SIGN IN YOUR ACCOUNT TO HAVE ACCESS TO DIFFERENT FEATURES

FORGOT YOUR PASSWORD?

FORGOT YOUR DETAILS?

AAH, WAIT, I REMEMBER NOW!

Shaheed e Islam

  • رابطہ
  • متفرقات
    • نماز
    • ادعیہ ماثورہ
    • اسلامک لنکس
    • اسماء الحسنی
    • بکھرے موتی
    • تصاویر کی دنیا
    • خصوصی پروگرامز
  • آپکے مسائل اور انکا حل
    • جلد اول
    • جلد دوم
    • جلد سوم
    • جلد چہارم
    • چلد پنجم
    • جلد ششم
    • جلد ہفتم
    • جلد ہشتم
    • جلد نهم
    • جلد دہم
  • حمد و نعت
    • خصوصی البم
    • مولانا عبد اللطیف الحصیری
    • مولانا انس یونس
    • حافظ ابو بکر
    • محمد کاشف فاروقی
    • حافظ کامران منیر برادران
    • عطاء الرحمن عزیز
    • متفرق
  • بیانات
    • مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم
    • مولانا اللہ وسایا صاحب
    • مفتی سعید احمد جلالپوری
    • قاری حنیف ملتانی صاحب
    • مولانا طارق جمیل صاحب
    • مفتی ہارون مطیع اللہ صاحب
  • شہید اسلام
    • درس قرآن
    • اصلاحی مواعظ
    • تصانیف
    • تعارف
  • ختم نبوت
    • خصوصی بیانات
    • کتابیں
    • مضامین
    • خصوصی پروگرامز
    • ہفت روزہ ختم نبوت
  • الحدیث
    • درس حدیث
    • معارف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
  • القرآن
    • درس قرآن
    • تلاوت قرآن
    • تفسیر قرآن مولانا منظور احمد نعمانی
  • سرورق
0
Shaheed-e-Islam
Wednesday, 19 September 2012 / Published in مضامین

۔۷ستمبر ۱۹۷۴ کے فیصلے پر بے جا اعتراض

 

۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کے فیصلے پر بے جا اعتراض!

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمدﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!

            ’’لاہوری فرقہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے، اور ربوائی فرقہ کہتا ہے کہ نبی تھے۔ اور دنیا جانتی ہے کہ نبی کو نبی نہ ماننا کفر ہے، اور غیر نبی کو نبی ماننا بھی کفر ہے۔ اب لاہوری مرزائیوں کے نزدیک ’’ربوائی فرقہ‘‘ کافر ہے، اور ربوہ والوں کے نزدیک ’’لاہوری فرقہ‘‘ مرزا کو نبی نہ ماننے کی وجہ سے کافر ہے۔ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کے آئینی فیصلہ پر ایک معترض کے جواب میں حکیم العصر حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒ کی چشم کشا تحریر ملاحظہ فرمائیں۔‘‘ (مدیر(

            پاکستان کی اسمبلی کا قادیانیوں کو کافر قرار دینا ۱۹۷۴ء کے اہم ترین واقعات میں سے تو ضرور ہے مگر یہ معاملہ یا فیصلہ ایک اعلیٰ سیاسی و آئینی ادارہ کی جانب سے صادر ہوا ہے جو خالصتاً ایک سیاسی فیصلہ ہے چوہدری غلام احمد پرویز صاحب کا اس سیاسی فیصلہ کو اپنی مری اور مٹتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے یا برقرار رکھنے کے لئے استعمال کرنا ہمارے نزدیک انتہائی عیاری اور عوام دشمنی ہے۔

معروضی تجزیہ:

            واقعات و حالات کا تجزیہ معروضی انداز میں کیا جانا چاہئے، اپنی اپنی رنگین و طرحدار خواہشات کی عینکیں لگاکر مشاہدہ کرنے والے ہی ہمیشہ ناکام و نامراد ہوئے ہیں۔ ہمارے خیال میں ربوائی گروپ نے اپنی حکمت عملی سے حکومت وقت کے ساتھ ٹکراؤ و تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ واقعہ ربوہ سے بہت قبل کرلیا تھا، اس سلسلہ میں کئی ایک شہادات اخبارات میں بھی ظاہر ہوچکی ہیں۔ ہم جیسے عام انسانوں کی آنکھوں نے بھی ان کا مشاہدہ کیا ہے، قادیانیوں نے ایک لمبے عرصہ سے اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے الگ کرلیا تھا، وہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا، ان کے ساتھ رشتہ و نکاح کرنا، ان کی نماز جنازہ پڑھنا، غرضیکہ کسی بھی مشترک امر پر عام مسلمانوں سے تعاون کرنے پر تیار نہ تھے۔

            انہوں نے مرزا صاحب کو عملاً ایک مستقل نبی اور اپنے آپ کو ایک مستقل امت مان کر اپنی حکمت عملی کے قیام کا پاکستان سے بہت پہلے ہی آغاز کردیا تھا، ان کی آمرانہ قیادت نے برطانوی حکومت، کانگرس اور مسلم لیگ کی ایک تثلیث کے بارِگراں کو وقتاً فوقتاً اپنی نازک کمر پر اٹھانے کی کوشش کی اور آخر میں کچھ مخصوص مفادات اور حالات کے پیش نظر اس آمرانہ قیادت نے پی پی پی کے ساتھ انتخابات کے دوران ہر طرح کے تعاون کا فیصلہ کرلیا اور جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے اس نے رات دن کام کیا، اس کے ہمہ وقتی مذہبی مبلغین نے اپنے اپنے جماعتی حلقوں اور دیگر زیر اثر علاقوں میں پی پی پی کے لئے کام کیا، اس قادیانی حکمت عملی کے پس منظر میں کچھ مخصوص ذہنی تحفظات اور مقدمات فکر کام کر رہے تھے۔ انہیں خطرہ یہ تھا کہ کہیں کوئی مذہب پسند سیاسی جماعت پاکستان کی ہیئت مقتدرہ پر قبضہ نہ کرے، اس خطرہ کے پیش نظر انہوں نے پی پی پی کے ساتھ ہر طرح کے تعاون یا اشتراک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پی پی پی کو توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی، اس کی اس کامیابی کو بھی ربوہ کی آمرانہ قیادت نے اپنے مخصوص عقائد و نظریات اور مستقبل کی خوش آئند توقعات کے زاویہ نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا اور ان کے مہم جو عناصر نے آہستہ آہستہ حکومت کی مسند اور اقتدار کی کرسی پر پہنچنے کے سہانے خواب دیکھنے شروع کردئیے، اگر قارئین نے اس تقریر کو پڑھا ہے جو ناصر احمد خلیفہ ربوہ نے کشمیر اسمبلی کے فیصلہ کے متعلق ایک جمعہ میں خطاب کرتے ہوئے کی تھی، تو وہ ہماری اس رائے کی تائید کریں گے، اس تقریر میں جو تعلّی و انانیت اور جس خود فریبی کی نمود و نمائش کی گئی اس سے صاف نظر آرہا تھا کہ یہ قیادت کسی وقت بھی تصادم و ٹکراؤ کو لبیک کہنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ لیکن انہیں اس امر کا احساس نہیں ہوا کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی زمام اقتدار ایک ایسے انسان کے قبضہ میں ہے جو سیاست و حکمت عملی کے تہہ در تہہ اسرار  ورموز کا کامل ماہر ہے۔ پھر وہ عوامی مزاج کا لیڈر ہے، وہ تحفظ و استحکام پاکستان کا ہر قیمت پر متمنی ہے، لہٰذا جب بھی اس کی کسی قوت کو چیلنج کیا گیا وہ اپنی حکمت عملی، اپنے عوام پسند مزاج، تحفظ و استحکام پاکستان کے مخصوص مفادات کے پیش نظر اپنے عزیز سے عزیز تر رفیقوں اور غدار ساتھیوں کو چھوڑنے اور انہیں اپنی موت مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دے گا۔

خالص سیاسی فیصلہ:

            ہمارے نزدیک قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی اصل وجوہ سیاسی ہیں، اور چونکہ انہوں نے عملاً اپنے آپ کو عام ملت سے الگ ایک امت بنالیا ہے، ایک نئی نبوت کے و ہ مدعی بن چکے ہیں، لہٰذا اسمبلی نے خود انہیں کے آلہ و ہتھیار سے انہیں مفلوج کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے پرویز صاحب اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ خود پرویز صاحب نے بھی جناب وزیراعظم کی اس تقریر پر جو انہوں نے اسمبلی میں فیصلہ کئے جانے کے دوران کی تھی اظہار حیرت و تعجب کیا ہے، پرویز صاحب نے بحوالہ ’’ہفت روزہ ایشیا‘‘ وزیراعظم کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں:

            ’’یہ فیصلہ مذہبی بھی ہے اور سیکولر بھی، سیکولر اس معنی میں کہ ہم عصر جدید میں سے گزر رہے ہیں اور ہمارا دستور سیکولر ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ ملک کے تمام شہری یکساں سلوک کے حقدار ہیں۔‘‘                           (ماہنامہ طلوع اسلام نومبر  ص:۲۹)

            ان الفاظ پر جو شخص بھی ذرا گہرائی میں اتر کر مستقبل قریب اور بعید پر ایک گہری نگاہ ڈال کر بات کرے گا، وہ یہ کہے بغیر نہیں رہے گا کہ جن جن مذہبی جماعتوں یا مفکروں نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دئیے جانے کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے انہوں نے نہ صرف انتہائی سادہ لوحی سے کام لیا ہے بلکہ عوام اور پاکستان سے بھی کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا۔

جماعت احمدیہ لاہور کا قصور:

            بظاہر اس فیصلہ میں شدت و غلظت نظر آئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم جماعت احمدیہ لاہور کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور انہیں بلاوجہ کافر قرار دے دیا گیا ہے، لیکن اگر خود جماعت لاہور کی خارجہ و داخلہ حکمت عملی کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بھی کافی تضادات ہیں۔

            مثلاً: اگر وہ یہ مانتے ہیں کہ ان کے محمودی ٹولے سے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹولہ مرزا صاحب کو حقیقی نبوت کا مدعی مانتا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو ایک الگ امت منوانا چاہتا ہے اور اپنے طرز عمل سے بھی ربوائی گروہ اسی طرح کے شواہد مہیا کرچکا ہے، تو آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ جماعت لاہور جماعتی سطح پر نام لے کر ربوائی گروہ کو کافر نہیں کہتی؟ ان سے بیزاری و علیحدگی اختیار نہیں کرتی؟ ہمیں ان کے اخلاص نیت سے انکار نہیں لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کی اس نیمے دروں اور نیمے بروں قسم کی پالیسی نے ہی انہیں موجودہ بدحالی اور شومیٔ قسمت سے دوچار کیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حکومتوں کے فیصلوں سے کفر و ایمان کے فیصلے نہیں ہوتے مگر یہ بھی غلط نہیں کہ حکومتوں کے فیصلے بھی آدمیوں کے کفر و ایمان پر بڑے ہی گہرے مثبت و منفی اثرات ڈالتے ہیں، اور جب تک کسی تنظیم و تحریک کے پاس جانبدار، فعال اور حالات و واقعات سے پوری طرح باخبر قیادت موجود نہ ہو اس وقت تک وہ تحریک و تنظیم بیسویں صدی کے اس خالص مادی و اقتصادی دور میں زندہ نہیں رہ سکتی۔

            ۷؍ستمبر کے آئینی فیصلہ کے بارے میں مضمون نگار کے معروضی تجزیہ کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ جماعت ربوہ نے مرزا صاحب کو مستقل نبی قرار دے کر اور لاہوری جماعت نے قادیانیوں کو مسلمان سمجھ کر اپنے غیرمسلم اقلیت ہونے کا ثبوت دیا، اس لئے اس فیصلہ کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔

            دوم:…قادیانی امت نے مرزا صاحب کی تلقین کے مطابق مسلمانوں سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرلئے، مرزا صاحب نے اپنی امت کو خدائی حکم سنایا کہ:

            ’’وہ (مسلمان) اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے، کیا زندہ مردے کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یاد رکھو کہ جبکہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو ۔۔۔۔۔۔ تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٔ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا۔‘‘

)حاشیہ اربعین نمبر:۳ ص:۲۸، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن  ج:۱۷  ص:۴۱۷(

            سوم:…قادیانی امت نے مرزا صاحب کے فتویٰ کے مطابق مرزا کے نہ ماننے والوں کو پکا کافر قرار دیا، مرزا صاحب کا فتویٰ یہ تھا کہ:

            ’’ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘

) حقیقۃ الوحی  ص:۱۶۳، روحانی خزائن  ج:۲۲  ص:۱۶۷(

            ’’جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے، اس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔‘‘                        (ایضاً حاشیہ روحانی خزائن  ج:۲۲  ص:۱۶۷(

            چہارم:…اس ترنگ میں مرزا غلام احمد قادیانی نے لاہوری فرقے کو بھی معاف نہیں کیا، بلکہ ان کے طرز عمل کے بارے میں تخم دیانت سے عاری، ایمان سے محروم اور منافق ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا، سنئے:

            ’’اگر دوسرے لوگوں (لاہوری مرزائیوں) میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور منافق نہیں ہیں تو ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں (جو مرزا صاحب کو مسلمان نہیں سمجھتے) ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کردیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا تب میں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا، بشرطیکہ ان میں نفاق کا شبہ نہ پایا جائے۔‘‘        (حقیقۃ الوحی  ص:۱۶۵، روحانی خزائن  ج:۲۲  ص:۱۶۹(

            ۷؍ستمبر کے آئینی فیصلے سے پہلے اور بعد قریباً تمام عالم اسلام کے مسلمانوں نے مرزا صاحب کو دعویٔ نبوت کی وجہ سے خارج از اسلام قرار دیا۔ اب مرزا صاحب کے فتویٰ کے مطابق لاہوری فرقہ اسی وقت مسلمان سمجھا جائے گا جب کہ وہ ایک بہت ہی لمبا اشتہار شائع کرے اور تمام عالم اسلام کے ایک ایک فرد کا نام لے کر اس کے کافر ہونے کا اعلان کرے، جب تک وہ اتنا لمبا چوڑا اشتہار شائع نہیں کرتے اس وقت تک یہی سمجھا جائے گا کہ مرزا صاحب کے فتویٰ کے مطابق وہ منافق اور تخم دیانت و ایمان سے محروم ہیں۔

            پنجم:…لاہوری فرقہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے اور ربوائی فرقہ کہتا ہے کہ نبی تھے، اور دنیا جانتی ہے کہ نبی کو نبی نہ ماننا کفر ہے اور غیرنبی کو نبی ماننا بھی کفر ہے، اب لاہوریوں کے نزدیک ربوائی فرقہ غیرنبی کو نبی ماننے کی وجہ سے کافر ہے، اور ربوہ والوں کے نزدیک لاہوری فرقہ نبی کو نبی نہ ماننے کی وجہ سے کافر ہے۔ اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو مسلمان کہتے ہیں، اس وجہ سے آئینی فیصلہ میں دونوں کا حکم ایک رکھا جانا ضروری تھا، گویا اس کی ذمہ داری بھی خود لاہوری فرقہ پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے جھوٹے نبی کے ماننے والوں کو کیوں مسلمان سمجھا اور کیوں ان سے برادرانہ تعلقات رکھے؟

            ششم:…باقی رہی قادیانی امت کی تعلّی، انانیت، خودفریبی اور نمود و نمائش جس کا صاحب مضمون نے شکوہ کیا ہے تو ہمارے نزدیک یہ ساری چیزیں مرزائیت کے زمرے میں داخل ہیں اور مرزا غلام احمد کی مسیحیت سے مرزا ناصر کی خلافت تک ان کی تین نسلیں اسی تعلّی، انانیت، خودفریبی اور نمود و نمائش میں گزری ہیں، اس لئے یہ لاعلاج مرض ہے:

خدا کی شان ہے ایک ریزہ چیں خوانِ نصاریٰ کا

گدائی کرتے کرتے مسیح موعود ہوجائے

 )ظفر علی خان(

)  ہفت روزہ ختم نبوت کراچی  ج:۱۷  ش:۳۶(

  • Tweet
Shaheedeislam.com Fans Page

Recent Posts

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 32 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-31 August 2021

    ...
  • 2021 Shumara 31 front Title Small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 August 2021

    ...

ABOUT US

Lorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry’s standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book.

NEWSLETTER

Stay updated with our latest posts.

We never spam!

RECENT POSTS

  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 23-30 September 2021

    ...
  • Weekly Khatm-e-Nubuwwat 16-22 September 2021

    ...
  • 2021 Shumara 33-34 front Title small

    Weekly Khatm-e-Nubuwwat 1-15 September 2021

    ...

GET IN TOUCH

T (212) 555 55 00
Email: [email protected]

Your Company LTD
Street nr 100, 4536534, Chicago, US

Open in Google Maps

  • GET SOCIAL

Copyright @ 2019 Shaheed-e-Islam | All Rights Reserved | Powered by Shaheed-e-Islam

TOP