نمرود کے مبہوت ہونے کی وجہ
س… “فَاِنَّ اللهَ یَأْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ” تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ یہ بات سن کر نمرود کچھ جواب نہ دے سکا حالانکہ جیسے پہلے جواب دے چکا تھا ویسا جواب دینے کی یہاں بھی گنجائش تھی، پوچھنا یہ ہے کہ وہ گنجائش کیا تھی؟ پہلے سوال کے جواب میں تو اس نے ایک بے گناہ کو قتل کردیا اور ایک مجرم کو آزاد کردیا، دوسرے سوال میں کیا کہہ سکتا تھا؟
ج… ایک گنوار کا لطیفہ ہے کہ اس نے کسی پڑھے لکھے آدمی سے پوچھا: “بابو جی زمین کا بیچ (مرکز) کہاں ہے؟” جواب نفی میں ملا، گنوار کہنے لگا تم نے خواہ مخواہ اتنا پڑھ لکھ کر سب ڈبودیا، اتنی بات تو مجھ گنوار کو بھی معلوم ہے، بابو جی نے پوچھا: “وہ کیسے؟” اس نے ہاتھ کی لاٹھی سے ایک گول دائرہ بنایا اور اس کے درمیان لاٹھی گاڑ کر کہنے لگا: “یہ ہے زمین کا درمیان، اگر یقین نہ آئے تو ناپ کر دیکھ لو۔” اس کو معلوم تھا کہ نہ کوئی پیمائش کرسکے اور نہ اس کے دعوے کو توڑ سکے گا۔
نمرود بھی اگر اس گنوار کے مسلک پر عمل کرتا تو کہہ سکتا تھا کہ آفتاب کو مشرق سے تو میں نکالتا ہوں، تیرا رب اب اس کو مغرب سے نکال کر دکھائے۔ لیکن اس کو یہ دعویٰ ہانکنے کی جرأت نہیں ہوئی کیونکہ اسے یقین ہوگیا کہ جو مالک مشرق سے نکالتا ہے وہ مغرب سے بھی نکال سکتا ہے، اگر میں نے یہ دعویٰ کردیا تو ایسا نہ ہو کہ ابراہیم علیہ السلام کا رب مغرب سے نکال کر دکھادے، “فبھت الذی کفر”۔