SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
2
Shaheed-e-Islam
Sunday, 01 August 2010 / Published in جلد دوم

مسجد کے مسائل

تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں

س… کیا مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر نہیں؟ صرف سجدے کی وجہ سے مسجد کا نام رکھا گیا ہے، صرف بیت اللہ ہی اللہ کا گھر ہے؟

ج… کعبہ شریف تو ”بیت اللہ“ کہلاتا ہی ہے، عام مسجدوں کو بھی ”اللہ کا گھر“ کہنا صحیح ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:

”ان بیوت الله تعالٰی فی الأرض المساجد وان حقًا علی الله ان یکرم من زارہ فیھا۔“ (طب، عن ابن مسعود)

ترجمہ:…”بے شک زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر مسجدیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ حق ہے کہ جو شخص ان میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کو جائے اس کا اکرام فرمائیں۔“

ایک اور حدیث میں ہے:

”ان عمار بیوت الله ھم أھل الله۔“ (عبد بن حمید)

ترجمہ:…”بے شک اللہ تعالیٰ کے گھروں کو آباد کرنے والے اللہ تعالیٰ کے خاص لوگ ہیں۔“

یہ دونوں حدیثیں جامع صغیر جلد:۱ صفحہ:۹۰، ۹۱ میں ہیں، اور ان میں مساجد کو ”اللہ کے گھر“ فرمایا گیا ہے۔

غیرمسلم اپنی عبادت گاہ تعمیر کرکے اس کا نام مسجد نہیں رکھ سکتا

س… کیا غیرمسلم اپنی عبادت گاہ تعمیر کرکے اس کا نام مسجد رکھ سکتے ہیں؟

ج… مسجد کے معنی لغت میں سجدہ گاہ کے ہیں، اور اسلام کی اصطلاح میں مسجد اس جگہ کا نام ہے جو مسلمانوں کی نماز کے لئے وقف کردی جائے، مُلَّا علی قاری رحمہ اللہ ”شرحِ مشکوٰة“ میں لکھتے ہیں:

”والمسجد لغة محل السجود وشرعًا المحل الموقوف للصلٰوة فیہ۔“ (مرقاہ المفاتیح ج:۱ ص:۴۴۱، مطبوعہ بمبئی)

ترجمہ:…”مسجد لغت میں سجدہ گاہ کا نام ہے، اور شریعتِ اسلام کی اصطلاح میں وہ مخصوص جگہ جو نماز کے لئے وقف کردی جائے۔“

مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے:

مسجد کا لفظ مسلمانوں کی عبادت گاہ کے ساتھ مخصوص ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں مشہور مذاہب کی عبادت گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے ”مسجد“ کو مسلمانوں کی عبادت گاہ قرار دیا ہے:

”ولو لا دفع الله الناس بعضھم ببعض لھدّمت صوٰمع وبِیَع وصلوٰت ومسٰجد یذکر فیھا اسم الله کثیرا۔“ (الحج:۴۰)

ترجمہ:…”اور اگر اللہ تعالیٰ ایک دُوسرے کے ذریعہ لوگوں کا زور نہ توڑتا تو راہبوں کے خلوت خانے، عیسائیوں کے گرجے، یہودیوں کے معبد اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، گرادی جاتیں۔“

اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ ”صوٰمع“ سے راہبوں کے خلوت خانے، ”بِیَع“ سے نصاری کے گرجے، ”صلوٰت“ سے یہودیوں کے عبادت خانے، اور ”مسٰجد“ سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں۔

امام ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمہ اللہ (المتوفی ۶۷۱ھ) اپنی مشہور تفسیر ”اَحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں:

”وذھب خصیف الی ان القصد بھذہ الأسماء تقسیم متعبدات الأمم، فالصوامع للرھبان، والبیع للنصاریٰ، والصلوات للیھودی، والمساجد للمسلمین۔“ (ج:۱۲ ص:۷۲، مطبوعہ دار الکاتب العربی، القاھرة)

ترجمہ:…”امام خصیف فرماتے ہیں کہ ان ناموں کے ذکر کرنے سے مقصود قوموں کی عبادت گاہوں کی تقسیم ہے، چنانچہ ”صوامع“ راہبوں کی، ”بیع“ عیسائیوں کی، ”صلوات“ یہودیوں کی، اور ”مساجد“ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا نام ہے۔“

اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۲۲۵ھ) ”تفسیر مظہری“ میں ان چاروں ناموں کی مندرجہ بالا تشریح ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

”ومعنی الاٰیة: لو لا دفع الله الناس لھدمت فی کل شریعة نبی مکان عبادتھم فھدمت فی زمن موسٰی الکنائس، وفی زمن عیسٰی البیع والصوامع، وفی زمن محمد صلی الله علیہ وسلم المساجد۔“

(مظہری ج:۶ ص:۳۳۰، مطبوعہ ندوة المصنّفین، دہلی)

ترجمہ:… ”آیت کے معنی یہ ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کا زور نہ توڑتا تو ہر نبی کی شریعت میں جو ان کی عبادت گاہ تھی اسے گرادیا جاتا، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں کنیسے، عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں گرجے اور خلوت خانے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجدیں گرادی جاتیں۔“

یہی مضمون تفسیر ابنِ جریر ج:۹ ص:۱۱۴، تفسیر نیشاپوری بر حاشیہ ابنِ جریر ج:۹ ص:۶۳، تفسیر خازن ج:۳ ص:۲۹۱، تفسیر بغوی ج:۵ ص:۵۹۴ بر حاشیہ ابنِ کثیر، اور تفسیر رُوح المعانی ج:۱۷ ص:۱۶۴ وغیرہ میں موجود ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت اور حضراتِ مفسرین کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ ”مسجد“ مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے، اور یہ نام دیگر اقوام و مذاہب کی عبادت گاہوں سے ممتاز رکھنے کے لئے تجویز کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک یہ مقدس نام مسلمانوں کی عبادت گاہ کے علاوہ کسی غیرمسلم فرقے کی عبادت گاہ کے لئے استعمال نہیں کیا گیا، لہٰذا مسلمانوں کا یہ قانونی و اخلاقی فرض ہے کہ وہ کسی ”غیرمسلم فرقے“ کو اپنی عبادت گاہ کا یہ نام نہ رکھنے دیں۔

مسجد اسلام کا شعار ہے:

جو چیز کسی قوم کے ساتھ مخصوص ہو وہ اس کا شعار اور اس کے تشخص کی خاص علامت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ مسجد بھی اسلام کا خصوصی شعار ہے، یعنی کسی قریہ، شہر یا محلہ میں مسجد کا ہونا وہاں کے باشندوں کے مسلمان ہونے کی علامت ہے، امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ (المتوفی ۱۱۷۴ھ) لکھتے ہیں:

”فضل بناء المسجد وملازمتہ وانتظار الصلٰوة فیہ ترجع الی انہ من شعائر الاسلام وھو قولہ صلی الله علیہ وسلم اذا رأیتم مسجدًا او سمعتم موٴذّنًا فلا تقتلوا احدًا، وانہ محل الصلوة ومعتکف العابدین ومطرح الرحمة ویشبہ الکعبة من وجہ۔“

(حجة اللہ البالغہ مترجم ج:۱ ص:۴۷۸، مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی)

ترجمہ:…”مسجد بنانے، اس میں حاضر ہونے اور وہاں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ مسجد اسلام کا شعار ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”جب کسی آبادی میں مسجد دیکھو یا وہاں موٴذّن کی اذان سنو تو کسی کو قتل نہ کرو۔“ (یعنی کسی بستی میں مسجد اور اذان کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کے باشندے مسلمان ہیں)، اور مسجد نماز کی جگہ اور عبادت گزاروں کے اعتکاف کا مقام ہے، وہاں رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور وہ ایک طرح سے کعبہ کے مشابہ ہے۔“

اگر فوج کا شعار غیرفوجی کو اپنانا جرم ہے، اور جج کا شعار کسی دُوسرے شخص کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں، تو یقینا اسلام کا شعار بھی کسی غیرمسلم کو اپنانے کی اجازت نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار مثلاً تعمیرِ مسجد اور اذان کی اجازت دی جائے تو اسلام کا شعار مٹ جاتا ہے اور مسلم و کافر کا امتیاز اُٹھ جاتا ہے۔ اسلام اور کفر کے نشانات کو ممتاز کرنے کے لئے جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان کفر کے کسی شعار کو نہ اپنائیں، اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار کے اپنانے کی اجازت نہ دی جائے۔

تعمیرِ مسجد عبادت ہے، کافر اس کا اہل نہیں:

نیز مسجد کی تعمیر ایک اعلیٰ ترین اسلامی عبادت ہے، اور کافر اس کا اہل نہیں، چونکہ کافر میں تعمیرِ مسجد کی اہلیت ہی نہیں، اس لئے اس کی تعمیر کردہ عمارت مسجد نہیں ہوسکتی، قرآنِ کریم میں صاف صاف ارشاد ہے:

”ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجد الله شٰھدین علی انفسھم بالکفر، اولئک حبطت اعمالھم وفی النار ھم خٰلدون۔“ (التوبہ:۱۷)

ترجمہ:…”مشرکین کو حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو تعمیر کریں درآنحالیکہ وہ اپنی ذات پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں، ان لوگوں کے عمل اکارت ہوچکے اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔“

اس آیت میں چند چیزیں توجہ طلب ہیں، اوّل یہ کہ یہاں مشرکین کو تعمیرِ مسجد کے حق سے محروم قرار دیا گیا ہے، کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ کافر ہیں، ”شٰھدین علی انفسھم بالکفر“ اور کوئی کافر تعمیرِ مسجد کا اہل نہیں، گویا قرآن یہ بتاتا ہے کہ تعمیرِ مسجد کی اہلیت اور کفر کے درمیان منافات ہے، یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتیں، پس جب وہ اپنے عقائدِ کفر کا اقرار کرتے ہیں تو گویا وہ خود اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تعمیرِ مسجد کے اہل نہیں، نہ انہیں اس کا حق حاصل ہے۔

امام ابوبکر احمد بن علی الجصاص الرازی الحنفی (متوفی ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:

”عمارة المسجد تکون بمعنیین، احدھما زیارتہ والکون فیہ، والاٰخر ببنائہ وتجدید ما استرم منہ، فاقتضت الاٰیة منع الکفار من دخول المسجد ومن بنائھا وتولی مصالحھا والقیام بھا لانتظام اللفظ لأمرین۔“ (اَحکام القرآن ج:۳ ص:۸۷، سہیل اکیڈمی لاہور)

ترجمہ:…”یعنی مسجد کی آبادی کی دو صورتیں ہیں، ایک مسجد کی زیارت کرنا، اس میں رہنا اور بیٹھنا، دُوسرے اس کو تعمیر کرنا اور شکست و ریخت کی اصلاح کرنا، پس یہ آیت اس امر کی متقاضی ہے کہ مسجد میں نہ کوئی کافر داخل ہوسکتا ہے، نہ اس کا بانی و متولّی اور خادم بن سکتا ہے، کیونکہ آیت کے الفاظ تعمیرِ ظاہری و باطنی دونوں کو شامل ہیں۔“

دوم:… اپنی ذات پر کفر کی گواہی دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنا کافر ہونا تسلیم کرتے ہیں اور خود اپنے آپ کو ”کافر“ کہتے ہیں، کیونکہ دُنیا میں کوئی کافر بھی اپنے آپ کو ”کافر“ کہنے کے لئے تیار نہیں، بلکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے عقائد کا برملا اعتراف کرتے ہیں جنہیں اسلام، عقائدِ کفر قرار دیتا ہے، یعنی ان کا کفریہ عقائد کا اظہار اپنے آپ کو کافر تسلیم کرنے کے قائم مقام ہے۔

سوم:… قرآنِ کریم کے اس دعویٰ پر کہ کسی کافر کو اپنے عقائدِ کفریہ پر رہتے ہوئے تعمیرِ مسجد کا حق حاصل نہیں، یہ سوال ہوسکتا تھا کہ کافر تعمیرِ مسجد کی اہلیت سے کیوں محروم ہے؟ اگلے جملے میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے: ”اولئک حبطت اعمالھم“ کہ ”ان کے عمل اکارت ہیں“ چونکہ کفر سے انسان کے تمام نیک اعمال اکارت اور ضائع ہوجاتے ہیں اس لئے کافر نہ صرف تعمیرِ مسجد بلکہ کسی بھی عبادت کا اہل نہیں۔ یہ کفر کی دُنیوی خاصیت تھی، اور آگے اس کی اُخروی خاصیت بیان کی گئی ہے: ”وفی النار ھم خٰلدون“ کہ: ”کافر اپنے کفر کی بنا پر دائمی جہنم کے مستحق ہیں“ اس لئے ان کی اطاعت و عبادت کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ پس یہ آیت اس مسئلے میں نصِ قطعی ہے کہ غیرمسلم کافر تعمیرِ مسجد کے اہل نہیں، اس لئے انہیں تعمیرِ مساجد کا حق حاصل نہیں، اس سلسلے میں حضراتِ مفسرین کی چند تصریحات حسبِ ذیل ہیں:

امام ابوجعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی ۳۱۰ھ) لکھتے ہیں:

”یقول ان المساجد انما تعمر لعبادة الله فیھا، لا للکفر بہ، فمن کان بالله کافرًا فلیس من شأنہ أن یعمر مساجد الله۔“

(تفسیر ابن جریر ج:۱۰ ص:۹۳، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)

ترجمہ:…”حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مسجدیں تو اس لئے تعمیر کی جاتی ہیں کہ ان میں اللہ کی عبادت کی جائے، کفر کے لئے تو تعمیر نہیں کی جاتی، پس جو شخص کافر ہو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کی تعمیر کرے۔“

امامِ عربیت جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری (متوفی ۵۲۸ھ) لکھتے ہیں:

”والمعنی ما استقام لھم ان یجمعوا بین أمرین متنافیین عمارة متعبدات الله مع الکفر بالله وبعبادتہ ومعنی شھادتھم علیٰ انفسھم بالکفر ظھور کفرھم۔“

(تفسیر کشاف ج:۲ ص:۲۵۳)

ترجمہ:…”مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے کسی طرح دُرست نہیں کہ وہ دو متنافی باتوں کو جمع کریں کہ ایک طرف خدا کی مسجدیں بھی تعمیر کریں اور دُوسری طرف اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کے ساتھ کفر بھی کریں، اور ان کے اپنی ذات پر کفر کی گواہی دینے سے مراد ہے ان کے کفر کا ظاہر ہونا۔“

امام فخرالدین رازی (متوفی ۶۰۶ھ) لکھتے ہیں:

”قال الواحدی: دلت علی ان الکفار ممنوعون من عمارة مسجد من مساجد المسلمین، ولو اوصی بھا لم تقبل وصیتہ۔“

(تفسیر کبیر ج:۱۶ ص:۷، مطبوعہ مصر)

ترجمہ:…”واحدی فرماتے ہیں: یہ آیت اس مسئلہ کی دلیل ہے کہ کفار کو مسلمانوں کی مسجدوں میں سے کسی مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں، اور اگر کافر اس کی وصیت کرے تو اس کی وصیت قبول نہیں کی جائے گی۔“

امام ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی (متوفی ۶۷۱ھ) لکھتے ہیں:

”فیجب اذًا علی المسلمین تولی احکام المساجد ومنع المشرکین من دخولھا۔“

(تفسیر قرطبی ج:۸ ص:۸۹، دار الکاتب العربی، القاہرة)

ترجمہ:…”مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انتظام مساجد کے متولّی خود ہوں اور کفار و مشرکین کو ان میں داخل ہونے سے روک دیں۔“

امام محی السنة ابو محمد حسین بن مسعود الفراء البغوی (متوفی۵۱۶ھ) لکھتے ہیں:

”اوجب الله علی المسلمین منعھم من ذالک، لأن المساجد انما تعمر لعبادة الله وحدہ فمن کان کافرًا بالله فلیس من شأنہ ان یعمرھا۔ فذھب جماعة الیٰ ان المراد منہ العمارة من بناء المسجد ومرمتہ عن الخراب فیمنع الکافر منہ حتیٰ لو اوصی بہ لا یمتثل، وحمل بعضھم العمارة ھٰھنا علیٰ دخول المسجد والقعود فیہ۔“ (تفسیر معالم التنزیل للبغوی ج:۳ ص:۵۵، برحاشیہ خازن، مطبوعہ علمیہ، مصر)

ترجمہ:…”اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ کافروں کو تعمیرِ مسجد سے روک دیں، کیونکہ مسجدیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی خاطر بنائی جاتی ہیں، پس جو شخص کافر ہو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ مسجدیں تعمیر کرے، ایک جماعت کا قول ہے کہ تعمیر سے مراد یہاں تعمیرِ معروف ہے، یعنی مسجد بنانا، اور اس کی شکست و ریخت کی اصلاح و مرمت کرنا، پس کافر کو اس عمل سے باز رکھا جائے گا، چنانچہ اگر وہ اس کی وصیت کرکے مرے تو پوری نہیں کی جائے گی، اور بعض نے عمارة کو یہاں مسجد میں داخل ہونے اور اس میں بیٹھنے پر محمول کیا ہے۔“

شیخ علاء الدین علی بن محمد البغدادی الخازن (متوفی ۷۲۵ھ) نے تفسیرِ خازن میں اس مسئلے کو مزید تفصیل سے تحریر فرمایا ہے۔

مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (متوفی ۱۲۲۵ھ) لکھتے ہیں:

”فانہ یجب علی المسلمین منعھم من ذالک، لان مساجد الله انما تعمر لعبادة الله وحدہ فمن کان کافرًا بالله فلیس من شأنہ ان یعمرھا۔“

(تفسیر مظہری ج:۴ ص:۱۴۶، ندوة المصنّفین، دہلی)

ترجمہ:…”چنانچہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ کافروں کو تعمیرِ مسجد سے روک دیں، کیونکہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں، پس جو شخص کہ کافر ہو وہ ان کو تعمیر کرنے کا اہل نہیں۔“

اور شاہ عبدالقادر دہلوی (متوفی ۱۲۳۰ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

”اور علماء نے لکھا ہے کہ کافر چاہے مسجد بناوے اس کو منع کرئیے۔“ (موضح القرآن)

ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ مسجد کی تعمیر کریں اور یہ کہ اگر وہ ایسی جرأت کریں تو ان کو روک دینا مسلمانوں پر فرض ہے۔

تعمیرِ مسجد صرف مسلمانوں کا حق ہے:

قرآنِ کریم نے جہاں یہ بتایا ہے کہ کافر تعمیرِ مسجد کا اہل نہیں، وہاں یہ تصریح بھی فرمائی ہے کہ تعمیرِ مسجد کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

”انما یعمر مساجد الله من اٰمن بالله والیوم الاٰخر، واقام الصلٰوة واٰتی الزکٰوة ولم یخش الا الله، فعسی اولئک ان یکونوا من المھتدین۔“ (التوبہ:۱۸)

ترجمہ:…”اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو بس اس شخص کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، نماز ادا کرتا ہو، زکوٰة دیتا ہو اور اس کے سوا کسی سے نہ ڈرے، پس ایسے لوگ اُمید ہے کہ ہدایت یافتہ ہوں گے۔“

اس آیت میں جن صفات کا ذکر فرمایا، وہ مسلمانوں کی نمایاں صفات ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص پورے دینِ محمدی پر ایمان رکھتا ہو اور کسی حصہٴ دین کا منکر نہ ہو، اسی کو تعمیرِ مسجد کا حق حاصل ہے، غیرمسلم فرقے جب تک دینِ اسلام کی تمام باتوں کو تسلیم نہیں کریں گے، تعمیرِ مسجد کے حق سے محروم رہیں گے۔

غیرمسلموں کی تعمیر کردہ مسجد ”مسجدِ ضرار“ ہے:

اسلام کے چودہ سو سالہ دور میں کبھی کسی غیرمسلم نے یہ جرأت نہیں کی کہ اپنا عبادت خانہ ”مسجد“ کے نام سے تعمیر کرے، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض غیرمسلموں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور مسجد کے نام سے ایک عمارت بنائی جو ”مسجدِ ضرار“ کے نام سے مشہور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحیٴ الٰہی سے ان کے کفر و نفاق کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فی الفور منہدم کرنے کا حکم فرمایا، قرآنِ کریم کی آیاتِ ذیل اسی واقعے سے متعلق ہیں:

”والذین اتخذوا مسجدًا ضرارًا وکفرًا وتفریقًا بین الموٴمنین وارصادًا لمن حارب الله ورسولہ من قبل ولیحلفن ان اردنا الا الحسنٰی والله یشھد انھم لکٰذبون۔ لا تقم فیہ ابدًا ․․․الی قولہ․․․ لا یزال بنیانھم الذی بنوا ریبة فی قلوبھم الا ان تقطع قلوبھم والله علیم حکیم۔“ (التوبة:۱۰۷-۱۱۰)

ترجمہ:…”اور جن لوگوں نے مسجد بنائی کہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں اور کفر کریں اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ ڈالیں اور اللہ و رسول کے دُشمن کے لئے ایک کمین گاہ بنائیں، اور یہ لوگ زور کی قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہیں کیا، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ قطعاً جھوٹے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس میں کبھی قیام نہ کیجئے ․․․․․․ ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی، ہمیشہ ان کے دِل کا کانٹا بنی رہے گی، مگر یہ کہ ان کے دِل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔“

ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ:

الف:… کسی غیر مسلم گروہ کی اسلام کے نام پر تعمیر کردہ ”مسجد“، ”مسجدِ ضرار“ کہلائے گی۔

ب:… غیرمسلم منافقوں کی ایسی تعمیر کے مقاصد ہمیشہ حسبِ ذیل ہوں گے:

۱:…اسلام اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانا۔

۲:… عقائدِ کفر کی اشاعت کرنا۔

۳:… مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پھیلانا اور تفرقہ پیدا کرنا۔

۴:… خدا اور رسول کے دُشمنوں کے لئے ایک اڈّہ بنانا۔

ج:… چونکہ منافقوں کے یہ خفیہ منصوبے ناقابلِ برداشت ہیں، اس لئے حکم دیا گیا کہ ایسی نام نہاد ”مسجد“ کو منہدم کردیا جائے۔ تمام مفسرین اور اہلِ سیَر نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ”مسجدِ ضرار“ منہدم کردی گئی اور اسے نذرِ آتش کردیا گیا۔ مرزائی منافقوں کی تعمیر کردہ نام نہاد ”مسجدیں“ بھی ”مسجدِ ضرار“ ہیں، اور وہ بھی اسی سلوک کی مستحق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مسجدِ ضرار“ سے روا رکھا تھا۔

کافر ناپاک اور مسجدوں میں ان کا داخلہ ممنوع:

یہ اَمر بھی خاص اہمیت رکھا ہے کہ قرآنِ کریم نے کفار و مشرکین کو ان کے ناپاک اور گندے عقائد کی بنا پر نجس قرار دیا ہے، اور اس معنوی نجاست کے ساتھ ان کی آلودگی کا تقاضا یہ ہے کہ مساجد کو ان کے وجود سے پاک رکھا جائے، ارشادِ خداوندی ہے:

”یٰٓایھا الذین اٰمنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھٰذا۔“ (التوبہ:۲۸)

ترجمہ:…”اے ایمان والو! مشرک تو نرے ناپاک ہیں، پس وہ اس سال کے بعد مسجدِ حرام کے قریب بھی پھٹکنے نہ پائیں۔“

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر اور مشرک کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔

امام ابوبکر جصاص رازی (متوفی ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:

”اطلاق اسم النجس علی المشرک من جھة ان الشرک الذی یعتقدہ یجب اجتنابہ کما یجب اجتناب النجاسات والاقذار فلذالک سماھم نجسا، والنجاسة فی الشرع تنصرف علیٰ وجھین احدھما نجاسة الاعیان والاٰخر نجاسة الذنوب، وقد افاد قولہ: انما المشرکون نجس، منعھم عن دخول المسجد الا لعذر، اذ کان علینا تطھیر المساجد من الانجاس۔“

(اَحکام القرآن ج:۳ ص:۱۰۸، مطبوعہ سہیل اکیڈمی، لاہور)

ترجمہ:…”مشرک پر ”نجس“ کا اطلاق اس بنا پر کیا گیا کہ جس شرک کا وہ اعتقاد رکھتا ہے، اس سے پرہیز کرنا اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ نجاستوں اور گندگیوں سے، اسی لئے ان کو نجس کہا، اور شرع میں نجاست کی دو قسمیں ہیں، ایک نجاستِ جسم، دوم نجاستِ گناہ، اور ارشادِ خداوندی: ”انما المشرکون نجس“ بتاتا ہے کہ کفار کو دُخولِ مسجد سے باز رکھا جائے گا، اِلَّا یہ کہ کوئی عذر ہو، کیونکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مسجدوں کو نجاستوں سے پاک رکھیں۔“

امام محی السنة بغوی (متوفی ۵۱۶ھ) معالم التنزیل میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

”وجملة بلاد الاسلام فی حق الکفار علی ثلاثة اقسام، احدھا الحرم فلا یجوز للکافر ان یدخلہ بحال ذمیًا کان او مستأمنًا بظاھر ھٰذہ الاٰیة۔ وجوز اھل الکوفة للمعاھد دخول الحرم، والقسم الثانی من بلاد الاسلام الحجاز فیجوز للکافر دخولھا بالاذن، ولٰکن لا یقیم فیھا اکثر من مقام السفر، وھو ثلاثة ایام، والقسم الثالث سائر بلاد الاسلام یجوز للکافر ان یقیم فیھا بذمة او امان، ولٰکن لا یدخلون المساجد الا باذن مسلم۔“ (تفسیر بغوی ج:۳ ص:۶۳، مطبوعہ علمیہ، مصر)

ترجمہ:…”اور کفار کے حق میں تمام اسلامی علاقے تین قسم پر ہیں، ایک حرمِ مکہ، پس کافر کو اس میں داخل ہونا کسی حال میں بھی جائز نہیں، خواہ کسی اسلامی مملکت کا شہری ہو یا امن لے کر آیا ہو، کیونکہ ظاہر آیت کا یہی تقاضا ہے۔ اور اہلِ کوفہ نے ذمی کے لئے حرم میں داخل ہونے کو جائز رکھا ہے۔ اور دُوسری قسم حجازِ مقدس ہے، پس کافر کے لئے اجازت لے کر حجاز میں داخل ہونا جائز ہے، لیکن تین دن سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اور تیسری قسم دیگر اسلامی ممالک ہیں، ان میں کافر کا مقیم ہونا جائز ہے، بشرطیکہ ذمی ہو یا امن لے کر آئے، لیکن وہ مسلمانوں کی مسجدوں میں مسلمان کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتے۔“

اس سلسلے میں دو چیزیں خاص طور سے قابلِ غور ہیں، اوّل یہ کہ آیت میں صرف مشرکین کا حکم ذکر کیا گیا ہے، مگر مفسرین نے اس آیت کے تحت عام کفار کا حکم بیان فرمایا ہے، کیونکہ کفر کی نجاست سب کافروں کو شامل ہے۔ دوم یہ کہ کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں تو اختلاف ہے، امام مالک کے نزدیک کسی مسجد میں کافر کا داخل ہونا جائز نہیں، امام شافعی کے نزدیک مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں کافر کو مسلمان کی اجازت سے داخل ہونا جائز ہے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک بوقتِ ضرورت ہر مسجد میں داخل ہوسکتا ہے، (رُوح المعانی ج:۱۱ ص:۶۹) لیکن کسی کافر کا مسجد کا بانی، متولّی یا خادم ہونا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد ۹ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد کے ایک جانب ٹھہرایا اور مسجدِ نبوی ہی میں انہوں نے اپنی نماز بھی ادا کی۔

حافظ ابنِ قیم (متوفی ۷۵۱ھ) اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”فصل فی فقہ ھذہ القصة ففیھا جواز دخول اھل الکتاب مساجد المسلمین، وفیھا تمکین اھل الکتاب من صلٰوتھم بحضرة المسلمین وفی مساجدھم ایضًا۔ اذا کان ذالک عارضًا ولا یمکنوا من اعتیاد ذالک۔“

(زاد المعاد ج:۳ ص:۶۳۸، مطبوعہ مکتبہ المنار الاسلامیہ، کویت)

ترجمہ:…”فصل اس قصے کے فقہ کے بیان میں، پس اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب کا مسلمانوں کی مسجدوں میں داخل ہونا جائز ہے، اور یہ کہ ان کو مسلمانوں کی موجودگی میں اپنی عبادت کا موقع دیا جائے گا اور مسلمانوں کی مسجدوں میں بھی، جبکہ یہ ایک عارضی صورت ہو لیکن ان کو اس بات کا موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ اس کو اپنی مستقل عادت ہی بنالیں۔“

اور قاضی ابوبکر بن العربی (متوفی ۵۷۳ھ) لکھتے ہیں:

”دخول ثمامة فی المسجد فی الحدیث الصحیح، ودخول ابی سفیان فیہ علی الحدیث الاٰخر کان قبل ان ینزل: یٰٓأیھا الذین اٰمنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھٰذا۔ فمنع الله المشرکین من دخول المسجد الحرام نصًّا، ومنع دخول سائر المساجد تعلیلًا بالنجاسة ولوجوب صیانة المسجد عن کل نجس وھٰذا کلہ ظاہر لا خفاء بہ۔“ (اَحکام القرآن ج:۲ ص:۹۰۲ مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

ترجمہ:…”ثمامہ کا مسجد میں داخل ہونا اور دُوسری حدیث کے مطابق ابوسفیان کا اس میں داخل ہونا، اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ: ”اے ایمان والو! مشرک ناپاک ہیں، پس اس سال کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔“ پس اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو مسجدِ حرام میں داخل ہونے سے صاف صاف منع کردیا اور دیگر مساجد سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ ناپاک ہیں، اور چونکہ مسجد کو نجاست سے پاک رکھنا ضروری ہے اس لئے کافروں کے ناپاک وجود سے بھی اسکو پاک رکھا جائے گا، اور یہ سب کچھ ظاہر ہے جس میں ذرا بھی خفا نہیں۔“

منافقوں کو مسجدوں سے نکال دیا جائے:

جو شخص مرزائیوں کی طرح عقیدہ رکھنے کے باوجود اسلام کا دعویٰ کرتا ہو، وہ اسلام کی اصطلاح میں منافق ہے، اور منافقین کے بارے میں یہ حکم ہے کہ انہیں مسجدوں سے نکال دیا جائے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:

”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”اے فلاں! اُٹھ، یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو منافق ہے۔ او فلاں! تو بھی اُٹھ، نکل جا، تو منافق ہے“ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک کا نام لے کر ۳۶ آدمیوں کو مسجد سے نکال دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آنے میں ذرا دیر ہوگئی تھی، چنانچہ وہ اس وقت آئے جب یہ منافق مسجد سے نکل رہے تھے، تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید جمعہ کی نماز ہوچکی ہے اور لوگ نماز سے فارغ ہوکر واپس جارہے ہیں، لیکن جب اندر گئے تو معلوم ہوا کہ ابھی نماز نہیں ہوئی، مسلمان ابھی بیٹھے ہیں، ایک شخص نے بڑی مسرّت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے عمر! مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آج منافقوں کو ذلیل و رُسوا کردیا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر بیک بینی و دوگوش انہیں مسجد سے نکال دیا۔“

(تفسیر رُوح المعانی ج:۱۱ ص:۱۰)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو غیرمسلم فرقہ منافقانہ طور پر اسلام کا دعویٰ کرتا ہو، اس کو مسجدوں سے نکال دینا سنتِ نبوی ہے۔

منافقوں کی مسجد، مسجد نہیں:

فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ ایسے لوگوں کا حکم مرتد کا ہے، اس لئے نہ تو انہیں مسجد بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ان کی تعمیر کردہ مسجد کو مسجد کا حکم دیا جاسکتا ہے۔

شیخ الاسلام مولانا محمد انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:

”ولو بنوا مسجدًا لم یصر مسجدًا، ففی ”تنویر الأبصار“ من وصایا الذمی وغیرہ وصحاب الھویٰ اذا کان لا یکفر فھو بمنزلة المسلم فی الوصیة وان کان فھو بمنزلة المرتد۔“

(اکفار الملحدین طبع جدید ص:۱۲۸)

ترجمہ:…”ایسے لوگ اگر مسجد بنائیں تو وہ مسجد نہیں ہوگی، چنانچہ ”تنویر الابصار“ کے وصایا ذمی وغیرہ میں ہے کہ: گمراہ فرقوں کی گمراہی اگر حدِ کفر کو پہنچی ہوئی نہ ہو تب تو وصیت میں ان کا حکم مسلمان جیسا ہے، اور اگر حدِ کفر کو پہنچی ہوئی ہو تو بمنزلہ مرتد کے ہیں۔“

منافقوں کے مسلمان ہونے کی شرط:

یہاں یہ تصریح بھی ضروری ہے کہ کسی گمراہ فرقے کا دعویٴ اسلام کرنا یا اسلامی کلمہ پڑھنا، اس اَمر کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ان تمام عقائد سے توبہ کا اعلان کرے جو مسلمانوں کے خلاف ہیں۔

چنانچہ حافظ بدر الدین عینی ”عمدة القاری شرح بخاری“ میں لکھتے ہیں:

”یجب علیھم ایضًا عند الدخول فی الاسلام ان یقروا ببطلان ما یخالفون بہ المسلمین فی الاعتقاد بعد اقرارھم بالشھادتین۔“

(الجزء الرابع ص:۱۲۵، مطبوعہ دار الفکر)

ترجمہ:…”ان کے ذمہ یہ بھی لازم ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے توحید و رسالت کی شہادت کے بعد ان تمام عقائد و نظریات کے باطل ہونے کا اقرار کریں جو وہ مسلمانوں کے خلاف رکھتے ہیں۔“

اور حافظ شہاب الدین ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری میں قصہ اہلِ نجران کے ذیل میں لکھتے ہیں:

”وفی قصة اھل نجران من الفوائد ان اقرار الکافر بالنبوة لا یدخلہ فی الاسلام حتی یتلزم احکام الاسلام۔“ (ج:۸ ص:۷۴، دار النشر الکتب الاسلامیہ، لاہور)

ترجمہ:…”قصہ اہلِ نجران سے دیگر مسائل کے علاوہ ایک مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ کسی کافر کی جانب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا اقرار اسے اسلام میں داخل نہیں کرتا، جب تک کہ اَحکامِ اسلام کو قبول نہ کرے۔“

علامہ ابنِ عابدین شامی لکھتے ہیں:

”لا بد مع الشھادتین فی العیسوی من ان یتبرأ من دینہ۔“ (رد المحتار ج:۱ ص:۳۵۳، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)

ترجمہ:…”عیسوی فرقے کے مسلمان ہونے کے لئے اقرارِ شہادتین کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مذہب سے براء ت کا اعلان کرے۔“

ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی فرقہ اس وقت تک مسلمان تصوّر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ اہلِ اسلام کے عقائد کے صحیح اور اپنے عقائد کے باطل ہونے کا اعلان نہ کرے، ورنہ اگر وہ اپنے عقائدِ کفر کو صحیح سمجھتا ہے اور مسلمانوں کے عقائد کو غلط تصوّر کرتا ہے تو اس کی حیثیت مرتد کی ہے اور اسے اپنی عبادت گاہ کو مسجد کی حیثیت سے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

کسی غیرمسلم کا مسجد کے مشابہ عبادت گاہ بنانا:

اب ایک سوال اور باقی رہ جاتا ہے کہ کیا کوئی غیرمسلم اپنی عبادت گاہ (مسجد کے نام سے نہ سہی لیکن) وضع و شکل میں مسجد کے مشابہ بناسکتا ہے؟ کیا اسے یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ میں قبلہ رُخ محراب بنائے، مینار بنائے، اس پر منبر رکھے، اور وہاں اسلام کے معروف طریقہ پر اذان دے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ:

”وہ تمام اُمور جو عرفاً و شرعاً مسلمانوں کی مسجد کے لئے مخصوص ہیں، کسی غیرمسلم کو ان کے اپنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لئے کہ اگر کسی غیرمسلم کی عبادت گاہ مسجد کی وضع و شکل پر تعمیر کی گئی ہو، مثلاً اس میں قبلہ رُخ محراب بھی ہو، مینار اور منبر بھی ہو، وہاں اسلامی اذان اور خطبہ بھی ہوتا ہو، تو اس سے مسلمانوں کو دھوکا اور التباس ہوگا، ہر دیکھنے والا اس کو ”مسجد“ ہی تصوّر کرے گا، جبکہ اسلام کی نظر میں غیرمسلم کی عبادت گاہ مسجد نہیں بلکہ مجمع شیاطین ہے۔“ (شامی ج:۱ ص:۳۸۰، مطلب تکرہ الصلٰوة فی الکنیسة، مطبوعہ ایچ ایم سعید، کراچی، البحر الرائق ج:۷ ص:۲۱۴، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

حافظ ابنِ تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ) سے سوال کیا گیا کہ آیا کفار کی عبادت گاہ کو بیت اللہ کہنا صحیح ہے؟ جواب میں فرمایا:

”لیست بیوت الله وانما بیوت الله المساجد، بل ھی بیوت یکفر فیھا بالله وان کان قد یذکر فیھا، فالبیوت بمنزلة اھلھا واھلھا کفار، فھی بیوت عبادة الکفار۔“ (فتاویٰ ابنِ تیمیہ ج:۱ ص:۱۱۵، دار القلم بیروت)

ترجمہ:…”یہ بیت اللہ نہیں، بیت اللہ مسجدیں ہیں، یہ تو وہ مقامات ہیں جہاں کفر ہوتا ہے، اگرچہ ان میں بھی ذکر ہوتا ہے، پس مکانات کا وہی حکم ہے جو ان کے بانیوں کا ہے، ان کے بانی کافر ہیں، پس یہ کافروں کی عبادت گاہیں ہیں۔“

امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی ۳۱۰ھ) ”مسجدِ ضرار“ کے بارے میں نقل کرتے ہیں:

”عمد ناس من اھل النفاق فابتنوا مسجدًا بقبا لیضاھوا بہ مسجد رسول صلی الله علیہ وسلم۔“

(تفسیر ابنِ جریر ج:۷ ص:۲۵، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

ترجمہ:…”اہلِ نفاق میں سے چند لوگوں نے یہ حرکت کی کہ قبا میں ایک مسجد بناڈالی، جس سے مقصود یہ تھا کہ وہ اس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد سے مشابہت کریں۔“

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے منافقانہ طور پر ”مسجدِ ضرار“ بنائی تھی، ان کا مقصد یہی تھا کہ اپنی نام نہاد ”مسجد“ کو اسلامی مساجد کے مشابہ بناکر مسلمانوں کو دھوکا دیں، لہٰذا غیرمسلموں کی جو عبادت گاہ مسجد کی وضع و شکل پر ہوگی وہ ”مسجدِ ضرار“ ہے، اور اس کا منہدم کردینا لازم ہے۔ علاوہ ازیں فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ اسلامی مملکت کے غیرمسلم شہریوں کا لباس اور ان کی وضع قطع مسلمانوں سے ممتاز ہونی چاہئے، (یہ مسئلہ فقہِ اسلامی کی ہر کتاب میں باب اَحکام اہل الذمہ کے عنوان کے تحت موجود ہے)۔

چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ملکِ شام کے عیسائیوں سے جو عہدنامہ لکھوایا تھا، اس کا پورا متن امام بیہقی کی سننِ کبریٰ (ج:۹ ص:۲۰۲) اور کنز العمال جلد چہارم (طبع جدید) صفحہ:۵۰۴ میں حدیث نمبر:۱۱۴۹۳ کے تحت درج ہے، اس کا ایک فقرہ یہاں نقل کرتا ہوں:

”ولا نتشبہ بھم فی شیٴ من لباسھم من قلنسوة ولا عمامة ولا نعلین ولا فرق شعر، ولا نتکلم بکلامھم ولا نکتنی بنکاھم۔“

ترجمہ:…”اور ہم مسلمانوں کے لباس اور ان کی وضع قطع میں ان کی مشابہت نہیں کریں گے، نہ ٹوپی میں، نہ دستار میں، نہ جوتے میں، نہ سر کی مانگ نکالنے میں، اور ہم مسلمانوں کے کلام اور اصطلاحات میں بات نہیں کریں گے، اور نہ ان کی کنیت اپنائیں گے۔“

اندازہ فرمائیے! جب لباس، وضع قطع، ٹوپی، دستار، پاوٴں کے جوتے اور سر کی مانگ تک میں کافروں کی مسلمانوں سے مشابہت گوارا نہیں کی گئی تو اسلام یہ کس طرح برداشت کرسکتا ہے کہ غیرمسلم کافر، اپنی عبادت گاہیں مسلمانوں کی مسجد کی شکل و وضع پربنانے لگیں؟

مسجد کا قبلہ رُخ ہونا اسلام کا شعار ہے:

اُوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ مسجد اسلام کا بلند ترین شعار ہے، ”مسجد“ کے اوصاف و خصوصیت پر الگ الگ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں ایک ایک چیز مستقل طور پر بھی شعارِ اسلام ہے، مثلاً: استقبالِ قبلہ کو لیجئے! مذاہبِ عالم میں یہ خصوصیت صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس کی اہم ترین عبادت ”نماز“ میں بیت اللہ شریف کی طرف منہ کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استقبالِ قبلہ کو اسلام کا خصوصی شعار قرار دے کر اس شخص کے جو ہمارے قبلہ کی جانب رُخ کرکے نماز پڑھتا ہو، مسلمان ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔

”من صلّٰی صلٰوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلم الذی لہ ذمة الله وذمة رسولہ، فلا تخفروا الله ذمتہ۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۵۶)

ترجمہ:…”جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھتا ہو، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہو، ہمارا ذبیحہ کھاتا ہو، پس یہ شخص مسلمان ہے، جس کے لئے اللہ کا اور اس کے رسول کا عہد ہے، پس اللہ کے عہد کو مت توڑو۔“

ظاہر ہے کہ اس حدیث کا یہ منشا نہیں کہ ایک شخص خواہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہو، قرآنِ کریم کے قطعی ارشادات کو جھٹلاتا اور مسلمانوں سے الگ عقائد رکھتا ہو، تب بھی وہ ان تین کاموں کی وجہ سے مسلمان ہی شمار ہوگا؟ نہیں! بلکہ حدیث کا منشا یہ ہے کہ نماز، استقبالِ قبلہ اور ذبیحہ کا معروف طریقہ صرف مسلمانوں کا شعار ہے، جو اس وقت کے مذاہبِ عالم سے ممتاز رکھا گیا تھا، پس کسی غیرمسلم کو یہ حق نہیں کہ عقائدِ کفر رکھنے کے باوجود ہمارے اس شعار کو اپنائے۔

چنانچہ حافظ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

”واستقبال قبلتنا مخصوص بنا۔“

(عمدة القاری ج:۲ ص:۲۹۶)

ترجمہ:…”اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرنا، ہمارے ساتھ مخصوص ہے۔“

اور حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:

”وحکمة الاقتصار علی ما ذکر من الافعال ان من یقر بالتوحید من اھل الکتاب وان صلوا واستقبلوا وذبحوا لٰکنھم لا یصلون مثل صلٰوتنا ولا یستقبلون قبلتنا ومنھم من یذبح لغیر الله ومنھم من لا یأکل ذبیحتنا والاطلاع علی حال المرء فی صلٰوتہ واکلہ یمکن بسرعة فی اوّل یوم بخلاف غیر ذالک من امور الدین۔“

(فتح الباری ج:۱ ص:۴۱۷، مطبوعہ دار النشر الکتب الاسلامیہ، لاہور)

ترجمہ:…”اور مذکورہ بالا افعال پر اکتفا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اہلِ کتاب میں سے جو لوگ توحید کے قائل ہوں وہ اگرچہ نماز بھی پڑھتے ہوں، قبلہ کا استقبال بھی کرتے ہوں اور ذبح بھی کرتے ہوں، لیکن وہ نہ تو ہمارے جیسی نماز پڑھتے ہیں، نہ ہمارے قبلہ کا استقبال کرتے ہیں، اور ان میں سے بعض غیراللہ کے لئے ذبح کرتے ہیں، بعض ہمارا ذبیحہ نہیں کھاتے، اور آدمی کی حالت نماز پڑھنے اور کھانا کھانے سے فوراً پہلے دن پہچانی جاتی ہے، دین کے دُوسرے کاموں میں اتنی جلدی اطلاع نہیں ہوتی، اس لئے مسلمان کی تین نمایاں علامتیں ذکر فرمائیں۔“

اور شیخ مُلَّا علی قاری لکھتے ہیں:

”انما ذکرہ مع اندراجہ فی الصلٰوة لان القبلة اعف، اذ کل احد یعرف قبلتہ وان لم یعرف صلٰوتہ ولان فی صلٰوتنا ما یوجد فی صلاة غیرنا واستقبال قبلتنا مخصوص بنا۔“ (مرقاة المفاتیح ج:۱ ص:۷۲، طبع بمبئی)

ترجمہ:…”نماز میں استقبالِ قبلہ خود آجاتا ہے، مگر اس کو الگ ذکر فرمایا، کیونکہ قبلہ اسلام کی سب سے معروف علامت ہے، کیونکہ ہر شخص اپنے قبلہ کو جانتا ہے، خواہ نماز کو نہ جانتا ہو، اور اس لئے بھی کہ ہماری نماز کی بعض چیزیں دُوسرے مذاہب کی نماز میں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ہمارے قبلہ کی جانب منہ کرنا یہ صرف ہماری خصوصیت ہے۔“

ان تشریحات سے واضح ہوا کہ ”استقبالِ قبلہ“ اسلام کا اہم ترین شعار اور مسلمانوں کی معروف ترین علامت ہے، اسی بنا پر اہلِ اسلام کا لقب ”اہلِ قبلہ“ قرار دیا گیا ہے، پس جو شخص اسلام کے قطعی، متواتر اور مُسلَّمہ عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھتا ہو، وہ ”اہلِ قبلہ“ میں داخل نہیں، نہ اسے استقبالِ قبلہ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

محراب اسلام کا شعار ہے:

مسجد کے مسجد ہونے کے لئے کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن مسلمانوں کے عرف میں چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کی محراب ہے، جو قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لئے تجویز کی گئی ہے۔

حافظ بدرالدین عینی ”عمدة القاری“ میں لکھتے ہیں:

”ذکر ابوالبقاء ان جبریل علیہ الصلٰوة والسلام وضع محراب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسامة الکعبة، وقیل کان ذالک بالمعاینة بان کشف الحال وازیلت الحوائل فرأی رسول الله صلی الله علیہ وسلم الکعبة فوضع قبلة مسجدہ علیھا۔“

(عمدة القاری شرح بخاری الجزء الرابع ص:۱۲۶، طبع دارالفکر، بیروت)

ترجمہ:…”اور ابوالبقاء نے ذکر کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محراب بنائی اور کہا گیا ہے کہ یہ معائنہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹادئیے گئے اور صحیح حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رُخ متعین کیا۔“

اس سے دو اَمر واضح ہوتے ہیں، اوّل یہ کہ محراب کی ضرورت تعینِ قبلہ کے لئے ہے، تاکہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ رُخ متعین کرسکے۔ دوم یہ کہ جب سے مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی، اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگادیا گیا، خواہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کی نشاندہی کی ہو، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ کشف خود ہی تجویز فرمائی ہو۔

البتہ یہ جوف دار محراب جو آج کل مساجد میں ”قبلہ رُخ“ ہوا کرتی ہے، اس کی ابتدا خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے، (وفاء الوفاء ص:۵۲۵ وما بعد) یہ صحابہ وتابعین کا دور تھا، اور اس وقت سے آج تک مسجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔

فتاویٰ قاضی خان میں ہے:

”وجھة الکعبة تعرف بالدلیل، والدلیل فی الامصار والقری المحاریب التی نصبتھا الصحابة والتابعون رضی الله عنھم اجمعین، فعلینا اتباعھم فی استقبال المحارب المنصوبة۔“

(البحر الرائق ج:۱ ص:۲۸۵، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

ترجمہ:…”اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے، اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔“

یعنی یہ محرابیں، جو مسلمانوں کی مسجدوں میں صحابہ و تابعین کے زمانے سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لئے ہیں اور اُوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے، اور محراب جہتِ قبلہ کی علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے، اس لئے کسی غیرمسلم کی عبادت گاہ میں محراب کا ہونا ایک تو اسلامی شعار کی توہین ہے۔ اس کے علاوہ ان محراب والی عبادت گاہوں کو دیکھ کر ہر شخص انہیں ”مسجد“ تصوّر کرے گا، اور یہ اہلِ اسلام کے ساتھ فریب اور دغا ہے، لہٰذا جب تک کوئی غیرمسلم گروہ مسلمانوں کے تمام اُصول و عقائد کو تسلیم کرکے مسلمانوں کی جماعت میں شامل نہیں ہوتا، تب تک اس کی ”مسجد نما“ عبادت گاہ عیاری اور مکاری کا بدترین اڈّہ ہے، جس کا اُکھاڑنا مسلمانوں پر لازم ہے، فقہائے اُمت نے لکھا ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم بے وقت اذان دیتا ہے تو یہ اذان سے مذاق ہے:

”ان الکافر لو اذّن فی غیر الوقت لا یصیر بہ مسلمًا لأنہ یکون مستھزئًا۔“

(شامی ج:۱ ص:۳۵۳، آغاز کتاب الصلوٰة، طبع ایچ ایم سعید، کراچی)

ترجمہ:…”کافر اگر بے وقت اذان کہے تو وہ اس سے مسلمان نہیں ہوگا، کیونکہ وہ دراصل مذاق اُڑاتا ہے۔“

ٹھیک اسی طرح سے کسی غیرمسلم گروہ کا اپنے عقائدِ کفر کے باوجود اسلامی شعائر کی نقالی کرنا اور اپنی عبادت گاہ مسجد کی شکل میں بنانا، دراصل مسلمانوں کے اسلامی شعائر سے مذاق ہے، اور یہ مذاق مسلمان برداشت نہیں کرسکتے!

اذان:

مسجد میں اذان نماز کی دعوت کے لئے دی جاتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مشورہ ہوا کہ نماز کی اطلاع کے لئے کوئی صورت تجویز ہونی چاہئے، بعض حضرات نے گھنٹی بجانے کی تجویز پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر رَدّ فرمادیا کہ یہ نصاریٰ کا شعار ہے۔ دُوسری تجویز پیش کی گئی کہ بوق (باجا) بجادیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی قبول نہیں فرمایا کہ یہ یہود کا وطیرہ ہے۔ تیسری تجویز آگ جلانے کی پیش کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔ یہ مجلس اس فیصلے پر برخاست ہوئی کہ ایک شخص نماز کے وقت کا اعلان کردیا کرے کہ نماز تیار ہے۔ بعد ازاں بعض حضراتِ صحابہ کو خواب میں اذان کا طریقہ سکھایا گیا، جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، اور اس وقت سے مسلمانوں میں یہ اذان رائج ہوئی۔

(فتح الباری ج:۲ ص:۲۲۰، مطبوعہ لاہور)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس واقعے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وھذہ القصة دلیل واضح علی ان الاحکام انما شرعت لأجل المصالح وان للاجتھاد فیھا مدخلا، وان التیسیر اصل اصیل، وان مخالفة اقوام تمادوا فی ضلالتھم فیما یکون یطلع بالمنام والنفث فی الروع علیٰ مراد الحق لٰکن لا یکلف الناس بہ ولا تنقطع الشبھة حتی یقررہ النبی صلی الله علیہ وسلم واقتضت الحکمة الالٰھیة ان لا یکون الأذان صرف اعلام وتنبیہ بل یضم مع ذالک ان یکون من شعائر الدین بحیث یکون النداء بہ علی روٴس الخامل والتنبیہ تنویھا بالدین ویکون قبولہ من القوم اٰیة انقیادھم لدین الله۔“

(حجة اللہ البالغہ ج:۱ ص:۴۷۴ مترجم)

ترجمہ:…”اس واقعے میں چند مسائل کی واضح دلیل ہے، اوّل یہ کہ اَحکامِ شرعیہ خاص مصلحتوں کی بنا پر مقرّر ہوئے ہیں۔ دوم یہ کہ اجتہاد کا بھی اَحکام میں دخل ہے۔ سوم یہ کہ اَحکامِ شرعیہ میں آسانی کو ملحوظ رکھنا بہت بڑا اصل ہے۔ چہارم یہ کہ شعائرِ دین میں ان لوگوں کی مخالفت جو اپنی گمراہی میں بہت آگے نکل گئے ہوں، شارع کو مطلوب ہے۔ پنجم یہ کہ غیرنبی کو بھی بذریعہ خواب یا القاء فی القلب کے مراد الٰہی کی اطلاع مل سکتی ہے، مگر وہ لوگوں کو اس کا مکلف نہیں بناسکتا، اور نہ اس سے شبہ دُور ہوسکتا ہے، جب تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق نہ فرمائیں، اور حکمتِ الٰہی کا تقاضا ہوا کہ اذان صرف اطلاع اور تنبیہ ہی نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ وہ شعائرِ دین میں سے بھی ہو کہ تمام لوگوں کے سامنے اذان کہنا تعظیمِ دین کا ذریعہ ہو اور لوگوں کا اس کو قبول کرلینا ان کے دینِ خداوندی کے تابع ہونے کی علامت ٹھہرے۔“

حضرت شاہ صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اذان اسلام کا بلند ترین شعار ہے، اور یہ کہ اسلام نے اپنے اس شعار میں گمراہ فرقوں کی مخالفت کو ملحوظ رکھا ہے۔ فتح القدیر جلد:۱ صفحہ:۱۶۷، فتاویٰ قاضی خان اور البحر الرائق صفحہ:۲۵ وغیرہ میں تصریح کی گئی ہے کہ اذان دینِ اسلام کا شعار ہے۔ فقہائے کرام نے جہاں موٴذّن کے شرائط شمار کئے ہیں، وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ موٴذّن مسلمان ہونا چاہئے:

”واما الاسلام فینبغی ان یکون شرط صحة فلا یصح اذان کافر علی أی ملة کان۔“

(البحر الرائق ج:۱ ص:۲۶۴، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

ترجمہ:…”موٴذّن کے مسلمان ہونے کی شرط بھی ضروری ہے، پس کافر کی اذان صحیح نہیں، خواہ کسی مذہب کا ہو۔“

فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ موٴذّن اگر اذان کے دوران مرتد ہوجائے تو دُوسرا شخص اذان کہے:

”ولو ارتد الموٴذّن بعد الأذان لا یعادو وان اعید فھو افضل۔ کذا فی السراج الوھاج، واذا ارتد فی الأذان فلأولیٰ ان یبتدیٴ غیرہ وان لم یبتدی غیر واتمہ جاز۔ کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔“

(فتاویٰ عالمگیری ج:۱ ص:۵۴، مطبوعہ مصر ؟؟ ۱۳ھ)

ترجمہ:…”اگر موٴذّن اذان کے بعد مرتد ہوجائے تو اذان دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں، اگر لوٹائی جائے تو افضل ہے، اور اگر اذان کے دوران مرتد ہوگیا تو بہتر یہ ہے کہ دُوسرا شخص نئے سرے سے اذان شروع کرے، تاہم اگر دُوسرے شخص نے باقی ماندہ اذان کو پورا کردیا تب بھی جائز ہے۔“

مسجد کے مینار:

مسجد کی ایک خاص علامت، جو سب سے نمایاں ہے، اس کے مینار ہیں۔ میناروں کی ابتدا بھی صحابہ و تابعین کے زمانے سے ہوئی، مسجدِ نبوی میں سب سے پہلے، خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مینار بنوائے۔ (وفاء الوفاء ص:۵۲۵) حضرت مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مصر کے گورنر تھے، انہوں نے مصر کی مساجد میں مینار بنانے کا حکم فرمایا۔ (الاصابہ ج:۳ ص:۴۱۸) اس وقت سے آج تک کسی نہ کسی شکل میں مسجد کے لئے مینار ضروری سمجھے جاتے ہیں، مسجد کے مینار دو فائدوں کے لئے بنائے گئے، اوّل یہ کہ بلند جگہ نماز کی اذان دی جائے، چنانچہ امام ابوداوٴد نے اس پر ایک مستقل باب باندھا ہے: الأذان فوق المنارة۔

حافظ جمال الدین الزیلعی نے نصب الرایہ میں حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے:

”من السنّة الأذان فی المنارة والاقامة فی المسجد۔“ (ج:۱ ص:۲۹۳، مطبوعہ مجلس علمی بالہند)

ترجمہ:…”سنت یہ ہے کہ اذان مینارہ میں ہو اور اقامت مسجد میں۔“

مینار مسجد کا دُوسرا فائدہ یہ تھا کہ مینار دیکھ کر ناواقف آدمی کو مسجد کے مسجد ہونے کا علم ہوسکے۔ گویا مسجد کی معروف ترین علامت یہ ہے کہ اس میں قبلہ رُخ محراب ہو، منبر ہو، مینار ہو، وہاں اذان ہوتی ہو، اس لئے کسی غیرمسلم کی عبادت گاہ میں ان چیزوں کا پایا جانا اسلامی شعار کی توہین ہے، اور جب قادیانیوں کو آئینی طور پر غیرمسلم تسلیم کیا جاچکا ہے، اور ان کے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، تو انہیں مسجد یا مسجد نما عبادت گاہ بنانے اور وہاں اذان و اقامت کہنے کی اجازت دینا قطعاً جائز نہیں۔ ہمارے اربابِ اقتدار اور عدلیہ کا فرض ہے کہ غیرمسلم قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ پوری قوّت اور شدّت سے اس مطالبے کو منوائیں۔ حق تعالیٰ شانہ اس ملک کو منافقوں کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔

بلااجازت غیرمسلم کی جگہ پر مسجد کی تعمیر ناجائز ہے

س… ایک زمین ہے جو غیرمسلم کی ہے، اس غیرمسلم نے اپنی زمین کو ایک مسلم شخص کے حوالے کیا ہے کہ جب تک میں اپنے وطن سے نہ آجاوٴں، اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں، اس مسلم شخص نے اس کی زمین پر مدرسہ اور مسجد بناڈالی، جبکہ وہ غیرمسلم دوبارہ اپنی جگہ پر آیا ہے اور اس نے اپنی زمین پر مدرسہ اور مسجد بنا ہوا دیکھا ہے، اور اس نے مسلم شخص کو کہا ہے کہ میری زمین میں کیوں خیانت کی ہے؟ اس زمین پر مدرسہ اور مسجد بنایا ہے میں ان دونوں کو توڑ دوں گا۔ آیا شریعت میں اس غیرمسلم کو اجازت ہے کہ اس مسجد اور مدرسہ کو توڑ دے؟

ج… مالک کی اجازت کے بغیر مسجد اور مدرسہ بنانا صحیح نہیں، لہٰذا اس غیرمسلم کو حق ہے کہ اپنی زمین سے مسجد اور مدرسہ کو اُکھاڑ دے، اور مسلمان اگر اس مسجد اور مدرسہ کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تو غیرمسلم کو اس کی قیمت دے کر رضامندی سے خرید لیں۔

غصب شدہ جگہ پر مسجد کی تعمیر

س… کسی مسجد کی انتظامیہ گورنمنٹ کی اجازت یا بلااجازت گورنمنٹ کے کسی دفتر یا ادارہ پر قبضہ کرکے اسے مسجد میں شامل کرلے تو کیا وہ جگہ غصب شدہ تصوّر ہوگی؟ اور وہاں نماز ہوجائے گی یا نہیں؟

ج… غصب شدہ جگہ پر مسجد تو نہیں بن سکتی ہے، جب تک مالک سے اس کی اجازت نہ لے لی جائے، گورنمنٹ کے کسی دفتر یا ادارہ پر قبضہ کرکے اسے مسجد میں شامل کرنا بھی غصب ہے، البتہ جو جگہ علاقے کے لوگوں کی ضرورتوں کے لئے خالی پڑی ہو وہاں مسجد بنانا جائز ہے، اور گورنمنٹ کا فرض ہے کہ لوگوں کی ضرورت کے مدِنظر وہاں مسجد بنوائے۔

مسجد کے مصارف کے لئے خرچ کرنا بھی صدقہ ہے

س… اگر ہر جمعرات کو مسجد میں پیسے دئیے جائیں تو کیا یہ صدقہ ہے؟ صدقہ تو ان کو دیا جاتا ہے جو کہ غریب ہوں، (میں تو لڑکی ہوں، مجھے غریب لوگوں کا معلوم نہیں، اور نہ میں گھر سے نکلتی ہوں، اس لئے مسجد میں دے دیتی ہوں) کیا یہ دُرست ہے اور اس کا ثواب ملے گا؟

ج… جو چیز رضائے الٰہی کے لئے دی جائے وہ صدقہ ہے، اس لئے مسجد کے مصارف کے لئے خرچ کرنا بھی صدقہ ہے، صدقہ کرنے کا کوئی خاص دن نہیں، خواہ پیر کے دن دے دیا، جمعرات کو یا کسی اور دن۔

سٹہ کی رقم مسجد میں لگانا

س… مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص عرصہ بیس سال سے سٹہ جیسے منحوس و غیراسلامی کاروبار کر رہے ہیں، جنہیں علاقہ اور علاقے سے باہر کے تمام ہی لوگ جانتے ہیں، ان صاحب نے مسجد کی تعمیر و مرمت کے لئے بیس ہزار روپیہ بطور عطیہ دیا ہے، جسے مسجد کمیٹی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ عطیہ دینے والے شخص کا ذریعہٴ معاش صرف اور صرف سٹے کے کاروبار سے حاصل ہونی والی آمدنی ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، پھر بھی مسجد انتظامیہ یہ ناجائز پیسہ لے کر مسجد کی تعمیر و مرمت میں لگا رہی ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ ایسے پیسے سے تعمیر کی جانے والی مسجد میں نماز کی ادائیگی کی کیا شرعی حیثیت ہوگی؟ مفصل جواب مرحمت فرماویں، اللہ تعالیٰ آپ کا ہمیشہ حامی و ناصر رہے، آمین!

ج… یہ شرعاً مسجد ہے اور نماز بھی اس میں جائز ہے، مگر جان بوجھ کر غلط رقم مسجد کی تعمیر میں خرچ کرنے والے لوگ گنہگار ہیں، ان کو توبہ کرنی چاہئے۔

مسجد کو بانی کے نام سے منسوب کرنا

س… ہمارے محلے میں ایک مسجد ہے، یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک شخص (جو اَب اس دُنیا میں نہیں) نے مسجد کی تعمیر کے لئے اپنی زمین دی تھی، ویسے تو اس مسجد کا نام ”سبحانی مسجد“ ہے، لیکن اس کے لواحقین اس مسجد کو اس شخص کے نام سے پکارتے ہیں، اور باقاعدہ طور پر اس مسجد کو اس شخص کے نام سے موسوم کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ان کے نام پر مسجد کا نام رکھنا چاہتے ہیں، جہاں تک میری عقل کا تعلق ہے میں نے آج تک یہ نہیں سنا کہ کوئی مسجد کسی کے نام سے موسوم کی گئی ہو، کیونکہ مسجد تو اللہ کا گھر ہے، کسی کی ملکیت نہیں، اب رہا اس شخص کا تعلق جس نے مسجد کی تعمیر کے لئے زمین دی تو اس کا اجر تو اللہ دے گا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں یہ بتائیں کہ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر صحیح نہیں ہے تو کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟

ج… مسجد کی نسبت کسی شخص کی طرف اس کے بانی کی حیثیت سے جائز ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن جب بانی مرحوم نے خود اپنے نام کی نسبت پسند نہیں کی تو ان کے لواحقین کو بھی پسند نہیں کرنی چاہئے۔

مسجد کی حیثیت تبدیل کرنا صحیح نہیں

س… ہمارے یہاں پر مسجد ایسی جگہ پر ہے کہ نمازی بہت کم آتے ہیں، ہماری کمیٹی کا ارادہ ہے کہ اس کو بجائے یہاں کے روڈ پر لے جایا جائے، اور اس جگہ کو مدرسہ میں تبدیل کردیا جائے، قرآن و حدیث و فقہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

ج… جو جگہ باقاعدہ مسجد بنادی جائے، وہ ہمیشہ مسجد رہے گی، اس کی اس حیثیت کو تبدیل کرنا صحیح نہیں۔

مسجد کو شہید کرنا

س… تحصیل ماتلی سے ۱۰کلومیٹر دُور گورنمنٹ نے بارن اسٹاپ پر ایک مرادواہ کے نام سے نہر نکالی ہے، اس نہر کے ایک سائیڈ پر ایک چھوٹی مسجد آتی ہے، ٹھیکیدار نے کھدائی کرادی ہے، جس سے مسجد مرادواہ کے ایک کنارے سے چار پانچ فٹ (واہ کے) اندر آگئی ہے، انجینئر اور ٹھیکیدار کہتے ہیں کہ اس مسجد شریف کو گراکر اور اس کی مٹی کو کسی بہتی ہوئی نہر میں ڈال دیں، لیکن وہاں جو ٹریکٹر والے کھدائی کا کام کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم شرعی مسئلہ پوچھ کر پھر مسجد کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے، آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ جیسے انجینئر اور ٹھیکیدار کہتے ہیں وہ صحیح ہے؟ یا اس (کچی) مسجد کو وہاں کھڑا کرنا چاہئے تو کیسے؟

ج… مسجد خواہ کچی ہو یا پکی، اس کو یا اس کے کسی حصے کو ہٹانا اور اس جگہ کو کسی اور کام میں استعمال کرنا جائز نہیں۔ ٹھیکیدار اور انجینئر صاحبان کو چاہئے کہ نہر کو خم دے کر مسجد کے ورے ورے سے گزاریں، ورنہ تمام لوگ جو اس کام میں شریک ہیں خانہٴ خدا کی ویرانی کی وجہ سے گناہگار ہوں گے اور جس طرح انہوں نے خدا کا گھر ویران کیا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو اُجاڑ دیں گے۔

ایک مسجد کو آباد کرنے کے لئے دُوسری مسجد کو منہدم کرنا جائز نہیں

س… ایک قدیم مسجد جو چاروں طرف سے درختوں، باغات سے ڈھکی ہوئی ہے، علاقہ انتہائی گرم، گرمی ناقابلِ برداشت حتیٰ کہ مقتدیوں نے کہا کہ ہم گرمی میں نماز پڑھنے نہیں آئیں گے، مسجد کسی طرف سے بڑھائی بھی نہیں جاسکتی، تو کیا سو قدم کے فاصلے پر مسجدِ ثانی کا بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو ظاہر ہے دونوں مسجدوں میں جماعت نہیں ہوسکتی، تو پھر قدیم مسجد کو منہدم کردیں یا بند کریں؟

ج… ایک مسجد کا دُوسری مسجد کے لئے انہدام قصداً جائز نہیں ہے، البتہ دُوسری مسجد مذکورہ بالا ضرورت کے تحت بناسکتے ہیں، لیکن اس کو آباد کرنے کے لئے پہلی مسجد کو منہدم نہیں کیا جاسکتا۔

نئی مسجد متصل بناکر پہلی کو تالا ڈالنا ناجائز ہے

س… حضرتِ والا کی توجہ ایئرپورٹ کی مرکزی جامع مسجد جو کہ کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوئی ہے، کے متعلق اس کی شرعی حیثیت جنابِ والا سے معلوم کرنا ہے، اُمید ہے کہ اس مسجد کے متعلق آپ اپنی صائب رائے شائع فرماکر اہالیانِ ایئرپورٹ کی رہنمائی فرمائیں گے۔ برعظیم انڈوپاک کی تقسیم کے بعد ایک کلب کو مسجد میں تبدیل کرکے نماز کے لئے جگہ بنائی گئی، اس کے بعد باقاعدہ چھت ڈال کر مسجد تعمیر کردی گئی، عرصہ چھتیس سال سے مذکورہ مسجد میں نمازِ جمعہ و پنج گانہ نمازیں ادا کی جاتی رہیں، ۱۹۸۳ء میں قطر کے ایک شیخ صاحب نے کئی لاکھ روپے خرچ کرکے ایک مسجد سابقہ مسجد سے تقریباً دو گز چاردیواری کے اندر دُوسری مسجد تعمیر کروادی۔ شیخ صاحب کو مسجد کی انتظامیہ نے جیسا مشورہ دیا ویسا انہوں نے کردیا، اب صورتِ حال یہ ہے کہ پہلی مسجد کو تالا ڈال دیا گیا ہے اور نئی مسجد میں نمازوں کی ادائیگی ہو رہی ہے، بہت سے حضرات نے مسجد کی انتظامیہ کو پہلے ہی مشورہ دیا تھا کہ کم از کم سابقہ مسجد کا صحن ہی نئی مسجد میں شامل کرلیا جائے تاکہ کوئی شرعی مسئلہ کھڑا نہ ہوجائے۔ لیکن انتظامیہ کی چشم پوشی کی وجہ سے دو مسجدیں آمنے سامنے ہیں، پہلی مسجد کے متعلق کبھی سنا جاتا ہے کہ اسے دارالعلوم بنادیا جائے گا یا دینی مدرسہ وغیرہ۔ فی الحال پرانی مسجد کو تالا ہی لگا ہوا ہے، یہاں ان دنوں ایئرفورس والوں کا ایئرپورٹ پر کنٹرول ہے، اور مسجد کا سیکریٹری اصل حالات ایئرپورٹ کی انتظامیہ کو نہیں بتلارہا، اور اتنی بڑی مسجد میں کوئی عالم جان بوجھ کر نہیں رکھا جارہا تاکہ یہاں کے لوگوں کو اصل بات کا پتہ نہ چل سکے۔ آپ سے موٴدّبانہ گزارش ہے کہ جنابِ والا نئی مسجد کی شرعی حیثیت واضح فرمادیں، واضح رہے کہ پی آئی اے کی نئی مسجد اس سے بالکل الگ ہے، مذکورہ مسجد لبِ سڑک ہے اور محکمہ شہری ہوابازی سے تعلق رکھتی ہے۔

ج… جس جگہ کو چھتیس سال سے مسجد کی حیثیت دی گئی ہو، اور اس میں باقاعدہ جمعہ و جماعت ہوتی رہی ہو، اس کو معطل کردینا اس مسجد کی حیثیت کو ختم کرکے کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں، بلکہ وبال کا موجب ہے، آپ نے جو واقعات لکھے ہیں، اگر صحیح ہیں تو سابقہ مسجد کو نئی مسجد میں شامل کردینا چاہئے، جو جگہ ایک بار مسجد بنادی گئی ہو، وہ قیامت تک کے لئے مسجد رہتی ہے اور اس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

تعمیری نقص سے صف میں ایک طرف نمازی بہت کم ہوں تو بھی نماز مکروہ ہے

س… ہمارے قریب ایک مسجد شریف ہے، جس کی بناوٹ اس طرح ہے کہ امام کے دائیں جانب مقتدی اندازاً چالیس پچاس ہوتے ہیں اور بائیں جانب صرف چار پانچ آدمی ہوتے ہیں، یہ نماز ہوئی کہ نہیں؟

ج… مکروہ ہے۔

قبروں کے نزدیک مسجد میں نماز ہوجاتی ہے

س… مسجد کے قریب قبریں ہوں، درمیان میں کوئی فاصلہ نہ ہو، صرف تقریباً ایک گز کی دیوار ہو تو مذکورہ مسجد میں نماز ہوتی ہے یا نہیں؟

ج… نماز صحیح ہے، قبرستان میں نماز پڑھنا ممنوع ہے، لیکن اگر ایسی مسجد ہو جس کے قریب قبریں ہوں، اس میں نماز ممنوع نہیں۔

دفاتر کی مسجد میں نماز کا ثواب

س… میں نے ایک شخص سے سنا جو کہ نماز وغیرہ کا پابند ہے کہ ایک بلڈنگ (کاروباری دفاتر کی بلڈنگ) کے اندر اگر کوئی کمرہ نماز کے لئے مخصوص کردیا گیا ہو تو اس میں نماز پڑھنے سے اتنا ثواب نہیں ملتا جتنا ایک مسجد میں نماز پڑھنے سے ملتا ہے۔

ج… بلڈنگ میں جو کمرہ نماز کے لئے مخصوص کردیا گیا ہو ، اس کا حکم مسجد کا نہیں، نہ اس میں مسجد کا ثواب ملے گا۔

دُوسری مسجد میں نماز پڑھنے کی رُخصت

س… میں ایک جامع مسجد کے ساتھ رہتا ہوں، مسجد میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ باقاعدگی سے پڑھائی جاتی ہے، اور میں بھی پابندی سے نماز و جمعہ پڑھتا ہوں۔ چار نمازیں نزدیکی مسجد میں پڑھتا ہوں، البتہ عشاء کی نماز اور جمعہ کی نماز ایک دُوسری مسجد میں جاکر پڑھتا ہوں، محض اس لئے کہ وہاں مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی اچھا وعظ کرتے ہیں اور عشاء کی نماز کے بعد قرآن کی تفسیر سمجھاتے ہیں، تو میں ان کے پاس اچھی باتیں سننے جاتا ہوں، جبکہ نزدیک والی مسجد میں ان چیزوں کا فقدان ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنی نزدیک والی مسجد آباد رکھو ورنہ گناہ ہوگا۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کرکے سمجھائیں کہ میں کیا کروں؟ دُوسری مسجد میں جانے کا میرا مطمحِ نظر محض دین کا سیکھنا ہے۔

ج… حق تو قریب والی مسجد ہی کا زیادہ ہے، لیکن اگر دُوسری مسجد میں اچھے عالم ہوں تو وہاں جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

مسجد میں خشک جوتے لے جانے سے ناپاکی نہیں ہوتی

س… ہم جوتے لے کر بیت الخلاء میں جاتے ہیں، وہی جوتے لے کر ہم مساجد میں جاتے ہیں، اور اکثر بھائی جوتے مسجد کے فرش پر رکھتے ہیں، کیونکہ بعض جگہ جوتے رکھنے کے لئے لکڑی کا بکس نہیں ہوتا، ایسی صورت میں کیا مسجد ناپاک نہیں ہوتی؟ اگر جوتے نمازی اپنے قریب نہ رکھے تو چوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ج… جوتے خشک ہوں تو مسجد ناپاک نہیں ہوتی۔

کیا مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا چاہئے؟

س… ہمارے محلے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہنا چاہئے، جبکہ ہم نے سنا ہے کہ حدیث میں ہے، دُخولِ مسجد کے وقت مخصوص دُعا جو حدیث سے ثابت ہے، پڑھنی چاہئے، کون سا حق اور افضل ہے؟

ج… مسجد میں داخل ہونے کی دُعا پڑھنی چاہئے، پھر اگر لوگ فارغ بیٹھے ہوں تو ان کو آہستہ سے سلام کہا جائے، اور اگر سب مشغول ہوں تو نہ کہے، اتنی زور سے سلام کرنا کہ نمازیوں کی نماز میں خلل پڑے، صحیح نہیں۔

نمازیوں کے ذمہ سلام کا جواب نہیں

س… نمازی نیت باندھے کھڑے ہوں، ایک آدمی نماز ادا کرنے مسجد میں داخل ہوا تو اس آدمی کو السلام کہنا چاہئے یا چپکے سے نیت باندھنا چاہئے؟ اگر السلام علیکم لازمی ہے تو نمازیوں کو جواب دِل میں دینا چاہئے یا نہیں؟

ج… اگر کوئی شخص فارغ نہ ہو، تو آنے والے کو السلام علیکم نہیں کہنا چاہئے، اور اگر وہ کچھ کہہ دے تو نمازیوں کے ذمہ اس کا جواب نہیں، اس لئے دِل میں بھی جواب دینے کی ضرورت نہیں۔

مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت دُرود شریف

س… مسجد میں داخل ہوتے وقت اور مسجد سے باہر نکلتے ہوئے دُعا کے بعد ”السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله وبرکاتہ“ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دایاں قدم پہلے رکھے اور پھر یہ دُعا پڑھے:

”بسم الله والصلٰوة والسلام علیٰ رسول الله، اللّٰھم افتح لی ابواب رحمتک“

اور مسجد سے نکلتے وقت یہ دُعا پڑھے:

”بسم الله والصلٰوة والسلام علیٰ رسول الله اللّٰھم افتح لی ابواب رزقک، اللّٰھم اعصمنی من الشیطان الرجیم۔“

اس موقع پر سوال میں درج کردہ الفاظ منقول نہیں۔

مسجد کے کس حصے میں داخل ہوتے وقت دُعا پڑھنی چاہئے؟

س… مسجد میں داخل ہونے کی دُعا پڑھنا اور داہنا پاوٴں پہلے اندر رکھنا مسنون طریقہ ہے، آپ وضاحت فرمائیں کہ دُعا مسجد کے بیرونی گیٹ کے اندر داخل ہوتے وقت پڑھی جائے یا کہ اس حصے میں داخل ہوتے وقت جہاں نماز پڑھی جاتی ہے؟ سنت طریقہ کیا ہے؟

ج… جو حصہ نماز کے لئے مخصوص ہے اور جس پر مسجد کے اَحکام جاری ہوتے ہیں (مثلاً جنبی کا مسجد میں داخل نہ ہونا، اور معتکف کا بلاضرورت مسجد سے باہر قدم نہ رکھنا) اس حصے میں داخل ہوتے وقت دُعا پڑھنی چاہئے، مسجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاوٴں پہلے رکھے اور یہ پڑھے: ”بسم الله والصلٰوة والسلام علیٰ رسول الله اللّٰھم افتح لی ابواب رحمتک۔“

مسجد کو حفاظت کی خاطر تالا لگانا جائز ہے

س… مسجد جو کہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہوتا ہے، اس کو بند کرنے اور کھلا رکھنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیونکہ مسجد تو خدا کا گھر ہوتا ہے، اور اس کو بند کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔ لیکن بعض لوگ عشاء کی نماز کے بعد مسجد کو تالا لگادیتے ہیں جو کہ میری نگاہ میں غلط ہے۔ کیونکہ کوئی مسافر جو کہ نیا اور بھٹکا ہوا آجائے اور اسے رات ہوجائے تو اسے ہر طرف دروازہ بند نظر آتا ہے تو اس کی نگاہ مسجد پر جاتی ہے تو وہ بھی بند نظر آتی ہے، وہ باہر ہی کسی جگہ سوجاتا ہے اور جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے چور اُچکا سمجھ کر پولیس والے لے جاکر بند کردیتے ہیں جو کہ سراسر ناانصافی ہوتی ہے۔ لیکن اگر آج کل کے حالات کو دیکھا جائے تو ہر طرف بے ضمیر لوگ بھی پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو کہ مسجد کی اشیاء کو بھی نہیں بخشتے، جو کہ اللہ کے گھر کی چیزیں ہوتی ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں پر جو کہ اللہ کے گھر کی چیزیں بھی نہ بخشیں ان پر خدا کی لعنت ہو اور یہی وجہ ہے کہ لوگ مجبوراً مسجد کے دروازوں پر تالے لگادیتے ہیں۔

ج… حفاظت کی خاطر مسجد میں رات کو تالا لگادینا جائز ہے۔

مسجد کے چندہ سے کمیٹی کا دفتر بنانا

س… ہمارے محلے کی مسجد زیرِ تعمیر ہے، مسجد پایہٴ تکمیل تک پہنچنے کے قریب ہے، اب انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وضوخانے کے اُوپر انتظامیہ کے لئے ایک آفس تعمیر کیا جائے گا، جس میں بیٹھ کر مسجد کی انتظامیہ میٹنگ اور فیصلے کیا کرے گی، کیا انتظامیہ کے لئے ایسا کرنا یعنی مسجد کے فنڈز سے ایک آفس تعمیر کرنا شرعاً دُرست ہے یا نہیں؟

ج… اگر اہلِ چندہ کی اجازت ہو تو جائز ہے۔

استراحت کے لئے مسجد کے پنکھے کا استعمال بغیر اجازت صحیح نہیں

س… اس دفعہ رمضان شریف گرمیوں میں آرہے ہیں، ہم نے اس سے پہلے والے رمضان میں اکثر دیکھا ہے مقامی آدمیوں کو کہ ظہر سے پہلے مسجد میں آکر سوجاتے ہیں اور بجلی کے پنکھے چلواتے ہیں۔ مسجد میں چٹائی یا دری پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا، ان لوگوں کا پسینہ مسجد کی دری پر لگتا ہے اور بدبو ہوتی ہے، یا کوئی شخص ظہر کی نماز باجماعت پڑھ کر سنت پنکھے کے نیچے آکر پڑھتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہیں پر لیٹ جاتا ہے اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے، ایسے میں مسجد کی بجلی استعمال کرتا ہے، اس کے لئے کیا حکم ہے؟ اس کو مسجد سے اُٹھادیا جائے یا پنکھا بند کردیں؟ اور مسجد کے آداب کے مطابق اس کا یہ فعل کیسا ہے؟

ج… مسجد کی بجلی وغیرہ نماز کے اوقات میں استعمال کرنی چاہئے، دیگر اوقات میں اہلِ چندہ منع کرسکتے ہیں، مسجد میں سونا معتکف اور مسافر کے لئے جائز ہے، دُوسروں کے لئے مکروہ ہے، جو لوگ مسجد میں نیند کریں ان کو چٹائیوں پر کپڑا بچھالینا چاہئے تاکہ پسینے سے فرش خراب نہ ہو اور نیند کی حالت میں ناپاک ہوجانے کا خطرہ نہ رہے۔

معتکف کے علاوہ عام لوگوں کو مسجد میں سونے کی اجازت نہیں

س… میں ایک ادارے میں ملازم ہوں، کھانے اور نماز کے وقفے کے دوران ہمارے کچھ ساتھی کھانا جلدی کھاکر نماز سے پہلے مسجد میں سوجاتے ہیں، آپ تفصیل سے بتائیں کہ کیا ایسے ہی مسجد میں سونا جائز ہے یا کن حالات میں مسجد میں سونے کی اجازت ہے؟

ج… مسجد میں سونے کی صرف معتکف کو اجازت ہے، عام لوگوں کو نہیں، یہ لوگ اگر اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں جائیں تو وہاں سو بھی سکتے ہیں۔

بے نمازی کو مسجد کمیٹی میں لینا

س… مسجد کی کمیٹی اور زکوٰة کمیٹی میں بے نمازی کو چیئرمین یا صدر بنانا یا کوئی ممبر بنانا جائز ہے یا نہیں؟

ج… جو شخص نماز ہی کا پابند نہیں، اس کا مسجد اور زکوٰة سے کیا تعلق؟

مسجد میں دُنیاوی باتیں کرنا مکروہ ہے

س… آج کل عام بات یہ ہے کہ اکثر حضرات مسجد میں بیٹھ کر ملکی حالات یا بین الاقوامی حالات یا دُنیاداری کی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ اس کی ممانعت ہے، منع کرنے پر یہ کہتے ہیں کہ سیاست دین سے علیحدہ نہیں ہے، آپ دونوں چیزوں کو کیوں علیحدہ سمجھتے ہیں؟ اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ مسجدِ نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسائل حل کیا کرتے تھے، آپ کے پاس وفود آتے تھے، اور آپ بھی باتیں بیان کرتے تھے، اور مولوی لوگوں نے دین کو بہت تنگ کردیا ہے، اس لئے ہم غلط نہیں ہیں۔ کیا مسجد میں اس قسم کی باتیں کرنی چاہئیں یا نہیں؟

ج… حدیث میں ہے کہ مساجد صرف ذکر اللہ، تلاوتِ قرآن اور نماز کے لئے بنائی گئی ہیں، مسجد میں دُنیا کی باتیں کرنا مکروہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دین اور سیاست جدا نہیں، مگر سیاست سے دینی سیاست مراد ہے، دورِ حاضر کی سیاست مراد نہیں۔ بعض بزرگوں کا ارشاد ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کثرتِ ذکر سے بازار کو مسجد بنادیا تھا، اور تم نے مسجد کو بازار بنالیا ہے۔ البتہ ضرورت کی بات مسجد میں کرلینا جائز ہے۔

س… مسجد میں دُنیاوی اور دینی باتوں کی حدود کہاں تک ہیں؟ میرا مطلب ہے کہ ہم مسجد میں نماز سے فراغت کے بعد ایک دُوسرے کی خیریت معلوم کرتے ہیں، حال چال پوچھتے ہیں، دُوسرا شخص جواب میں اپنی داستان سنانا شروع کرتا ہے جو کہ سراسر دُنیا سے متعلق ہوتی ہے، مثلاً بچوں کے اسکول میں داخلے کے مسائل، کم آمدنی اور تجارت میں خسارہ، رشتہ داروں کے جھگڑے وغیرہ، اب جہاں تک سلام و دُعا اور خیریت کی بات تھی اس کا دین سے متعلق ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن مذکور بالا باتوں کو کیا درجہ دیا جائے؟ اور کس طرح اس تمیز کو باقی رکھا جائے کہ جہاں مخاطب کسی ایسے پہلو پر گفتگو چھیڑے تو اس سے یہ کہہ دیا جائے کہ بس اب ہم باہر چل کر گفتگو کئے لیتے ہیں، اب ہم حدود سے متجاوز ہوگئے، کیا آپ از راہ کرم ہمیں ایسا پیمانہ بتلائیں گے جو ہماری نیکیوں کے ضائع ہونے کا سبب نہ بنے؟

ج… خیرخیریت پوچھ لینا اور کوئی ضروری بات کرلینا اس کی تو ممانعت نہیں، لیکن لایعنی قصے لے کر بیٹھ جانا اس کی اجازت نہیں، مسجد میں دُنیا کی غیرضروری باتیں کرنا، بعض حضرات نے اسے مکروہ فرمایا ہے اور بعض نے حرام کہا ہے۔

مسجد میں سوال کرنا جائز نہیں

س… مسجد میں اگر سائل یعنی مانگنے والا مانگے تو اسے مسجد میں کچھ دینا جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ میں نے ایک عزیز سے سنا تھا کہ اگر مسجد میں کسی سائل کو ایک پیسہ دیا تو اس کے بدلے میں یعنی اس کا کفارہ میں ۷۰ پیسے دینا پڑیں گے، اس کا صحیح حل بتائیں۔

ج… مسجد میں مانگنا جائز نہیں، کسی فقیر کو مسجد میں کچھ دینا یوں تو جائز ہے، مگر اس سے مسجد میں مانگنے کی عادت پڑے گی، اس لئے مسجد سے باہر دینا چاہئے، باقی آپ کے عزیز کا مسئلہ صحیح نہیں۔

مسجد میں بھیک مانگنا جائز نہیں، کسی ضرورت مند کے لئے دُوسرا آدمی اپیل کرے تو جائز ہے

س… اکثر مساجد میں بعد نماز گداگر اپنی مختلف مجبوریاں بیان کرتے ہیں اور پھر امداد کے طلب گار ہوتے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا مساجد میں اپنے لئے سوال کرنا اور نمازیوں کا سائل کو مدد کرنا کہاں تک مناسب ہے یا نامناسب ہے؟

ج… مسجد میں بھیک مانگنا ممنوع ہے، ایسے لوگوں کو مسجد سے باہر کھڑے ہونا چاہئے، اور مسجد میں مانگنے والوں کو دینا بھی نہیں چاہئے، لیکن اگر کسی ضرورت مند کی امداد کے لئے دُوسرا آدمی اپیل کرے تو یہ جائز ہے۔

مسجد میں نمازِجنازہ کا اعلان صحیح اور گمشدہ چیز کا غلط ہے

س… کیا جنازہ یا گمشدہ چیز کا اعلان مسجد میں لاوٴڈ اسپیکر پر کرنا جائز ہے؟

ج… نمازِ جنازہ کا اعلان تو نمازیوں کی اطلاع کے لئے صحیح ہے، مگر گمشدہ چیز کی تلاش کے لئے اعلان جائز نہیں۔

مسجد کے مدرسہ کے لئے قربانی کی کھالوں کا اعلان جائز ہے

س… ہماری مسجد میں طرح طرح کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں، مثلاً: کوئی گم ہوگیا ہے، کوئی مل گیا ہے، کسی کا بکرا کھوگیا ہے، کسی کی گھڑی، کسی کی سائیکل وغیرہ، نیز عیدقربان کے موقع پر قربانی کی کھالیں مسجد میں واقع مدرسہ کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے دن رات اعلانات ہوتے رہتے ہیں، شریعت کی رُو سے مطلع فرمائیں کہ یہ اعلان مسجد میں جائز ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اس طرح ان اعلانوں سے انسان بیزار ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو صحیح معنوں میں شریعت پر چلائے۔

ج… اگر کوئی چیز مسجد میں پڑی ہوئی ملے، اس کا اعلان مسجد میں کرنا جائز ہے، باہر کسی کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو، اس کی تلاش کے لئے مسجد میں اس کا اعلان کرنا جائز نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بددُعا فرمائی ہے: ”لا رَدّ الله علیک!“ یعنی ”خدا کرے تیری گمشدہ چیز نہ ملے!“ مدرسہ کے لئے قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا اعلان جائز ہے، ایک دو بار اعلان کردیا جائے، مگر یہ یاد رہے کہ اس اعلان کی وجہ سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ پڑے۔

مسجد میں گمشدہ بچے کا اعلان انسانی جان کی اہمیت کے پیشِ نظر جائز ہے

س… مسجد میں لاوٴڈ اسپیکر سے مختلف قسم کے اعلانات ہوتے ہیں، جلسہ کے انعقاد کا، ضروری کاغذات کا، گمشدہ رقم، بچے کی گمشدگی، نمازِ جنازہ اور جانوروں کی گمشدگی کا، مثلاً: فلاں صاحب کا بکرا گم ہوگیا ہے، اسلامی نقطہٴ نگاہ سے یہ کیسے ہیں؟ اور کس قسم کے اعلانات دُرست ہیں؟

ج… مسجد میں گمشدہ چیز کی تلاش کے لئے اعلان کرنا جائز نہیں، حدیث شریف میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے، البتہ گمشدہ بچے کا اعلان انسانی جان کی اہمیت کے پیشِ نظر جائز ہے، اور جو چیز مسجد میں ملی ہو، جیسے کسی کی گھڑی رہ گئی ہو، اس کا اعلان جائز ہے کہ فلاں چیز مسجد میں ملی ہے، جس کی ہو لے لے، نمازِ جنازہ کا اعلان بھی جائز ہے، اس کے علاوہ دُوسرے اعلانات جائز نہیں۔

مختلف اعلانات کے لئے مسجد کا لاوٴڈ اسپیکر استعمال کرنا

س… ہمارے محلے میں ہر کام کے لئے مسجد کا لاوٴڈ اسپیکر استعمال کرتے ہیں، مثلاً: بکر کے مہمان آئے ہیں، وہ جلد ان سے ملیں، کسی چیز کی گمشدگی کی اطلاع کے لئے، معمولی کاموں کے لئے بھی لاوٴڈ اسپیکر استعمال کیا جاتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

ج… مسجد کی ضرورتوں کے علاوہ مسجد کا لاوٴڈ اسپیکر استعمال کرنا جائز نہیں، مسجد کو ان چیزوں سے پاک رکھنا ضروری ہے، گمشدہ چیز کی تلاش کے لئے مسجد میں اعلان کرنا جائز نہیں، البتہ اگر مسجد میں کسی کی چیز رہ گئی ہو اس کا اعلان کردینا جائز ہے، اور گمشدہ بچے کا اعلان بھی ضرورت کی بنا پر جائز ہے۔

مسجد کا اسپیکر گناہ کے کام کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں

س… یومِ آزادی کے موقع پر میں نے مسجد کے ایمپلی فائر اور لاوٴڈاسپیکر کو موسیقی کے لئے استعمال ہوتے دیکھا، بلکہ اس سے پہلے بھی تہوار والے دن ایسا ہوتا چلا آیا ہے، مجھے یہ بات ناگوار گزری کہ وہ اسپیکر جس میں اذان ہوتی ہے آج اس سے موسیقی ہو رہی ہے، جب اس کا ذکر اپنی یونٹ کے ایک آدمی سے کیا تو جواز کے لئے اس نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ یہ پراپرٹی دراصل مسجد کی نہیں ہے، سوائے خاص دنوں یا تہوار کے دنوں کے یہ اسپیکر فارغ ہوتا ہے اس لئے اس کو مسجد میں استعمال کیا جاتا ہے، اور جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم اپنا مطلب حاصل کرلیتے ہیں۔ براہ کرم اس مسئلے کو کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کریں۔

ج… جو لاوٴڈاسپیکر مسجد میں استعمال ہوتا ہو اس کو گناہ کے کام کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ لاوٴڈ اسپیکر مسجد کا نہیں تو اسے مسجد میں استعمال نہ کیا جائے۔

شبِ برات میں مسجد کے لاوٴڈ اسپیکر پر تقاریر و نعتیں

س… ہر بڑی رات کو (شبِ برات وغیرہ) ہمارے محلے کی مسجد سے رات دیر تک لاوٴڈاسپیکر پر تقاریر اور نعتوں وغیرہ کا پروگرام ہوتا ہے، جس سے محلے والے اپنے گھروں میں ٹھیک طور سے عبادت نہیں کرسکتے، نہ نیند کرسکتے ہیں، براہِ کرم بتائیں کہ مسجد والوں کا یہ فعل صحیح ہے؟

ج… مسجد میں تقریر اور درس خواہ بڑی راتوں میں ہو یا چھوٹی راتوں میں اس کے دوران صرف اندر کے اسپیکر استعمال کرنے چاہئیں، تاکہ آواز مسجد تک محدود رہے اور اہلِ محلہ کو جن میں بیمار بھی ہوتے ہیں، تشویش نہ ہو، سنانے کا نفع اسی وقت ہوتا ہے جبکہ سننے والے شوق اور رغبت سے سنیں، اس لئے جن لوگوں کو سنانا مقصود ہو ان کو ترغیب دے کر مسجد میں لایا جائے۔

مسجد کے وضوخانے سے عام استعمال کے لئے پانی لینا جائز نہیں

س… وضوخانے کے نل سے دُکان دار روزانہ پانی لے جاتے ہیں، یہ شرعاً جائز ہے؟

ج… وضوخانے کا پانی وضو کے لئے مخصوص ہے، اس کا لے جانا دُرست نہیں، البتہ اگر اہلِ محلہ نے یہ نل رفاہِ عامہ کے لئے لگایا ہو اور دُکان داروں کو پانی لے جانے کی اجازت ہو تو جائز ہے۔

مسجد میں مٹی کا تیل جلانا مکروہ ہے

س… بجلی کے فیل ہونے کی وجہ سے مسجد میں مٹی کے تیل کی لالٹین استعمال کرسکتے ہیں؟ یا کہ موم بتی یا دُوسری کسی چیز سے روشنی کریں؟ جبکہ مٹی کا تیل مسجد میں لانا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے بدبو ہوتی ہے، اور بدبو کی چیز مسجد میں لانی منع ہے، اس کا گناہ کس پر ہوگا؟ لالٹین جلانے والے پر یا کہ مسجد کی انتظامیہ پر؟

ج… مسجد میں مٹی کا تیل جلانا بدبو کی وجہ سے مکروہ ہے۔

مسجد کی دیوار پر اشتہار لگانا

س… مسجد اللہ کا گھر ہے، ہر مسلمان پر اس کا احترام واجب ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مسجدوں کی دیواروں پر اشتہار چسپاں کردیتے ہیں، بلکہ اُلٹی سیدھی عبارتیں اور اعلانات بھی جلی حروف میں لکھ دیتے ہیں۔ مولانا صاحب! مہربانی فرماکر یہ بتائیں کہ مساجد کی دیواروں کے ساتھ یہ سلوک کہاں تک جائز ہے؟ اور مشتہرین کو اس فعل کی کیا سزا جزا ملنی چاہئے؟

ج… مسجد کے دروازوں اور دیواروں پر اشتہار چپکانا دو وجہ سے ناجائز ہے، ایک یہ کہ مسجد کی دیوار کا استعمال ذاتی مقصد کے لئے حرام ہے، چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ مسجد کے ہمسائے کے لئے یہ جائز نہیں کہ مسجد کی دیوار پر اپنے مکان کا شہتیر یا کڑی رکھے۔

دُوسری وجہ یہ ہے کہ مساجد کی تعظیم اور صفائی کا حکم دیا گیا ہے، اور مسجد کی دیوار پر اشتہار لگانا اس کی بے ادبی بھی ہے، اور اس کو گندا کرنا بھی۔ کیا کوئی شخص گورنر ہاوٴس کے دروازے پر اشتہار لگانے کی جرأت کرسکے گا؟ اور اس کو اس کی اجازت دی جائے گی؟ اور کیا اپنے مکان کے در و دیوار پر مختلف النوع اشتہار لگائے جانے کو پسند کرے گا؟ کیا مسلمانوں کی نظر میں اللہ کے گھر کی عظمت اپنے گھر کے برابر بھی نہیں رہی؟ افسوس ہے کہ مسجد کے در و دیوار پر اشتہار لگانے کی وبا عام ہو رہی ہے، نہ تو اشتہار لگانے والوں کو خانہٴ خدا کا احترام مانع ہوتا ہے اور نہ علمائے کرام ہی اس پر متنبہ فرماتے ہیں۔ یاد رہنا چاہئے کہ خانہٴ خدا کی آبادی، شہر اور محلے کی آبادی کا ذریعہ ہے، اور خانہٴ خدا کی ویرانی ہمارے محلوں اور شہروں کی ویرانی و بربادی کا سبب ہے۔

مسجد کے قریب فلم شو اور دُوسرے لہو و لعب کرنا سخت گناہ ہے

س… ہمارے محلے میں چند لوگ مسجد کے قریب ”فنکشن“ کے نام سے راگ رنگ کی محفلیں (فلم شو وغیرہ) جماتے ہیں۔ اس میں لاوٴڈاسپیکر کا استعمال بھی آزادانہ ہوتا ہے، اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ہماری مسجد و مدرسہ کے منتظمین حضرات نے پہلے تو ان لوگوں سے گزارش کی کہ وہ مسجد کی حرمت کا خیال کریں، لیکن انہوں نے یہ اپیل قبول نہ کی، تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ اس سلسلے کو بند کرادیا۔ اس سلسلے کے بند ہونے کی وجہ سے اب یہ لوگ انتقامی کاروائیاں کرنے لگے ہیں، انہوں نے مسجد و مدرسہ کے منتظمین کے خلاف ایک ”دستخطی مہم“ شروع کردی ہے، اور خوف و ہراس کی فضا قائم کر رہے ہیں، کیا ایسے لوگوں کو منتظمینِ مدرسہ اور امام کے خلاف شرعاً مداخلت کی اجازت ہے یا نہیں؟ نیز اس ”دستخطی مہم“ کی شرعی کیا حیثیت ہے؟ دیگر یہ لوگ جو فلم شو کرنے کے لئے چندہ جمع کرتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

ج… جو صورت سوال میں بیان کی گئی ہے، اس کے مطابق ان لوگوں کا مسجد کی انتظامیہ کے خلاف یا امام کے خلاف مہم چلانا شرعاً و اخلاقاً غلط ہے، ان کو اپنے فعل پر توبہ کرنی چاہئے، مسلمان کی شان یہ ہے کہ جب اس کو کسی گناہ سے روکا جائے تو اس پر اصرار نہ کرے، بلکہ اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کرے، گناہ کے کام کے لئے چندہ وغیرہ کرنا حرام ہے، مسجد میں شور کرنا حرام ہے، اور گانے وغیرہ کی آواز اور باہر کا شور لاوٴڈاسپیکر کے ذریعہ مسجد میں پہنچانا مسجد کی بے حرمتی ہے، جس کی وجہ سے ایسا کرنے والوں پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں، اور نمازیوں کی نماز اور ذکر و تلاوت میں بھی خلل پیدا ہوتا ہے، اس لئے ایسے لوگوں کو اس حرکت سے توبہ کرنی چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے گھروں پر وبال نازل ہوگا۔

مسجد کو گزرگاہ بنانا ادب و احترام کے منافی اور گناہ ہے

س… یہ بات کس حد تک دُرست ہے کہ ”مسجد کو گزرگاہ مت بناوٴ“؟ اگر یہ صحیح ہے تو کراچی میں کئی ایسی مساجد ہیں جہاں یہ چیز ہمیں ملتی ہے، مثلاً نیومیمن مسجد کی آپ مثال لے لیں، حالانکہ اس کے برابر میں ایک گلی ہے، لوگ بجائے وہاں سے گزرنے کے مسجد سے گزرتے ہیں۔

ج… مسجد کو گزرگاہ بنانا اس کے ادب و احترام کے منافی ہے اور گناہ ہے، اور مسجد کی بے ادبی کا وبال بہت سخت ہے، مسلمانوں کو اس وبال سے ڈرنا چاہئے!

مسجد کو تفریح گاہ بنانا اور اس میں فوٹو کھنچوانا جائز نہیں

س… ٹھٹھہ کی ایک مسجد میں غیرملکی سیاحوں نے جن میں نیم برہنہ لباس میں عورتیں بھی تھیں، منبر و محراب کے قریب مختلف زاویوں میں لیٹ، بیٹھ کر تصویرکشی کروائی، تو ایک صاحب نے ایک ہفت روزہ میں مذہبی کالم لکھنے والے سے پوچھا تھا کہ کیا یہ مسجد کی بے حرمتی نہیں؟ تو جواب میں فرمایا گیا کہ: ”آپ پریشان نہ ہوں، یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں، سیاح کبھی بے ادبی نہیں کرتے، بلکہ فوٹو کے ذریعہ یادگار لمحات کو محفوظ کرلیتے ہیں۔“ مولانا! کیا یہ نیم برہنہ لباس میں غیرمسلم خواتین کا مختلف زاویوں سے مسجد میں فوٹو کھنچوانا مسجد کی بے حرمتی نہیں؟ جبکہ ہمارے ہاں تو مسلم خواتین کا پوری طرح پردے کی حالت میں بھی مسجد میں جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

ج… اوّل تو مسجد کو تفریح گاہ اور سیر و سیاحت کا موضوع بنانا ہی جائز نہیں، پھر نیم عریاں کافرات کا مسجد میں اٹکھیلیاں کرنا بے حد ناروا بات ہے۔ جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے غسلِ جنابت بھی کیا ہے یا نہیں؟ اور پھر مسجد میں فوٹو لینا ان سب سے بدتر بات ہے، اس لئے یہ فعل کئی حرام اُمور کا مجموعہ ہے، اور قطعاً مسجد کے احترام کے منافی ہے، انتظامیہ کا فرض ہے کہ اس کا انسداد کرے۔

مسجد کے فنڈ کا ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں

س… ایک شخص نے اپنے اثر و رسوخ اور دیگر تعلقات کی بنا پر دُوسرے شخص سے تعمیرِ مسجد کے لئے کچھ رقم وصول کی ہے، اب رقم وصول کنندہ شخص نے تعمیرِ مسجد میں کچھ رقم خرچ کرکے باقی رقم کو اپنے ذاتی کام میں خرچ کیا ہے، اس حالت میں شرعاً اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے؟ عطیہ دینے والے شخص پر و دیگر اہلِ محلہ، نمازیانِ مسجد پر شرعاً کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ تفصیل سے جواب دے کر تشفیٴ قلب بخشیں۔

ج… مسجد کی رقم کا اپنے ذاتی مصرف میں استعمال کرنا اس شخص کے لئے شرعاً جائز نہیں تھا، لہٰذا اسے چاہئے کہ توبہ و اِستغفار کرے اور جو رقم اس نے استعمال کی ہے اس کا ضمان ادا کرے، اہلِ محلہ کی اور نمازیوں کی ذمہ داری یہی ہے کہ اس شخص سے ضمان وصول کریں۔

غیرقانونی جگہ پر مسجد کی تعمیر اور دُوسرے تصرف کرکے ذاتی آمدنی حاصل کرنا

س… پچھلے دنوں اخبار میں ایک مضمون نظر سے گزرا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ غیرقانونی غیروابستہ جگہ پر مسجد بننے کے بعد اگر حکومت اعتراض نہ کرے تو وہ مسجد قانونی حیثیت اختیار کرلیتی ہے، ہمارے محلے میں مفادپرستوں نے غیروابستہ غیرقانونی طریقے سے جگہ گھیر کر مسجد کی بنیاد ڈالی اور رفتہ رفتہ کافی جگہ گھیر کر باقاعدہ ایک جامع مسجد بناڈالی، اس کے چاروں طرف ناجائز تجاوازت، مکانات، کارخانے وغیرہ بناکر مسجد کے لئے نہیں، بلکہ اپنی آمدنی کا پکا ذریعہ پیدا کرلیا ہے۔ جامع مسجد کے ساتھ ایک لمبا چوڑا رہائشی پلاٹ وغیرہ کی جگہ تھی، اس کو عیدگاہ کے نام سے موسوم کردیا گیا، مینار بھی بناڈالا، جہاں عیدین کی نمازیں ہوتی تھیں، اب عیدگاہ کی جگہ برائے نام رہ گئی، اس جگہ کارخانے وغیرہ بناکر کرایہ پر دے دئیے گئے، جس کا صرف ایک آدمی کرایہ وصول کرتا ہے، اپنی ذاتی ملکیت قرار دیتا ہے، زمین کے ڈی اے کی ہے۔

ج… اس مسجد کی تعمیر کے وقت چونکہ حکومت کے کسی محکمے کی جانب سے اعتراض نہیں ہوا اور مسجد ویسے بھی مسلمانوں کی ناگزیر ضرورت ہے، اس لئے مسجد تو صحیح ہے، باقی جگہ پر جو ناجائز قبضہ کیا گیا ہے اس کو ہٹادیا جائے اور مسجد پر اگر غلط لوگ مسلط ہیں تو حکومت ان کا تسلط ختم کرکے مسجد کو محکمہ اوقاف کے حوالے کردے۔

مسجد کی زائد چیزیں فروخت کرکے رقم مسجد کی ضروریات میں لگائی جائے

س… ملک کوآپریٹو ہاوٴسنگ سوسائٹی پاکستان (رجسٹرڈ) کراچی کی زمین واقع سپرہائی وے پر سوسائٹی نے مسجد کی تعمیر شروع کرنی ہے، اس مسجد کے لئے سوسائٹی نے ممبران اور ملک برادری سے عطیات رقوم کی صورت میں دینے کی درخواست کی تھی، اور اس کے لئے باقاعدہ مسجد فنڈ قائم کردیا گیا ہے، اپیل کے بعد ملک برادری کے افراد کی جانب سے رقوم کی صورت میں اور اشیاء کی صورت میں عطیات موصول ہونا شروع ہوئے، اشیاء کی صورت میں جو عطیات وصول ہوئے وہ یہ ہیں: دیوار کی گھڑیاں، چھت کے پنکھے، صفیں اور جائے نماز وغیرہ، چونکہ مسجد کی تعمیر میں ابھی وقت لگے گا اور کراچی کے موسمی حالات کے پیشِ نظر دیوار کی گھڑیاں اور چھت کے پنکھے زنگ آلود اور خراب ہونے کا اندیشہ ہے، تو کیا سوسائٹی ان اشیاء کو فروخت کرکے اس سے جو رقم حاصل ہو وہ مسجد فنڈ میں شامل کرسکتی ہے یا نہیں؟ یا ان اشیاء کو دُوسری ضرورت مند مسجدوں میں تقسیم کردیا جائے؟ جب تک سوسائٹی ہذا کی مسجد کی تعمیر ہونی شروع ہو جیسی صورت بہتر ہو شریعت کی رُو سے فتویٰ عنایت فرمائیں۔

ج… ان اشیاء کو فروخت کرکے مسجد کی ضروریات میں صَرف کیا جائے، جو چیزیں مسجد کی ضرورت سے زائد ہوں، اور ان کو فروخت بھی نہ کیا جاسکتا ہو وہ کسی دُوسری مسجد میں دے دی جائیں۔

مسجد کا غیرمستعمل سامان موٴذّن کے کمرے میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

س… اوقاف کی مسجد میں موٴذّن کے لئے جو کمرہ بنایا گیا ہے اس میں مسجد کے نام پر وقف وہ قالین یا پانی کا کولر جس کی مسجد والوں کو بالکل ضرورت نہیں ہے اور جس کو استعمال نہ کیا جائے تو یونہی ضائع ہوگا، اور ایسے قالین پرانے اوقاف والوں نے بھی دیکھ کر مسجد کے سامان میں شمار نہ کیا، اور نہ ہی اس کا اندراج کیا، اس کا موٴذّن کے لئے مسجد ہی کے حجرے میں استعمال کا کیا حکم ہے؟ جبکہ یہاں دُوسرے مساجد والے بھی اس قسم کے سامان سے مستغنی ہیں اور کہیں دُور دراز صحرا وغیرہ میں لے جانے کا رواج اور انتظام نہیں ہے۔

ج… اگر اوقاف کی اجازت ہو تو یہ قالین اور پانی کا کولر موٴذّن کے کمرے میں استعمال کیا جاسکتا ہے، کوئی مضائقہ نہیں۔

اہلِ چندہ کی اجازت سے مسجد کے مصارف میں رقم خرچ کی جاسکتی ہے

س… مسجد کے نام پر جو چندہ جمع ہوتا ہے یا جمع پڑا ہے، اس سے مسجد کے واسطے غسل خانے، استنجاخانے کی جگہ یا پانی کا تالاب یا امام صاحب کے لئے کمرہ بنانا یا کنواں وغیرہ یعنی مسجد کے ساتھ جس چیز کی ضرورت ہے کیا اس رقم سے جو مسجد کے لئے جمع ہو اس چیز پر خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… اہلِ چندہ کی اجازت سے جائز ہے۔

مسجد میں تصویریں اُتارنا اور فلم بنانا ناجائز ہے

س… کیا مسجد میں تصویریں اُتارنا، اخبار پڑھنا، ٹیلی ویژن والوں کا فلم بنانا، نعرہ بازی کرنا وغیرہ جائز ہے؟

ج… مسجد میں یہ تمام اُمور ناجائز ہیں۔

مسجد کی بے حرمتی موجبِ وبال ہے

س… بزرگوار! اسلام میں مسجد کا احترام لازمی ہے، لیکن کراچی ڈیفنس سوسائٹی کی مسجدِ طوبیٰ میں مسجد کا کوئی احترام نہیں ہے، وہاں روزانہ غیرملکی اور ملکی خواتین اور مرد آتے ہیں، مسلمان عورتیں مسجد کا احترام جانتی ہیں، لیکن غیرمسلم خواتین احترام سے نابلد ہوتی ہیں، عورتوں کے کچھ ایام مخصوص ہوتے ہیں، ان ایام میں عورت کا مسجد میں آنا مناسب نہیں ہوتا، جبکہ غیر مسلمان عورتیں پاکیزگی اور پاکی کے لفظ سے بھی نابلد ہوتی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ منی اسکرٹ پہن کر مسجد میں آتی ہیں اور صرف انڈرویئر نیچے ہوتا ہے، اور جب دروازے پر بیٹھ کر جوتے وغیرہ اُتارتی ہیں تو تمام ٹانگیں رانوں تک ننگی ہوتی ہیں اور آتے ہی فوٹو کھینچنا شروع کردیتی ہیں، جس سے مسجد کا احترام اُٹھ جاتا ہے، مسجد کی انتظامیہ اور حتیٰ کہ امام صاحب بھی تماشا دیکھتے رہتے ہیں، اور کوئی کسی کو منع نہیں کرتا۔ آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ ذمہ داری کس پر آتی ہے؟ انتظامیہ پر یا امامِ مسجد پر؟ کون گناہگار ہوتا ہے؟ کیا یہ غیرمسلم اپنی عبادت گاہوں میں ایسا ہی کرتے ہیں؟ میرا خیال ہے یہ اپنے گرجاگھروں کا ضرور احترام کرتے ہوں گے، پھر یہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا خیال کیوں نہیں کرتے؟ کیا ایک مسلمان ملک وہ بھی پاکستان جس میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ میں نے وہاں کے عملے سے کہا تو کہنے لگے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہم تو ملازم ہیں، کیا ملازموں پر مسجد کا احترام قائم رکھنا ضروری نہیں ہے؟ خاص طور پر غیرمسلم خواتین پر پابندی ضروری ہے، کیونکہ یہ نامعلوم کن حالات میں یعنی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں آتی ہیں؟ کیا فوٹوگرافی کے لئے مسجدیں ہی رہ گئی ہیں؟ اور وہ بھی برہنگی کی حالت میں مسجد میں کھڑے ہوکر کرتی ہیں، خدارا! اس اہم مسئلے پر قلم اُٹھائیے۔

ج… مسجد کی یہ بے حرمتی جو آپ نے لکھی ہے، موجبِ وبال ہے، مسجد سیرگاہ یا تماشاگاہ نہیں، میں نے سنا ہے کہ بیت المقدس پر یہودی قبضے سے پہلے قبلہٴ اوّل کو بھی سیرگاہ اور تماشاگاہ بنادیا گیا تھا، نماز میں جماعت تو برائے نام ہوتی تھی، لیکن تماش بینوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا، اسی کا وبال ہے کہ وہ مسجد مسلمانوں سے چھین لی گئی۔ حکومت کا فرض ہے کہ مسجد کے تقدس کو بحال کرے، تماشائیوں کے داخلے پر پابندی عائد کرے، اور مسجد کے احاطے میں تصویرکشی کو ممنوع قرار دے۔

علامتِ مسجد کے لئے ایک مینار بھی کافی ہے

س… ہم نے اپنے محلے کی مسجد شہید کرکے دوبارہ تعمیر کی اور مسجد کا ایک مینار بھی وسائل کے مطابق بنوایا، مگر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ وہابیوں کا مینار ہے، مینار کی عظمت و حیثیت کی وضاحت فرمائیں۔

ج… مینار مسجد کی علامت کے لئے ہوتے ہیں، اگر ایک مینار سے مسجد کا مسجد ہونا معلوم ہوجائے تو ایک مینار بھی کافی ہے، اس میں وہابی یا غیروہابی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

مسجد سے قرآن مجید اُٹھاکر لانا جائز نہیں

س… مسجد سے اگر کوئی شخص قرآن پاک اُٹھاکر پڑھنے کے لئے لے آئے اور اپنے پاس ہی رکھ لے، اس صورت میں اس کو قرآن مجید کا ہدیہ اس مسجد میں دینا ہوگا یا نہیں؟

ج… قرآن مجید مسجد سے اُٹھاکر لانا جائز نہیں، اس کو دوبارہ مسجد میں رکھ دے یا اس کی جگہ دُوسرا رکھ دے۔

مسجد، حق تعالیٰ شانہ کا شاہی دربار ہے اس کی بے ادبی گناہ ہے

س… مساجد میں دُنیاوی باتیں کرنا شرعاً کیسا ہے؟ جبکہ بار بار منع کرنے کے باوجود بھی لوگ باتیں کرتے ہیں، مسجد میں چٹکیاں مارنا اور زور زور سے باتیں کرنا، مسجد کے لاوٴڈ اسپیکر میں ہر قسم کے اعلانات کرنا، خیرات شادی وغیرہ کی روٹی کا اعلان کرنا، کوئی چیز گم ہوجائے تو اس کا اعلان کرنا وغیرہ، کیا یہ سب جائز ہے؟ کیا ایسا کرنے والا کوئی گناہگار بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟

ج… یہ تمام اُمور ناجائز ہیں، اسی طرح وہ تمام اُمور جو مسجد کے ادب کے خلاف ہوں، ناجائز ہیں۔ مسجد، حق تعالیٰ شانہ کا شاہی دربار ہے، کیا شاہی دربار میں اس طرح زور زور سے چلانا خلافِ ادب تصوّر نہیں کیا جاتا؟ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا رسالہ ”آدابِ مساجد“ دیکھ لیا جائے۔

مسجد میں نجس اور بدبودار چیزیں لانا جائز نہیں

س… جو لوگ مسجد میں نشہ آور چیزیں لے کر آتے ہیں، مثلاً: پان، سگریٹ اور دُوسری نشہ آور اشیاء، کیا ان اشیاء کا مسجد میں لانا صحیح ہے؟

ج… نجس یا بدبودار چیزوں کا مسجد میں لانا جائز نہیں، اور جو چیز نہ نجس ہو نہ بدبودار، اس کا لانا جائز ہے۔

مسجد میں قصداً جوتا تبدیل کرنا سخت گناہ ہے

س… مسجدوں میں بالعموم، جامع مسجدوں میں بالخصوص اور حرمین شریفین میں خاص الخاص طور پر پیش آتا ہے جسے آپ جوتوں کی تبدیلی کا نام دے سکتے ہیں، حرمین شریفین میں تو اکثر لوگ اپنے جوتے رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ کس طرف رکھے تھے؟ اور پھر صفائی کرنے والے خادم بھی جوتے اُٹھاکر باہر پھینک دیتے ہیں یا ڈھیر لگادیتے ہیں، اس حالت میں اپنے جوتوں کی شناخت بہت مشکل بات ہے، زیادہ تر لوگ اپنے ناپ کے جو بھی جوتے، جس کے بھی ملیں، پہن لیتے ہیں، جن میں میں بھی شامل ہوں۔ لیکن میں اکثر ہوائی چپل ہی پہن کر جاتا ہوں اور واپسی پر بھی ہوائی چپل ہی پہنتا ہوں، اور کوشش کرتا ہوں کہ بیکار سے بیکار چپل پہنوں، خواہ دونوں پاوٴں کے رنگ مختلف ہی کیوں نہ ہوں، مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ اپنی گھٹیا جوتی کے بدلے عمدہ جوتا پہن کر آتے ہیں۔

ج… قصداً جوتا تبدیل کرنا سخت گناہ ہے اور جو چپل بے کار پڑے ہوں اور ان کا مصرف پھینکنے کے سوا کوئی نہ ہو، ان کو پہن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

نماز پڑھتے وقت موم بتی عین سامنے رکھنا مکروہ ہے

س… اکثر اوقات مسجد میں بجلی چلے جانے کے باعث موم بتیاں جلادی جاتی ہیں، یہ بتادیجئے کہ نماز پڑھتے وقت آگے موم بتی وغیرہ جلاکر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اندھیرے میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… موم بتی عین سامنے رکھنا مکروہ ہے، ذرا سی دائیں بائیں ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اندھیرے میں نماز جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اندھیرے کی وجہ سے قبلہ کا رُخ غلط نہ ہوجائے۔

غیرمسلم اگر ازخود چندہ دے تو اس کو مسجد میں لگانا دُرست ہے

س… بھٹ شاہ شہر میں ایک مسجد بن رہی ہے، جس کے لئے ہمارے شہر کے سب لوگوں نے چندہ دیا، ان میں ایک عدد غیرمسلم بھی شامل ہے، کیا غیرمسلم سے مسجد کے لئے چندہ لیا جاسکتا ہے؟

ج… مسجد کے لئے غیرمسلم سے چندہ مانگنا تو اسلامی غیرت کے خلاف ہے، لیکن اگر وہ ازخود اس کو نیک کام سمجھ کر اس میں شرکت کرنا چاہے تو اس کا چندہ مسجد میں لگانا دُرست ہے۔

ناسمجھ بچوں کو مسجد میں نہیں لانا چاہئے

س… مسجد میں بچوں کا داخلہ کیسا ہے؟ چھوٹے بچے مسجد میں گندے اور ننگے پیر آتے ہیں، شور کرتے ہیں، وضو کی جگہ پر گندگی کرتے ہیں، جس سے وضو والی جگہ ناپاک ہوجاتی ہے، وضو ناپاک جگہ نہیں ہوتا۔

ج… چھوٹے بچے جن کے پیشاب پاخانہ کا اندیشہ ہو، ان کو مسجد میں نہیں لانا چاہئے، سمجھدار بچے مسجد میں آئیں مگر ان کو آداب کی تعلیم دینی چاہئے۔

ننگے سر نماز پڑھنے کے بجائے صاف ستھری چٹائی کی ٹوپی سے نماز پڑھ سکتے ہیں

س… میں تارگھر کراچی میں ملازمت کرتا ہوں، میں نے پچھلے دنوں تارگھر کی مسجد میں ٹوپیاں لاکر دیں جو چٹائی کی بنی ہوئی تھیں، مسجد کے پیش امام نے وہ ٹوپیاں واپس کردیں اور کہا کہ مسجدوں میں ٹوپیاں رکھنا جائز نہیں، جو ایسا کرتا ہے غلط ہے۔ اس جواب سے بہت سے لوگوں کو تشویش ہے اور اس سے قبل جو ٹوپیاں مسجد میں تھیں وہ پیش امام صاحب نے جلادیں۔

ج… مسجدوں میں ٹوپیاں رکھنے کا عام رواج ہے، اور یہ رواج اس لئے ہوا کہ عام طور پر لوگ ننگے سر بازاروں اور دفتروں میں جاتے ہیں، حالانکہ ننگے سر بازاروں میں نکلنا خلافِ مروّت ہے، مسلمانوں کو گھروں سے ننگے سر نہیں نکلنا چاہئے، اور مسجد کی ٹوپیاں اگر صاف ستھری ہوں تو ان کو پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں، اور اگر ٹوٹی پھوٹی اور میلی کچیلی ہوں تو ان کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ اُصول یہ ہے کہ ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے جس کو پہن کر آدمی عام مجالس میں شرکت نہ کرسکتا ہو۔

مسجد کا ”زندہ مردہ“ کا فلسفہ صحیح نہیں

س… بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مسجد کی زمین زندہ ہے، اس پر گرم چینک یا اور کوئی چیز رکھنا دُرست نہیں ہے، اس کے بارے میں ہمیں بتلادیں کہ کیا یہ صحیح ہے؟ اور کہتے ہیں کہ مسجد کی زمین ذکر یا نماز ادا ہونے سے زندہ ہوتی ہے۔

ج… مسجد کی جگہ محترم ہے، مگر زندہ اور مردہ کا فلسفہ صحیح نہیں، یہ محض من گھڑت بات ہے۔

آلاتِ موسیقی کا مسجد میں لگانا دُرست نہیں

س… آج کل بہت سی مسجدوں میں میوزک والے کلاک استعمال ہو رہے ہیں، جن میں تقریباً ہر پندرہ منٹ بعد میوزک بجنا شروع ہوجاتا ہے، جو کہ تقریباً پندرہ یا بیس سیکنڈ تک بجتا رہتا ہے، کیا مسجدوں میں ایسی وال کلاک یا گھڑیوں کا استعمال کرنا دُرست ہے جس میں میوزک بجتا ہو؟

ج… آلاتِ موسیقی کا مسجد میں لگانا جائز نہیں، بلکہ گھر میں بھی لگانا دُرست نہیں ہے۔

مسجد کی زائد چیزیں خریدنے والا ان کو استعمال کرسکتا ہے

س… ہمارے گاوٴں میں ایک مسجد تھی، جو لکڑیوں کی تعمیر کی ہوئی تھی، جس میں لکڑیاں بہت پرانی ہوگئی تھیں، اور ہم گاوٴں والوں نے مل کر چندہ جمع کیا اور مسجد کو نیا تعمیر کرایا ہے، اور اس مسجد میں نئی لکڑی ڈالی ہے اور ہم لوگ اس پرانی لکڑی کو بیچ کر مسجد کے اُوپر پیسے لگانا چاہتے ہیں، اور گاوٴں کے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مسجد کی لکڑی گھر میں نہیں استعمال ہوسکتی اور نہ ہی گھر میں جلاسکتے ہو۔

ج… مسجد کی جو چیزیں مسجد میں استعمال نہ ہوسکتی ہوں اور ان کو فروخت کرکے قیمت مسجد پر لگادینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے، اور جس شخص نے وہ چیزیں خریدی ہوں، وہ ان کو بلاشبہ استعمال کرسکتا ہے، اور لکڑی جلانے کی ہو تو جلا بھی سکتا ہے، آپ کے مولوی صاحب کا فرمان صحیح نہیں۔

قلیل آبادی میں بڑی مسجد کی تعمیر کی گئی تو کیا یہ صدقہ جاری ہوگی؟

س… کچھ دن پہلے رحیم یارخان کے نزدیک ایک چھوٹی سی بستی بھونگ جانے کا اتفاق ہوا، بھونگ کی مسجد کے بڑے چرچے سنے تھے اور وہ مسجد کافی مشہور ہے، گو کہ یہ مسجد فنِ تعمیر اور آرٹ کا ایک نادر اور نایاب نمونہ ہے، لیکن مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا، اس لئے کہ یہ مسجد ایسی جگہ تعمیر کی گئی ہے جو انتہائی قلیل آبادی والی بستی اور پسماندہ ہے، اور افسوس اس بات کا ہے کہ لاکھوں روپیہ کے خرچ سے تعمیر کی جانے والی اس عظیم الشان، خوبصورت اور قابلِ دید مسجد میں نمازیوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ بارہ ہوتی ہے، اور وہ بھی بے چارے چند اَن پڑھ دیہاتی لوگ ہوتے ہیں، باقی پوری مسجد ویران اور غیرآباد ہے، کاش! یہ مسجد کسی بڑے شہر میں تعمیر کی جاتی۔ دُور دُور سے دیکھنے کے لئے آنے والے لوگ مسجد بنوانے والے کی سخاوت کی داد دیتے ہیں اور اسے صدقہ جاریہ بتاتے ہیں، جو مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ لیکن محترم! میں بحیثیت ایک طالبِ علم اسے صدقہ جاریہ نہیں مانتا، بلکہ وہ لاکھوں روپیہ جو اس مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا گیا، اسے فضول خرچی سمجھتا ہوں۔ صدقہ جاریہ اس صورت میں ہوتا ہے جبکہ مقامی آبادی اور نمازیوں کی تعداد کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے تعمیر کی جاتی، اگر مسجد بنانے والے صاحب کا منشا یہی تھا کہ کوئی ایسا نیک کام کیا جائے جو صدقہ جاریہ ہو تو یہ مسجد کسی بڑے شہر میں بنوائی جاتی، اور اگر وہ اپنے ہی علاقے یعنی بھونگ میں یہ نیک کام سرانجام دینا چاہتے تھے تو کوئی اسپتال، اسکول یا کالج ہی تعمیر کرادیتے جس سے لاکھوں لوگ فیض حاصل کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ انتہائی فیاضی کے ساتھ دولت خرچ کرکے کئی سال تعمیر پر صَرف کئے جانے کے بعد یہ جو انتہائی عظیم الشان مسجد تعمیر کی گئی (جو ضرورت سے کہیں زیادہ ہے) تو کیا یہ صدقہ جاریہ میں شمار ہوگی؟

ج… یہ سوال مسجد بننے سے پہلے کیا جاتا تو شاید کوئی اور بات عرض کی جاتی، اب جبکہ وہ مسجد بن چکی ہے، تو اسے صدقہ جاریہ کے سوا اور کیا کہا جائے؟ باقی باطن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد ہے، وہ اپنے بندوں کے دِلوں اور ان کی نیتوں کو جانتے ہیں، یہ محکمہ نہ میرے سپرد ہے، نہ آپ کے۔

حرام کی کمائی سے کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی

س… اگر کوئی شخص رشوت اور سود کے ذریعہ حاصل کی گئی ناجائز اور حرام دولت سے مسجد تعمیر کرے تو کیا اس مسجد کا شمار بھی صدقہ جاریہ میں ہوگا؟

ج… نعوذ باللہ! رشوت اور سود کو صدقہ جاریہ سمجھنا کفر ہے، حرام کی کمائی سے کوئی بھی عبادت کی جائے، وہ قبول نہیں ہوتی، بلکہ کرنے والے کے لئے موجبِ لعنت ہوتی ہے۔

مسجد کے لئے وقف شدہ پلاٹ پر اگر لوگوں نے نماز شروع نہیں کی تو وہ تبدیل کیا جاسکتا ہے

س… ہم لوگوں نے ایک پلاٹ مسجد کے لئے رکھا ہے، وہ پلاٹ مسجد کے نام وقف کردیا ہے، اور اس کی بنیادیں بھی کھودی جاچکی ہیں، اور بنیاد کی مزدوری بھی ادا کردی ہے۔ اب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد دُوسری جگہ بنوانی چاہئے، تاکہ وہاں نمازیوں کی کثرت ہو، جبکہ دُوسری سینٹر کی جگہ ہے۔ آپ سے دریافت یہ کرنا ہے کہ دُوسری جگہ کے بدلے میں پہلی والی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے یا پہلی والی جگہ کو فروخت کرکے دُوسری خریدیں؟ پہلی والی جگہ میں اینٹ ابھی نہیں لگائی ہے، صرف بنیادیں کھودی ہیں، اس جگہ پر سجدہ بھی نہیں ہوا؟

ج… زمین مسجد کے لئے وقف کرکے جب لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جائے اور لوگ نماز شروع کردیں تب اس کو مسجد کا حکم دیا جاتا ہے، خواہ تعمیر ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، یہ جگہ جو مسجد کے لئے خریدی گئی ہے اس میں چونکہ ابھی تک نماز شروع نہیں ہوئی، لہٰذا یہ مسجد نہیں، اس لئے آپ پہلے پلاٹ کی جگہ دُوسری جگہ مسجد کے لئے لے سکتے ہیں۔

  • Tweet

What you can read next

کن چیزوں سے نماز فاسد یا مکروہ ہوجاتی ہے؟
نماز کی فرضیت و اہمیت
نیت
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP