SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Sunday, 01 August 2010 / Published in جلد سوم

نمازِ تراویح

تراویح کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟

س… تراویح کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ کیا بیس رکعت نماز تراویح پڑھنا ہی افضل ہے؟

ج… تراویح کی ابتدا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو، چار چار آدمی جماعت کرلیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں، اور بیس رکعات ہی سنتِ موٴکدہ ہیں۔

روزہ اور تراویح کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

س… روزہ اور تراویح کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کیا روزہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ تراویح پڑھی جائے؟

ج… رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دن کی عبادت روزہ ہے اور رات کی عبادت تراویح، اور حدیث شریف میں دونوں کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

“جعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا۔”

(مشکوٰة ص:۱۷۳)

ترجمہ:…”اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے۔”

اس لئے دونوں عبادتیں کرنا ضروری ہیں، روزہ فرض ہے، اور تراویح سنتِ موٴکدہ ہے۔

کیا غیررمضان میں تراویح، تہجد کی نماز کو کہا گیا ہے؟

س… کیا غیررمضان میں تراویح، تہجد کی نماز کو کہا گیا ہے؟ اور یہ کہ تہجد کی کتنی رکعتیں ہیں؟ قرآن و حدیث کے حوالے سے جواب دیجئے۔

ج… تہجد الگ نماز ہے، جو کہ رمضان اور غیررمضان دونوں میں مسنون ہے، تراویح صرف رمضان مبارک کی عبادت ہے، تہجد اور تراویح کو ایک نماز نہیں کہا جاسکتا، تہجد کی رکعات چار سے بارہ تک ہیں، درمیانہ درجہ آٹھ رکعات ہیں، اس لئے آٹھ رکعتوں کو ترجیح دی گئی ہے۔

جو شخص روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ بھی تراویح پڑھے

س… اگر کوئی شخص بوجہ بیماری رمضان المبارک کے روزے نہ رکھ سکے تو وہ کیا کرے؟نیز یہ بھی فرمائیے کہ ایسے شخص کی تراویح کا کیا بنے گا؟ وہ تراویح پڑھے گا یا نہیں؟

ج… جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔

تراویح کی جماعت کرنا کیسا ہے؟

س… تراویح باجماعت پڑھنا کیسا ہے؟ اگر کسی مسجد میں جماعت کے ساتھ نہ پڑھی جائے تو کچھ گناہ تو نہیں؟

ج… رمضان شریف میں مسجد میں تراویح کی نماز ہونا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی مسجد تراویح کی جماعت سے خالی رہے گی تو سارے محلے والے گناہگار ہوں گے۔

وتر اور تراویح کا ثبوت

س… ہمارے گاوٴں میں کچھ اہلِ حدیث حضرات موجود ہیں، جو آئے دن نمازیوں میں واویلا کرتے رہتے ہیں کہ وتر اور تراویح کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں کہیں بھی بیس کا ذکر نہیں، بیس تراویح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایجاد کردہ ہے، لہٰذا ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ہم نے آج تک بیس تراویح ہی پڑھی اور پڑھائی ہیں، جبکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل احادیثِ نبویہ کے خلاف نہیں ہوسکتا۔

ج… اہلِ حدیث حضرات کے بعض مسائل شاذ ہیں، جن میں وہ پوری اُمتِ مسلمہ سے کٹ گئے ہیں، ان میں سے ایک تین طلاق کا مسئلہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لے کر جمہور اُمت اور ائمہ اربعہ کا مسلک ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی، لیکن شیعہ اور اہلِ حدیث کو اس مسئلے میں اُمتِ مسلمہ سے اختلاف ہے۔ دُوسرا مسئلہ بیس تراویح کا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے آج تک مساجد میں بیس تراویح پڑھی جارہی ہیں، اور تمام ائمہ کم سے کم بیس تراویح پر متفق ہیں، جبکہ اہلِ حدیث کو اس سے اختلاف ہے۔

آٹھ تراویح پڑھنا کیسا ہے؟

س… اب جبکہ رمضان کا مہینہ ہے اور رمضان میں تراویح بھی پڑھی جاتی ہیں، ہمارے گھر والے کہتے ہیں کہ تراویح بیس سے کم نہیں پڑھنی چاہئے، جبکہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ تراویح آٹھ بھی جائز ہیں اور بارہ بھی جائز ہیں، اب آپ ہی بتائیں کہ کیا آٹھ تراویح پڑھنا جائز ہیں کہ نہیں؟

ج… حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سے آج تک بیس ہی تراویح چلی آتی ہیں اور اس مسئلے میں کسی امامِ مجتہد کا بھی اختلاف نہیں، سب بیس ہی کے قائل ہیں، البتہ اہلِ حدیث حضرات آٹھ پڑھتے ہیں، پس جو شخص اس مسلک کا ہو وہ تو آٹھ پڑھ لیا کرے، مگر باقی مسلمانوں کے لئے آٹھ پڑھنا دُرست نہیں، ورنہ سنتِ موٴکدہ کے تارک ہوں گے اور ترکِ سنت کی عادت ڈال لینا گناہ ہے۔

تراویح کے سنتِ رسول ﷺ ہونے پر اعتراض غلط ہے

س… نمازِ تراویح شریعت کے مطابق سنتِ رسول ہے، لیکن مجھے جناب جسٹس قدیرالدین احمد صاحب (ریٹائرڈ) کے ایک مضمون بعنوان “دورِ حاضر اور اجتہاد” موٴرّخہ ۲/۷/۱۹۸۵ء نوائے وقت کراچی میں پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ نمازِ تراویح کا آغاز ایک اجتہاد کے تحت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، اگر یہ دُرست ہے تو آپ بتائیں کہ نمازِ تراویح سنتِ رسول کیسے ہوئی؟

ج… نمازِ تراویح کو اجتہاد کہنا جسٹس صاحب کا “غلط اجتہاد” ہے، نمازِ تراویح کی ترغیب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور تراویح کا جماعت سے ادا کرنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، مگر اس اندیشے کی وجہ سے کہیں یہ اُمت پر فرض نہ ہوجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا، اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں چونکہ یہ اندیشہ باقی نہیں رہا تھا، اس لئے آپ نے اس سنت “جماعت” کو دوبارہ جاری کردیا۔

علاوہ ازیں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتدا کا لازم ہونا شریعت کا ایک مستقل اُصول ہے، اگر بالفرض تراویح کی نماز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد ہی سے جاری کی ہوتی تو چونکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو بالاجماع قبول کرلیا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اس پر عمل کیا، اس لئے بعد کے کسی شخص کے لئے اجماعِ صحابہ اور سنتِ خلفائے راشدین کی مخالفت کی گنجائش نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ اہلِ حق میں سے کوئی ایک بھی تراویح کے سنت ہونے کا منکر نہیں۔

بیس تراویح کا ثبوت صحیح حدیث سے

س… بیس تراویح کا ثبوت صحیح حدیث سے بحوالہ تحریر فرمائیں۔

ج… موٴطا امام مالک “باب ما جاء فی قیام رمضان” میں یزید بن رومان سے روایت ہے:

“کان یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعة۔”

اور امام بیہقی رحمہ اللہ (ج:۲ ص:۴۹۶) نے حضرت سائب بن یزید صحابی سے بھی بسند صحیح یہ حدیث نقل کی ہے۔ (نصب الرایہ ج:۲ ص:۱۵۴)

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے بیس تراویح کا معمول چلا آتا ہے، اور یہی نصاب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہے، اس لئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، خصوصاً حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں ہوسکتی کہ وہ دین کے کسی معاملے میں کسی ایسی بات پر بھی متفق ہوسکتے تھے جو منشائے خداوندی اور منشائے نبوی کے خلاف ہو۔ حضرت حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:

“ومنی اجماع کہ بر زبان علماء دین شنیدہ باشی ایں نیست کہ ہمہ مجتہدین لا یشذ فرد در عصر واحد بر مسئلہ اتفاق کنند۔ زیراکہ ایں صورتے ست غیر واقع بل غیرممکن عادی، بلکہ معنی اجماع حکم خلیفہ است بچیزے بعد مشاورہ ذوی الرأی یا بغر آں، ونفاذ آں حکم تا آنکہ شائع شد و در عالم ممکن گشت۔ قال النبی صلی الله علیہ وسلم: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین من بعدی۔ الحدیث۔” (ازالة الخفاء ص:۲۶)

ترجمہ:…”اجماع کا لفظ تم نے علمائے دین کی زبان سے سنا ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی زمانے میں تمام مجتہدین کسی مسئلے پر اتفاق کریں، بایں طور کہ ایک بھی خارج نہ ہو، اس لئے کہ یہ صورت نہ صرف یہ کہ واقع نہیں، بلکہ عادةً ممکن بھی نہیں، بلکہ اجماع کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ، ذو رائے حضرات کے مشورے سے یا بغیر مشورے کے کسی چیز کا حکم کرے اور اسے نافذ کرے یہاں تک کہ وہ شائع ہوجائے اور جہان میں مستحکم ہوجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “لازم پکڑو میری سنت کو اور میرے بعد کے خلفائے راشدین کی سنت کو۔”

آپ غور فرمائیں گے تو بیس تراویح کے مسئلے میں یہی صورت پیش آئی کہ خلیفہٴ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُمت کو بیس تراویح پر جمع کیا اور مسلمانوں نے اس کا التزام کیا، یہاں تک کہ حضرت شاہ صاحب کے الفاظ میں “شائع شد و در عالم ممکن گشت” یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء نے بیس تراویح کو بجاطور پر “اجماع” سے تعبیر کیا ہے۔

ملک العلماء کاسانی فرماتے ہیں:

“ان عمر رضی الله عنہ جمع اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی شھر رمضان علی ابی بن کعب فصلی بھم فی کل لیلة عشرین رکعة ولم ینکر علیہ احد فیکون اجماعًا منھم علٰی ذالک۔”

(بدائع الصنائع ج:۱ ص:۲۸۸، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)

ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ماہِ رمضان میں اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا پر جمع کیا، وہ ان کو ہر رات بیس رکعتیں پڑھاتے تھے، اور اس پر کسی نے نکیر نہیں کی، پس یہ ان کی جانب سے بیس تراویح پر اجماع ہوا۔”

اور موفق ابنِ قدامہ الحنبلی، المغنی (ج:۱ ص:۸۰۳) میں فرماتے ہیں: “وھذا کالاجماع” اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) بیس تراویح پر متفق ہیں، جیسا کہ ان کی کتب فقہیہ سے واضح ہے، ائمہ اربعہ کا اتفاق بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ بیس تراویح کا مسئلہ خلف سے تواتر کے ساتھ منقول چلا آتا ہے۔ اس ناکارہ کی رائے یہ ہے کہ جو مسائل خلفائے راشدین سے تواتر کے ساتھ منقول ہوں اور جب سے اب تک انہیں اُمتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰة وسلام) کے تعامل کی حیثیت حاصل ہو، ان کا ثبوت کسی دلیل و برہان کا محتاج نہیں، بلکہ ان کی نقلِ متواتر اور تعاملِ مسلسل ہی سو ثبوت کا ایک ثبوت ہے: “آفتاب آمد دلیلِ آفتاب!”

بیس رکعت تراویح کے عین سنت ہونے کی شافی علمی بحث

س… ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ تراویح کی آٹھ رکعتیں ہی سنت ہیں، کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب دریافت کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے فرایا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں آٹھ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے۔

اس کے خلاف جو روایت بیس رکعت پڑھنے کی نقل کی جاتی ہے وہ بالاتفاق ضعیف ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی گیارہ رکعت ہی کا حکم دیا تھا، جیسا کہ موٴطا امام مالک میں سائب بن یزید سے مروی ہے، اور اس کے خلاف بیس کی جو روایت ہے اوّل تو صحیح نہیں اور اگر صحیح بھی ہو تو ہوسکتا ہے کہ پہلے انہوں نے بیس پڑھنے کا حکم دیا ہو، پھر جب معلوم ہوا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت پڑھیں تو سنت کے مطابق آٹھ پڑھنے کا حکم دے دیا ہو۔ بہرحال آٹھ رکعت تراویح ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت ہے، جو لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں وہ خلافِ سنت کرتے ہیں۔ آپ فرمائیں کہ ہمارے دوست کی یہ بات کہاں تک دُرست ہے؟

ج… آپ کے دوست نے اپنے موقف کی وضاحت کردی ہے، میں اپنے موقف کی وضاحت کئے دیتا ہوں، ان میں کون سا موقف صحیح ہے؟ اس کا فیصلہ خود کیجئے! اس تحریر کو چار حصوں پر تقسیم کرتا ہوں:

۱:… تراویح عہدِ نبوی میں۔

۲:… تراویح عہدِ فاروقی  میں۔

۳:… تراویح صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کے دور میں۔

۴:… تراویح ائمہ اربعہ کے نزدیک۔

۱:… تراویح عہدِ نبوی میں:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدّد احادیث میں قیامِ رمضان کی ترغیب دی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:

“کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یرغب فی قیام رمضان من غیر ان یأمرھم فیہ بعزیمة فیقول: من قام رمضان ایمانًا واحتسابًا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ فتوفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم والامر علی ذالک، ثم کان الامر علی ذالک فی خلافة ابی بکر وصدرًا من خلافة عمر۔” (جامع الاصول ج:۹ ص:۴۳۹، بروایت بخاری و مسلم، ابوداوٴد، ترمذی، نسائی، موٴطا)

ترجمہ:…”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے بغیر اس کے کہ قطعیت کے ساتھ حکم دیں، چنانچہ فرماتے تھے کہ: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوگئے۔ چنانچہ یہ معاملہ اسی حالت پر رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی صورتِ حال رہی، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں بھی۔”

ایک اور حدیث میں ہے:

“ان الله فرض صیام رمضان وسننت لکم قیامہ، فمن صامہ وقامہ ایمانًا واحتسابًا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امّہ۔” (جامع الاصول ج:۹ ص:۴۴۱، بروایت نسائی)

ترجمہ:…”بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کا روزہ فرض کیا ہے، اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام کو سنت قرار دیا ہے، پس جس نے ایمان کے جذبہ سے اور ثواب کی نیت سے اس کا صیام و قیام کیا، وہ اپنے گناہوں سے ایسا نکل جائے گا جیسا کہ جس دن اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔”

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا بھی متعدّد احادیث سے ثابت ہے، مثلاً:

۱:… حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا، جس میں تین رات میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے، پہلی رات میں تہائی رات تک، دُوسری رات میں آدھی رات تک، تیسری رات میں سحر تک۔ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۶۹)

۲:… حدیثِ ابی ذر رضی اللہ عنہ، جس میں ۲۳ویں رات میں تہائی رات تک، ۲۵ویں میں آدھی رات تک اور ۲۷ویں شب میں اوّل فجر تک قیام کا ذکر ہے۔

(جامع الاصول ج:۶ ص:۱۲۰، بروایت ترمذی، ابوداوٴد، نسائی)

۳:… حدیثِ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، اس کا مضمون بعینہ حدیثِ ابی ذر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ (نسائی ج:۱ ص:۲۳۸)

۴:… حدیثِ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، اس میں صرف ایک رات کا ذکر ہے۔ (جامع الاصول ج:۶ ص:۱۱۹، بروایت بخاری و مسلم، ابوداوٴد، نسائی)

۵:… حدیثِ انس رضی اللہ عنہ، اس میں بھی صرف ایک رات کا ذکر ہے۔

(صحیح مسلم ج:۱ ص:۳۵۲)

لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جماعت پر مدوامت نہیں فرمائی اور اس اندیشے کا اظہار فرمایا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے، اور اپنے طور پر گھروں میں پڑھنے کا حکم فرمایا۔ (حدیثِ زید بن ثابت وغیرہ)

رمضان المبارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مجاہدہ بہت بڑھ جاتا تھا، خصوصاً عشرہٴ اخیرہ میں تو پوری رات کا قیام معمول تھا، ایک ضعیف روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں اضافہ ہوجاتا تھا۔

(فیض القدیر شرح جامع الصغیر ج:۵ ص:۱۳۲، وفیہ عبدالباقی بن قانع، قال الدارقطنی یخطیٴ کثیرًا)

تاہم کسی صحیح روایت میں یہ نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں جو تراویح کی جماعت کرائی، اس میں کتنی رکعات پڑھائیں؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صرف ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ (موارد الظماٰن ص:۲۳۰، قیام اللیل مروزی ص:۱۵۷، مکتبہ سبحانیہ، مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۷۲ بروایت طبرانی و ابویعلیٰ)

مگر اس روایت میں عیسیٰ بن جاریہ متفرد ہے، جو اہلِ حدیث کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہے، جرح و تعدیل کے امام یحییٰ بن معین اس کے بارے میں فرماتے ہیں: “لیس بذاک” یعنی وہ قوی نہیں، نیز فرماتے ہیں: “عندہ مناکیر”، یعنی اس کے پاس متعدد منکر روایتیں ہیں۔ امام ابوداوٴد اور امام نسائی نے اسے “منکر الحدیث” کہا ہے، امام نسائی نے اس کو متروک بھی بتایا ہے، ساجی و عقیلی نے اسے ضعفاء میں ذکر کیا ہے، ابنِ عدی کہتے ہیں کہ: “اس کی حدیثیں محفوظ نہیں۔”

(تہذیب التہذیب ج:۸ ص:۲۰۷، میزان الاعتدال ج:۳ ص:۳۱۱)

خلاصہ یہ کہ یہ راوی اس روایت میں متفرد بھی ہے، اور ضعیف بھی، اس لئے یہ روایت منکر ہے، اور پھر اس روایت میں صرف ایک رات کا واقعہ مذکور ہے، جبکہ یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آٹھ رکعتوں سے پہلے یا بعد میں تنہا بھی کچھ رکعتیں پڑھی ہوں، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکور ہے۔

(مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۷۳، بروایت طبرانی، وقال رجالہ رجال الصحیح)

دُوسری روایت مصنف ابنِ ابی شیبہ (ج:۲ ص:۳۹۴، نیز سننِ کبریٰ بیہقی  ج:۲ ص:۴۹۲، مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۷۲) میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی ہے کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔” مگر اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی کمزور ہے، اس لئے یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح نہیں، مگر جیسا کہ آگے معلوم ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اُمت کا تعامل اسی کے مطابق ہوا۔

تیسری حدیث اُمّ الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہے، جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے، مگر اس میں تراویح کا ذکر نہیں، بلکہ اس نماز کا ذکر ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں ہمیشہ پڑھی جاتی ہے، اس لئے رکعاتِ تراویح کے تعین میں اس سے بھی مدد نہیں ملتی۔

چنانچہ علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:

“والحاصل ان الذی دلت علیہ احادیث الباب وما یشابھھا ھو مشروعیة القیام فی رمضان والصلٰوة فیہ جماعة وفرادیٰ فقصر الصلٰوة المسماة بالتراویح علی عدد معین وتخصیصھا بقرائة مخصوصة ولم یرد بہ سنة۔” (نیل الاوطار ج:۴ ص:۶۴)

ترجمہ:…”حاصل یہ کہ اس باب کی حدیثیں اور ان کے مشابہ حدیثیں جس بات پر دلالت کرتی ہیں، وہ یہ ہے کہ رمضان میں قیام کرنا اور باجماعت یا اکیلے نماز پڑھنا مشروع ہے، پس تراویح کو کسی خاص عدد میں منحصر کردینا، اور اس میں خاص مقدار قرأت مقرّر کرنا ایسی بات ہے جو سنت میں وارد نہیں ہوئی۔”

۲:… تراویح عہدِ فاروقی  میں:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے، سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک امام پر جمع کیا۔ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۲۶۹، باب فضل من قام رمضان)

اور یہ خلافتِ فاروقی  کے دُوسرے سال یعنی ۱۴ھ کا واقعہ ہے۔

(تاریخ الخلفاء ص:۱۲۱، تاریخ ابنِ اثیر ج:۱ ص:۱۸۹)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں کتنی رکعتیں پڑھی جاتی تھیں؟ اس کا ذکر حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، حضرت سائب سے اس حدیث کو تین شاگرد نقل کرتے ہیں، ۱:حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب، ۲:یزید بن خصیفہ، ۳: محمد بن یوسف، ان تینوں کی روایت کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔

۱:… حارث بن عبدالرحمن کی روایت علامہ عینی نے شرحِ بخاری میں حافظ ابنِ عبدالبر کے حوالے سے نقل کی ہے:

“قال ابن عبدالبر: وروی الحارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب عن السائب بن یزید قال: کان القیام علٰی عھد عمر بثلٰث وعشرین رکعة، قال ابن عبدالبر: ھذا محمول علٰی ان الثلٰث للوتر۔”

(عمدة القاری ج:۱۱ ص:۱۲۷)

ترجمہ:…”ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب نے حضرت سائب بن یزید سے روایت کی ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں ۲۳ رکعتیں پڑھی جاتی تھیں، ابنِ عبدالبر کہتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اور تین رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں۔”

۲:… حضرت سائب کے دُوسرے راوی یزید بن خصیفہ کے تین شاگرد ہیں: ابنِ ابی ذئب، محمد بن جعفر اور امام مالک، اور یہ تینوں بالاتفاق بیس رکعتیں روایت کرتے ہیں۔

الف:… ابنِ ابی ذئب کی روایت امام بیہقی کی سننِ کبریٰ میں درج ذیل سند کے ساتھ مروی ہے:

“اخبرنا ابوعبدالله الحسین بن محمد الحسین بن فنجویہ الدینوری بالدامغان، ثنا احمد بن محمد بن اسحاق السنی، انبأنا عبدالله بن محمد بن عبدالعزیز البغوی، ثنا علی بن الجعد انبأنا ابن ابی ذئب عن یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال: کانوا یقومون علٰی عھد عمر بن الخطاب رضی الله عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعة، قال: وکانوا یقرؤن بالمئین وکانوا یتوکون علی عصیھم فی عھد عثمان بن عفان رضی الله عنہ من شدة القیام۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶)

“یعنی ابنِ ابی ذئب، یزید بن خصیلہ سے، اور وہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں لوگ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔”

اس کی سند کو امام نووی، امام عراقی  اور حافظ سیوطی نے صحیح کہا ہے۔

(آثار السنن ص:۲۵۱، طبع مکتبہ امدادیہ ملتان، تحفة الاحوذی ج:۲ ص:۷۵)

ب:… محمد بن جعفر کی روایت امام بیہقی کی دُوسری کتاب معرفة السنن والآثار میں حسبِ ذیل سند سے مروی ہے:

“اخبرنا ابوطاھر الفقیہ، ثنا ابوعثمان البصری، ثنا ابواحمد محمد بن عبدالوھاب، ثنا خالد بن مخلد، ثنا محمد بن جعفر حدثنی یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال: کنا نقول فی زمن عمر بن الخطاب بعشرین رکعة والوتر۔”(نصب الرایة ج:۲ ص:۱۵۴)

“یعنی محمد بن جعفر، یزید بن خصیفہ سے اور وہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات اور وتر پڑھا کرتے تھے۔”

اس کی سند کو امام نووی نے خلاصہ میں، علامہ سبکی نے شرحِ منہاج میں اور علامہ علی قاری نے شرحِ موٴطا میں صحیح کہا ہے۔

(آثار السنن ج:۲ ص:۵۴، تحفة الاحوذی ج:۲ ص:۷۵)

ج:… یزید بن خصیفہ سے امام مالک کی روایت حافظ نے فتح الباری میں اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں ذکر کی ہے۔

حافظ لکھتے ہیں:

“وروی مالک من طریق یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید عشرین رکعة۔”

(فتح الباری ج:۴ ص:۲۵۳، مطبوعہ لاہور)

ترجمہ:…”اور امام مالک نے یزید بن خصیفہ کے طریق سے حضرت سائب بن یزید سے بیس رکعتیں نقل کی ہیں۔”

اور علامہ شوکانی  لکھتے ہیں:

“وفی الموٴطا من طریق یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید انھا عشرین رکعة۔”

(نیل الاوطار ج:۳ ص:۵۳، مطبوعہ عثمانیہ، مصر ۱۳۵۷ھ)

“مالک عن یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید” کی سند بعینہ صحیح بخاری (ج:۱ ص:۳۱۲) پر موجود ہے، لیکن یہ روایت مجھے موٴطا کے موجودہ نسخے میں نہیں ملی، ممکن ہے کہ موٴطا کے کسی نسخے میں حافظ کی نظر سے گزری ہو، یا غیرموٴطا میں ہو، اور علامہ شوکانی کا: “وفی الموٴطا” کہنا سہو کی بنا پر ہو، فلیفتش!

۳:… حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے تیسرے شاگرد محمد بن یوسف کی روایت میں ان کے شاگردوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے، چنانچہ:

الف:… امام مالک وغیرہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے اُبیّ اور تمیم داری کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا، جیسا کہ موٴطا امام مالک میں ہے۔

(موٴطات امام مالک ص:۹۸، مطبوعہ نور محمد کراچی)

ب:… ابنِ اسحاق ان سے تیرہ کی روایت نقل کرتے ہیں۔

(فتح الباری ج:۴ ص:۲۵۴)

ج:… اور داوٴد بن قیس اور دیگر حضرات ان سے اکیس رکعتیں نقل کرتے ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق ج:۴ ص:۴۶۰)

اس تفصیل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت سائب کے دو شاگرد حارث اور یزید بن خصیفہ اور یزید کے تینوں شاگرد متفق اللفظ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات پر لوگوں کو جمع کیا تھا، جبکہ محمد بن یوسف کی روایت مضطرب ہے، بعض ان میں سے گیارہ نقل کرتے ہیں، بعض تیرہ اور بعض اکیس۔ اُصولِ حدیث کے قاعدے سے مضطرب حدیث حجت نہیں، لہٰذا حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث وہی ہے جو حارث اور یزید بن خصیفہ رضی اللہ عنہ نے نقل کی ہے، اور اگر محمد بن یوسف کی مضطرب اور مشکوک روایت کو کسی درجے میں قابلِ لحاظ سمجھا جائے تو دونوں کے درمیان تطبیق کی وہی صورت متعین ہے جو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے کہ گیارہ پر چند روز عمل رہا، پھر بیس پر عمل کا استقرار ہوا، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ دونوں روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“ویمکن الجمع بین الروایتین، فانھم کانوا یقومون باحدی عشرة ثم کانوا یقومون بعشرین ویوترون بثلٰث۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶)

ترجمہ:…”دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے، کیونکہ وہ لوگ پہلے گیارہ پڑھتے تھے، اس کے بعد بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھنے لگے۔”

امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ ارشاد کہ عہدِ فاروقی میں صحابہ کا آخری عمل، جس پر استقرار ہوا، بیس تراویح تھا، اس پر متعدّد شواہد و قرائن موجود ہیں۔

اوّل:… امام مالک جو محمد بن یوسف سے گیارہ کی روایت نقل کرتے ہیں، خود ان کا اپنا مسلک بیس یا چھتیس تراویح کا ہے، جیسا کہ چوتھی بحث میں آئے گا، اس سے واضح ہے کہ یہ روایت خود امام مالک کے نزدیک بھی مختار اور پسندیدہ نہیں۔

دوم:… ابنِ اسحاق جو محمد بن یوسف سے تیرہ کی روایت نقل کرتے ہیں، وہ بھی بیس کی روایت کو اثبت کہتے ہیں، چنانچہ علامہ شوکانی نے بیس والی روایت کے ذیل میں ان کا قول نقل کیا ہے:

“قال ابن اسحاق وھٰذا اثبت ما سمعت فی ذٰلک۔” (شوکانی، نیل الاوطار ج:۳ ص:۵۳)

ترجمہ:…”ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ: رکعاتِ تراویح کی تعداد کے بارے میں، میں نے جو کچھ سنا اس میں سب سے زیادہ ثابت یہی تعداد ہے۔”

سوم:… یہ کہ محمد بن یوسف کی گیارہ والی روایت کی تائید میں دُوسری کوئی اور روایت موجود نہیں، جبکہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی بیس والی روایت کی تائید میں دیگر متعدّد روایتیں بھی موجود ہیں، چنانچہ:

۱:… یزید بن رومان کی روایت ہے کہ:

“کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعة۔”

(موٴطا امام مالک ص:۹۸، مطبوعہ نور محمد کراچی، سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶، قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷)

ترجمہ:…”لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ۲۳ رکعتیں پڑھا کرتے تھے (بیس تراویح اور تین وتر)۔”

یہ روایت سند کے لحاظ سے نہایت قوی ہے، مگر مرسل ہے، کیونکہ یزید بن رومان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا، تاہم حدیثِ مرسل (جبکہ ثقہ اور لائقِ اعتماد سند سے مروی ہو) امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام محمد اور جمہور علماء کے نزدیک مطلقاً حجت ہے، البتہ امام شافعی کے نزدیک حدیثِ مرسل کے حجت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کی تائید کسی دُوسری مسند یا مرسل سے ہوئی ہو، چونکہ یزید بن رومان کی زیرِ بحث روایت کی تائید میں دیگر متعدّد روایات موجود ہیں، اس لئے یہ باتفاق اہلِ علم حجت ہے۔

یہ بحث تو عام مراسیل باب میں تھی، موٴطا کے مراسیل کے بارے میں اہلِ حدیث کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ سب صحیح ہیں۔

چنانچہ امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجة اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:

“قال الشافعی اصح الکتب بعد کتاب الله موٴطا مالک واتفق اھل الحدیث علی ان جمیع ما فیہ صحیح علٰی رأی مالک ومن وافقہ واما علٰی رأی غیرہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الا قد اتصل السند بہ من طریق اخری فلا جرم انھا صحیحة من ھذا الوجہ وقد صنف فی زمان مالک موٴطات کثیرة فی تخریج احادیثہ ووصل منقطعہ مثل کتاب ابن ابی ذئب وابن عیینة والثوری ومعمر۔”

(حجة الله البالغہ ج:۱ ص:۱۳۳، مطبوعہ منیریہ)

ترجمہ:…”امام شافعی نے فرمایا کہ کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب موٴطا امام مالک ہے، اور اہلِ حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ اس میں جتنی روایتیں ہیں، وہ سب امام مالک اور ان کے موافقین کی رائے پر صحیح ہیں۔ اور دُوسروں کی رائے پر اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں کہ دُوسرے طریقوں سے اس کی سند متصل نہ ہو، پس اس لحاظ سے وہ سب کی سب صحیح ہیں، اور امام مالک کے زمانے میں موٴطا کی حدیثوں کی تخریج کے لئے اور اس کے منقطع کو متصل ثابت کرنے کے لئے بہت سے موٴطا تصنیف ہوئے، جیسے ابنِ ابی ذئب، ابنِ عیینہ، ثوری اور معمر کی کتابیں۔”

اور پھر بیس رکعات پر اصل استدلال تو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے جس کے “صحیح” ہونے کی تصریح گزر چکی ہے، اور یزید بن رومان کی روایت بطور تائید ذکر کی گئی ہے۔

۲:… یحییٰ بن سعید انصاری کی روایت ہے کہ:

“ان عمر بن الخطاب امر رجلًا ان یصلی بھم عشرین رکعة۔” (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھائے۔”

یہ روایت بھی سنداً قوی، مگر مرسل ہے۔

۳:… عبدالعزیز بن رفیع کی روایت ہے:

“کان ابیّ بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینة عشرین رکعة ویوتر بثلٰث۔”

(مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

ترجمہ:…”حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ لوگوں کو مدینہ میں رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔”

۴:… محمد بن کعب قرظی کی روایت ہے کہ:

“کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعة یطیلون فیھا القرائة ویوترون بثلٰث۔” (قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷)

ترجمہ:…”لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں طویل قرأت کرتے اور تین وتر پڑھتے تھے۔”

یہ روایت بھی مرسل ہے، اور قیام اللیل میں اس کی سند نہیں ذکر کی گئی۔

۵:… کنز العمال میں خود حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ:

“ان عمر بن الخطاب امرہ ان یصلی باللیل فی رمضان، فقال: ان الناس یصومون النھار ولا یحسنون ان یقرأوا فلو قرأت علیھم باللیل۔ فقال: یا امیر الموٴمنین! ھٰذا شیٴ لم یکن۔ فقال: قد علمت ولکنہ حسن۔ فصلی بھم عشرین رکعة۔”

(کنز العمال طبع جدید بیروت ج:۸ ص:۴۰۹، حدیث: ۲۳۴۷۱)

ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو رات کے وقت نماز پڑھایا کریں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں، مگر خوب اچھا پڑھنا نہیں جانتے، پس کاش! تم رات میں ان کو قرآن سناتے۔ اُبیّ نے عرض کیا: یا امیرالموٴمنین! یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے نہیں ہوئی۔ فرمایا: یہ تو مجھے معلوم ہے، لیکن یہ اچھی چیز ہے۔ چنانچہ اُبیّ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھائیں۔”

چہارم:… مندرجہ بالا روایات کی روشنی میں اہلِ علم اس کے قائل ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات پر جمع کیا، اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے موافقت کی، اس لئے یہ بہ منزلہ اجماع کے تھا یہاں چند اکابر کے ارشادات ذکر کئے جاتے ہیں:

امام ترمذی لکھتے ہیں:

“واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرأی بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھٰذا عندھم بالمدینة واکثر اھل العلم علٰی ما روی عن علی وعمر وغیرھما من اصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم عشرین رکعة وھو قول سفیان الثوری وابن المبارک والشافعی، وقال الشافعی: وھٰکذا ادرکت ببلدنا بمکة یصلون عشرین رکعة۔” (سننِ ترمذی ج:۱ ص:۹۹)

ترجمہ:…”تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی کا یہی قول ہے، امام شافعی فرماتے ہیں کہ: میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے۔”

۲:… علامہ زرقانی مالکی شرحِ موٴطا میں ابوالولید سلیمان بن خلف القرطبی الباجی المالکی (متوفی ۴۹۴ھ) سے نقل کرتے ہیں:

“قال الباجی: فأمرھم اولًا بتطویل القرائة لأنہ افضل، ثم ضعف الناس فأمرھم بثلٰث وعشرین فخفف من طول القرائة واستدرک بعض الفضیلة بزیادة الرکعات۔” (شرح زرقانی علی الموٴطا ج:۱ ص:۲۳۹)

ترجمہ:…”باجی کہتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے ان کو تطویلِ قرأت کا حکم دیا تھا کہ وہ افضل ہے، پھر لوگوں کا ضعف محسوس کیا تو ۲۳ رکعات کا حکم دیا، چنانچہ طولِ قرأت میں کمی کی اور رکعات کے اضافے کی فضیلت کی کچھ تلافی کی۔”

“قال الباجی: وکان الأمر علٰی ذٰلک الی یوم الحرة فثقل علیھم القیام فنقضوا من القرائة وزادوا الرکعات فجعلت ستًّا وثلاثین غیر الشفع والوتر۔”

(زرقانی شرح موٴطا ج:۱ ص:۲۳۹)

ترجمہ:…”باجی کہتے ہیں کہ: یومِ حرہ تک بیس رکعات کا دستور رہا، پھر ان پر قیام بھاری ہوا تو قرأت میں کمی کرکے رکعات میں مزید اضافہ کردیا گیا، اور وتر کے علاوہ ۳۶ رکعات ہوگئیں۔”

۳:… علامہ زرقانی نے یہی بات حافظ ابنِ عبدالبر (۳۶۸ھ، ۴۶۳ھ) اور ابومروان عبدالملک بن حبیب القرطبی المالکی (متوفی ۲۳۷ھ) سے نقل کی ہے۔

(زرقانی شرحِ موٴطا ج:۱ ص:۲۳۹)

۴:… حافظ موفق الدین ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی ۶۲۰ھ) المغنی میں لکھتے ہیں:

“ولنا ان عمر رضی الله عنہ لما جمع الناس علٰی ابیّ بن کعب کان یصلی لھم عشرین رکعة۔”

ترجمہ:…”ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کیا تو وہ ان کو بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔”

اس سلسلے کی روایات، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“وھذا کالاجماع۔”

ترجمہ:…”اور یہ بہ منزلہ اجماعِ صحابہ کے ہے۔”

پھر اہلِ مدینہ کے ۳۶ کے تعامل کو ذکر کرکے لکھتے ہیں:

“ثم لو ثبت ان اھل المدینة کلھم فعلوہ لکان ما فعلہ عمر واجمع علیہ الصحابة فی عصرہ اولی بالاتباع۔

قال بعض اھل العلم انما فعل ھذا اھل المدینة لأنھم ارادوا مساواة اھل مکة، فان اھل مکة یطوفون سبعًا بین کل ترویحتین فجعل اھل المدینة مکان کل سبع اربع رکعات، وما کان علیہ اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اولی واحق۔”

(ابنِ قدامہ، المغنی مع الشرح الکبیر ج:۱ ص:۷۹۹)

ترجمہ:…”پھر اگر ثابت ہو کہ اہلِ مدینہ سب چھتیس رکعتیں پڑھتے تھے تب بھی جو کام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا اور جس پر ان کے دور میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اجماع کیا، اس کی پیروی اَوْلیٰ ہوگی۔

بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ: اہلِ مدینہ کا مقصود اس عمل سے اہلِ مکہ کی برابری کرنا تھا، کیونکہ اہلِ مکہ دو ترویحوں کے درمیان طواف کیا کرتے تھے، اہلِ مدینہ نے طواف کی جگہ دو ترویحوں کے درمیان چار رکعتیں مقرّر کرلیں۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا جو معمول تھا وہی اَوْلیٰ اور احق ہے۔”

۵:… امام محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) شرح مہذب میں لکھتے ہیں:

“واحتج اصحابنا بما رواہ البیھقی وغیرہ بالاسناد الصحیح عن السائب بن یزید الصحابی رضی الله عنہ قال کانوا یقومون علیٰ عھد عمر بن الخطاب رضی الله عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعة۔ الحدیث۔” (المجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲)

ترجمہ:…”ہمارے اصحاب نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جو امام بیہقی اور دیگر حضرات نے حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ سے بہ سندِ صحیح روایت کی ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔”

آگے یزید بن رومان کی روایت ذکر کرکے امام بیہقی رحمہ اللہ کی تطبیق ذکر کی ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر کرکے اہلِ مدینہ کے فعل کی وہی توجیہ کی ہے جو ابنِ قدامہ کی عبارت میں گزر چکی ہے۔

۶:… علامہ شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی شافعی (متوفی ۹۳۳ھ) شرحِ بخاری میں لکھتے ہیں:

“وجمع البیھقی بینھما بأنھم کانوا یقومون باحدی عشرة ثم قاموا بعشرین واوتروا بثلٰث وقد عدوا ما وقع فی زمن عمر رضی الله عنہ کالاجماع۔”

(ارشاد الساری ج:۳ ص:۴۲۶)

ترجمہ:…”اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان دونوں روایتوں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ وہ پہلے گیارہ پڑھتے تھے، پھر بیس تراویح اور تین وتر پڑھنے لگے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو معمول جاری ہوا اسے علماء نے بمنزلہ اجماع کے شمار کیا ہے۔”

۷:… علامہ شیخ منصور بن یونس بہوتی حنبلی (متوفی ۱۰۴۶ھ) “کشف القناع عن متن الاقناع” میں لکھتے ہیں:

“وھی عشرون رکعة لما روی مالک عن یزید بن رومان قال: کان الناس یقومون فی زمن عمر فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعة ․․․․ وھٰذا فی مظنة الشھرة بحضرة الصحابة فکان اجماعًا۔”

(کشف القناع عن متن الاقناع ج:۱ ص:۳۹۲)

ترجمہ:…”تراویح بیس رکعت ہیں، چنانچہ امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ: لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں ۲۳ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ․․․․․․ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا صحابہ کی موجودگی میں بیس کا حکم دینا عام شہرت کا موقع تھا، اس لئے یہ اجماع ہوا۔”

۸:… مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی “حجة اللہ البالغہ” میں لکھتے ہیں:

“وزادت الصحابة ومن بعدھم فی قیام رمضان ثلٰثة اشیاء الاجتماع لہ فی مساجدھم وذالک لأنہ یفید التیسیر علی خاصتھم وعامتھم واداوٴہ فی اوّل اللیل مع القول بأن صلاة اٰخر اللیل مشھودة وھی افضل کما نبہ عمر رضی الله عنہ لھٰذا التیسیر الذی اشرنا الیہ وعددہ عشرون رکعة۔” (حجة الله البالغہ ج:۲ ص:۱۸)

ترجمہ:…”اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد کے حضرات نے قیامِ رمضان میں تین چیزوں کا اضافہ کیا۔ ۱: اس کے لئے مساجد میں جمع ہونا، کیونکہ اس سے عام و خاص کو آسانی حاصل ہوتی ہے۔ ۲:اوّل شب میں ادا کرنا، باوجود اس بات کے قائل ہونے کے کہ آخرِ شب کی نماز میں فرشتوں کی حاضری ہوتی ہے، اور وہ افضل ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر متنبہ فرمایا، مگر اوّل شب کا اختیار کرنا بھی اسی آسانی کے لئے تھا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ ۳:بیس رکعات کی تعداد۔”

۲:… تراویح عہدِ صحابہ و تابعین میں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس تراویح کا معمول شروع ہوا تو بعد میں کم از کم بیس کا معمول رہا، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین سے زائد کی روایات تو مروی ہیں، لیکن کسی سے صرف آٹھ کی روایت نہیں۔

۱:… حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی روایت اُوپر گزر چکی ہے، جس میں انہوں نے عہدِ فاروقی میں بیس کا معمول ذکر کرتے ہوئے اسی سیاق میں عہدِ عثمانی کا ذکر کیا ہے۔

۲:… ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ جن کا وصال عہدِ عثمانی کے اواخر میں ہوا ہے، وہ بھی بیس پڑھا کرتے تھے۔ (قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷)

۳:… “عن ابی عبدالرحمٰن السلمی عن علی رضی الله عنہ انہ دعا القراء فی رمضان فأمر منھم رجلًا یصلی بالناس عشرین رکعة وکان علی یوتر بھم۔”

(سننِ کبریٰ بیہقی ج:۲ ص:۴۹۶)

ترجمہ:…”ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا، پس ان میں ایک شخص کو حکم دیا کہ بیس رکعتیں پڑھایا کرے، اور وتر حضرت علی رضی اللہ عنہ خود پڑھایا کرتے تھے۔”

اس کی سند میں حماد بن شعیب پر محدثین نے کلام کیا ہے، لیکن اس کے متعدّد شواہد موجود ہیں۔

ابوعبدالرحمن سلمی کی یہ روایت شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ نے منہاج السنة میں ذکر کی ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تراویح کو اپنے دورِ خلافت میں باقی رکھا۔

(منہاج السنة ج:۴ ص:۲۲۴)

حافظ ذہبی نے المنتقٰی مختصر منہاج السنّة (المنتقٰی ص:۵۴۲) میں حافظ ابنِ تیمیہ کے اس استدلال کو بلانکیر ذکر کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ ان دونوں کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات تراویح کا معمول جاری تھا۔

۴:… “عن عمرو بن قیس عن ابی الحسناء ان علیًا امر رجلًا یصلی بھم فی رمضان عشرین رکعة۔” (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

ترجمہ:…”عمرو بن قیس، ابوالحسناء سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعتیں پڑھایا کرے۔”

۵:… “عن ابی سعد البقال عن ابی الحسناء ان علی بن ابی طالب رضی الله عنہ امر رجلًا ان یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعة وفی ھٰذا الاسناد ضعف۔” (سننِ کبریٰ بیہقی ج:۲ ص:۴۹۵)

ترجمہ:…”ابوسعد بقال، ابوالحسناء سے نقل کرتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعتیں پڑھایا کرے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اس کی سند میں ضعف ہے۔”

علامہ ابن الترکمانی ’الجوہر النقی” میں لکھتے ہیں کہ: ظاہر تو یہ ہے کہ اس سند کا ضعف ابوسعد بقال کی وجہ سے ہے، جو متکلم فیہ راوی ہے، لیکن مصنف ابنِ ابی شیبہ کی روایت میں (جو اُوپر ذکر کی گئی ہے) اس کا متابع موجود ہے، جس سے اس کے ضعف کی تلافی ہوجاتی ہے۔ (ذیل سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۵)

۶:… “عن شتیر بن شکل وکان من اصحاب علی رضی الله عنہ انہ کان یومھم فی شھر رمضان بعشرین رکعة ویوتر بثلٰث۔”

(سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶، قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷)

ترجمہ:…”شتیر بن شکل، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے، رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔”

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس اثر کو نقل کرکے کہا ہے: “وفی ذٰلک قوّة” (اور اس میں قوّت ہے)، پھر اس کی تائید میں انہوں نے عبدالرحمن سلمی کا اثر ذکر کیا ہے جو اُوپر گزر چکا ہے۔

۷:… “عن ابی الخصیب قال: کان یومنا سوید بن غفلة فی رمضان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعة۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶)

ترجمہ:…”ابوالخصیب کہتے ہیں کہ: سعید بن غفلہ ہمیں رمضان میں نماز پڑھاتے تھے، پس پانچ ترویحے بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔”

“قال النیموی: واسنادہ حسن۔”

(آثار السنن ج:۲ ص:۵۵ طبع ہند)

ترجمہ:… “علامہ نیموی فرماتے ہیں کہ: اس کی سند صحیح ہے۔”

حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کا شمار کبار تابعین میں ہے، انہوں نے زمانہٴ جاہلیت پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسلام لائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی، کیونکہ مدینہ طیبہ اس دن پہنچے جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی، اس لئے صحابیت کے شرف سے مشرف نہ ہوسکے، بعد میں کوفہ میں رہائش اختیار کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خاص اصحاب میں تھے، ۸۰ھ میں ایک سو تیس برس کی عمر میں انتقال ہوا۔

(تقریب التہذیب ج:۱ ص:۳۴۱)

۸:… “عن الحارث انہ کان یوٴم الناس فی رمضان باللیل بعشرین رکعة ویوتر بثلٰث ویقنت قبل الرکوع۔” (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

ترجمہ:…”حارث، رمضان میں لوگوں کو بیس تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے اور رُکوع سے قبل قنوت پڑھتے تھے۔”

۹:…قیام اللیل میں عبدالرحمن بن ابی بکرہ، سعید بن الحسن اور عمران العبدی سے نقل کیا ہے کہ وہ بیس راتیں بیس تراویح پڑھایا کرتے تھے اور آخری عشرہ میں ایک ترویحہ کا اضافہ کردیتے تھے۔ (قیام اللیل ص:۹۲، طبع جدید ۱۵۸)

حارث، عبدالرحمن بن ابی بکرہ (متوفی ۹۶ھ)، اور سعید بن ابی الحسن (متوفی ۱۰۸ھ) تینوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔

۱۰:…ابوالبختری بھی بیس تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔

(مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

۱۱:… علی بن ربیعہ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں تھے، بیس تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

۱۲:… ابن ابی ملیکہ (متوفی ۱۱۷ھ) بھی بیس تراویح پڑھاتے تھے۔

(مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

۱۳:… حضرت عطا (متوفی ۱۱۴ھ) فرماتے ہیں کہ: میں نے لوگوں کو وتر سمیت ۲۳ رکعتیں پڑھتے ہوئے پایا ہے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۲ ص:۳۹۳)

۱۴:… موٴطا امام مالک میں عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج (متوفی ۱۱۷ھ) کی روایت ہے کہ میں نے لوگوں کو اس حالت میں پایا ہے کہ وہ رمضان میں کفار پر لعنت کرتے تھے اور قاری آٹھ رکعتوں میں سورہٴ بقرہ ختم کرتا تھا، اگر وہ بارہ رکعتوں میں سورہٴ بقرہ ختم کرتا تو لوگ یہ محسوس کرتے کہ اس نے قرأت میں تخفیف کی ہے۔

(موٴطا امام مالک ص:۹۹)

اس روایت سے مقصود تو تراویح میں طولِ قرأت کا بیان ہے، لیکن روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف آٹھ رکعات پر اکتفا نہیں کیا جاتا تھا۔

خلاصہ یہ کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت جاری کی، ہمیشہ بیس یا زائد تراویح پڑھی جاتی تھیں، البتہ ایامِ حرہ (۶۳ھ) کے قریب اہلِ مدینہ نے ہر ترویحہ کے درمیان چار رکعتوں کا اضافہ کرلیا، اس لئے وہ وتر سمیت اکتالیس رکعتیں پڑھتے تھے، اور بعض دیگر تابعین بھی عشرہٴ اخیرہ میں اضافہ کرلیتے تھے۔ بہرحال صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین کے دور میں آٹھ تراویح کا کوئی گھٹیا سے گھٹیا ثبوت نہیں ملتا، اس لئے جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا تھا، ان کا ارشاد مبنی برحقیقت ہے، کیونکہ حضراتِ سلف اس تعداد پر اضافے کے تو قائل تھے، مگر اس میں کمی کا قول کسی سے منقول نہیں، اس لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ اس بات پر سلف کا اجماع تھا کہ تراویح کی کم سے کم تعداد بیس رکعات ہیں۔

۴:… تراویح ائمہٴ اربعہ کے نزدیک

امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک تراویح کی بیس رکعات ہیں، امام مالک سے اس سلسلے میں دو روایتیں منقول ہیں، ایک بیس کی اور دُوسری چھتیس کی، لیکن مالکی مذہب کے متون میں بیس ہی کی روایت کو اختیار کیا گیا ہے۔ فقہِ حنفی کے حوالے دینے کی ضرورت نہیں، دُوسرے مذاہب کی مستند کتابوں کے حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔

فقہِ مالکی:

قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی ۵۹۵ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں:

“واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث۔”

(بدایة المجتہد ج:۱ ص:۱۵۶، مکتبہ علمیہ لاہور)

ترجمہ:…”رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد اور داوٴد نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے، اور ابنِ قاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے۔”

مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی ۱۲۰۱ھ) لکھتے ہیں:

“وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔

(ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل۔”

(شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی ج:۱ ص:۳۱۵)

ترجمہ:…”اور تراویح، وتر سمیت ۲۳ رکعتیں ہیں، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین کا) عمل تھا، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر)۔”

فقہِ شافعی:

امام محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں:

“(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداود وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بن یزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر۔” (مجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲)

ترجمہ:…”رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام احمد اور امام داوٴد وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور قاضی عیاض نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں۔”

فقہِ حنبلی:

حافظ ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی ۶۲۰ھ) المغنی میں لکھتے ہیں:

“والمختار عند ابی عبدالله رحمہ الله فیھا عشرون رکعة وبھٰذا قال الثوری وابوحنیفة والشافعی، وقال مالک ستة وثلاثون۔”

(مغنی ابنِ قدامہ ج:۱ ص:۷۹۸، ۷۹۹، مع الشرح الکبیر)

ترجمہ:…”امام احمد کے نزدیک تراویح میں بیس رکعتیں مختار ہیں۔ امام ثوری، ابوحنیفہ اور شافعی بھی اسی کے قائل ہیں، اور امام مالک چھتیس کے قائل ہیں۔”

خاتمہ بحث، چند ضروری فوائد:

مسک الختام کے طور پر چند فوائد گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، تاکہ بیس تراویح کی اہمیت ذہن نشین ہوسکے۔

۱:… بیس تراویح سنتِ موٴکدہ ہے:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں بیس تراویح جاری کرنا، صحابہ کرام کا اس پر نکیر نہ کرنا، اور عہدِ صحابہ سے لے کر آج تک شرقاً و غرباً بیس تراویح کا مسلسل زیرِ تعامل رہنا، اس امر کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین میں داخل ہے، لقولہ تعالیٰ: “ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضٰی لھم” (اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین کے لئے ان کے اس دین کو قرار و تمکین بخشیں گے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمالیا ہے)۔

الاختیار شرح المختار میں ہے:

“روی اسد بن عمرو عن ابی یوسف قال: سئلت ابا حنیفة رحمہ الله عن التراویح وما فعلہ عمر رضی الله عنہ، فقال: التراویح سنة موٴکدة ولم یتخرصہ عمر من تلقاء نفسہ ولم یکن فیہ مبتدعًا ولم یأمر بہ الا عن اصل لدیہ وعھد من رسول الله صلی الله علیہ وسلم ولقد سن عمر ھذا وجمع الناس علٰی أبیّ بن کعب فصلاھا جماعة والصحابة متوافرون منھم عثمان وعلی وابن مسعود والعباس وابنہ وطلحة والزبیر ومعاذ وأبیّ وغیرھم من المھاجرین والأنصار رضی الله عنہم اجمعین وما ردّ علیہ واحد منھم بل ساعدوہ ووافقوہ وامروا بذٰلک۔”

(الاختیار لتعلیل المختار ج:۱ ص:۶۸، الشیخ الامام ابی الفضل مجدالدین عبدالله بن محمود الموصلی الحنفی، متوفی ۶۸۳ھ)

ترجمہ:…”اسد بن عمرو، امام ابویوسف سے روایت کرتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام ابوحنیفہ سے تراویح اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ: تراویح سنتِ موٴکدہ ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی طرف سے اختراع نہیں کیا، نہ وہ کوئی بدعت ایجاد کرنے والے تھے، انہوں نے جو حکم دیا وہ کسی اصل کی بنا پر تھا جو ان کے پاس موجود تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عہد پر مبنی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو اُبیّ بن کعب پر جمع کیا، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کرائی، اس وقت صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے، حضرات عثمان، علی، ابنِ مسعود، عباس، ابنِ عباس، طلحہ، زبیر، معاذ اُبیّ اور دیگر مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم اجمعین سب موجود تھے، مگر ایک نے بھی اس کو رَدّ نہیں کیا، بلکہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔”

۲:… خلفائے راشدین کی جاری کردہ سنت کے بارے میں وصیتِ نبوی:

اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ بیس تراویح تین خلفائے راشدین کی سنت ہے اور سنتِ خلفائے راشدین کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“انہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافًا کثیرًا فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة۔”

(رواہ احمد وابوداوٴد والترمذی وابن ماجہ، مشکوٰة ص:۳۰)

ترجمہ:…”جو شخص تم میں سے میرے بعد جیتا رہا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوط تھام لو اور دانتوں سے مضبوط پکڑ لو، اور نئی نئی باتوں سے احتراز کرو، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”

اس حدیث پاک سے سنتِ خلفائے راشدین کی پیروی کی تاکید معلوم ہوتی ہے، اور یہ کہ اس کی مخالفت بدعت و گمراہی ہے۔

۳:… ائمہٴ اربعہ کے مذاہب سے خروج جائز نہیں:

اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ ائمہٴ اربعہ کم سے کم بیس تراویح کے قائل ہیں، ائمہٴ اربعہ کے مذہب کا اتباع سوادِ اعظم کا اتباع ہے، اور مذاہبِ اربعہ سے خروج، سوادِ اعظم سے خروج ہے، مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی “عقد الجید” میں لکھتے ہیں:

“قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اتبعوا السواد الأعظم۔ ولما اندرست المذاھب الحقة الا ھذا الأربعة کان اتباعھا اتباعًا للسواد الأعظم، والخروج عنھا خرجًا عن السواد الأعظم۔”

(رواہ ابن ماجہ من حدیث انس، کما فی مشکوٰة ص:۳۰، وتمامہ: “فانہ من شذ شذ فی النار۔” عقد الجید ص:۳۷ مطبوعہ ترکیہ)

ترجمہ:…”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: “سوادِ اعظم کی پیروی کرو!” اور جبکہ ان مذاہبِ اربعہ کے سوا باقی مذاہبِ حقہ مٹ چکے ہیں تو ان کا اتباع سوادِ اعظم کا اتباع ہوگا، اور ان سے خروج سوادِ اعظم سے خروج ہوگا۔”

۴:… بیس تراویح کی حکمت:

حکمائے اُمت نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق بیس تراویح کی حکمتیں بھی ارشاد فرمائی ہیں، یہاں تین اکابر کے ارشادات نقل کئے جاتے ہیں:

۱:… البحر الرائق میں شیخ ابراہیم الحلبی الحنفی (متوفی ۹۵۶ھ) سے نقل کیا ہے:

“وذکر العلامة الحلبی ان الحکمة فی کونھا عشرین ان السنن شرعت مکملات للواجبات وھی عشرون بالوتر فکانت التراویح کذالک لتقع المساوات بن المکمل والمکمل انتھٰی۔”

(البحر الرائق ج:۲ ص:۷۲)

ترجمہ:…”علامہ حلبی نے ذکر کیا ہے کہ تراویح کے بیس رکعات ہونے میں حکمت یہ ہے کہ سنن، فرائض و واجبات کی تکمیل کے لئے مشروع ہوئی ہیں، اور فرائض پنج گانہ وتر سمیت بیس رکعات ہیں۔ لہٰذا تراویح بھی بیس رکعات ہوئیں، تاکہ مکمل اور مکمل کے درمیان مساوات ہوجائے۔”

۲:… علامہ منصور بن یونس حنبلی (متوفی ۱۰۴۶ھ) کشف القناع میں لکھتے ہیں:

“والسر فیہ ان الراتبہ عشر فضوعفت فی رمضان لأنہ وقت جد۔”

(کشف القناع عن متن الاقناع ج:۱ ص:۳۹۲)

ترجمہ:…”اور بیس تراویح میں حکمت یہ ہے کہ سننِ موٴکدہ دس ہیں، پس رمضان میں ان کو دو چند کردیا گیا، کیونکہ وہ محنت و ریاضت کا وقت ہے۔”

۳:… حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس امر کو ذکر کرتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تراویح کی بیس رکعتیں قرار دیں، اس کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں:

“وذالک انھم رأوا النبی صلی الله علیہ وسلم شرع للمحسنین احدی عشرة رکعة فی جمیع السنة فحکموا انہ لا ینبغی ان یکون حظ المسلم فی رمضان عند قصدہ الاقتحام فی لجة التشبہ بالملکوت اقل من ضعفھا۔” (حجة الله البالغہ ج:۲ ص:۱۸)

ترجمہ:…”اور یہ اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محسنین کے لئے (صلوٰة اللیل کی) گیارہ رکعتیں پورے سال میں مشروع فرمائی ہیں، پس ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ رمضان المبارک میں جب مسلمان تشبہ بالملکوت کے دریا میں غوطہ لگانے کا قصد رکھتا ہے تو اس کا حصہ سال بھر کی رکعتوں کے دوگنا سے کم نہیں ہونا چاہئے۔”

تراویح کے لئے دُوسری مسجد میں جانا

س… اپنے محلے کی مسجد کو چھوڑ کر دُوسری مسجد میں تراویح پڑھنے جانا کیسا ہے؟

ج… اگر اپنے محلے کی مسجد میں قرآن مجید ختم نہ ہوتا ہو، یا امام قرآن مجید غلط پڑھتا ہو تو تراویح کے لئے محلے کی مسجد کو چھوڑ کر دُوسری جگہ جانا جائز ہے۔

تراویح کے امام کی شرائط کیا ہیں؟

س… تراویح پڑھانے کے لئے کس قسم کا حافظ ہونا چاہئے؟

ج… تراویح کی امامت کے لئے وہی شرائط ہیں جو عام نمازوں کی امامت کے لئے ہیں، اس لئے حافظ کا متبعِ سنت ہونا ضروری ہے، داڑھی منڈانے یا کترانے والے کو تراویح میں امام نہ بنایا جائے، اسی طرح معاوضہ لے کر تراویح پڑھانے والے کے پیچھے تراویح جائز نہیں، اس کے بجائے الم تر کیف کے ساتھ پڑھ لینا بہتر ہے۔

داڑھی منڈے حافظ کی اقتدا میں تراویح پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے

س… داڑھی کترے حافظ کے پیچھے نماز خواہ فرض ہو یا تراویح کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ آج کل تراویح میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کئی حافظ حضرات چھوٹی اور بغیر داڑھی کے تراویح پڑھاتے ہیں، اگر ان سے یہ عرض کیا جائے کہ آپ نے داڑھی کیوں نہیں رکھی؟ تو وہ یہ کہتے ہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، اگر اہمیت ہوتی تو سعودی عرب میں چھوٹی چھوٹی داڑھی ہے، مصر کا ملک بھی مسلمان ہے، لوگ ۹۵ فیصد کتراتے اور منڈواتے ہیں۔ صحیح جواب سے نوازیں۔

ج… داڑھی رکھنا واجب ہے۔ منڈانا یا کترانا (جبکہ ایک مشت سے کم ہو) بالاتفاق حرام ہے، اور ایسے شخص کے پیچھے نماز، خواہ تراویح کی ہو پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ گناہ اگر عام ہوجائے تو وہ ثواب نہیں بن جاتا، گناہ ہی رہتا ہے، اس لئے سعودیوں یا مصریوں کا حوالہ غلط ہے۔

نماز کی پابندی نہ کرنے والے اور داڑھی کترانے والے حافظ کی اقتدا میں تراویح

س… ایک حافظ قرآن پورے سال پابندی کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا، مگر جب ماہِ رمضان آتا ہے تو کسی مسجد میں ختمِ قرآن سناتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسے حافظ کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھنے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ نیز ایک مٹھی کے اندر داڑھی کتروانے والا حافظ یعنی ایک مٹھی سے داڑھی کم ہو تو ایسے حافظ کے پیچھے نمازِ تراویح پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… ایسے حافظ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں، اس کے بجائے الم تر کیف کے ساتھ تراویح پڑھ لینا بہتر ہے۔

معاوضہ طے کرنے والے حافظ کی اقتدا میں تراویح ناجائز ہے

س… اکثر حافظ صاحبان جن کے کھانے کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا، وہ باقاعدہ معاوضہ طے کرکے پھر تراویح پڑھانے کے لئے تیار ہوتے ہیں، کیا ایسی صورت میں جبکہ روزگار وغیرہ نہ ہو قرآنِ عظیم کو ذریعہٴ آمدنی بنانا جائز ہے؟

ج… اُجرت لے کر تراویح پڑھانا جائز نہیں، اور ایسے حافظ کے پیچھے تراویح مکروہِ تحریمی ہے، اس کے بجائے الم تر کیف کے ساتھ پڑھ لینا بہتر ہے۔

تراویح پڑھانے والے حافظ کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟

س… یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ قرآنِ پاک سناکر اُجرت لینا ناجائز ہے، لیکن اگر کوئی حافظ تراویح میں قرآنِ پاک سنائے اور کوئی اُجرت نہ لے، مگر مقتدی اپنی خوشی سے اسے کچھ رقم یا کوئی کپڑا وغیرہ کوئی چیز دے دیں، تو کیا یہ اس کے لئے جائز ہے یا نہیں؟

ج… جس علاقے میں حافظوں کو اُجرت دینے کا رواج ہو، وہاں ہدیہ بھی اُجرت ہی سمجھا جاتا ہے، چنانچہ اگر کچھ نہ دیا جائے تو لوگ اس کا برا مناتے ہیں، اس لئے تراویح سنانے والے کو ہدیہ بھی نہیں لینا چاہئے۔

تراویح میں تیز رفتار حافظ کے پیچھے قرآن سننا کیسا ہے؟

س… سورة مزمل کی ایک آیت کے ذریعہ تاکید کی گئی ہے کہ قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھو، اس کے برعکس تراویح میں حافظ صاحبان اس قدر روانی سے پڑھتے ہیں کہ الفاظ سمجھ میں نہیں آتے، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پورا قرآن وقتِ مقرّرہ پر ختم نہیں کرسکتے، باپ اور بیٹا دونوں حافظ ہیں، بیٹا باپ سے زیادہ روانی سے پڑھتا ہے، جس پر لوگوں نے باپ کو “حافظ ریل” اور بیٹے کو “حافظ انجن” کے لقب سے نوازا ہے، اور وہ اب اسی نام سے پہچانے جاتے ہیں، کیا تراویح میں اس طرح پڑھنا دُرست ہے؟

ج… تراویح کی نماز میں عام نمازوں کی نسبت ذرا تیز پڑھنے کا معمول تو ہے، مگر ایسا تیز پڑھنا کہ الفاظ صحیح طور پر ادا نہ ہوں، اور سننے والوں کو سوائے یعلمون تعلمون کے کچھ سمجھ نہ آئے، حرام ہے، ایسے حافظ کے بجائے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینا بہتر ہے۔

بغیر عذر کے تراویح بیٹھ کر پڑھنا کیسا ہے؟

س… دیگر نفل کی طرح کیا تراویح بھی بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں؟

ج… تراویح بغیر عذر کے بیٹھ کر نہیں پڑھنی چاہئے، یہ خلافِ استحباب ہے، اور ثواب بھی آدھا ملے گا۔

تراویح میں رُکوع تک الگ بیٹھے رہنا مکروہ فعل ہے

س… تراویح میں جب حافظ نیت باندھ کر قرأت کرتا ہے تو اکثر نمازی یونہی پیچھے بیٹھے یا ٹہلتے رہتے ہیں، اور جیسے ہی حافظ رُکوع میں جاتا ہے تو لوگ جلدی جلدی نیت باندھ کر نماز میں شریک ہوجاتے ہیں، یہ حرکت کہاں تک دُرست ہے؟

ج… تراویح میں ایک بار پورا قرآن مجید سننا ضروری اور سنتِ موٴکدہ ہے، جو لوگ امام کے ساتھ شریک نہیں ہوتے ان سے اتنا حصہ قرآنِ کریم کا فوت ہوجاتا ہے، اس لئے یہ لوگ نہ صرف ایک ثواب سے محروم رہتے ہیں، بلکہ نہایت مکروہ فعل کے مرتکب ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا یہ فعل قرآنِ کریم سے اعراض کے مشابہ ہے۔

تراویح میں قرأت کی مقدار

س… تراویح میں کتنا قرآن پڑھنا چاہئے؟

ج… تراویح میں کم از کم ایک قرآن مجید ختم کرنا سنت ہے، لہٰذا اتنا پڑھا جائے کہ ۲۹/رمضان کو قرآنِ کریم پورا ہوجائے۔

دو تین راتوں میں مکمل قرآن کرکے بقیہ تراویح چھوڑ دینا

س… میرے بعض دوست ایسے ہیں جو کہ رمضان کی شروع کی ایک رات یا تین راتوں میں پورا قرآن شریف تراویح میں سن لیتے ہیں اور پھر بقیہ دنوں میں تراویح نہیں پڑھتے، کیا یہ دُرست ہے؟ دُوسرے یہ کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ پورا قرآن ایک رات میں سن کر باقی راتوں میں امام صاحب کے ساتھ فرض پڑھ کر تروایح خود اکیلے جلدی پڑھ لیتے ہیں، کیا یہ دُرست ہے؟

ج… تراویح پڑھنا مستقل سنت ہے، اور تراویح میں پورا قرآنِ کریم سننا الگ سنت ہے، جو شخص ان میں سے کسی ایک سنت کا تارک ہوگا وہ گناہگار ہوگا۔

نمازِ تراویح میں صرف بھولی ہوئی آیات کو دُہرانا بھی جائز ہے

س… تراویح میں تلاوت کرتے کرتے اگر حافظ صاحب آگے نکل جائیں اور بعد میں معلوم ہو کہ بیچ میں کچھ آیتیں رہ گئی ہیں، تو کیا ایسی صورت میں تلاوت کیا گیا پورا کلامِ پاک دُہرائے یا صرف چھوٹی ہوئی اور غلط پڑھی گئی آیتیں دُہرائے؟

ج… پورا لوٹانا افضل ہے، صرف اتنی آیتوں کا بھی پڑھ لینا جائز ہے۔

تراویح میں خلافِ ترتیب سورتیں پڑھی جائیں تو کیا سجدہٴ سہو لازم ہوگا؟

س… تراویح میں الم تر کیف سے قل اعوذ برب الناس تک پڑھی جاتی ہیں، کیا ان کو سلسلے وار ہر رکعت میں پڑھا جائے؟ اگر بھول کر آگے پیچھے ہوجاتی ہے تو کیا سجدہٴ سہو لازم ہوتا ہے یا نہیں؟

ج… نماز میں سورتوں کو قصداً خلافِ ترتیب پڑھنا مکروہ ہے، مگر اس سے سجدہٴ سہو لازم نہیں آتا، اور اگر بھول کر خلافِ ترتیب پڑھ لے تو کراہت بھی نہیں۔

تراویح میں ایک مرتبہ بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنا ضروری ہے

س… بعض حافظ قرآنِ کریم میں ایک مرتبہ “بسم الله الرحمن الرحیم” آواز کے ساتھ پڑھتے ہیں، اگر آہستہ پڑھی جائے تو کیا حرج ہے؟

ج… تراویح میں کسی سورة کے شروع میں ایک مرتبہ “بسم الله الرحمن الرحیم” کی آیت بھی بلند آواز سے پڑھ دینی چاہئے، کیونکہ یہ قرآنِ کریم کی ایک مستقل آیت ہے، اگر اس کو جہراً نہ پڑھا گیا تو مقتدیوں کا قرآنِ کریم کا سماع پورا نہیں ہوگا۔

دورانِ تراویح “قل ھو الله” کو تین بار پڑھنا کیسا ہے؟

س… دورانِ تراویح یا شبینہ تلاوت کلامِ پاک میں کیا “قل ھو الله” کی سورة کو تین بار پڑھنا چاہئے؟

ج… تراویح میں “قل ھو الله” تین بار پڑھنا جائز ہے، مگر بہتر نہیں، تاکہ اس کو سنتِ لازمہ نہ بنالیا جائے۔

تراویح میں ختمِ قرآن کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

س… تراویح میں جب قرآنِ پاک ختم کیا جاتا ہے تو بعض حفاظِ کرام آخری دوگانہ میں تین مرتبہ سورہٴ اِخلاص، ایک مرتبہ سورہٴ فلق، سورة الناس اور دُوسری رکعت میں البقرہ کا پہلا رُکوع پڑھتے ہیں، اور بعض حفاظ سورہٴ اِخلاص کو صرف ایک مرتبہ پڑھتے ہیں اور آخری دو رکعتوں میں البقرہ کا پہلا رُکوع اور دُوسری رکعت میں سورہٴ والصافات کی آخری آیات پڑھتے ہیں، ختمِ قرآن تراویح کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

ج… ویسے تو قرآن شریف سورہٴ والناس پر ختم ہوجاتا ہے، لہٰذا اگر کوئی حافظ سورة الناس آخری رکعت میں پڑھیں اور سورة البقرہ شروع نہ کریں تو یہ دُرست ہے، لیکن جو حفاظِ کرام سورة الناس کے بعد بیسویں رکعت میں سورة البقرہ شروع کردیتے ہیں یا اُنیسویں رکعت میں سورة البقرہ اور بیسویں رکعت میں سورہٴ والصافات کی آخری دُعائیہ آیات پڑھتے ہیں تو اگر اس طریقہ کو وہ لازمی نہیں سمجھتے ہیں تو اس طرح سے ختمِ قرآن کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ سورة الناس کے بعد سورة البقرہ شروع کرنے میں اس بات کی طرف لطیف سا اشارہ ہوتا ہے کہ تلاوتِ قرآن میں تسلسل ہونا چاہئے، اور حدیث شریف میں اس کی تعریف آتی ہے کہ آدمی قرآنِ کریم ختم کرکے دوبارہ شروع کردے، اس لئے یہ بہتر ہے کہ ایک قرآن ختم کرکے فوراً دُوسرا قرآن شروع کردیا جائے، البتہ اس طریقہ کو اگر لازمی سمجھا جائے تو دُرست نہیں۔

تراویح میں اگر مقتدی کا رُکوع چھوٹ گیا تو نماز کا کیا حکم ہے؟

س… تراویح میں امام صاحب نے کہا کہ دُوسری رکعت میں سجدہ ہے، لیکن دُوسری رکعت میں امام نے نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر سجدہ کی آیت تلاوت کرنے سے پہلے ہی رُکوع کرلیا، جبکہ مقتدی خاص طور پر جو کونوں اور پیچھے کی طرف تھے وہ دُوسری رکعت میں سجدہ کی بنا پر سجدہ میں چلے گئے، لیکن جب امام نے “سمع اللہ لمن حمدہ” کہا تو وہ حیرت اور پریشانی میں کھڑے ہوئے اور امام “اللہ اکبر” کہتا ہوا سجدہ میں گیا تو مقتدی بھی سجدے میں چلے گئے، اور بقیہ نماز ادا کی۔ یعنی امام کی نماز تو دُرست رہی جبکہ مقتدیوں کا رُکوع چھوٹ گیا، اور انہوں نے سلام امام کے ساتھ ہی پھیرا، کیا مقتدیوں کی نماز دُرست ہوئی؟ اگر نہیں تو اس صورت میں مقتدیوں کو کیا کرنا چاہئے؟

ج… مقتدیوں کو چاہئے تھا کہ وہ اپنا رُکوع کرکے امام کے ساتھ سجدے میں شریک ہوجاتے، بہرحال رُکوع نماز میں فرض ہے، جب وہ چھوٹ گیا تو نماز نہیں ہوئی، ان حضرات کو چاہئے کہ اپنی دو رکعتیں قضا کرلیں۔

تراویح کی دُوسری رکعت میں بیٹھنا بھول جائے اور چار پڑھ لے تو کتنی تراویح ہوئیں؟

س… دو رکعت نماز سنت تراویح کی نیت کرکے حافظ صاحب نے نماز شروع کی، دُوسری رکعت کے بعد تشہد میں نہیں بیٹھے، تیسری چوتھی رکعت پڑھی، پھر تشہد پڑھ کر سجدہٴ سہو نکالا، نماز تراویح کی چاروں رکعت ہوگئیں یا دو سنت دو نفل یا چاروں نفل؟

ج… صحیح قول کے مطابق اس صورت میں تراویح کی دو رکعتیں ہوئیں:

“فلو صلی الامام اربعًا بتسلیمة ولم یقعد فی الثانیة فاظھر الروایتین عن ابی حنیفة وابی یوسف عدم الفساد ثم اختلفوا ھل تنوب عن تسلیمة او تسلیمتین؟ قال ابو اللیث تنوب عن تسلیمتین، وقال ابوجعفر وابن الفضل تنوب عن واحدة وھو الصحیح، کذا فی الظھیریة والخانیة وفی المجتبی وعلیہ الفتویٰ۔”

(البحر الرائق ج:۲ ص:۷۲)

تراویح کے دوران وقفہ

س… تراویح کے دوران کتنا وقفہ کرنا چاہئے؟

ج… نمازِ تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر بیٹھنا جتنی دیر میں چار رکعتیں پڑھی گئی تھیں، مستحب ہے، لیکن اگر اتنی دیر بیٹھنے میں لوگوں کو تنگی ہو تو کم وقفہ کیا جائے۔

عشاء کے فرائض تراویح کے بعد ادا کرنے والے کی نماز کا کیا حکم ہے؟

س… ایک صاحب عشاء کے وقت مسجد میں داخل ہوئے، تو عشاء کی نماز ختم ہوچکی تھی، تراویح شروع تھیں، یہ حضرت تراویح میں شامل ہوگئے، بعد از تراویح عشاء کی فرض نماز مکمل کی، آیا اس طرح نماز ہوگئی یا نہیں؟ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ قصداً ایسا نہیں کیا، بلکہ لاعلمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

ج… جو شخص ایسے وقت آئے کہ عشاء کی نماز ہوچکی ہو اس کو لازم ہے کہ پہلے عشاء کے فرض اور سنتِ موٴکدہ پڑھ لے، بعد میں تراویح کی جماعت میں شریک ہو، ان صاحب کی نمازِ تراویح نہیں ہوئی، تراویح کی نماز عشاء کے تابع ہے، اس کی مثال ایسے ہے جیسے بعد کی سنتیں کوئی شخص پہلے پڑھ لے تو ان کا لوٹانا ضروری ہوگا، مگر تراویح کی قضا نہیں۔

جماعت سے فوت شدہ تراویح وتروں کے بعد ادا کی جائے یا پہلے؟

س… ہم اگر تراویح میں دیر سے پہنچتے ہیں تو پہلے عشاء کی نماز پڑھ کر امام کے ساتھ تراویح میں شامل ہوجاتے ہیں اور جو ہماری تراویح رہ جاتی ہے اس کو وتر کے بعد میں پڑھنا چاہئے یا وتر سے پہلے پڑھیں؟ اور اگر بقیہ تراویح نہ پڑھیں تو کوئی گناہ تو نہیں ہے؟

ج… وتر جماعت کے ساتھ پہلے پڑھ لیں، بعد میں باقی ماندہ تراویح پڑھیں۔

بغیر جماعت عشاء کے جماعت تراویح صحیح نہیں

س… اگر کسی مسجد میں نمازِ عشاء جماعت کے ساتھ نہ پڑھی گئی ہو تو وہاں تراویح جماعت سے پڑھنا کیسا ہے؟

ج… اگر عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ نہ ہوئی ہو تو تراویح بھی جماعت کے ساتھ نہ پڑھی جائے، کیونکہ تراویح عشاء کی نماز کے تابع ہے، البتہ اگر کچھ لوگ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر تراویح پڑھ رہے ہوں اور کوئی شخص بعد میں آئے تو وہ اپنی عشاء کی نماز الگ پڑھ کر تراویح کی جماعت میں شریک ہوسکتا ہے۔

کیا تراویح کی قضا پڑھنی ہوگی؟

س… جہاز پر ہماری ڈیوٹی رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک ہوتی ہے، اس وقت ہم میں سے اکثر لوگ صرف عشاء کی نماز قضا کرتے ہیں، کیا اس وقت ہم صرف عشاء پڑھیں یا قضا تراویح بھی پڑھ سکتے ہیں؟

ج… عشاء کا وقت صبحِ صادق تک باقی رہتا ہے، اگر آپ ڈیوٹی سے پہلے عشاء نہیں پڑھ سکتے تو ڈیوٹی سے فارغ ہوکر بارہ بجے کے بعد جب عشاء کی نماز پڑھیں گے تو ادا ہی ہوگی، کیونکہ عشاء کو اس کے وقت کے اندر آپ نے ادا کرلیا، اور تراویح کی نماز کا وقت بھی عشاء سے لے کر صبحِ صادق سے پہلے تک ہے، اس لئے آپ لوگ جب عشاء کی نماز پڑھیں تو تراویح بھی پڑھ لیا کریں، اس وقت تراویح بھی قضا نہیں ہوگی، بلکہ ادا ہی ہوگی۔ اگر کوئی شخص صبحِ صادق سے پہلے تراویح نہیں پڑھ سکا، اس کی تراویح قضا ہوگئی، اب اس کی قضا نہیں پڑھ سکتا، کیونکہ تراویح کی قضا نہیں۔

نمازِ تراویح سے قبل وتر پڑھ سکتا ہے

س… تراویح سے پہلے وتر پڑھنا کیسا ہے؟

ج… وتر تراویح کے بعد پڑھنا افضل ہے، لیکن اگر پہلے پڑھ لے تب بھی دُرست ہے۔

رمضان میں وتر بغیر جماعت کے ادا کرنا

س… اگر ہم جلدی میں ہوں تو کیا تراویح پڑھنے کے بعد وتر بغیر جماعت کے پڑھے جاسکتے ہیں؟ اس سے بقیہ نماز پر تو کچھ اثر وغیرہ نہیں پڑے گا یا وتر باجماعت پڑھنا لاز می ہے؟

ج… رمضان المبارک میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے، تنہا پڑھ لینا جائز ہے۔

اکیلے تراویح ادا کرنا کیسا ہے؟

س… اگر کوئی انسان نمازِ تراویح باجماعت ادا نہ کرسکے تو کیا وہ الگ پڑھ سکتا ہے؟

ج… اگر کسی عذر کی وجہ سے تراویح باجماعت نہیں پڑھ سکتا تو تنہا پڑھ لے، کوئی حرج نہیں۔

گھر میں تراویح پڑھنے والا وتر چاہے آہستہ پڑھے چاہے جہراً

س… کیا گھر میں تنہا پڑھنے والا بھی تراویح اور وتر جہراً پڑھے گا؟

ج… دونوں طرح سے جائز ہے، آہستہ بھی اور جہراً بھی۔

نمازِ تراویح لاوٴڈ اسپیکر پر پڑھنا

س… لاوٴڈ اسپیکر میں جو نمازِ تراویح بوجہ ضرورت پڑھی جاتی ہے اس میں کیا کوئی کراہت ہے؟

ج… ضرورت کی بنا پر ہو تو کوئی کراہت نہیں، لیکن ضرورت کی چیز بقدرِ ضرورت ہی اختیار کی جاتی ہے، لہٰذا لاوٴڈ اسپیکر کی آواز مسجد تک محدود رہنی چاہئے، تراویح میں اُوپر کے اسپیکر کھول دینا جس سے پورے محلے کا سکون غارت ہوجائے، جائز نہیں۔

تراویح میں امام کی آواز نہ سن سکے تب بھی پورا ثواب ملے گا

س… تراویح میں زیادہ مخلوق ہونے کی وجہ سے اگر پیچھے والی صف قرآن نہ سن پائے تو کیا ثواب وہی ملے گا جو سامع کو مل رہا ہے؟

ج… جی ہاں! ان کو بھی پورا ثواب ملے گا۔

تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنا صحیح نہیں

س… کیا تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا جائز ہے؟

ج… تراویح میں قرآن مجید دیکھ دیکھ کر پڑھنا صحیح نہیں، اگر کسی نے ایسا کیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔

تراویح میں قرآن ہاتھ میں لے کر سننا غلط ہے

س… میں نے قرآنِ پاک حفظ کیا ہے، اور ہر ماہ رمضان میں بطور تراویح سنانے کا اہتمام بھی کرتی ہوں، لیکن جو خاتون میرا قرآن سنتی ہے وہ حافظ نہیں ہے، اور قرآن ہاتھ میں لے کر سنتی ہے، یا پھر کسی نابالغ حافظ لڑکے کو بطور سامع مقرّر کرکے نفلوں میں یہ اہتمام کیا جاسکتا ہے؟ ہر دو صورت میں جائز صورت کیا ہے؟

ج… ہاتھ میں قرآن لے کر سننا تو غلط ہے، کسی نابالغ حافظ کو سامع بنانا جائز ہے۔

تراویح نماز جیسے مردوں کے ذمہ ہے، ویسے ہی عورتوں کے ذمہ بھی ہے

س… کیا تراویح کی نماز عورتوں کے لئے ضروری ہے؟ جو عورتیں اس میں کوتاہی کرتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

ج… تراویح سنت ہے، اور تراویح کی نماز جیسے مردوں کے ذمہ ہے، ایسے ہی عورتوں کے ذمہ بھی ہے، مگر اکثر عورتیں اس میں کوتاہی اور غفلت کرتی ہیں، یہ بہت بُری بات ہے۔

تراویح کے لئے عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

س… عورتوں کے لئے مسجد میں تراویح کا انتظام کرنا کیسا ہے؟ کیا وہ گھر میں نہیں پڑھ سکتیں؟

ج… بعض مساجد میں عورتوں کے لئے بھی تراویح کا انتظام ہوتا ہے، مگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے، ان کا اپنے گھر پر نماز پڑھنا مسجد میں قرآن مجید سننے کی بہ نسبت افضل ہے۔

عورتوں کا تراویح پڑھنے کا طریقہ

س… عورتوں کا تراویح پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ وہ تراویح میں کس طرح قرآنِ پاک ختم کریں؟

ج… کوئی حافظ محرَم ہو تو اس سے گھر پر قرآنِ کریم سن لیا کریں، اور نامحرَم ہو تو پسِ پردہ رہ کر سنا کریں، اگر گھر پر حافظ کا انتظام نہ ہوسکے تو الم تر کیف سے تراویح پڑھ لیا کریں۔

کیا حافظِ قرآن عورت، عورتوں کی تراویح میں امامت کرسکتی ہے؟

س… عورت اگر حافظ ہو کیا وہ تراویح پڑھا سکتی ہے؟ اور عورت کے تراویح پڑھانے کا کیا طریقہ ہے؟

ج… عورتوں کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے، اگر کرائیں تو امام آگے کھڑی نہ ہو، جیسا کہ امام کا مصلیٰ الگ ہوتا ہے، بلکہ صف ہی میں ذرا کو آگے ہوکر کھڑی ہو، اور عورت تراویح سنائے تو کسی مرد کو (خواہ اس کا محرَم ہو) اس کی نماز میں شریک ہونا جائز نہیں۔

غیر رمضان میں تراویح

س… ماہِ رمضان میں مجبوری کے تحت روزے رکھے جانے سے رہ جاتے ہیں، اور بعد میں جب یہ روزے رکھے جاتے ہیں تو کیا ان کے ساتھ نمازِ تراویح بھی پڑھی جاتی ہے کہ نہیں؟

ج… تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے۔

  • Tweet

What you can read next

منّت و صدقہ
قبروں کی زیارت
قرآنِ کریم کی عظمت اور اس کی تلاوت
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP