یہ حبِ صحابہ نہیں جہالت ہے
س… آپ کے ہفت روزہ ختم نبوت شمارہ ۳۰، جلد۶، صفحہ ۹ پر حضرت مولانا احمد سعید صاحب کی تحریر میں ایک جلیل القدر صحابیٴ رسول حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو نعوذ باللہ ظالم لکھا گیا ہے، کیا یہ سہو ہوا ہے؟ یا عمداً؟ اس لئے آپ کو تکلیف دی گئی ہے کہ ختم نبوت جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں جو صحابہ کرام کے دشمن ہیں؟ تاکہ ان کا بندوبست کیا جائے۔
ج… مکتوب الیہم کی فہرست میں آنجناب نے ازراہِ ذرہ نوازی اس ناکارہ کا نام بھی درج فرمایا ہے، بلاتواضع عرض کرتا ہوں کہ یہ ہیچ مداں اس لائق نہیں کہ اس کا شمار -والله ثم والله- علماء میں کیا جائے، یہ ناکارہ علمائے ربانیین کا تابع مہمل اور زلّہ بار رہا ہے، اور بس۔ ہمارے حضرت عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحی عارفی قدس سرہ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
گرچہ از نیکاں نیم لیکن بہ نیکاں بستہ ام
در ریاض آفرینش رشتہ گلدستہ ام
بہرحال یہ ناکارہ اس ذرہ نوازی پر آنجناب کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اس خط کے سلسلے میں چند معروضات پیش کرتا ہے۔
۱:…سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ہمارے ممتاز اکابر میں سے تھے، جمعیة العلماء ہند کے جنرل سیکرٹری اور امام ربانی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے دست راست تھے، ان کا ترجمہ قرآن، جنت کی کنجی، دوزخ کا کھٹکا، موت کا جھٹکا شہرہٴ آفاق کتابیں ہیں، جناب کی نظر سے بھی گزری ہوں گی، انہی کی تصنیفات میں سے ایک ایمان افروز کتاب “معجزات رسول صلی اللہ علیہ وسلم” ہے، جو ہفت روزہ ختم نبوت میں “سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات یا پیشگوئیاں” کے عنوان سے سلسلہ وار شائع ہو رہی ہے، اور آنجناب کے خط میں جس تحریر کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اسی کتاب کی ایک قسط ہے، اور جن الفاظ پر گرفت کی گئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں، جنہیں حضرت مصنف نے امام بیہقی کی کتاب کے حوالے سے درج کیا ہے، وہ حدیث یہ ہے:
“بیہقی نے دلائل النبوة میں روایت کیا ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر اور حضرت علی کو باہم ہنستے ہوئے دیکھا، آپ نے حضرت علی سے دریافت کیا: اے علی! کیا تم زبیر کو دوست رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! میں ان کو کیسے دوست نہ رکھوں، یہ میری پھوپھی کے بیٹے اور میرے دین کے پابند ہیں۔ پھر آپ نے حضرت زبیر سے دریافت کیا: اے زبیر! کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو؟ زبیر نے کہا: میں علی کو کیسے دوست نہ رکھوں، یہ میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور میرے دین کے پیروکار ہیں! پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! ایک دن تم علی سے قتال کروگے اور تم ظالم ہوگے۔ چنانچہ جنگِ جمل میں حضرت زبیر نے حضرت علی سے مقابلہ کیا اور جنگ کی، جب حضرت علی نے ان کو یاد دلایا کہ: کیا تم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہے کہ: “تم علی سے قتال کروگے اور تم ظالم ہوگے”؟ حضرت زبیر نے فرمایا کہ: ہاں! یہ بات حضور نے فرمائی تھی، لیکن مجھ کو یاد نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد زبیر واپس ہوگئے، مگر ابن جبرود نے وادی السباع میں -جو ایک مشہور وادی ہے- حضرت زبیر کو شہید کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشین گوئی فرمائی تھی، ویسا ہی ہوا۔ حضرت زبیر، حضرت علی کے مقابل ہوئے اور جب یہ وادی میں سو رہے تھے تو سوتے ہی میں ابن جبرود نے ان کو شہید کردیا۔”
(دلائل النبوة للبیہقی ج:۶ ص:۴۱۵، کنز العمال ج:۱۱ ص:۳۳۰ حدیث:۳۱۶۵۲)
یہ ناکارہ، انجمن سپاہ صحابہ کے احساسات کی قدر کرتا ہے، لیکن مندرجہ بالا پس منظر کی روشنی میں جناب سے انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے التجا کرتا ہے کہ آپ کے خط کا یہ فقرہ ہم خدامِ ختم نبوت کے لئے نہایت تکلیف دہ ہے کہ:
“ختم نبوت میں وہ کون سے لوگ ہیں جو صحابہ کرام کے دشمن ہیں، تاکہ ان کا بندوبست کیا جائے۔”
انصاف کیجئے کہ اگر خدامِ ختم نبوت اس کتاب کے نقل کردینے کی وجہ سے “دشمنِ صحابہ” کے خطاب کے مستحق ہیں تو مولانا احمد سعید دہلوی اور ان سے پہلے امام بیہقی اور دیگر وہ تمام اکابر جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے کس خطاب کے مستحق ہوں گے․․․؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسی زیادتی ہے کہ جو انجمن سپاہ صحابہ کی طرف سے خدامِ ختم نبوت سے کی گئی، جس کی شکایت بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کی جائے گی، اور میں آنجناب سے توقع رکھوں گا کہ آپ اس زیادتی پر معذرت کریں۔
۲:…آپ نے جن اہلِ علم کو خطوط لکھے ہیں، آپ کے لئے زیادہ موزوں یہ تھا کہ آپ ان حضرات سے یہ استفسار کرتے کہ یہ حدیث جو “ختم نبوت” میں حضرت مولانا احمد سعید دہلوی کی کتاب میں امام بیہقی کے حوالے سے درج کی گئی ہے، جرح و تعدیل کی میزان میں اس کا کیا وزن ہے؟ وہ فنِ حدیث کی روشنی میں صحیح ہے یا ضعیف؟ یا خالص موضوع(من گھڑت)؟ اور یہ مقبول ہے یا مردود؟ اگر صحیح یا مقبول ہے تو اس کی تاویل کیا ہے؟ جو ایک جلیل القدر صحابی، حواریٴ رسول، احد العشرة المبشرة کی جلالتِ قدر اور علوِ مرتبت سے میل کھاتی ہو․․․؟
آپ کے اس سوال کے جواب میں اہلِ علم جو کچھ تحریر فرماتے آپ اسے “ختم نبوت” میں شائع کرنے کے لئے بھیج دیتے، یہ ایک بہترین علمی خدمت بھی ہوتی اور اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و محبت بھی قلوب میں جاگزیں ہوتی۔
مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط میں جس جذباتیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے خدانخواستہ آگے نہ بڑھ جائے، اور کل یہ کہا جانے لگے کہ قرآن کریم میں جلیل القدر انبیائے کرام علیہم السلام کو -نعوذ باللہ- ظالم کہا گیا ہے، مثلاً:
آدم علیہ السلام کے بارے میں دو جگہ ہے:
“وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔”
(البقرة:۳۵، الاعراف:۱۹)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:
“رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ۔” (القصص:۱۶)
حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ہے:
“لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔” (الانبیاء:۸۷)
اب ایک “سپاہِ انبیاء” تشکیل دی جائے گی اور وہ، بزرگوں کے نام اس مضمون کا خط جاری کرے گی کہ: “ترتیبِ قرآن میں وہ کون لوگ گھس آئے تھے جو انبیائے کرام کے دشمن تھے؟ تاکہ ان کا بندوبست کیا جائے!”
ظاہر ہے کہ انبیائے کرام کا مرتبہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے برتر ہے اور “ختم نبوت” کو قرآن کریم سے کیا نسبت؟
اب اگر انبیائے کرام علیہم السلام کے حق میں قرآن کریم کے مقدس الفاظ کی کوئی مناسب تاویل کی جاسکتی ہے تو اسی قسم کی تاویل حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی بھی کیوں نہ کرلی جائے؟ ختم نبوت میں “دشمنانِ صحابہ” کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں؟