وزارتِ مذہبی اُمور کا کتابچہ
س… گزارش ہے کہ آج آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہوں، وہ یہ کہ اس سال “وزارتِ مذہبی اُمور و اقلیتی اُمور اسلام آباد” سے ایک کتابچہ حجاجِ کرام کے نام بھیجا گیا ہے جس کا نام ہے “آپ حج کیسے کریں؟” یہ ذی الحجہ ۱۴۰۰ھ اور اکتوبر ۱۹۸۰ء کا شائع شدہ ہے، اس کے صفحہ:۸۹ پر رَمی کے سلسلے میں تحریر ہے کہ: “بھیڑ زیادہ ہوتی ہے اس لئے عورتیں، بوڑھے اور کمزور مرد وہاں نہ جائیں، وہ اپنی کنکریاں دُوسروں کو دے دیں۔” اور صفحہ:۹۴ پر بھی عورتوں کو کنکریاں مارنے کے لئے منع کیا ہے۔ چنانچہ اس سال بہت سی عورتوں نے اس مسئلے پر آنکھ بند کرکے عمل کیا اور تین دن میں ایک دن بھی کنکریاں مارنے، نہ دن میں اور نہ رات میں گئی تھیں، اسی صفحہ:۸۹ پر لکھا ہے کہ: “عورتیں اگر جانا چاہیں تو مغرب کی نماز کے بعد جائیں۔” چنانچہ میں نے بھی اسی پر عمل کیا اور میری خوش دامن نے بھی جو میرے ہمراہ تھیں، اور بھی بہت سی عورتوں نے کہا کہ جب مذہبی اُمور کی وزارت نے اور اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت نے لکھا ہے تب تو بالکل صحیح ہی ہوگا۔
یہاں آنے پر علماء سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا کنکریاں مارنا واجب ہے، اگر دن میں بھیڑ تھی تو رات کو دیر کرکے جب بھیڑ کم ہوجاتی تب جانا چاہئے تھا، اور اس طرح سے ترکِ واجب پر ہر عورت پر ایک ایک دَم واجب ہوتا ہے جو کہ حدودِ حرم ہی میں دیا جائے گا۔ لہٰذا ہم اب کیسے وہاں دَم دینے کا بندوبست کریں؟ اور دَم نہ دینے کی وجہ سے جن جن عورتوں کو معلوم بھی نہیں ہے اور وزارتِ مذہبی اُمور پاکستان کے کتابچے کے مطابق عمل کرکے مطمئن ہیں کہ ہمارا حج مکمل ہوگیا ہے، ان ہزاروں عورتوں کو کس طرح بتلادیا جائے کہ ایک ایک دم حدودِ حرم میں مزید دینے کا بندوبست کرو؟ اور اس کا گناہ کس پر آئے گا؟ اور اس طرح ہزاروں عورتوں کا حج ناقص کرانے کا گناہ کس پر ہوگا؟ جو حکمِ شرعی ہو مطلع فرمائیں۔ (نوٹ) فوٹواسٹیٹ کتابچے کا منسلک ہے۔
ج… مسئلہ وہی ہے جو علمائے کرام نے بتایا، خود رَمی نہ کرنا بلکہ کسی دُوسرے سے رَمی کرالینا، اس کی اجازت صرف ایسے کمزور مریض کے لئے ہے جو خود وہاں تک جانے اور رَمی کرنے پر قادر نہ ہو۔
عورتوں کے لئے یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ رات کے وقت رَمی کرسکتی ہیں، اس لئے جن عورتوں نے بغیر عذرِ صحیح کے خود رَمی نہیں کی، وہ واجبِ حج کی تارک ہیں، اور ان کے ذمہ دَم لازم ہے، وہ کسی ذریعہ سے اتنی رقم مکہ مکرّمہ بھیجیں جس کا جانور خرید کر ان کی طرف سے حدودِ حرم میں ذبح کیا جائے، ورنہ ان کا حج، ترکِ واجب کی وجہ سے ہمیشہ ناقص رہے گا، اور وہ گناہگار رہیں گی۔
رہا یہ کہ ہزاروں عورتوں نے اس غلط مشورے پر عمل کرکے جو اپنے حج خراب کئے اس کا گناہ کس کے ذمہ ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں گناہگار ہیں، ایسی غلط کتابیں لکھنے والے بھی، اور ایسے کچے پکے کتابچوں پر عمل کرنے والے بھی۔
جو لوگ حج کا طویل سفر کرتے ہیں، ہزاروں روپے کے مصارف اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، وہ تھوڑی سی یہ زحمت بھی برداشت کرلیا کریں کہ حج پر جانے سے پہلے محقق اور معتبر علمائے دین سے حج کے مسائل معلوم کرلیا کریں، محض غلط سلط کتابچوں پر اعتماد کرکے اپنا سفر کھوٹا نہ کیا کریں۔
ہم وزارتِ مذہبی اُمور سے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ غلط قسم کے کتابچے شائع کرکے ہزاروں لوگوں کا حج برباد نہ کریں۔