”قریب تھا کہ انبیاء ہوجاتے“ کا مفہوم
س… حدیث شریف میں ہے کہ ایک وفد کے لوگ آپ کے پاس آئے، ان کے اوصاف سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا: “عجب نہیں انبیاء ہوجائیں۔” اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کے ساتھ بھی غالباً ایسا ہی فرمایا تھا کہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے، سوال یہ ہے کہ جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو “انبیاء ہوجائیں” یا “نبی ہوجاتے” سے کیا مراد ہے؟
ج… ”عجب نہیں کہ انبیاء ہوجائیں“ یہ ترجمہ غلط ہے، حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں: “حکماء علماء کادوا من فقہہم ان یکونوا انبیاء” صاحب علم، صاحب حکمت لوگ ہیں قریب تھا کہ اپنے فقہ کی وجہ سے انبیاء ہوجاتے۔ عربی لغت میں یہ الفاظ کسی کی مدح میں انتہائی مبالغے کے لئے استعمال ہوتے ہیں حقیقت کے خلاف استدلال کرنا صحیح نہیں، کیونکہ ان کا زندہ رہنا ناممکن تھا تو نبی ہونا بھی ناممکن ہوا۔ اگر نبوت مقدر ہوتی تو ان کو بھی زندہ رکھا جاتا مگر چونکہ ان کی نبوت ناممکن تھی اس لئے ان کی زندگی میں مقدر نہ ہوا۔ صاحبزادہ گرامی کے بارے میں فرمایا تھا: “اگر ابراہیم زندہ ہوتے تو صدیق نبی ہوتے۔” یہ روایت بھی بہت کمزور ہے، پھر یہاں تعلیق بالمحال ہے، یہ بحث میرے رسالے “ترجمہ خاتم النبیین” میں صفحہ:۲۷۷،۲۷۸ پر آئی ہے، اس کو یہاں نقل کرتا ہوں:
“اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہٴ گرامی حضرت ابراہیم کی زیارت کی ہے؟ فرمایا: “مات صغیرًا، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی الله علیہ وسلم نبی عاش ابنہ، ولکن لا نبی بعدہ۔” یعنی وہ صغر سنی ہی میں خدا کو پیارے ہوگئے تھے، اور اگر تقدیر خداوندی کا فیصلہ یہ ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو آپ کے صاحبزادہٴ گرامی حیات رہتے، مگر آپ کے بعد نبی ہی نہیں (اس لئے صاحبزادے بھی زندہ نہ رہے)۔
(صحیح بخاری باب من سمی بأسماء الانبیاء ج:۲ ص:۹۱۴)
اور یہی حضرت مُلّا علی قاری نے سمجھا ہے، چنانچہ وہ موضوعات کبیر میں ابن ماجہ کی حدیث: “لو عاش ابراہیم ․․․․ الخ” کے ذیل میں لکھتے ہیں:
“الا ان فی سندہ ابوشیبة ابراہیم بن عثمان الواسطی، وھو ضعیف لکن لہ طرق ثلثة یقوی بعضھا بعضا، ویشیر الیہ قولہ تعالیٰ: “ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین۔” فانہ یوٴمی بانہ لم یعش لہ ولد یصل الی مبلغ الرجال، فان ولدہ من صلبہ یقتضی ان یکون لبَّ قلبہ، کما یقال: “الولد سر لابیہ۔” ولو عاش وبلغ اربعین، وصار نبیًّا لزم ان لا یکون نبیًّا خاتم النبیین۔”
(موضوعات کبیر حرف “لو” ص:۶۹ مطبوعہ مجتبائی قدیم)
ترجمہ:…”اس حدیث کی سند کا ایک راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان الواسطی ضعیف ہے، تاہم اس کے تین طرق ہیں، جو ایک دُوسرے کے موٴید ہیں، اور ارشاد خداوندی: “․․․․وخاتم النبیّن” الخ بھی اسی جانب مشیر ہے، چنانچہ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آپ کا کوئی صاحبزادہ زندہ نہیں رہا، جو بالغ مردوں کی عمر کو پہنچتا، کیونکہ آپ کا بیٹا، آپ کی صلب مبارک سے تھا، اور یہ امر اس کو مقتضی تھا کہ وہ آپ کا ثمرہٴ ادل (یعنی آپ کے محاسن و کمالات کا جامع) ہوتا، جیسا کہ مثل مشہور ہے: “بیٹا باپ پر ہوتا ہے۔” اب اگر وہ زندہ رہتا اور چالیس کے سن کو پہنچ کر نبی بن جاتا تو اس سے لازم آتا ہے کہ آپ خاتم النبیین نہ ہوں۔”
مُلّا علی قاری کی تصریح بالا سے واضح ہوجاتا ہے کہ:
الف:…آیت خاتم النبیین میں ختم نبوت کے اعلان کی بنیاد نفی أبُوَّت پر رکھ کر اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ آپ کے بعد ہمیں کسی کو نبوت عطا کرنا ہوتی تو ہم آپ کے فرزندانِ گرامی کو زندہ رکھتے، اور انہیں یہ منصب عالی عطا فرماتے، مگر چونکہ آپ پر سلسلہٴ نبوت ختم تھا، اس لئے نہ آپ کی اولاد نرینہ زندہ رہی، نہ آپ کسی بالغ مرد کے باپ کہلائے۔
ب:…ٹھیک یہی مضمون حدیث: “لو عاش ابراہیم لکان صدیقًا نبیًّا” کا ہے، یعنی آپ کے بعد اگر کسی قسم کی نبوت کی گنجائش ہوتی تو اس کے لئے صاحبزادہٴ گرامی کو زندہ رکھا جاتا، اور وہی نبی ہوتے، گویا حدیث نے بتایا ابراہیم اس لئے نبی نہ ہوئے کہ آپ کے بعد نبوت کا دروازہ ہی بند تھا، یہ نہ ہوتا تو وہ زندہ بھی رہتے اور “صدیق نبی” بھی بنتے۔”