صحابہ کے بارے میں تاریخی رطب و یابس کو نقل کرنا سوءِ ادب ہے
س… آپ نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے بارے میں جو الفاظ بندے نے لکھے تھے ان سے سوءِ ادب کی بو آتی ہے۔ حق تعالیٰ سوءِ ادب سے محفوظ رکھے، صحابہ تو بہت بڑے مرتبوں کے مالک ہیں، بندہ تو ایک فاجر و فاسق مسلمان کی ذات کو بھی عزت کی نظر سے دیکھتا ہے، اس پر بندے کے کچھ اشعار سماعت فرمائیں:
ہر مسلمان کو محبت ہے رسول اللہ سے
ہر مسلمان کو رسول اللہ کی نسبت سے دیکھ
ہر مسلمان محترم تجھ کو نظر آئے گا پھر
جب بھی دیکھے تو مسلمان کو اسی نسبت سے دیکھ
اس سے آگے بھی ایک ادب ہے جو خالق و مخلوق کی نسبت سے ہے:
وہ شرابی ہو کہ زانی فعل مطلق ہے برا
فعل کی تحقیر کر پر ذات کو عزت سے دیکھ
پھر بندے کی نظر میں اس سے بھی آگے اک ادب ہے:
کنبہ سب خالق کا ہے مخلوق ہے جتنی یہاں
کیا نصاریٰ کیا مسلمان سب کو تو عزت سے دیکھ
میرے یہ اشعار عام مخلوق خدا کے بارے میں ہیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادب کا اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے، کسی واقعہ کو جو متفق علیہ ہو تاریخ سے یا حدیث سے نقل کرنا مجھ ناچیز کے خیال میں تو سوءِ ادب میں نہیں آتا کیونکہ اس کے مرتکب تو سیکڑوں موٴرخین، مفسرین، محدثین اور علماء و فضلاء ہوئے ہیں، پھر تو وہ سب بے ادب ٹھہرتے ہیں؟
اگر آپ امام مزنی کے قول سے متفق ہیں تو بس وہی بندے کی مراد تھی کہ صحابہ کی اقتداء ان کی روایت دین اور ثقاہت ایمان میں معلوم ہوتی ہے نہ کہ ان کے افعال و اقوال و عادات و اطوار اور ذاتی اعمال میں۔ بہت موٹی سی بات ہے کہ جب شارع علیہ السلام کے عادات و اطوار نشست و برخاست جو سنن زوائد کہلاتی ہیں، ان کے اتباع کی امت مسلمہ مکلف نہیں ہے تو اصحاب رسول کے عادات و اطوار اور افعال کی کیسے مکلف ہوسکتی ہے؟ بندہ کم علم ہے اس لئے شاید اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح بیان نہیں کرسکا، آپ صاحب علم ہیں یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ میری مراد کیا ہے؟
ج… تاریخ میں تو رطب و یابس سب کچھ بھردیا گیا ہے، لیکن ان واقعات کو بطور استدلال نقل کرنا سوءِ ادب سے خالی نہیں، ان کے محاسن سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ان سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں ہم جیسے لوگوں کے حوصلے سے بڑی بات ہے۔
امام مزنی کا قول میری نظر سے نہیں گزرا تاکہ یہ دیکھتا کہ ان کی مراد کیا ہے؟ جہاں تک صحابہ کرام کی اقتداء کا مسئلہ ہے بعض ظاہریہ تو ان کے اقوال و افعال کو حجت ہی نہیں سمجھتے، ابن حزم ظاہری اکثر یہ فقرہ دہراتے رہتے ہیں : “لا حجة فی قول صاحب ولا تابع”، لیکن عامة العلماء کے نزدیک صحابہ کے اقوال و افعال بھی لائق اقتداء ہیں البتہ تعارض احوال و افعال کی صورت میں ترجیح کا اصول چلتا ہے جس کو مجتہدین جانتے ہیں، بہرحال ہمارے لئے اس مسئلے پر گفتگو بے سود ہے، ہمارے لئے اتنی بات بس ہے کہ وہ حضرات لائق اقتداء ہیں۔