صحابہ کرام نجومِ ہدایت ہیں
س… “أصحابی کالنجوم” اور “الصحابة کلہم عدول” آپ نے فرمایا کہ دونوں اقوال حدیث شریف کے نہیں، اگر ایسا ہے تو کوئی اشکال نہیں، اگر حدیث شریف ہے تو درایت پر پوری نہیں اترتی، اس لئے کہ بہت سے صحابہ سے بڑی بڑی لغزشیں ہوئیں، جیسے حضرت امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، عبیداللہ بن عمر، عبداللہ بن ابی سرج وغیرہ۔
ج… “الصحابة کلہم عدول” حدیث تو نہیں لیکن اہل حق کا مسلّمہ عقیدہ ہے، اور اکابر کی تقلید میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام بلا استثنا نجومِ ہدایت تھے، اور سب کے سب عادل تھے، لیکن آنجناب نے عدل کے معنی عصمت کے سمجھے ہیں، صحابہ کرام عادل تھے، معصوم نہ تھے، اور عدل کے معنی ہیں عمداً ارتکاب کبائر سے اور اصرار علی الصغائر سے بچنا اور اگر احیاناً معاصی کا صدور ہوجائے تو فوراً توبہ کرلینا۔
جن صحابہ کرام کا نام لے کر آپ نے فرمایا ہے کہ ان سے بڑی بڑی لغزشیں ہوئیں، ان میں سے کون سی غلطی ایسی ہے جس کی معافی کا اعلان اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوچکا ہو؟ اور وہ “کُلًّا وَّعَدَ اللهُ الْحُسْنٰی” کے وعدہٴ خداوندی سے مستثنیٰ ہوں، ابن ابی سرج مرتد ہوکر مسلمان ہوگئے تھے، اس کے بعد ان سے کون سی غلطیاں ہوئیں؟ حضرت عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ اور امیر معاویہ نے جو کچھ کیا وہ ان کی اجتہادی غلطی تھی اور آنجناب کو معلوم ہے کہ اجتہادی لغزش تو عصمت کے بھی منافی نہیں چہ جائیکہ عدل کے منافی ہو۔ قرآن کریم میں نبی معصوم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: “وَعَصٰی ٰادَمُ رَبَّہ فَغَوَیٰ” اس میں عصیان اور غوایت کی نسبت کی گئی ہے، مگر یہ فعل اجتہاداً تھا اس لئے یہ عصیان بھی صورتاً ہوا نہ حقیقتاً، اسی طرح صحابہ کرام کی جن جن بڑی غلطیوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ بھی اجتہاداً تھیں جن پر وہ ماجور ہیں نہ کہ مازور۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات نے جو کچھ کیا اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق رضائے الٰہی کے لئے کیا، اگر کسی کا اجتہاد خطا کرگیا تب بھی وہ نہ لائق ملامت ہے اور نہ اس کی اجتہادی خطا کو حقیقتاً غلطی کہنا صحیح ہے، نہ ان کے اجتہاد کی غلطی عدل کے منافی ہے اور نہ ان کے نجوم ہدایت ہونے کے خلاف ہے۔