اللہ تعالیٰ کی محبت میں رونا
س… حدیث شریف میں اللہ کے خوف سے رونے پر بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے وغیرہ۔ جب کہ اللہ کی محبت، اشتیاق، طلب اور اس کے ہجر میں رونے کی کوئی حدیث یا فضیلت نظر سے نہیں گزری، اوروں کا حال تو معلوم نہیں، بندہ اپنی حالت عرض کرتا ہے کہ خوف سے تو پوری زندگی میں کبھی رونا نہیں آیا، البتہ اس کی یاد، محبت اور ذکر کرتے وقت بے اختیار رونا پہلے تو روز کا معمول تھا (ایک حالت گریہ طاری تھی) اور اب بھی اتنا تو نہیں مگر پھر بھی گریہ طاری ہوجاتا ہے، قرآن پاک سن کر، کوئی رقت آمیز واقعہ سن کر، کوئی ہجر و فراق اور محبوب کی بے اعتنائی کا مضمون سن کر، اپنی حسرت نایافت کا روزنامچہ پڑھ کر، کیا کوئی حدیث اس کے متعلق بھی ہے؟
ج… یہ تو ظاہر ہے رونا کئی طرح کا ہوتا ہے، محبت و اشتیاق میں رونا اور خوف و خشیت سے رونا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اوّل الذکر موٴخر الذکر سے اعلیٰ و ارفع ہے، پس جب مفضول کی فضیلت معلوم ہوگئی تو افضل کی اس سے خود بخود معلوم ہوجائے گی، مثلاً: شہداء کے جتنے فضائل احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں، صدیقین کے بظاہر اتنے نہیں ملتے، مگر سب جانتے ہیں کہ صدیقین شہدأ سے افضل ہیں، پس جو فضائل شہدأ کے ہیں صدیقین کے ان سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔ علاوہ ازیں خشیت الٰہی سے رونے کی فضیلت اس بنا پر بھی ذکر کی گئی ہے کہ بندے کی حالتِ ضعف و ناکارگی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ خشیت الٰہی سے روئے، اس لئے کہ حق تعالیٰ کی بارگاہِ بے چون وچگون کے لائق پوری زندگی کا ایک عمل بھی نظر نہیں آتا، بندہ اپنی بے چارگی کی بنأ پر بالکل صفر اور خالی ہاتھ نظر آتا ہے، خطاوٴں، غلطیوں اور گناہوں کے انبار در انبار ہیں، لیکن ان کے مقابلے میں نیکی ایک بھی ایسی نہیں جو اس بارگاہ عالی کے شایان شان ہو، اور جس کے بارے میں بندہ جرأت کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ یہ نیکی لایا ہوں۔ ایسی حالت میں عشق و محبت کے سارے خیالات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور سوائے خوف و خشیت کے کچھ پلّے نہیں رہتا، گویا خوف سے رونے کی فضیلت جن احادیث میں آئی ہے ان میں۔ واللہ اعلم۔ یہ رمز ہے کہ بندے کو “ایاز قدر خویش بہ شناس” پر نظر رہے اور عشق و محبت کے دعووٴں سے مغرور نہ ہوجائے۔