الحمدﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
قادیانیت کا کُل سرمایہ غلط بیانی اور فریب دہی ہے، مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت کے قول و فعل کا جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے اس میں دجل و تلبیس، دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ راست گوئی و حق گوئی ان کی مذہبی لغت سے خارج ہے، وہ کذب بیانی و افترأ پردازی میں گوئلز کے استاذ مانے جاتے ہیں، ان کے تازہ ترین غلط بہتان کی ایک عجیب و غریب مثال ملاحظہ فرمائیے:
الحمدﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
قادیانیت کا کُل سرمایہ غلط بیانی اور فریب دہی ہے، مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت کے قول و فعل کا جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے اس میں دجل و تلبیس، دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ راست گوئی و حق گوئی ان کی مذہبی لغت سے خارج ہے، وہ کذب بیانی و افترأ پردازی میں گوئلز کے استاذ مانے جاتے ہیں، ان کے تازہ ترین غلط بہتان کی ایک عجیب و غریب مثال ملاحظہ فرمائیے:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ’’المصالح العقلیہ‘‘ ۱۳۳۵ھ میں لکھی گئی، اور اس وقت سے آج تک اس کے نامعلوم کتنے ایڈیشن نکل چکے ہیں، لیکن ستر سال بعد قادیانیوں نے انکشاف کیا کہ اس میں پانچ جگہ مرزا غلام احمد قادیانی کی پانچ کتابوں سے عبارتیں لفظ بہ لفظ نقل کی گئی ہیں، یہ انکشاف پہلے محمد شاہد قادیانی کے نام سے ۵؍ اور ۷؍مئی ۱۹۸۴ء کے ’’الفضل ربوہ‘‘ میں کیا گیا، اس کے بعد قادیانی ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ نے اسے شائع کیا، اور پھر کسی عبداللہ ایمن زئی نامی شخص کے نام سے ایک کتابچہ ’’کمالات اشرفیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا، جس میں بڑی تحدی سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ حضرت تھانویؒ نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں سے ’’کسب فیض‘‘ کیا ہے۔
حالانکہ قادیانیوں میں اگر عقل و انصاف کی ذرا بھی رمق ہوتی تو حضرت تھانویؒ کی کتاب کا مقدمہ اصل حقیقت کے اظہار کے لئے کافی تھا، چنانچہ حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’….. اس وقت بھی ایک ایسی کتاب جس کو کسی صاحب قلم نے لکھا ہے، مگر علم و عمل کی کمی کے سبب تمام تر رطب و یابس و غُث و سمین سے پُر ہے، ایک دوست کی بھیجی ہوئی میرے پاس دیکھنے کی غرض رکھی ہوئی ہے …… احقر نے نہایت بے تعصبی سے اس کتاب (المصالح العقلیہ) میں بہت سے مضامین کتاب مذکورہ بالا سے بھی جو کہ موصوف بصحت تھے، لے لئے ہیں۔‘‘
اس عبارت کے پیش نظر قادیانیوں کو بھی معلوم تھا کہ حضرت تھانویؒ نے مرزا غلام احمد کی کتابوں سے نہیں بلکہ اس کتاب سے بعض مضامین لئے ہیں، جس کا ذکر انہوں نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے، مگر قادیانیوں کو اطمینان تھا کہ جو کتاب حضرت تھانویؒ کا اصل ماخذ ہے، اور جس کا حوالہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں دیا ہے، اب دنیا سے نایاب ہوچکی ہے، نہ کوئی اس کتاب کو تلاش کرسکتا ہے، نہ حضرت تھانویؒ کے اصل ماخذ کی نشاندہی کی جاسکتی ہے، اور نہ کوئی اس شخص کا نام بتاسکتا ہے، جس کا حضرت تھانویؒ نے حوالہ دیا ہے، اس لئے اس تاریکی سے فائدہ اٹھاؤ اور مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کو سہارا دینے کے لئے ایک جھوٹ اور گھڑ ڈالو کہ حضرت تھانویؒ نے مرزا غلام احمد کی کتابوں پر اعتماد کیا ہے۔
حق تعالیٰ شانہ علامہ خالد محمود کو جزائے خیر عطا فرمائیں، انہوں نے حضرت تھانویؒ کے حوالہ کی کتاب ڈھونڈ نکالی اور قادیانی مکر و فریب کا سارا طلسم چاک کردیا۔
یہ کتاب جو حضرت تھانویؒ کا اصل ماخذ تھی، مرزا قادیانی کے ایک ہم عصر مولوی فضل محمد خان کی کتاب ’’اسرار شریعت‘‘ ہے، جو تین جلدوں میں ۱۳۲۷ھ میں شائع ہوئی۔
علامہ صاحب نے اپنے مضمون میں (جو پہلے ’’الخیر‘‘ ملتان میں اور پھر ماہنامہ ’’بینات‘‘ بنوری ٹاؤن کراچی بابت ماہ صفر المظفر ۱۴۰۵ھ میں شائع ہوا) یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت تھانویؒ کی عبارتیں من و عن ’’اسرار شریعت‘‘ میں موجود ہیں، اور یہ کہ مرزا قادیانی نے نقل کرتے ہوئے عبارتوں میں قدرے تصرف کیا ہے۔
علامہ خالد محمود صاحب کا یہ مضمون مطالعہ کے لائق ہے، اس کے ملاحظہ سے اس یقین میں مزید پختگی پیدا ہوگی کہ قادیانی لیڈروں کے پاس دجل و فریب اور مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں: وفی کل شیء لہٗ آیۃٌ تدل انہٗ کاذب!
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل و فہم نصیب فرمائیں تاکہ یہ لوگ سوچیں کہ جس مذہب کی گاڑی ہی مکر و فریب سے چلتی ہے، دنیا و آخرت میں رسوائی کے سوا کیا دے سکتا ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کی درستگی اور قادیانی دجل و تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لئے حضرت علامہ خالد محمود صاحب کا وہ مضمون بھی بطور ضمیمہ یہاں درج کیا جائے، لہٰذا ماہنامہ ’’بینات‘‘ سے وہ مضمون بلفظہٖ اس کتاب میں بھی نقل کیا جارہا ہے۔