پیری مریدی بذات خود مقصود نہیں
س… چند ماہ قبل حضرت نے میرے ایک عریضہ پر کتاب “اختلاف امت اور صراط مستقیم” کا مطالعہ کرنے کے لئے فرمایا تھا، چنانچہ ہم نے اس کتاب کو بہت غور سے پڑھا اور بہت ہی مفید پایا، الحمدللہ! اس کے مطالعہ سے میرے بہت سے اشکالات دور ہوگئے اور بہت سی باتوں کے متعلق ذہن صاف ہوگیا، خاص کر ایک بہت ہی اصولی بات سمجھ میں آگئی اور دلنشین ہوگئی کہ جب کسی فعل کے سنت و بدعت ہونے میں تردد ہوجائے، بعض علماء سنت کہتے ہوں اور بعض بدعت، تو ترک سنت فعل بدعت سے بہتر ہے (صفحہ ۱۲۵، ۱۲۶) یہ بالکل بے غبار اصولی بات ہے اور احتیاط پر مبنی ہے کیونکہ دفع مضرّت ہر حال میں مقدم اور اولیٰ ہے، اب صرف ایک خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی باتیں تو بہت ساری ہیں جن میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، یہاں تک کہ جو مروجہ پیری مریدی کا سلسلہ ہم لوگوں کے یہاں ہے اور نفس کی اصلاح کے لئے اس کو بہت ہی ضروری سمجھا جاتا ہے، اس کو بہت سے علماء خاص کر علمائے عرب تو بدعت ہی کہتے ہیں، بلکہ اس کو پیر پرستی اور شرک تک کہتے ہیں۔ تو اس اصول کے تحت تو یہ سب قابل ترک ہوجائیں گے، امید ہے کہ حضرت اس کے متعلق کوئی بہت ہی واضح بات ارشاد فرماکر تسلّی فرمادیں گے، کیا اس مروجہ پیری مریدی کے لئے کوئی واضح حکم قرآن مجید یا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث وارشادات میں موجود ہے؟ یا چاروں ائمہ کرام رحمة اللہ علیہم میں سے کسی نے اس طریقہ کو دین کے فرائض و واجبات میں شامل کیا ہے؟
دُوسری بات یہ تو ظاہر ہے کہ دین میں کوئی نئی بات جو قرآن و سنت اور تعامل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی بات یا طریقہ دینی مقاصد کے حصول کے لئے بطور تدبیر اختیار کیا جائے تو وہ بدعت نہیں ہے، یعنی احداث فی الدین تو بدعت ہے اور احداث للدین بدعت نہیں ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر بدعات کی ابتدا للدِّین ہی کرکے ہوئی ہے اور رفتہ رفتہ عوام نے اس کو دین کا حصہ بنالیا اور پھر علمائے کرام نے ان کو بدعات کہنا شروع کردیا۔ مروجہ قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، سوئم وغیرہ یہ جتنی بدعات ہیں سب میں کوئی نہ کوئی دینی فائدہ منسوب کیا جاسکتا ہے، کچھ نہیں تو یہی کہ اس طرح آج کل غفلت زدہ لوگوں کو کبھی کبھار قرآن مجید کی تلاوت کا موقع مل جاتا ہے، اس طرح تو ساری بدعات کا جواز نکل آئے گا، امید ہے حضرت کے واضح ارشادات سے میرے یہ سب اشکالات دور ہوجائیں گے، اپنے جملہ دینی و دنیوی امور کے لئے حضرت سے دعاوٴں کی بھی درخواست ہے۔
ج… بہت نفیس سوال ہے، بڑا جی خوش ہوا، جواب اس کا اجمالاً آپ کے نمبر ۲ میں موجود ہے، ذرا سی وضاحت میں کئے دیتا ہوں: متعارف پیری مریدی بذات خود مقصد نہیں، اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے بہت سے امراض کی آدمی خود تشخیص نہیں کرسکتا، اور بیماری کی تشخیص بھی کرلے تو اس کا خود علاج نہیں کرسکتا، مثلاً مجھ میں کبر، یا عجب ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کا علاج کس طرح کروں؟ تو کسی شخص محقق متبع سنت سے اصلاحی تعلق قائم کرنا اس مقصد کی تحصیل کے لئے ہے، اور بیعت، جس کو عرف عام میں پیری مریدی کہا جاتا ہے، محض اصلاحی تعلق کا معاہدہ ہے، مرید کی جانب سے طلب اصلاح کا اور شیخ کی جانب سے اصلاح کا، اگر کوئی شخص ساری عمر بیعت نہ کرے، لیکن اصلاح لیتا رہے تو کافی ہے، اور اگر بیعت کرلے لیکن اصلاح نہ کرائے تو کافی نہیں۔ الغرض بیعت سے مقصد اصلاح ہے اور اصلاح کا واجب شرعی ہونا واضح ہے، اور مقدمہ واجب کا واجب ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں نفس کی مثال بچے کی ہے، چنانچہ استاذ اگر مکتب کے بچوں کے سر پر کھڑا رہے تو کام کرتے ہیں، ان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو ذرا کام نہیں کرتے، اگر آدمی کسی شیخ محقق کو اپنا نگران مقرر کرلے تو نفس کام کرے گا، اور اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو کام کے بجائے لہو و لعب میں لگا رہے گا۔
علاوہ ازیں سنت اللہ یہ ہے کہ آدمی صحبت سے بنتا ہے، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صحبت نبوی کا شرف حاصل ہوا تو کیا سے کیا بن گئے، اگر کسی متبع سنت شیخ سے تعلق ہوگا تو اس کی صحبت اپنا کام کرے گی، اس لئے حضرات صوفیاء کی اصطلاح میں بیعت کو “سلسلہٴ صحبت” سے تعبیر کیا جاتا ہے، گویا علم و عمل کے ساتھ صحبت کا سلسلہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متوارث چلا آتا ہے، الغرض بیعت و ارشاد کو بدعت سمجھنا صحیح نہیں، بلکہ یہ دین پر پابند رہنے کا ذریعہ ہے۔والله اعلم!