رُوحِ انسانی
س… رُوحِ انسانی جو من امر ربی ہے، مجرد اور لا یتجزیٰ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ایک بچے کی رُوح اور جوان کی رُوح کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے متفاوت ہے، دُوسرے یہ کہ جوان کی رُوح کے لئے تزکیہ درکار ہے کیونکہ وہ نفس کی ہمسائیگی سے شہوات اور رذائل میں ملوث ہوگئی ہے، مگر بچے کی رُوح تو ابھی بے لوث ہے تو چاہئے کہ اس پر حقائق اشیاء منکشف ہوں، مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اس پر ابھی عقل کا فیضان نہیں ہوا، اس سے ثابت ہوا کہ رُوح بذات خود ادراک نہیں رکھتی، یعنی گونگی اور اندھی ہے اور بغیر عقل اس کی کوئی حیثیت نہیں، اور وہ حدیث شریف جس میں منکر نکیر کے بارے میں سن کر حضرت عمر نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! اس وقت ہماری عقل بھی ہوگی یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے زیادہ ہوگی۔ انہوں نے کہا پھر کچھ ڈر نہیں۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عقل کے بغیر رُوح کسی کام کی نہیں، دُوسری طرف رُوح کے بڑے بڑے محیر العقول کارنامے اور واقعات کتابوں میں ملتے ہیں، بہت سے علماء اور صوفیاء نے فرمایا ہے کہ عقل رُوح اور قلب ایک ہی چیز ہے، نسبت بدلنے سے ان کے نام جدا بولے جاتے ہیں، امام غزالی نے بھی احیاء العلوم میں باب عجائبات قلب میں یہی کہا ہے صوفیاء کا شعر ہے:
عقل و رُوح و قلب تینوں ایک چیز
فعل کی نسبت سے کر ان میں تمیز
ج… یہ سوال بھی آپ کے حیطہٴ علم و ادراک سے باہر ہے، جیسا کہ: “من امر ربی” میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، تقریب فہم کے لئے بس اتنا عرض کیا جاسکتا ہے کہ اس مادی عالم میں رُوح مجرد کے تمام مادی افعال کا ظہور مادی آلات (عقل و شعور) کے ذریعہ ہوتا ہے اور مادیت کی طرف احتیاج رُوح کا قصور نہیں بلکہ اس عالم مادیت کا قصور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عالم مادیت میں حضرات انبیاء علیہم السلام بھی خورد و نوش کے فی الجملہ محتاج ہیں، کیونکہ رُوح کا جسم کے ساتھ علاقہ پیوستہ ہے، جیسا کہ: “وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّا یَأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ ․․․․” میں اس کی طرف اشارہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر خورد و نوش کے محتاج نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ نزول فرمائیں گے تو آسمان سے مشرقی مینار تک کا سفر تو فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور مینار پر قدم رکھتے ہی سیڑھی طلب فرمائیں گے، کیونکہ اب مادی احکام شروع ہوگئے۔
خلاصہ یہ کہ اس مادی عالم میں رُوح اپنے تصرفات کے لئے مادی آلات کی محتاج ہے، آپ چاہیں تو اپنے الفاظ میں اسے اندھی، بہری، گونگا اور لا یعقل کہہ لیں، اور رُوح کا تفاوت فی الافعال بھی اس کے آلات کے تفاوت سے ہے، مگر مادی آلات کے ذریعہ جو افعال رُوح سے سرزد ہوتے ہیں وہ ان کے رنگ سے رنگ جاتے ہیں اور نیک و بد اعمال سے مزکی اور ملوث ہوتی ہے، قبر کا بھی تعلق فی الجملہ عالم مادیت سے ہے اور فی الجملہ عالم تجرد سے، اس بنا پر اس کو عالم برزخ کہا جاتا ہے کہ یہ نہ تو بکل وجوہ عالم مادیت ہے اور نہ عالم مجرد محض ہے، اس لئے عقل و شعور یہاں بھی درکار ہے۔ (والتفصیل فی التفسیر الکبیر ج:۲۱ ص:۳۶ تا ۵۲)
س… بندہ ایک عامی اور جاہل شخص ہے، علم سے دور کا بھی مس نہیں، کسی دینی ادارے میں نہیں بیٹھا، علمائے کرام سے تخاطب کے آداب اور سوال کرنے کا طریقہ بھی نہیں معلوم، اس لئے گزارش ہے کہ کہیں بھول چوک یا بے ادبی محسوس ہو تو ازراہ کرم اس کو میری کم علمی کے سبب در گزر فرمادیا کریں۔
ج… آپ کے سوالات تو عالمانہ ہیں، اور آداب تخاطب کی بات یہاں چسپاں نہیں کیونکہ یہ ناکارہ خود بھی مجہول مطلق ہے، یہ تو ایک دوست کا دوست سے مخاطبہ ہے۔