حضرت ابراہیم نے ملائکہ کی مدد کی پیشکش کیوں ٹھکرادی؟
س… ایک حدیث ہے کہ:
۱:…”حدثنا معتمر بن سلیمان التیمی عن بعض اصحابہ قال جاء جبریل الی ابراھیم علیہ السلام وھو یوثق او یقمط لیلقی فی النار قال: یا ابراھیم! الک حاجہ؟ قال: اما الیک فلا!”
(جامع البیان فی تفسیر القرآن ج:۸ ص:۳۴)
۲:…”وروی ابی بن کعب الخ وفیہ قال فاستقبلہ جبریل فقال: یا ابراھیم! الک حاجہ؟ قال: اما الیک فلا! فقال: فاسئل ربک! فقال: حسبی من سوٴالی علمہ بحالی!” (تفسیر قرطبی ج:۱۱ ص:۲۰۳)
۳:…”فاتاہ خازن للریاح وخازن المیاہ یستأذنہ فی اعدام النار، فقال علیہ السلام: لا حاجة لی الیکم! حسبی الله ونعم الوکیل۔”
۴:…”وروی ابن کعب الخ وفیہ فقال: یا ابراھیم! الک حاجة؟ قال: اما الیک فلا!” (روح المعانی ج:۹ ص:۶۸)
۵:…اسی طرح تفسیر مظہری اُردو ج:۸ ص:۵۴ میں حضرت اُبی بن کعب کی روایت بھی ہے۔
۶:…”وذکر بعض السلف ان جبریل عرض لہ فی الھواء فقال: الک حاجة؟ فقال: اما الیک فلا!” (البدایة والنھایة ج:۱ ص:۱۴۹)
۷:…”وذکر بعض السلف انہ عرض لہ جبریل وھو فی الھواء فقال: الک حاجة؟ فقال: اما الیک فلا! واما من الله فلی۔”
(تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص:۱۸۴)
ان مندرجہ بالا روایات کے پیشِ نظر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کو اس انداز سے بیان کرنا کہ: فرشتے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر حاضر ہوئے اور ابراہیم کو مدد کی پیشکش کی، لیکن ابراہیم نے ان کی پیشکش کو قبول نہ کیا، درست ہے یا نہیں؟
ج:… یہ تو ظاہر ہے کہ ملائکہ علیہم السلام بغیر اَمر و اِذنِ الٰہی دَم نہیں مارتے، اس لئے سیّدنا ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰات والتسلیمات کو ان حضرات کی طرف سے مدد کی پیشکش بدوں اِذنِ الٰہی نہیں ہوسکتی، لیکن حضرت خلیل علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰات والتسلیمات اس وقت مقامِ توحید میں تھے، اور غیراللہ سے نظر یکسر اُٹھ گئی تھی، اس لئے تمام اسباب سے (کہ من جملہ ان کے ایک دعا بھی ہے) دست کش ہوگئے، کاملین میں یہ حالت ہمیشہ نہیں ہوا کرتی: “گاہے باشد وگاہے نہ، ولکن یا حنظلہ ساعة!” ہذا ما عندی والله اعلم بالصواب!