مسلوبُ الاختیار پر کفر کا فتویٰ
س… مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک عقیدت مند کا بیان رسالہ ”الامداد“ ماہ صفر ۱۳۳۶ھ میں یوں لکھا ہے کہ :
”اور سوگیا کچھ عرصہ کے بعد خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ پڑھتا ہوں، لیکن محمد رسول اللہ کی جگہ حضور کا نام لیتا ہوں، اتنے میں دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ تجھ سے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں، اس کو صحیح پڑھنا چاہئے، اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں دل میں تو یہ ہے کہ صحیح پڑھا جائے لیکن زبان سے بے ساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے اشرف علی نکل جاتا ہے حالانکہ مجھ کو اس بات کا علم ہے کہ اس طرح درست نہیں، لیکن بے اختیار زبان سے یہی کلمہ نکلتا ہے… اتنے میں بندہ بیدار ہوگیا لیکن بدن میں بدستور بے حسی اور وہ اثرنا طاقتی بدستور تھا… لیکن حالت بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہو ا کہ اس خیال کو دل سے دور کیا جاوے اس واسطے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہوجاوے، بایں خیال بندہ بیٹھ گیا اور پھر دُوسری کروٹ لے کر کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں کہ ”اللّٰہم صل علیٰ سیدنا ونبینا ومولانا اشرف علی“ حالانکہ اب بیدار ہوں، خواب نہیں لیکن بے اختیار ہوں، مجبور ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں، اس روز ایسا ہی کچھ خیال رہا تو دُوسرے روز بیداری میں رقت رہی خوب رویا۔“
کتاب ”عبارات اکابر“ مصنفہ مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ اور کتاب ”سیف یمانی“ مصنفہ مولانا منظور نعمانی مدظلہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ خواب کی بات تو کسی درجے میں بھی قابل اعتبار نہیں، خواب کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کفر و ارتداد، نہ نکاح، نہ طلاق اس لئے حالت خواب میں جو کلمہ کفریہ صاحب واقعہ کی زبان سے سرزد ہوا تو اس کی وجہ سے نہ اس کو کافر کہا جاسکتا ہے، نہ مرتد، کیونکہ وہ شخص اس وقت حسب ارشاد نبوی: ”مرفوع القلم“ تھا اور حالت بیداری میں صاحب واقعہ کی بے اختیاری اور مجبوری جس کا وہ عذر بیان کرتا ہے وہ از روئے قرآن و حدیث و فقہ”خطا” میں داخل ہے۔ اس لئے حالت بیداری میں جو درود پاک میں اس سے محمد کی جگہ اشرف علی نکلا وہ خطا کے طور پر نکلا اور شریعت میں جس سے ”خطأً “ کلمہٴ کفریہ سرزد ہوجائے تو اس پر مواخذہ نہیں اور وہ کسی کے نزدیک کافر نہ ہوگا۔
لیکن ہمارے ہاں شہر کھپرو میں فریق مخالف کے ایک مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں اس جواب کا یہ “جواب” دیا کہ:
”یہ خطا کا بہانہ بیکار ہے جس کی کئی وجوہ ہیں:
اولاً اس لئے کہ ”خطا“ لاشعوری میں ہوتی ہے، خطا کرنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس نے کیا کہہ دیا اور یہاں پر وہ کہتا ہے کہ اس کو شعور ہے اور وہ اس کو غلطی بھی سمجھ رہا ہے، مطلب یہ ہے کہ جو کچھ کہتا ہے جان بوجھ کر کہتا ہے۔
ثانیاً یہ کہ ”خطا“ لمحہ دولمحہ رہتی ہے سارا دن خطا نہیں رہتی اور یہاں پر اس کی زبان سے دن بھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کلمہ اور درود میں نہ آیا اور وہ اسی کلمہٴ کفر کی تکرار کرتا رہا، خطا کی یہ شان نہیں ہوتی۔
ثالثاً یہ کہ اگر خطا پر مواخذہ نہیں تو اس سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ کلمات کفریہ بکنے والے کا دعویٰ خطا بہرحال مقبول ہے۔ شفا قاضی عیاض میں ہے ”لایعذر احد فی الکفر بالجہالة ولا بدعویٰ زلل اللسان“ص:۲۸۵یعنی کفر میں نادانی و جہالت اور زبان بہکنے کا دعویٰ کرنے سے کوئی شخص معذور نہیں سمجھا جاتا، اور فقہ کی کتابوں ”بزازیہ“ اور ”رد المحتار“ میں تصریح ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ کفریہ بکے اور پھر خطا اور زبان کے بہک جانے کا دعویٰ اور عذر کرے تو قاضی اس کی تصدیق نہ کرے، اس لئے واقعہ مذکورہ میں اس کا دعویٰ خطأً قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ اس کلمہ کفریہ بکنے کی وجہ سے کافر ہوگیا اور چونکہ مولوی اشرف علی تھانوی نے اس کی یہ تعبیر بتائی کہ ”اس واقع میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے۔” پس چونکہ مولوی اشرف علی تھانوی اس شخص کے کفر پر راضی رہے اور کسی قسم کا انکار نہیں کیا لہٰذا خود بھی کافر ہوگئے کیونکہ رضا بالکفر بھی کفر ہے۔
رابعاً یہ کہ خود دیوبندیوں کے مولوی محمد انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ”اکفار الملحدین” ص:۷۳ میں تحریر کیا ہے کہ (ترجمہ) علماء نے فرمایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی شان میں جرأت و دلیری کفر ہے اگرچہ توہین مقصود نہ ہو۔ اور اسی کتاب کے صفحہ ۸۶ پر تحریر ہے کہ “کفر کے حکم کا دارومدار ظاہر پر ہے قصد و نیت پر نہیں۔”
اور اسی کتاب کے صفحہ ۷۴ پر تحریر ہے کہ ”لفظ صریح میں تاویل کا دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا اور تاویل فاسد کفر کی طرح ہے۔“ ان عبارات سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں توہین آمیز کلمات کہنا کفر ہے اور اس بارے میں قائل کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اگر الفاظ عرف و محاورہ میں صریح توہین آمیز ہیں تو یقینا اس کو کافر کہا جائے گا اور اس میں کوئی تاویل قبول نہ ہوگی۔ اگر باوجود صراحت کے کوئی تاویل کرے گا تو وہ تاویل فاسد ہوگی اور تاویل فاسد بمنزلہ کفر ہے۔ اور یہاں پر حالت بیداری میں صاحب واقعہ نے زبان سے صراحةً درود شریف میں اشرف علی نکالا لہٰذا اس میں کوئی تاویل قبول نہیں کی جائے گی، خامساً یہ کہ اگر یہی واقعہ واقعہ طلاق پر قیاس کیا جائے تو طلاق واقع ہوگی؟ یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی اور بعد میں خطا کا عذر کرے اور کہے کہ میں بے اختیار تھا، مجبور تھا، زبان میرے قابو میں نہیں تھی تو کیا اس شخص کی طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی اور ضرور ہوگی تو عجیب بات ہے کہ طلاق واقع ہونے میں تو یہ عذر مقبول نہ ہو اور مولوی اشرف علی کو اپنا نبی اور رسول اللہ کہنے میں عذر مقبول ہوجائے۔”
اب ہمیں ازروئے قرآن و حدیث و فقہ مندرجہ ذیل امور کی تفصیل مطلوب ہے:
۱:… ازروئے قرآن و حدیث و فقہ اسلامی ”خطا” کی صحیح تعریف کیا ہے؟ نیز یہ کہ کیا “خطا” ہر حال میں لاشعوری میں ہوتی ہے یا خطا کرنے والے کو کبھی شعور بھی ہوتا ہے؟
۲:… کیا واقعہ مذکورہ میں باوجود شعور کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ اشرف علی نکل جانا اس کی “خطا “ تھی؟ اور کیا ”خطا” لمحہ دو لمحہ رہتی ہے یا عرصہ تک بھی رہ سکتی ہے؟
۳:… جو شخص اپنی زبان سے کلمہ کفریہ بکے اور پھر یہ کہے کہ میں بے اختیار تھا، مجبور تھا، زبان میرے قابو میں نہیں تھی اور مجھ سے خطا سرزد ہوئی تو کیا شریعت اسلامیہ میں ا س کا یہ دعویٰ بے اختیاری و خطا کا مقبول ہے؟ مقبول ہونے کی صورت میں صاحب شفا قاضی عیاض کی مندرجہ بالا عبارت جو معترض نے پیش کی ہے اور ”بزازیہ“ اور ”ردالمحتار“ کی مندرجہ بالا عبارتوں کی تو جیہ و مطلب کیا ہے؟
۴:… اگر شریعت اسلامیہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے معاملے میں کسی کی نادانی و جہالت، زبان کا بہکنا، بے قابو ہوجانا، کسی قلق اور نشہ کی وجہ سے لاچار و مضطر ہوجانا، قلت نگہداشت یا بے پروا ہی اور بے باکی یا قصدو نیت و ارادئہ گستاخی نہ ہونا وغیرہ کے اعذار مقبول نہیں اور صریح لفظ میں تاویل کا دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا تو مذکورہ بالا واقعہ کی صحیح تو جیہ کیا ہے؟
۵:… اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو صریح الفاظ میں طلاق دے اور پھر کہے کہ میں بے اختیار تھا، مجبور تھا، میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، خطأً میری زبان سے طلاق کے الفاظ نکل گئے تو کیا اس کی طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی اور ضرور ہوگی تو طلاق واقع ہونے میں یہ عذر مقبول نہ ہو اور الفاظ کفریہ صراحةًزبان سے نکالنے کے بعد”خطا“ اور زلل لسانی کا عذر مقبول ہو تو دونوں واقعات میں وجہٴ فرق کیا ہے؟ اور اگر الفاظ کفریہ نکالنے کے بعد”خطا“ کا عذر مقبول نہ ہو تو پھر بتایا جائے کہ صاحب واقعہ جس نے بحالت بیداری شعور کی حالت میں اور یہ محسوس کرتے ہوئے بھی کہ میں درود پاک غلط پڑھ رہا ہوں کافر ہے یا نہیں؟
ج… حدیث شریف میں اس شخص کا واقعہ مذکور ہے جس کی سواری گم ہوگئی تھی، اور وہ مرنے کے ارادے سے درخت کے نیچے لیٹ گیا، آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی سواری بمع زاد و توشہ کے موجود ہے، بے اختیار اس کے منہ سے نکلا “اللّٰہم انت عبدی وانا ربک!” (یا اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا ربّ!)۔
یہ کلمہٴ کفر ہے، مگر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر کا فتویٰ نہیں دیا بلکہ فرمایا: “خطأ من شدة الفرح” شدت مسرت کی وجہ سے اس کی زبان چوک گئی۔ آپ کے مولوی صاحب اس شخص کے بارے میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے؟ اور قرآن کریم میں ہے: ”اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ” ”لاچاری کی حالت میں کلمہٴ کفر زبان سے ادا کرنے پر جب کہ دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔” اللہ تعالیٰ نے ایمان کا فتویٰ دیا ہے کفر کا نہیں، جو عبارتیں ان صاحب نے نقل کی ہیں ان کا زیر بحث واقعہ سے تعلق ہی نہیں۔ ایک شخص اپنے شیخ سے اپنی غیر اختیاری حالت ذکر کرتا ہے اگر اس کے دل میں کفر ہوتا یا زبان سے اختیاری طور پر اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہوتا تو وہ اپنے شیخ سے اس کا اظہار ہی کیوں کرتا؟ جو شخص کسی وجہ سے مسلوب الاختیار ہو اس پر شریعت اسلامی تو کفر کا فتویٰ نہیں دیتی، ”لَا یُکَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۔” نص قرآنی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ مسلوب الاختیار پر کفر کا فتویٰ کس شریعت میں دیا گیا ہے؟ رہا یہ کہ ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسلوب الاختیار ہے اس کا دعویٰ مسموع ہوگا یا نہیں؟ اگر کسی کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ مسلوب الاختیار تھا یا نہیں، وہ کوئی کلمہ کفر بکتا ہے، یا طلاق دیتا ہے اور بعد میں جب پکڑا جاتا ہے تو مسلوب الاختیار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو چونکہ یہ دعویٰ خلاف ظاہر ہے اس لئے نہیں سنا جائے گا۔ جو عبارتیں مولوی صاحب نے نقل کی ہیں ان کا یہی محمل ہے، لیکن ما نحن فیہ (مسئلہٴ زیر بحث) کا اس صورت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اس کے الفاظ اس سے پہلے کسی نے نہیں سنے تھے، اس نے از خود اپنے شیخ سے ان الفاظ کو ذکر کرکے اپنا مسلوب الاختیار ہونا ذکر کیا، بہر کیف صاحب واقعہ تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں اور میں قرآن و حدیث صحیح کے حوالہ سے ذکر کرچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص پر کفر کا فتویٰ صادر نہیں کرتے۔ اس مولوی صاحب کو اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فتوے پر اعتماد نہیں، اور وہ ایک ایسے شخص کے بارے میں کفر کا فتویٰ صادر کرتا ہے تو اس سے کہا جائے کہ اِن شاء اللہ آپ بھی بارگاہ رب العالمین میں پیش ہونے والے ہیں، وہاں تمام امور کی عدالت ہوگی، آپ کا مقدمہ بھی زیربحث آئے گا، اپنے تمام فتوے اس دن کے لئے رکھ چھوڑیں، ہم بھی دیکھیں گے کہ کون جیتتا ہے، کون ہارتا ہے؟ اللہ تعالیٰ دلوں کے مرض سے نجات عطا فرمائیں، بالکل یہی سوال چند دن پہلے بھی آیا تھا اس کا جواب دُوسرے انداز سے لکھ چکا ہوں، اور وہ یہ ہے:
الزامی جواب تو یہ ہے کہ تذکرة الاولیاء وغیرہ میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک شخص حضرت شبلی کے پاس بیعت کے لئے آیا، حضرت نے پوچھا کہ کلمہ کس طرح پڑھتے ہو اس نے کہا ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ فرمایا اس طرح پڑھو”شبلی رسول اللہ“ اس نے بلا تکلف پڑھ دیا۔ حضرت نے فرمایا کہ شبلی کون ہوتا ہے؟ میں تو تمہارا امتحان کرنا چاہتا تھا فرمائیے! حضرت شبلی اور ان کے مرید کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اور تحقیقی جواب یہ ہے کہ صاحب واقعہ کا قصد صحیح کلمہ پڑھنے کا تھا جیسا کہ پورے واقعہ سے ظاہر ہے، گویا عقیدہ جو دل کا فعل ہے وہ صحیح تھا البتہ زبان سے دُوسرے الفاظ سرزد ہورہے تھے اور وہ ان الفاظ کو کفریہ سمجھ کر ان سے توبہ کررہا ہے، اور کوشش کررہا ہے کہ صحیح الفاظ ادا ہوں، مگر زبان سے دُوسرے الفاظ نکل رہے ہیں وہ ان پر رو رہا ہے، گریہ وزاری کررہا ہے اور جب تک یہ حالت فرو نہیں ہوتی وہ اس اضطراب میں مبتلا ہے۔ اور جب غیر اختیاری حالت جاتی رہتی ہے تو وہ اس کی اطلاع اپنے شیخ کو دیتا ہے تاکہ اگر اس غیر اختیاری واقعہ کا کوئی کفارہ ہو تو ادا کرسکے۔ اس پورے واقعہ کو سامنے رکھ کر اس کو کلمہ کفر کون کہہ سکتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے کسی کو غیراختیاری حالت پر مواخذہ کرنے کا بھی اعلان فرمایا ہے؟ اگر ہے تو وہ کونسی آیت ہے؟ یا حدیث ہے؟
۱:… مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ خطا کا بہانہ بے کار ہے بجا ہے، مگر جو شخص مسلوب الاختیار ہوگیا اس کے بارے میں بھی یہی فتویٰ ہے؟ اگر ہے تو کس کتاب میں؟ ”اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ“ میں قرآن کا فتویٰ تو اس کے خلاف ہے۔
۲:… بجا ہے کہ خطا فوری ہوتی ہے، لیکن مسلوب الاختیار ہونا تو اختیاری چیز نہیں کہ اس کے لئے وقت کی تحدید کی جاسکے، اگر ایک آدمی سارا دن مسلوب الاختیار رہتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟
۳:… اس نے باختیار خود کلمہ کفر بکا ہی کہاں ہے؟ نہ وہ اس کا دعویٰ کرتا ہے، بلکہ وہ تو مسلوب الاختیار ہونے کی بات کرتا ہے، شفا قاضی عیاض کی عبارت کا محمل کیا مسلوب الاختیار ہے؟ نہیں بلکہ قصداً کلمہٴ کفر بکنے کے بعد تاویل کرنے والا اس کا مصداق ہے۔
۴:… جہالت کا، نادانی کا، زبان بہک جانے وغیرہ کا جو حوالہ درمختار اور رد محتار سے دیا ہے وہ تو اس صورت میں ہے کہ قاضی کے پاس کسی شخص کی شکایت کی گئی، قاضی نے اس سے دریافت کیا، اس نے یہ عذر پیش کیا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ گستاخی ہے، یا یہ کہ زبان بہک گئی تھی، یا یہ کہ میں مدہوش تھا، اور اس کے اس دعویٰ کے سوا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو قاضی اس کے ان اعذار باردہ کو نہیں سنے گا، بلکہ اسے سرزنش کرے گا(نہ کہ اس پر سزائے ارتداد جاری کرے گا)۔
جب زیر بحث مسئلے میں نہ کسی نے قاضی کے پاس شکایت کی، نہ اس نے اپنے جرم کی تاویل کی، صاحب واقعہ پر جو واقعہ غیر اختیاری گزرا تھا اور جس میں وہ یکسر مسلوب الاختیار تھا اس کو وہ اپنے شیخ کے سامنے پیش کرتا ہے، فرمائیے مسئلہ قضا سے اس کا کیا تعلق؟
۵:… زیر بحث واقعہ کا تعلق صرف اس کی ذات سے فیمابینہ و بین اللہ ہے، اور طلاق کے الفاظ ایک معاملہ ہے جس کا تعلق زوجہ سے ہے، زوجہ نے اس کی زبان سے طلاق کے الفاظ سنے چونکہ معاملات کا تعلق ظاہری الفاظ سے ہے اس لئے زوجہ اس کی بات کو قبول نہیں کرتی، اور عدالت بھی نہیں کرے گی، لیکن اگر واقعتا وہ مسلوب الاختیار تھا تو فیما بینہ وبین اللہ طلاق نہیں ہوگی۔ چنانچہ اگر عورت اس کی کیفیت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے مسلو ب الاختیار ہونے کو تسلیم کرتی ہے تو فتویٰ یہی دیں گے کہ فیما بینہ و بین اللہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔
۶:…حضرت کشمیری کا حوالہ بجا ہے، مگر یہاں کفر ہی نہیں تھا رضا بالکفر کا کیا سوال؟