سوءِ ادب کی بو آتی ہے
س… صحابہ کرام سے محبت رکھنا، عزت و عقیدت سے ان کا ذکر کرنا بندہ کا بھی جزو ایمان ہے، بلکہ اکثر اس میں غلو بھی ہوجاتا ہے، میرا سوال صرف یہ تھا کہ یہ جو قول ہے کہ جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاوٴگے، تو یہ اقتداء میں نے عرض کیا تھا کہ ان کے عقائد اور ایمان کی معلوم ہوتی ہے کہ اس میں جتنا ان کو رسوخ تھا اس کی مثال مشکل ہے، مگر ان کے اعمال میں اقتداء کا حکم نہیں ہے، مجھے خوشی ہے کہ میرے اس قول میں امام مزنی کا قول بھی تائید میں ملا ہے، أصحابی کالنجوم کی شرح میں فرماتے ہیں:
“اگر یہ حدیث صحیح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ روایت دین میں تمام صحابی ثقہ اور معتبر ہیں اس کے علاوہ اور کوئی معنی میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ اگر خود صحابہ اپنی رائے ہمیشہ صائب اور غلطی سے مبرا سمجھتے ہوتے تو نہ آپس میں ایک دُوسرے کی تغلیط کرتے اور نہ اپنے کسی قول سے رجوع کرتے حالانکہ بے شمار موقعوں پر وہ ایسا کرچکے ہیں۔”
الحمدللہ ثم الحمدللہ بس یہی مراد تھی، اور یہ میرے اس قول کا مطلب ہے کہ اقتداء صحابہ کرام کے عقائد اور ایمان کی معلوم ہوتی ہے، ان کے اعمال، عادات و اطوار کی نہیں، آپ اس سے کہاں تک متفق ہیں؟
ج… آپ نے حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کے متعلق جو الفاظ لکھے تھے ان سے کچھ سوءِ ادب کی بو آتی ہے، عقائد و ایمان تو سب کا ایک ہی تھا اور بیشتر اعمال بھی اور بعض اعمال میں اجتہادی اختلاف بھی تھا، تاہم “جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاوٴگے” کا یہی مصداق ہے، یعنی سب اپنی جگہ حق و ہدایت پر ہیں، جیسا کہ ائمہ اربعہ کے بارے میں اہل سنت قائل ہیں کہ وہ سب برحق ہیں ان کا ایک دُوسرے کی تردید و تغلیط کرنا بھی بنا بر اجتہاد ہے، ہر مجتہد اپنی رائے صائب اور غلطی سے مبرا سمجھتا ہے مگر ضنًّا۔