اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کا مقام
س… اسلام میں جہاد اور شہادت کا کیا مرتبہ اور مقام ہے؟ ہمارے ہاں آج کل یہ عنوان موضوعِ بحث ہے، تفصیل سے آگاہ فرمادیں۔
ج… اس عنوان پر نئی تحریر کے بجائے مناسب ہوگا کہ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری کے اس مقالے کا ترجمہ پیش کیا جائے جو راقم الحروف نے آج سے کئی سال قبل کیا تھا۔ حضرت بنوری اَواخر مارچ ۱۹۷۱ء میں “مجمع البحوث الاسلامیہ مصر” کی چھٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے قاہرہ تشریف لے گئے تھے، تقریباً تیس بتیس عنوانات میں سے مذکورہ بالا عنوان پر مقالہ لکھا اور پڑھا، جس کا اُردو ترجمہ یہ ہے:
الحمد لله رب العالمین والعاقبة للمتقین، ولا عدوان الا علی الظالمین، والصلٰوة والسلام علٰی سیّد الأنبیاء والمرسلین وخاتم النبیین محمد وعلٰی اٰلہ وصحبہ وتابعیھم أجمعین، اما بعد!
حضرات! اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوّت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا۔ اسلام کے مثالی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان شہداء کی جاں نثاری و جانبازی کا فیض تھا، جنھوں نے اللہ رَبّ العزّت کی خوشنودی اور کلمہٴ اِسلام کی سربلندی کے لئے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کو سیراب کیا۔ شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہٴ عالم پر ثبت رہتا ہے، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں شہادت اور شہید کے اس قدر فضائل بیان ہوئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور شک و شبہ کی ادنیٰ گنجائش باقی نہیں رہتی۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“اِنَّ اللهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِأَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ، یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ، وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ، وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہ مِنَ اللهِ، فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہ، وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔” (التوبہ:۱۱۱)
ترجمہ:… “بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی، وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہیں، جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور اِنجیل میں اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے؟ تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا معاملہ تم نے ٹھہرایا ہے، خوشی مناوٴ، اور یہ ہی بڑی کامیابی ہے۔”
سبحان اللہ! شہادت اور جہاد کی اس سے بہتر ترغیب ہوسکتی ہے؟ اللہ رَبّ العزّت خود بنفسِ نفیس بندوں کی جان و مال کا خریدار ہے، جن کا وہ خود مالک و رزّاق ہے، اور اس کی قیمت کتنی اُونچی اور کتنی گراں رکھی گئی؟ جنت․․․! پھر فرمایا گیا کہ یہ سودا کچا نہیں کہ اس میں فسخ کا احتمال ہو، بلکہ اتنا پکا اور قطعی ہے کہ تورات و اِنجیل اور قرآن، تمام آسمانی صحیفوں اور خدائی دستاویزوں میں یہ عہد و پیمان درج ہے، اور اس پر تمام انبیاء و رُسل اور ان کی عظیم الشان اُمتوں کی گواہی ثبت ہے، پھر اس مضمون کو مزید پختہ کرنے کے لئے کہ خدائی وعدوں میں وعدہ خلافی کا کوئی احتمال نہیں، فرمایا گیا ہے: “وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہ مِنَ الله” یعنی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے وعدہ اور عہد و پیمان کی لاج رکھنے والا کون ہوسکتا ہے؟ کیا مخلوق میں کوئی ایسا ہے جو خالق کے ایفائے عہد کی ریس کرسکے؟ نہیں! ہرگز نہیں․․․! مرتبہ شہادت کی بلندی اور شہید کی فضیلت و منقبت کے سلسلے میں قرآن مجید کی یہی ایک آیت کافی و وافی ہے۔ اِمام طبری، عبد بن حمید اور ابنِ ابی حاتم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے مسجد میں “اللہ اکبر” کا نعرہ لگایا اور ایک انصاری صحابی بول اُٹھے: “واہ واہ! کیسی عمدہ بیع اور کیسا سود مند سودا ہے، واللہ! ہم اسے کبھی فسخ نہیں کریں گے، نہ فسخ ہونے دیں گے۔”
نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔” (النساء:۶۹)
ترجمہ:… “اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے اِنعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔”
اس آیت کریمہ میں راہِ خدا کے جانباز شہیدوں کو انبیاء و صدیقین کے بعد تیسرا مرتبہ عطا کیا گیا ہے، نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔” (البقرة:۱۵۴)
ترجمہ:… “اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کردئیے جائیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم کو احساس نہیں۔”
نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ۔ فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتٰھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللهِ وَفَضْلٍ وَّاَنَّ اللهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔” (آل عمران:۱۶۹ – ۱۷۱)
ترجمہ:… “اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کردئیے گئے ان کو مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرّب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے، وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے، ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر خوش ہوتے ہیں کہ ان پر کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں، نہ وہ مغموم ہوں گے، وہ خوش ہوتے ہیں بوجہ نعمت و فضلِ خداوندی کے اور بوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا اجر ضائع نہیں فرماتے۔” (ترجمہ حکیم الامت تھانوی)
ان دونوں آیتوں میں اعلان فرمایا گیا کہ شہداء کی موت کو عام مسلمانوں کی سی موت سمجھنا غلط ہے، شہید مرتے نہیں بلکہ مرکر جیتے ہیں، شہادت کے بعد انہیں ایک خاص نوعیت کی “برزخی حیات” سے مشرف کیا جاتا ہے:
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است
یہ شہیدانِ راہِ خدا، بارگاہِ الٰہی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اس کے صلے میں حق جل شانہ کی طرف سے ان کی عزّت و تکریم اور قدر ومنزلت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ ان کی رُوحوں کو سبز پرندوں کی شکل میں سواریاں عطا کی جاتی ہیں، عرشِ الٰہی سے معلق قندیلیں ان کی قرارگاہ پاتی ہیں اور انہیں اِذنِ عام ہوتا ہے کہ جنت میں جہاں چاہیں جائیں، جہاں چاہیں سیر و تفریح کریں اور جنت کی جس نعمت سے چاہیں لطف اندوز ہوں۔ شہید اور شہادت کی فضیلت میں بڑی کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں، اس سمندر کے چند قطرے یہاں پیشِ خدمت ہیں۔
حدیث نمبر۱:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“لو لا ان اشق علٰی أُمّتی، ما قعدت خلف سریّةٍ، ولوددت انی أُقتل ثم أُحیٰی ثم أُقتل ثم أُحیٰی ثم أُقتل۔” (اخرجہ البخاری فی عدة ابواب من کتاب الایمان والجھاد وغیرھا فی حدیث طویل)
ترجمہ:… “اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میری اُمت کو مشقت لاحق ہوگی تو میں کسی مجاہد دستے سے پیچھے نہ رہتا، اور میری دِلی آرزو یہ ہے کہ میں راہِ خدا میں قتل کیا جاوٴں پھر زندہ کیا جاوٴں، پھر قتل کیا جاوٴں پھر زندہ کیا جاوٴں اور پھر قتل کیا جاوٴں۔”
غور فرمائیے! نبوّت اور پھر ختمِ نبوّت وہ بلند و بالا منصب ہے کہ عقل و فہم اور وہم و خیال کی پرواز بھی اس کی رفعت و بلندی کی حدوں کو نہیں چھوسکتی، اور یہ انسانی شرف و مجد کا وہ آخری نقطہٴ عروج ہے اور غایة الغایات ہے جس سے اُوپر کسی مرتبے و منزلت کا تصوّر تک نہیں کیا جاسکتا، لیکن اللہ رے مرتبہٴ شہادت کی بلندی و برتری! کہ حضرت ختمی مآب صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف مرتبہٴ شہادت کی تمنا رکھتے ہیں، بلکہ بار بار دُنیا میں تشریف لانے اور ہر بار محبوبِ حقیقی کی خاطر خاک و خون میں لوٹنے کی خواہش کرتے ہیں:
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خوں غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
صرف اسی ایک حدیث سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ مرتبہٴ شہادت کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے۔
حدیث نمبر۲:… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“ما من احد یدخل الجنة یحب ان یرجع الی الدنیا ولہ ما فی الأرض من شیء الا الشھید یتمنی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامة۔”
(اخرجہ البخاری فی باب تمنی المجاھد ان یرجع الی الدنیا، ومسلم)
ترجمہ:… “کوئی شخص جو جنت میں داخل ہوجائے، یہ نہیں چاہتا کہ وہ دُنیا میں واپس جائے اور اسے زمین کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت مل جائے، البتہ شہید یہ تمنا ضرور رکھتا ہے کہ وہ دس مرتبہ دُنیا میں جائے پھر راہِ خدا میں شہید ہوجائے، کیونکہ وہ شہادت پر ملنے والے انعامات اور نوازشوں کو دیکھتا ہے۔”
حدیث نمبر۳:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“(میں بعض دفعہ جہاد کے لئے اس وجہ سے نہیں جاتا کہ) بعض (نادار اور) مخلص مسلمانوں کا جی اس بات پر راضی نہیں کہ (میں تو جہاد کے لئے جاوٴں اور) وہ مجھ سے پیچھے بیٹھ جائیں (مگر ان کے پاس جہاد کے لئے سواری اور سامان نہیں) اور میرے پاس (بھی) سواری نہیں کہ ان کو جہاد کے لئے تیار کرسکوں، اگر یہ عذر نہ ہوتا تو اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں کسی مجاہد دستے سے، جو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے جائے، پیچھے نہ رہا کروں۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میری تمنا یہ ہے کہ میں راہِ خدا میں قتل کیا جاوٴں پھر زندہ کیا جاوٴں، پھر قتل کیا جاوٴں پھر زندہ کیا جاوٴں، پھر قتل کیا جاوٴں۔” (بخاری و مسلم)
حدیث نمبر۴:… حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“واعلموا ان الجنة تحت ظلال السیوف۔”(بخاری)
ترجمہ:… “جان لو! کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔”
حدیث نمبر۵:… حضرت مسروق تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی:
“وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ” الآیة۔
ترجمہ:… “اور جو لوگ راہِ خدا میں قتل کردئیے گئے ان کو مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرّب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے۔”
تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفسیر دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“ارواحھم فی جوف طیر خضر لھا قنادیل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حیث شائت ثم تأوی الٰی تلک القنادیل فاطلع الیھم ربھم اطلاعةً فقال: ھل تشتھون شیئًا؟ قالوا: ایَّ شیءٍ نشتھی ونحن نسرح من الجنة حیث شئنا؟ ففعل ذٰلک بھم ثلاث مرّات، فلما راوٴا انّھم لن یترکوا من ان یسألوا، قالوا: یا رَبّ! نرید ان ترد ارواحنا فی اجسادنا حتّٰی نقتل فی سبیلک، فلمّا رأی ان لیس لھم حاجة ترکوا۔” (رواہ مسلم)
ترجمہ:… “شہیدوں کی رُوحیں سبز پرندوں کے جوف میں سواری کرتی ہیں، ان کی قرارگاہ وہ قندیلیں ہیں جو عرشِ الٰہی سے آویزاں ہیں، وہ جنت میں جہاں چاہیں سیر و تفریح کرتی ہیں، پھر لوٹ کر انہی قندیلوں میں قرار پکڑتی ہیں، ایک بار ان کے پروردگار نے ان سے بالمشافہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم کسی چیز کی خواہش رکھتے ہو؟ عرض کیا: ساری جنت ہمارے لئے مباح کردی گئی ہے، ہم جہاں چاہیں آئیں جائیں، اس کے بعد اب کیا خواہش باقی رہ سکتی ہے؟ حق تعالیٰ نے تین بار اصرار فرمایا (کہ اپنی کوئی چاہت تو ضرور بیان کرو)، جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی نہ کوئی خواہش عرض کرنی ہی پڑے گی تو عرض کیا: اے پروردگار! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری رُوحیں ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹادی جائیں، تاکہ ہم تیرے راستے میں ایک بار پھر جامِ شہادت نوش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اب ان کی کوئی خواہش باقی نہیں، چنانچہ جب یہ ظاہر ہوگیا تو ان کو چھوڑ دیا گیا۔”
حدیث نمبر۶:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“لا یکلم احد فی سبیل الله – والله اعلم بمن یکلم فی سبیلہ – الا جاء یوم القیامة وجرحہ یثعب دمًا، اللون لون الدم والریح ریح المسک۔” (رواہ البخاری ومسلم)
ترجمہ:… “جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو – اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے – وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہ رہا ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی۔”
حدیث نمبر۷:… حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’للشھید عند الله ست خصال: یغفر لہ فی اوّل دفعة ویری مقعدہ من الجنة ویجار من عذاب القبر ویأمن من الفزع الأکبر ویوضع علٰی رأسہ تاج الوقار، الیاقوتة منھا خیر من الدنیا وما فیھا، ویزوّج ثنتین وسبعین زوجةً من الحور العین، ویشفع فی سبعین من اقربائہ۔” (رواہ الترمذی وابن ماجة ومثلہ عند احمد والطبرانی من حدیث عبادة بن الصامت)
ترجمہ:… “اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لئے چھ اِنعام ہیں:
۱:… اوّلِ وہلہ میں اس کی بخشش ہوجاتی ہے۔
۲:… (موت کے وقت) جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے۔
۳:… عذابِ قبر سے محفوظ اور قیامت کے فزعِ اکبر سے مأمون ہوتا ہے۔
۴:… اس کے سر پر “وقار کا تاج” رکھا جاتا ہے، جس کا ایک نگینہ دُنیا اور دُنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے۔
۵:… جنت کی بہتر۷۲ حوروں سے اس کا بیاہ ہوتا ہے۔
۶:… اور اس کے ستر۷۰ عزیزوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔”
حدیث نمبر۸:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“الشھید لا یجد الم القتل کما یجد احدکم القرصة۔” (رواہ الترمذی والنسائی والدارمی)
ترجمہ:… “شہید کو قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔”
حدیث نمبر۹:… حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“اذا وقف العباد للحساب، جاء قوم واضعی سیوفھم علٰی رقابھم تقطر دمًا، فازدحموا علٰی باب الجنة، فقیل: من ھٰوٴلاء؟ قیل: الشھداء، کانوا احیاء مرزوقین۔” (رواہ الطبرانی)
ترجمہ:… “جبکہ لوگ حساب کتاب کے لئے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی گردن پر تلواریں رکھے ہوئے آئیں گے جن سے خون ٹپک رہا ہوگا، یہ لوگ جنت کے دروازے پر جمع ہوجائیں گے، لوگ دریافت کریں گے کہ: یہ کون لوگ ہیں (جن کا حساب کتاب بھی نہیں ہوا، سیدھے جنت میں آگئے)؟ انہیں بتایا جائے گا کہ یہ شہید ہیں جو زندہ تھے، جنھیں رزق ملتا تھا۔”
حدیث نمبر۱۰:… حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“ما من نفس تموت لھا عند الله خیر یسرھا ان ترجع الی الدنیا الا الشھید، فانّہ یسرہ ان یرجع الی الدنیا فیقتل مرةً اخریٰ لما یریٰ من فضل الشھادة۔”
(رواہ مسلم)
ترجمہ:… “جس شخص کے لئے اللہ کے ہاں خیر ہو جب وہ مرے تو کبھی دُنیا میں واپس آنا پسند نہیں کرتا، البتہ شہید اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ اس کی بہترین خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے دُنیا میں واپس بھیجا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر شہید ہوجائے، اس لئے کہ وہ مرتبہٴ شہادت کی فضیلت دیکھ چکا ہے۔”
حدیث نمبر۱۱:… ابنِ مندہ نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
“وہ کہتے ہیں کہ: اپنے مال کی دیکھ بھال کے لئے میں غابہ گیا، وہاں مجھے رات ہوگئی، میں عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ (جو شہید ہوگئے تھے) کی قبر کے پاس لیٹ گیا، میں نے قبر سے ایسی قراء ت سنی کہ اس سے اچھی قراء ت کبھی نہیں سنی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کا تذکرہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قاری عبداللہ (شہید) تھے، تمہیں معلوم نہیں؟ اللہ تعالیٰ ان کی رُوحوں کو قبض کرکے زبرجد اور یاقوت کی قندیلوں میں رکھتے ہیں اور انہیں جنت کے درمیان (عرش پر) آویزاں کردیتے ہیں، رات کا وقت ہوتا ہے تو ان کی رُوحیں ان کے اجسام میں واپس کردی جاتی ہیں اور صبح ہوتی ہے تو پھر انہیں قندیلوں میں آجاتی ہیں۔”
یہ حدیث حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے تفسیر مظہری میں ذکر کی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات کے بعد بھی شہداء کے لئے طاعات کے درجات لکھے جاتے ہیں۔
حدیث نمبر۱۲:… حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اُحد کے قریب سے نہر نکلوائی، تو وہاں سے شہدائے اُحد کو ہٹانے کی ضرورت ہوئی، ہم نے ان کو نکالا تو ان کے جسم بالکل تر و تازہ تھے، محمد بن عمرو کے اساتذہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو (جو اُحد میں شہید ہوئے تھے) نکالا گیا تو ان کا ہاتھ زخم پر رکھا تھا، وہاں سے ہٹایا گیا تو خون کا فوارہ پھوٹ نکلا، زخم پر ہاتھ دوبارہ رکھا گیا تو خون بند ہوگیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد ماجد کو ان کی قبر میں دیکھا تو ایسا لگتا تھا کہ گویا سو رہے ہیں، جس چادر میں ان کو کفن دیا گیا تھا وہ جوں کی توں تھی، اور پاوٴں پر جو گھاس رکھی گئی تھی وہ بھی بدستور اصل حالت میں تھی، اس وقت ان کو شہید ہوئے چھیالیس سال کا عرصہ ہوچکا تھا۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس واقعے کو کھلی آنکھوں دیکھ لینے کے بعد اب کسی کو انکار کی گنجائش نہیں کہ شہداء کی قبریں جب کھودی جاتیں تو جو نہی تھوڑی سی مٹی گرتی اس سے کستوری کی خوشبو مہکتی تھی۔”
یہ واقعہ اِمام بیہقی رحمہ اللہ نے متعدّد سندوں سے اور ابنِ سعد نے ذکر کیا ہے، جیسا کہ تفسیر مظہری میں نقل کیا ہے، مندرجہ بالا جواہرِ نبوّت کا خلاصہ مندرجہ ذیل اُمور ہیں:
اوّل:… شہادت ایسا اعلیٰ و ارفع مرتبہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے ہیں۔
دوم:… مرنے والے کو اگر موت کے بعد عزّت و کرامت اور راحت و سکون نصیب ہو تو دُنیا میں واپس آنے کی خواہش ہرگز نہیں کرتا، البتہ شہید کے سامنے جب شہادت کے فضائل و اِنعامات کھلتے ہیں تو اسے خواہش ہوتی ہے کہ بار بار دُنیا میں آئے اور جامِ شہادت نوش کرے۔
سوم:… حق تعالیٰ شہید کو ایک خاص نوعیت کی “برزخی حیات” عطا فرماتے ہیں، شہداء کی ارواح کو جنت میں پرواز کی قدرت ہوتی ہے اور نہیں اِذنِ عام ہے کہ جہاں چاہیں آئیں جائیں، ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں، اور صبح و شام رزق سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔
چہارم:… حق تعالیٰ نے جس طرح ان کو “برزخی حیات” سے ممتاز فرمایا ہے، اسی طرح ان کے اجسام بھی محفوظ رہتے ہیں، گویا ان کی ارواح کو جسمانی نوعیت اور ان کے اجسام کو رُوح کی خاصیت حاصل ہوتی ہے۔
پنجم:… موت سے شہید کے اعمال ختم نہیں ہوتے، نہ اس کی ترقیٴ درجات میں فرق آتا ہے، بلکہ موت کے بعد قیامت تک اس کے درجات برابر بلند ہوتے رہتے ہیں۔
ششم:… حق تعالیٰ، ارواحِ شہداء کو خصوصی مسکن عطا کرتے ہیں، جو یاقوت و زبرجد اور سونے کی قندیلوں کی شکل میں عرشِ اعظم سے آویزاں رہتے ہیں، اور جنت میں چمکتے ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں۔
بہت سے عارفین نے جن میں عارف باللہ حضرت شیخ شہید مظہر جانِ جاناں رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، ذکر کیا ہے کہ شہید چونکہ اپنے نفس، اپنی جان اور اپنی شخصیت کی قربانی بارگاہِ اُلوہیت میں پیش کرتا ہے اس لئے اس کی جزا اور صلے میں اسے حق تعالیٰ شانہ کی تجلیٴ ذات سے سرفراز کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں کونین کی ہر نعمت ہیچ ہے۔
حضرات! شہادت نتیجہ ہے جہاد کا، اور ہم نے کتاب اللہ کی ان آیات اور بہت سی احادیثِ نبویہ سے تعرض نہیں کیا جو جہاد کے سلسلے میں وارِد ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متعدّد صحابہ کرام، حضرات عبداللہ بن رواحہ اور سہل بن سعد وغیرہما رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک صبح کو یا ایک شام کو جہاد کے لئے نکل جانا دُنیا اور دُنیا بھر کی ساری دولتوں سے بہتر ہے۔” اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “مجاہد فی سبیل اللہ کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص ساری عمر رات بھر قیام کرے اور دن کو روزہ رکھا کرے، جہاد فی سبیل اللہ کے برابر کوئی نیکی نہیں۔” ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں۔
حضرات! شہید کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سب سے عالی مرتبہ وہ شہید ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور اللہ کی بات کو اُونچا کرنے کے لئے میدانِ جنگ میں کافروں کے ہاتھوں قتل ہوجائے، اس کے علاوہ اپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے جو قتل ہوجائے وہ بھی شہید ہے، جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوجائے وہ بھی شہید ہے، اور جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوجائے وہ بھی شہید ہے، جیسا کہ سعد بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت سے نسائی، ابوداوٴد اور ترمذی میں حدیث موجود ہے۔
اِمام بخاری اور اِمام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “پانچ آدمی شہید ہیں، جو طاعون سے مرے، جو پیٹ کی بیماری سے مرے، جو پانی میں غرق ہوجائے، جو مکان گرنے سے مر جائے اور جو اللہ کے راستے میں شہید ہوجائے۔”
حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “اللہ کے راستے میں قتل ہونے کے علاوہ سات قسم کی موتیں شہادت ہیں، طاعون سے مرنے والا شہید ہے، ڈُوب کر مرنے والا شہید ہے، نمونیہ کے مرض سے مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، جل کر مرنے والا شہید ہے، دیوار کے نیچے دَب کر مرنے والا شہید ہے، جو عورت حمل یا ولادت میں انتقال کرجائے وہ شہید ہے۔”
(یہ حدیث اِمام مالک، ابوداوٴد اور نسائی نے روایت کی ہے)
ابوداوٴد میں حضرت اُمِّ حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “سمندر میں سر چکرانے کی وجہ سے جس کو قے آنے لگے اس کے لئے شہید کا ثواب ہے۔”
نسائی شریف میں حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “نفاس میں (ولادت کے بعد) مرنے والی عورت کے لئے شہادت ہے۔”
نسائی شریف میں حضرت سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جو شخص ظلم سے مدافعت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے۔”
ترمذی شریف میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: “شہید چار قسم کے ہیں، ایک وہ شخص جس کا ایمان نہایت عمدہ اور پختہ تھا، اس کا دُشمن سے مقابلہ ہوا، اس نے اللہ کے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے دادِ شجاعت دی یہاں تک کہ قتل ہوگیا، یہ شخص اتنے بلند مرتبے میں ہوگا کہ قیامت کے روز لوگ اس کی طرف یوں نظر اُٹھاکر دیکھیں گے، یہ فرماتے ہوئے آپ نے سر اُوپر اُٹھایا یہاں تک کہ آپ کی ٹوپی سر سے گرگئی، (راوی کہتے ہیں کہ: مجھے معلوم نہیں کہ اس سے حضرت عمر کی ٹوپی مراد ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی)۔ فرمایا: دُوسرا وہ موٴمن آدمی جس کا ایمان نہایت پختہ تھا، دُشمن سے اس کا مقابلہ ہوا مگر حوصلہ کم تھا، اس لئے مقابلے کے وقت اسے ایسا محسوس ہوا گویا خاردار جھاڑی کے کانٹے اس کے جسم میں چبھ گئے ہوں، (یعنی دِل کانپ گیا اور رونگٹے کھڑے ہوگئے) تاہم کسی نامعلوم جانب سے تیر آکر اس کے جسم میں پیوست ہوگیا، اور وہ شہید ہوگیا، یہ دُوسرے مرتبے میں ہوگا۔ تیسرے وہ موٴمن آدمی جس نے اچھے اعمال کے ساتھ کچھ بُرے اعمال کی آمیزش بھی کر رکھی تھی، دُشمن سے اس کا مقابلہ ہوا اور اس نے ایمان و یقین کے ساتھ خوب ڈَٹ کر مقابلہ کیا، حتیٰ کہ قتل ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔ چوتھے وہ موٴمن آدمی جس نے اپنے نفس پر (گناہوں سے) زیادتی کی تھی (یعنی نیکیاں کم اور گناہ زیادہ تھے) دُشمن سے اس کا مقابلہ ہوا اور اس نے خوب جم کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ قتل ہوگیا، یہ چوتھے درجے میں ہوگا۔”
مسند دارمی میں حضرت عتبہ بن عبدالسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “راہِ خدا میں قتل ہونے والے تین قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ موٴمن جس نے اپنی جان و مال سے راہِ خدا میں جہاد کیا، دُشمن سے مقابلہ ہوا، خوب لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ وہ شہید ہے جس کے دِل کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے چن لیا، یہ عرشِ الٰہی کے نیچے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے خیمے میں ہوگا، نبیوں کو اس پر فضیلت صرف درجہٴ نبوّت کی وجہ سے ہوگی۔ دُوسرے وہ موٴمن جس نے کچھ نیک عمل کئے تھے، کچھ بُرے، اس نے جان و مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا اور دُشمن کے مقابلے میں لڑا یہاں تک کہ قتل ہوگیا” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: “مٹا دینے والی (تلوار) نے اس کی غلطیوں اور گناہوں کو مٹادیا، بلاشبہ تلوار گناہوں کو مٹادیتی ہے، اور اس شہید کو اجازت دی گئی کہ وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔ تیسرا منافق، جس نے جان و مال سے جہاد کیا، دُشمن سے مقابلہ ہوا، مارا گیا، یہ دوزخ میں جائے گا، کیونکہ تلوار (اور گناہوں کو تو مٹادیتی ہے مگر) نفاق (دِل میں چھپے ہوئے کفر) کو نہیں مٹاتی۔”
حاصل یہ کہ ان تمام احادیث کو، جن میں شہادت کی اموات کو متفرق بیان کیا ہے، جمع کرلیا جائے تو شہداء کی فہرست کافی طویل ہوجاتی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ جو لوگ مفہومِ مخالف کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی عدد میں مفہومِ مخالف کا اعتبار نہیں، نہایت جلدی میں یہ چند احادیث پیش کی گئیں، ورنہ اس موضوع کے استیعاب کا قصد کیا جاتا تو شہداء کی تعداد کافی زیادہ نکل آتی۔(۱)
پھر قیاس و اجتہاد کے ذریعہ ایسے شہداء کو بھی ان سے ملحق کیا جاسکتا ہے جو اگرچہ احادیث میں صراحتاً نہیں آئے، مگر حدیث کے اشارات سے نکالے جاسکتے ہیں، مثلاً فرمایا: “جو اپنے حق کی مدافعت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے” اب یہ عام ہے جو تمام حقوق کو شامل ہے، لہٰذا جو شخص مادرِ وطن کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہوگا، جو ظلم و عدوان کا مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوگا، الغرض جو مسلمان اپنی جان کی، اپنے اہل و عیال کی، اپنی عزّت کی، اپنے مال کی، اپنے وطن کی، سرزمینِ اسلام کے وقار کی اور مسلمانوں کی عزّت و قوّت کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ حسبِ درجہ شہید کا مرتبہ پائے گا، بشرطیکہ اس کی مدافعت رضائے الٰہی کے لئے ہو، محض جاہلی عصبیت، خالص قومیت اور جاہلی حمیت کی بنا پر نہ ہو۔
کون نہیں جانتا کہ “وطن” اپنی ذات سے کوئی مقدس چیز نہیں، اس کی عزّت و حرمت محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اسلام کی شان و شوکت اور اس کی سربلندی کا ذریعہ ہے اور “قومی اسٹیٹ” میں سوائے اس کے تقدیس کا کوئی پہلو نہیں کہ وہ اسلامی قوّت کا مرکز اور مسلمانوں کی عزّت و شوکت کا مظہر ہے۔ آج جو مشرق و مغرب میں اسلام دُشمن طاقتیں عرب و عجم کے مسلمانوں کے خلاف متحد ہوکر انہیں خود ان کے اپنے علاقوں میں طرح طرح سے ذلیل و خوار اور پریشان کر رہی ہیں، اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم نے فریضہٴ جہاد سے غفلت برتی اور مرتبہٴ شہادت حاصل کرنے کا ولولہ جاتا رہا۔ جہاد سے غفلت کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس مال و دولت اور مادّی وسائل کا فقدان ہے، یا یہ کہ مسلمانوں کی مردم شماری کم ہے، اللہ رَبّ العزّت نے اسلامی عربی ممالک کو ثروت اور مال کی فراوانی کے وہ اسباب عنایت فرمائے ہیں جو کبھی تصوّر میں بھی نہیں آسکتے تھے، صرف یہی نہیں بلکہ ان وسائل میں یہ اسلام دُشمن طاقتیں بھی عالمِ اسلام اور ممالکِ عربیہ کی دست نگر اور محتاج ہیں۔ الغرض آج مسلمانوں کی ذِلت کا سبب وسائل کی کمی نہیں بلکہ اس کا اصل باعث ہمارا باہمی شقاق و نفاق ہے، ہم نے اجتماعی ضروریات پر شخصی اغراض کو مقدّم رکھا، انفرادی مصالح کو قومی مصالح پر ترجیح دی، راحت و آسائش کے عادی ہوگئے، رُوحِ جہاد کو کچل ڈالا اور آخرت اور جنت کے عوض جان و مال کی قربانی کا جذبہ سرد پڑگیا، یہ ہیں وہ اسباب جن کی بدولت مسلمان قوم اوجِ ثریا سے ذِلت و حقارت کی عمیق وادیوں میں جاگری۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث، جس کو اِمام ابوداوٴد وغیرہ نے روایت کیا ہے، اہلِ علم کے حلقے میں معروف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “وہ زمانہ قریب ہے جبکہ تمام اسلام دُشمن قومیں تمہارے مقابلے میں ایک دُوسرے کو دعوتِ ضیافت دیں گی، ایک صاحب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس وجہ سے کہ اس دن ہماری تعداد کم ہوگی؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم بڑی کثرت میں ہوگے، لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ دُشمنوں کے دِل سے تمہارا رُعب نکال دے گا اور تمہارے دِلوں میں کمزوری اور دوں ہمتی ڈال دے گا، ایک صاحب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دوں ہمتی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دُنیا کی چاہت اور موت سے گھبرانا۔”
بہرحال جب ہم مسلمانوں کی موجودہ ناگفتہ بہ زبوں حالی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے چند چیزیں اُبھر کر آتی ہیں، جن کی طرف ذیل میں نہایت اختصار سے اشارہ کیا جاتا ہے:
اوّل:… اعدائے اسلام پر وثوق و اعتماد اور بھروسا کرنا، (خواہ رُوس ہو، یا امریکہ و مغربی اقوام)، ظاہر ہے کہ کفر – اپنے اختلافات کے باوجود – ایک ہی ملت ہے، اور اللہ پر اعتماد و توکل اور مسلمانوں پر بھروسا نہ کرنا، جبکہ تمام مسلمانوں کو حکم ہے کہ:
“وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُوٴْمِنُوْنَ”
ترجمہ:… “صرف اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہئے مسلمانوں کو۔”
اس آیت میں نہایت حصر و تاکید کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے اللہ رَبّ العزّت کے سوا کسی شخصیت پر اعتماد اور بھروسا نہیں کرنا چاہئے (حیث قدم قولہ: وَعَلَی اللهِ)۔
دوم:… مسلمانوں کا باہمی اختلاف و انتشار اور خانہ جنگی، جس کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ آپس میں کہیں مل بیٹھ کر صلح صفائی کی بات کرتے ہیں تب بھی ان کی حالت یہ ہوتی ہے:
“وَتَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُھُمْ شَتّٰی”
ترجمہ:… “بظاہر تم ان کو مجتمع دیکھتے ہو مگر ان کے دِل پھٹے ہوئے ہیں۔”
سوم:… توکل علی اللہ سے زیادہ مادّی اور عادی اسباب پر اعتماد، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان تمام اسباب و وسائل کی فراہمی کا حکم دیا ہے جو ہمارے بس میں ہوں اور جن سے دُشمن کو مرعوب کیا جاسکے، لیکن افسوس ہے کہ ایک طرف سے تو ہم مادّی اسباب کی فراہمی میں کوتاہ کار ہیں، اور دُوسری طرف فتح و نصرت کا جو اصل سرچشمہ ہے اس سے غافل ہیں، ارشادِ خداوندی ہے:
“وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ”
ترجمہ:… “نصرت و فتح تو صرف اللہ عزیز و حکیم کے پاس ہے اور اسی کی جانب سے ملتی ہے۔”
تاریخ کے بیسیوں نہیں سیکڑوں واقعات شاہد ہیں کہ کافروں کے مقابلے میں بے سروسامانی اور قلّتِ تعداد کے باوجود فتح و نصرت نے مسلمانوں کے قدم چومے۔
چہارم:… دُنیا سے بے پناہ محبت، عیش پرستی اور راحت پسندی، آخرت کے مقابلے میں دُنیا کو اختیار کرنا، قومی اور ملّی تقاضوں پر اپنے ذاتی تقاضوں کو ترجیح دینا، اور رُوحِ جہاد کا نکل جانا۔ اس کی تفصیل طویل ہے، قرآنِ کریم کی سورہٴ آل عمران اور سورہٴ توبہ میں نہایت عالی مرتبہ عبرتیں موجود ہیں، اُمت کا فرض ہے کہ اس روشن مینار کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے۔
بہرحال! اللہ کے راستے میں کلمہٴ اسلام کی سربلندی کے لئے دُشمنوں سے معرکہ آرائی، راہِ خدا میں جہاد کرنا اور اسلام کی خاطر اپنی جان قربان کردینا نہایت بیش قیمت جوہر ہے، قرآنِ کریم اور سیّدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دُنیوی فوائد اور اُخروی درجات کو ہر پہلو سے روشن کردیا ہے، اور اس کی وجہ سے اُمتِ محمدیہ پر جو عنایاتِ الٰہیہ نازل ہوتی ہیں ان کے اسرار کو نہایت فصاحت و بلاغت سے واضح کردیا ہے۔
حضرات! یہ ایک مختصر سا مقالہ ہے، جو نہایت مصروفیت اور کم وقت میں لکھا گیا، اس لئے بحث کے بہت سے گوشے تشنہ رہ گئے ہیں، جس پر مسامحت کی درخواست کروں گا، آخر میں ہم حق تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہماری غلطیوں کی اصلاح فرمائے، ہمارے درمیان قلبی اتحاد پیدا فرمائے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد اور نصرت فرمائے اور ہمیں صبر، عزیمت، مسلسل محنت کی لگن اور تقویٰ کی صفات سے سرفراز فرماکر کامیاب فرمائے، آمین!
کیا طالبان کا جہاد شرعی جہاد ہے؟
س… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام طالبان تحریک افغانستان کے بارے میں کہ اگر کوئی آدمی اس تحریک میں شامل ہوکر ان کے مخالفین کے ساتھ لڑکر فوت ہوجائے، کیا یہ آدمی شہید کہلایا جائے گا؟ دراصل اِشکال اس بات کا ہے کہ ان طالبان کے حریف احمد شاہ مسعود، حکمت یار اور ربانی جیسے سابق مجاہدین ہیں، جنھوں نے رُوسی سامراج کو افغانستان کی سرحد میں سے نکالا اور اب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی، گو کہ اسلامی نظام انہوں نے بوجوہ نافذ نہیں کیا تھا۔ اب سوال ہے کہ ان لوگوں سے لڑنے والے کو “مجاہد” کہا جائے گا؟ نیز اگر مارا جائے، کیا اسے “شہید” کہا جائے گا؟ اگر مخالفین کا کوئی آدمی مرجائے ان کے بارے میں جناب کی کیا رائے ہے؟ نیز اس لڑائی کو “جہاد” کہا جائے گا یا کچھ اور؟
ج… جہاں تک مجھے معلوم ہے طالبان کی تحریک صحیح ہے، افغانستان کی جن جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے رُوس کے خلاف لڑائی کی وہ تو صحیح تھی، لیکن بعد میں ان لیڈروں نے اپنے اپنے علاقے میں اپنی حکومت بنالی، اور ملک میں طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا، ملک میں نہ امن قائم ہوا، نہ پورے ملک میں کوئی مرکزی حکومت قائم ہوئی، نہ اسلامی نظام نافذ ہوا۔
طالبان نے جہادِ افغانستان کو رائیگاں ہوتے ہوئے دیکھا تو اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے تحریک چلائی، اور جو علاقے ان کے زیر نگین آئے ان میں اسلامی نظام نافذ کیا، افغانستان کے تمام لیڈروں کا فرض تھا کہ وہ اس تحریک کی حمایت کرتے، مگر وہ طالبان کے مقابلے میں آگئے، اب افغانستان میں لڑائی اس نکتے پر ہے کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہو یا نہیں؟ طالبان کی تحریک اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ہے اور ان کے مخالفین کی حیثیت باغیوں کی ہے، اس لئے “طالبان” کے جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ اعلائے کلمة اللہ کے لئے جان دیتے ہیں، بلاشبہ وہ شہید ہیں۔
حکومت کے خلاف ہنگاموں میں مرنے والے اور افغان چھاپہ مار کیا شہید ہیں؟
س… حکومت کے خلاف ہنگامے کرنے والے جب مرجاتے ہیں یا افغان چھاپہ مار مرجاتے ہیں یا ہندوستان کے مسلمان فوجی مارے جاتے ہیں، یہ سب شہید ہیں یا نہیں؟ کیونکہ یہ جہاد کے طریقے سے نہیں لڑتے اور ہنگاموں میں مرنے والوں کی نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے، جبکہ اخبار میں لکھا جاتا ہے کہ شہداء کی نمازِ جنازہ ادا کی جارہی ہے۔
ج… افغان چھاپہ مار تو ایک کافر حکومت کے خلاف لڑتے ہیں، ان کے شہید ہونے میں شبہ نہیں۔ ہندوستان کے مسلمان فوجی، جب کسی مسلمان حکومت کے خلاف لڑیں، ان کو شہید کہنا سمجھ میں نہیں آتا۔ اور حکومت کے خلاف بلووں اور ہنگاموں میں مرنے والوں کی کئی قسمیں ہیں، بعض بے گناہ خود بلوائیوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں، بعض بے گناہ پولیس کے ہاتھوں مرجاتے ہیں اور بعض دنگافساد کی پاداش میں مرتے ہیں، اس لئے ان کے بارے میں کوئی قطعی حکم لگانا مشکل ہے۔
اسرائیل کے خلاف لڑنا کیا جہاد ہے؟
س… اسرائیل کے خلاف بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کے لئے تنظیم آزادیٴ فلسطین (پی ایل او) (P.L.O) جو مزاحمت کر رہی ہے، کیا وہ اسلام کی رُو سے جہاد کے زُمرے میں آتی ہے؟
ج… مسلمانوں کی جو لڑائی کافروں کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور کلمہٴ اسلام کی سربلندی کے لئے ہو، وہ بلاشبہ جہاد ہے۔ اس اُصول کو آپ تنظیم آزادیٴ فلسطین پر خود منطبق کرلیجئے۔
س… تنظیم آزادیٴ فلسطین کی طرف سے کوئی غیرفلسطینی مسلمان، اسرائیل کے خلاف لڑتا ہوا مارا جائے تو کیا وہ شہادت کا رُتبہ پائے گا؟
ج… اس میں کیا شبہ ہے!
س… ہمارے علماء نوجوان مسلمانوں کو اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے پر کیوں نہیں اُکساتے؟
ج… اسلامی ممالک، اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کردیں تو علمائے کرام مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب ضرور دیں گے۔
کیا ہنگاموں میں مرنے والے شہید ہیں؟
س… حیدرآباد اور کراچی میں فسادات اور ہنگاموں میں جو بے قصور ہلاک ہورہے ہیں، کیا ہم ان کو “شہید” کہہ سکتے ہیں؟ کہہ سکتے ہیں تو کیوں؟ اور نہیں کہہ سکتے تو کیوں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
ج… شہید کا دُنیاوی حکم یہ ہے کہ اس کو غسل نہیں دیا جاتا اور نہ اس کے پہنے ہوئے کپڑے اُتارے جاتے ہیں، بلکہ بغیر غسل کے اس کے خون آلود کپڑوں سمیت اس کو کفن پہناکر (نمازِ جنازہ کے بعد) دفن کردیا جاتا ہے۔
شہادت کا یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو: ۱-مسلمان ہو، ۲-عاقل ہو، ۳-بالغ ہو، ۴-وہ کافروں کے ہاتھوں سے مارا جائے یا میدانِ جنگ میں مرا ہوا پایا جائے اور اس کے بدن پر قتل کے نشانات ہوں، یا ڈاکووٴں یا چوروں نے اس کو قتل کردیا ہو، یا وہ اپنی مدافعت کرتے ہوئے مارا جائے، یا کسی مسلمان نے اس کو آلہٴ جارحہ کے ساتھ ظلماً قتل کیا ہو۔
۵-یہ شخص مندرجہ بالا صورتوں میں موقع پر ہلاک ہوگیا ہو اور اسے کچھ کھانے پینے کی، یا علاج معالجے کی، یا سونے کی، یا وصیت کرنے کی مہلت نہ ملی ہو، یا ہوش و حواس کی حالت میں اس پر نماز کا وقت نہ گزرا ہو۔
۶- اس پر پہلے سے غسل واجب نہ ہو۔
اگر کوئی مسلمان قتل ہوجائے مگر متذکرہ بالا پانچ شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس کو غسل دیا جائے گا اور دُنیوی اَحکام کے اعتبار سے “شہید” نہیں کہلائے گا، البتہ آخرت میں شہداء میں شمار ہوگا۔
افغانستان کے مجاہدین کی امداد کرنا
س… افغانستان میں ننگی رُوسی جارحیت کے خلاف تمام مجاہدین برسر پیکار ہیں اور مجاہدین کے ساتھ اسلحہ، سامانِ خورد و نوش، نیز ان کے بال بچوں کی کفالت کے لئے سخت اقدامات اور فوری امداد کی سخت ضرورت ہے، بنابریں حالات میں اسلامی ممالک پر شریعت کی رُو سے کیا فرائض عائد ہوتے ہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت سے جواب دیں۔
ج… ان کی جو مدد بھی ممکن ہو کرنا فرض ہے، مالی، فوجی، اخلاقی۔
کشمیری مسلمانوں کی امداد
س۱:… اگر کافر کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کردیں تو کیا جہاد فرض نہیں ہوجاتا؟ اور اگر لڑنے والے ناکافی ہوں تو قریب والے اسلامی ملک پر بھی جہاد فرضِ عین ہوجاتا ہے۔ اس قاعدے کی رُو سے اس وقت کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے لوگوں پر جہاد فرضِ عین ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاد کے لئے تو ایک اِمام کا ہونا ضروری ہے جبکہ ہمارا اس وقت کوئی ایک اِمام نہیں ہے، اور ہمارے حکمرانوں میں اتنا حوصلہ ہے نہیں کہ وہ انڈیا کے خلاف اعلانِ جنگ کرسکیں، یہ تو صرف اقوامِ متحدہ سے مطالبات کرنے والے لوگ ہیں۔ تو ایسی صورتِ حال میں ہمیں اپنی کشمیری ماوٴں، بہنوں کی عزتوں سے کھیلنے والے ہندووٴں کے خلاف کیا کرنا ہوگا؟ کیا ہم یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور ہندو ہمیں بزدل سمجھ کر ہماری بہنوں کی عزتیں تار تار کرتا رہے؟
س۲:… یہ تو خیر مسئلہ تھا کشمیر کا، لیکن اگر کوئی کافر پاکستان پر حملہ آور ہوجاتا ہے تو کیا ہم اس کے خلاف جہاد نہ کریں؟ کیونکہ جہاد کی تو شرط یہ ہے کہ اِمام کا ہونا ضروری ہے۔
س۳:… اور مزید یہ کہ اس وقت جو پاکستانی تنظیمیں کشمیر میں جہاد کر رہی ہیں کیا ان کا جہاد شریعت کی رُو سے دُرست ہے یا نہیں؟ کیونکہ اِمام تو ہمارا کوئی ہے نہیں، اور نہ ہی ہم نے باقاعدہ اعلانِ جنگ کیا ہے، تو پھر ان لوگوں کا یہ جہاد کس کھاتے میں جارہا ہے؟
ج۱:… کشمیری مسلمانوں کی مدد ضرور کرنی چاہئے۔
ج۲:… خدا نہ کرے ایسی صورت پیش آئے، اس وقت حملہ آور کا مقابلہ کرنا ضروری ہوگا۔
ج۳:… یہ سوال ان تنظیموں سے کرنے کا ہے۔ میری سمجھ میں یوں آتا ہے کہ کشمیر کے تمام مسلمان ایک شخص کو اپنا اِمام بنالیں، اس کے جھنڈے تلے جہاد کریں اور شرعی جہاد کے تمام اَحکام کی رعایت رکھیں، یہ نہ ہو کہ پہلے کافروں سے لڑتے رہیں پھر آپس میں “جہاد” کرنے لگیں۔
جہاد میں ضرور حصہ لینا چاہئے
س… جہادِ اسلامی کیا ہے؟ نیز آج کل کے دور میں افغانستان، بوسنیا، کشمیر اور فلسطین، یہاں پر جہاد کے لئے جانا کیسا ہے؟ اور کیا انسان جہاد کے لئے والدین سے ضرور اجازت لے؟ اور اگر والدین غیرمسلم ہوں یا ان میں سے کوئی ایک غیرمسلم ہوں تو کیا ان سے بھی اجازت ضروری ہے؟
ج۱:… اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اللہ کے راستے میں کافروں سے لڑنا “جہاد” کہلاتا ہے۔
۲:… ان جگہوں میں جہاں شرعی جہاد ہو رہا ہے، ضرور جانا چاہئے۔
۳:… جہاد اگر فرضِ کفایہ ہے تو والدین کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں۔
۴:… غیرمسلم والدین کی اجازت شرط نہیں، لیکن اگر وہ خدمت کے محتاج ہوں تو ان کی خدمت ضروری ہے۔
س… میدانِ جہاد میں اگر کوئی ایسا موقع آجائے کہ انسان کے دُشمن کے ہاتھوں پکڑے جانے کا اندیشہ ہو اور تشدّد وغیرہ کا خطرہ ہو تو کیا ایسی صورت میں خودکشی جائز ہے؟
ج… خودکشی جائز نہیں، کافرکشی کرکے اس کے ہاتھ سے مرجائے۔
تبلیغ اور جہاد
س… ایک صاحب کا کہنا ہے کہ تبلیغ والے جہاد نہیں کرتے، میں نے ان سے کہا کہ: وہ جہاد سے منع بھی نہیں کرتے، اور دِین کے مختلف شعبے ہیں، انہوں نے تبلیغ کو اختیار کیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ: پورے دِین پر چلنا چاہئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت بھی کی ہے، جبکہ تبلیغی جماعت کے ایک صاحب فرماتے ہیں کہ تم لوگ جہاد نہیں کرتے ہو، جہاد اور جنگ میں فرق ہوتا ہے۔ آنجناب سے جواب کی درخواست ہے کہ فرمائیں کس کا موقف صحیح ہے؟
ج… میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔
تقویٰ اور جہاد
س… گزارش ہے کہ ہماری مسجد کے چند مولوی صاحبان ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ “متقی (فرائض کا پابند، رزقِ حلال کمانے والا، بدعت اور معصیت سے بچنے والا، خوش اخلاق و خوش لباس) انسان بے شک جنت میں جائے گا، اس کے لئے حور و قصور کا وعدہ ہے، لیکن اس کے لئے نصرت کا وعدہ نہیں ہے، وعدہٴ نصرت تو صرف جہاد کرنے والے شخص کے لئے ہے۔”
ان مولوی صاحبان کے بیان سے ہمارے ذہنوں میں اُلجھن پیدا ہوئی ہے، اُمید ہے جناب مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرماکر مشکور فرمائیں گے تاکہ صحیح بات معلوم ہوسکے۔
۱:… کیا عذابِ قبر اور جہنم سے نجات اور جنت کا حصول “نصرت” نہیں ہے؟ اگر یہ نصرت نہیں ہے تو پھر وہ کون سی خاص چیز ہے جسے “نصرت” کہا جائے؟
۲:… کیا اس پُرفتن دور میں متقی رہنا بذاتِ خود ایک جہاد نہیں ہے؟
جہاں تک ہم (میں اور میرے احباب) سمجھتے ہیں، فرائض کی پابندی، بدعت اور گناہ سے اجتناب، حلال رزق کمانا، شرعی لباس پہننا، خوش اخلاق رہنا اور دیگر شرعی اَحکامات کی حتی الامکان پابندی کرنا، تقویٰ ہے، اور ایسا متقی شخص عملی طور پر پورے معاشرے سے ممتاز ہوتا ہے اور شیطان اور خود اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے۔ کیا ایسا متقی شخص (خواہ وہ برائے جہاد نکلا ہو یا گوشہ نشین ہو) یعنی متقی رہنے کے ساتھ ساتھ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہوئے زندگی گزار دے، “مجاہد” نہیں کہلائے گا؟
۳:… قرآنِ کریم میں جگہ جگہ مرقوم ہے: “اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے”، “اللہ تقویٰ پسند کرتا ہے”، “اللہ متقی لوگوں کا دوست اور ولی ہے” یہ ولی اور دوست ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے متقی بندوں کو (جب تک وہ جہاد نہ کریں) “نصرت” نہ کرنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔
شاید ہمارے مولوی صاحبان غلط بیانی کر رہے ہیں یا شاید ہم غلط سمجھ رہے ہیں، تفصیل کے ساتھ آپ اس مسئلے پر روشنی ڈالیں، شکریہ۔
ج… مولوی صاحبان جو فرماتے ہیں اس سے خاص “نصرت” مراد ہے، یعنی کفار کے مقابلے میں، اور یہ مشروط ہے جہاد کے ساتھ: “اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْکُمْ” اور اس نصرت کا تعلق افراد سے نہیں بلکہ پوری ملت سے ہے۔
آپ نے جو اُمور ذکر کئے ہیں ان کا تعلق افراد سے ہے، اس لئے دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح کہتے ہیں، بلاشبہ اس دور میں تقویٰ کا اختیار کرنا بھی “جہاد” ہے، مگر “جہاد” کا لفظ جب مطلق بولا جاتا ہے اس سے اعدائے اسلام کے مقابلے میں جہاد مراد ہوتا ہے۔ اُمید ہے ان مختصر الفاظ سے آپ کی تشفی ہوجائے گی۔
کنیزوں کا حکم
س… آپ کی توجہ اسلام کے ابتدائی دور میں کنیز (لونڈی) کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، جیسا کہ سورہٴ موٴمنون میں ارشادِ خداوندی ہے: “جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا (کنیزوں) جو ان کی ملک میں ہوتی ہیں” اسلام میں اب کنیز (لونڈی) رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اور خلفائے راشدین کے دور میں کنیز رکھنے کی اجازت تھی یا نہیں؟
ج… اسلامی جہاد میں جو مرد اور عورتیں قید ہوکر آتی تھیں ان کو یا تو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جاتا تھا یا ان کا مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرالیا جاتا تھا، یا ان کو غلام اور باندیاں بنالیا جاتا تھا۔
اس قسم کی کنیزیں یا باندیاں (بشرطیکہ مسلمان ہوجائیں) ان کو بغیر نکاح کے بیوی کے حقوق حاصل ہوتے تھے، کیونکہ وہ اس شخص کی مِلک ہوتی تھیں۔ قرآنِ کریم میں “وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ” کے الفاظ سے انہی غلام اور باندیوں کا ذکر ہے۔
اب ایک عرصے سے اسلامی جہاد نہیں، اس لئے شرعی کنیزوں کا وجود بھی نہیں۔ آزاد عورت کو پکڑ کر فروخت کرنا جائز نہیں اور اس سے وہ باندیاں نہیں بن جاتیں۔
اس دور میں شرعی لونڈیوں کا تصوّر
س… شرعی لونڈیوں کا تصوّر کیا ہے؟ کیا قرآن شریف میں بھی لونڈی کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے؟ میں نے کہیں سنا ہے کہ قرآن پاک کا فرمان ہے کہ مسلمان چار بیویوں کے علاوہ ایک لونڈی بھی رکھ سکتا ہے، اور لونڈی سے بھی جسمانی خواہشات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اگر زمانہٴ قدیم میں شرعی لونڈی رکھنا جائز تھا جیسا کہ ہوتا رہا ہے تو اب یہ جائز کیوں نہیں ہے؟ پہلے وقتوں میں لونڈیاں کہاں سے اور کس طرح حاصل کی جاتی تھیں؟ جہاں تک میں نے پڑھا اور سنا ہے زمانہٴ قدیم میں لونڈیوں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی اب یہ سلسلہ ناجائز کیوں ہے؟
ج… جہاد کے دوران کافروں کے جو لوگ مسلمانوں کے ہاتھ آجاتے تھے ان کے بارے میں تین اختیار تھے، ایک یہ کہ ان کو معاوضہ لے کر رہا کردیں، دُوسرے یہ کہ بلامعاوضہ رہا کردیں، تیسرے یہ کہ ان کو غلام بنالیں۔
ایسی عورتیں اور مرد جن کو غلام بنالیا جاتا تھا ان کی خرید و فروخت بھی ہوتی تھی، ایسی عورتیں شرعی لونڈیاں کہلاتی تھیں، اور اگر وہ کتابیہ ہوں یا بعد میں مسلمان ہوجائیں تو آقا کو ان سے جنسی تعلق رکھنا بھی جائز تھا اور نکاح کی ضرورت آقا کے لئے نہیں تھی، چونکہ اب شرعی جہاد نہیں ہوتا، اس لئے رفتہ رفتہ غلام اور باندیوں کا وجود ختم ہوگیا۔
لونڈیوں پر پابندی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لگائی تھی؟
س… لونڈی کا رکھنا صحیح ہے یا کہ نہیں؟ اور اس کے ساتھ میاں بیوی والے تعلقات بغیر نکاح کے دُرست ہیں یا کہ نہیں؟ شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لونڈیوں پر پابندی لگائی تھی حالانکہ اس سے پہلے نبی علیہ السلام اور حضراتِ حسنین کے گھروں میں لونڈیاں ہوتی تھیں جو کہ جنگ کے بعد بطور مالِ غنیمت کے ملتی تھیں۔
ج… شرعاً لونڈی سے مراد وہ عورت ہے جو جہاد میں بطور مالِ غنیمت کے مجاہدین کے ہاتھ قید ہوجائے، اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کے ساتھ جنسی تعلق جائز ہے۔ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لونڈیوں پر پابندی لگائی تھی، بلکہ آپ غور فرمائیں تو شیعہ اُصول کے مطابق نہ لونڈیوں کی اجازت ثابت ہوتی ہے، نہ سیّدوں کا نسب نامہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ اُوپر لکھا، لونڈی وہ ہے جو جہاد سے حاصل ہو اور جہاد کسی مسلمان عادل خلیفہ کے ماتحت ہوسکتا ہے، خلافتِ راشدہ کے دور کو شیعہ جن الفاظ سے یاد کرتے ہیں وہ آپ کو معلوم ہے، جب خلفائے ثلاثہ کی خلافت صحیح نہ ہوئی تو ان کے زمانے میں ہونے والی جنگیں بھی شرعی جہاد نہ ہوئیں، اور جب وہ شرعی جہاد نہ تھا تو جو لونڈیاں آئیں ان سے تمتع بھی شرعاً جائز نہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ حضرت علی اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہم کے پاس شرعی لونڈیاں کہاں سے آگئی تھیں؟ حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کے پانچ سالہ دور میں کوئی جہاد کافروں سے نہیں ہوا، نہ لونڈیاں آئیں۔ تمام سیّد جو “حسن بانو” کی نسل سے ہیں یہ نسب اس وقت صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ یہ شرعی لونڈی ہوں اور شرعی لونڈی تب ہوسکتی ہیں کہ جہاد شرعی ہو، اور شرعی جہاد جب ہوسکتا ہے کہ حکومت شرعی ہو، تو معلوم ہوا کہ شیعہ یا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت کو شرعی حکومت مانیں یا سیّدوں کی صحتِ نسب سے انکار کریں۔