یہ بدعت نہیں
س… سالہاسال سے تبلیغی جماعت والے شب جمعہ مناتے چلے آرہے ہیں، اور کبھی بھی ناغہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، خدانخواستہ یہ عمل اس حدیث کے زمرے میں نہیں آتا ہے کہ: ”لا تختصوا لیلة الجمعة…الخ۔“ اور نیز اس پر دوام کیا بدعت تو نہ ہوگا؟
ج… تعلیم و تبلیغ کے لئے کسی دن یا رات کو مخصوص کرلینا بدعت نہیں، نہ اس کا التزام بدعت ہے، دینی مدارس میں اسباق کے اوقات مقرر ہیں، جن کی پابندی التزام کے ساتھ کی جاتی ہے، اس پر کبھی کسی کو بدعت کا شبہ نہیں ہوا․․․ !
س… میں نے ایک کتاب (تحذیر المسلمین عن الابتداع والبدع فی الدین) کا اردو ترجمہ ”بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم“ مصنف علامہ شیخ احمد بن حجر قاضی دوحہ قطر، کا مطالعہ کیا، کتاب کافی مفید تھی، بدعات کی جڑیں اکھاڑ پھینک دیں۔ البتہ کفن اور جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق بدعات کے عنوان سے اپنی کتاب صفحہ ۵۰۶ پر لکھتے ہیں کہ قبر میں تین لپ مٹی ڈالتے وقت ہر لپ کے ساتھ “منھا خلقناکم” اسی طرح دُوسرے لپ پر ”وفیھا نعیدکم“ اور اسی طرح تیسرے لپ کے ساتھ ”ومنھا نخرجکم تارة اخری“ کہنا بدعت ہے، آپ سے التما س ہے کہ اس بارے میں وضاحت کیجئے۔
اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ میّت کے سرہانے سورہٴ فاتحہ اور پاوٴں کی طرف سورہٴ بقرہ پڑھنا بدعت ہے، اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔ اسی طرح صفحہ ۵۲۱ پر رقمطراز ہیں کہ بعض لوگ صدقہ کی غرض سے پوری قربانی کا گوشت یا معین مقدار کو پکا ڈالتے ہیں اور فقراء کو بلاکر یہ پکا ہوا گوشت تقسیم کردیتے ہیں اس کو بدعت کہا ہے، اور یہ طریقہ عمل جائز نہیں ہے کہا ہے، مہربانی فرماکر اس کی بھی وضاحت سے نوازیں۔
ج… ان تین چیزوں کا بدعت ہونا میری عقل میں نہیں آیا۔
ا:…حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت شریفہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے:
”وفی الحدیث الذی فی السنن: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضر جنازة، فلما دفن المیّت اخذ قبضة من التراب، فالقاہا فی القبر وقال: منھا خلقناکم، ثم اخذ اخریٰ وقال: وفیھا نعیدکم، ثم اخریٰ وقال: ومنھا نخرجکم تارةً اخریٰ۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص:۱۵۶)
ترجمہ:…”اور جو حدیث سنن میں ہے، اس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ میں حاضر ہوئے، پس جب میّت کو دفن کیا گیا تو آپ نے مٹی کی ایک مٹھی لی اور اس کو قبر پر ڈالا اور فرمایا: منھا خلقناکم (اسی مٹی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا) پھر دُوسری مٹھی لی (اور قبر میں ڈالتے ہوئے) فرمایا: وفیھا نعیدکم (اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے) پھر تیسری مٹھی لی (اس کو قبر میں ڈالتے ہوئے) فرمایا: ومنھا نخرجکم تارةً اخریٰ (اور اسی سے ہم تمہیں دوبارہ نکالیں گے)۔“
اور ہمارے فقہاء نے بھی اس کے استحباب کی تصریح کی ہے، چنانچہ ”الدرر المنتقیٰ شرح ملتقی الابحر“ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (ج:۱ ص:۱۸۷)
۲:…اور قبر کے سرہانے فاتحہٴ بقرہ اور پائینتی میں خاتمہٴ بقرہ پڑھنے کی تصریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں موجود ہے جس کے بارے میں بیہقی نے کہا ہے: ”والصحیح انہ موقوف علیہ۔“ (مشکوٰة ص:۱۴۹)
اور آثار السنن (۲/۱۲۵) میں حضرت لجلاج صحابی کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی:
”ثم سُنَّ علیّ التراب سنًا، ثم اقرأ عند رأسی بفاتحة البقرة وخاتمتہا، فانی سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول ذالک۔ رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر، واسنادہ صحیح۔ وقال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد: رجالہ موثقون۔“
(اعلاء السنن ج:۸ ص:۳۴۲ حدیث:۲۳۱۷)
ترجمہ:…”پھر مجھ پر خوب مٹی ڈالی جائے، پھر میرے سرہانے (کھڑے ہوکر) سورہٴ بقرہ کی ابتدائی و آخری آیات پڑھی جائیں، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔“
۳:…قربانی کے گوشت کی تقسیم کا تو حکم ہے، اگر پکاکر فقراء کو کھلایا جائے تو یہ بدعت کیوں ہوگئی، یہ بات میری عقل میں نہیں آئی، والله اعلم!