گاؤں میں جمعہ
س… ایک بستی جو تقریباً بیس مکانات پر مشتمل ہے، گاؤں میں ایک مسجد ہے اور بازار نہیں اس گاؤں کے آس پاس قریب قریب چند متفرق مکانات پر مشتمل بستیاں ہیں، ہر بستی کی اپنی اپنی مسجد ہے، کل آبادی مردم شماری کے اعتبار سے تقریباً دو اڑھائی سو ہوگی، یہاں ایک عالم بھی موجود ہے، تو ان سب بستیوں کے باشندوں کے مطالبہ پر گزشتہ رمضان المبارک سے ان مولوی صاحب نے لوگوں کو جمع کرکے اس گاؤں کی مسجد میں نماز جمعہ جاری کی ہے اب علاقہ کے حنفی دیوبندی علماء نے اس جمعہ کی تائید کی ہے اس بنا پر کہ تین چار ماہ سے لوگ شوق و رغبت سے حاضر ہورہے ہیں اور جمعہ بند کرنے کی صورت میں لوگوں میں انتشار و افتراق اور شکوک و شبہات پیدا ہوکر فتنہ و فساد کا قوی خدشہ ہے، اور مصر جامع کی تعریف بھی علمائے احناف میں مختلف فیہ ہے اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ حجة اللہ میں جمعہ کے لئے ایک نوع تمدن کی ضرورت پر زور دینے کے بعد ایک نوع تمدن کی تعریف بحوالہ حدیث یہ لکھتے ہیں کہ جہاں عاقل بالغ پچاس مرد رہتے ہوں، ان کے نزدیک جامع کی یہی تعریف ہے اسی پر عمل کیا جائے اور جمعہ کو بند نہ کیا جائے۔
ج…جو صورت جناب نے تحریر فرمائی ہے حنفی مذہب کے مطابق اس میں جمعہ جائز نہیں، “مصر جامع” کی تعریف میں حضرات فقہاء کے الفاظ مختلف ضرور ہیں، لیکن کوئی تعریف میری نظر سے ایسی نہیں گزری جس کی رُو سے بیس مکانات کی بستی میں “مصر جامع” کے لقب سے سرفراز ہوسکے۔
رہا یہ کہ لوگوں کے فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے یہ کوئی عذر نہیں، کیا شریعت کو لوگوں کی خواہشات کے تابع کیا جائے گا؟ کہ اگر مسئلہ ان کی خواہش کے مطابق ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اسلام ہی کو جواب دے جائیں گے؟ ہاں! ان مولوی صاحب سے برگشتہ ہونا ضروری ہے لیکن اگر مولوی صاحب بھی یہ اعلان کردیں کہ مجھ سے حماقت ہوئی کہ میں نے محض خود رائی سے جمعہ شروع کرادیا تو اُمید ہے کہ لوگ ان کو بھی معاف کر دیں گے، اور اگر شرعی مسئلہ کے علی الرغم لوگ جمعہ پڑھتے رہے تو سب کے ذمہ ظہر کی نماز باقی رہے گی، جس کا وبال نہ صرف جمعہ پڑھنے والوں کی گردن پر ہوگا، بلکہ سب کی نمازہی غارت ہونے کا وبال جمعہ پڑھانے والے مولوی صاحب پر بھی ہوگا۔ اوّل تو شاہ صاحب کا مطلب آپ سمجھے نہیں، علاوہ ازیں شاہ صاحب کسی فقہی مذہب کے امام نہیں کہ ان کی تقلید کی جائے، اور جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ضعیف ہے۔