کے لغوی معنی کو لے کر خلطِ مبحث کرنا چاہتا ہے اس کی بات سراسر مہمل اور نامعقول ہے۔ جب مرد، عورت سے کوئی سی بات کرے تو عربی لغت میں اس کو بھی ”راجعھا“ بولتے ہیں، گویا مراجعت کا اطلاق مطلق بات چیت پر ہوتا ہے، لیکن مطلقہ رجعیہ سے اس کے شوہر کے رُجوع کرنے میں جو احادیث وارِد ہوئی ہیں، ان میں ”ازدواجی تعلقات کی طرف دوبارہ لوٹنے“ کے سوا اور کوئی معنی مراد نہیں لئے جاسکتے، لہٰذا اس میں کج بحثی کی کوئی گنجائش نہیں۔

          علاوہ ازیں اگر موٴلف کے بقول رجعی طلاق کے بعد عقد باقی نہیں رہتا تو تجدیدِ عقد کے بغیر دوبارہ ازدواجی تعلقات استوار کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ تعلقات ناجائز اور غیرشرعی ہوں (حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے)، پھر کون نہیں جانتا کہ عدّت ختم ہونے تک نفقہ و سکنٰی شوہر کے ذمہ واجب ہے، اور اگر اس دوران زوجین میں سے کوئی مرجائے تو دُوسرا اس کا وارث ہوگا، اور یہ کہ عورت چاہے نہ چاہے عدّت کے اندر مرد کو رُجوع کرنے کا حق ہے، یہ تمام اُمور اس بات کی دلیل ہیں کہ طلاقِ رجعی کے بعد بھی میاں بیوی کے درمیان عقدِ نکاح باقی رہتا ہے۔

          رہا ابنِ سمعانی کا وہ قول جو موٴلفِ رسالہ نے نقل کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کتاب و سنت اور اِجماعِ اُمت، قیاس سے مانع نہ ہوتے تو قیاس کہتا تھا کہ نکاح باقی نہ رہے، آخر ایسا شخص کون ہے جو نصوصِ قطعیہ کے خلاف قیاس پر عمل کرنے کا قائل ہو، پھر جبکہ اسے مقیس اور مقیس علیہ کے درمیان وجہ فرق کا اقرار بھی ہو؟

          پس اس مختصر سے بیان سے موٴلفِ رسالہ کے خود ساختہ اُصول کی بنیاد منہدم ہوجاتی ہے اور اس پر جو اس نے ہوائی قلعے تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھا، وہ بھی دھڑام سے زمین پر گر جاتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ ان قطعی دلائل کے سامنے اس کے برخود غلط اَٹکل پچو جدلیات کی کیا قیمت ہے؟

۲:… طلاقِ مسنون اور غیر مسنون کی بحث

          موٴلفِ رسالہ صفحہ:۱۶ پر لکھتے ہیں:

          ”آیات و احادیث یہ نہیں بتاتیں کہ ایک طلاق مسنونہ ہوتی ہے اور ایک غیرمسنونہ، وہ تو یہ بتاتی ہیں کہ طلاق کی اجازت شارع نے مخصوص اوصاف اور خاص شرائط کے تحت دی ہے۔ پس جس شخص نے ان اوصاف و شرائط سے ہٹ کر طلاق دی تو اس نے اجازت کی حد سے تجاوز کیا، اور ایک ایسا کام کیا جس کا وہ مالک نہیں تھا، کیونکہ شارع کی طرف سے اس کی اجازت نہیں تھی، اس لئے وہ لغو ہوگی، پس ہم طلاق کو اسی وقت موٴثر کہہ سکتے ہیں جبکہ ان شرائط و اوصاف کے مطابق دی جائے۔“

          جس شخص کو کتبِ حدیث کی ورق گردانی کا اتفاق ہوا ہو اس کا ایسے دعوے کرنا عجیب سی بات ہے، حالانکہ اِمام مالک نے موٴطا میں ذکر کیا ہے کہ طلاقِ سنت کیا ہے؟ اسی طرح اِمام بخاری نے ”الصحیح“ میں اور دیگر اصحابِ صحاح و سنن نے اور ہر گروہ کے فقہائے اُمت نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، حتیٰ کہ ابنِ حزم نے بھی ”المحلّٰی“ میں اس کو ذکر کیا ہے، اور اس کے دلائل بہت زیادہ ہیں، ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو شعیب بن رزیق اور عطا خراسانی نے حسن بصری سے نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:

          ”حضرت عبداللہ بن عمر نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اس کے اَیامِ ماہواری میں طلاق دے دی تھی، بعد ازاں انہوں نے دو طہروں میں دو مزید طلاقیں دینے کا ارادہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: ابن عمر! تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم نہیں دیا، تو نے سنت سے تجاوز کیا ہے، سنت یہ ہے کہ تو طہر کا انتظار کرے، پھر ہر طہر پر طلاق دے۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس سے رُجوع کرلوں، چنانچہ میں نے رُجوع کرلیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب وہ پاک ہوجائے تب تمہارا جی چاہے تو طلاق دے دینا، اور جی چاہے تو روک رکھنا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ فرمائیے کہ اگر میں نے اسے تین طلاق دے دی ہوتیں تو میرے لئے اس سے رُجوع کرنا حلال ہوتا؟ فرمایا: نہیں! بلکہ وہ تجھ سے بائنہ ہوجاتی، اور گناہ بھی ہوتا۔“

          یہ طبرانی کی روایت ہے، اور انہوں نے اس کی سند حسبِ ذیل نقل کی ہے:

          ”حدثنا علی بن سعید الرزای، حدثنا یحیٰی بن عثمان بن سعید بن کثیر الحمصی، حدثنا أبی، ثنا شعیب بن رزیق قال: حدثنا الحسن ․․․․ الخ۔“

          اور دارقطنی نے بطریق معلی بن منصور اس کو روایت کیا ہے، محدث عبدالحق نے اسے معلی کی وجہ سے معلول ٹھہرانا چاہا، مگر یہ صحیح نہیں، کیونکہ ایک جماعت نے اس سے روایت لی ہے، اور ابنِ معین اور یعقوب بن شیبہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔

          اور بیہقی نے بطریق شعیب عن عطا الخراسانی اس کی تخریج کی ہے، اور خراسانی کے سوا اس میں اور کوئی علت ذکر نہیں کی۔ حالانکہ یہ صحیح مسلم اور سننِ اَربعہ کا راوی ہے، اور اس پر جو جرح کی گئی ہے کہ اسے اپنی بعض روایات میں وہم ہوجاتا ہے، یہ جرح متابع موجود ہونے کی وجہ سے زائل ہوجاتی ہے، کیونکہ طبرانی کی روایت میں شعیب اس کا متابع موجود ہے۔

          اور ابوبکر رازی نے یہ حدیث: ”ابنِ قانع عن محمد بن شاذان عن معلی“ کی سند سے روایت کی ہے، اور ابنِ قانع سے ابوبکر رازی کا سماع اس کے اختلاط سے قطعاً پہلے تھا۔

          اور شعیب اس روایت کو کبھی عطا خراسانی کے واسطے سے حسن بصری سے روایت کرتا ہے اور کبھی بغیر واسطے کے، کیونکہ اس کی ملاقات ان دونوں سے ہوئی ہے، اور اس نے دونوں سے احادیث کا سماع کیا ہے، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس نے عطا خراسانی کے واسطے سے یہ حدیث سنی ہوگی، بعد ازاں بلاواسطہ حسن سے اس لئے وہ کبھی عطا سے روایت کرتا ہے اور کبھی حسن سے، ایسی صورت بہت سے راویوں کو پیش آتی ہے جیسا کہ حافظ ابوسعید العلائی نے ”جامع التحصیل لاحکام المراسیل“ میں ذکر کیا ہے۔

          رہا شوکانی کا شعیب بن رزیق کی تضعیف کے درپے ہونا، تو یہ ابنِ حزم کی تقلید کی بنا پر ہے، اور وہ منہ زور ہے اور رجال سے بے خبر، جیسا کہ حافظ قطب الدین حلبی کی کتاب ”القدح المعلی فی الکلام علٰی بعض احادیث المحلی“ سے ظاہر ہے۔ اور شعیب کو دارقطنی اور ابنِ حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اور رزیق دمشقی (جیسا کہ بعض روایات میں واقع ہے) صحیح مسلم کے رجال میں سے ہے۔ اور علی بن سعید رازی کو ایک جماعت نے، جن میں ذہبی بھی شامل ہیں، پُرعظمت الفاظ میں ذکر کیا ہے، اور ذہبی نے حسن بصری کے حضرت ابنِ عمر سے سماع کی تصریح بھی کی ہے، حافظ ابوزرعہ سے دریافت کیا گیا کہ: حسن کی ملاقات ابنِ عمر سے ہوئی ہے؟ فرمایا: ہاں!

          حاصل یہ کہ حدیث درجہ احتجاج سے ساقط نہیں، خواہ اس کے گرد شیاطین شذوذ کا کتنا ہی گھیرا ہو، اور اس باب کے دلائل باقی کتبِ حدیث سے قطع نظر صحاحِ ستہ میں بھی بہت کافی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص سنت کے خلاف طلاق دے اس کی طلاق مخالفتِ حکم کے باوجود واقع ہوجائے گی، کیونکہ نہی طاری، مشروعیتِ اصلیّہ کے منافی نہیں، جیسا کہ علمِ اُصول میں اس کی تفصیل ذکر کی گئی ہے، مثلاً کوئی شخص مغصوبہ زمین میں نماز پڑھے یا اذانِ جمعہ کے وقت خرید و فروخت کرے (اگرچہ وہ گناہگار ہوگا لیکن نماز اور بیع صحیح ہی کہلائے گی)۔

          طلاق نام ہے کہ مِلکِ نکاح کو زائل کرنے اور عورت کی آزادی پر سے پابندی اُٹھادینے کا (جو نکاح کی وجہ سے اس پر عائد تھی)۔ ابتدا میں عورت کی آزادی کو (بذریعہ نکاح) مقید کرنا متعدّد دِینی و دُنیوی مصالح کی بنا پر اس کی رضا پر موقوف رکھا گیا، لیکن مرد کو یہ حق دیا گیا کہ جب وہ دیکھے یہ مصالح، مفاسد میں تبدیل ہو رہے ہیں تو عورت پر سے پابندی اُٹھادے تاکہ عورت اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ طلاق کتاب و سنت کی رُو سے مشروع الاصل ہے، البتہ شریعت مرد کو حکم دیتی ہے کہ وہ تین طلاقوں کا حق تین ایسے طہروں میں استعمال کرے جن میں میاں بیوی کے درمیان یکجائی نہ ہوئی ہو، اور مصلحت اس میں یہ ہے کہ یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جس میں مرد کو عورت سے رغبت ہوتی ہے، اس وقت طلاق دینا اس اَمر کی دلیل ہوگی کہ میاں بیوی کے درمیان ذہنی رابطہ واقعتا ٹوٹ چکا ہے، اور ایسی حالت میں طلاق کی واقعی ضرورت موجود ہے۔ دُوسرے یہ کہ مرد تین طہروں میں متفرّق طور پر طلاق دے گا تو اسے سوچنے سمجھنے کا موقع مل سکے گا اور طلاق سے اسے پشیمانی نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں حیض کی حالت میں طلاق دینے میں عورت کی عدّت خواہ مخواہ طول پکڑے گی (کیونکہ یہ حیض، جس میں طلاق دی گئی ہے، عدّت میں شمار نہیں ہوگا، بلکہ اس کے بعد جب اَیامِ ماہواری شروع ہوں گے اس وقت سے عدّت کا شمار شروع ہوگا)، لیکن یہ ساری چیزیں عارضی ہیں جو طلاق کی اصل مشروعیت میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں، لہٰذا اگر کسی نے بحالتِ حیض تین طلاق دے دیں یا ایسے طہر میں طلاق دے دی جس میں میاں بیوی یکجا ہوچکے تھے تب بھی طلاق بہرحال واقع ہوجائے گی، اگرچہ بے ڈھنگی طلاق دینے پر وہ گناہگار بھی ہوگا، مگر اس عارض کی وجہ سے جو گناہ ہوا وہ طلاق کے موٴثر ہونے میں رُکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اس کی مثال میں ظہار کو پیش کیا جاسکتا ہے، وہ اگرچہ نامعقول بات اور جھوٹ ہے (مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا) مگر اس کے باوجود اس کی یہ صفت اس کے اثر کے مرتب ہونے سے مانع نہیں۔ اور مسئلہ زیرِ بحث میں کتاب و سنت کی نص موجود ہونے کے بعد ہمیں قیاس سے کام لینے کی ضرورت نہیں، اس لئے ہم نے ظہار کو قیاس کے طور پر نہیں بلکہ نظیر کے طور پر پیش کیا ہے۔

          اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: ”تو نے سنت سے تجاوز کیا“ اس سے مراد یہ ہے کہ تو نے وہ طریقہ اختیار نہیں کیا جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حکم فرمایا ہے۔ یہاں ”سنت“ سے وہ کام مراد نہیں جس پر ثواب دیا جائے، کیونکہ طلاق کوئی کارِ ثواب نہیں، اسی طرح ”طلاقِ بدعت“ میں بدعت سے مراد وہ چیز نہیں جو صدرِ اوّل کے بعد خلافِ سنت ایجاد کی گئی ہو، بلکہ اس سے مراد وہ طلاق ہے جو مأمور بہ طریقے کے خلاف ہو، کیونکہ حیض کے دوران طلاق دینے اور تین طلاقیں بیک بار دینے کے واقعات عہدِ نبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) میں بھی پیش آئے تھے، جیسا کہ ہم آئندہ تین طلاق کی بحث میں نصوصِ احادیث سے اس کے دلائل ذکر کریں گے۔ اور جن لوگوں نے اس میں نزاع کیا ہے، ان کا نزاع صرف گناہ میں ہے، وقوعِ طلاق میں نہیں، اور تین طلاق بیک بار واقع ہونا اور حیض کی حالت میں طلاق کا واقع ہونا دونوں کی ایک ہی حیثیت ہے، جو شخص اُس میں یا اِس میں نزاع کرتا ہے اس کے ہاتھ میں کوئی دلیل کیا، شبہ دلیل بھی نہیں، جیسا کہ ہمارے ان دلائل سے واضح ہوگا جو ہم آئندہ دو بحثوں میں پیش کریں گے۔

          اور اِمام طحاوی نے نماز سے خروج کی جو مثال پیش کی ہے، اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ عقد میں دخول اور اس سے خروج کے درمیان جو وجہٴ فرق ہے وہ فقہ کے طالبِ علم کے ذہن نشین کراسکیں، ورنہ ان کا مقصد طلاق کو نماز پر قیاس کرنا نہیں، اور نہ کتاب و سنت کے نصوص کی موجودگی میں انہیں قیاس کی حاجت ہے، اس لئے موٴلفِ رسالہ کا یہ فقرہ بالکل بے معنی ہے کہ:

          ”اعتراض صحیح ہے اور جواب باطل ہے، کیونکہ یہ عقود کا عبادات پر قیاس ہے، حالانکہ عقد میں دُوسرے کا حق متعلق ہوتا ہے۔“

          علاوہ ازیں اگر بالفرض اِمام طحاوی نے قیاس ہی کیا ہو تو آخر قیاس سے مانع کیا ہے؟ کیونکہ اس میں نکاح سے غیرمأمور بہ طریقے پر خروج کو نماز سے غیر مأمور بہ طریقے سے خروج پر قیاس کیا گیا ہے، اور طلاق خالص مرد کا حق ہے، عورت کا حق صرف مہر وغیرہ میں ہے، اس لئے صحتِ قیاس میں موٴلف کے مصنوعی خیال کے سوا کوئی موٴثر وجہٴ فرق نہیں ہے۔

          موٴلفِ رسالہ، آیتِ کریمہ: ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ“ کے سببِ نزول میں حاکم اور ترمذی کی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ”میرے نزدیک دونوں سندیں صحیح ہیں“ یہ فقرہ اس بات کی دلیل ہے کہ موٴلف صرف فقہ ہی میں نہیں بلکہ چشمِ بددُور! حدیث میں بھی مرتبہٴ اِجتہاد پر فائز ہوچکے ہیں، جبکہ متأخرین میں حافظ ابنِ حجر جیسے حضرات کا بھی اس مرتبہ تک پہنچنا محلِ نظر ہے۔

          میاں! تم ہو کون؟ کہ تم ”میرے نزدیک“ کے دعوے کرو․․․؟

          آیت کے سببِ نزول کی بحث ہمارے موضوع سے غیرمتعلق ہے، ورنہ ہم دِکھاتے کہ ”میرے نزدیک صحیح ہے“ کیسے ہوتی ہے، نسأل الله السلامة!

۳:… حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے

          موٴلفِ رسالہ صفحہ:۲۴ پر لکھتے ہیں:

          ”اس حدیث کی (یعنی حضرت ابنِ عمر کے اپنی بیوی کو بحالتِ حیض طلاق دینے کی) روایات اور اس کے الفاظ کتبِ حدیث میں بہت سے ہیں، اور ان میں اس نکتے پر شدید اختلاف و اضطراب ہے کہ ابنِ عمر نے حیض میں جو طلاق دی تھی اسے شمار کیا گیا یا نہیں؟ بلکہ اس حدیث کے الفاظ بھی مضطرب ہیں․․․․․․ لہٰذا ابوالزبیر کی اس روایت کو ترجیح دی جائے گی، جس میں ابنِ عمر کے یہ الفاظ مروی ہیں کہ: ”آپ نے میری بیوی واپس لوٹادی، اور اس کو کچھ نہیں سمجھا“ (فردھا علیّ ولم یرھا شیئًا)۔ یہ روایت اس لئے راجح ہے کہ یہ ظاہر قرآن اور قواعدِ صحیحہ کے موافق ہے، اور اس روایت کی تائید ابو الزبیر ہی کی دُوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے وہ حضرت جابر سے سماعاً بایں الفاظ نقل کرتے ہیں:

          ”ابنِ عمر سے کہو وہ اس سے رُجوع کرلے کیونکہ وہ اس کی بیوی ہے۔“

          یہ سند صحیح ہے اور ابن لہیعہ ثقہ ہے اور خشنی کی روایت محمد بن بشار سے یہ ہے: ”لا یعتد بذٰلک“ (اس کا اعتبار نہ کرے) اور یہ سند بہت ہی صحیح ہے، اور ابنِ وہب کی روایت میں جو آتا ہے کہ: ”وھی واحدة“ (اور یہ ایک طلاق شمار ہوگی) اس سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ضمیر اس طلاق کی طرف راجع ہے جو ابنِ عمر نے حیض کے دوران دی تھی، حتیٰ کہ ابنِ حزم اور ابنِ قیم کو بھی اس دلیل سے گلو خلاصی کی صورت اس کے سوا نظر نہ آئی کہ وہ اس کے مدرج ہونے کا دعویٰ کریں۔ حالانکہ صحیح اور واضح بات یہ ہے کہ یہ ضمیر اس طلاق کی طرف راجع ہے جو ابنِ عمر کو بعد میں دینی تھی، لہٰذا یہ فقرہ حیض کے دوران کی طلاق کے باطل ہونے پر دلیل ہے، اور ابوالزبیر کی روایت کا موٴید ہے۔

          اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عمر کو ان کی مطلقہ فی الحیض سے رُجوع کرنے کا جو حکم فرمایا تھا اس میں مراجعت سے مراد لفظ کے معنی لغوی ہیں، اور مطلقہ رجعیہ سے رُجوع کرنے میں اس کا استعمال ایک نئی اصطلاح ہے، جو عصرِ نبوّت کے بعد ایجاد ہوئی۔“                (ص:۲۴ تا ۳۰ متفرقاً)

          موٴلف نے صفحہ:۲۷ پر صاف صاف لکھا ہے کہ: ”حیض میں دی گئی طلاق صحیح نہیں، اور اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا“ موٴلف کا یہ قول روافض اور ان کے ہم مسلک لوگوں کی پیروی ہے، اور یہ ان صحیح احادیث سے تلاعب ہے جو صحیحین وغیرہ میں موجود ہیں اور جن کی صحت، ثقہ حفاظ کی شہادت سے ثابت ہے، یہ قول محض نفس پرستی پر مبنی ہے اور اہلِ نقد کی نظر میں ایک منکر (روایت) کو اس سے بدترین منکر کے ساتھ تقویت دینے کی کوشش ہے۔ اور پھر ایسی احادیث میں اضطراب کا دعویٰ کرنا جن کو تمام اربابِ صحاح نے لیا ہے پرلے درجے کی بے حیائی ہے، اور ایسے مدعی کی عقل میں فتور اور اضطراب کی دلیل ہے۔ اِمام بخاری نے ”صحیح“ میں حائضہ کو دی گئی طلاق کے صحیح ہونے پر باب باندھا ہے: ”باب اذا طلقت الحائض یعتد بذٰلک الطّلاق“ یعنی: ”جب حائضہ کو طلاق دی جائے تو اس طلاق کو صحیح شمار کیا جائے گا“ اِمام بخاری اس مسئلے میں کسی کے اختلاف کی طرف اشارہ تک نہیں کرتے، اور اس باب کے تحت ابنِ عمر کے اپنی بیوی کا طلاق دینے کی حدیث درج کرتے ہیں جس میں یہ الفاظ ہیں: ”مرہ فلیراجعھا“ یعنی ”اس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رُجوع کرلے۔“ اِمام مسلم بھی اس طلاق کے شمار کئے جانے کی تصریح کرتے ہیں، ان کے الفاظ یہ ہیں: ”وحسبت لھا التطلیقة التی طلقھا“ یعنی: ”ابنِ عمر نے اپنی بیوی کو اس کے حیض کی حالت میں جو طلاق دی تھی اسے شمار کیا گیا۔“ اسی طرح مسندِ احمد میں حضرت حسن کی حدیث جو خود حضرت ابنِ عمر سے مروی ہے، اور جس کا ذکر مع سند کے پہلے آچکا ہے، وہ بھی اس اَمر کی دلیل ہے کہ اس طلاق کو صحیح اور موٴثر قرار دیا گیا۔

          صحیحین وغیرہ میں جو اَحادیث اس سلسلے میں مروی ہیں ان میں جو ”رُجوع کرنے“ کا لفظ آیا ہے، جو شخص اس پر سرسری نظر بھی ڈالے اسے ایک لمحے کے لئے بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ لفظ طلاق وغیرہ کی طرح عہدِ نبوی میں ایک خاص اصطلاحی مفہوم رکھتا تھا، اور یہ کہ یہ اصطلاح دورِ نبوّت کے بعد قطعاً ایجاد نہیں ہوئی۔ احادیثِ طلاق میں ”ارتجاع“، ”رجعت“ اور ”مراجعت“ کے جتنے الفاظ وارِد ہیں ان کے شرعی معنی مراد ہیں، یعنی طلاقِ رجعی دینے کے بعد دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرنا، بلکہ فقہائے اُمت کی عبارتوں میں اس قبیل کے جتنے الفاظ وارِد ہیں وہ لفظاً معنیً انہی الفاظ کے مطابق ہیں جو اَحادیث میں وارِد ہوئے ہیں۔ اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ اس باب کی احادیث میں ”رُجوع“ کے لغوی معنی مراد لینا یکسر غلط ہے، ابنِ قیم بھی اس دعویٰ کی جرأت نہیں کرسکے کہ یہاں ”رُجوع“ کے شرعی معنی مراد نہیں، کیونکہ ان کے سامنے وہ احادیث موجود تھیں جن میں شرعی معنی کے سوا اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے، انہوں نے اپنی ذات کو اس سے بالاتر سمجھا کہ وہ ایک ایسی مہمل بات کہہ ڈالیں جو حاملینِ حدیث کے نزدیک بھی ساقط الاعتبار ہو، چہ جائیکہ فقہاء اس پر کان نہ دھریں۔

          شوکانی چونکہ زیغ میں سب سے آگے ہے، اور یہ بات کم ہی سمجھ پاتا ہے کہ فلاں بات کہنے سے اس کی ذِلت و رُسوائی ہوگی، اس لئے اس نے اپنے رسالہٴ طلاق میں یہ راستہ اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں سمجھا کہ یہاں ”رُجوع“ کے معنیٴ شرعی مراد نہیں ہیں، اور موٴلفِ رسالہ کو (شوکانی کی تقلید میں) یہ دعویٰ کرتے ہوئے یہ خیال نہیں رہا کہ اس سے اس کی دلیل کا بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے، اور یہ بھی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ زمانہٴ نبوّت کے بعد کس زمانے میں یہ نئی اصطلاح ایجاد ہوئی جس کا وہ مدعی ہے؟ موٴلفِ رسالہ، ابنِ حزم کی طرح بے دلیل دعوے ہانکنے میں جری ہے، اس نے ان صحیح احادیث کی طرف نظر اُٹھاکر نہیں دیکھا جن میں طلاق بحالتِ حیض کو واقع شدہ شمار کیا گیا ہے، اور یہ اَحادیث ناقابلِ تردید فیصلہ کرتی ہیں کہ یہاں مراجعت سے قطعاً معنیٴ شرعی مراد ہیں۔

          پس ان احادیث میں ”مطلقہ بحالتِ حیض“ سے رُجوع کرنے کا جو حکم وارِد ہوا ہے، تنہا وہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ حیض کی حالت میں جو طلاق دی جائے وہ بلاشک و شبہ واقع ہوجاتی ہے، پھر جبکہ صحیح احادیث میں یہ بھی وارِد ہے ․․․جیسا کہ پہلے گزر چکا․․․ کہ اس حالت میں دی گئی طلاق کو صحیح شمار کیا گیا، تو اَب بتائیے کہ اس مسئلے میں شک و تردّد کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ اور آیتِ کریمہ میں ”تراجع“ کا جو لفظ آیا ہے یہ اس صورت سے متعلق ہے جبکہ سابق میاں بیوی کے درمیان عقدِ جدید کی ضرورت ہو، اور یہ صورت ہماری بحث سے خارج ہے۔

          اور جس شخص نے ان احادیث کا، جو ابنِ عمر کے واقعہٴ طلاق میں وارِد ہوئی ہیں، احاطہ کیا ہو، بلکہ احادیث کی وہ تھوڑی سی تعداد، جو حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں ذکر کی ہے، بالخصوص دارقطنی کی حدیثِ شعبہ اور حدیثِ سعید بن عبدالرحمن الجمحی، جس کے پیشِ نظر ہو، اسے یہ یقین کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا کہ ان احادیث میں مراجعت سے صرف معنیٴ شرعی مراد ہیں، یعنی طلاقِ رجعی کے بعد معاشرتِ زوجیت کی طرف لوٹنا۔ اور الفاظ سے ان کی حقیقتِ شرعیہ ہی مراد ہوتی ہے، اِلَّا یہ کہ وہاں کوئی صارف موجود ہو، اور یہاں کوئی مانع موجود نہیں۔ ابنِ قیم کو چونکہ یہ احادیث مستحضر تھیں اس لئے وہ اس پر راضی نہیں ہوئے کہ محض ہٹ دھرمی سے معنیٴ شرعی کے مراد ہونے سے انکار کردیں، کیونکہ یہاں انکار کی مجال ہی نہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے چاہا کہ شریعت میں مراجعت کے تین معنی ثابت کردیں: ۱:․․․ نکاح، ۲:․․․جائز ہبہ کو واپس کردینا، ۳:․․․ طلاق کے بعد معاشرتِ زوجیت کی طرف لوٹنا، تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ یہ لفظ مشترک ہے، اور مشترک میں احتمال ہوتا ہے، اور احتمال کی صورت میں استدلال ساقط ہوجاتا ہے۔ لیکن انہیں یہ خیال نہیں رہا کہ یہاں مراجعت کی نسبت میاں بیوی کی طرف کی گئی ہے، مرد کی طرف بحیثیت رُجوع کنندہ کے، اور عورت کی طرف بحیثیت رُجوع کردہ شدہ کے، اس سے مراجعت کے معنی خود بخود متعین ہوجاتے ہیں، یعنی طلاق کے بعد معاشرتِ زوجیت کی طرف عود کرنا، لہٰذا یہاں اشتراک ثابت کرکے استدلال پر اعتراض کرنا صحیح نہیں، علاوہ ازیں وہ یہ بھی بھول گئے کہ ہماری بحث لفظ ”مراجعت“ میں ہے جو ان احادیث میں وارِد ہوا ہے، نہ تو لفظ ”تراجع“ میں ہے جو قرآنِ کریم میں بہ معنی نکاح کے آیا ہے، اور نہ لفظ ”ارجاع“ میں ہے، جو جائز ہبہ کے واپس کرنے کی حدیث میں آیا ہے۔

          ابنِ قیم کے بعد شوکانی آئے، اور موصوف نے اپنے رسالے میں جو طلاقِ بدعی کے موضوع پر ہے، یہ مسلک اختیار کیا کہ ان احادیث میں ”مراجعت“ کے معنیٴ شرعی مراد ہونا مُسلّم نہیں، بایں خیال کہ معنیٴ لغوی، معنیٴ شرعی سے عام ہیں۔ شوکانی کے اس موقف کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو فضول کٹ حجتی میں ․․․جس کا موصوف نے عجمیوں کی کتابوں سے استفادہ کیا․․․ ایک خاص ملکہ اور رُسوخ حاصل ہے۔ کیونکہ شوکانی نے عجمی کتابیں پڑھی تھیں، ابنِ قیم نے نہیں، مگر شوکانی سے یہ بات اوجھل رہی کہ باتفاق اہلِ علم کتاب و سنت میں الفاظ کی حقیقتِ شرعیہ مراد ہوا کرتی ہے، اور لفظ ”مراجعت“ کی حقیقتِ شرعیہ کو تسلیم کرلینے کے بعد اس کے مراد ہونے کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے بعد وہ تحزیف و تحریف میں اور آگے بڑھے اور محض ہٹ دھرمی کی بنا پر ”نیل الاوطار“ میں لفظ ”مراجعت“ کے معنیٴ شرعی سے ہی انکار کرڈالا۔ ان کا خیال تھا کہ جو اَحادیث کہ معنیٴ شرعی میں نص ہیں، اور جن کو شوکانی نے ابنِ حجر کی فتح الباری سے نقل کیا ہے، اگر ان کو غلط سلط نقل کرکے ان کے معنی بگاڑ دئیے جائیں تو کمزور علم کے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے کافی ہے، اور ایسا کوئی آئے گا جو ان کی خیانت فی النقل کا پردہ چاک کرے، ذرا شوکانی سے پوچھو کہ اس نے فتح الباری سے ابنِ حجر کا یہ قول کیوں نقل نہیں کیا:

          ”اور دارقطنی میں بروایت شعبہ عن انس بن سیرین عن ابنِ عمر اس قصے میں یہ الفاظ ہیں:

          ”حضرت عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ طلاق شمار ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں!“ اس حدیث کے شعبہ تک تمام راوی ثقہ ہیں۔

          اور دارقطنی میں بروایت سعید بن عبدالرحمن الجمحی (ابنِ معین وغیرہ نے اس کی تصحیح کی ہے) عن عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابنِ عمر یہ واقعہ منقول ہے کہ ایک شخص نے ابنِ عمرسے عرض کیا کہ: میں نے اپنی بیوی کو ”البتہ“ (قطعی طلاق، یعنی تین) طلاق دے دی، جبکہ وہ حیض کی حالت میں تھی، ابنِ عمر نے فرمایا کہ: ”تو نے اپنے رَبّ کی نافرمانی کی، اور تیری بیوی تجھ سے الگ ہوگئی“، وہ شخص بولا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ابنِ عمر کو اپنی بیوی سے رُجوع کرنے کا حکم دیا تھا، فرمایا: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عمر کو اس طلاق کے ساتھ رُجوع کرنے کا حکم دیا تھا جو اس کے لئے ابھی باقی تھی، اور تو نے تو کچھ باقی ہی نہیں چھوڑا جس کے ذریعہ تو اپنی بیوی سے رُجوع کرسکتا (یعنی ابنِ عمر نے تو ایک رجعی طلاق دی تھی، اور دو طلاقیں ابھی باقی تھیں، اس لئے وہ رُجوع کرسکتے تھے، مگر تو نے تین دے ڈالیں، تو کیسے رُجوع کرسکتا ہے؟)۔“ اور اس سیاق میں رَدّ ہے اس شخص پر جو ابنِ عمر کے قصے میں ”رجعت“ کو معنیٴ لغوی پر محمول کرتا ہے۔“

          اور یہ ساری بحث تو اس وقت ہے جبکہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ لفظ ”رجعت“ کے ایک ایسے معنیٴ لغوی بھی ہیں جو اَحادیثِ ابنِ عمر میں مراد لئے جاسکتے ہیں، لیکن جس شخص نے کتبِ لغت کا مطالعہ کیا ہو اس پر واضح ہوگا کہ لفظ ”مراجعت“ کے لغوی معنی ہر اس صورت میں متحقق ہیں، جبکہ مرد، عورت سے کسی معاملے میں بات چیت کرے، اور یہ عام معنی ان احادیث میں قطعاً مراد نہیں لئے جاسکتے، اِلَّا یہ کہ شوکانی اس لفظ کو کوئی جدید معنی پہنادیں، جو کتاب و سنت، اجماعِ فقہائے ملت اور لغت کے علی الرغم شوکانی کی من گھڑت رائے کے موافق ہوں۔

          اس تقریر سے واضح ہوا کہ قصہٴ ابنِ عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: ”اس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رُجوع کرلے“ ازخود معنیٴ شرعی پر نص ہے، اس کے لئے دارقطنی کی تخریج کردہ روایات کی بھی حاجت نہیں۔

          رہا ابنِ حزم کا ”المحلّٰی“ میں یہ کہنا کہ:

          ”بعض لوگوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عمر کو اپنی بیوی سے رُجوع کا جو حکم فرمایا تھا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس طلاق کو شمار کیا گیا۔ ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد تمہارے زعم کی دلیل نہیں، کیونکہ ابنِ عمر نے جب اسے حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو بلاشبہ اس سے اجتناب بھی کیا ہوگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صرف یہ حکم دیا تھا کہ اپنی علیحدگی کو ترک کردیں اور اس کی پہلی حالت کی طرف لوٹادیں۔“

          اس کی ”پہلی حالت“ سے ابنِ حزم کی مراد اگر طلاق سے پہلے کی حالت ہے، تب تو ابنِ حزم کی طرف سے یہ اقرار ہے کہ یہ جملہ طلاق کے واقع ہونے کی دلیل ہے، اور اگر ”پہلی حالت“ سے مراد اجتناب سے پہلے کی حالت ہے، تو یہ لفظ کے نہ لغوی معنی ہیں، نہ شرعی۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ معنی مجازی ہوں، جو اطلاق و تقیید کی مناسبت سے معنیٴ شرعی سے اخذ کئے گئے ہیں، لیکن معنیٴ مجازی مراد لینے کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جبکہ کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو معنیٴ حقیقی سے مراد لینے سے مانع ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہاں وہ کون سا قرینہ ہے جو حقیقتِ شرعیہ سے مانع ہے؟ اس بیان کے بعد موٴلفِ رسالہ کی بات کو جس وادی میں چاہو پھینک دو۔

          اور ابوداوٴد میں ابو الزبیر کی روایت کا یہ لفظ مجمل ہے کہ: ”فردھا علیّ ولم یرھا شیئًا“، ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مجھ پر لوٹادیا اور اس کو کچھ نہیں سمجھا“ یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوئی، بلکہ ”واپس لوٹانے“ کے لفظ سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ یہ طلاق بینونت میں قطعاً موٴثر نہیں تھی، ”رَدّ“ اور ”امساک“ کے الفاظ اس رُجوع میں استعمال ہوتے ہیں جو طلاقِ رجعی کے بعد ہو۔

          اور اگر فرض کرلیا جائے کہ اس لفظ سے طلاق کا واقع ہونا کسی درجے میں مفہوم ہوتا ہے تو سنئے! اِمام ابوداوٴد اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”تمام احادیث اس کے خلاف ہیں۔“ یعنی تمام احادیث بتاتی ہیں کہ ابنِ عمر پر ایک طلاق شمار کی گئی۔ اِمام بخاری نے اس کو صراحتاً روایت کیا ہے اور اسی طرح اِمام مسلم نے بھی، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور بہت سے حضرات نے ذکر کیا ہے کہ اِمام احمد کے سامنے ذکر کیا گیا کہ طلاقِ بدعی واقع نہیں ہوتی، آپ نے اس پر نکیر فرمائی اور فرمایا کہ: یہ رافضیوں کا مذہب ہے۔

          اور ابو الزبیر محمد بن مسلم مکی کو ان سب موٴلفین نے جنھوں نے مدلّسین پر کتابیں لکھی ہیں، مدلّس راویوں کی فہرست میں جگہ دی ہے، پس جن کے نزدیک مدلّسین کی روایت مطلقاً مردود ہے ان کے نزدیک تو اس کی روایت مردود ہوگی، اور جو لوگ مدلّس کی روایت کو کچھ شرائط سے قبول کرتے ہیں وہ اس کی روایت بھی شرائط کے ساتھ ہی قبول کرسکتے ہیں، مگر وہ شرائط یہاں مفقود ہیں، لہٰذا یہ روایت بالاتفاق مردود ہوگی۔

          ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ: یہ بات ابو الزبیر کے سوا کسی نے نہیں کہی، اس حدیث کو ایک بہت بڑی جماعت نے روایت کیا ہے، مگر اس بات کو کوئی بھی نقل نہیں کرتا۔ بعض محدثین نے کہا ہے کہ: ابو الزبیر نے اس سے بڑھ کر کوئی ”منکر“ روایت نقل نہیں کی۔ اب اگر ابو الزبیر مدلّس نہ بھی ہوتا، صرف صحیحین وغیرہ میں حدیثِ ابنِ عمر کے راویوں کی روایت اس کے خلاف ہوتی تب بھی اس کی روایت ”منکر“ ہی شمار ہوتی، چہ جائیکہ وہ مشہور مدلّس ہے۔

          رہی وہ روایت جس کو ابنِ حزم نے بطریق محمد بن عبدالسلام الخشنی (شوکانی کے رسالے میں خود اس کے اپنے قلم سے اس راوی کی نسبت ”الخشنی“ کے بجائے ”الحبی“ لکھی ہے، اس سے علمِ رجال میں شوکانی کا مبلغ علم معلوم ہوسکتا ہے) عن محمد بن بشار عن عبدالوہاب الثقفی عن عبیداللہ عن نافع عن ابنِ عمر نقل کی ہے کہ ابنِ عمر نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو اس کے حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو، فرمایا کہ اس کو شمار نہیں کیا جائے گا، ابنِ حجر تخریج رافعی میں فرماتے ہیں کہ: ”اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سنت کے خلاف کیا، یہ مطلب نہیں کہ وہ طلاق ہی شمار نہیں ہوگی“ علاوہ ازیں بندار اگرچہ صحیح کے راویوں میں سے ہے، لیکن یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی روایتوں کو چھانٹ کر لیا جاتا ہے، مطلقاً قبول نہیں کیا جاتا، اس لئے کہ وہ حدیث کی چوری اور کذب وغیرہ کے ساتھ متہم ہے، اور بہت سے ناقدین نے اس میں کلام کیا ہے، بعض اصحابِ صحاح کے نزدیک اس کی عدالت راجح ثابت ہوئی اس لئے انہوں نے اس کی صرف وہ احادیث روایت کیں جو ”نکارت“ سے سالم تھیں۔ اِمام بخاری اس سے بکثرت روایت کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی اس کی زیر بحث حدیث نہیں لی۔ الخشنی اگرچہ ثقہ ہے، مگر احادیث کی چھان پھٹک میں اِمام بخاری جیسا نہیں۔

          اور یہ دعویٰ بے حد مضحکہ خیز ہے کہ مسندِ احمد کی روایت، جو ابنِ لہیعہ عن ابی الزبیر عن جابر کی سند سے مروی ہے، وہ ابو الزبیر کی روایت کی موٴید ہے۔ اس لئے کہ مسندِ احمد متفرد راویوں پر مشتمل ہونے کی بنا پر اہلِ نقد کے نزدیک ان کتبِ احادیث میں سے نہیں جن میں صرف صحیح احادیث درج کرنے کا التزام کیا گیا ہو۔ ابنِ حجر نے اس کی روایت کا دائرہ وسیع ہونے سے قبل، جو اس کا دفاع کیا ہے وہ صرف اس مقصد کے لئے ہے کہ اس سے موضوع احادیث کی نفی کی جائے، خواہ اس کی روایت کسی اور راوی کے خلاف بھی نہ ہو۔ جیسا کہ حافظ ابو سعید العلائی نے ”جامع التحصیل“ میں ذکر کیا ہے، اور زیر بحث روایت بطریق لیث نہیں، اور مسندِ احمد جیسی ضخیم کتاب اس بات سے محفوظ نہیں رہ سکتی کہ اس کے متفرد راویوں کے قلتِ ضبط کی بنا پر عنعنہ کی جگہ سماع اور تحدیث کو ذکر کردیا گیا ہو، ایسی صورت میں اس قسم کی روایت کی صحت ان لوگوں کے نزدیک کیسے ثابت ہوسکتی ہے جو روایت کی چھان پھٹک کے فن سے ناواقف ہیں؟

          اور اگر روایت کی صحت کو فرض بھی کرلیا جائے تب بھی اس کو حالتِ حیض میں دی گئی طلاق کے عدمِ وقوع کے لئے موٴید ماننا ممکن نہیں، جیسا کہ ہمارے نام نہاد مجتہد نے سمجھا ہے، کیونکہ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:

          ”لیراجعھا فانھا امرأتہ۔“

          ترجمہ:… ”وہ اس سے رُجوع کرلے، کیونکہ وہ اس کی بیوی ہے۔“

          یہ لفظ حالتِ حیض کی طلاق کے وقوع اور انقضائے عدّت تک زوجیت کے باقی رہنے کی دلیل ہے، جیسا کہ جمہور فقہائے اُمت اس کے قائل ہیں، کیونکہ مراجعت صرف طلاقِ رجعی کے بعد ہوتی ہے، اور ارشادِ نبوی: ”کیونکہ وہ اس کی بیوی ہے“ ان دونوں کے درمیان تعلقِ زوجیت کی بقا کی تصریح ہے، بلکہ یہ روایت، دُوسری روایت کے اجمال کی تفسیر کرتی ہے کہ ”کوئی چیز نہیں“ سے مراد یہ ہے کہ طلاق بحالتِ حیض ایسی چیز نہیں جس سے بینونت (علیحدگی) واقع ہوجائے جب تک کہ عدّت باقی ہے، اس تفسیر کے بعد ابوالزبیر کی روایت بھی دُوسرے راویوں کی روایت کے موافق ہوجاتی ہے۔

          اور جو روایت ابنِ حزم نے بطریق ہمام بن یحییٰ عن قتادة عن خلاس عن عمرو ذکر کی ہے کہ انہوں نے ایسے شخص کے بارے میں جو اپنی بیوی کو اس کے حیض میں طلاق دے دے، فرمایا کہ اس کو کچھ نہیں سمجھا جائے گا، اس پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ہمام کے حافظے میں نقص تھا۔ دُوسرے، قتادہ مدلّس ہیں اور وہ ”عن“ کے ساتھ روایت کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کے مفہوم میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ اس کو یوں نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے سنت کے موافق طلاق دی ہے، جیسا کہ بعض کے نزدیک طلاق کو جمع کرنا خلافِ سنت نہیں۔ دُوسرا احتمال یہ ہے کہ اس طلاق کو طلاق ہی نہیں سمجھا جائے گا، مگر صحابہ میں جو اِجماع جاری تھا وہ پہلے احتمال کا موٴید ہے۔ اور خلاس ان لوگوں میں نہیں جو مسائل میں شذوذ کے ساتھ معروف ہوں اور ابنِ عبدالبر کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی ضمیریں اس حیض کی طرف راجع ہیں جس میں طلاق دی گئی، مطلب یہ ہے کہ اس حیض کو عورت کی عدّت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

          اور موٴلفِ رسالہ نے ابوالزبیر کی ”منکر“ روایت کی تائید کے لئے جامع ابنِ وہب کی مندرجہ ذیل روایت جو حضرت عمر سے مروی ہے، پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عمر کے بارے میں فرمایا:

          ”اس سے کہو کہ وہ اس سے رُجوع کرلے، پھر اسے روک رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہوجائے، اب اس کے بعد اگر چاہے تو اسے روک رکھے، اور اگر چاہے تو مقاربت سے پہلے اسے طلاق دے دے، یہ ہے وہ عدّت کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے عورت کو طلاق دینے کا حکم فرمایا ہے، اور یہ ایک طلاق ہوگی۔“

          یہ موٴلف کا فکری اختلال ہے، اور آگ سے بچ کر گرم پتھروں میں پناہ لینے کی کوشش ہے۔ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ”وھی واحدة“ (اور یہ ایک طلاق ہوچکی) زیرِ بحث مسئلے میں نصِ صریح ہے، جس سے جمہور کے دلائل میں مزید ایک دلیل کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ابنِ حزم اور ابنِ قیم اس سے جان چھڑانے کے لئے زیادہ سے زیادہ جو کوشش کرچکے ہیں وہ یہ کہ اس میں ”مدرج“ ہونے کا احتمال ہے، حالانکہ یہ دعویٰ قطعاً بے دلیل ہے۔ لیکن ہمارے خود ساختہ مجتہد صاحب نے اس ارشادِ نبوی سے جان چھڑانے کے لئے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے، جس سے اس کے خیال میں حدیث کا مفہوم اُلٹ کر اس کی دلیل بن جاتا ہے، اور وہ یہ کہ: ”وھی واحدة“ کی ضمیر کو مناسبتِ قرب کی بنا پر اس طلاق کی طرف راجع کیا جائے جو ”وان شاء طلق“ سے مفہوم ہوتی ہے، (مطلب یہ کہ حیض میں جو طلاق دی گئی اس سے تو رُجوع کرلے، یہ حیض گزر جائے، پھر اس کے بعد دُوسرا حیض گزر جائے، اب جو طلاق دی جائے گی اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ایک ہوگی)۔

          فرض کرلیجئے کہ ضمیر اسی کی طرف راجع ہے، اس سے قطع نظر کہ اس صورت میں یہ جملہ خالی از فائدہ ہوگا، اور اس سے بھی قطع نظر کہ جس طلاق کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت دے رہے تھے اس سے کلام کو پھیرنا لازم آتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے ابو الزبیر کی روایت کی کوئی ادنیٰ تائید کہاں سے نکلتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ ابنِ عمر نے اپنی بیوی کو بحالتِ حیض طلاق دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرت عمر کی زبانی حکم دیا کہ اس سے رُجوع کرلیں، آئندہ ان کو اختیار ہوگا، خواہ اس کو روک رکھیں یا طلاق دے دیں، اور یہ طلاق، جس کا وقوع اور عدمِ وقوع ابھی معلوم نہیں، ایک شمار ہوگی۔

          اب یہ طلاق جس کا وقوع خارج میں ابھی نامعلوم ہے اس کے بارے میں آخر کون کہتا ہے کہ وہ تین ہوں گی، جب وہ خارج میں واقع اور متحقق ہوگی تو قطعاً ایک ہی ہوگی، لیکن اس کا ایک ہونا کیا اس بات کے منافی ہے کہ اس سے قبل بھی عورت پر حقیقتاً طلاق ہوچکی ہے، جیسا کہ حدیث کے لفظ ”اس سے رُجوع کرلے“ سے خود معلوم ہوتا ہے۔

          غالباً جناب موٴلف وسعتِ علوم، خصوصاً خالص عربی لغت میں اس مقام پر فائز ہوچکے ہیں کہ انہیں نہ تو اہلِ علم سے سیکھنے کی ضرورت ہے، اور نہ اس کے مصادر تلاش کرنے کی حاجت ہے، یہاں تک کہ ان کے نزدیک جو واقعہ کہ وقوع پذیر ہوچکا ہے، اور جو چیز کہ اس کا وقوع محض فرض کیا جارہا ہے، یہ دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ یہ صرف موصوف ہی کی دریافت ہے کہ جس کو عدد کہا جاتا ہے وہ کبھی باعتبار اس کی ذات کے عدد ہوتا ہے، کبھی باعتبار اس کے مرتبہ کے، اور کبھی باعتبار اس کے آئندہ عدد بن جانے کے۔ حالانکہ یہ سب عجمی اعتبارات ہیں جو عربیت میں داخل کئے گئے، اس لئے اس کا ترک کرنا واجب ہے۔ اب اگر ”وھی واحدة“ میں ضمیر طلاقِ مفروض کی طرف راجع ہو تو اس جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ پہلی طلاق ہے، پس اس سے ابنِ حزم، ابنِ قیم اور جمہور کے خلاف حجت قائم ہوجائے گی؟ کیا اس قسم کے خود ساختہ مجتہدوں کو یہ مشورہ دینا مناسب نہ ہوگا کہ: برخوردار! تم ابھی بچے ہو، ایک طرف ہو رہو، کہیں ہجوم تمہیں روند نہ ڈالے۔

          اور ابنِ عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں صرف ایک طلاق دی تھی، جیسا کہ لیث کی روایت میں ہے، نیز ابنِ سیرین کی روایت میں بھی، جس پر خود موٴلف اعتماد کرتا ہے، اور اس بات کو احمقانہ قرار دیتا ہے جو بعض لوگوں سے بیس سال تک سنتا اور اسے صحیح سمجھتا رہا کہ ابنِ عمر نے اس حالت میں تین طلاقیں دی تھیں۔ اِمام مسلم نے لیث اور ابنِ سیرین کی دونوں روایتیں اپنی صحیح میں تخریج کی ہیں۔

          علاوہ ازیں طلاق بحالتِ حیض کو باطل قرار دینے کے معنی یہ ہوں گے کہ طلاق عورت کے ہاتھ میں دے دی جائے، کیونکہ حیض اور طہر کا علم عورت ہی کی جانب سے ہوسکتا ہے، پس جب کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور عورت نے کہہ دیا کہ وہ تو حیض کی حالت میں تھی تو آدمی بار بار طلاق دیتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اعتراف کرے کہ طلاق طہر میں ہوئی ہے، یا آدمی تھک ہار کر رہ جائے اور غیرشرعی طور پر اسے گھر میں ڈالے رکھے، حالانکہ اسے علم ہے کہ وہ تین طہروں میں الگ الگ تین طلاقیں دے چکا ہے، اور اس سے جو مفاسد لازم آتے ہیں وہ کسی فہیم آدمی پر مخفی نہیں، اس بحث میں موٴلف کے من گھڑت نظریات کی تردید کے لئے غالباً اسی قدر بیان کافی ہے۔

۴:… ایک لفظ سے تین طلاق دینے کا حکم

          موٴلف لکھتے ہیں:

          ”عام لوگوں کا خیال ہے اور یہی بات ان جمہور علماء کے اقوال سے مفہوم ہوتی ہے جنھوں نے اس بحث سے تعرض کیا ہے کہ تین طلاق سے مراد یہ ہے کہ کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ : ”تجھے تین طلاق“ وہ سمجھتے ہیں کہ متقدمین کے درمیان تین طلاقوں کے وقوع یا عدمِ وقوع میں جو اختلاف تھا وہ بس اسی لفظ میں یا اس کے ہم معنی الفاظ میں تھا، بلکہ یہ لوگ ان تمام احادیث و اخبار کو، جن میں تین طلاقوں کا ذکر آیا ہے، اسی پر محمول کرتے ہیں، حالانکہ یہ محض غلط اور عربی وضع کو تبدیل کرنا اور لفظ کے صحیح اور قابلِ فہم استعمال کے بجائے ایک باطل اور ناقابلِ فہم استعمال کی طرف عدول کرنا ہے۔ پھر یہ لوگ ایک قدم اور آگے بڑھے اور انہوں نے لفظ ”البتہ“ سے تین طلاق واقع کردیں، جبکہ طلاق دہندہ نے تین کی نیت کی ہو۔ حالانکہ ”تجھے تین طلاق“ کا لفظ ہی محال ہے، یہ نہ صرف الفاظ کا کھیل ہے، بلکہ عقول و افکار سے کھیلنا ہے۔ یہ بات قطعاً غیرمعقول ہے کہ بلفظ واحد تین طلاق دینے کا مسئلہ اَئمہ تابعین اور ان کے مابعد کے درمیان محلِ اختلاف رہا ہو، جبکہ صحابہ اسے پہچانتے تک نہ تھے، اور ان میں سے کسی نے اس کو لوگوں پر نافذ نہیں کیا، کیونکہ وہ اہلِ لغت تھے، اور فطرتِ سلیمہ کی بنا پر لغت میں محقق تھے۔ انہوں نے صرف ایسی تین طلاقوں کو نافذ قرار دیا جو تکرار کے ساتھ ہوں، اور یہ بات مجھے بیس سال پہلے معلوم ہوئی، اور میں نے اس میں تحقیق کی، اور اب میں اس میں اپنے تمام پیشرو بحث کرنے والوں سے اختلاف کرتا ہوں اور یہ قرار دیتا ہوں کہ کسی شخص کے ”تجھے تین طلاق“ جیسے الفاظ کہنے سے صرف ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے، الفاظ کے معنی پر دلالت کے اعتبار سے بھی، اور بداہتِ عقل کے اعتبار سے بھی۔ اور اس فقرے میں ”تین“ کا لفظ انشاء اور ایقاع میں عقلاً محال اور لغت کے لحاظ سے باطل ہے، اس لئے یہ محض لغو ہے۔ جس جملے میں یہ لفظ رکھا گیا ہے اس میں کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا، اور میں یہ بھی قرار دیتا ہوں کہ تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا تین طلاق کے مسئلے میں جو اختلاف ہے وہ صرف اس صورت میں ہے جبکہ تین طلاقیں یکے بعد دیگرے دی گئی ہوں، اور عقود، معنوی حقائق ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ ان کو الفاظ کے ذریعے وجود میں لایا جائے۔ پس ”تجھے طلاق“ کے لفظ سے ایک حقیقتِ معنویہ وجود میں آتی ہے اور وہ ہے طلاق۔ اور جب اس لفظ سے طلاق واقع ہوگئی تو اس کے بعد ”تین“ کا لفظ بولنا محض لغو ہوگا۔ جیسا کہ ”میں نے فروخت کیا“ کے بعد کوئی بیع کی ایجاد و انشاء کے قصد سے ”تین“ کا لفظ بولے تو یہ محض لغو ہوگا، اور یہ جو کچھ ہم نے کہا ہے یہ بالکل بدیہی ہے، ایک ایسا شخص جس نے معنی میں غور و فکر اور تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہو بشرطِ انصاف اس میں چوں چرا نہیں کرسکتا۔“

                                       (ص:۴۴ تا ۴۹ متفرقاً)

          یہ وہ نکتہ ہے جو موٴلف نے تین طلاق کے بارے میں اپنے رسالے میں کئی جگہ لکھا ہے، اور اگر تم ان تمام باتوں کو دلیل و حجت کا مطالبہ کئے بغیر قبول نہیں کروگے تو موٴلف کی بارگاہ میں ”غیرمنصف“ ٹھہروگے۔

          فقہ اور اسلام کی زبوں حالی کا ماتم کرو کہ دِین کے معاملے میں ایسا برخود غلط آدمی ایسی جسارت سے بات کرتا ہے، اور وہ بھی اس پاکیزہ ملک میں جو عالَمِ اسلام کا قبلہٴ علم ہے، اس کے باوجود اس کی گوش مالی نہیں کی جاتی۔

          موٴلف تین طلاق کے مسئلے میں صحابہ و تابعین کے درمیان اختلاف کا تخیل پیش کرتا ہے، جبکہ اس کے نہاں خانہٴ خیال کے سوا اس اختلاف کا کوئی وجود نہیں، اور نہ ”تجھے تین طلاق“ کے لفظ سے طلاق دینا صحابہ و تابعین کے لئے کوئی غیرمعروف چیز تھی، بلکہ اس کو صحابہ بھی جانتے تھے، اور تابعین بھی، اور عرب بھی۔ ہاں! اس سے اگر جاہل ہے تو ہمارا یہ خود رو مجتہد۔ اور اس کا یہ کہنا کہ یہ نکتہ اسے بیس سال قبل معلوم ہوا تھا، بتاتا ہے کہ عقلی اختلال بچپن ہی سے اس کے شاملِ حال تھا، اس سلسلے میں خبر و انشاء اور طلبی و غیرطلبی کے درمیان کسی نے فرق نہیں کیا، بلکہ فقہائے اُمت نے ”تجھے تین طلاق“ کے لفظ کو بینونتِ کبریٰ میں نص شمار کیا ہے، بخلاف لفظ ”البتہ“ کے، جس کے بارے میں عمر بن عبدالعزیز کا قول مشہور ہے (کہ اس سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں، جیسا کہ آگے آتا ہے)، اور فقہاء نے ”البتہ“ جیسے الفاظ میں جو کہا ہے کہ: ”اگر اس سے تین طلاق کی نیت کی ہو تو تین واقع ہوجاتی ہیں“ وہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تین طلاقیں بیک بار واقع ہوسکتی ہیں۔

          ہمارے قول کے دلائلِ ظاہرہ میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے بیہقی نے سنن میں اور طبرانی وغیرہ نے بروایت ابراہیم بن عبدالاعلیٰ سوید بن غفلہ سے تخریج کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ عائشہ بنت فضل، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں، جب ان سے بیعتِ خلافت ہوئی تو اس بی بی نے انہیں مبارک باد دی، حضرت حسن نے فرمایا: ”تم امیرالموٴمنین (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کے قتل پر اظہارِ مسرت کرتی ہو؟ تجھے تین طلاق ۔“ اور اسے دس ہزار کا عطیہ (متعہ) دے کر فارغ کردیا۔ اس کے بعد فرمایا: ”اگر میں نے اپنا نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ سنی ہوتی ․․․ یا یہ فرمایا کہ: اگر میں نے اپنے والد ماجد سے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہ سنی ہوتی ․․․ کہ آپ نے فرمایا: ”جب آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں، خواہ الگ الگ طہروں میں دی ہوں، یا تین طلاقیں مبہم دی ہوں تو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں رہتی یہاں تک کہ وہ دُوسری جگہ نکاح کرے“ تو میں اس سے رُجوع کرلیتا۔“ حافظ ابنِ رجب حنبلی اپنی کتاب ”بیان مشکل الأحادیث الواردة فی ان الطّلاق الثلاث واحدة“ میں اس حدیث کو سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔

          حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو جو خط لکھا تھا، اس میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ: ”جس شخص نے اپنی بیوی سے کہا: ”تجھے تین طلاق“ تو یہ تین ہی شمار ہوں گی۔“ اس کو ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

          اِمام محمد بن حسن ”کتاب الآثار“ میں اپنی سند کے ساتھ حضرت ابراہیم بن یزید نخعی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں، جو ایک طلاق دے کر تین کی یا تین طلاق دے کر ایک کی نیت کرے، فرمایا کہ: ”اگر اس نے ایک طلاق کہی تو ایک ہوگی اور اس کی نیت کا کچھ اعتبار نہیں، اور اگر تین طلاق کہی تھیں تو تین واقع ہوں گی، اور اس کی نیت کا اعتبار نہیں۔“ اِمام محمد فرماتے ہیں: ”ہم اسی کو لیتے ہیں اور یہی اِمام ابوحنیفہ کا قول ہے۔“

          حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا، جیسا کہ موٴطا میں ہے کہ: ”طلاق ایک ہزار ہوتی تب بھی ”البتہ“ کا لفظ ان میں سے کچھ نہ چھوڑتا۔ جس نے ”البتہ“ طلاق دے دی اس نے آخری نشانے پر تیر پھینک دیا۔“ یہ ان کی رائے لفظ ”البتہ“ کے بارے میں ہے چہ جائیکہ ”تین طلاق“ کا لفظ ہو۔

          اِمام شافعی ”کتاب الاُم“ (ج:۵ ص:۲۴۷) میں فرماتے ہیں کہ: ”اگر کسی نے اپنی کسی بیوی کو آتے ہوئے دیکھ کر کہا: ”تجھے تین طلاق“ اور پھر اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کے بارے میں کہا کہ یہ مراد تھی، تو اسی پر طلاق واقع ہوگی۔“

          عربی شاعر کہتا ہے: ”وأُمّ عمرو طالق ثلاثا“ (اُمِّ عمرو کو تین طلاق) یہ شاعر اپنے حریف سے مقابلہ کر رہا تھا، اسے ”ثا“ کا کوئی اور قافیہ نہیں ملا، تو اس نے بیوی کو طلاق دیتے ہوئے یہی مصرعہ جڑ دیا۔

          ایک اور عربی شاعر کہتا ہے:

وأنت طالق والطّلاق عزیمة

ثلاث ومن یخرق أعق وأظلم

فبینی بھا ان کنتِ غیر رفیقة

وما لأمریٴ بعد الثلاث تندم

          ترجمہ:… ”اور تجھے تین طلاق، اور طلاق کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں، اور جو موافقت نہ کرے وہ سب سے بڑا ظالم اور قطع تعلق کرنے والا ہے، لہٰذا اگر تو رفاقت نہیں چاہتی تو تین طلاق لے کر الگ ہوجا، اور تین کے بعد تو آدمی کے لئے اظہارِ ندامت کا موقع بھی نہیں رہتا۔“

          اِمام محمد بن حسن سے اِمام کسائی  نے اس شعر کا مطلب اور حکم دریافت کیا تھا، آپ نے جو جواب دیا اِمام کسائی  نے اسے بے حد پسند فرمایا، جیسا کہ شمس الائمہ سرخسی کی ”المبسوط“ میں ہے، اور نحویوں نے اس شعر کے وجوہِ اِعراب پر طویل کلام کیا ہے۔

          کسی ہوسناک کا یہ مقدور نہیں کہ وہ اَئمہ نحو و عربیت کے کسی اِمام سے کوئی ایسی بات نقل کرسکے جو تین طلاق بلفظ واحد دینے کے منافی ہو۔ سیبویہ کی ”الکتاب“، ابوعلی فارسی کی ”ایضاح“، ابنِ جنی کی ”خصائص“، ابنِ یعیش کی ”شرح مفصل“ اور ابوحیان کی ”ارتشاف“ وغیرہ اُمہاتِ کتب لو اور جتنا چاہو انہیں چھان مارو، مگر تمہیں ان میں ایک لفظ بھی ہمارے دعویٰ کے خلاف نہیں ملے گا۔ ارے خود رو مجتہد! تو یہ دعویٰ کیسے کرتا ہے کہ ”تین طلاق بلفظ واحد کو نہ صحابہ جانتے تھے، نہ تابعین، نہ فقہاء، نہ عرب۔ ان کے یہاں تین طلاق دینے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ طلاق کا لفظ تین بار دہرادیا جائے“ یہ سب صحابہ و تابعین، تبع تابعین، فقہائے دِین، عرب اور علومِ عربیہ پر افترا ہے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اسے نواسہٴ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ جو صحابی ہیں وہ بھی جانتے تھے، ان کے والد اور ان کے نانا (علیہم السلام) بھی جانتے تھے، اس کو حضرت عمر اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما جانتے تھے، ابراہیم نخعی جانتے تھے، جن کے بارے میں اِمام شعبی فرماتے ہیں کہ: ”ابراہیم نے اپنے بعد اپنے سے بڑا عالم نہیں چھوڑا، نہ حسن بصری، نہ ابنِ سیرین، نہ اہلِ بصرہ میں، نہ اہلِ کوفہ میں، اور نہ اہلِ حجاز اور شام میں۔“ اور جن کے بارے میں ابنِ عبدالبر نے ”التمہید“ میں ان کی مرسل احادیث کے حجت ہونے کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ قابلِ دید ہے۔

          اور اس کو حضرت عمر بن عبدالعزیز بھی جانتے تھے، اور عمر بن عبدالعزیز، عمر بن عبدالعزیز ہیں، اور اس کو اِمام ابوحنیفہ جانتے تھے، وہ اِمامِ یکتا جو علومِ عربیہ کی گود میں پلا اور پھلا پھولا، اس کو اِمام محمد بن حسن جانتے تھے، جن کے بارے میں موافق و مخالف متفق اللفظ ہیں کہ وہ عربیت میں حجت تھے، اس کو اِمام شافعی جانتے تھے، وہ اِمام قرشی جو اَئمہ کے درمیان یکتا تھے، ان دونوں سے پہلے عالم دار الہجرت اِمام مالک بھی اس کو جانتے تھے، اس کو یہ عربی شاعر اور وہ عربی شاعر بھی جانتا تھا، کیا اس بیان کے بعد موٴلف کی پیشانی ندامت سے عرق آلود ہوگی؟ اور اس کے یقین میں کوئی تبدیلی واقع ہوگی․․․؟

          اور انشاء میں عدد کو لغو قرار دینا شاید ایک خواب تھا جو موٴلف نے دیکھا اور وہ اس پر اَحکام کی بنیاد رکھنے لگا، اور عدد کو لغو ٹھہرانے کی بات اگر موٴلف کو حاذق اُصولییّن کے ایک گروہ کے اس قول سے سوجھی ہے کہ ”عدد کا مفہوم نہیں ہوتا“ اور اس سے موٴلف نے یہ سمجھ لیا ہو کہ جس کا مفہوم نہیں ہوتا وہ لغو ہوتی ہے، تو یہ ایک ایسا انکشاف ہے جس میں کوئی شخص موصوف کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اس قسم کی سوجھ سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔

          ہبہ کرنے والا، عاریت دینے والا، طلاق دہندہ، بیع کنندہ اور آزاد کرنے والا یہ سب لوگ انشاء میں جتنے عدد چاہیں واقع کرسکتے ہیں، مثلاً: ہبہ کرنے والا کہتا ہے کہ: ”میں نے یہ غلام فلاں شخص کو ہبہ کردئیے“ تو یہ ہبہ سارے غلاموں پر واقع ہوگا۔ طلاق دینے والا اپنی چاروں بیویوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ: ”تم کو طلاق“ تو ان میں سے ہر ایک پر طلاق واقع ہوجائے گی، جیسا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کیا تھا۔ بائع یا عاریت دینے والا یا غلاموں کو آزاد کرنے والا کہتا ہے کہ: ”میں نے یہ مکان فروخت کئے“، ”میں نے یہ مکاں فلاں کو عاریت پر دئیے“، ”میں نے ان غلاموں کو آزاد کردیا“ ان میں سے ہر ایک کے لئے لفظِ واحد کافی ہے، تکرارِ لفظ کی حاجت نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ مصدر جس کو یہ انشائی افعال متضمن ہیں اگر ہم مفعولِ مطلق کے ذریعے اس کا افادہ کرنا چاہتے تو ایسا عدد ذکر کرنا پڑتا جو ان غلاموں کی، ان عورتوں کی اور ان مکانوں کی تعداد کے مطابق ہوتا، مگر ان مثالوں میں مفعول کو ذکر کرنے کے بعد مفعولِ مطلق عددی کے ذکر کی حاجت نہیں رہی۔ اور مرد کا اپنی بیوی کی تین طلاق کا مالک ہونا اسے صرف شرع سے حاصل ہوا ہے، کسی خاص لغت سے اس کا کوئی علاقہ نہیں، بلکہ ساری لغات اس میں برابر ہیں۔ لہٰذا موٴلفِ رسالہ کا یہ کہنا کہ: ”أنت طالق ثلاثًا، کے لفظ سے طلاق دینا از رُوئے لغت باطل ہے، اور جو لوگ اس لفظ کو بولتے ہیں یہ ان کے کلام میں محض عجمیت کی وجہ سے داخل ہوا“ یہ ایک بے معنی اور بے مقصد بات ہے، یہ بات اس صورت میں بامعنی ہوسکتی تھی اگر مسلمانوں کی شرع کے خلاف عجمیوں کی شرع میں آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینے کا مجاز ہوتا، حالانکہ مسلمانوں کی شرع نے ہی آدمی کو تین طلاقوں کا اختیار دیا ہے، خواہ بیک وقت دے یا متفرق کرکے، ہماری بحث شرعِ اسلام کے سوا کسی اور شرع میں نہیں ہے، نہ مسلمان بھائیوں کی طلاق کے سوا کسی اور مذہب و ملت کے لوگوں کی طلاق کے بارے میں گفتگو ہے، خواہ وہ کسی عنصر سے ہوں۔

          پس مسلمان جب اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو یا تو خلافِ سنت تین طلاق بلفظ واحد طہر میں یا حیض میں دے گا، یا سنت کے مطابق تین طلاقیں تین الگ الگ طہروں میں دے گا۔ طلاق خواہ کسی لغت میں ہو، عربی میں ہو، یا فارسی میں، ہندی میں ہو یا حبشی زبان میں، ان لغات کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ بہرحال جب آدمی طلاق دینا چاہے تو پہلے ایک یا دو یا تین کا ارادہ کرے گا، پھر ایسا لفظ ذکر کرے گا جو اس کی مراد کو ادا کرسکے، لہٰذا وہی طلاق واقع ہوجائے گی جس کا اس نے ارادہ کیا ہے، خواہ ایک کا، خواہ دو کا، خواہ تین کا، پس انشاء کا لفظ اس کے ارادے کے مطابق ہوا۔

          اور انشاء میں عدد کے لغو ہونے کا دعویٰ ان دعاوی میں سے ہے جن کی اولاد بے نسب ہے، کیونکہ پہلے واضح ہوچکا ہے کہ جب ضرورت پیش آئے تو مفعولِ مطلق عددی کو فعل کے بعد ذکر کیا جاسکتا ہے، اور اس میں خبر و انشاء اور طلبی و غیرطلبی کا کوئی فرق نہیں ہے، نہ لغت کے اعتبار سے، نہ نحو کے لحاظ سے، کیونکہ اس میں اختیار صرف شرع کے سپرد ہے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔

          اور جہاں نص موجود ہو وہاں قیاس کے گھوڑے دوڑانا ایک احمقانہ حرکت ہے۔ علاوہ ازیں تسبیح و تحمید، تہلیل و تکبیر اور تلاوت و صلوٰة وغیرہ عبادات ہیں، جن میں اجر بقدرِ مشقت ہے، اور اقرارِ زنا، حلف، لعان اور قسامت میں عدد تاکید کے لئے ہے، اور یہ منصوص تعداد کے ادا کرنے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، بخلاف ہمارے زیرِ بحث مسئلے کے کہ طلاق نہ تو عبادت ہے، نہ اس میں عدد تاکید کے لئے ہے کہ اسے اِس پر یا اُس پر قیاس کیا جائے۔ دیکھئے! ایک عدد وہ ہے جس کے اقل پر اکتفا کیا جاسکتا ہے (مثلاً: طلاق)، اور ایک وہ ہے جس میں اقل پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا (مثلاً: اقرارِ زنا، حلف، لعان اور قسامت)، آخر اوّل الذکر کو موٴخر الذکر پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے؟ اور وجہ فرق کے باوجود قیاس کرنا اور بھی احمقانہ بات ہے۔

          محمود بن لبید کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے دی تھیں، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوئے، اس کے بارے میں موٴلف لکھتے ہیں: ”میرا غالب گمان یہ ہے کہ یہ رکانہ ہی تھے“، ارے میاں! ہمیں اپنے ”غالب گمان“ سے معاف رکھو، جب تمہارا یقین بھی سراسر غلط ہے، تو ”غالب گمان“ کا کیا پوچھنا؟ اور محمود بن لبید کی حدیث برتقدیرِ صحت، اہلِ استنباط کے نزدیک کسی طرح بھی عدمِ وقوع پر دلالت نہیں کرتی، البتہ گناہ پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس میں بھی اِمام شافعی اور ابنِ حزم کی رائے مختلف ہے، مگر ہم گناہ ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، بلکہ ابوبکر بن عربی نے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر تین طلاقیں نافذ کردی تھیں، اور توسع فی الروایات میں ابنِ عربی کا جو پایہ ہے وہ اہلِ علم کو معلوم ہے، اور حافظ ابنِ حجر کو ہر چیز میں ہر قسم کے اقوال نقل کردینے کا عجیب شغف ہے، وہ ایک کتاب میں تحقیق قلم بند کرتے ہیں اور دُوسری کتاب میں کلام کو بے تحقیق چھوڑ جاتے ہیں، اور یہ ان کی کتابوں کا عیب شمار کیا گیا ہے، محمود بن لبید کے بارے میں ان کے اقوال کا اختلاف بھی اسی قبیل سے ہے، تحقیق یہ ہے کہ محمود بن لبید کو سماع حاصل نہیں، جیسا کہ فتح الباری میں ہے، اور یہ کتاب ان کی پسندیدہ کتابوں میں ہے، بخلاف اصابہ کے، اور اصابہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ مسند کے بعض نسخوں کی نقل ہے اور مسند ہر چیز میں محلِ اعتماد نہیں، جبکہ ابن المذہب اور قطیعی جیسے حضرات اس کی روایت میں منفرد ہوں۔

          اور رکانہ کے تین طلاق دینے میں ابنِ اسحاق کی جو روایت مسند میں ہے اس پر بحث آگے آئے گی، اور جب سند سامنے موجود ہے تو ضیاء کی تصحیح کیا کام دے سکتی ہے؟ ضیاء تو حدیث خنصر جیسی روایات کی بھی تصحیح کرجاتے ہیں، بعض غلوّ پسند حضرات مسندِ احمد میں جو کچھ بھی ہے سب کو صحیح قرار دیتے ہیں، اور ہم ”خصائص مسند“ کی تعلیقات میں حافظ ابنِ طولون سے اس نظریے کی غلطی نقل کرچکے ہیں، لہٰذا ان لوگوں کو تو رہنے دو اور حدیثِ رکانہ پر آئندہ بحث میں گفتگو کا انتظار کرو۔

          اور ”تین طلاقیں بہ لفظِ واحد واقع ہوجاتی ہیں“ اس کی ایک دلیل حدیثِ لعان ہے، جس کی تخریج صحیح بخاری میں ہوئی ہے: ”عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے مجلسِ لعان میں کہا کہ: یا رسول اللہ! اگر میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی، پس انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اس کو تین طلاق دے دیں۔“ اور کسی روایت میں یہ نہیں آتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر فرمائی ہو، پس یہ تین طلاق بیک لفظ واقع ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ لوگ تین طلاق کا بلفظِ واحد واقع ہونا سمجھتے رہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اصلاح نہ فرمائیں، اگر یہ سمجھنا صحیح نہ تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح ضرور فرماتے۔ اس حدیث سے تمام اُمت نے یہی سمجھا ہے (کہ تین طلاقیں بلفظِ واحد واقع ہوجاتی ہیں) حتیٰ کہ ابنِ حزم نے بھی یہی سمجھا ہے، وہ لکھتے ہیں: ”عویمر نے اس عورت کو یہ سمجھ کر طلاق دی کہ وہ ان کی بیوی ہے، اگر تین طلاق بیک وقت واقع نہیں ہوسکتی تھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ضرور نکیر فرماتے۔“ اور اِمام بخاری نے بھی اس حدیث سے وہی سمجھا ہے جو پوری اُمت نے سمجھا، چنانچہ انہوں نے ”باب من اجاز طلاق الثلاث“ کے تحت پہلے یہی حدیث نقل کی ہے، اس کے بعد ”حدیثِ عسیلہ“ اور پھر حضرت عائشہ کی حدیث اس شخص کے بارے میں جو تین طلاقیں دے۔ ”جواز“ سے ان کی مراد یہ ہے کہ تین طلاق جمع کرنے میں گناہ نہیں، جیسا کہ اِمام شافعی اور ابنِ حزم کی رائے ہے۔ مگر جمہور کا مذہب یہ ہے کہ تین طلاق بیک وقت واقع کرنے میں گناہ ہے، جیسا کہ ابنِ عبدالبر نے ”الاستذکار“ میں خوب تفصیل سے لکھا ہے، اور ہم یہاں اس مسئلے کی تحقیق کے درپے نہیں۔ اِمام بخاری کا یہ مطلب نہیں کہ تین طلاق کے بہ لفظِ واحد واقع ہونے میں کوئی اختلاف ہے، اس لئے یہ مفہوم اِمام بخاری کے الفاظ کے خلاف ہونے کے علاوہ حق کے بھی خلاف ہے، اس لئے کہ تین طلاقوں کا بیک وقت واقع ہوجانا ان تمام حضرات کا متفق علیہ مسئلہ ہے جن کا قول لائقِ اعتبار ہے، جیسا کہ ابن التین نے کہا ہے۔ اختلاف اگر نقل کیا گیا ہے تو صرف کسی غلط رو سے، یا ایسے شخص سے جس کا اختلاف کسی شمار میں نہیں۔ ابنِ حجر کو یہاں بھول ہوئی ہے، اس لئے انہوں نے اِمام بخاری کے الفاظ کا اس مفہوم کو شامل ہونا بھی تجویز کیا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ انہوں نے ابنِ مغیث جیسے لوگوں پر اعتماد کرلیا، حالانکہ کسی محدث کے لئے ایسے شخص پر اعتماد کرنا صحیح نہیں، جب تک کہ قابلِ اعتماد راویوں کی سند سے اختلاف نقل نہ کیا جائے، اس بحث کا اس کے موقع پر انتظار کیجئے۔

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، فقہائے صحابہ سے، تابعین سے اور بعد کے حضرات سے بہت احادیث منقول ہیں، جن میں ذکر کیا گیا ہے کہ کسی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دی، کسی نے سو طلاق دیں، کسی نے ننانوے، کسی نے آٹھ، کسی نے آسمان کے ستاروں کی تعداد میں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ روایات موٴطا اِمام مالک، مصنف ابنِ ابی شیبہ اور سننِ بیہقی وغیرہ میں مروی ہیں۔ یہ تمام احادیث اس مسئلے کی دلیل ہیں کہ ”تین طلاق بلفظِ واحد“ واقع ہوجاتی ہیں، کیونکہ یہ بات بہت ہی بعید ہے کہ صحابہ کرام میں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہو جو یہ نہ جانتا ہو کہ طلاق کی تعداد صرف تین تک ہے، یہاں تک کہ وہ یکے بعد دیگرے ہزار، سو، یا ننانوے مرتبہ طلاق دیتا چلا جائے، اور اس طویل مدّت میں فقہائے صحابہ میں سے کوئی بھی اسے یہ نہ بتائے کہ بندہٴ خدا! طلاق کی آخری حد بس تین ہے۔ صحابہ کرام کے بارے میں اس فروگزاشت کا تصوّر بھی محال ہے، لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ طلاق دیتے وقت طلاق دہندگان کے الفاظ تھے، یعنی ایک شخص کہتا: ”تجھے ہزار طلاق“، دُوسرا کہتا: ”تجھے سو طلاقیں“، تیسرا کہتا: ”تجھے ننانوے طلاقیں“ ان تمام الفاظ سے طلاق دینے والوں کا مقصد ایسی طلاق واقع کرنا تھا جس سے بینونتِ کبریٰ حاصل ہوجائے، اور یہ ایسی کھلی بات ہے کہ اس میں کسی طرح بھی شغب کی گنجائش نہیں۔

          یحییٰ لیثی اِمام مالک سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ: میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: تین طلاقیں اس پر واقع ہوگئیں اور ستانوے طلاقوں کے ساتھ تو نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق بنایا۔ ”التمہید“ میں ابنِ عبدالبر نے اس کو سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

          ابنِ حزم بھی بطریق عبدالرزّاق، عن سفیان الثوری، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سے زید بن وہب نے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص کا مقدمہ پیش ہوا جس نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دی تھیں، حضرت عمر نے اس سے دریافت فرمایا کہ: کیا واقعی تو نے طلاق دی ہے؟ وہ بولا کہ: میں تو ہنسی مذاق کرتا تھا۔ آپ نے اس پر دُرّہ اُٹھایا اور فرمایا: ”تجھ کو ان میں سے تین کافی تھیں۔“ سننِ بیہقی میں بھی بطریق شعبہ اس کی مثل روایت ہے۔

          نیز ابنِ حزم بطریق وکیع، عن جعفر بن برقان، معاویہ بن ابی یحییٰ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ: میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہے، فرمایا: ”وہ تین طلاق کے ساتھ تجھ سے بائنہ ہوگئی۔“

          نیز بطریق عبدالرزّاق عن الثوری، عن عمرو بن مرة عن سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے ایک شخص سے جس نے ہزار طلاق دی تھی، فرمایا: ”تین طلاق اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں، باقی طلاقیں تجھ پر جھوٹ لکھی جائیں گی، جن کے ساتھ تو نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنایا۔“ سننِ بیہقی میں بھی اس کی مثل ہے۔

          نیز ابنِ حزم بطریق وکیع، عن الاعمش عن حبیب بن ابی ثابت حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس شخص کو جس نے ہزار طلاق دی تھیں، فرمایا: ”تین طلاقیں اسے تجھ پر حرام کردیتی ہیں ․․․․․ الخ“ اس کی مثل سننِ بیہقی میں بھی ہے۔

          طبرانی حضرت عبادہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں، جس نے ہزار طلاقیں دیں، فرمایا کہ: ”تین کا تو اسے حق حاصل ہے، باقی ۹۹۷ عدوان اور ظلم ہے، اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس پر گرفت فرمائیں اور چاہیں تو معاف کردیں۔“

          مسندِ عبدالرزّاق میں جد عبادہ سے اس کی مثل روایت ہے، مگر عبدالرزّاق کی روایت میں علل ہیں۔

          بیہقی بطریق شعبہ، عن ابی نجیح، عن مجاہد روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا:

          ”تو نے اپنے رَبّ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے بائنہ ہوگئی، تو نے اللہ سے خوف نہیں کیا، کہ اللہ تعالیٰ تیرے لئے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کردیتا۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی: یٰٓأَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ۔“                             (الطّلاق:۱)

          نیز بیہقی بطریق شعبہ، عن الاعمش، عن مسروق، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس شخص سے، جس نے سو طلاقیں دے تھیں، فرمایا: ”وہ تین کے ساتھ بائنہ ہوگئی اور باقی طلاقیں عدوان ہیں۔“

          ابنِ حزم بطریق عبدالرزّاق، عن معمر، عن الاعمش، عن ابراہیم، عن علقمہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ایک شخص نے ننانوے طلاقیں دی تھیں، آپ نے اس سے فرمایا کہ: ”وہ تین کے ساتھ بائنہ ہوگئی، باقی طلاقیں عدوان ہیں۔“

          نیز ابنِ حزم بطریق وکیع، عن اسماعیل ابن ابی خالد، اِمام شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے قاضی شریح سے کہا کہ: میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں، شریح نے فرمایا کہ: ”وہ تجھ سے تین کے ساتھ بائنہ ہوگئی اور ستانوے طلاقیں اسراف اور معصیت ہیں۔“ حضرت علی، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہم سے بہ سندِ صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے لفظ ”حرام“ اور لفظ ”البتہ“ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے ”تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں“ جیسا کہ ابنِ حزم کی المحلّٰی اور باجی کی ”المنتقیٰ“ اور دیگر کتب میں ہے، اور یہ تین طلاقوں کو بلفظِ واحد جمع کرنا ہے۔

          بیہقی، مسلمہ بن جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص جہالت سے تین طلاقیں دے دے انہیں سنت کی طرف لوٹایا جائے گا، اور وہ تین طلاقوں کو ایک ہی سمجھتے ہیں اور آپ لوگوں سے اس بات کو روایت کرتے ہیں، فرمایا: ”خدا کی پناہ! یہ ہمارا قول نہیں، بلکہ جس نے تین طلاقیں دیں وہ تین ہی ہوں گی۔“

          مجموع فقہی (مسندِ زید) میں زید بن علی عن ابیہ عن جدہ کی سند سے حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ: قریش کے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین کے ساتھ اس سے بائنہ ہوگئی، اور ستانوے طلاقیں اس کی گردن میں معصیت ہیں۔“

          اِمام مالک، اِمام شافعی اور اِمام بیہقی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ایک طلاق عورت کو بائنہ کردیتی ہے، تین طلاقیں اسے حرام کردیتی ہیں، یہاں تک کہ وہ دُوسری جگہ نکاح کرے۔“ اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے اس بدوی شخص کے بارے میں جس نے دُخول سے قبل اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں ایسا ہی فرمایا، اور اس کی مثل حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

          عبدالرزّاق اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ایک شخص نے ننانوے طلاقیں دیں، آپ نے فرمایا: ”تین طلاقیں عورت کو بائنہ کردیں گی اور باقی عدوان ہے۔“

          اِمام محمد بن حسن ”کتاب الآثار“ میں فرماتے ہیں کہ: ہم کو اِمام ابوحنیفہ نے خبر دی بروایت عبداللہ بن عبدالرحمن ابن ابی حسن عن عمرو بن دینار عن عطاء کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ: میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، فرمایا: ”ایک شخص جاکر گندگی میں لت پت ہوجاتا ہے، پھر ہمارے پاس آجاتا ہے، جا! تو نے اپنے رَبّ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی، وہ اب تیرے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی دُوسرے شوہر سے نکاح کرے۔“ اِمام محمد فرماتے ہیں: ”ہم اسی کو لیتے ہیں، اور یہی اِمام ابوحنیفہ کا اور عام علماء کا قول ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔“

          نیز اِمام محمد بن حسن بروایت اِمام ابوحنیفہ، عن حماد، حضرت ابراہیم نخعی سے نقل کرتے ہیں کہ: جس شخص نے ایک طلاق دی، مگر اس کی نیت تین طلاق کی تھی، یا تین طلاقیں دیں مگر نیت ایک کی تھی، فرمایا کہ: ”اگر اس نے ایک کا لفظ کہا تو ایک طلاق ہوگی، اس کی نیت کوئی چیز نہیں، اور اگر تین کا لفظ کہا تو تین ہوں گی، اور اس کی نیت کوئی چیز نہیں۔“ اِمام محمد فرماتے ہیں: ”ہم ان سب کو لیتے ہیں اور یہی اِمام ابوحنیفہ کا قول ہے۔“

          حسین بن علی کرابیسی ”ادب القضا“ میں بطریق علی بن عبداللہ (ابن المدینی) عن عبدالرزّاق عن معمر بن طاوٴس سے حضرت طاوٴس (تابعی) کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ: جو شخص تمہیں طاوٴس کے بارے میں یہ بتائے کہ وہ تین طلاق کے ایک ہونے کی روایت کرتے تھے، اسے جھوٹا سمجھو۔

          ابنِ جریج کہتے ہیں کہ: میں نے عطاء (تابعی) سے کہا کہ: آپ نے ابنِ عباس سے یہ بات سنی ہے کہ ِبکر (یعنی وہ عورت جس کی شادی کے بعد ابھی خانہ آبادی نہ ہوئی ہو) کی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہیں؟ فرمایا: ”مجھے تو ان کی یہ بات نہیں پہنچی“ اور عطاء، ابنِ عباس کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔

          ابوبکر جصاص رازی اَحکام القرآن میں آیات و احادیث اور اقوالِ سلف سے تین طلاق کے وقوع کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ”پس کتاب و سنت اور اجماعِ سلف تین طلاق بیک وقت کے وقوع کو ثابت کرتے ہیں، اس طرح طلاق دینا معصیت ہے۔“

          ابوالولید الباجی ”المنتقیٰ“ میں فرماتے ہیں: ”پس جو شخص بیک لفظ تین طلاقیں دے گا اس کی تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، جماعتِ فقہاء بھی اسی کی قائل ہے، اور ہمارے قول کی دلیل اِجماعِ صحابہ ہے، کیونکہ یہ مسئلہ ابنِ عمر، عمران بن حصین، عبداللہ بن مسعود، ابنِ عباس، ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، اور ان کا کوئی مخالف نہیں۔“

          ابوبکر بن عربی تین طلاق کے نافذ کرنے کے بارے میں ابنِ عباس کی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ”اس حدیث کی صحت مختلف فیہ ہے، پس اس کو اِجماع پر کیسے مقدم کیا جاسکتا ہے؟ اور اس کے معارض محمود بن لبید کی حدیث موجود ہے، جس میں یہ تصریح ہے کہ ایک شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رَدّ نہیں فرمایا، بلکہ نافذ کیا۔“ غالباً ان کی مراد نسائی کی روایت کے علاوہ کوئی اور روایت ہے، اور ابوبکر بن عربی حافظ ہیں اور بہت ہی وسیع الروایات ہیں۔ یا ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رَدّ کیا ہوتا تو حدیث میں اس کا ذکر ہوتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر غضب ناک ہونا بھی تین طلاق کے وقوع کی دلیل ہے، اور ابنِ عربی کی مراد کے لئے کافی ہے۔ حافظ ابنِ عبدالبر نے ”التمہید“ اور ”الاستذکار“ میں اس مسئلے کے دلائل نقل کرنے اور اس پر اِجماع ثابت کرنے میں بہت توسع سے کام لیا ہے۔

          اور شیخ ابنِ ہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں:

          ”فقہائے صحابہ کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں، مثلاً: خلفائے راشدین، عبادلہ، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم۔ ان کے سوا فقہائے صحابہ قلیل ہیں، اور باقی حضرات انہی سے رُجوع کرتے اور انہی سے فتویٰ دریافت کیا کرتے تھے، اور ہم ان میں سے اکثر کی نقل صریح ثابت کرچکے ہیں کہ وہ تین طلاق کے وقوع کے قائل تھے، اور ان کا مخالف کوئی ظاہر نہیں ہوا۔ اب حق کے بعد باطل کے سوا کیا رہ جاتا ہے؟ اسی بنا پر ہم نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم یہ فیصلہ دے کہ تین طلاق بلفظِ واحد ایک ہوگی تو اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ اس میں اِجتہاد کی گنجائش نہیں، لہٰذا یہ مخالفت ہے اختلاف نہیں۔ اور حضرت انس کی یہ روایت کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں، اِمام طحاوی وغیرہ نے ذکر کی ہے۔“

          جس شخص نے کتاب و سنت، اقوالِ سلف اور اَحوالِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جمہور کے دلائل کا احاطہ کیا ہو وہ اس مسئلے میں، نیز فقہائے صحابہ کی تعداد کے بارے میں ابنِ ہمام کے کلام کی قوّت کا صحیح اندازہ کرسکتا ہے، اگرچہ ابنِ حزم نے ”اَحکام“ میں ان کی تعداد بڑھانے کی بہت کوشش کی ہے، چنانچہ انہوں نے ہر اس صحابی کو جس سے فقہ کے ایک دو مسئلے بھی منقول تھے، فقہائے صحابہ کی صف میں شامل کردیا۔ اس سے ابنِ حزم کا مقصد صحابہ کرام کا اِجلال و تعظیم نہیں، بلکہ یہ مقصد ہے کہ اجماعی مسائل میں جمہور کا یہ کہہ کر توڑ کرسکیں کہ ان سب کی نقل پیش کرو۔ حالانکہ ہر وہ شخص جس سے فقہ کے ایک دو مسئلے یا سنت میں ایک دو حدیثیں مروی ہوں، اسے مجتہدین میں کیسے شمار کیا جاسکتا ہے؟ خواہ وہ کوئی ہو، اگرچہ صحابیت کے اعتبار سے صحابہ کرام کا مرتبہ بہت عظیم القدر ہے، اور اس کی کچھ تفصیل آئندہ آئے گی۔

          اور جو شخص کسی چیز پر اِجماع ثابت کرنے کے لئے ان ایک لاکھ صحابہ کے ایک ایک فرد کی نقل کو شرط ٹھہراتا ہے جو وصالِ نبوی کے وقت موجود تھے، وہ خیال کے سمندر میں غرق ہے، اور وہ حجیتِ اجماع میں جمہور کا توڑ کرنے میں ابنِ حزم سے بازی لے گیا ہے، ایسا شخص خواہ حنبلی ہونے کا مدعی ہو مگر وہ مسلمانوں کے راستے کے بجائے کسی اور راہ پر چل رہا ہے۔

          حنابلہ میں حافظ ابنِ رجب حنبلی بچپن ہی سے ابنِ قیم اور ان کے شیخ (ابنِ تیمیہ) کے سب سے بڑے متبع تھے، بعد ازاں ان پر بہت سے مسائل میں ان دونوں کی گمراہی واضح ہوئی، اور موصوف نے ایک کتاب میں جس کا نام ”بیان مشکل الأحادیث الواردة فی ان الطّلاق الثلاث واحدة“ رکھا، اس مسئلے میں ان دونوں کے قول کو رَدّ کیا، اور یہ بات ان لوگوں کے لئے باعثِ عبرت ہونی چاہئے جو اَحادیث کے مداخل و مخارج کو جانے بغیر ان دونوں کی کج بحثی (تشغیب) سے دھوکا کھاتے ہیں، حافظ ابنِ رجب اس کتاب میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی فرماتے ہیں:

          ”جاننا چاہئے کہ صحابہ، تابعین اور ان اَئمہ سلف سے، جن کا قول حرام و حلال کے فتویٰ میں لائقِ اعتبار ہے، کوئی صریح چیز ثابت نہیں کہ تین طلاقیں دُخول کے بعد ایک شمار ہوں گی، جبکہ ایک لفظ سے دی گئی ہوں، اور اِمام اعمش سے مروی ہے کہ کوفہ میں ایک بڈھا تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ میں نے علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے کہ: ”جب آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک مجلس میں دے ڈالے تو ان کو ایک کی طرف رَدّ کیا جائے گا“ لوگوں کی اس کے پاس ڈار لگی ہوئی تھی، آتے تھے اور اس سے یہ حدیث سنتے تھے، میں بھی اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ: تم نے علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے؟ بولا: میں نے ان سے سنا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک مجلس میں دے ڈالے تو ان کو ایک کی طرف رَدّ کیا جائے گا۔ میں نے کہا: آپ نے حضرت علی سے یہ بات کہاں سنی ہے؟ بولا: میں تجھے اپنی کتاب نکال کر دِکھاتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے اپنی کتاب نکالی اس میں لکھا تھا:

          ”بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ وہ تحریر ہے جو میں نے علی بن ابی طالب سے سنی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: جب آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک مجلس میں دے ڈالے تو اس سے بائنہ ہوجائے گی، اور اس کے لئے حلال نہیں رہے گی یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے۔“

          میں نے کہا: تیرا ناس ہوجائے! تحریر کچھ اور ہے، اور تو بیان کچھ اور کرتا ہے۔ بولا: صحیح تو یہی ہے، لیکن یہ لوگ مجھ سے یہی چاہتے ہیں۔“

          اس کے بعد ابنِ رجب نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث سند کے ساتھ نقل کی، جو پہلے گزرچکی ہے، اور کہا کہ: اس کی سند صحیح ہے۔

          اور حافظ جمال الدین بن عبدالہادی الحنبلی نے اپنی کتاب ”السیر الحاث الٰی علم الطّلاق الثلاث“ میں اس مسئلے پر ابنِ رجب کی مذکورہ بالا کتاب سے بہت عمدہ نقول جمع کردئیے ہیں، اس کا مخطوطہ دمشق کے کتب خانہ ظاہریہ میں موجود ہے، جو ”المجامیع“ کے شعبے میں ۹۹ کے تحت درج ہے۔

          جمال بن عبدالہادی اس کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

          ”تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، یہی صحیح مذہب ہے، اور ایسی مطلقہ، مرد کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ کسی دُوسری جگہ نکاح کرے۔ اِمام احمد کے مذہب کی اکثر کتابوں مثلاً: خرقی، المقنع، المحرر، الہدایہ وغیرہ میں اسی قول کو جزم کے ساتھ لیا گیا ہے۔ اثرم کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ (اِمام احمد بن حنبل) سے کہا کہ: ابنِ عباس کی حدیث کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں تین طلاق ایک ہوتی تھی، آپ اس کو کس چیز کے ساتھ رَدّ کرتے ہیں؟ فرمایا: ”لوگوں کی ابنِ عباس سے اس روایت کے ساتھ کہ وہ تین ہوتی ہیں۔“ اور ”فروع“ میں اسی قول کو مقدّم کیا ہے، اور ”المغنی“ میں بھی اسی پر جزم کیا ہے، اور اکثر حضرات نے تو اس قول کے علاوہ کوئی قول ذکر ہی نہیں کیا۔“

          اور ابنِ عبدالہادی کی عبارت میں ”اکثر کتب اصحاب احمد“ کا جو لفظ ہے وہ احمد بن تیمیہ کے بعد کے متأخرین، مثلاً: بنو مفلح اور مراودہ کے اعتبار سے ہے، ان لوگوں نے ابنِ تیمیہ سے دھوکا کھایا ہے، اس لئے ان کا قول اِمام احمد کے مذہب میں ایک قول شمار نہیں ہوگا۔ ”الفروع“ کا مصنف بھی بنی مفلح کے انہی لوگوں سے ہے جنھوں نے ابنِ تیمیہ سے فریب کھایا۔

          اِمام ترمذی کے اُستاذ اسحاق بن منصور نے بھی اپنے رسالہ ”مسائل عن احمد“ میں ․․․ جو ظاہریہ دمشق میں فقہِ حنابلہ کے تحت نمبر:۸۳ پر درج ہے․․․ اسی کی مثل ذکر کیا ہے جو اثرم نے ذکر کیا ہے۔ بلکہ اِمام احمد بن حنبل اس مسئلے کی مخالفت کو خروج از سنت سمجھتے تھے، چنانچہ انہوں نے سنت کے بارے میں جو خط مسدد بن مسرہد کو لکھا اس میں تحریر فرماتے ہیں:

          ”اور جس نے تین طلاقیں ایک لفظ میں دیں اس نے جہالت کا کام کیا، اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی، اور وہ اس کے لئے کبھی حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دُوسری جگہ نکاح کرے۔“

          اِمام احمد کا یہ جواب قاضی ابوالحسین بن ابی یعلیٰ الحنبلی نے ”طبقاتِ حنابلہ“ میں مسدد بن مسرہد کے تذکرے میں سند کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور اس کی سند ایسی ہے جس پر حنابلہ اعتماد کرتے ہیں۔ اِمام احمد نے اس مسئلے کو سنت میں سے اس لئے شمار کیا کہ روافض، مسلمانوں کے نکاحوں سے کھیلنے کے لئے اس مسئلے کی مخالفت کرتے تھے۔

          اِمام کبیر ابوالوفاء بن عقیل الحنبلی کے ”التذکرہ“ میں ہے: ”اور جب کسی نے اپنی بیوی سے کہا: ”تجھے تین طلاق مگر دو“ تو تین ہی واقع ہوں گی، کیونکہ یہ اکثر کا استثناء ہے، لہٰذا استثناء صحیح نہیں۔“

          اور ابوالبرکات مجد الدین عبدالسلام بن تیمیہ الحرانی الحنبلی موٴلف ”منتقی الاخبار“ (حافظ ابنِ تیمیہ کے دادا) اپنی کتاب ”المحرر“ میں لکھتے ہیں:

          ”اور اگر اس کو (ایک طلاق دے کر) بغیر مراجعت کے دو طلاقیں دیں یا تین، ایک لفظ میں یا الگ الگ لفظوں میں، ایک طہر میں یا الگ الگ طہروں میں تو یہ واقع ہوجائیں گی، اور یہ طریق بھی سنت کے موافق ہے۔ اِمام احمد کی ایک روایت ہے کہ یہ بدعت ہے، اور ایک روایت ہے کہ ایک طہر میں تین طلاقیں جمع کرنا بدعت ہے، اور تین الگ الگ طہروں میں دینا سنت ہے۔“

          اور احمد بن تیمیہ اپنے اس دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ خفیہ طور پر فتویٰ دیا کرتا تھے کہ تین طلاقوں کو ایک کی طرف رَدّ کیا جائے گا۔ حالانکہ ان کی اپنی کتاب ”المحرر“ کی تصریح آپ کے سامنے ہے، اور ہم ابنِ تیمیہ کے دادا کو اس بات سے بَری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی کتابوں میں جو تصریح کریں چھپ کر اس کے خلاف بات کریں۔ یہ حالت تو منافقین اور زنادقہ کی ہوا کرتی ہے، اور ہمیں ابنِ تیمیہ کی نقل میں بکثرت جھوٹ کا تجربہ ہوا ہے، پس جب وہ اپنے دادا کے بارے میں یہ کھلا سفید جھوٹ بول سکتے ہیں تو دُوسروں کے بارے میں ان کو جھوٹ بولنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہم سلامتی کی درخواست کرتے ہیں۔

          اور اس مسئلے میں شافعیہ کا مذہب آفتاب نصف النہار سے زیادہ روشن ہے، ابوالحسن السبکی، کمال زملکانی، ابنِ جہبل، ابنِ فرکان، عز بن جماعہ اور تقی حصنی وغیرہ نے اس مسئلے میں اور دیگر مسائل میں ابنِ تیمیہ کے رَدّ میں تألیفات کی ہیں جو آج بھی اہلِ علم کے ہاتھ میں ہیں۔

          اور ابنِ حزم ظاہری کو مسائل میں شذوذ پر فریفتہ ہونے کے باوجود یہ گنجائش نہ ہوئی کہ اس مسئلے میں جمہور کے راستے پر نہ چلیں، بلکہ انہوں نے بلفظِ واحد تین طلاق کے وقوع پر دلائل قائم کرنے میں بڑے توسع سے کام لیا ہے، اس پر اطلاع واجب ہے، تاکہ ان برخود غلط مدعیوں کے زیغ کا اندازہ ہوسکے جو اس کے خلاف کا زعم رکھتے ہیں۔

          اس مفصل بیان سے اس مسئلے میں صحابہ و تابعین وغیرہ پوری اُمت کا قول واضح ہوگیا، صحابہ و تابعین کا بھی، اور دیگر حضرات کا بھی، اور جو اَحادیث ہم نے ذکر کی ہیں وہ تین طلاق بلفظِ واحد کے وقوع میں کسی قائل کے قول کی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتیں۔

          اور کتاب اللہ کی دلالت اس مسئلے پر ظاہر ہے، جو مشاغبہ (کج بحثی) کو قبول نہیں کرتی، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: ”فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ“ (پس ان کو طلاق دو ان کی عدّت سے قبل) اللہ تعالیٰ نے عدّت سے آگے طلاق دینے کا حکم فرمایا، مگر یہ نہیں فرمایا کہ غیرعدّت میں طلاق دی جائے تو باطل ہوگی، بلکہ طرزِ خطاب غیرعدّت کی طلاق کے وقوع پر دلالت کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

          ”وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ۔“                              (الطّلاق:۲)

          ترجمہ:… ”اور یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص حدود اللہ سے تجاوز کرے اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔“

          پس اگر غیرعدّت میں دی گئی طلاق واقع نہ ہوتی (بلکہ لغو اور کالعدم ہوتی) تو غیرعدّت میں طلاق دینے سے وہ ظالم نہ ہوتا، نیز اس پر حق تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے:

          ”وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجًا۔“ (الطّلاق:۲)

          ترجمہ:… ”اور جو ڈرے اللہ سے بنادے گا اللہ اس کے نکلنے کا راستہ۔“

          اس کا مطلب ․․․واللہ اعلم․․․ یہ ہے کہ جب طلاق اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دے اور طلاق الگ الگ طہروں میں دے، اس صورت میں اگر طلاق واقع کرنے کے بعد اسے پشیمانی ہو تو اس کے لئے اپنی واقع کردہ طلاق سے مخرج کی صورت موجود ہے، اور وہ ہے رجعت۔ حضرت عمر، ابنِ مسعود اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہم نے آیت کا یہی مطلب سمجھا ہے، قرآنِ کریم کے فہم و ادراک میں ان کی مثل کون ہے؟

          اور حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ: ”اگر لوگ طلاق کی مقرّر کردہ حد کو ملحوظ رکھیں تو کوئی شخص جس نے بیوی کو طلاق دی ہو، نادم نہ ہوا کرے۔“ یہ ارشاد بھی اسی طرف اشارہ ہے، اور اسرارِ تنزیل کے سمجھنے میں باب مدینة العلم کی مثل کون ہے؟

          اور حق تعالیٰ کا ارشاد: ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ“ بھی دلالت کرتا ہے کہ دو طلاقوں کا جمع کرنا صحیح ہے، جبکہ ”مَرَّتَان“ کے لفظ کو دو پر محمول کیا جائے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی: ”نُوٴْتِھَآ اَجْرَھَا مَرَّتَیْنِ“ میں ہے۔ اور قرآنِ کریم کی آیات ایک دُوسرے کی تفسیر کرتی ہیں، اور اِمام بخاری نے آیت کے معنی اسی طرح سمجھے ہیں، چنانچہ انہوں نے اس آیت کو ”باب من اجاز طلاق الثلاث“ کے تحت ذکر کیا ہے، اسی طرح ابنِ حزم نے بھی یہی سمجھا ہے، اور علامہ کرمانی نے اس کی تائید کی ہے، کیونکہ ایسا کوئی شخص نہیں پایا جاتا ہے جو دو اور تین طلاق کے وقوع کی صحت میں فرق کرتا ہو، اور اسی کی طرف شافعیہ کا میلان ہے۔ اور ابنِ حجر کا فقہ تکلف ہے، انہیں لغت میں توسع حاصل نہیں، اور نظر اور لغت کے باب میں ان کا قول کرمانی کے قول کے سامنے کوئی چیز نہیں، اور جب اس لفظ ”مَرَّتَانِ“ کو اس پر محمول کرو کہ یہ ”تثانی مکررہ“ کے قبیل سے ہے (یعنی ”مَرَّتَانِ“ کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق دو مرتبہ الگ الگ الفاظ میں دی جانی چاہئے)، تو یہ لفظ تین طلاق کے وقوع کی صحت پر بھی دلالت کرے گا، جبکہ وہ بہ تکرارِ لفظ ہوں، خواہ حیض میں ہوں، یا طہر میں، یا چند طہروں میں، یا ایک مجلس میں، یا چند مجالس میں، پس جب طلاق طہر میں یا حیض میں بہ تکرارِ لفظ صحیح ہے تو طہر میں یا حیض میں بلفظِ واحد بھی صحیح ہوگی، کیونکہ ایسا کوئی شخص نہیں جو اِس میں اور اُس میں فرق کرتا ہو، نزاع کرنے والوں کا نزاع صرف اس صورت میں ہے جبکہ طلاق متفرق طہروں میں نہ دی گئی ہو، اور یہ ظاہر ہے۔

          اور شوکانی نے چاہا کہ اس کے تثانیٴ مکرّرہ کے قبیل سے ہونے کے ساتھ تمسّک کریں جیسا کہ زمخشری کہتے ہیں، اور ان کو خیال ہوا کہ (زمخشری) اس قول کے ساتھ اس مسئلے میں اپنے مذہب سے دُور چلے گئے ہیں، مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ شوکانی کو ایسی جگہ کہاں سے مل سکتی ہے؟ جس کے ذریعہ وہ اس آیت سے تمسّک کریں، آیت تو اس طرح ہے جس طرح کہ ہم شرح کرچکے ہیں، لیکن ڈُوبتا ہوا آدمی ہر تنکے کا سہارا لیا کرتا ہے۔

          اور یہ گفتگو تو اس صورت میں ہے جبکہ یہ فرض کرلیا جائے کہ آیت قصر پر دلالت کرتی ہے، اور یہ بھی فرض کرلیا جائے طلاق سے مراد طلاقِ شرعی ہے جس کے خلاف دی گئی طلاق لغو ہوتی ہے، جیسا کہ شوکانی کا خیال ہے، پھر جبکہ یہ دونوں باتیں بھی ناقابلِ تسلیم ہوں تو شوکانی کا تمسّک کیسے صحیح ہوگا؟ کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ ایک طلاقِ رجعی، طلاقِ شرعی شمار ہوتی ہے اور انقضائے عدّت کے بعد اس سے بینونت واقع ہوجاتی ہے، باوجودیکہ وہ ”طلاق بعد از طلاق“ نہیں۔

          اور اِمام ابوبکر جصاص رازی نے جمہور کے قول پر کتاب اللہ کی دلالت کو اس سے زیادہ تفصیل سے لکھا ہے، جو شخص مزید بحث دیکھنا چاہتا ہو وہ ”اَحکام القرآن“ کی مراجعت کرے۔

          اور آیاتِ شریفہ طرزِ خطاب میں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ متفرّق طہروں میں طلاق دینے کا حکم طلاق دہندگان کی دُنیوی مصلحت پر مبنی ہے، اور وہ مصلحت ہے ان کو طلاق میں ایسی جلدبازی سے بچانا، جس کا نتیجہ ندامت ہو۔ لیکن بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ مخصوص حالات کی بنا پر طلاق دینے والے کو ندامت نہیں ہوتی، پس ”غیر عدّت میں دی گئی طلاق“ سے ندامت منفک ہوسکتی ہے، کیونکہ جو شخص الگ الگ طہروں میں طلاق دے، کبھی اس کو بھی ندامت ہوتی ہے، اور کبھی خاص حالات کی بنا پر ایسے شخص کو بھی ندامت نہیں ہوتی جس نے حیض میں طلاق دی ہو، یا ایسے طہر میں جس میں مقاربت ہوچکی ہو، پس ندامت طلاق مذکور کے ساتھ پائی تو جاتی ہے، مگر اس کے لئے وصف لازم نہیں ہے، تاکہ یہاں حکم اس کی ضد کی تحریم کو مفید ہو، جیسا کہ بعض لوگ اس کے قائل ہیں۔ اس تقریر سے شوکانی کے اس کلام کی قیمت معلوم ہوجاتی ہے جو اس نے اس موقع پر کیا ہے۔

          حاصل یہ کہ آیاتِ شریفہ نسق خطاب کے لحاظ سے اور حق تعالیٰ کا ارشاد: ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ“ دونوں تفسیروں پر، نیز وہ احادیث جو پہلے گزر چکی ہیں، یہ سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ غیر عدّت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، مگر گناہ کے ساتھ۔ پس یہ بات قیاس سے مستغنی کردیتی ہے، کیونکہ موردِ نص میں قیاس کی حاجت نہیں۔

          اور یہ جو ذکر کیا جاتا ہے کہ: ”ظہار، قولِ منکر اور زُور ہے، اس کے باوجود اس پر حکم مرتب ہوجاتا ہے“ یہ محض نظیر کے طور پر ہے، قیاس کے طور پر نہیں۔ اور چونکہ شوکانی نے یہ سمجھا کہ اس کا ذکر قیاس کے طور پر کیا جارہا ہے اس لئے موصوف نے فوراً یہ کہہ کر مشاغبہ شروع کردیا کہ: ”یہ قیاس غلط ہے، کیونکہ حرام چیزوں کی بیع اور محرَمات سے نکاح کرنا بھی قولِ منکر اور زُور ہے، لیکن وہ باطل ہے اس پر اس کا اثر مرتب نہیں ہوگا، لہٰذا قیاس صحیح نہیں۔“ مگر یہ بات شوکانی کی نظر سے اوجھل رہی کہ بیع اور نکاح کی مثال میں وجہ فرق بالکل ظاہر اور کھلی ہے، کیونکہ یہ دونوں ابتدائی عقد ہیں، کسی عقدِ قائم پر طاری نہیں ہوتے، بخلاف طلاق اور ظہار کے، کہ وہ دونوں ایک ایسے عقد پر جو پہلے سے قائم ہے، طاری ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر بالفرض یہاں قیاس کی ضرورت ہو تو طلاق کو ظہار پر قیاس کرنا شوکانی کے علی الرغم صحیح ہے، تعجب تو اس پر ہے کہ شوکانی اس قسم کے بے مقصد مشاغبوں سے اُکتاتے نہیں۔

          یہاں ایک اور دقیق بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اِمام طحاوی اکثر و بیشتر اَبواب کے تحت احادیث پر، جو اخبارِ آحاد ہیں، بحث کرنے کے بعد ”وجہ نظر“ بھی ذکر کیا کرتے ہیں، کہ ”نظر“ یہاں فلاں فلاں بات کا تقاضا کرتی ہے۔ بعض لوگ جو حقیقتِ حال سے بے خبر ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ موصوف زیرِ بحث مسئلے میں قیاس کو پیش کر رہے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں، دراصل اہلِ عراق کا قاعدہ یہ ہے کہ کتاب و سنت سے ان کے یہاں جو اُصول منقح ہوکر سامنے آتے ہیں وہ احادیث آحاد کو ان پر پیش کیا کرتے ہیں، اگر کوئی خبرِ واحد ان اُصولِ شرعیہ کے خلاف ہو تو وہ اسے ”شاذ“ اور نظائر سے خارج قرار دے کر اس میں توقف سے کام لیتے ہیں، اور اس میں مزید غور و فکر کرتے ہیں، تاآنکہ مزید دلائل ان کے سامنے آجائیں۔ پس اِمام طحاوی کا ”وجہ نظر“ کو پیش کرنا دراصل اس قاعدے کی تطبیق کے لئے ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ اُصول ان کے نزدیک بہت ہی دقیق ہے، اس لئے ان کی تطبیق بھی آسان نہیں، بلکہ اس کے لئے اِمام طحاوی جیسے دقیق النظر اور وسیع العلم مجتہد کی ضرورت ہے، اس لئے اِمام طحاوی کی کتابیں اس قسم کے اُصول و قواعد کے لئے، جن کو ضعیف متأخرین نے چھوڑ دیا ہے، بہت ہی مفید ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ اِمام طحاوی اِجتہادِ مطلق کے مرتبے پر فائز ہیں، اگرچہ انہوں نے اِمام ابوحنیفہ سے انتساب کو نہیں چھوڑا۔ اور اِمام طحاوی کا یہ قول کہ: ”عقود میں شروع ہونا تو صحیح نہیں، مگر اسی طریقے سے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، بخلاف ان اُمور کے جو عقودِ قائمہ پر طاری ہوں“ یہ من جملہ انہی اُصول کے ہے جن پر خبرِ واحد کو پیش کیا جاتا ہے، اور خروج من الصلوٰة کا ذکر بطور نظیر کے ہے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ حاصل یہ کہ اِمام طحاوی جو ”وجوہِ نظر“ ذکر کرتے ہیں وہ موردِ نص میں قیاس کی خاطر نہیں، بلکہ اپنے اُصول کے مطابق کسی حدیث کی تصحیح یا ایک حدیث کی دُوسری حدیث پر ترجیح کی خاطر ذکر کرتے ہیں، اگرچہ ان کی ذکر کردہ نظر میں قیاس بھی صحیح ہوتا ہے۔

          بہرحال کتاب و سنت اور فقہائے اُمت تین طلاق کے مسئلے میں پوری طرح متفق ہیں، پس جو شخص ان سب سے نکل جائے وہ قریب قریب اسلام ہی سے نکلنے والا ہوگا، اِلَّا یہ کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو، اور اس مسئلے میں جہلِ بسیط رکھتا ہو تو اس کو تو بیدار کرنا ممکن ہے، بخلاف اس شخص کے جس کا جہل مرکب یا مکعب ہو، کہ یا تو صرف اپنے جہل سے جاہل و بے خبر ہو (یہ تو جہلِ مرکب ہوا)، یا اپنے جہلِ مرکب کے ساتھ یہ بھی اعتقاد رکھتا ہو کہ وہ اس مسئلے کو، جو اس کے لئے جہلِ مرکب کے ساتھ مجہول ہے، اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ جانتا ہے، (یہ جہلِ مکعب ہے)، ایسے شخص کو راہِ راست پر لانا ممکن نہیں، والله سبحانہ ھو الھادی!

۵:… تین طلاق کے بارے میں حدیثِ ابنِ عباس پر بحث

          یہ دعویٰ کرنے کے بعد کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاق کو طلاق دہندگان پر نافذ کرنا بطورِ سزا تھا، حکمِ شرعی کے طور پر نہیں تھا، موٴلفِ رسالہ صفحہ:۸۰-۸۱ پر لکھتے ہیں:

          ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے یہ سزا لوگوں کو طلاق کو کھلونا بنانے سے روکنے کے لئے تھی، اور یہ محض وقتی سزا تھی، پھر معاملہ اور زیادہ اُلجھ گیا، اور لوگ اندھادُھند طلاق کو کھلونا بنانے لگے، اور اکثر صحابہ اس موقع پر موجود تھے، اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کو دیکھ رہے تھے جس کو انہوں نے برقرار رکھا تھا، اور وہ، اکثر حضرات کی رائے کے مطابق خروج سے بچنے کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت سے ڈرتے تھے، اور ان میں سے بعض حضرات سمجھتے تھے کہ یہ حکم محض زجر و تعزیر کی خاطر ہے، پس کبھی تین طلاق کے نفاذ کا فتویٰ دیتے تھے، اور کبھی عدمِ نفاذ کا۔ اور اس اعتبار سے کہ آخری دو طلاقیں عدّت میں باطل ہیں، واقع نہیں ہوتیں، جیسا کہ ابنِ عباس سے دونوں طرح کے فتوے ثابت ہیں۔

          اس کے بعد تابعین کا دور آیا تو انہوں نے بھی اختلاف کیا، ان میں سے بہت سے حضرات پر فتویٰ کے بارے میں وارِد شدہ روایات کی حقیقت اوجھل ہوگئی، زبانوں میں عجمیت داخل ہوچکی تھی، اور انہوں نے روایات عربی طریقے پر سنی تھیں کہ: ”فلاں نے تین طلاقیں دیں“ اس لئے جو لوگ عربیت کا صحیح ذوق نہیں رکھتے تھے اور جو انشاء اور خبر کے درمیان فرق پر غور نہیں کرسکتے تھے، انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ تین طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص طلاق دینے کے ارادے سے اپنی بیوی کو یوں کہے کہ: تجھے تین طلاق۔

          اور حدیثِ عمر کو تکرار فی المجلس پر محمول کرنا، جبکہ قبل ازیں تکرار کو تاکید پر محمول کیا جاتا تھا (جیسا کہ نووی اور قرطبی کی رائے ہے) ناقابلِ اعتبار تأویل ہے، جس کو حدیثِ ابنِ عباس جو رکانہ کے بارے میں وارِد ہے ساقط قرار دیتی ہے (یہ حدیث مسندِ احمد میں ہے، اور ابھی آپ دیکھیں گے کہ یہ روایت خود ہی ساقط ہے، کسی دُوسری چیز کو کیا ساقط کرے گی)، اور ابنِ حجر کہتے ہیں کہ: یہ حدیث اس مسئلے میں نص ہے، یہ اس تأویل کو قبول نہیں کرتی جو دُوسری احادیث میں جاری ہوسکتی ہے (یہ حدیث ابنِ حجر کے نزدیک معلول ہے، جیسا کہ ”التلخیص الحبیر“ میں ہے، پس اس کا محتملِ تأویل نہ ہونا کیا فائدہ دیتا ہے؟)۔“

          میں کہتا ہوں کہ مجھے رہ رہ کر تعجب ہوتا ہے کہ اس خود رو مجتہد کے کلام میں آخر ایک بات بھی ایسی کیوں نہیں ملتی جس کو کسی درجے میں بھی صحیح اور دُرست کہہ سکیں؟ شاید حق تعالیٰ شانہ نے ان لوگوں کو رُسوا کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے جو پوری اُمت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، واقعی اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو ٹالنا ناممکن ہے، اور وہ حکیم و خبیر ہے!

          یا سبحان اللہ! کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کے بارے میں یہ تصوّر کیا جاسکتا ہے وہ لوگوں کو ما ثبت فی الشرع کے خلاف پر مجبور کریں؟ اور کیا صحابہ کے بارے میں یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈَر کر ان کی ہاں میں ہاں ملادیں؟ حالانکہ ان میں ایسے حضرات بھی موجود تھے جو کج رو کی کجی کو اپنی تلواروں سے سیدھا کردیتے تھے۔ موٴلفِ رسالہ نے جو کچھ کہا ہے یہ خالص رافضی وساوس اور رافضیت کے جراثیم ہیں، اہلِ فساد ان جراثیم کو چکنے چپڑے الفاظ کے پردے میں چھپانا چاہتے ہیں۔

          کوئی کج رو کسی ایک صحابی سے ایک بھی صحیح روایت پیش نہیں کرسکتا کہ انہوں نے فتویٰ دیا ہو کہ تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں، اس کو زیادہ سے زیادہ کوئی چیز مل سکتی ہے تو وہ اس قبیل سے ہوگی جس کو ابنِ رجب نے اعمش سے نقل کیا ہے، اور جس کا ذکر گزشتہ سطور میں آچکا ہے۔

          یا ابو الصہبا کی روایت کے قبیل سے ہوگی جس کی عللِ قادحہ کو اہلِ علم طشت ازبام کرچکے ہیں، اور یہ بھی اس صورت میں ہے جبکہ اس روایت کو اس احتمال پر محمول کیا جائے جس کے اہلِ زیغ قائل ہیں، اس کی بحث عنقریب آتی ہے۔

          یا ابوالزبیر کی اس منکر روایت کے قبیل سے ہوگی جس کے منکر ہونے کے دلائل اُوپر گزر چکے ہیں، یا طلاقِ رکانہ کی بعض روایات کے قبیل سے ہوگی جن کا غلط ہونا عنقریب آتا ہے، یا اس قبیل سے ہوگی جس کو ابنِ سیرین بیس برس تک ایسے لوگوں سے سنتے رہے جن کو وہ سچا سمجھتے تھے، بعد میں اس کے خلاف نکلا، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ یا ابنِ مغیث جیسے ساقط الاعتبار شخص کی نقل کے قبیل سے ہوگی۔

          پس کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں جانتے تھے کہ لوگوں کو خلافِ شرع پر مجبور کرنا حرام اور بدترین حرام ہے اور شریعت سے خروج ہے؟ اور کیسا بُرا خروج؟ چلئے فرض کرلیجئے! کہ انہوں نے لوگوں کو مجبور کیا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ ترکِ رجعت یا منعِ تزوّج پر مجبور کرنے کی قیمت نکاح و طلاق پر مجبور کرنے سے زیادہ تو نہیں ہوگی؟ اکثر اہلِ علم کے نزدیک جبراً نکاح کا ایجاب و قبول کرانے سے نکاح نہیں ہوتا، اسی طرح جبراً طلاق کے الفاظ کہلانے سے طلاق نہیں ہوتی، اس صورت میں کیا ان طلاق دینے والوں کو یہ استطاعت نہیں تھی کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کے بغیر اپنی مطلقہ عورت سے رُجوع کرلیں؟ یا (بعد از عدّت) نکاح کرلیں؟ آخر ایسا کون ہے جو لوگوں کو ایسی چیزوں سے روک دے جن کے وہ مالک ہیں؟ یہاں تک کہ انساب میں گڑبڑ ہوجائے، اور شرور کے تمام دروازے چوپٹ کھل جائیں۔

          اور ابنِ قیم کو خیال ہوا کہ وہ اپنے کلامِ فاسد پر یہ کہہ کر پردہ ڈال سکتے ہیں کہ حضرت عمر کا یہ عمل اس تعزیر کے قبیل سے تھا جو ان کے لئے مشروع تھی، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے تصوّر کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص تعزیر کے طور پر ایک شرعی حکم کے اِلغا کا اقدام کرے؟ اور ایسے نام نہاد تعزیری حکم کا اس تعزیر سے کیا جوڑ جو شریعت میں معروف ہے اور جس کے فقہائے اُمت قائل ہیں؟ ابنِ قیم اس مسئلے پر طول طویل کلام کرنے کے باوجود اس کی ایک بھی نظیر تو پیش نہیں کرسکے، بلکہ اس دروازے کا کھولنا درحقیقت پوری شریعت کو اس قسم کے حیلوں بہانوں سے معطل کردینے کا دروازہ کھولنا ہے، جیساکہ طوفی حنبلی نے مصالحِ مرسلہ کی آڑ میں اسی قسم کا دروازہ کھولنے میں دراز نفسی سے کام لیا ہے، پس اس قسم کی توجیہ درحقیقت ایک گندی تہمت ہے، حضرت عمر پر بھی، ان جمہور صحابہ پر بھی جنھوں نے حضرت عمر کی اس مسئلے میں موافقت کی، اور خود شریعتِ مطہرہ پر بھی۔ چنانچہ یہ بات اس شخص پر مخفی نہیں جس نے اس مسئلے کی گہرائی میں اُتر کر دیکھا ہو، اور جس نے اس کے تمام اطراف و جوانب کی پوری چھان بین کی ہو، محض شاذ اقوال کی تقلید پر اکتفا نہ کیا ہو، یا بحث کے محض کسی ایک گوشے کو نہ لے اُڑا ہو۔

          اور حافظ ابنِ رجب حنبلی نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کے بارے میں ایک نفیس فائدہ ذکر کیا ہے، میرے لئے ممکن نہیں کہ اس کی طرف اشارہ کئے بغیر اسے چھوڑ جاوٴں، وہ لکھتے ہیں:

          ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو فیصلے کئے وہ دو قسم کے ہیں، ایک یہ کہ اس مسئلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کوئی فیصلہ سرے سے صادر نہ ہوا ہو، اور اس کی پھر دو صورتیں ہیں:

          ایک یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے میں غور کرنے کے لئے صحابہ کو جمع کیا، ان سے مشورہ فرمایا، اور صحابہ نے اس مسئلے پر ان کے ساتھ اِجماع کیا، یہ صورت تو ایسی ہے کہ کسی کے لئے اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہی حق ہے۔ جیسے عمرتین کے بارے میں آپ کا فیصلہ، اور جیسے اس شخص کے بارے میں فیصلہ جس نے اِحرام کی حالت میں بیوی سے صحبت کرکے حج کو فاسد کرلیا تھا کہ وہ اس اِحرام کے مناسک کو پورا کرے، اور اس کے ذمہ قضا اور دَم لازم ہے، اور اس قسم کے اور بہت سے مسائل۔

          اور دُوسری صورت یہ کہ صحابہ نے اس مسئلے میں حضرت عمر کے فیصلے پر اِجماع نہیں کیا، بلکہ حضرت عمر کے زمانے میں بھی اس مسئلے میں ان کے اقوال مختلف رہے، ایسے مسئلے میں اختلاف کی گنجائش ہے، جیسے دادا کے ساتھ بھائیوں کی میراث کا مسئلہ۔

          اور دُوسری قسم وہ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ، حضرت عمر کے فیصلے کے خلاف مروی ہو۔ اس کی چار صورتیں ہیں:

          اوّل: یہ کہ اس میں حضرت عمر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی طرف رُجوع کرلیا ہو، ایسے مسئلے میں حضرت عمر کے پہلے قول کا کوئی اعتبار نہیں۔

          دوم: یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے اس مسئلے میں دو حکم مروی ہوں، ان میں سے ایک حضرت عمر کے فیصلے کے موافق ہو، اس صورت میں جس فیصلے پر حضرت عمر نے عمل کیا وہ دُوسرے کے لئے ناسخ ہوگا۔

          سوم: یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنسِ عبادات میں متعدّد انواع کی رُخصت دی ہو، پس حضرت عمر ان انواع میں افضل اور اَصلح کو لوگوں کے لئے اختیار کرلیں، اور لوگوں سے اس کی پابندی کرائیں۔ پس جس صورت کو حضرت عمر نے اختیار فرمایا ہو اس کو چھوڑ کر کسی دُوسری صورت پر عمل کرنا ممنوع نہیں۔

          چہارم: یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کسی علت پر مبنی تھا، وہ علت باقی نہ رہی تو حکم بھی باقی نہ رہا، جیسے موٴلفة القلوب، یا کوئی ایسا مانع پایا گیا جس نے اس حکم پر عمل کرنے سے روک دیا۔“

          اور صاحبِ بصیرت پر مخفی نہیں کہ زیرِ بحث مسئلہ ان انواع و اقسام میں کس قسم کی طرف راجع ہے۔

          چنانچہ اب ہم حدیثِ ابنِ عباس پر، جس میں حضرت عمر کے تین طلاقوں کے نافذ کرنے کا ذکر ہے، اور حدیثِ رکانہ پر بحث کرتے ہیں، تاکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ کسی کج رو شخص کے لئے ان دونوں حدیثوں سے تمسّک کی گنجائش نہیں، بلکہ ان دونوں سے جمہور کے دلائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

          رہی ابنِ عباس کی حدیث، جس کے گرد یہ شذوذ پسند گنگناتے نظر آتے ہیں، اس اُمید پر کہ ان کو اس حدیث میں کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ان کو اُمت کے خلاف بغاوت کے لئے کچھ سہارے کا کام دے سکے گی، اس حدیث کا متن یہ ہے:

          ”ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، حضرت ابوبکر کے زمانے میں اور حضرت عمر کی خلافت کے پہلے دو سالوں میں تین طلاق ایک تھی، پس حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: لوگوں نے ایک ایسے معاملے میں جلدبازی سے کام لیا، جس میں ان کے لئے سوچ بچار کی گنجائش تھی، پس اگر ہم ان تین طلاقوں کو ان پر نافذ کردیں (تو بہتر ہو)، چنانچہ آپ نے ان پر تین طلاق کو نافذ قرار دے دیا۔“

          اور ایک دُوسری روایت میں حضرت طاوٴس سے یہ الفاظ مروی ہیں کہ:

          ”ابو الصہبا نے ابنِ عباس سے کہا کہ: اپنی عجیب و غریب باتوں میں سے کچھ لائیے! کیا تین طلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں ایک نہیں تھی؟ ابنِ عباس نے فرمایا کہ: ہاں! یہی تھا، پھر جب حضرت عمر کے زمانے میں لوگوں نے پے درپے طلاق دینی شروع کی تو حضرت عمر نے تین طلاقوں کو ان پر نافذ کردیا۔“

          اور ایک روایت میں طاوٴس سے یہ الفاظ مروی ہیں کہ:

          ”ابو الصہبا نے ابنِ عباس سے کہا کہ: کیا آپ کوعلم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، حضرت ابوبکر کے زمانے میں اور حضرت عمر کی خلافت کے تین سالوں میں تین طلاق صرف ایک ٹھہرائی جاتی تھی؟ ابنِ عباس نے کہا: ہاں!“

          ان تینوں احادیث کی تخریج اِمام مسلم نے اپنی صحیح میں کی ہے۔

          لیکن مستدرک حاکم میں ”یرددون“ کا جو لفظ ہے (یعنی تین طلاقوں کو ایک کی طرف لوٹایا جاتا تھا) تو یہ عبداللہ بن موٴمل کی روایت سے ہے، جس کو ابنِ معین، ابو حاتم اور ابنِ عدی نے ضعیف کہا ہے، ابوداوٴد اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں، اور ابنِ ابی ملیکہ کے الفاظ حدیث میں انقطاع کے الفاظ ہیں، اور اگر حاکم میں تشیع نہ ہوتا تو وہ مستدرک میں اس حدیث کی تخریج سے انکار کردیتے، چنانچہ شیعوں میں کتنے ہی ایسے اشخاص ہیں جو روافض کی تلبیسات کے اور ان کے مذہب شیعہ کا لبادہ اوڑھنے سے دھوکا کھا جاتے ہیں، بغیر اس کے کہ جانیں کہ اس قسم کے مسائل سے شیعوں کا اصل مدعا کیا ہے۔

          اب ہمیں سب سے پہلے ”طلاق الثلاث“ کے لفظ پر غور کرنا چاہئے کہ آیا ”الثلاث“ پر لامِ استغراق داخل ہے اور ”تین طلاق“ سے ہر قسم کی تین طلاقیں مراد ہیں؟ یا تین طلاقوں کی کوئی خاص معہود قسم مراد ہے؟ چنانچہ (پہلی شق تو باطل ہے، کیونکہ) یہاں ہر قسم کی تین طلاق مراد لینا ممکن نہیں، کیونکہ تین طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ تین طلاقیں الگ الگ طہروں میں دی جائیں، ایسی تین طلاقوں کا ایک ہونا ممکن نہیں، خواہ یہ طلاق کی تعداد کو تین تک محدود کئے جانے سے قبل ہو، یا اس کے بعد، کیونکہ جب تک طلاق کو تین تک محدود نہیں کیا گیا تھا لوگ جتنی چاہیں طلاق دے سکتے تھے، اور تین کے ایک ہونے کا کوئی اعتبار نہیں تھا، لہٰذا طلاق کو تین تک محدود قرار دینے سے پہلے تین کے ایک ہونے کے کوئی معنی نہیں تھے، اور اس کے بعد بھی تین کے ایک ہونے کا تصوّر نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد: ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ․․․․ “ اس اَمر میں نص ہے کہ طلاق کی تعداد، جس کے بعد مراجعت صحیح ہے، صرف دو ہیں، تیسری طلاق کے بعد عورت شوہر کے لئے حلال نہیں رہے گی یہاں تک کہ وہ دُوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ پس اس آیتِ شریفہ کے نزول کے بعد تین کو ایک قرار دینا کیسے ممکن ہوگا؟

          الغرض! اس حدیث میں تین طلاقوں سے مراد ایسی تین طلاقیں مراد نہیں ہوسکتیں جو الگ الگ طہروں میں دی گئی ہوں، لہٰذا صرف ایک ہی احتمال باقی رہا کہ تین طلاقوں سے مراد ایسی تین طلاقیں ہیں جو ایسے الگ الگ طہروں میں نہ دی گئی ہوں، جن میں صحبت نہ ہوئی ہو، اور اس احتمال کی صرف دو صورتیں ہیں، یا تو یہ تین طلاقیں بیک لفظ دی جائیں گی، یا الگ الگ الفاظ سے، اگر الگ الگ الفاظ سے پے درپے واقع کی جائیں تو اس مطلقہ کے ساتھ شوہر کی خلوَت ہوچکی ہوگی یا نہیں، اگر خلوَت نہیں ہوئی تھی تو وہ پہلے لفظ سے بائنہ ہوجائے گی، دُوسری اور تیسری طلاق کا محل ہی نہیں رہے گی۔ اور جس صورت میں کہ عورت کے ساتھ شوہر کی خلوَت ہوچکی ہو، پس اگر طلاق دینے والے کی نیت ایک طلاق کی تھی اور اس نے دُوسرا اور تیسرا لفظ محض تاکید کے طور پر استعمال کیا تھا تو دیانةً اس کا قول قبول کیا جائے گا۔

          اور جس صورت میں کہ تین طلاق بالفاظِ غیر متعاقبہ یا بلفظِ واحد واقع کی گئی ہوں تو اس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں:

          ایک یہ کہ آج جو تین طلاق بلفظِ واحد دینے کا رواج ہے، دورِ نبوی، دورِ صدیقی اور حضرت عمر کے ابتدائی دور میں اس کا رواج نہیں تھا، بلکہ ان مقدس اَدوار میں اس کے بجائے ایک طلاق دینے کا رواج تھا، لوگ ان زمانوں میں سنت طلاق کی رعایت کرتے ہوئے تین الگ الگ طہروں میں طلاق دیا کرتے تھے، بعد کے زمانے میں لوگ پے درپے اکٹھی طلاقیں دینے لگے، کبھی حیض کی حالت میں، کبھی ایک ہی طہر میں بلفظِ واحد یا بالفاظِ متعاقبہ۔

          دُوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح تین طلاق دینے کا آج رواج ہے کہ لوگ بلفظِ واحد یا بالفاظِ متعاقبہ ایک طہر میں یا حیض کی حالت میں طلاق دیا کرتے ہیں، یہی رواج ان تین مقدس زمانوں میں بھی تھا، لیکن ان زمانوں میں ایسی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، تو کیا ہم اس معاملے میں ان حضرات کی مخالفت کریں؟ اور ہم ان کو تین طلاقیں شمار کریں جبکہ وہ حضرات ان تین کو ایک شمار کرتے تھے؟

          الغرض! سبر و تقسیم کے بعد جو آخری دو احتمال نکلتے ہیں ان میں سے پہلے احتمال کے خلاف کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کو غلط قرار دے، اس کے برعکس دُوسرے احتمال کے غلط ہونے کے قوی دلائل موجود ہیں، مثلاً:

          ۱:… اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ اس کے خلاف ہے، (جو اس احتمال کے باطل اور مردود ہونے کی دلیل ہے)، چنانچہ نقاد نے کتنی ہی احادیث کو اس بنا پر ناقابلِ عمل قرار دیا ہے کہ ان کی روایت کرنے والے صحابہ کا فتویٰ ان کے خلاف ہے، جیسا کہ ابنِ رجب نے شرح علل ترمذی میں اس کو شرح و بسط سے لکھا ہے، یہی مذہب ہے یحییٰ بن معین کا، یحییٰ بن سعید القطان کا، احمد بن حنبل کا اور ابن المدینی کا۔ اگرچہ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ راوی کی روایت کا اعتبار ہے، اس کی رائے کا اعتبار نہیں، لیکن یہ بھی اس صورت میں ہے کہ حدیث اپنے مفہوم میں نص ہو کہ اس میں دُوسرا احتمال نہ ہو، یا اگر مفہوم قطعی نہیں تو کم سے کم راجح احتمال ہو، مرجوح نہ ہو، لیکن جو احتمال کہ محض فرضی اور مصنوعی ہو اس رائے کے مطابق بھی وہ کیسے لائقِ شمار ہوسکتا ہے؟ اور جس شخص نے علم مصلطح الحدیث میں صرف متأخرین کی کتابوں تک اپنی نظر کو محدود رکھا ہو اس نے اپنی بصارت پر اپنی نظر کے اُفق کی پٹی باندھ رکھی ہے، اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے یہ فتویٰ تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ تین طلاق بلفظِ واحد سے تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ بحث میں ابنِ عباس سے اس کی روایت حضرت عطاء، حضرت عمرو بن دینار، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد رحمہم اللہ اور دیگر حضرات کے حوالے سے بلکہ خود طاوٴس کے حوالے سے بھی گزر چکی ہے۔

          ۲:… اس روایت کے نقل کرنے میں طاوٴس منفرد ہیں، اور ان کی یہ روایت دیگر حضرات کی روایت کے خلاف ہے، اور یہ ایسا شذوذ (شاذ ہونا) ہے جس کی وجہ سے روایت مردود ہوجاتی ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا وجہ سے مردود ہوجاتی ہے۔

          ۳:… کرابیسی کے حوالے سے اُوپر گزر چکا ہے کہ ابنِ طاوٴس جو اپنے والد سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں انہوں نے اس شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے جو ان کے باپ (طاوٴس) کی طرف یہ بات منسوب کرے کہ وہ تین طلاق کے ایک ہونے کے قائل تھے۔

          ۴:… اس روایت کے یہ الفاظ کہ: ”ابو الصہبا نے کہا“ یہ انقطاع کے الفاظ ہیں، (یعنی معلوم نہیں کہ طاوٴس نے خود ابو الصہبا سے یہ بات سنی یا نہیں؟) اور صحیح مسلم میں بعض احادیث منقطع موجود ہیں۔

          ۵:… نیز ابو الصہبا سے اگر ابنِ عباس کا مولیٰ مراد ہے تو وہ ضعیف ہے، جیسا کہ اِمام نسائی نے ذکر کیا ہے، اور اگر کوئی دُوسرا ہے تو مجہول ہے۔

          ۶:… نیز حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں: ”ہات من ہناتک“ یعنی ابوالصہبا نے ابنِ عباس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: ”لائیے! اپنی قابلِ نفرت اور بُری باتوں میں سے کچھ سنائیے!“ حضرت ابنِ عباس کی جلالتِ قدر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے درجے کا کوئی صحابی بھی ان کو ایسے الفاظ سے مخاطب نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ ان کا غلام ایسی گستاخانہ گفتگو کرے، اور حضرت ابنِ عباس اس کے ان گستاخانہ خطاب کی تردید بھی نہ کریں۔

          ۷:… اور بریں تقدیر کہ ابنِ عباس نے اس کو بغیر تردید کے جواب دیا (تو گویا اس حدیث کا قابلِ نفرت اور بُری باتوں میں سے ہونا تسلیم کرلیا) اندریں صورت یہ روایت خود انہی کے اقرار و تسلیم کے مطابق قبیح اور مردود باتوں میں سے ہوئی، (پھر اس کو استدلال میں پیش کرنے کے کیا معنی؟) اور حضرت ابنِ عباس کی رُخصتوں کا حکم سلف و خلف کے درمیان مشہور ہے، اور اِمام مسلم کی عادت یہ ہے کہ وہ تمام طرقِ حدیث کو ایک ہی جگہ جمع کردیتے ہیں، تاکہ حدیث پر حکم لگانا آسان ہو، اور یہ حدیث کے مرتبے کی تعریف و تشخیص کا ایک عجیب و غریب طریقہ ہے۔

          ۸:… اس حدیث کا اگر زیرِ بحث مفہوم لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ․․․نعوذ باللہ․․․ حضرت عمر نے محض اپنی رائے سے شریعت سے خروج اختیار کیا، اور حضرت عمر کی عزّت و عظمت اس سے بالاتر ہے کہ ایسی بات ان کی جانب منسوب کی جائے۔

          ۹:… نیز اس سے جمہور صحابہ پر یہ تہمت عائد ہوتی ہے کہ وہ ․․․نعوذ باللہ․․․ اپنے تنازعات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکَم بنانے کے بجائے رائے کو حَکَم ٹھہراتے تھے، اور یہ ایک ایسی شناعت و قباحت ہے جس کو صحابہ کے بارے میں روافض کے سوا کوئی گوارا نہیں کرسکتا، اور اہلِ تحقیق کے نزدیک اس شذوذ کا مصدر روافض ہیں۔

          ۱۰:… اور یہ سمجھنا کہ: ”حضرت عمر کا یہ عمل سیاسی تھا، جس کو بطور تعزیر اختیار کرنے کی حضرت عمر کے لئے گنجائش تھی“ یہ نری تہمت ہے، جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دامن پاک ہے۔ آخر ایسا کون ہوگا جو سیاست کے طور پر شریعت کے خلاف بغاوت کو جائز رکھے؟

          پس یہ ”عشرہ کاملہ“ (پوری دس وجوہ) آخری دو احتمالوں میں سے دُوسرے احتمال کے باطل ہونے کا فیصلہ کرتی ہیں، لہٰذا برتقدیرِ صحتِ حدیث پہلا احتمال متعین ہے،(۱) اور میں ”ذیول طبقات الحفاظ“ کی تعلیقات میں بھی اس حدیث کے علل کو ذکر کرچکا ہوں، جو یہاں کے بیان کے قریب قریب ہے۔

          علاوہ ازیں تین کو ایک کہنا (نصاریٰ کا قول ہے) مسلمانوں کے مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں:

جعلوا الثلاثة واحدًا، لو انصفوا

لم یجعلوا العدد الکثیر قلیلًا

          ترجمہ:… ”انہوں نے تین کو ایک بنادیا، اگر وہ انصاف کرتے تو عددِ کثیر کو قلیل نہ بناتے۔“

          حافظ ابنِ رجب اپنی مذکور الصدر کتاب میں ابنِ عباس کی اس حدیث پر گفتگو شروع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ”پس اس حدیث کے بارے میں اَئمہٴ اِسلام کے دو مسلک ہیں، ایک مسلک اِمام احمد اور ان کے موافقین کا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے، کیونکہ یہ روایت شاذ ہے، طاوٴس اس کے نقل کرنے میں متفرد ہیں، اور ان کا کوئی متابع موجود نہیں، کوئی راویٴ حدیث خواہ بذاتِ خود ثقہ ہو، لیکن ثقہ راویوں کے خلاف اس کا کسی حدیث کے نقل کرنے میں متفرد ہونا حدیث میں ایک ایسی علت ہے جو اس کے قبول کرنے میں توقف کو واجب کردیتی ہے، اور جس کی وجہ سے روایت شاذ یا منکر بن جاتی ہے، جبکہ وہ کسی دُوسرے صحیح طریق سے مروی نہ ہو۔ اور یہ طریقہ ہے متقدمین اَئمہ حدیث کا، جیسے اِمام احمد، یحییٰ بن معین، یحییٰ بن قطان، علی بن المدینی وغیرہ۔ اور زیرِ بحث حدیث ایسی ہے کہ اس کو طاوٴس کے سوا حضرت ابنِ عباس سے کوئی بھی روایت نہیں کرتا، ابنِ منصور کی روایت میں ہے (ہم اس روایت کی طرف سابق میں اشارہ کرچکے ہیں) کہ: اِمام احمد نے فرمایا:

          ”ابنِ عباس کے تمام شاگرد طاوٴس کے خلاف روایت کرتے ہیں۔“

          (ہم اس کی مثل اثرم) سے بھی اُوپر نقل کرچکے ہیں، اور جوزجانی (صاحب الجرج) کہتے ہیں: یہ حدیث شاذ ہے، میں نے زمانہٴ قدیم میں اس کی بہت تتبع تلاش کی، لیکن مجھے اس کی کوئی اصل نہیں ملی۔“

          اس کے بعد ابنِ رجب لکھتے ہیں:

          ”اور جب اُمت کسی حدیث کے مطابق عمل نہ کرنے پر اِجماع کرلے تو اس کو ساقط اور متروک العمل قرار دینا واجب ہے، اِمام عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ: ”وہ شخص علم میں اِمام نہیں ہوسکتا جو شاذ علم کو بیان کرے۔“ اِمام ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ: ”وہ حضرات (یعنی سلف صالحین) احادیثِ غریبہ سے کراہت کیا کرتے تھے۔“ یزید بن ابی حبیب کہتے ہیں کہ: ”جب تم کوئی حدیث سنو تو اس کو تلاش کرو، جس طرح گم شدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے، اگر پہچانی جائے تو ٹھیک، ورنہ اس کو چھوڑ دو۔“ اِمام مالک سے مروی ہے کہ: ”بدتر علم غریب ہے، اور سب سے بہتر علم ظاہر ہے، جس کو عام لوگ روایت کرتے ہیں۔“ اور اس باب میں سلف کے بہت سے ارشاد مروی ہیں۔“(۱)

          اس کے بعد ابنِ رجب لکھتے ہیں:

          ”حضرت ابنِ عباس جو اس حدیث کے راوی ہیں، ان سے صحیح اسانید کے ساتھ ثابت ہے کہ انہوں نے اس حدیث کے خلاف اکٹھی تین طلاق کے لازم ہونے کا فتویٰ دیا، اور اِمام احمد اور اِمام شافعی نے اسی علت کی وجہ سے اس حدیث کو معلول قرار دیا ہے، جیسا کہ ابنِ قدامہ نے ”المغنی“ میں ذکر کیا ہے، اور تنہا یہی ایک علت ہوتی تو اس حدیث کے ساقط ہونے کے لئے کافی تھی، چہ جائیکہ اس کے ساتھ یہ علت بھی شامل ہو کہ یہ حدیث شاذ اور منکر ہے اور اِجماعِ اُمت کے خلاف ہے۔ اور قاضی اسماعیل ”اَحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ: طاوٴس اپنے فضل و صلاح کے باوجود بہت سی منکر اشیاء روایت کیا کرتے ہیں، من جملہ ان کے ایک یہ حدیث ہے، اور اَیوب سے مروی ہے کہ وہ طاوٴس کی کثرتِ خطا سے تعجب کیا کرتے تھے اور ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ اس حدیث کی روایت میں طاوٴس نے شذوذ اختیار کیا ہے۔“

          پھر ابنِ رجب لکھتے ہیں کہ:

          ”علمائے اہلِ مکہ ان شاذ اقوال کی وجہ سے طاوٴس پر نکیر کیا کرتے تھے جن کے نقل کرنے میں وہ متفرد ہوں۔“

          اور کرابیسی ”ادب القضا“ میں لکھتے ہیں کہ: طاوٴس، ابنِ عباس سے بہت سے اخبارِ منکرہ نقل کرتے ہیں، اور ہماری رائے یہ ہے ․․․ واللہ اعلم․․․ کہ یہ منکر خبریں انہوں نے عکرمہ سے لی ہیں، اور سعید بن مسیب، عطاء اور تابعین کی ایک جماعت عکرمہ سے پرہیز کرتی ہے۔ عکرمہ، طاوٴس کے پاس گئے تھے، طاوٴس نے عکرمہ سے وہ کچھ لیا ہے جن کو عموماً وہ ابنِ عباس سے روایت کرتے ہیں۔“ ابوالحسن السبکی کہتے ہیں کہ: ”پس ان روایات کی ذمہ داری عکرمہ پر ہے، طاوٴس پر نہیں۔“

          اور ابنِ طاوٴس سے کرابیسی کی روایت ہم پہلے نقل کرچکے ہیں کہ: ”ان کے باپ طاوٴس کی طرف یہ جو کچھ منسوب کیا گیا ہے، وہ سب جھوٹ ہے۔“

          یہ گفتگو تو مسلکِ اوّل سے متعلق تھی۔(۱)

          اور دُوسرے مسلک کے بارے میں ابنِ رجب ہی لکھتے ہیں:

          ”اور یہ مسلک ہے ابنِ راہویہ کا اور ان کے پیروکاروں کا، اور وہ ہے معنیٴ حدیث پر کلام کرنا، اور وہ یہ کہ حدیث کو غیرمدخول بہا پر محمول کیا جائے، اس کو ابنِ منصور نے اسحاق بن راہویہ سے نقل کیا ہے۔ اور الحوفی نے الجامع میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ابوبکر الاثرم نے اپنی سنن میں اس پر باب باندھا ہے، اور ابوبکر الخلال نے بھی اس پر دلالت کی ہے، اور سنن ابوداوٴد میں بروایت حماد بن زید عن اَیوب عن غیرواحد عن طاوٴس عن ابنِ عباس یہ حدیث اس طرح نقل کی ہے کہ:

          ”آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دُخول سے پہلے دیتا تو اس کو ایک ٹھہراتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں اور حضرت عمر کے ابتدائی دور میں، پھر جب حضرت عمر نے لوگوں کو دیکھا کہ پے درپے طلاق دینے لگے ہیں تو فرمایا کہ ان کو ان پر نافذ کردو۔“

          اور اَیوب اِمام کبیر ہیں، پس اگر کہا جائے کہ وہ روایت تو مطلق تھی تو ہم کہیں گے کہ ہم دونوں دلیلوں کو جمع کرکے یہ کہیں گے کہ وہ روایت بھی قبل الدخول پر محمول ہے۔“

          یہاں تک مسلکِ ثانی میں ابنِ رجب کا کلام تھا۔

          اور شوکانی نے اپنے رسالہ ”تین طلاق“ میں (ابوداوٴد کی مندرجہ بالا) اس روایت کو (جس میں طلاق قبل الدخول کا ذکر ہے) بعض افرادِ عام کی تنصیص کے قبیل سے ٹھہرانے کا قصد کیا ہے، حالانکہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ”الثلاث“ میں لام کو استغراق پر محمول کرنا صحیح نہیں، لہٰذا یہ روایت اس قبیل سے نہیں ہوگی۔ اور شوکانی کا یہ کلام محض اس لئے کہ ان کو بہرحال بولتے رہنا ہے، خواہ بات کا نفع ہو یا نہ ہو، بالکل ایسی ہی حالت جس کا ذکر اِمام زفر نے فرمایا تھا (کہ میں مخالف کے ساتھ مناظرہ کرتے ہوئے اسے صرف خاموش ہوجانے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ مناظرہ کرتا رہتا ہوں یہاں تک کہ وہ پاگل ہوجائے، اور پاگل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی مجنونانہ باتیں کرنے لگے جو کبھی کسی نے نہیں کیں)۔

          پھر شوکانی کہتے ہیں کہ: طلاق قبل الدخول نادر ہے، پس لوگ کیسے پے درپے طلاقیں دینے لگے یہاں تک کہ حضرت عمر غصہ ہوگئے؟ میں کہتا ہوں کہ جو چیز ایک شہر میں یا ایک زمانے میں نادر شمار ہوتی ہے وہ بسااوقات دُوسرے زمانے میں اور دُوسرے شہر میں نادر نہیں، بلکہ کثیر الوقوع ہوتی ہے، اس لئے شوکانی کا یہ اعتراض بے محل ہے، علاوہ ازیں شوکانی یہ چاہتے ہیں کہ سنن ابوداوٴد میں روایت شدہ صحیح حدیث کے حکم کو محض رائے سے باطل کردیں، (پس یہ درحقیقت انکارِ حدیث کے جراثیم ہیں)، غالباً اس قدر وضاحت اس بات کو بتانے کے لئے کافی ہے کہ ان لوگوں کے لئے حدیثِ ابنِ عباس سے استدلال کی کوئی گنجائش نہیں۔

          اب لیجئے حدیثِ رکانہ! جس سے یہ لوگ تمسّک کرنا چاہتے ہیں، یہ وہ حدیث ہے جسے اِمام احمد نے مسند میں بایں الفاظ ذکر کیا ہے:

          ”حدیث بیان کی ہم سے سعد بن ابراہیم نے، کہا: خبر دی ہم کو میرے والد نے، محمد بن اسحاق سے، کہا: حدیث بیان کی مجھ سے داوٴد بن حصین نے عکرمہ سے، اس نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے کہ انہوں نے فرمایا:

          رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دے دی تھیں، پھر ان کو اس پر شدید غم ہوا، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: تم نے کیسے طلاق دی تھی؟ انہوں نے کہا کہ: میں نے تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دے دیں۔ فرمایا: یہ تو ایک ہوئی، لہٰذا تم اگر چاہو تو اس سے رُجوع کرلو، چنانچہ رکانہ نے اس سے رُجوع کرلیا۔“

          اور مجھے بے حد تعجب ہوتا ہے کہ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ صحابہ کے زمانے میں تین طلاق ”أنتِ طالق ثلاثا“ کے لفظ سے ہوتی ہی نہیں تھی، وہ اس حدیث سے تین کو ایک کی طرف رَدّ کرنے پر استدلال کیسے کرنا چاہتا ہے؟ پس جو تین طلاق کہ مجلسِ واحد میں ”أنتِ طالق ثلاثا“ کے الفاظ سے نہ تو لامحالہ تکرارِ لفظ کے ساتھ ہوگی، اور تکرار کی صورت میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ اس نے تاکید کا ارادہ کیا ہو، دُوسرے یہ کہ تین طلاق واقع کرنے کا قصد کیا ہو، پس جب معلوم ہوا کہ اس نے صرف ایک کا ارادہ کیا تھا تو دیانةً اس کا قول قبول کیا جائے گا، اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے تین طلاق دیں، اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس نے طلاق کا لفظ تین بار دہرایا، اور ہوسکتا ہے کہ راوی نے حدیث کو مختصر کرکے روایت بامعنی کردی ہو۔

          علاوہ ازیں یہ حدیث منکر ہے، جیسا کہ اِمام جصاص اور ابنِ ہمام فرماتے ہیں، کیونکہ یہ پختہ کار ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہے، نیز یہ حدیث معلول بھی ہے، جیسا کہ ابنِ حجر نے ”تخریج احادیث رافعی“ (التلخیص الحبیر) میں ذکر کیا ہے، تخریج میں ابنِ حجر کے الفاظ یہ ہیں:

          ”حدیث:… رکانہ بن عبد یزید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پس کہا کہ: ”میں نے اپنی بیوی سہمیہ کو ”البتہ“ طلاق دے دی ہے، اور اللہ کی قسم! کہ میں نے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بیوی مجھ کو لوٹادی۔“ اس حدیث کو اِمام شافعی، ابوداوٴد، ترمذی اور ابنِ ماجہ نے تخریج کیا ہے۔ اور انہوں نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ آیا یہ رکانہ تک مسند ہے یا مرسل؟ ابوداوٴد ابن حبان اور حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے، اور اِمام بخاری نے اس کو اضطراب کی وجہ سے معلول کہا ہے، ابنِ عبدالبر نے تمہید میں کہا ہے کہ محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، اور اس باب میں ابنِ عباس سے بھی روایت ہے (یعنی بلفظِ ثلاث، جیسا کہ ہم نے اُوپر پوری روایت نقل کردی ہے) اس کو اِمام احمد نے اور حاکم نے روایت کیا ہے، اور یہ معلول ہے۔“

          بلکہ ابنِ حجر نے فتح الباری میں ان حضرات کی رائے کی تصویب کی ہے کہ (ابنِ عباس کی مذکورہ بالا حدیث میں) تین کا لفظ بعض راویوں کا تبدیل کیا ہوا لفظ ہے، کیونکہ ”البتہ“ کے لفظ سے تین طلاق واقع کرنا شائع تھا، (اس لئے راوی نے ”البتہ“ کو تین سمجھ کر تین طلاق کا لفظ نقل کردیا) اور اہلِ علم کے اقوال ”طلاقِ بتہ “ کے بارے میں مشہور ہیں۔

          اب ہم مسندِ احمد میں (مذکورہ بالا) حدیث محمد بن اسحاق پر کلام کرتے ہیں تاکہ اس کے منکر اور معلول ہونے کے وجوہ ظاہر ہوجائیں۔

          رہا محمد بن اسحاق! تو اِمام مالک اور ہشام بن عروہ وغیرہ نے طویل و عریض الفاظ میں اس کو کذّاب کہا ہے، یہ صاحب ضعفا سے تدلیس کرتے تھے، اور بیان کئے بغیر اہلِ کتاب کی کتابوں سے نقل کرتے تھے اور بتاتے نہیں تھے کہ یہ اہلِ کتاب کی روایت ہے، اس پر قدر کی بھی تہمت ہے، اور لوگوں کی حدیث کو اپنی حدیث میں داخل کردینے کا بھی اس پر اِلزام ہے، یہ ایسا شخص نہیں جس کا قول صفات میں قبول کیا جائے، اور نہ اَحادیثِ اَحکام میں اس کی روایت معتبر ہے، خواہ وہ سماع کی تصریح کرے، جبکہ اس کی روایت کے خلاف روایات پے در پے وارِد ہوں، اور جس نے اس کی روایت کو قوی کہا ہے تو صرف مغازی میں قوی کہا ہے۔

          اس حدیث کی سند میں دُوسرا راوی داوٴد بن حصین ہے، جو خارجیوں کے مذہب کے داعیوں میں سے تھا، اور اگر اِمام مالک نے اس سے روایت نہ کی ہوتی تو اس کی حدیث ترک کردی جاتی، جیسا کہ ابو حاتم نے کہا ہے، اور ابنِ مدینی کہتے ہیں کہ داوٴد بن حصین جس روایت کو عکرمہ سے نقل کرے، وہ منکر ہے، اور اہلِ جرح و تعدیل کا کلام اس کے بارے میں طویل الذیل ہے، جن حضرات نے اس کی روایت کو قبول کیا ہے تو صرف اس صورت میں قبول کیا جبکہ وہ نکارت سے خالی ہو، پس اس کی روایت ثقہ ثبت راویوں کے خلاف کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟

          اور تیسرا راوی عکرمہ ہے، جس پر بہت سی بدعات کی تہمت ہے، اور سعید ابنِ مسیب اور عطاء جیسے حضرات اس سے اجتناب کرتے تھے، پس حضرت ابنِ عباس سے روایت کرنے والے ثقہ راویوں کے خلاف اس کا قول کیسے قبول کیا جائے گا؟ پس جس نے اس روایت کو ”منکر“ کہا اس نے بہت ہی صحیح کہا ہے۔ اور اِمام احمد سے اس قسم کے متن کی تحسین ایسی سند کے ساتھ صحیح نہیں، حالانکہ وہ خود فرماتے ہیں کہ: طاوٴس کی روایت حضرت ابنِ عباس سے تین طلاق کے بارے میں شاذ اور مردود ہے، جیسا کہ ہم اسحاق بن منصور اور ابوبکر اثرم کے حوالے سے قبل ازیں نقل کرچکے ہیں۔

          ابنِ ہمام لکھتے ہیں کہ: صحیح تر وہ روایت ہے جس کو ابوداوٴد، ترمذی اور ابنِ ماجہ نے نقل کیا ہے کہ: رکانہ نے اپنی بیوی کو ”بتہ“ طلاق دی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حلف لیا کہ اس نے صرف ایک کا ارادہ کیا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت اس کو واپس کرادی، اس نے دُوسری طلاق حضرت عمر کے زمانے میں اور تیسری حضرت عثمان کے زمانے میں دی۔

          اور اسی کی مثل مسندِ شافعی میں ہے، چنانچہ ابوداوٴد کی سند میں نافع بن عجیر بن عبدیزید ہے، پس نافع کو ابنِ حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے، اگرچہ نافع کو بعض ایسے لوگوں نے مجہول کہا ہے جن کی رجال سے ناواقفیت بہت زیادہ ہے۔ اور اس کے والد کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ کبار تابعین میں ہیں اور ان کے بارے میں کوئی جرح منقول نہیں۔ اور اِمام شافعی کی سند میں عبداللہ بن علی بن سائب بن عبید بن عبدیزید ابورکانہ واقع ہے، جس کو اِمام شافعی نے ثقہ کہا ہے۔ رہے عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ، جس کو ابنِ حزم ذکر کرتے ہیں، ان کی ابنِ حبان نے توثیق کی ہے۔ علاوہ ازیں تابعین میں یہی کافی ہے کہ ان کو جرح کے ساتھ ذکر نہ کیا گیا ہو، تاکہ وہ جہالتِ وصفی سے نکل جائیں، صحیحین میں اس نوعیت کے بہت سے رجال ہیں، جیسا کہ الذہبی نے یہ کہتے ہوئے اعتماد کیا ہے کہ آدمی کی اولاد اور اس کے گھر کے لوگ اس کے حالات سے زیادہ واقف ہوا کرتے ہیں۔

          حافظ ابنِ رجب نے ابنِ جریج کی وہ حدیث ذکر کی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ: مجھے خبر دی ہے ابو رافع مولیٰ النبی صلی الله علیہ وسلم کی اولاد میں سے بعض نے عکرمہ سے انہوں نے ابنِ عباس سے (اس سند سے مسند کی روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی ہے) اس روایت کو ذکر کرکے حافظ ابنِ رجب لکھتے ہیں کہ:

          ”اس کی سند میں مجہول راوی ہے، اور جس شخص کا نام نہیں لیا گیا وہ محمد بن عبداللہ بن ابی رافع ہے، جو ضعیف الحدیث ہے، اور اس کی احادیث منکر ہیں، اور کہا گیا ہے کہ وہ متروک ہے، لہٰذا یہ حدیث ساقط ہے، اور محمد بن ثور الصنعانی کی روایت میں ہے کہ رکانہ نے کہا: میں نے اس کو طلاق دے دی، اس میں ”ثلاثا“ کا لفظ ذکر نہیں کیا، اور محمد بن ثور ثقہ ہیں، بڑے درجے کے آدمی ہیں، نیز اس کے معارض وہ روایت بھی ہے جو رکانہ کی اولاد سے مروی ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو ”بتہ“ طلاق دی تھی۔“

          اس سے ابنِ قیم کے کلام کا فساد معلوم ہوجاتا ہے جو انہوں نے اس حدیث پر کیا ہے، جس صورت میں کہ حدیثِ رکانہ میں ”البتہ“ کی روایت صحیح ہو اس سے جمہور کے دلائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، اور جس صورت میں کہ حدیثِ رکانہ میں اضطراب ہو، جیسا کہ اِمام ترمذی نے اِمام بخاری سے نقل کیا ہے، اور اِمام احمد نے اس کے تمام طرق کو ضعیف قرار دیا ہے، اور ابنِ عبدالبر نے بھی اس کی تضعیف میں اِمام احمد کی پیروی کی ہے، اس صورت میں حدیثِ رکانہ کے الفاظ میں کسی لفظ سے بھی استدلال ساقط ہوجاتا ہے۔ اس حدیث کے اضطرابات میں سے ایک یہ ہے کہ کبھی روایت کرتے ہیں کہ طلاق دینے والا ابو رکانہ تھا، اور کبھی یہ کہ رکانہ کا باپ نہیں بلکہ خود رکانہ تھا، اس اضطراب کو یوں دفع کیا جاسکتا ہے کہ یہ اضطراب تین کی روایت میں ہے، ”البتہ“ کی روایت میں نہیں، ”البتہ“ کی روایت متن و سند کے اعتبار سے علل سے خالی ہے، اور اگر فرض کرلیا جائے کہ اس میں بھی علت ہے تو (یہ روایت ساقط الاعتبار ہوگی اور) باقی دلائل بغیر معارض کے باقی رہیں گے۔

          اور ابنِ رجب کہتے ہیں:

          ”ہم اُمت میں سے کسی کو نہیں جانتے جس نے اس مسئلے میں مخالفت کی ہو، نہ ظاہری مخالفت، نہ حکم کے اعتبار سے، نہ فیصلے کے لحاظ سے، نہ علم کے طور پر، نہ فتویٰ کے طور پر۔ اور یہ مخالفت نہیں واقع ہوئی مگر بہت ہی کم افراد کی جانب سے، ان لوگوں پر بھی ان کے ہم عصر حضرات نے آخری درجے کی نکیر کی، ان میں سے اکثر لوگ اس مسئلے کو مخفی رکھتے تھے، اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔

          پس اللہ تعالیٰ کے دِین کے اخفاء پر اِجماعِ اُمت کیسے ہوسکتا ہے، جس دِین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل فرمایا؟ اور اس شخص کے اجتہاد کی پیروی کیسے جائز ہوسکتی ہے جو اپنی رائے سے اس کی مخالفت کرتا ہو؟ اس کا اعتقاد ہرگز جائز نہیں۔“

          اُمید ہے کہ اس بیان سے واضح ہوگیا ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاق کو نافذ کرنا حکمِ شرعی تھا، جس کی مدد پر کتاب و سنت موجود ہیں، اور جو اِجماعِ فقہائے صحابہ کے مقارن ہے، تابعین اور ان سے بعد کے حضرات کا اِجماع مزید براں ہے، اور یہ حکمِ شرعی کے مقابلے میں تعزیری سزا نہیں تھی۔ پس جو شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاق کو نافذ کرنے سے خروج کرتا ہے وہ ان تمام چیزوں سے خروج کرتا ہے۔

۶:… طلاق کو شرط پر معلق کرنا اور طلاق کی قسم اُٹھانا

          موٴلفِ رسالہ صفحہ:۱۱۴ پر لکھتے ہیں:

          ”اور طلاقِ معلق کی سب صورتیں غیر صحیح ہیں، اور طلاقِ معلق واقع نہیں ہوتی۔“

          صفحہ:۸۳ پر لکھتے ہیں:

          ”اور اس سلسلے میں ان کے معاملے کو بادشاہوں اور اُمراء کی خواہشات نے ․․․خصوصاً بیعت کے معاملے میں․․․ قوی کردیا۔“

          جناب موٴلف کا طلاقِ معلق کی دونوں صورتوں کو باطل قرار دینا اور صدرِ اوّل کے فقہاء پر یہ تہمت لگانا کہ وہ بیعت کے حلف میں ملوک و اُمراء کی خواہشات کی تکمیل کیا کرتے تھے، اس شخص کے نزدیک بڑی جرأت و بے باکی ہے جس نے اس مسئلے میں فقہاء کے نصوص کا مطالعہ کیا ہو، اور جو ان فقہائے اُمت کے حالات سے واقفیت رکھتا ہو کہ وہ حق کی راہ میں کس طرح مرمٹ گئے تھے۔

          میرا خیال تھا کہ ابوالحسن السبکی کا رسالہ ”الدرة المضیة“ اور اس کے ساتھ چند اور رسائل جو کچھ سالوں سے شائع ہوچکے ہیں ان کے مطالعے کے بعد ان لوگوں کو بھی اس مسئلہٴ تعلیق میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی جن کو فقہی مذاہب کی مبسوط کتابوں کی ورق گردانی کا موقع نہیں ملتا، جناب مصنف کو غالباً اس کے مطالعے کا اتفاق نہیں ہوا، یا پھر انہوں نے جان بوجھ کر کٹ حجتی کا راستہ پسند کیا ہے۔

          فقہائے اُمت صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کا مذہب یہ ہے کہ طلاق کو جب کسی شرط پر معلق کیا جائے تو شرط کے پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، خواہ شرط، حلف کے قبیل سے ہو، کہ ترغیب کا یا منع کا یا تصدیق کا فائدہ دے، یا اس قبیل سے نہ ہو، کہ ان میں سے کسی چیز کا فائدہ نہ دے، ان تمام اکابر کے خلاف ابنِ تیمیہ کا قول ہے کہ جو تعلیق کہ از قبیل حلف ہو اس میں طلاق واقع نہیں ہوتی، بلکہ حلف ٹوٹنے کی صورت میں کفارہ لازم آتا ہے، اور یہ ایسی بات ہے جو ابنِ تیمیہ سے پہلے کسی نے نہیں کہی۔ تعلیق کی ان دونوں قسموں میں روافض بھی صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے مخالف ہیں اور بعض ظاہریہ نے ․․․جن میں ابنِ حزم بھی شامل ہیں․․․ اس مسئلے میں روافض کی پیروی کی ہے۔ اور ان سب سے پہلے جو اجماع منعقد ہوچکا ہے وہ ان کے خلاف حجت ہے۔ اور جن حضرات نے اس مسئلے پر اجماع نقل کیا ہے وہ یہ ہیں: اِمام شافعی، ابو عبید، ابو ثور، ابنِ جریر، ابنِ منذر، محمد بن نصر مروزی، ابنِ عبدالبر (التمہید اور الاستذکار میں)، فقیہ ابنِ رُشد (المقدمات میں) ،اور ابوالولید الباجی (المنتقیٰ) میں۔

          حدیث و آثار کی وسعتِ علم میں ان حضرات کا وہ مرتبہ ہے کہ ان میں سے ایک بزرگ اگر چھینکیں تو ان کی چھینک سے شوکانی، محمد بن اسماعیل الامیر اور قنوجی جیسے دسیوں آدمی جھڑیں گے، تنہا محمد بن نصر مروزی کے بارے میں ابنِ حزم کہتے ہیں:

          ”اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی کوئی حدیث ایسی نہیں جو محمد بن نصر کے پاس نہ ہو تو اس شخص کا دعویٰ صحیح ہوگا۔“

          اور یہ حضرات اِجماع کے نقل کرنے میں امین ہیں، اور صحیح بخاری میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ طلاقِ معلق واقع ہوجاتی ہے، چنانچہ نافع کہتے ہیں کہ: ایک شخص نے یوں طلاق دی کہ اگر وہ نکلی تو اسے قطعی طلاق، حضرت ابنِ عمر نے فرمایا: ”اگر نکلی تو اس سے بائنہ ہوجائے گی، نہ نکلی تو کچھ نہیں“۔ ظاہر ہے کہ یہ فتویٰ اسی زیرِ بحث مسئلے میں ہے، ابنِ عمر کے علم اور فتویٰ میں ان کے محتاط ہونے میں کون شک کرسکتا ہے؟ اور کسی ایک صحابی کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا کہ جس نے اس فتویٰ میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت کی ہو، یا اس پر نکیر فرمائی ہو۔

          اور حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے طلاق کی قسم کے بارے میں ایک فیصلہ ایسا دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاقِ معلق واقع ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص پیش کیا گیا جس نے طلاق کا حلف اُٹھایا تھا، اور اس حلف کو وہ پورا نہیں کرسکا تھا۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کا فیصلہ کیا جائے، آپ مقدمہ کی پوری رُوداد سن کر اس نتیجے پر پہنچے کہ اس بے چارے سے جبراً حلف لیا گیا ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”تم لوگوں نے اس کو پیس ڈالا“ (یعنی مجبور کرکے حلف لیا)۔ پس اکراہ کی بنا پر آپ نے اس کی بیوی اسے واپس دِلادی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکراہ کی صورت نہ ہوتی تو آپ کی رائے بھی یہی تھی کہ طلاق واقع ہوگئی۔ اور فیصلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسا کون ہے؟ ابنِ حزم نے اس فیصلے کو صحیح صورت سے ہٹانے کے لئے تکلف کیا ہے اور محض خواہشِ نفس کی بنا پر اسے اس کے ظاہر سے نکالنے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ ان کا قول حضرت شریح کے فیصلے کے بارے میں بھی اسی قبیل سے ہے۔(۱)

          اور سننِ بیہقی میں بہ سندِ صحیح حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ: ”اگر اس نے فلاں کام کیا تو اسے طلاق“ بیوی نے وہ کام کرلیا، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: ”یہ ایک طلاق ہوئی“، یہ وہی ابنِ مسعود ہیں جنھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ علم سے بھری ہوئی پٹاری کہتے تھے، صحیح فتویٰ دینے میں ان جیسا کون ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کی تعلیق مروی ہے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے بھی۔ اور آثار اس بارے میں بہت ہیں، اور کتاب اللہ میں حلف توڑنے پر لعنت کی گئی ہے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:

          ”ہر ایک قسم خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو، بشرطیکہ طلاق یا عتاق کی قسم نہ ہو، تو اس میں قسم کا کفارہ ہے۔“

          اس اثر کو ابنِ عبدالبر نے ”التمہید“ اور ”الاستذکار“ میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے، مگر احمد بن تیمیہ نے اس کو نقل کرتے ہوئے استثناء (یعنی ”لیس فیھا طلاق ولا عتاق“ کے الفاظ) کو حذف کردیا اور بقول ابوالحسن السبکی یہ ان کی خیانت فی النقل ہے۔ یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا دور، جس میں طلاقِ معلق کے وقوع کے سوا کوئی فتویٰ منقول نہیں۔

          اب تابعین کو لیجئے! تابعین میں اَئمہ علم معدود اور معروف ہیں، اور ان سب نے قسم کے پورا نہ ہونے کی صورت میں وقوعِ طلاق کا فتویٰ دیا۔ ابوالحسن السبکی ”الدرة المضیة“ میں ․․․ جس سے ہم نے اس بحث کا بیشتر حصہ ملخص کیا ہے․․․ فرماتے ہیں: جامع عبدالرزّاق، مصنف ابنِ ابی شیبہ، سننِ سعید بن منصور اور سننِ بیہقی جیسی صحیح اور معروف کتابوں سے ہم اَئمہ اجتہاد تابعین کے فتاویٰ صحیح اسانید کے ساتھ نقل کرچکے ہیں کہ حلف بالطّلاق کے بعد قسم ٹوٹنے کی صورت میں انہوں نے طلاق کے وقوع کا فتویٰ دیا، کفارے کا فیصلہ نہیں دیا۔ ان اَئمہ اجتہاد تابعین کے اسمائے گرامی یہ ہیں: سعید بن مسیب، حسن بصری، عطاء، شعبی، شریح، سعید بن جبیر، طاوٴس، مجاہد، قتادہ، زہری، ابومخلد، مدینہ کے فقہائے سبعہ، یعنی: عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، خارجہ بن زید، ابوبکر بن عبدالرحمن، سالم بن عبداللہ، سلیمان بن یسار، اور ان فقہائے سبعہ کا جب کسی مسئلے پر اجماع ہو تو ان کا قول دُوسروں پر مقدّم ہوتا ہے۔ اور حضرت ابنِ مسعود کے بلند پایہ شاگردان رشید یعنی: علقمہ بن قیس، اسود، مسروق، عبیدہ السلمانی، ابووائل، شقیق بن سلمہ، طارق بن شہاب، زر بن حبیش، ان کے علاوہ دیگر تابعین، مثلاً: ابنِ شبرمہ، ابو عمرو الشیبانی، ابو الاحوص، زید بن وہب، حکم بن عتیبہ، عمر بن عبدالعزیز، خلاس بن عمرو، یہ سب وہ حضرات ہیں جن کے فتاویٰ طلاقِ معلق کے وقوع پر نقل کئے گئے ہیں، اور ان کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں۔ بتائیے! ان کے علاوہ علمائے تابعین اور کون ہیں؟ پس یہ ہے صحابہ و تابعین کا دور، وہ سب کے سب وقوع کے قائل ہیں، ان میں سے ایک بھی اس کا قائل نہیں کہ صرف کفارہ کافی ہے۔

          اب ان دونوں زمانوں کے بعد والے حضرات کو لیجئے ان کے مذاہب مشہور و معروف ہیں، اور وہ سب اس قول کی صحت کی شہادت دیتے ہیں، مثلاً: اِمام ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ، ابوعبید، ابو ثور، ابن المنذر، ابنِ جریر، ان میں سے کسی کا بھی اس مسئلے میں اختلاف نہیں۔ اور ابنِ تیمیہ کو کسی تابعی کی طرف عدمِ وقوع کا فتویٰ منسوب کرنے کی قدرت نہ ہوئی، البتہ ابنِ حزم کی پیروی میں انہوں نے طاوٴس کی طرف اس کو منسوب کیا ہے، مگر ابنِ حزم خود طاوٴس سے اس کی روایت کرنے میں غلطی پر ہیں، اور ان کی پیروی کرنے والا ان سے بڑھ کر غلطی پر ہے۔ طاوٴس کا فتویٰ ”مکرہ“ کے بارے میں ہے، جیسا کہ خود مصنف عبدالرزّاق سے ظاہر ہوتا ہے، اور اسی کی طرف ابنِ حزم اس روایت کو منسوب کرتے ہیں، اور سننِ سعید اور مصنف عبدالرزّاق وغیرہ میں طاوٴس کا یہ فتویٰ بہ سندِ صحیح موجود ہے کہ ایسی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

          بعد کے دور میں بعض ظاہریہ کی اس مسئلے میں مخالفت اس اِجماع کی رُو سے باطل ہے جو ان سے پہلے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں منعقد ہوچکا تھا۔ اِجماع ایسا نہیں جس کی تصویرکشی ابنِ حزم اقوالِ صحابہ سے پھسل پھسل کر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ صحابہ ہی ہم تک دِین کے منتقل کرنے میں امین ہیں۔ علاوہ ازیں ظاہریہ، جو قیاس کی نفی کرتے ہیں، اہلِ تحقیق کے نزدیک ان کا کلام اجماع میں لائقِ شمار نہیں، اگرچہ ہر گری پڑی چیز کو اُٹھانے والا کوئی نہ کوئی مل ہی جاتا ہے۔

          ابوبکر جصاص رازی اپنے ”اُصول“ میں لکھتے ہیں:

          ”ان لوگوں کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں جو شریعت کے اُصول کو نہیں جانتے، اور قیاس کے طرق اور اجتہاد کے وجوہ کے قائل نہیں، مثلاً: داوٴد اصبہانی اور کرابیسی اور ان کی مثل دُوسرے کم فہم اور ناواقف لوگ، اس لئے کہ انہوں نے چند احادیث ضرور لکھیں مگر ان کو وجوہ نظر اور فروع و حوادث کو اُصول کی طرف لوٹانے کی معرفت حاصل نہیں تھی۔ ان کی حیثیت اس عامی شخص کی سی ہے جس کی مخالفت کا کچھ اعتبار نہیں، کیونکہ وہ حوادث کو ان کے اُصول پر مبنی کرنے سے ناواقف ہیں۔ اور داوٴد عقلی دلائل کی یکسر نفی کرتے تھے، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ: آسمانوں اور زمین میں اور خود ہماری ذات میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی توحید پر دلائل نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو صرف ”خبر“ کے ذریعہ پہچانا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے صحیح ہونے کی پہچان، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور مسیلمہ کذّاب وغیرہ جھوٹے مدعیانِ نبوّت کے درمیان فرق اور ان جھوٹوں کے جھوٹ کے علم کا ذریعہ بھی عقل اور ان معجزات، نشانات اور دلائل میں غور کرنا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قادر نہیں، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی معرفت سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے، پس جس شخص کی مقدارِ عقل اور مبلغ علم یہ ہو، اسے علماء میں شمار کرنا کیسے جائز ہے؟ اور اس کی مخالفت کا کیا اعتبار ہے؟ اور وہ اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا، کیونکہ یہ قول کہ: ”میں اللہ تعالیٰ کو دلائل سے نہیں پہچانتا“ اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ اللہ کو نہیں پہچانتا۔ پس وہ عامی سے بھی زیادہ ناواقف اور چوپائے سے بھی زیادہ ساقط ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کا قول اپنے زمانے کے لوگوں کے خلاف بھی لائقِ اعتبار نہیں، چہ جائیکہ متقدمین کے خلاف لائقِ اعتبار ہوتا۔ نیز ہم کہتے ہیں کہ: ہر وہ شخص جو اُصولِ سمع، طرقِ اجتہاد اور قیاسِ فقہی کے طرق کو نہیں جانتا اس کی مخالفت کا اعتبار نہیں، خواہ علومِ عقلیہ میں وہ کتنا ہی بلند پایہ ہو، ایسے شخص کی حیثیت بھی عامی کی سی ہے، جس کی مخالفت کسی شمار میں نہیں۔“

          اللہ تعالیٰ جصاص کو اہلِ علم کی جانب سے جزائے خیر عطا فرمائے، انہوں نے اس کم فہم جماعت کی حالت کو خوب ظاہر کردیا، اگرچہ ان کے بارے میں کچھ سختی کا لہجہ بھی اختیار کیا۔ جصاص ان لوگوں کی حالت کو دُوسروں سے زیادہ جانتے تھے، کیونکہ ان کے اِمام کا زمانہ جصاص کے قریب تھا، اور ان کے بڑے بڑے داعیوں کے تو وہ ہم عصر تھے، اور ان کی یہ دُرشتی اس بنا پر ہے کہ اللہ کے دِین کو جاہلوں کے ہاتھ کا کھلونا بنتے دیکھ کر آدمی کو غیرت آنی چاہئے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ”قولِ بلیغ“ کا حکم فرمایا ہے، اور جو شخص ان کے حق میں تساہل سے کام لیتا ہے وہ ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا، ہاں! دِین کو نقصان ضرور پہنچاتا ہے۔

          اِمام الحرمین نے بھی اس شدّت میں جصاص کی پیروی کی ہے، اور جس شخص کا یہ خیال ہے کہ اِمام الحرمین کا قول ابنِ حزم اور ان کے متبعین کے بارے میں ہے وہ تاریخ سے بے خبر ہے، کیونکہ اِمام الحرمین کے زمانے میں ابنِ حزم کا مذہب مشرق میں نہیں پھیلا تھا کہ ”ظاہریہ“ کے نام سے اس پر گفتگو کرتے۔

          البتہ جس شخص نے ابنِ حزم کے رَدّ میں دراز نفسی سے کام لیا ہے وہ ابوبکر بن عربی ہیں، چنانچہ وہ ”العواصم والقواصم“ (ج:۲ ص:۶۷ – ۹۱) میں ظاہریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

          ”یہ ایک کم فہم گروہ ہے، جو پھلانگ کر ایسے مرتبے پر جاپہنچا جس کا وہ مستحق نہیں تھا، اور یہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جس کو خود بھی نہیں سمجھتے، یہ بات انہوں نے اپنے خارجی بھائیوں سے حاصل کی ہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگِ صفین میں تحکیم کو قبول کرلیا تو انہوں نے کہا تھا: ”لا حکم اِلا لله“ بات سچی تھی مگر ان کا مدعا باطل تھا۔

          میں نے اپنے سفر کے دوران جو پہلی بدعت دیکھی وہ باطنیت کی تحریک تھی، جب لوٹ کر آیا تو دیکھا کہ ”ظاہریت“ نے مغرب کو بھر رکھا ہے، ایک کم فہم شخص جو اشبیلیہ کے کسی گاوٴں میں رہتا تھا، ابنِ حزم کے نام سے معروف تھا، اس نے نشو ونما اِمام شافعی کے مذہب سے متعلق ہوکر پائی، بعد ازاں ”داوٴد“ کی طرف اپنی نسبت کرنے لگا، اس کے بعد سب کو اُتار پھینکا، اور بذاتِ خود مستقل ہوگیا۔ اس نے خیال کیا کہ وہ اُمت کا اِمام ہے، وہی رکھتا اور اُٹھاتا ہے، وہی حکم کرتا اور قانون بناتا ہے، اور وہ اللہ کے دِین کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتا ہے جو دِین میں نہیں، اور لوگوں کو علماء سے متنفر کرنے اور ان پر طعن و تشنیع کی خاطر علماء کے ایسے اقوال نقل کرتا ہے جو انہوں نے ہرگز نہیں کہے۔“

          اس کے بعد ابن العربی نے ابنِ حزم کی بہت سی رُسوا کون باتیں ذکر کی ہیں، جن میں اربابِ بصیرت کے لئے عبرت ہے، اور وسعتِ علم، متانتِ دِین اور امانت فی النقل میں ابوبکر بن العربی کا جو مرتبہ ہے اس سے اناڑی جاہل ہی ناواقف ہوں گے۔

          اور حافظ ابوالعباس احمد بن ابی الحجاج یوسف اللبلی الاندلسی اپنی ”فہرست“ میں ابنِ حزم کے بارے میں لکھتے ہیں:

          ”اس میں شک نہیں کہ یہ شخص حافظ ہے، مگر جب اپنی محفوظات کو سمجھنے میں مشغول ہوا تو ان کے سمجھنے کی اسے توفیق نہیں ہوئی، کیونکہ جو چیز بھی اس کے خیال میں آجائے وہ اسی کا قائل ہوجاتا ہے۔ میرے اس قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ کوئی معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی ابنِ حزم کے اس قول کا قائل نہیں ہوسکتا کہ: قدرتِ قدیمہ محال کے ساتھ بھی متعلق ہوجاتی ہے۔“

          ابنِ حزم مسکین نے ”الفصل“ میں ”تعلق قدرت بالمحال“ کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ایسی شناعت ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی شناعت کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا، حافظ اللبلی نے اس کا اپنی فہرست میں بڑا واضح رَدّ کیا ہے، اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:

          ”ظنِ غالب یہ ہے کہ ابنِ حزم سے جو یہ کفرِ عظیم صادر ہوا اس سلسلے میں جو اقوال ہذیان، اَٹکل پچو اور بہتان کے قبیل سے اس کے قلم سے نکلے ان کا ثبوت بقائمی ہوش و حواس اور بسلامتیٴ عقل و صحتِ فہم اس سے نہیں ہوا، بسااوقات اس پر ایسے اخلاط کا غلبہ ہوجاتا تھا جس کے علاج سے سقراط و بقراط بھی عاجز تھے، ایسی حالت میں اس سے یہ حماقتیں اور ہذیانات صادر ہوتے تھے۔“

جنونک مجنون ولست بواحد

طبیبًا یداوی من جنون جنون

          ترجمہ:… ”تیرا جنون بھی مجنون ہے، اور تجھے ایسا طبیب میسر نہیں جو جنون کے جنون کا علاج کرسکے۔“

          بعد ازاں اللبلی نے بڑی تفصیل سے اِمام اشعری اور ان اصحاب کے بارے میں ابنِ حزم کے اقوال کا رَدّ کیا ہے، اور بہت سے اہلِ علم نے تصریح کی ہے کہ ابنِ حزم کا نسبی تعلق اشبیلیہ کے دیہات کے ان فارسی گنواروں (اعلاج) سے تھا جو بنو اُمیہ کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے ان کے موالی کی طرف منسوب ہوگئے تھے، اور جو شخص اپنے نسب کے بارے میں بھی سچ نہ بولتا ہو اس سے کسی اور بات میں سچ بولنے کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟ ابنِ حزم کو جس شخص نے علم میں اس کی حد پر ٹھہرایا وہ ابوالولید الباجی ہیں، جنھوں نے ابنِ حزم سے معروف مناظرے کئے۔ ابنِ حزم کے رَدّ میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ابوبکر ابن العربی کی ”النواہی عن الدواہی“ بہت اہم کتاب ہے، یہ ان کتابوں میں سے ہے جو چند سال قبل مغرب کی طرف منتقل ہوئیں، نیز اس سلسلے کی چند کتابیں یہ ہیں:

          ابوبکر ابن العربی کی ”الغرة فی الردّ علی الدرة“، ابوالحسین محمد بن زرقون الاشبیلی کی ”المعلی فی الردّ علی المحلی“ اور حافظ قطب الدین حلبی کی ”القدح المعلی فی الکلام علٰی بعض أحادیث المحلی“۔

۷:… کیا بدعی طلاق کا واقع ہونا صحابہ و تابعین کے درمیان اختلافی مسئلہ تھا؟

          موٴلفِ رسالہ لکھتے ہیں:

          ”بدعی طلاق اور بیک وقت تین طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے میں صحابہ کرام کے دور سے لے کر ہر زمانے میں اختلاف رہا ہے، اَئمہ اہلِ بیت ایسی طلاق کے واقع نہ ہونے کا فتویٰ دیتے تھے۔

          اور علمائے مصلحین مجتہدین ہر زمانے میں صحیح اور راجح قول کے مطابق فتویٰ دیتے رہے ہیں کہ طلاقِ بدعی باطل ہے اور یہ کہ تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تو ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض حضرات تو کھل کر حق کا اظہار کرتے اور علی الاعلان فتویٰ دیتے تھے، اور بعض حضرات عوام اور سیاست دانوں سے ڈَر کر ان کے مطابق فتویٰ دیتے تھے، یہاں تک کہ عظیم الشان مجدّد ․․․․․․ احمد بن تیمیہ اور ان کے جرأت مند شاگرد ابنِ قیم کھڑے ہوئے اور انہوں نے اللہ کے راستے میں جبر و تشدّد پر صبر کیا، اور وہ سب زبانِ حال سے کہہ رہے تھے:

          ”مجھے پروا نہیں، جبکہ میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جاوٴں، کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر کس پہلو پر میرا قتل ہوگا۔“

          اور ہمارے دور تک بہت سے علماء نے اس مسئلے میں ان کی پیروی کی۔“                      (ص:۸۸، ۸۹)

          میں کہتا ہوں کہ حیض میں دی گئی طلاق کا صحیح شمار کیا جانا ان احادیث میں مصرّح ہے جو پہلے گزر چکی ہیں، اور ابوالزبیر کی روایت کا وہ اضافہ، ”منکر“ ہے جس کے دامن میں خوارج و روافض کے چیلے پناہ لینا چاہتے ہیں، اِمام ابوداوٴد فرماتے ہیں کہ: ”تمام راویوں کی احادیث ابوالزبیر کے خلاف ہیں۔“ اور ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ: ”یہ روایت منکر ہے، ابوالزبیر کے سوا کوئی اس کو نقل نہیں کرتا، اور ابوالزبیر ان روایات میں بھی حجت نہیں جن میں اس کا کوئی ہم مثل اس کے خلاف روایت کرے، پس جب اس سے ثقہ تر راوی اس کے خلاف روایت کر رہے ہوں اس وقت وہ کیسے حجت ہوسکتا ہے؟“ اور ”التمہید“ کی جانب جو متابعات منسوب ہیں وہ باطل اسانید کے ساتھ ردّی قسم کے لوگوں سے مروی ہیں، اور حافظ ابنِ عبدالبر ایسے شخص نہیں جو متناقض بات کریں۔ اِمام خطابی کہتے ہیں کہ: ”اہلِ حدیث نے کہا ہے کہ ابوالزبیر نے اس سے بڑھ کر کوئی منکر روایت نہیں کی۔“ اِمام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ: ”یہ روایت غلط ہے۔“ پس ایسی روایت جو ان سب حضرات کے نزدیک ”منکر“ ہے، اس سے تمسّک کرنا ان کے لئے کیسے ممکن ہوگا؟

          علاوہ ازیں اس روایت میں وارِد شدہ اضافہ ”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کچھ نہیں سمجھا“ کو اگر صحیح بھی فرض کرلیا جائے تب بھی ان کے دعوے پر دلالت کرنے سے بمراحل بعید ہے، کیونکہ اس کی وہ صحیح توجیہات ہوسکتی ہیں جو اِمام شافعی، اِمام خطابی اور حافظ ابنِ عبدالبر نے کی ہیں، اور جن کو اپنے موقع پر ذکر کیا جاچکا ہے، کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص طلاق کا لفظ ادا کرے گا، اس کی آواز فضا میں محفوظ ہوجائے گی، اس لئے اس کے الفاظ تو ایک موجود شیٴ ہے، اس کی نفی بلحاظ صفت ہی کے ہوسکتی ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے، اور شوکانی کا یہ کہنا کہ: ”یہ نص ہے“ اس اَمر کی دلیل ہے کہ وہ بات کہنے کے لئے سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اور جس شخص نے ہماری سابق و لاحق تقریر کا احاطہ کیا ہو اسے ایک لحظہ کے لئے بھی تردّد نہیں ہوگا کہ موٴلفِ رسالہ کا قول یکسر باطل ہے، لیکن چند حضرات کی نسبت، جن کے اختلاف کی طرف موٴلف اشارہ کرنا چاہتے ہیں، دوبارہ گفتگو کرنا نامناسب نہ ہوگا، تاکہ جھوٹ کو اس کے گھر تک پہنچایا جاسکے۔

          ”طلاق خواہ طہر میں دی گئی ہو یا حیض میں، اور ایک دی گئی ہو یا دو تین، وہ بہر صورت واقع ہوجاتی ہے، فرق اگر ہے تو گناہ ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔“

          یہ فتویٰ ہم مندرجہ ذیل حضرات سے روایت کرچکے ہیں:

          حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سننِ سعید بن منصور میں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محلّٰی ابنِ حزم میں، حضرت علی اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہما سے سننِ بیہقی میں، حضرت ابنِ عباس، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن زبیر، حضرت عائشہ اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہم سے موٴطا اِمام مالک وغیرہ میں، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے سننِ بیہقی میں، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے منتقیٰ للباجی اور فتح القدیر لابن الہمام میں، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے معانی الآثار طحاوی میں، وغیرہ وغیرہ۔اور کسی صحابی سے ان کے خلاف فتویٰ منقول نہیں ہے۔ اِمام خطابی فرماتے ہیں: ”بدعی طلاق کے واقع نہ ہونے کا قول خوارج اور روافض کا ہے۔“ ابنِ عبدالبر کہتے ہیں: ”اس مسئلے میں صرف اہلِ بدعت اور اہلِ ہویٰ خلاف کرتے ہیں۔“ اور ابنِ حجر فتح الباری میں تین طلاق پر بحث کرنے کے بعد اس کے اخیر میں لکھتے ہیں: ”پس جو شخص اس اجماع کے بعد اس کی مخالفت کرتا ہے وہ اجماع کو پسِ پشت ڈالتا ہے اور جمہور اس پر ہیں کہ اتفاق کے بعد جو اختلاف کھڑا کیا جائے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔“ گویا حافظ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مدخول بہا پر اکٹھی تین طلاق کا واقع ہونا تحریمِ متعہ کی طرح اجماعی مسئلہ ہے، اور حافظ کا یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی رائے میں یہاں کوئی لائقِ اعتبار اختلاف نہیں، ورنہ وہ اپنی تحقیق کے خاتمے پر اس مسئلے میں اجماع کا دعویٰ نہ کرسکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے اس سے پہلے ابن التین کے اس قول پر کہ: ”وقوع میں اختلاف نہیں، اختلاف ہے تو صرف گناہ میں ہے“ جو یہ اعتراض کیا تھا کہ: ”وقوع میں اختلاف ابنِ مغیث نے الوثائق میں حضرت علی، ابنِ مسعود، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے، اور اسے محمد بن وضاح کی طرف منسوب کیا ہے ․․․․․․ اور ابن المنذر نے اسے ابنِ عباس کے شاگردوں مثلاً: عطاء، طاوٴس اور عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے“ ابنِ حجر کا یہ اعتراض صرف صورةً ہے، ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان چار صحابہ کرام سے اور ابنِ عباس کے ان تین شاگردوں سے کوئی ایسی چیز ثابت نہیں جو مسلکِ جمہور (یعنی مدخول بہا پر اکٹھی تین طلاقوں کے واقع ہونے) کے منافی ہو، اور اگر حافظ کو اپنی کتاب میں تمام اقوال کے جمع کرنے کی رغبتِ شدیدہ نہ ہوتی تو وہ اپنے آپ کو اس کی اجازت نہ دیتے کہ اس قسم کی ردّی نقول کا ڈھیر لگائیں، اور جب کوئی عالم اپنی ذات کو اتنی بلندی بھی عطا نہ کرسکے کہ وہ ابنِ مغیث ایسے آدمی سے بغیر کسی قید اور لگام کے ہر رُطب و یابس کو نقل کرتا جائے تو قبل اس کے کہ وہ اہلِ علم پر اپنی کثرتِ اطلاع کا رُعب ڈالے وہ اپنے چہرے کو سیاہ کرتا ہے، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس بات کے لئے پیش کرتا ہے کہ اسے ”حاطبِ لیل“ شمار کیا جائے۔ ابنِ حجر سے پہلے ابنِ مغیث کا یہ قول اُبیّ، شرح مسلم میں نقل کرچکے ہیں، لیکن طرر بن عات کے واسطے سے، اور طرر بن عات، مالکیہ کے نزدیک ضعف میں معروف ہے، پس یہ ان روایات کے بودا ہونے پر بمنزلہ نص کے ہے، اور اس بحث سے متعلق اُبیّ اور ابنِ حجر سے قبل ابنِ فرح نے ”جامع اَحکام القرآن“ میں ”وثائق ابنِ مغیث“ سے براہِ راست ایک صفحے کے قریب نقل کیا، اور ابنِ قیم اور ان کے متبعین نے اسی کتاب سے یہ جھوٹی روایات نقل کیں۔ اور ابنِ فرح کی یہ کتاب ”جامع اَحکام القرآن“ اس اَمر میں بطورِ خاص ممتاز ہے کہ اس میں ایسی کتابوں سے بکثرت نقول لی گئی ہیں جو آج کل متداول نہیں، مگر دِقتِ نظر، عمدگیٴ بحث اور علم میں تصرف اس کے نیک موٴلف کا فن نہیں، زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کرتا ہے وہ ہے ایک طرح کی سختی کے ساتھ، یا یوں کہئے کہ ایک طرح کے تعصب کے ساتھ اپنے مذہب سے تمسّک کرنا، اور اس ”جامع اَحکام القرآن“ میں، نیز اُبیّ کی شرح مسلم میں اس بحث میں وارِد شدہ اعلام میں بھی تصحیف ہوئی ہے۔

          رہا ابنِ مغیث، تو اس کا نام ابوجعفر احمد بن محمد بن مغیث طلیطلی ہے، ۴۵۹ھ میں ۵۳برس کی عمر میں اس کی وفات ہوئی، وہ نہ امانت فی النقل میں معروف ہے، اور نہ اپنے تفقہات میں فہم کی عمدگی سے متصف ہے، اور شاذ رائے کی تعلیل میں اس کا یہ قول کہ: ”تین کہنے کے کوئی معنی نہیں، کیونکہ اس نے خبر دی ہے ․․․․․“ اس اَمر کی دلیل ہے کہ اسے فہم و فقہ کا شمہ بھی نصیب نہیں، وہ ہر بدکردار مفتی کا کردار ادا کرتا ہے اور اس نے یہ روایات بغیر سند کے محمد بن وضاح کی جانب منسوب کی ہیں، جبکہ ان دونوں کے مابین طویل فاصلہ ہے۔ آخر اس میں ابنِ مغیث ایسے لوگوں پر اعتماد کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اندلس کے اہلِ علم ناقدین کے درمیان ابنِ مغیث جہل اور سقوطِ علمی میں ضرب المثل ہونے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، پھر آخر صحابہ کرام سے بغیر سند کے نقل کرنے کے سلسلے میں اس جیسا آدمی لائقِ ذکر کیسے ہوسکتا ہے؟

          ابوبکر ابن العربی نے ”العواصم والقواصم“ میں اس اَمر کا نقشہ کھینچا ہے کہ مغرب میں کس طرح مبتدعہ نے فقہاء کا منصب سنبھال لیا، یہاں تک کہ لوگوں نے جاہلوں کو اپنا سردار بنالیا، انہوں نے بغیر علم کے فتوے دئیے، پس خود بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی کیا، اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تعلیم کس طرح بگڑ گئی، ان اُمور کی تشریح کے بعد وہ لکھتے ہیں:

          ”پھر کہا جاتا ہے کہ فلاں طلیطلی نے یہ کہا ہے، فلاں مجریطی کا یہ قول ہے، ابنِ مغیث نے یہ کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی آواز کی فریاد رسی نہ کرے، اور نہ اس کی اُمید پوری کرے، پس وہ پچھلے پاوٴں لوٹے اور ہمیشہ پیچھے ہی کو لوٹتا جائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس گروہ کے ذریعہ احسان نہ فرمایا ہوتا جو دیارِ علم تک پہنچا اور وہاں سے علم کا مغز اور خلاصہ لے کر آیا (جیسے کہ ”الاصیلی“ اور ”الباجی“ پس انہوں نے ان مردہ قلوب پر علم کے آبِ حیات کے چھینٹے دئیے، اور گندہ دہن قوم کے انفاس کو معطر کیا) تو دِین مٹ چکا تھا۔“

          اور بعض مالکی اکابر کے سامنے وہ روایات ذکر کی گئیں جن کو لوگ ابنِ مغیث سے نقل کرتے ہیں تو فرمایا کہ: میں نے عمر بھر کبھی مرغی بھی ذبح نہیں کی، لیکن جو شخص اس مسئلے میں جمہور کی مخالفت کرتا ہے، مراد ابنِ مغیث تھا، میں اس کو ذبح کرنے کی رائے رکھتا ہوں۔

          صحابہ کرام سے قابلِ اعتماد نقل کے مواضع صرف صحاحِ ستہ اور باقی سنن، جوامع، مسانید، معاجم اور مصنفات وغیرہ ہیں، جن میں کوئی قول سند کے بغیر نقل نہیں کیا جاتا، ان کتابوں میں زیرِ بحث مسئلے میں جمہور کے خلاف کوئی روایت ان صحابہ کرام سے کہاں مروی ہے؟ حضرت علی بن ابی طالب کرّم اللہ وجہہ سے بہ سندِ صحیح منقول ہے کہ ایک شخص نے ہزار طلاقیں دی تھیں، آپ نے اس سے فرمایا: ”تین طلاقیں اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں“ یہ روایت بیہقی نے سنن میں اور ابنِ حزم نے محلّٰی میں وکیع، عن الاعمش، عن حبیب بن ابی ثابت عن علی کی سند سے ذکر کی ہے۔ جیسا کہ ان کا یہی فتویٰ ان کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں نقل کیا ہے جس نے تین مبہم طلاقیں دی تھیں، یہ روایت بہ سندِ صحیح وارِد ہے، جیسا کہ ابنِ رجب نے کہا ہے۔ نیز ”حرام“ اور ”البتہ“ کے بارے میں ان کا فتویٰ متعدّد طرق سے مروی ہے کہ ان الفاظ سے تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں، اور جن لوگوں نے اس کے خلاف آپ کی طرف منسوب کیا ہے وہ صرف اس مقصد کے لئے منسوب کیا ہے کہ اس کے ذریعہ طلاق کے مسئلے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر طعن کیا جاسکے۔ اور جو روایت ابنِ رجب نے اعمش سے نقل کی ہے، جو پہلے گزر چکی ہے، اس میں عبرت ہے، اسی طرح حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی بہ نقلِ صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے یہی فتویٰ دیا، جیسا کہ مصنف عبدالرزّاق اور سننِ بیہقی وغیرہ میں ہے، اور یہ سب پہلے گزر چکا ہے، اور فقہائے عراق اور عترت طاہرہ جو حضرت زید بن علی کے اصحاب ہیں، وہ اہلِ علم میں سب سے زیادہ ان دونوں اکابر (یعنی حضرت علی اور حضرت ابنِ مسعود) کے متبع ہیں، ان دونوں فریقوں کا مذہب ان دونوں بزرگوں کے مطابق ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

          اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض الوفات میں اپنی کلبیہ بیوی کے بارے میں جو کچھ کیا تھا، اس کے خلاف ان سے کہاں ثابت ہے؟ ابنِ ہمام ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اس بیوی کو مرض الوفات میں تین طلاقیں دے دی تھیں، اس واقعہ کی روایات یہ ہیں:

          ۱:… بروایت حماد بن سلمہ عن ہشام بن عروة عن ابیہ۔

(المحلّٰی ج:۱۰ ص:۲۲۰)

          ۲:… عبدالرزّاق عن ابنِ جریج عن ابنِ ابی ملیکہ عن ابن الزبیر۔

          ۳:… ابوعبید عن یحییٰ بن سعید القطان عن ابنِ جریج عن ابن الزبیر۔

(المحلّٰی ج:۱۰ ص:۲۲۳)

          ۴:… معلی بن منصور عن الحجاج بن ارطاة عن ابنِ ابی ملیکہ عن ابن الزبیر۔

(المحلّٰی ج:۱۰ ص:۲۲۹)

          اور ابن ارطاة نے یہاں نہ شذوذ اختیار کیا ہے نہ کسی راوی کی مخالفت کی ہے، بلکہ لفظ ”ثلاثا“ میں اس کا متابع موجود ہے، اور اِمام مسلم اس سے متابع کے ساتھ روایت کرتے ہیں، اور یہ آئندہ بحث کے قبیل سے نہیں۔

          اور موٴطا وغیرہ میں جو یہ واقعہ لفظ ”البتہ“ اور اس کی مثل کے ساتھ منقول ہے وہ بھی ان تصریحات کی بنا پر تین طلاق پر محمول ہے، اور اگر طرقِ صحیحہ کے ساتھ تین طلاق کی تصریح نہ آتی تو لفظ ”البتہ“ کی روایت میں احتمال تھا کہ اس سے تین طلاق مراد ہوں، اور یہ بھی احتمال تھا کہ تین میں سے آخری طلاق مراد ہو۔ جیسا کہ اِمام ربیعہ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ یہ طلاق عورت کے مطالبے پر دی گئی تھی، یہی رائے قائم کی ہے، لیکن چونکہ طلاق دہندہ کے قصد میں ان دونوں احتمالوں کو جمع کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ دونوں آپس میں متنافی ہیں، اس لئے اس کو اقل پر محمول کرنا ضروری تھا، اور وہ ہے تین میں سے آخری طلاق ہونا، چنانچہ اِمام نافع نے بطور رائے کے، نہ کہ روایت کے، یہی کیا۔ اس تأویل کی ضرورت ان دونوں بزرگوں کو اس بنا پر پیش آئی کہ ان کو وہ تصریحات نہیں پہنچی تھیں جو ہم نے ذکر کی ہیں، اور اسی سے وہ خلل ظاہر ہوجاتا ہے جو زرقانی اور مولانا عبدالحی لکھنوی کے کلام میں ہے۔

          اور اگر ہم فرض کرلیں کہ حضرت نافع کا قول بطور روایت ہے تو نافع نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا، کیونکہ نافع کی وفات ۱۲۰ھ میں ہوئی جبکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا انتقال ۳۲ ھ میں ہوا، تو ان کی یہ مقطوع روایت کیسے صحیح ہوسکتی ہے؟ اور یہ روایت کہ انہوں نے تین طلاق دی تھیں وہ ایسے رجال سے ثابت ہے جو پہاڑ کی مانند ہیں، جیسا کہ ابھی گزرچکا، اور کوئی عبدالرحمن بن عوف کی طرف وہ بات سند کے ساتھ منسوب نہیں کرتا جو جمہور صحابہ کے مسلک یعنی تین طلاق کے وقوع کے خلاف ہو، حتیٰ کہ جو حضرات یہ رائے رکھتے ہیں کہ تین طلاق بیک وقت دینے میں کوئی گناہ نہیں وہ ابنِ عوف کے اسی فعل سے استدلال کرتے ہیں، جیسا کہ ابنِ ہمام کی فتح القدیر میں ہے۔ اس تحقیق سے واضح ہوا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ٹھیک وہی مسلک ہے جو جمہور صحابہ کا ہے، کہ تین طلاق کا بیک وقت واقع کرنا صحیح ہے۔

          رہے حضرت زبیر! تو ان کا مسلک جمہور صحابہ کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ ان کے صاحب زادے حضرت عبداللہ ان کو ساری دُنیا سے زیادہ جانتے ہیں اور ان سے جب یہ مسئلہ دریافت کیا گیا کہ آیا باکرہ کو تین طلاق دینا صحیح ہے؟ تو سائل سے فرمایا: ہمارا اس میں کوئی قول نہیں، ابنِ عباس اور ابوہریرہ کے پاس جاوٴ، ان سے دریافت کرو، پھر آکر ہمیں بھی بتاوٴ۔ ان دونوں حضرات نے جواب دیا کہ ایک طلاق اس کو بائن کردے گی اور تین طلاق اسے حرام کردیں گی، یہاں تک کہ وہ کسی دُوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ یہ واقعہ موٴطا اِمام مالک میں ”طلاق البکر“ کے زیرِ عنوان مذکور ہے۔ اب اگر ابنِ زبیر کو اپنے والد کا یہ فتویٰ معلوم تھا کہ مدخول بہا کو دی گئی تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں تو اس موقع پر وہ اس علم کا اظہار کرنے سے گریز نہ کرتے، کیونکہ جب مدخول بہا کا حکم یہ ہے کہ تو غیر مدخول بہا کا بدرجہ اَوْلیٰ یہی حکم ہوگا، اور غیرمدخول بہا کی طلاق میں اہلِ علم کا اختلاف معروف ہے۔

          اور محمد بن وضاح اندلسی کی طرف جو اس مسئلے میں شذوذ منسوب کیا جاتا ہے اگر یہ نسبت صحیح بھی ہو تو اس کی آخر کیا قیمت ہے؟ یہ وہی صاحب ہیں جن کے بارے میں حافظ ابوالولید بن الفرضی کہتے ہیں کہ: ”وہ فقہ و عربیت سے جاہل تھا، بہت سی صحیح احادیث کی نفی کرتا تھا۔“ پس ایسا شخص بمنزلہ عامی کے ہے، خواہ اس کی روایت بکثرت ہو، اور اس طلیطلی اور اس مجریطی جیسے مہمل لوگوں کی رائے میں مشغول ہونا اس شخص کا کام ہے جس کے پاس کوئی اور کام نہ ہو، اس لئے ہم ہر حکایت کردہ رائے کی تردید میں مشغول نہیں ہونا چاہتے، اور اِمام نخعی کی جانب جو روایت منسوب کی جاتی ہے اس کا جھوٹ ہونا پہلے گزر چکا ہے، اور محمد بن مقاتل رازی اس شذوذ سے اہلِ علم میں سب سے بعید تر ہے۔

          اور ابنِ حجر نے ابن المنذر کی جانب جو منسوب کیا ہے کہ انہوں نے یہ مسئلہ عطاء، طاوٴس اور عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے، تو یہ کھلا ہوا سہو ہے، اس لئے کہ ان تینوں اکابر کا یہ فتویٰ غیرمدخول بہا کے بارے میں ہے، جیسا کہ منتقیٰ للباجی (ج:۴ ص:۸۳) اور محلّٰی ابنِ حزم (ج:۱۰ ص:۱۷۵) میں ہے، اور ہماری بحث غیرمدخول بہا کے بارے میں نہیں، اور سننِ سعید بن منصور میں بروایت ابنِ عیینہ عن عمرو بن دینار، عطا اور جابر بن زید سے مروی ہے کہ: ”جب غیرمدخول بہا کو تین طلاقیں دی جائیں تو ایک ہوگی“ لیکن مدخول بہا کو تین طلاق بیک وقت دینے میں ان کا قول ٹھیک ٹھیک جمہور کے مطابق ہے، اور پہلے گزر چکا ہے کہ تین طلاق کے بیک وقت واقع ہونے کا فتویٰ ہم حضرت ابنِ عباس سے بروایت عطا و عمرو بن دینار، اِمام محمد بن حسن الشیبانی کی کتاب الآثار اور اسحق بن منصور کے ”مسائل“ میں روایت کرچکے ہیں، جیسا کہ ہم کرابیسی کے حوالے سے یہ بھی نقل کرچکے ہیں کہ طاوٴس کے صاحب زادے نے اس کی تکذیب کی ہے کہ ان کے والد (طاوٴس) تین طلاق کے ایک ہونے کے قائل تھے۔ پھر ابن المنذر خود ہی اس مسئلہ کو ”اجماع“ پر مرتب کردہ اپنی کتاب میں، مسائلِ اجماع میں شمار کرتے ہیں، اب یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں اختلاف بھی نقل کریں؟ اور ہم قارئینِ کرام کو عقیلی اور مسلمہ بن القاسم اندلسی کا قول ابن المنذر کے بارے میں یاد دِلانا پسند نہیں کرتے، کیونکہ مسئلہ بالکل واضح اور روشن ہے، اور دائرہٴ بحث کو مزید پھیلانے سے مستغنی ہے۔

          اور ابنِ حجر نے اپنے بعض شاگردوں کی فرمائش پر فتح الباری میں تین طلاق کے مسئلے میں کسی حد تک وسیع بحث ضرور کی ہے، مگر انہیں بحث و تمحیص کا حق ادا کرنے میں نشاط نہیں ہوا، جس کا اس کے مثل سے انتظار کیا جاتا تھا، بلکہ ان کے کلام میں کئی گوشوں میں خلل نمایاں ہوتا ہے، اور وہ اس میں معذور ہیں، کیونکہ ایسی بحث جس میں ایک مدّت سے مشاغبہ پردازوں کا مشاغبہ جاری ہو، ایک خاص نشاط کے وقت میں اس موضوع پر مستقل تألیف کی فرصت کا متقاضی ہے، اور ان کے کلام میں جو خلل واقع ہوا ہے ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں، لیکن آخرِ بحث میں ان کا یہ فقرہ کافی ہے:

          ”پس اس اجماع کے بعد جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ اجماع کو پسِ پشت ڈالتا ہے، اور جمہور اس پر ہیں کہ اتفاق کے بعد جو اختلاف کھڑا کیا جائے وہ لائقِ اعتبار نہیں۔“

          پس انہوں نے ٹھیک ٹھیک تحریمِ متعہ کی طرح اس مسئلے کو بھی اجماعی شمار کیا ہے، اس لئے ان کے نتیجہٴ بحث نے ان کے گزشتہ خلل کی اصلاح کردی ہے۔

          اور عجیب بات ہے کہ موٴلفِ رسالہ صفحہ:۹۱ پر لکھتے ہیں:

          ”ان کو (ابنِ حجر کو) حکم کیا گیا کہ ابنِ تیمیہ اور ان کے انصار کے رَدّ میں لکھیں، اور یہ اشارہ ایک زبردست سیاسی سازش کی بنا پر تھا، اس لئے انہیں حکم کی اطاعت کرتے ہی بنی، چنانچہ وہ خاتمہٴ بحث میں لکھتے ہیں: اور میں نے اس موضوع میں بعض حضرات کی فرمائش پر دراز نفسی سے کام لیا ہے، والله المستعان۔“

          گویا موٴلفِ رسالہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حافظ اس مسئلے میں دُوسری جانب مائل تھے، مگر وہ اپنے مسلک کے اظہار سے خائف تھے، اور موٴلف کی رائے میں حافظ کی قیمت یہ تھی کہ وہ اپنے فتووں اور فیصلوں میں حکام کے اَحکام کی تعمیل کیا کرتے تھے، اور ان کی ہم نوائی کیا کرتے تھے ․․․نعوذ باللہ․․․ اور یہ بیک وقت حافظ کے حق میں بھی اور اس دور کے حکام کے حق میں سوءِ ادب بھی ہے اور تاریخ سے ناواقفیت بھی۔ حالانکہ ابنِ حجر سے ایک مدّت پہلے ابنِ تیمیہ کے افکار کی قبر علمائے اہلِ حق کے ہاتھوں کھودی جاچکی تھی، اور ابنِ حجر وہی ہیں جنھوں نے کتاب ”الردّ الوافر“ کی تقریظ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی مرضی کے مطابق لکھی، اور حکام قضاء و افتاء کے معاملات میں مداخلت نہیں کیا کرتے تھے، پس جس زمانے میں ابنِ حجر تألیف میں مشغول تھے اس دور کے حکام کی رَوِش کا اگر موٴلف نے مطالعہ کیا ہوتا تو اسے اپنی کہانت کی غلطی کا اندازہ اور اپنی اُلٹی رائے کا درجہ معلوم ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت میں رکھیں۔ اور ابنِ حجر کو ایک بار نہیں بلکہ بہت مرتبہ اس کا اتفاق ہوا کہ انہوں نے اپنے شاگردوں کی فرمائش پر تألیف کی، یا کسی مسئلے کی تشریح میں وسیع بحث کی، اور ایسے مواقع پر وہ لکھا کرتے ہیں: ”میں نے بعض احباب کی التماس پر تألیف کی، یا شرح لکھی“ جیسا کہ ان لوگوں پر یہ بات مخفی نہیں جنھوں نے ابنِ حجر کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔اگر یہ حکم کسی حاکم کی طرف سے ہوتا تو اس دور کی عام رَوِش کے مطابق یہ لکھا جاتا: ”میں نے اس مسئلے میں توسع کیا بوجہ اس شخصیت کے حکم کے، جس کی طاعت غنیمت ہے، اور جس کا اشارہ حکمِ قطعی ہے“ وغیرہ۔

          اور ابنِ اسحاق اور ابنِ ارطاة کی رائے معتد بہ آراء میں سے نہیں، کیونکہ ابنِ اسحاق اَئمہ فقہ میں سے نہیں، وہ ایک اخباری آدمی ہے جس کا قول مغازی میں شرائط کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے، اور اس کے بارے میں اہلِ نقد کے اقوال پہلے گزرچکے ہیں، علاوہ ازیں جو لفظ اس کی جانب منسوب کیا گیا وہ اس رائے میں صریح نہیں جو اس کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

          رہا ابنِ ارطاة! تو اس کے بارے میں عبداللہ بن ادریس کا کہنا یہ ہے کہ: ”میں اسے دیکھا کرتا تھا کہ وہ بیٹھا جوئیں مار رہا ہے، پھر وہ المہدی کے پاس گیا، واپس آیا تو لدے ہوئے چالیس اُونٹ ساتھ تھے۔“ جیسا کہ کامل ابنِ عدی میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بصرہ کے قاضیوں میں یہ پہلا شخص تھا جس نے رشوت لی، المہدی کے دور میں منصبِ قضا پر فائز ہونے کے بعد وہ بہت امیر ہوگیا تھا، جبکہ اس سے قبل اسے فاقہ کاٹ کھاتا تھا، اور اس کے پاس عجیب کبر اور سرگردانی تھی، وہ داوٴد طائی کے طرز پر سرگرداں تھا، ضعفاء سے تدلیس کیا کرتا تھا، اہلِ جرح کا کلام اس کے بارے میں بہت ہے، ایسے شخص کی روایت اس وقت ہی قبول کی جاسکتی ہے جبکہ ثقہ ثبت راویوں کے خلاف نہ ہو، اور قبول بھی مقارن اور متابع کے ساتھ کی جاتی ہے۔

          یہ تو اس کی روایت کا حال تھا، اب رہی اس کی رائے، تو رائے کے لائق شمار ہونے کے لئے جو شروط مقرّر ہیں ان کے مطابق اس کی رائے کسی شمار کے لائق نہیں، علاوہ ازیں جو قول اس سے منسوب کیا جاتا ہے وہ مجمل ہے، اور جس رائے کو اس سے منسوب کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے اس میں صریح نہیں، بہت ممکن ہے کہ اس کی مراد یہ ہو کہ تین طلاق ایسی چیز نہیں جو سنت کے مطابق ہو، بہرحال ابنِ اسحاق سے یا ابنِ ارطاة سے اس مسئلے میں کوئی صریح لفظ منقول نہیں۔

          علاوہ ازیں ابنِ حزم ”المحلّٰی“ میں حجاج بن ارطاة کے طریق سے بہت سی روایات ذکر کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں: ”یہ صحیح نہیں، کیونکہ اس کی سند میں حجاج بن ارطاة ہے“ بلکہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

          ”حجاج بن ارطاة ہالک ساقط ہے، اس کی روایت لے کر وہی شخص اعتراض کرسکتا ہے جو پرلے درجے کا جاہل ہو، یا کھلے بندوں باطل کا پرستار، جو اس کے ذریعہ جھگڑا کرکے حق کو مٹانا چاہتا ہے، حالانکہ یہ اس کے لئے نہایت بعید ہے، جو شخص ایسا کرتا ہے وہ اپنے عیب، جہل اور قلتِ ورع کے اظہار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا، ونعوذ بالله من الضّلال!“

          اب دیکھئے! ایک طرف تو ہمارے موٴلف صاحب ابنِ حزم پر لٹو ہیں، اور دُوسری طرف وہ اسی ابنِ ارطاة کو ان فقہائے مجتہدین کی صف میں شامل کرتے ہیں، جن کے قول پر اعتماد کیا جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔ اور بعض لوگوں نے ان حضرات کے علاوہ بھی بعض اور لوگوں کا نام ذکر کیا ہے، جن کی طرف اسی قسم کا قول منسوب کیا گیا ہے، مگر یہ نسبت بغیر سند کے جھوٹ ہے، اور بعض نے ان کے نقل کرنے میں تساہل سے کام لیا ہے، لیکن جو بات بلاسند نقل کی گئی ہو، ہم اس کی تردید سے بے نیاز ہیں۔

          اور اجماع کا مطلب یہ نہیں کہ اُمت میں کوئی بھی ایسا شخص نہ پایا جائے جس نے غلطی نہ کی ہو، اور ایسی بات نہ کہی ہو جو جمہور کے خلاف ہو، بلکہ اجماع سے ان مجتہدین کا اجماع مراد ہے جن کی اِمامت فی الفقہ اور اِمامت فی الدین مُسلّم ہے۔ رہے منکرینِ قیاس! تو وہ اہلِ استنباط ہی میں سے نہیں کہ ان کی مخالفت کو لائقِ شمار ٹھہرایا جائے۔ اس لئے مسائلِ اِجماعیہ میں محققین کے نزدیک ظاہریہ کی کوئی حیثیت نہیں، جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ باقی رہے روافض اور اِمامیہ میں سے وہ لوگ جو روافض کے فریب خوردہ ہیں، ان کی مخالفت کا بھی کوئی اعتبار نہیں، اجماع پر بحث کرتے ہوئے ہم اس کی کچھ مزید تفصیل آئندہ ذکر کریں گے۔ اور جو شیعہ، کہ حضرت جعفر بن محمد الصادق کی پیروی کے مدعی ہیں، تین طلاق بلفظِ واحد کے سلسلے میں ان کے خلاف خود اس اِمامِ جلیل کا قول حجت ہے، جس کو ہم سننِ بیہقی کے حوالے سے پہلے نقل کرچکے ہیں، اور جو شخص جمہور اہلِ بیت کی طرف اس کے خلاف منسوب کرتا ہے وہ دروغ باف گنہگار ہے، اور جو کتابیں عترتِ طاہرہ کے مذہب میں مدوّن کی گئی ہیں، اگر انہی سے نقل کرنا ضروری ہو تو لیجئے: ”الروض النضیر فی شرح المجموع الفقھی الکبیر“ موجود ہے، اور وہ ”النجم الحلی“ جیسے لوگوں کی کتابوں سے زیادہ لائقِ اعتماد ہے، بوجہ اس عظیم فرق کے جو ان کی اور ان کی کتابوں کے درمیان ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے، اور جس شخص کا سینہ اس کلام کو قبول کرنے کے لئے فراخ ہو، جو ”منھج المقال“، ”روضات الجنات“ اور ”الاستقصا“ میں جمہور کے رجال پر کیا گیا ہے، تو جو چاہے ان سے نقل کرتا رہے، اہلِ سنت کو اس کی نقل کی کیا پروا ہے! اور منقول میں کلام تو فرع ہے رجال میں کلام کی، والله سبحانہ ھو الھادی!

          الروض النضیر ج:۴ ص:۱۳۷ میں ہے کہ:

          ”تین طلاق بلفظِ واحد کا واقع ہونا جمہور اہلِ بیت کا مذہب ہے، جیسا کہ محمد بن منصور نے ”الامالی“ میں اپنی سندوں کے ساتھ اہلِ بیت سے نقل کیا ہے، اور ”الجامع الکافی“ میں حسن بن یحییٰ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، علی علیہ السلام سے، علی بن حسین سے، زید بن علی سے، محمد بن علی باقر سے، محمد بن عمر بن علی سے، جعفر بن محمد سے، عبداللہ بن حسن سے، محمد بن عبداللہ سے اور اہلِ بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چیدہ حضرات سے اس مسئلے کو روایت کرچکے ہیں۔ حسن نے مزید کہا کہ: آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اِجماع کیا ہے کہ جو شخص ایک لفظ میں تین طلاق دے اس پر اس کی بیوی حرام ہوجائے گی، خواہ شوہر اس سے صحبت کرچکا ہو یا نہیں، اور بحر میں یہی مذہب ابنِ عباس، ابنِ عمر، عائشہ، ابوہریرہ، علی کرّم اللہ وجہہ، ناصر، موٴید، یحییٰ، مالک اور بعض اِمامیہ سے نقل کیا ہے۔“

          لہٰذا اس بیانِ صریح کے بعد اہلِ بیت کی طرف یہ منسوب کرنا غلط ہے کہ وہ تین طلاق کے واقع نہ ہونے کا فتویٰ دیتے تھے۔ اور اگر موٴلفِ رسالہ یہ چاہتے ہیں کہ اسماعیلی مذہب کو اس کی قبر سے اُکھاڑ کر مصر میں دوبارہ کھڑا کردیں تو ہمیں اس کے ساتھ مناقشہ کی ضرورت نہیں۔ اور ابنِ تیمیہ اور ان کی جرأت مند شاگرد ابنِ قیم کے بارے میں موٴلف کا یہ کہنا کہ انہوں نے اس مسئلے کا اعلان کرکے جہاد فی سبیل اللہ کیا، یہ ایسی بات ہے کہ ہم اسے چھیڑنا نہیں چاہتے تھے، اگر موٴلفِ رسالہ نے ان کی شان کو بڑھا چڑھاکر پیش نہ کیا ہوتا، لہٰذا نامناسب نہ ہوگا اگر ان دونوں صاحبوں کی بعض لائقِ گرفت باتوں کی طرف اشارہ کردیا جائے (یہاں مصنف نے حافظ ابنِ تیمیہ، ابنِ قیم، شوکانی، محمد بن اسماعیل الوزیر اور نواب صدیق حسن خان پر شدید تنقید کی ہے، جسے ترجمے میں حذف کردیا گیا)۔

۸:… وہ اجماع جس کے علمائے اُصول قائل ہیں

          موٴلفِ رسالہ صفحہ:۱۰۰ پر لکھتے ہیں:

          ”جس اجماع کا دعویٰ اہلِ اُصول کرتے ہیں اس کی حقیقت ایک خیال کے سوا کچھ نہیں۔“

          اور صفحہ:۸۸ پر لکھتے ہیں:

          ”خود اجماع کی کسی مقبول تعریف پر علماء کی رائے متفق نہیں ہوسکی، اور یہ کہ اس سے استدلال کیسے کیا جائے اور کب کیا جائے؟“

          یہ بات کسی ایسے شخص سے صادر نہیں ہوسکتی جو اپنی کہی ہوئی بات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ موٴلف کی یہ بات اگر کسی چیز پر دلالت کرتی ہے تو صرف اس بات پر کہ اس نے اُصولِ فقہ نہیں پڑھا، حتیٰ کہ ”مرآة الاصول“ اور ”تحریر الاصول“ جیسی کتابیں بھی کسی ماہر سے نہیں پڑھیں، کتاب بزدوی اور اس کے شروح کی تو کیا بات ہے؟ اور نہ اس نے بدر زرکشی کی ”بحر“ اور الاتقانی کی ”الشامل“ ہی کا مطالعہ کیا ہے، کجا کہ اسے دبوسی کی ”تقویم“، سمرقندی کی ”میزان“ اور ابوبکر رازی کی ”فصول“ کے مطالعے کا اتفاق ہوا ہو۔ اور وہ نہ الباجی کی ”فصول“ پر مطلع ہے، نہ ابوبکر ابن العربی کی ”محصول“ پر، بلکہ اس نے قرافی کی ”تنقیح“ دیکھی ہے، نہ اِمام شافعی کا ”الرسالہ“، نہ ابنِ جوینی کی ”برہان“، نہ ابنِ سمعانی کی ”قواطع“، نہ غزالی کی ”مستصفیٰ“ نہ ابوالخطاب کی ”تمہید“، نہ موفق کی ”روضہ“، نہ طوفی ”مختصر روضہ“، نہ قاضی عبدالجبار کی ”عمد“، اور نہ ابوالحسین بصری کی ”المعتمد“، بلکہ اس نے اس خطیر علم کے حصول میں صرف شوکانی اور قنوجی کے رسالوں کی ورق گردانی پر اکتفا کیا ہے، جبکہ یہ دونوں صاحب دورِ اخیر میں مسائل میں خبط در خبط کے اُستاذ تھے۔ اور لطف یہ کہ ایسا شخص اِجماع کے بارے میں اپنی قائم کردہ رائے کے لئے اَحکام ابنِ حزم پر اپنی تعلیقات کا حوالہ دیتا ہے، اگر اس بہادر موٴلف نے اس علم کی کوئی کتاب پڑھی ہوتی تو اسے معلوم ہوجاتا کہ جو شخص اپنے لنگڑے پاوٴں تلے ان کتابوں کو روندتا ہے اسے یہ حق حاصل نہیں کہ اندھی اُونٹنی کی طرح اُلٹے سیدھے پاوٴں رکھے۔

          کیا اس مدعی کو معلوم نہیں کہ اجماع کی حجیت پر تمام فقہائے اُمت متفق ہیں اور انہوں نے اس کو کتاب و سنت کے بعد تیسری دلیلِ شرعی شمار کیا ہے؟ حتیٰ کہ ظاہریہ، فقہ سے بُعد کے باوجود، اجماعِ صحابہ کی حجیت کے معترف ہیں، اور اسی بنا پر ابنِ حزم کو اکٹھی تین طلاق کے وقوع سے انکار کی مجال نہ ہوسکی، بلکہ انہوں نے اس مسئلے میں جمہور کی پیروی کی، بلکہ بہت سے علماء نے یہ تک کہا ہے کہ اجماعِ اُمت کا مخالف کافر ہے، یہاں تک کہ مفتی کے لئے یہ شرط ٹھہرائی گئی ہے کہ وہ کسی ایسے قول پر فتویٰ نہ دے جو علمائے متقدمین کے اقوال کے خلاف ہو، اسی بنا پر اہلِ علم کو مصنف ابنِ ابی شیبہ اور اجماع ابن المنذر ایسی کتابوں سے خاص اعتنا رہا، جن سے صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے درمیان مسائل میں اتفاق و اختلاف کے مواقع واضح ہوسکیں، رضی اللہ عنہم۔

          اور دلیل سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ اُمت خطا سے محفوظ ہے، اور لوگوں پر شاہدِ عدل ہے، شاعر کہتا ہے کہ:

          ترجمہ:… ”یہ حضرات اہلِ اعتدال ہیں، مخلوق ان کے قول کو پسند کرتی ہے، جب کوئی رات پیچیدہ مسئلہ لے کر آئے۔“

          اور یہ کہ یہ اُمت، خیرِ اُمت ہے، جو لوگوں کے لئے کھڑی کی گئی، اس اُمت کے لوگ معروف کا حکم کرتے ہیں اور ”منکر“ سے روکتے ہیں۔ اور یہ کہ جو شخص ان کا پیرو ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رُجوع کرنے والوں کے راستے کا پیرو ہے، اور جو شخص ان کی مخالفت کرے وہ سبیل الموٴمنین سے ہٹ کر چلتا اور علمائے دِین سے مقابلہ کرتا ہے۔

          نہ جانے ذہن و فکر میں یہ خود رائی کہاں سے آئی؟ اور اس زمانے کے نام نہاد فقہاء کے ذہنوں میں یہ مہلک زہر کیسے پھیل گیا؟

          اپنے دور کے شیخ الفقہاء شیخ محمد بخیت مطیعی، جن کی وفات ۸۳ برس کی عمر میں ۲۱/رجب ۱۳۵۴ھ کو بعد از عصر ہوئی۔ ان کی وفات سے تھوڑی مدّت پہلے ان کے مکان پر مجھے ایک عالم سے ملاقات کا اتفاق ہوا، اُستاذِ کبیر شیخ محمد بخیت ابھی نیچے تشریف نہیں لائے تھے، ان صاحب سے گفتگو تین طلاق بلفظِ واحد کی طرف چل نکلی، میں نے وہ صحیح احادیث پڑھنا شروع کیں جو اس مسئلے میں صحابہ کرام سے ثابت ہیں، اور یہ بھی بتایا کہ اس کے خلاف کسی صحابی کا قول ثابت نہیں۔ ان عالم صاحب نے طاوٴس کی حدیث ذکر کی، میں اس کی عللِ معروفہ ذکر کرنے لگا، وہ صاحب بولے: آپ تو اس مسئلے میں ”اجماع“ سے استدلال کر رہے ہیں، حالانکہ اجماع کی حجیت، اس کے امکان، اس کے وقوع، اس کے علم کے امکان اور اس کی نقل کے امکان میں بحث ہے۔ میں نے عرض کیا کہ: میں جانتا ہوں کہ یہ بات حرف بحرف کس نے کہی ہے؟ لیکن میں اجماع کے بارے میں اپنے مخاطب کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے ساتھ گفتگو کرسکوں۔ ان صاحب کا رنگ بدل گیا، بولے: ہمارا اِمام کتاب اللہ ہے اور وہ ہمیں اس کے ماسوا سب چیزوں سے مستغنی کردیتی ہے، یہ کہہ کر وہ ارشادِ خداوندی: ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ“ پڑھنے لگے۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! آپ اس آیت سے اپنے دعوے پر استدلال کرتے ہیں، حالانکہ اِمام بخاری نے اسی آیت سے تین طلاق کے جمع کرنے پر استدلال کیا ہے، کیونکہ ”مَرَّتَان“ کا لفظ دو کے ہم معنی اعتبار کیا جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کے ارشاد: ”نُوٴْتِھَا اَجْرَھَا مَرَّتَیْنِ“ میں یہ لفظ اثنین (دو) کے ہم معنی ہے، اسی طرح ابنِ حزم نے اور بخاری کے بہت سے شارحین نے، مثلاً کرمانی وغیرہ، جن کو عربیت میں یدِ طولیٰ حاصل ہے، بھی یہی سمجھا ہے، اور جب دو طلاقوں کا جمع کرنا صحیح ہے تو تین کا جمع کرنا بھی صحیح ہوگا، کیونکہ دونوں کے درمیان کوئی وجہ فرق موجود نہیں، لیکن آنجناب ان حضرات کے مدعا کے بالکل اُلٹ دعویٰ پر اس آیت کو دلیل ٹھہرا رہے ہیں، کیا خیال ہے! یہ حضرات ذوقِ عربی میں آنجناب سے بھی فروتر تھے؟

          میری یہ تقریر سن کر وہ صاحب بگڑ گئے، اور فرمانے لگے: آیت یہ بتاتی ہے کہ طلاق معتبر عندالشرع وہی ہے جس کو یکے بعد دیگرے واقع کیا گیا ہو۔ میں نے عرض کیا: غالباً آپ، شوکانی کی طرح الطّلاق کے لام کو استغراق پر محمول فرما رہے ہیں اور ”معتبر عند الشرع“ کی قید مقدّر مان رہے ہیں، تاکہ آپ ”طلاقِ معتبر“ کا حصر اس میں کرسکیں، لیکن ذرا یہ تو فرمائیے کہ جس طلاق کے بعد طلاق نہ دی گئی ہو اس کے بارے میں جناب کی رائے کیا ہے؟ کیا وہ ”طلاقِ معتبر عند الشرع“ نہیں ہوگی جس سے اختتامِ عدّت کے بعد عقدِ نکاح ختم ہوجاتا ہے؟ اور اگر یہ طلاق بھی عند الشرع معتبر ہے تو طلاقِ معتبر کا ”مرّتین“ میں حصر کیسے ہوا؟

          اس پر وہ بہت مضطرب ہوئے، میں نے کہا: جب ہم یہ فرض کرلیں کہ ”مَرَّتَان“ کا لفظ دُوسرے معنی (یعنی دو مرتبہ) پر محمول ہے تو آیت کا مفہوم بس یہ ہوگا کہ طلاق کا واقع کرنا یکے بعد دیگرے ہونا چاہئے، مگر یہاں کوئی ایسی بات نہیں جو طلاق کے لئے طہر کی قید لگائے، گویا جس شخص نے یکے بعد دیگرے تین بار لفظ طلاق کا اعادہ کیا تو صرف تکرار سے تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، خواہ طلاق طہر میں دی گئی ہو یا حیض میں، اور یہ نہ تو آپ کو مقصود ہے، اور نہ آپ کے نزدیک پسندیدہ ہے، اور اگر آپ اس مسئلے میں آثارِ صحابہ سے استدلال کریں گے تو بحث جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں لوٹ آئے گی، اور کتاب اللہ کے ماسوا سے آپ کو استغناء نہ ہوسکے گا۔

          ہماری اس گفتگو کے دوران حضرت الاستاذ الکبیر (شیخ محمد بخیت مطیعی) تشریف لے آئے تو ہم نے گفتگو یہیں روک دی، کیونکہ اندیشہ تھا کہ وہ بحث میں حصہ لیں گے اور انہیں بے جا تعب ہوگا، اس لئے کہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ ان کی موجودگی میں ایسی بحث ہو اور وہ اس میں مشارکت نہ فرمائیں۔

          جو لوگ آج کل اپنے آپ کو فقہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، وہ مسائل میں کھلے کھلے خبط کے باوجود جماعت کی مخالفت کی جرأت کیسے کرتے ہیں؟ میں نے اس مسئلے پر طویل مدّت تک غور و فکر کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا بنیادی سبب (علة العلل) یہ ہے کہ یہ مدعیانِ فقہ اپنی شخصیت آپ سے آپ بنانے کا قصد رکھتے تھے، وہ ․․․ازہر میں نظامِ تعلیم قائم ہونے سے پہلے․․․ جس سبق میں چاہتے جابیٹھتے، اور جس کتاب کو چاہتے چھوڑ دیتے تھے، اور ازہر کے نظام کے بعد علوم کا جو نصاب مقرّر ہوا ہے اس کی باضابطہ تحصیل میں ان سے رخنہ رہ جاتا تھا، جس کی وجہ سے ان کی عقل و فکر میں بھی خلل رہ جاتا تھا، پس جب یہ حضرات اپنی خام علمی اور ناپختہ ذہنی کے باوجود ایسی غلط سلط کتابیں پڑھتے ہیں جنھیں ناشرین ایک خاص مشن کے لئے علم کے نام پر شائع کرتے ہیں اور جن کا زیغ اوّلِ وہلہ میں ظاہر نہیں ہوتا، تو ان کتابوں کے مطالعے سے اگر ان کا ذہن و فکر انتشار و اضطراب اور اختلال کا شکار ہوجائے تو کچھ بھی تعجب نہیں، اس لئے یہ حضرات ان نئی نئی تحریکوں کا سب سے پہلا شکار ثابت ہوتے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے جاری کی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں نہ تو اس قدر دیانت و تقویٰ موجود ہوتا ہے جو انہیں ایسی چیز میں داخل ہونے سے باز رکھے جس کا ان کو علم نہیں، اور نہ وہ اتنے علمی سامان سے مسلح ہوتے ہیں جو انہیں جہل کی ہمرکابی سے بچاسکے، بلکہ یہ حضرات محض عربی دانی کے بل بوتے پر اپنے آپ کو علماء سمجھ لیتے ہیں، بغیر اس کے کہ ان کی علمی شخصیت، تعلیمِ فقہ کے کسی دقیق نظام کی نگرانی میں مکمل ہوئی ہو، حالانکہ جو شخص اپنے آپ کو عالم شمار کرتا ہے اس پر واجب ہے کہ ہر آواز دینے والے کے پیچھے چل نکلنے کے لئے عامیانہ مظاہرے کی سطح سے اپنے آپ کو بلند رکھے، جیسا کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے، پس جو شخص علم کا مدعی ہو اس کے لئے یہ ردّی حالت بڑی عار کی بات ہے!

          پس جو شخص اُصولییّن کے اجماع کے بارے میں یہ کہنے کی جرأت کرتا ہے، وہ ہر چیز سے پہلے تفقہ کا محتاج ہے کہ ان مباحث میں مشغول ہونے سے پہلے اُصول و فروع کی کچھ کتابیں علمائے محققین سے پڑھے، تاکہ فصولِ ابوبکر رازی وغیرہ میں اس علم کے جو دقائق ذکر کئے گئے ہیں انہیں سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرسکے، اور جو بات کہنا چاہئے سمجھ کر کہہ سکے۔

          آپ دیکھتے ہیں کہ موٴلفِ رسالہ اجماع کے مسئلے میں ابنِ رُشد فلسفی کے کلام کی تعریف و توصیف کرتا ہے، لیکن ابنِ رُشد کے اس قول کی موافقت نہیں کرتا:

          ”بخلاف اس اجماع کے جو عملیات میں رُونما ہوا، کیونکہ سب لوگ ان مسائل کا افشاء تمام لوگوں کے سامنے یکساں ضروری سمجھتے تھے، اور عملیات میں حصولِ اجماع کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ مسئلہ عام طور پر پھیل گیا ہو مگر اس مسئلے میں کسی کا اختلاف ہم تک نقل ہوکر نہ پہنچے، کیونکہ عملیات میں حصولِ اجماع کے لئے یہ بات کافی ہے، البتہ علمی مسائل کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔“

          بلکہ موٴلفِ رسالہ ابنِ رُشد کے اس متین کلام کی تردید کئے بغیر اسے پسِ پشت پھینک دیتا ہے اور ابنِ رُشد الحفید اگرچہ علم بالآثار میں اس مرتبے کا نہیں کہ مسائلِ فقہ اور ان کے اَدِ ّلہ کا معاملہ اس کی عدالت میں پیش کیا جاسکے، جیسا کہ موٴلفِ رسالہ نے صفحہ:۸۴ پر کیا ہے، یہاں تک کہ وہ ”بدایة المجتہد“ میں خود اپنے اِمام کا مذہب نقل کرنے میں بھی بسااوقات غلطی کر جاتا ہے، چہ جائیکہ دُوسرے مذاہب؟ لیکن اِجماع کے مسئلے میں اس کا کلام نہایت قوی ہے، جو اہلِ شان کی تحقیق کے موافق ہے۔

          رہا محمد بن ابراہیم الوزیر الیمانی کا قول! تو وہ فقہاء کے فہم سے بعید ہے، یہ صاحب اپنی کتابوں میں مقبلی، محمد بن اسماعیل الامیر اور شوکانی وغیرہ اپنے چیلوں کی بہ نسبت نرم لہجہ ہیں، لیکن اس نرمی کے باوصف ان کی کتابیں زہرِ قاتل کی حامل ہیں، یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے فقہِ عترت کو یمن میں مشوَّش کیا، ان کا کلام بھی اجماع کو حجیت سے ساقط کرنے کی طرف مشیر ہے، اگرچہ انہوں نے ایسی تصریح نہیں کی جیسی کہ شوکانی نے تین طلاق والے رسالے میں کی ہے، چنانچہ اس نے کہا ہے:

          ”حق یہ ہے کہ اجماع حجت نہیں، بلکہ اس کا وقوع ہی نہیں، بلکہ اس کا امکان ہی نہیں، بلکہ اس کے علم ہی کا امکان نہیں، اس کی نقل کا بھی امکان نہیں۔“

          پس جو شخص ․․․کتاب و سنت کے علی الرغم․․․ اس بات کا بھی قائل نہ ہو کہ شریعت میں مرد کو محدود تعداد میں عورتوں کے نکاح کی اجازت دی گئی ہے، جیسا کہ اس نے اپنی کتاب ”وبل الغمام“ میں ”نیل الاوطار“ کے خلاف لکھا ہے ․․․اور مولانا عبدالحی لکھنوی نے ”تذکرة الراشد“ ص:۴۷۹ میں اس کی قرار واقعی تغلیط کی ہے․․․ وہ مسلمانوں کے اجماع کے بارے میں جو جی میں آئے کہتا رہے، اور جو شخص اَئمہ متبوعین اور ان کے علوم کو پسِ پشت ڈال کر ایسے شخص کی پیروی کرے، اس کی حالت اس سے بھی بدتر اور گمراہ تر ہے۔

          ان لوگوں کی یہ افسوس ناک حالت مجھے اس بات سے مانع نہیں ہوسکتی کہ اجماع سے متعلق چند فوائد کی طرف اشارہ کردوں، ممکن ہے کہ یہ بات قارئینِ کرام کے لئے اس اَمر کی جانب داعی ہو کہ وہ اس کے صافی چشموں سے مزید سیرابی حاصل کریں۔

          اہلِ علم جب ”اجماع“ کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے انہی اہلِ علم حضرات کا ”اجماع“ مراد ہوتا ہے جن کا مرتبہٴ اِجتہاد پر فائز ہونا اہلِ علم کے نزدیک مُسلّم ہو، اسی کے ساتھ ان کے اندر ایسی پرہیزگاری بھی ہو جو انہیں محارم اللہ سے باز رکھ سکے، تاکہ ایسے شخص کو ”شہداء علی الناس“ کے زُمرے میں شمار کیا جاسکے۔ پس جس شخص کا رُتبہ اِجتہاد کو پہنچا ہوا ہونا اہلِ علم کے نزدیک مُسلّم نہ ہو، وہ اس سے خارج ہے کہ اجماع میں اس کے کلام کا اعتبار کیا جائے، خواہ وہ نیک اور پرہیزگار لوگوں میں سے ہو۔ اسی طرح جس شخص کا فسق یا عقائدِ اہلِ سنت سے اس کا خروج ثابت ہو اس کے کلام کے ”اجماع“ میں لائقِ اعتبار ہونے کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ ”شہداء علی الناس“ کے مرتبے سے ساقط ہے۔ علاوہ ازیں مبتدعین ․․․خوارج وغیرہ․․․ ثقات اہلِ سنت کے تمام طبقات کی روایات کا اعتبار نہیں کرتے ہیں، پس اس کا تصوّر کیسے کیا جاسکتا ہے کہ انہیں اس قدر علم بالآثار حاصل ہو جو انہیں درجہٴ اِجتہاد کا اہل بنادے؟

          پھر وہ مجتہد جو باعتراف علماء شروطِ اجتہاد کا جامع ہو اس پر کم از کم جو چیز واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی دلیل پیش کرے، اور جس چیز کو وہ حق سمجھتا ہے تعلیم و تدوین کے ذرائع سے جمہور کے سامنے کھل کر بات کرے، جبکہ وہ اپنی رائے میں اہلِ علم کو کسی مسئلے میں غلطی پر دیکھے، یہ نہیں کہ وہ اظہارِ حق سے زبان بند کرکے اپنے گھر میں چھپ کر بیٹھا رہے، یا مسلمانوں کی آبادی سے دُور کہیں پہاڑ کی چوٹی میں گوشہ نشینی اختیار کرلے۔ اس لئے کہ جو شخص اظہارِ حق سے خاموش ہو وہ گونگا شیطان ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے عہد و میثاق کو توڑنے والا ہے، اور جو شخص عہدشکنی کرتا ہے وہ اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے، پس وہ محض اسی بات کی بنا پر ان فاسقوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے جو قبولِ شہادت کے مرتبے سے ساقط ہیں، چہ جائیکہ وہ مرتبہٴ اِجتہاد تک پہنچ جائے۔

          اور اگر تمام طبقات میں علمائے اسلام کے علمی نشاط پر نظر کی جائے، کہ انہوں نے کس طرح ان تمام لوگوں کے حالات کو مدوّن کیا جن کا کوئی علمی مرتبہ تھا؟ اور علوم کی کتابت و تألیف میں ان کے درمیان کس طرح مسابقت جاری تھی؟ اور مسلمانوں کی دِینی اور دُنیاوی ضرورتوں کے لئے جس قدر علم کا پھیلانا لازم تھا وہ انہوں نے کس تندہی سے پھیلایا؟ اور تبلیغ شاہد للغائب کے حکم کا انہوں نے کس طرح امتثال کیا؟ اور حق کے اظہار و بیان کا جو عہد انہوں نے کیا تھا اسے کیسے پورا کیا؟ ان تمام اُمور پر نظر کرتے ہوئے یہ بات اس اُمت کے حق میں عادةً محال ہے کہ ہر زمانے میں علماء کی ایسی جماعت موجود نہ رہی ہو جو یہ نہ جانتے ہوں کہ اس زمانے کے مجتہد کون ہیں جو اس مرتبہٴ عالیہ پر فائز ہیں، اور جو اپنے فرضِ منصبی کو ادا کر رہے ہیں؟

          پس جب کسی قرن میں ایک ایسی رائے، جس کے جمہور فقہاء قائل ہوں، چاروں طرف شائع ہو، اور اس رائے کی مخالفت میں کسی فقیہ کی رائے اہلِ علم کے سامنے نہ آئے تو ایک عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوسکتا کہ یہ رائے اجماعی ہے۔ یہی اجماع ہے جس پر اَئمہ اہلِ اُصول اعتماد کرتے ہیں، اور یہ ایسی چیز ہے کہ اس کے گرد یہ غوغا آرائی اثرانداز نہیں ہوسکتی کہ: ”اجماع کی حجیت میں بھی کلام ہے، اور اس کے امکان میں بھی امکان، اور اس کے امکان کے وقوع میں بھی، اور اس کے علم کے امکان میں بھی، اور اس کی نقل کے امکان میں بھی“ جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔

          اجماع کے یہ معنی نہیں کہ ہر مسئلے میں کئی کئی جلدیں مرتب کی جائیں، جو ان لاکھ صحابہ کے ناموں پر مشتمل ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت موجود تھے، اور پھر ہر صحابی سے اس میں روایتیں درج کی جائیں، نہیں! بلکہ کسی مسئلے پر اجماع منعقد ہونے کے لئے اس قدر کافی ہے کہ مجتہدین صحابہ سے ․․․جن کی تحقیقی تعداد صرف بیس کے قریب ہے․․․ اس مسئلے میں صحیح روایت موجود ہو، ان فقہائے صحابہ میں سے کسی سے اس مسئلے میں اس کے خلاف حکم منقول نہ ہو، بلکہ بعض مقامات میں ایک دو کی مخالفت بھی مضر نہیں، جیسا کہ اس فن کے اَئمہ نے اپنے موقع پر اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔ اسی طرح تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں۔

          اس بحث کو جس شخص نے سب سے زیادہ احسن انداز میں واضح کیا ہے کہ کسی متشکک کے لئے شک کی گنجائش نہیں چھوڑی وہ اِمامِ کبیر ابوبکر رازی الجصاص ہیں، انہوں نے اپنی کتاب ”الفصول فی الاصول“ میں اجماع کی بحث کے لئے بڑی تقطیع کے قریباً بیس ورق مخصوص کئے ہیں، اور ان کی اس کتاب سے کوئی ایسا شخص مستغنی نہیں ہوسکتا جو علم کے لئے علم کی رغبت رکھتا ہو۔ اسی طرح علامہ اتقانی ”الشامل شرح اُصولِ بزدوی“ میں (اور یہ دس جلدوں میں ہے) متقدمین کی عبارتیں حرف بہ حرف نقل کرتے ہیں، پھر جہاں ان سے مناقشہ کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ماہرانہ انداز میں مناقشہ کرتے ہیں، اس کتاب کی آخری چھ جلدیں ”دار الکتب المصریہ“ میں موجود ہیں، اور پہلی جلدیں ”مکتبہ رجاء اللہ ولی الدین استنبول“ میں موجود ہیں۔ اور مجھے معلوم نہیں کہ علمِ اُصول میں کوئی کتاب بسط مع الافادہ میں اس کتاب کے ہم سنگ ہو۔ بدر زرکشی کی ”البحر المحیط“ متأخر ہونے کے باوجود ”الشامل“ کے مقابلے میں گویا صرف ”مجموعہ نقول“ ہے۔

          اور اجماع کی ایک قسم وہ ہے جس میں عمومِ بلویٰ کی وجہ سے عام و خاص سب شریک ہیں، مثلاً: اس پر اجماع کہ فجر کی دو، ظہر کی چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہیں، اور ایک اجماع وہ ہے جس کے ساتھ خواص ․․․یعنی مجتہدین․․․ منفرد ہیں، مثلاً غلوں اور پھلوں کی مقدارِ زکوٰة پر اجماع، اور پھوپھی اور بھتیجی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی حرمت پر اجماع۔ اس اجماع کا مرتبہ پہلے اجماع سے فروتر نہیں ہے، کیونکہ مجتہدین کے ساتھ اگر عوام مل جائیں تو اس سے مجتہدین کی دلیل میں اضافہ نہیں ہوجاتا، پس جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جو اِجماع کہ قطعی ہو کتاب و سنت کی موجودگی میں اس کی ضرورت نہیں، اور جو اِجماع اس سے کم مرتبے کا ہو وہ درجہٴ ظن میں ہے (اس لئے اس کا اعتبار نہیں)، وہ اجماع کی حجیت کو رَدّ کرنا چاہتا ہے اور سبیل الموٴمنین کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر گامزن ہے۔ اس کی تشریح مبسوط کتابوں میں موجود ہے، اور یہ مقام مزید بحث کا متحمل نہیں، اور اگر اجماع کی بعض صورتیں ظنی بھی ہوں تب بھی اس سے اجماع کا کیا بگڑتا ہے؟ جبکہ یقینی اِجماع کا منکر کافر ہے، اور جو اِجماع خبرِ مشہور کے قائم مقام ہو، اس کا انکار ضلال و ابتداع ہے، اور جو اس سے کم مرتبہ ہو اس کے منکر کی حیثیت صحیح اخبارِ آحاد کے منکر کی سی ہے۔

          اور جمہور فقہاء کے نزدیک اَحکام عملیّہ میں دلیلِ ظنی بھی لائقِ احتجاج ہے، بوجہ ان دلائل کے جو اس مسئلے پر قائم ہیں، اگرچہ بعض اَئمہ کے اس قول نے کہ: ”خبرِ آحاد کے ساتھ کتاب اللہ پر اضافہ جائز ہے“ ظاہریہ کے ایک گروہ کو اس حد تک پہنچادیا کہ: ”اخبارِ آحاد مطلقاً مفید یقین ہیں اور یہ کہ ظن میں اصلاً کوئی حجت نہیں“ جیسا کہ اجماعِ سکوتی کے بارے میں بعض اَئمہ کے اس قول نے کہ: ”ساکت کی طرف قول منسوب نہیں کیا جاسکتا“ ․․․حالانکہ شریعت بہت سے مواضع میں ساکت کی طرف قول کو منسوب کرتی ہے، مثلاً: باکرہ، مأموم اور موقع بیان میں خاموش رہنا وغیرہ․․․ ظاہریہ کو حجیتِ اجماع کی نفی میں توسع تک پہنچادیا۔ اسی طرح بعض اَئمہ کے اقوالِ صحابہ اور حدیثِ مرسل کے بارے میں جو نظریہ ہے اس نے ظاہریہ میں اقوالِ صحابہ ․․․بغیر اجماع․․․ اور حدیثِ مرسل سے بالکلیہ اعراض کا حوصلہ پیدا کردیا۔ اس کی وجہ سے ان سے شریعت کا ایک حصہ فوت ہوگیا۔ پھر اس اِمام نے استحسان پر جو اعتراضات کئے انہوں نے ظاہریہ کو اعراض عن القیاس پر بھی جری کردیا۔ بایں اعتبار کہ جو اعتراضات آپ نے استحسان پر کئے ہیں اگر وہ اس پر وارِد ہوتے ہیں تو قیاس پر بھی یکساں طور پر وارِد ہوتے ہیں، جیسا کہ ابنِ جابر نے، جو قدمائے شافعیہ میں سے تھے، یہی بات کہی جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے شافعی مسلک چھوڑ کر ظاہری مذہب کیوں اختیار کیا ہے؟ لیکن اِمام شافعی رضی اللہ عنہ کے مقصد کو ان لوگوں کے مزعومات سے کیا واسطہ؟

          اور جب اکابر شافعیہ نے دیکھا کہ ان لوگوں نے شافعی مذہب کو اپنی گمراہی کا پل بنالیا ہے تو انہیں اس کا بہت افسوس ہوا، اور انہوں نے ان لوگوں کی تردید میں سب علماء سے زیادہ سخت رویہ اختیار کرلیا۔ (بہت سے حقائق اُصولِ مذاہب کے تقابلی مطالعے سے منکشف ہوتے ہیں، ورنہ صرف فروع کے درمیان مقابلہ تفقہ اور تفقیہ میں قلیل النفع ہے، کیونکہ یہ سب فروعی مسائل اپنے اُصول ہی سے متفرع ہوتے ہیں، پس اس کا وزن اس کے پیمانے سے کرنا ترازو میں ڈنڈی مارنے کے مرادف ہے) اور اس پر ابراہیم بن یسار النظام کی اجماع اور قیاس میں تشکیک کا اضافہ کرو، کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جو ان دونوں کی نفی کے لئے کھڑا ہوا، اور بہت ہی جلد حشوی راویوں، داوٴدیوں، حزمیوں اور شیعہ و خوارج کے طائفوں نے ان دونوں کی نفی میں نظام کی پیروی شروع کردی، پس یہ لوگ اور ان کے اذناب جو اِجماع و قیاس کی نفی کرتے ہیں، تم ان کو دیکھوگے کہ وہ قرن ہا قرن سے نظام ہی کی بات کو رَٹ رہے ہیں، چنانچہ متقدمین کی کتابوں میں جو کچھ مدوّن ہے وہ اس کے فیصلے کے لئے کافی ہے۔

          کاش! ان لوگوں کو اگر کسی معتزلی ہی کی پیروی کرنی تھی تو کم از کم ایسے شخص کو تو تلاش کرتے جو اپنے دِین کے بارے میں متہم نہ ہوتا، لیکن افسوس کہ: ”کند ہم جنس با ہم جنس پرواز!“

          اور علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ نظام اندرونی طور پر ان برہمنوں کے مذہب کا قائل تھا جو نبوّت کے منکر ہیں، مگر تلوار کے خوف سے اس نے اپنے اندرونی عقائد کا اظہار نہیں کیا، چنانچہ بیشتر علماء نے اسے کافر گردانا ہے، بلکہ خود معتزلہ کی ایک جماعت ․․․مثلاً ابوالہذیل، الاسکافی اور جعفر بن حرب نے بھی اس کی تکفیر کی ہے اور ان سب نے اس کی تکفیر پر کتابیں لکھی ہیں․․․ اس کے علاوہ وہ فاسق اور بلا کا شرابی تھا۔ ابن ابی الدم ”الملل والنحل“ میں لکھتے ہیں کہ: ”وہ اپنی نوعمری میں ثنویہ کا مصاحب رہا، اور کہولت میں ملاحدہ فلاسفہ کا ہم نشین رہا۔“ جیسا کہ عیون التواریخ میں ہے۔ یہ ہے اجماع و قیاس کے منکرین کا اِمام! اللہ تعالیٰ سے ہم سلامتی کی درخواست کرتے ہیں۔ پس جس شخص کو اِجماع و قیاس میں ان کی تشکیک کا کچھ اثر پہنچا ہو اگر وہ غور و فکر سے کسی قدر بہرہ ور ہے تو ”اُصولِ جصاص“ کی مراجعت کرے، اور اگر صرف روایت کی طرف مائل ہے تو الخطیب کی ”الفقیہ والمتفقہ“ کا مطالعہ کرے، ان دونوں سے اسے سیرابی حاصل ہوجائے گی۔

          اور مجمع علیہ قول کے مقابلے میں شاذ قول کی حیثیت وہی ہے جو متواتر قرآن کے مقابلے میں قرائةِ شاذہ کی ہے، بلکہ وہ قرائةِ شاذہ سے بھی کم حیثیت ہے، کیونکہ کبھی قرائةِ شاذہ سے کتاب اللہ کی صحیح تأویل ہاتھ لگ جاتی ہے، بخلاف قولِ شاذ کے، کہ سوائے ترک کردینے کے وہ کسی چیز کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ غالباً اسی قدر بیان اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے کافی ہے کہ ہمارے برخود غلط مجتہد کا یہ دعویٰ کتنا خطرناک ہے کہ: ”اُصولییّن اجماع میں جس چیز کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ محض ایک خیال ہے۔“

۹:… طلاق و رجعت بغیر گواہی کے صحیح ہیں

          موٴلفِ رسالہ کو اصرار ہے کہ طلاق و رجعت دونوں کی صحت کے لئے گواہی شرط ہے، کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

          ”فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ۔“

                                       (الطّلاق:۲)

          ترجمہ:… ”پس جب وہ اپنی مدّت کو پہنچیں تو انہیں معروف طریقے سے روک رکھو، یا معروف طریقے سے جدا کردو، اور اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنالو۔“

          اس سلسلے میں موٴلف اس روایت کو بطورِ سند پیش کرتے ہیں جو اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس، حضرت عطا اور سدی سے مروی ہے کہ گواہ بنانے سے مراد طلاق اور رجعت پر گواہ بنانا ہے۔

          موٴلفِ رسالہ کا یہ قول ایک بالکل نئی بات ہے جو اہلِ سنت کو تو ناراض کردے گا، مگر اس سے تمام اِمامیہ کی رضامندی اسے حاصل نہیں ہوگی۔ یہ تو واضح ہے کہ آیتِ کریمہ نے روک رکھنے یا جدا کردینے کا اختیار دینے کے بعد گواہ بنانے کا ذکر کیا ہے، اس لئے گواہ بنانے کا بھی وہی حکم ہوگا جو روک رکھنے یا جدا کردینے کا ہے، جب ان دونوں میں سے کوئی چیز علی التعیین واجب نہیں تو اس کے لئے گواہی کیسے واجب ہوگی؟ اگر یہ حکم وجوب کے لئے ہوتا تو ”وَتِلْکَ حُدُوْدُ الله“ سے قبل ہوتا۔ علاوہ ازیں اگر یہ فرض کیا جائے کہ حالتِ حیض میں دی گئی طلاق باطل ہوتی ہے (جیسا کہ موٴلفِ رسالہ کی رائے ہے) تو اس صورت میں اس سے زیادہ احمقانہ رائے اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ صحتِ طلاق کے لئے گواہی کو شرط ٹھہرایا جائے، کیونکہ گواہوں کے لئے یہ گواہی دینا ممکن ہی نہیں کہ طلاق طہر میں ہوئی تھی، کیونکہ یہ چیز صرف عورت سے ہی معلوم ہوسکتی ہے، اور اگر گواہی میں صرف طلاق واقع کرنے کی گواہی پر اکتفا کیا جائے تو عورت کا صرف یہ کہہ دینا کہ: ”طلاق حیض کی حالت میں ہوئی تھی“ طلاق دہندہ کے قول اور گواہوں کی گواہی دونوں کو باطل کردے گا، پس مرد کو بار بار طلاق دینا پڑے گی، تاآنکہ عورت یہ اعتراف کرلے کہ طلاق طہر میں ہوئی ہے، گویا مرد طلاق دینے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے مگر اس پر خواہ مخواہ نان و نفقہ کے بوجھ کی مدّت طویل سے طویل تر ہو رہی ہے، آخر یہ کیسا ظلم اور اندھیر ہے؟ اور اگر وہ اسے گھر میں ڈالے رکھے، جبکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے، کہ وہ اسے تین طہروں میں تین طلاق دے چکا ہے، تو اسے گھر میں آباد کرنا غیرشرعی ہوگا، جس سے نفس الامر میں نہ نسب ثابت ہوگا، نہ وراثت جاری ہوگی۔ اور جو اُمور صرف عورت ہی سے معلوم ہوسکتے ہیں ان میں عورت کے قول کو قبول کرنا صرف ان چیزوں میں ہوتا ہے جو اس کی ذات سے مخصوص ہوں، دُوسروں کی طرف اسے متعدی کرنا ایک ایسی چیز ہے جس کا شریعت انکار کرتی ہے، اور جو اُمور عورت کے ذریعہ ہی معلوم ہوسکتے ہیں ان میں مرد کے قول کو معتبر قرار دینا اس شناعت سے بچنے کے لئے ایک عجیب قسم کا تفقہ ہے۔ آخر کتاب و سنت کے کس مقام سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے؟ جو لوگ اس قسم کے عجیب و غریب اِجتہاد کے لئے بزعمِ خود کتاب و سنت سے تمسّک کرتے ہیں درحقیقت کتاب و سنت سے ان کے بُعد میں اضافہ ہوتا ہے۔

          پس ”اِمساک“ کے معنی ہیں رُجوع کرلینا، اور مفارقت سے مراد ہے طلاق دینے کے بعد عورت کو اس کی حالت پر چھوڑ دینا، یہاں تک کہ اس کی عدّت ختم ہوجائے۔ اس سے خود طلاق دینا مراد نہیں کہ اس پر گواہ بنانے کا لحاظ کیا جائے، اور قرآنِ کریم نے گواہ بنانے کا ذکر صرف ”اِمساک“ اور ”مفارقت“ کے سیاق میں کیا ہے۔ پس چونکہ عورت سے رُجوع کرلینا یا عدّت ختم ہونے تک اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا، یہ دونوں صرف مرد کا حق ہیں اس لئے ان دونوں کی صحت کے لئے گواہ بنانا شرط نہیں، جیسا کہ صحتِ طلاق کے لئے گواہی کو شرط قرار نہیں دیا گیا، بلکہ اگر نفسِ طلاق کے لئے گواہی کو شرط قرار دینا مقصود ہوتا تو اس کا ذکر ”فَطَلِّقُوْھُنَّ“ کے بعد اور طلاق پر مرتب ہونے والی چیزوں (یعنی عدّت کا شمار کرنا اور مطلقہ کو گھر میں ٹھہرانا وغیرہ) سے پہلے ہوتا۔ لہٰذا آیت کو ”طلاق کی گواہی“ پر محمول کرنا بے محل اور قرآنِ کریم کی بلاغت کے خلاف ہے۔

          اور اس آیت کی تفسیر میں جو روایات ذکر کی گئی ہیں اوّل تو ان کی اسانید میں کلام ہے، اس سے قطع نظر ان میں کوئی ایسا قرینہ نہیں جو گواہی کے شرط ہونے پر دلالت کرتا ہو، جیسا کہ خود آیت کے اندر گواہی کے شرط ہونے پر ان دلالات میں سے کوئی دلالت نہیں پائی جاتی جو اہلِ استنباط کے نزدیک معتبر ہیں۔ اور محض امساک اور مفارقت کے بعد ․․․ نہ کہ طلاق کے بعد ․․․ اشہاد کا ذکر کرنا ان میں سے کسی چیز کے لئے گواہی کے شرط ہونے پر دلالت کرنے سے بعید ہے، بلکہ اس موقع پر اشہاد کے ذکر کا منشا اس طریقے کی طرف راہ نمائی کرتا ہے کہ اگر ان اُمور میں سے کسی چیز کا انکار کیا تو اس کا ثبوت کس طرح مہیا کیا جائے؟ بلکہ جو شخص نورِ بصیرت کے ساتھ آیت میں غور کرے اور اس کے سیاق و سباق کو سامنے رکھے اس پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ عدّت ختم ہونے کے وقت مطلقہ کا شوہر کے ذمہ جو حق ہوتا ہے اس حق کی ادائی پر گواہی قائم کرنے کی طرف آیت اشارہ کر رہی ہے، کیونکہ مفارقت بالمعروف یہی ہے کہ عدّت ختم ہونے کے وقت مرد کے ذمہ عورت کا جو حق واجب ہے اسے ادا کردیا جائے، اور اس اَمر پر گواہ مقرّر کرنا گویا طلاق پر گواہ مقرّر کرنے کے قائم مقام ہے، اس لئے کہ یہ چیز طلاق پر ہی تو مرتب ہوئی ہے، اور یہ بات بالکل ظاہر ہے، اور گواہ بنانے کا حکم محض اس لئے ہے تاکہ مرد یہ ثابت کرسکے کہ اس کے ذمہ جو حقوق تھے وہ اس نے ادا کردئیے، ورنہ اس گواہی کو صحتِ طلاق میں کوئی دخل نہیں۔

          اس تقریر سے واضح ہوا کہ طلاق کو گواہی سے مشروط کرنا محض ایک خود تراشیدہ رائے ہے جو نہ کتاب سے ثابت ہے، نہ سنت سے، نہ اِجماع سے اور نہ قیاس سے۔ اور کوئی شخص اس بات کا قائل نہیں کہ اگر سفر میں وصیت کی جائے، یا اُدھار لین دین کا معاملہ کیا جائے، یا کوئی خرید و فروخت کی جائے، یا یتامیٰ کو ان کے اموال حوالے کئے جائیں اور ان چیزوں میں گواہ نہ بنائے جائیں تو یہ تمام چیزیں باطل ہوں گی، بلکہ بغیر گواہ بنانے کے بھی یہ چیزیں باتفاق اہلِ علم صحیح ہیں، حالانکہ گواہ بنانے کا حکم ان تمام اُمور میں بھی موجود ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم ان چیزوں کو گواہی کے ساتھ مشروط کرنے کے لئے نہیں، بلکہ یہ حکم ارشادی ہے، جس سے مقصد یہ ہے کہ اگر ایک فریق انکار کرے تو اس کے خلاف ثبوت مہیا کیا جاسکے۔

          دیکھئے! نکاح کا معاملہ کس قدر عظیم الشان ہے، اس کے باوجود قرآنِ کریم میں ”نکاح پر گواہی“ کا ذکر نہیں کیا گیا، تو طلاق اور رجعت کو اس سے بھی اہم کیسے شمار کیا جاسکتا ہے؟ اور اکثر اَئمہ نے نکاح کے لئے گواہوں کا ہونا جو ضروری قرار دیا ہے وہ اس بنا پر ہے کہ سنت میں نکاح کو گواہوں سے مشروط کیا گیا ہے، لیکن طلاق کے لئے کسی نے گواہی کو شرط نہیں ٹھہرایا، اگرچہ بعض حضرات سے رجعت کا گواہی کے ساتھ مشروط ہونا مروی ہے، علاوہ ازیں رجعت میں انکار کا موقع کم ہی پیش آتا ہے، اِمام ابوبکر جصاص رازی فرماتے ہیں:

          ”ہمیں اہلِ علم کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف معلوم نہیں کہ رجعت بغیر گواہوں کے صحیح ہے، سوائے اس کے کہ جو عطاء سے مروی ہے، چنانچہ سفیان، ابنِ جریج سے اور وہ عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ”طلاق، نکاح اور رجعت گواہی کے ساتھ ہوتے ہیں“ اور یہ اس پر محمول ہے کہ رجعت میں احتیاطاً گواہ مقرّر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کسی کے انکار کی گنجائش نہ رہے، ان کا یہ مطلب نہیں کہ رجعت گواہی کے بغیر صحیح نہیں ہوتی۔ آپ دیکھتے نہیں کہ انہوں نے، اس کے ساتھ طلاق کا بھی ذکر کیا ہے؟ حالانکہ گواہی کے بغیر طلاق کے واقع ہونے میں کوئی شخص بھی شک نہیں کرتا، اور شعبہ نے مطروراق سے اور انہوں نے عطا اور الحکم سے نقل کیا ہے کہ ان دونوں نے کہا: جب مرد عدّت میں عورت سے مقاربت کرلے تو اس کا یہ فعل رجعت شمار ہوگا۔“

          اور حق تعالیٰ کا ارشاد: ”فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ“ دلالت کرتا ہے کہ جماع رجعت ہے اور یہ ”اِمساک“ سے ظاہر ہے۔ اب اگر عطا کے قول کا وہ مطلب نہیں جو جصاص نے بتایا ہے تو بتائیے کہ آدمی جماع پر گواہ کیسے مقرّر کرے گا؟ اور وہ جو بعض حضرات سے مراجعت پر گواہ مقرّر کرنا مروی ہے اس سے نفسِ مراجعت پر نہیں بلکہ مراجعت کے اقرار پر گواہ مقرّر کرنا مراد ہے، جیسا کہ تأمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ پس جب بغیر دلیل و حجت کے یہ قرار دیا جائے کہ: ”جب تک قاضی یا اس کے نائب یا گواہوں کے سامنے طلاق پر گواہی مقرّر نہ کی جائے تب تک واقع ہی نہیں ہوتی“ اس سے نہ صرف انساب میں گڑبڑ ہوگی بلکہ طلاق کی تمام قسمیں ․․․سنی، بدعی، مجموع، مفرق، جن کا پہلے ذکر آچکا ہے․․․ یکسر باطل ہوکر رہ جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ سلامتی عطا فرمائے۔

۱۰:… کیا نقصان رسانی کا قصد ہو تو رجعت باطل ہے؟

          موٴلفِ رسالہ کا یہ اصرار کہ: ”اگر رجعت نقصان رسانی کی نیت سے ہو تو باطل ہے“ ایک ایسا قول ہے جس کا اَئمہ متبوعین میں کوئی قائل نہیں، بلکہ کوئی صحابی، تابعی یا تبع تابعی بھی اس کا قائل نہیں۔

          اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ حاکم کو کیسے پتا چلے گا کہ شوہر نے بہ قصدِ نقصان رُجوع کیا ہے، تاکہ وہ اس کے باطل ہونے کا فیصلہ کرسکے؟ اس کی صورت بس یہی ہوسکتی ہے کہ یا تو اس کا دِل چیر کر دیکھے، یا اپنے فیصلے کی بنیاد خیالات و وساوس پر رکھے، اور کتاب اللہ ناطق ہے کہ قصدِ ضرَر کے باوصف رجعت صحیح ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

          ”وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا، وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ۔“                     (البقرة:۲۳۱)

          ترجمہ:… ”اور انہیں نہ روک رکھو نقصان پہنچانے کی غرض سے، کہ تم تعدی کرنے لگو، اور جس نے ایسا کیا اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔“

          اگر بہ قصدِ ضرَر رجعت صحیح ہی نہیں ہوتی تو شوہر اس عمل کے ذریعہ ․․․جس کا کوئی اثر ہی مرتب نہیں ہوتا․․․ اپنی جان پر ظلم کرنے والا کیسے ٹھہرتا؟

          موٴلفِ رسالہ نے بہت سی جگہ یہ فلسفہ چھانٹا ہے کہ: ”طلاق مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے، حالانکہ عقد کا تقاضا یہ ہے کہ اس عقد کا ختم کرنا بھی مجموعی حیثیت سے دونوں کے سپرد ہو۔“ موٴلف اس بنیاد پر بہت سے ہوائی قلعے تعمیر کرنا چاہتا ہے، اور جو مقاصد اس کے سینے میں موجزن ہیں ان کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہتا ہے، اور ہم آغازِ کتاب میں اس بنیاد کو منہدم اور اس پر ہوائی قلعے تعمیر کرنے کی اُمیدوں کو ناکام و نامراد کرچکے ہیں۔ موٴلف کی باقی لغویات کی تردید کی ضرورت نہیں سمجھی گئی، اوّل تو وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، پھر ان کا بطلان بھی بالکل واضح ہے۔

حرفِ آخر

          ان اَبحاث کے اِختتام پر میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دِلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ نکاح و طلاق اور دیگر اَحکامِ شرع میں وقتاً فوقتاً ترمیم و تجدید کرتے رہنا اس شخص کے لئے کوئی مشکل کام نہیں جس میں تین شرطیں پائی جائیں:

          ۱:… خدا کا خوف اس کے دِل سے نکل چکا ہو۔

          ۲:… اَئمہ کے مدارکِ اجتہاد اور ان کے دلائل سے جاہل ہو۔

          ۳:… خوش فہمی اور تکبر کی بنا پر بادلوں میں سینگ پھنسانے کا جذبہ رکھتا ہو۔

          لیکن اس ترمیم و تجدید سے نہ تو اُمت ترقی کی بلندیوں پر فائز ہوسکے گی، نہ اس کے ذریعہ اُمت کو طیارے، سیارے، بحری بیڑے اور آبدوزیں میسر آئیں گی، نہ تجارت کی منڈیاں اور صنعتی کارخانے اس کے ہاتھ لگیں گے۔

          جو چیز اُمت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے وہ اَحکامِ الٰہیہ میں کتربیونت نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں، کائنات کے اسرار کا سراغ لگائیں، معادن، نباتات اور حیوانات وغیرہ میں جو قوّتیں اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمائی ہیں انہیں معلوم کریں، اور انہیں اعلائے کلمة اللہ، مصالحِ اُمت اور اسلام کی پاسبانی کے لئے مسخر کردیں، اور انہیں کام میں لائیں۔ ایسی تجدید کا کوئی شخص مخالف نہیں، لیکن طلاق وغیرہ کے اَحکام میں کتربیونت سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، اس لئے لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے حدود کو محفوظ رہنے دیا جائے، اور اسے خواہشات کی تلبیس سے دُور رکھا جائے۔ اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کو میری وصیت ہے کہ جب حکمرانوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ شریعت کے خلاف اَحکام جاری کئے جائیں تو اپنی ذات کی حد تک وہ شریعتِ خداوندی پر قائم رہیں، اور ”طاغوت“ کے سامنے اپنے فیصلے نہ لے جائیں، خواہ فتویٰ دینے والے انہیں کتنے ہی فتوے دیتے رہیں: ”تمہیں نقصان نہیں دے گا وہ شخص جو گمراہ ہوا، جبکہ تم ہدایت پر ہو۔“

          ان اوراق میں جن اَحکامِ طلاق کی تدوین کا قصد تھا وہ یہاں ختم ہوتے ہیں، میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ اسے اپنی خالص رضا کے لئے بنائے اور مسلمانوں کو اس سے نفع پہنچائے۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ

وَصَلَّی اللهُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمُنْقِذِنَا مُحَمَّدٍ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاٰلِہ وَصَحْبِہ اَجْمَعِیْنَ وَالتَّابِعِیْنَ لَھُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ، وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

الفقیر الی اللہ سبحانہ وتعالیٰ

محمد زاہد بن الشیخ حسن بن علی الکوثری

عفی عنہم وعن سائر المسلمین

تحریر: ۲۰/ربیع الثانی ۱۳۵۵ھ

بروز جمعرات، بوقت چاشت

  • Tweet

What you can read next

دُوسری شادی
نکاح کا وکیل
طلاقِ بائن
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP