صنفِ نازک کا جوہرِ اصلی
س… مولانا صاحب! آج کل ہر طرف عریانی، فحاشی اور بے حیائی کے مناظر اور مظاہرے عام ہو رہے ہیں، کبھی کسی عنوان سے اور کبھی کسی عنوان سے صنفِ نازک کے جوہرِ اصلی، شرم و حیا اور عفت و عصمت کو تار تار کیا جارہا ہے، لیکن اس بے حیائی کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھاتا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں اُمت کی راہ نمائی فرمادیں، نوازش ہوگی۔
ج… کسی زمانے میں شرم و حیا، صنفِ نازک کا اصل جوہر، انسانی سوسائٹی کی بلند قدر، اسلامیت کا پاکیزہ شعار اور مشرقی معاشرے کا قابلِ فخر امتیازی نشان سمجھا جاتا تھا۔ اوّل تو انسان کی فطرت ہی میں عفت، حیا اور ستر کا جذبہ ودیعت فرمایا گیا ہے (بشرطیکہ فطرت مسخ نہ ہوگئی ہو)، پھر مسلمانوں کو اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم (باٰبائنا ھو وأمھاتنا وأرواحنا) کے یہ ارشادات یاد تھے:
۱:… چار چیزیں تمام رسولوں کی سنت ہیں: حیا، خوشبو کا استعمال، مسواک اور نکاح۔ (ترمذی)
۲:… ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں، ان میں سب سے بڑھ کر “لا اِلٰہ اِلَّا الله” کہنا ہے، اور سب سے کم درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے، اور حیا، ایمان کا بہت بڑا شعبہ ہے۔ (بخاری و مسلم)
۳:… حیا سراپا خیر ہے۔ (بخاری و مسلم)
۴:… حیا، ایمان کا حصہ ہے، اور ایمان جنت میں (لے جانے والا) ہے، اور بے حیائی، بے مروّتی ہے اور بے مروّتی جہنم سے ہے۔ (مسندِ احمد، ترمذی)
۵:… ہر دین کا ایک امتیازی خلق ہوتا ہے، اور اسلام کا خلق حیا ہے۔
(موٴطا مالک، ابنِ ماجہ، بیہقی)
۶:… حیا اور ایمان باہم جکڑے ہوئے ہیں، جب ایک کو اُٹھادیا جائے تو دُوسرا خودبخود اُٹھ جاتا ہے۔ (اور ایک روایت یہ ہے کہ) جب ایک سلب کرلیا جائے تو دُوسرا بھی اس کے ساتھ ہی رُخصت ہوجاتا ہے۔ (بیہقی)
انسانی فطرت اور نبوی تعلیم کا یہ اثر تھا کہ مسلمانوں میں حیا، عفت اور پردے کا عقیدہ جزوِ ایمان تھا، خلافِ حیا معمولی حرکت بھی مذہبی اور سماجی جرم اور سنگین جرم سمجھی جاتی تھی، لیکن مغربی تہذیب کے تسلط سے اب یہ حالت ہے کہ شاید ہمیں معلوم بھی نہیں کہ شرم و حیا کس چیز کا نام ہے؟ مردوں کی نظر اور عورتوں کی حرمت و آبرو سے پہرے اُٹھادئیے گئے ہیں، سرِ بازار عورتوں کو چھیڑنے، اور بھری بسوں میں عورتوں کے بالوں سے کھیلنے کی خبریں ہم سبھی پڑھتے ہیں۔ سرِ شام کراچی، لاہور، پنڈی کے بازار عریانی اور فحاشی میں پیرس کو شرماتے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے سینما تک مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط اور جنسی محرکات کا طوفان برپا ہے۔ مخصوص ملازمتوں کے لئے مرد و عورت کے برہنہ معائنے ہوتے ہیں، کیا ہمارے اس گندے معاشرے کو دیکھ کر یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت خیر الاُمم ہے، جسے تمام عالم کی رُوحانی قیادت سونپی گئی تھی؟
ہمارے ایمانی اقدار کا جو بچاکھچا اثاثہ ان طوفانی موجوں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہ گیا تھا، اس کے بارے میں ہمارے ناخدایانِ قوم کس ذہن سے سوچتے ہیں؟ اس کا اندازہ ذیل کی اخباری اطلاع سے کیجئے:
“خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں شرم و حیا کا پردہ چاک کردیا جائے”
سینتاگو ۱۶/ اپریل (ا پ پ، رائٹر) خاندانی منصوبہ بندی کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں منصوبہ بندی سے متعلق شرم و حیا کا پردہ چاک کرنے کے لئے موٴثر اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ یہ بات یہاں والدین کی بین الاقوامی کانفرنس میں کہی گئی، اس موقع پر پاکستان کے خاندانی منصوبہ بندی کے کمشنر مسٹر انور عادل نے کہا کہ ضبطِ تولید کے لئے مانعِ حمل ادویات کا استعمال چوری چھپے کیا جاتا ہے، جو غلط ہے، اور اس طریقے کو ختم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضبطِ تولید کے موضوع پر واضح طور پر اور معاشرے میں ہر جگہ کھلم کھلا تبادلہٴ خیال کیا جانا چاہئے۔ مسٹر عادل نے والدین کی آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ اپنے خاندان کی توسیع کی روک تھام کے لئے ضبطِ تولید کے خواہش مند ہیں، لیکن وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر انہیں خاندانی منصوبہ بندی کے ہسپتال میں دیکھا گیا تو ان کے لئے شرمندگی کا باعث ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ضبطِ تولید کے لئے ہر ممکن آسانیاں اور مانع حمل اشیاء فراہم کی جائیں۔” (روزنامہ “جنگ” کراچی ۱۸/اپریل ۱۹۶۷ء)
جس اہم مقصد کی کامیابی کے لئے شرم و حیا کا پردہ چاک کرنے اور ایمان و اخلاق کی قربانی دینے کی پُرزور دعوت سے “بین الاقوامی کانفرنس” کو مشرف فرمایا جاتا ہے اس کے بدترین نتائج پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔
“مغربی عورت کو ایک نئے مسئلے کا سامنا”
“ہیمبرگ ۱۴/اپریل (پ پ ا) مانعِ حمل گولیوں کے استعمال سے عورتوں کی جنسی خواہش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، چنانچہ معاشرتی اور سیاسی میدان میں مساوی حقوق حاصل کرنے کے بعد اب عورت جنسی معاملات میں بھی اخلاقی روایات کو پسِ پشت ڈال کر مرد جیسا کردار انجام دینے کے لئے بے چین ہے۔ یہ مسئلہ آج کل مغربی جرمنی کے ڈاکٹروں، سائنس دانوں اور ماہرینِ نفسیات و جنسیات کے درمیان موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ جرمن اور امریکن ماہرین کی حالیہ تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ مانعِ حمل گولیاں استعمال کرنے والی عورتوں میں ایک تہائی سے زائد عورتوں کی جنسی خواہش میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے حتیٰ کہ بعض عورتوں کو اپنے بھڑکتے ہوئے جذبات پر قابو پانے کے لئے ڈاکٹروں سے رُجوع کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ سوسائٹی آف فیملی پلاننگ کے سائنس دانوں، جرمن ماہرینِ جنسیات و پیدائش دونوں اس نتیجے سے متفق ہیں۔ ہیمبرگ کے ڈاکٹر ہرٹااسٹول نے لکھا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ جدید دور کی عورت اپنے شوہر کے جذبات بھڑکانے کے نت نئے طریقے استعمال کر رہی ہے۔ یہ تمام ماہرین اس اَمر پر متفق ہیں کہ وہ دن دُور نہیں جب عاشق ہونا اور محبت میں پیش قدمی کرنا صرف مردوں کا حق نہ ہوگا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ عورتیں اس میدان میں مردوں سے بہت آگے نکل جائیں۔”