کیا بغیر مشاہدہ کے یقین معتبر نہیں؟
س… “وَکَذٰلِکَ نُرِیَ اِبْرَاہِیْمَ مَلَکُوْتَ… الٰی… مُوْقِنِیْنَ۔” اس سے معلوم ہوا کہ بغیر مشاہدے کے یقین معتبر نہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں ان پر صحیفے بھی نازل ہوئے (صحف ابراہیم و موسیٰ) اور بہت سے عجائبات قدرت انہوں نے دیکھے، ہر وقت ان کا اللہ تعالیٰ سے قلبی رابطہ تھا، ان کو ملکوت السمٰوات والارض کی سیر بھی کرائی گئی، اس کے باوجود ان کا قلب مطمئن نہیں ہوتا اور “کَیْفَ تُحْیِ الْمُوْتٰی” کا سوال کرتے ہیں، تو پھر ایک عام سالک جو اللہ کے راستے پر چل رہا ہے اور اپنی لذات کی قربانی دے کر اپنی جان کھپا رہا ہے اور عالم قدس سے بشکل صوت و صورت اس پر کوئی فیضان نہیں ہو رہا پھر بھی اس کی طاعت میں کوئی کمی نہیں آتی، ایسی صورت میں وہ زیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کو ملکوت سے کچھ مشاہدہ کرادیا جائے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور استقامت نصیب ہو۔ انبیاء تو ویسے بھی ہر وقت ملکوت کی سیر کرتے رہتے ہیں۔
ج… یقین کے درجات مختلف ہیں، یقین کا ایک درجہ عین الیقین کا ہے جو آنکھ سے دیکھنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور ایک حق الیقین کا ہے جو تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے، اسی طرح عامہ موٴمنین، ابرار و صدیقین، انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے درجات میں بھی تفاوت ہے، ایمان کا درجہ تو عامہ موٴمنین کو بھی حاصل ہے اور ابرار و صدیقین کو ان کے درجات کے مطابق یقین کی دولت سے نوازا جاتا ہے اور حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے مراتب کے مطابق ان کو درجات یقین عطا کئے جاتے ہیں، پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سوال “کَیْفَ تُحْیِ الْمُوْتٰی” اس درجہ یقین اور اطمینان جو بلا روٴیت ہو پہلے بھی حاصل تھا۔ سالکین اور اولیاء اللہ کو بھی مشاہدات کی دولت سے نوازا جاتا ہے اور بغیر مشاہدات کے بھی ان کو یقین و اطمینان “ایمان بالغیب” کے طور پر حاصل ہوتا ہے لیکن ان کے ایمان اور اطمینان کو انبیائے کرام علیہم السلام کے ایمان و اطمینان سے کوئی نسبت نہیں اور وہ ان کے اطمینان اور یقین کا تحمل بھی نہیں کرسکتے ورنہ ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔