حرمتِ مصاہرت کے لئے شہوت کی مقدار
س… علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت کو لمس کرتا ہے شہوت کے ساتھ، لیکن اس کو شہوت پہلے موجود تھی، بعد میں اس نے کسی عالم سے پوچھا پھر اس عالم نے کہا کہ اگر پہلے شہوت موجود ہے تو شہوت کا بڑھنا شرط ہے، پھر اس شخص نے کہا کہ چلو میں کسی اور مسلک کو اختیار کرتا ہوں جس میں حرمت مصاہرت لمس سے نہ ہو، پھر تقریباً ایک سال گزرا تو اس شخص نے ہدایہ ثانی اور شرح وقایہ میں وضاحت سے پڑھا کہ شہوتِ لمس وہ معتبر ہے جس سے اس کا ذکر منتشر ہو، اگر ذکر پہلے سے منتشر ہے تو لمس کی وجہ سے انتشار زیادہ ہوگیا ہو، اب اس نے غور کیا کہ لمس کی وجہ سے انتشار بڑھایا نہیں؟ تو اس کو شبہ نظر آیا اور پہلے کنزالدقائق میں صرف یہ پڑھا کہ لمس بشہوت سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے، یہ معلوم نہ تھا کہ لمس بشہوت کی تعریف کیا ہے؟ اور میرے دماغ میں صرف یہ تھا کہ لمس بشہوت وہ ہے جو عورت کو لمس کرنے سے مذی نکلے، پھر عالم سے اس بنأ پر سوال کیا تھا کہ اگر شہوت پہلے موجود ہے؟ تو اس نے کہا کہ پھر شہوت زیادہ ہو، تو اب ہدایہ ثانی پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ لمس بشہوت کی تعریف یہ ہے اور تعریف معلوم ہونے کے بعد عقل سے غور کرتا ہوں تو شبہ نظر آرہا ہے تو اب اس شبہ کا اعتبار کروں یا نہیں؟ کیا اس صورت میں شادی کرنا جائز ہے یا نہیں، اور علمأ نے بھی یہ نہ پوچھا کہ لمس بشہوت کی تعریف آپ کو معلوم ہے؟ اور اب عقل سے غور کرتا ہوں تو شبہ نظر آتا ہے تو اس مسئلہ میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں؟ ایک سال تقریباً سوچنے کے بعد شبہ کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں؟ اب دریافت طلب امور یہ ہیں:
س…۲: اگر شبہ کا اعتبار کیا جائے گا تو وہ عورت سے کیسے پوچھے کہ آپ کو شہوت تھی یا نہیں یا عورت کی شہوت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا؟
س…۳: اگر دوسرے مذہب پر کلی طور پر چلے تو صحیح ہے یانہیں؟ حالانکہ سارے مذاہب حق ہیں جو بھی آدمی راستہ لے لے۔
ج…۱: “دع ما یریبک الی ما لا یریبک” حدیثِ نبوی ہے، جب شہوت کا وجود متیقن ہے اور ازدیادِ شہوت میں شبہ ہے تو حلال و حرام کے درمیان اشتباہ ہوگیا، اور مشتبہ کا ترک بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح حرام کا۔
علاوہ ازیں اقرب یہ ہے کہ انتشار آلہ بھی تصور لمس سے ہوا ہوگا، اور لمس سے اس میں زیادتی اقرب الی القیاس ہے، اس لئے نفس کی تاویلات لائق اعتبار نہیں، حرمت ہی کا فتویٰ دیا جائے گا۔
ج…۲: مذاہب اربعہ برحق ہیں، لیکن خواہشِ نفس کی بنا پر ترک مذہب الی مذہب حرام ہے۔ اور اس پر مذاہب اربعہ متفق ہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں انتقال مذہب کی اجازت نہیں، ھذا ما ظہرلی والله اعلم بالصواب!