ذریعہ معاشِ نبوی ﷺ کا ایمان افروز واقعہ
ابوداؤد میں یہ واقعہ پیش کیا گیا ہے کہ حضرت بلال سے کسی نے پوچھا کہ آنحضرت ﷺ کا ذریعہ معاش کیا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ میں حضور ﷺ کا وزیر خزانہ تھا۔ جب بھی کوئی مہمان آتے۔ ایک یا زیادہ ․․․․․․․․ انکو کپڑے کی ضرورت ہوتی‘ انکو روٹی کی ضرورت ہوتی‘ انکو کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی‘ آنحضرت ﷺ مجھے ارشاد فرماتے تھے اور میں کسی سے قرض لے لیتا اور اس ضرورت مند کی ضرورت پوری کردیتا۔ ایک دن ایک یہودی مجھے ملا۔ وہ کہنے لگا کہ تمہیں ہر مہینے قرض لینا پڑتا ہے‘ تم مجھ سے قرض لے لیا کرو۔ (یہودی اور تنا فیاض․․․․․․․․ ماشاء اللہ!) مجھ سے قرض لے لیا کرو اور پرواہ نہ کرو۔ میں نے کہا بہت بہت شکریہ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے تو میں اسکے پاس پہنچ جاتا قرض کیلئے۔ ابھی مہینہ ختم ہونے میں کوئی تین چار دن باقی تھے میں وضو کر کے اذان کیلئے تیاری کر رہا تھا کہ اتنے میں وہ یہودی آیا اور اسکے ساتھ کچھ اور آدمی بھی تھے‘ مجھے کہنے لگا اُو حبشی غلام! مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں‘ میں نے کہا یہی کوئی دو چار دن باقی ہیں۔ کہنے لگا اگر مہینہ ختم ہونے پر میرا قرض ادا نہ کیا تو تجھ کو بیچ دونگا اور اس طرح اونٹ جاکر چرائے گا جس طرح پہلے چرایا کرتا تھا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
مجھے وہ صدمہ ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد میں حاضر خدمت ہوا اَور میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! وہ یہودی جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا کہا ہے۔ وہ یہودی ہے‘ اسکو تو کوئی ادب نہیں لحاظ نہیں۔ اگر حضور ﷺ اجازت فرمائیں تو میں اتنی دیر کیلئے باہر چلا جاؤں‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کیلئے کوئی انتظام فرما دیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بہت اچھا! (آنحضرت ﷺ کی اس “بہت اچھا” پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے۔ کبھی آنحضرت ﷺ نے کسی کو نہیں ٹوکا۔ ایسی عجیب ہستی تھی) فرمیا کہ میں نے اپنی تلوار‘ اپنی ڈھال اور اپنے جوتے سرہانے رکھ لیے اور صبح صادق کے انتظار میں بیٹھ گیا کہ ذرا روشنی ہو جائے تو جاتا ہوں۔ اتنے میں ایک آدمی آیا کہ آنحضرت ﷺ تجھ کو یاد فرماتے ہیں۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ آنحضرت ﷺ کے در دولت پر چار اونٹنیاں بیٹھی تھیں اور لدی ہوئی تھیں۔ ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے تیرے قرضے کا انتظام فرما دیا ہے۔ یہ اونٹنیاں جو غلے سے لدی ہوئی ہیں‘ فلاں صاحب نے مجھے بھیجی ہیں‘ جاؤ اپنا قراضہ ادا کرو‘ یہ تمہاری ہیں۔ میں بہت خوش ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے فجر کی نماز پڑھی۔ میں نے ان اونٹنیوں کو بھی اور جو ان پر لدا ہوا تھا اسکو بھی بیچا اور اس یہودی کا قرضہ ادا کای اور بھی جتنے قرضے تھے سب ادا کیے اور حاضر خدمت ہوکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا تمام بوجھ ادا کردیا ہے۔ فرمایا کچھ بچا بھی ہے۔ عرض کیا حضرت ابھی تو کچھ بھی نہیں خرچ ہوا‘ بہت کچھ ابھی باقی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ میں مسجد سے اس وقت گھر جاؤنگا جب تم اسکو خرچ کر دوگے۔ میں نے کہا حضرت اتنا جلدی تو خرچ نہیں ہوسکتا۔ فرمایا پھر میں بھی گھر نہیں جاتا‘ رات اسی مسجد میں گزاروں کا۔ حضرت بلال فرماتے ہیں دوسرے دن میں نے نمٹایا اور آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی کہ یا رسول اللہ! وہ سارا مال خرچ ہوگیا ہے‘ ٹھکانے لگ گیا ہے تو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا الحمد للہ! اور آپ اپنے گھروں میں تشریف لے گئے۔ تمام ازواجِ مطہرات کو جاکے سلام کہا۔
فائدہ: تو وہ صاحب جو حضرت بلال سے پوچھ رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا ذریعہ معاش کیا تھا۔ انکے سوال کا جواب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کا ذریعہ معاد یہ تھا۔