قرآن میں درج دوسروں کے اقوال قرآن ہیں؟
س… قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے اقوال بھی دہرائے ہیں، جیسے عزیز مصر کا قول: “اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ۔” یا بلقیس کا قول: “اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا۔” کیا ان اقوال کی بھی وہی اہمیت اور حقیقت ہے جو کلام اللہ کی ہے؟ بعض واعظین اس طرح بیان کرتے ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ” حالانکہ یہ غیراللہ کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے صرف اس کو نقل کیا ہے۔
ج… اللہ تعالیٰ نے جب ان اقوال کو نقل فرمادیا تو یہ اقوال بھی کلام الٰہی کا حصہ بن گئے اور ان کی تلاوت پر بھی ثواب موعود ملے گا(یہ ناکارہ بطور لطیفہ کہا کرتا ہے کہ قرآن کریم میں فرعون، ہامان، قارون اور ابلیس کے نام آتے ہیں اور ان کی تلاوت پر بھی پچاس، پچاس نیکیاں ملتی ہیں) پھر قرآن کریم میں جو اقوال نقل فرمائے گئے ہیں ان میں سے بعض پر رد فرمایا ہے جیسے کفار کے بہت سے اقوال، اور بعض کو بلا تردید نقل فرمایا ہے، تو اقوال مردود تو ظاہر ہے کہ مردود ہیں، لیکن جن اقوال کو بلا نکیر نقل فرمایا ہے وہ ہمارے لئے حجت ہیں، پس عزیز مصر کا قول اور بلقیس کا قول اسی دُوسری قسم میں شامل ہیں اور ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔