لڑکے کی عدم موجودگی میں دُوسرا شخص نکاح قبول کرسکتا ہے
س… کیا لڑکے کی عدم موجودگی میں اس کا والد یا وکیل لڑکے کی جانب سے نکاح قبول کرسکتا ہے؟ جبکہ ہمارے علاقے میں ایسا عام کیا جاتا ہے، بعد میں وہ لڑکے سے قبول کروالیتا ہے۔
ج… کسی دُوسرے کی جانب سے وکیل بن کر ایجاب و قبول کرنا صحیح ہے، اب اگر لڑکے نے اس کو ”نکاح کا وکیل“ بنایا تھا تب تو وکیل کا ایجاب و قبول خود اس لڑکے کی طرف سے ہی سمجھا جائے گا، بعد میں لڑکے سے قبول کرانے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر لڑکے نے وکیل مقرّر نہیں کیا تھا، کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر ہی وکیل بن گیا اور اس نے لڑکے کی طرف سے ایجاب و قبول کرلیا تو اس کا کیا ہوا نکاح لڑکے کی اجازت پر موقوف ہے، اگر لڑکا اس کو برقرار رکھے تو نکاح صحیح ہوگا، اور اگر مسترد کردے تو نکاح ختم ہوگیا۔
دُولہا کی موجودگی میں اس کی طرف سے وکیل قبول کرسکتا ہے
س… اگر کوئی شخص اپنے نکاح کے وقت موجود ہو اور وہ نکاح کی مجلس میں نہ بیٹھے تو اس شخص کا نکاح اس کا بھائی یا کوئی سرپرست اس کی طرف سے وکیل بن کر قبول کرسکتا ہے؟
ج… اگر کوئی شخص اس کی طرف سے وکیل بن کر قبول کرلے تو نکاح ہوجائے گا۔
کیا ایک ہی شخص لڑکی، لڑکے دونوں کی طرف سے قبول کرسکتا ہے؟
س… اگر کسی شادی میں لڑکی کا باپ نکاح میں کہے کہ: ”میں لڑکی کے والد کی حیثیت سے اپنی لڑکی کا نکاح فلاں لڑکے سے کرتا ہوں“ پھر کہے کہ: ”لڑکے کے سرپرست کی حیثیت سے میں قبول کرتا ہوں“ تین بار کہے تو کیا نکاح ہوگیا یا کہ نہیں؟
ج… جو شخص لڑکے اور لڑکی دونوں کی جانب سے وکیل یا ولی ہو، اگر وہ یہ کہہ دے کہ: ”میں نے فلاں لڑکی کا فلاں لڑکے سے نکاح کردیا“ تو نکاح ہوجاتا ہے۔ یعنی اس بات کی بھی ضرورت نہیں کہ ایک بار یوں کہے کہ: ”میں فلاں لڑکی کا فلاں لڑکے سے نکاح کرتا ہوں“، اور دُوسری بار یوں کہے کہ: ”میں اس لڑکے کی طرف سے قبول کرتا ہوں“، اور تین بار دہرانے کی بھی ضرورت نہیں، صرف ایک بار گواہوں کے سامنے کہہ دینے سے نکاح ہوجائے گا۔
بالغ لڑکے، لڑکی کا نکاح ان کی اجازت پر موقوف ہے
س… لڑکے کی عمر تقریباً بیس بائیس سال ہے، لڑکی کی عمر اَٹھارہ تا بیس سال ہے، دونوں عاقل بالغ شرعی اعتبار سے خود مختار ہیں، ان کا نکاح اس طرح کرایا گیا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے باپ کو مولوی صاحب نے اس طور سے ایجاب و قبول کرایا کہ لڑکی کے باپ سے مولوی صاحب نے پوچھا کہ: ”تم نے اپنی لڑکی بہ عوض حق مہر ان صاحب کے بیٹے کے نکاح میں دی؟“ انہوں نے جواب دیا کہ: ”میں نے دی!“ لڑکے کے باپ سے پوچھا کہ: ”تم نے اپنے لڑکے کے واسطے قبول کی؟“ انہوں نے کہا: ”قبول کی!“ اس کے بعد لڑکا اور لڑکی ہر دو کے والدین نے اپنے بچوں کو اس نکاح سے مطلع نہیں کیا، اب لڑکا علیحدہ زندگی بسر کر رہا ہے، اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نکاح ہوا یا نہیں؟
ج… یہ نکاح تو ہوگیا، مگر لڑکے اور لڑکی دونوں کی اجازت پر موقوف رہا، اطلاع ہونے کے بعد اگر دونوں نے قبول کرلیا تھا تو نکاح صحیح ہوگیا، اور اگر ان میں سے کسی ایک نے انکار کردیا تھا تو نکاح ختم ہوگیا۔
نکاح نامے پر صرف دستخط
س… وکیل اور گواہان لڑکی کے پاس گئے اور موجودہ قوانین کے مطابق صرف نکاح نامے کے رجسٹر پر لڑکی کا دستخط لے لیا، وکیل نے لڑکی سے کوئی بات نہ کہی، نہ لڑکے کا نام لیا، نہ مہر کی رقم بتائی، نہ خود کو وکیل گردانا، نہ نکاح پڑھانے کی اجازت لی، صرف دستخط لے کر نکاح خواں کے پاس لوٹ آئے، اور دونوں گواہوں نے بھی صرف دستخط کرتے ہی دیکھا، سنا کچھ بھی نہیں، اور ایسی ہی حالت میں نکاح خواں نے بھی بغیر گواہوں سے دریافت کئے نکاح پڑھادیا اور لڑکی بھی رُخصت ہوکر سسرال چلی گئی، کیا شرعاً نکاح ہوگیا؟ اور اگر نہیں ہوا تو کیا صورتِ حال سامنے آئے گی؟
ج… نکاح کے فارم میں یہ ساری تفصیلات درج ہوتی ہیں، جنھیں پڑھ کر لڑکی نکاح کی منظوری کے دستخط کرتی ہے، اس لئے نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
اجنبی اور نامحرَم مردوں کو لڑکی کے پاس وکیل بناکر بھیجنا خلافِ غیرت ہے
س… ہمارے یہاں رواج ہے کہ جب کسی گھر میں لڑکی کی منگنی کی جاتی ہے تو دس بیس آدمی یا کم و بیش لڑکے کے گھر والوں کی طرف سے لڑکی والے کے گھر جاتے ہیں، ساتھ ہی کافی مقدار میں مٹھائی وغیرہ اور لڑکی کے لئے کئی جوڑے کپڑے اور جوتے، انگوٹھی لڑکی کو پہناتے ہیں، جو تھوڑی دیر کے بعد اُتار دیتے ہیں۔ اس کے بعد لڑکے والوں کی آمد و رفت خلافِ معمول کسی تکلف کے بغیر رہتی ہے، پھر شادی سے دو چار دن پہلے لڑکی کو کچھ مستورات لڑکے کے گھر سے آکر مایوں بٹھاتی ہیں اور لڑکی کے والدین لڑکی کے لئے جہیز وغیرہ بناتے ہیں۔ غرض مدعا یہ ہے کہ یہ سب باتیں ہوتی ہیں اور لڑکی کو اپنے رشتے اور نسبت کا پورا پورا علم ہوتا ہے اور وہ تمام معاملے میں خاموش رہتی ہے۔ اور ان تمام باتوں کو لڑکی منظور کرتی ہے، اس کی صاف دلیل یہ ہے کہ لڑکی کسی بات پر انکار نہیں کرتی تو بوقتِ نکاح بعض حضرات لڑکی کے پاس اجازت کے لئے دو گواہ بھیجتے ہیں جو کہ غیرمحرَم ہوتے ہیں اور غیرمحرَم عورتوں میں بلاجھجک جاتے اور لڑکے سے اجازتِ نکاح اور وکیل کا سوال کرتے ہیں، اکثر و بیشتر لڑکی خود نہیں بولتی، پڑوس والی عورتوں میں سے کوئی عورت کہہ دیتی ہے کہ لڑکی نے فلاں کو وکیل مقرّر کیا ہے، جبکہ لڑکی کا باپ، بھائی، چچا وغیرہ مجلس میں موجود ہوتے ہیں، بعض اوقات ایسے نام بھی وکالت کے لئے سامنے آتے ہیں جن کی ولیٴ اَقرَب کی موجودگی میں وکالت جائز بھی نہیں ہوتی، کیا یہ سب کچھ جائز ہے؟
ج… اجنبی اور نامحرَم لوگوں کا لڑکی کے پاس اجازت کے لئے جانا خلافِ غیرت ہے، معلوم نہیں لوگ اس خلافِ غیرت و حیا رسم کو کیوں سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں؟ باپ لڑکی کا ولی ہے، وہی اس کی جانب سے نکاح کرنے کا وکیل اور مجاز بھی ہے، البتہ رشتہ طے کرنے اور مہر وغیرہ کے سلسلے میں لڑکی سے مشورہ ضرور ہونا چاہئے، اور یہ مشورہ لڑکی کی والدہ اور دُوسری مستورات کے ذریعہ ہوسکتا ہے، اور آج کل تو نکاح کے فارم میں تمام اُمور کا اندراج ہوتا ہے، نکاح کے فارم پر دستخط کرنے سے لڑکی کی اجازت بھی معلوم ہوجاتی ہے، اس لئے اجنبی نامحرَم اَشخاص کو دُلہن کے پاس بھیجنے (اور ان کے دُلہن سے بے حجابانہ ملنے) کی رسم قطعاً موقوف کردینی چاہئے، شادی کی تیاری کے باوجود کنواری لڑکی کا اس پر خاموش رہنا اس کی طرف سے اجازت ہے۔