ضیافت، ایصالِ ثواب اور مکارمِ اخلاق کا فرق
س… آپ نے فرمایا ہے کہ ایصال ثواب تو اسی کھانے کا ہوگا جو مستحقین کو کھلایا جائے، جو خود کھالیا یا عزیز و اقربأ کو کھلایا اس کا ایصال ثواب نہیں، اس جواب سے مندرجہ ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں:
۱:…بقول حضرت تھانوی ایصال ثواب کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کوئی نیک عمل کیا اس پر ہمیں ثواب ملا، ہم نے درخواست کی کہ الٰہی اس عمل نیک کے ثواب کو ہم اپنے فلاں عزیز یا شیخ کو بخشتے ہیں، حضور علیہ السلام نے فرمایا: “اطعموا الطعام” یہ حکم مطلق ہے اس میں غنی یا فقیر کی کوئی قید نہیں، اب اگر اس حدیث کے امتثال امر میں اپنے عزیز و اقربأ اور دوسرے بزرگوں کو کھانا کھلاوٴں اور نیت کروں کہ الٰہی اس کا ثواب میرے والدین یا شیخ کو ملے تو اس میں کیا شرعی قباحت ہے اور کھانے والوں نے کون سا گناہ کیا؟
۲:…جیسے پہلے سوال میں عرض کیا تھا کہ ایصال ثواب کھانے کے علاوہ سڑک بنواکر، سایہ دار، میوہ دار درخت لگواکر، پانی کی سبیل لگواکر یا کنواں وغیرہ کھدواکر بھی کیا جاتا ہے اور اس سے غنی فقیر سب فائدہ اٹھاتے ہیں، تو اگر ایصال ثواب کا کھانا صرف فقرأ اور مساکین کے لئے ہے تو یہ امور بھی صرف ان کے ہی لئے ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہے، غنی فقیر سب سائے میں بیٹھتے ہیں، کنویں کا پانی پیتے ہیں، سڑک پر چلتے ہیں، راستے میں سبیل سے پانی پیتے ہیں، حضرت سعد بن معاذ کے کنویں سے جو انہوں نے اپنی ماں کے ثواب کے لئے بنوایا تھا سب مسلمان استفادہ کرتے تھے۔
۳:…شریعت کے فقہأ نے جس کھانے کو منع کیا ہے وہ میّت کے گھر کا کھانا ہے، اور وہ بھی مکروہ کہا گیا ہے، اور علت اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ ضیافت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے سو جو کام خوشی کے موقع پر کیا جائے وہ اگر غمی میں ہو تو مکروہ ہے۔ بزرگوں اور اولیاء اللہ کے ثواب کے لئے جو کھانا پکتا ہے وہاں یہ علت نہیں پائی جاتی کیونکہ ان کی وفات کو عرصہ گزرچکا ہوتا ہے اور وہ کوئی غمی کا موقع نہیں ہوتا۔
مولانا سرفراز خان صفدر# صاحب نے “راہ سنت” کتاب میں اس سلسلے میں جتنے بھی حوالے دیئے ہیں ان سب میں موت سے تین دن کے اندر اندر جو ضیافت ہے وہ مکروہ بتائی گئی ہے، برسوں کے بعد مشائخ یا والدین کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا پکاتے ہیں اس کا کوئی حوالہ نہیں، براہ کرم ان تین اشکالات کا نمبروار جواب عطا فرمائیں۔
ج … کھانا کھلانا مکارم اخلاق میں سے ہے، مگر نیک کام غربأ کو کھانا کھلانا ہے، اسی کا ایصال ثواب کیا جاتا ہے، خود کھاپی لینا یا دولت مند احباب کو کھلادینا اور نیت بزرگوں کے ایصال ثواب کی کرلینا یہ عقل میں نہیں آتا، ہاں ایک صورت اور ہے اہل حرمین میں مشہور ہے کہ مکہ مکرمہ میں کوئی شخص کسی کی دعوت کرتا ہے تو یہ دعوت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے کیونکہ حجاج ضیوف الرحمن ہیں اور جو مدینہ منورہ میں دعوت کرتا ہے وہ دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہوتی ہے کیونکہ زائرین مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، پس اس کھانے میں بھی ایصال ثواب کی نیت نہیں ہوتی بلکہ یہ کھانا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کھلایا جاتا ہے۔