شریعت کی معرفت میں اعتماد علی السلف
س… شاہ ولی ا للہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ: “شریعت کی معرفت میں سلف پر اعتماد کیا جائے۔” لیکن آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے اثبات میں اس اصول کو ترک کردیا ہے، نیز قرآن کریم میں “قَدْ جَآئَکُم مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ” میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو نہیں، نور کو ثابت کیا گیا ہے۔ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ آدم علیہ السلام ابھی تک گارے مٹی میں تھے کہ میرا نور پیدا ہوا تھا، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر بشر تھے تو آپ کا سایہ کیوں نہیں تھا؟ تفصیل سے جواب دیں۔
ج… آنجناب نے حضرت حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے جو اصول نقل کیا ہے کہ “شریعت کی معرفت میں سلف پر اعتماد کیا جائے…الخ” یہ اصول بالکل صحیح اور درست ہے، اور یہ ناکارہ خود بھی اس اصول کا شدت سے پابند ہے، اور اس زمانے میں اسی کو ایمان کی حفاظت کا ذریعہ اور سلامتی کا راستہ سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ناکارہ نے اپنی تالیف “اختلاف امت اور صراط مستقیم” میں جگہ جگہ اکابر اہل سنت کے حوالے درج کئے ہیں۔
“نور اور بشر” کی بحث میں آپ کا یہ خیال کہ میں نے اکابر کی رائے سے الگ راستہ اختیار کیا ہے، صحیح نہیں۔ بلکہ میں نے جو کچھ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی، یہی قرآن کریم کا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا، صحابہ و تابعین اور اکابر اہل سنت کا عقیدہ ہے، قرآن کریم نے جہاں “قَدْ جَآئَکُم مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ” فرمایا ہے، وہیں “قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ… الخ۔” بھی فرمایا ہے، اور جن اکابر کے آپ نے حوالے دئیے ہیں وہ بھی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کے قائل ہیں وہیں آپ کی بشریت کے بھی قائل ہیں۔
میں نے تو یہ لکھا تھا کہ نور اور بشر کے درمیان تضاد سمجھ کر ایک کی نفی اور دُوسرے کا اثبات کرنا غلط ہے، تعجب ہے کہ جس غلطی پر میں نے متنبہ کیا تھا آپ اسی کو بنیاد بناکر سوال کر رہے ہیں، اکابر امت میں سے ایک کا نام تو لیجئے جو کہتے ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں، صرف نور ہیں۔
اور پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے (نور ہونے کے ساتھ ساتھ) بشر ہونے پر جو عقلی ونقلی دلائل دئیے تھے تو آنجناب نے ان کی طرف التفات نہیں فرمایا، کم سے کم شرح عقائد نسفی، جو تمام اہل سنت کی متفق علیہا ہے، اور فتاویٰ عالمگیری کے جو حوالے دئیے تھے انہی پر غور فرمالیا جاتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح مقدسہ و مطہرہ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے قبل تخلیق کی گئی ہو، اس سے آپ کے بشر ہونے کی نفی کیسے لازم آئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کا سایہ نہ ہونے کی روایت اول تو حضرات محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں، علاوہ ازیں سایہ نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ پر بادل کا ٹکڑا سایہ فگن رہتا ہو، یا جس طرح رُوح کا سایہ نہیں ہوتا اسی طرح غلبہٴ نورانیت کی وجہ سے آپ کے جسد اطہر پر رُوح کے احکام جاری ہوں، حضرات عارفین تجسد ارواح اور تروح اجساد کی اصطلاحات سے واقف ہیں، بہرحال محض سایہ نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں تھے، چنانچہ ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جانتی ہیں، فرماتی ہیں: “کان بشر من البشر۔” (مشکوٰة شریف ص:۵۲۰) الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا نور ہونے سے کسی کو انکار نہیں، نہ اس ناکارہ نے اس کا انکار کیا ہے۔بحث اس میں ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے منافی ہے؟ میں نے یہ لکھا ہے کہ منافی نہیں، بلکہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور ہیں ٹھیک اسی طرح سراپا بشر بھی ہیں۔ اگر قرآن کریم، حدیث نبوی اور اکابر امت کے ارشادات میں آنجناب کو کوئی دلیل میرے اس معروضہ کے خلاف ملے تو مجھے اس کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔
نشر الطیب میں جہا ں حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ نے نور محمدی (علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات) کے پیدا ہونے کا لکھا ہے، وہاں حاشیہ میں اس کی تشریح بھی فرمادی ہے، اس کو بھی ملاحظہ فرما لیا جائے۔ (نشر الطیب ص:۵)