کیا قبرِ اَطہر کی مٹی عرش و کعبہ سے افضل ہے؟
س… میرے پاس ایک کتاب ہے جس کا نام ہے “تاریخ المدینة المنورہ” جس کے موٴلف جناب محمد عبدالمعبود ہیں، اور اس پر تقریظ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب مدظلہ مہتمم دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی والوں کی ہے، تقریظ کی تاریخ یکم فروری ۱۹۷۸ء ہے، مولانا غلام اللہ خان صاحب نے بڑی تعریف فرمائی ہے، اور ایران سے آغا محمد حسین تسبیحی مدظلہم نے کتاب کو اس قدر پسند فرمایا کہ اس کا فارسی ترجمہ کرنے کی پیش کش فرمائی، مزید یہ کہ ولی زماں مفسر قرآن حضرت لاہوری کے خلف الرشید حضرت مولانا عبیداللہ انور دامت مجدہم کی تقریظات نے اس کی افادیت پر مہر تصدیق ثبت فرما کر اسے اور بھی چار چاند لگادئے ہیں۔ اس کتاب کی فہرست مضامین میں یہ ہے نمبر۱: مکہ معظمہ افضل ہے یا مدینہ طیبہ؟ نمبر۲: مدینہ طیبہ کی مکہ معظمہ پر فضیلت۔ نمبر۳: مدینہ طیبہ مکہ معظمہ سے افضل ہے، اب اس کے متعلق تفصیل بڑی طویل ہے میں کوشش کروں گا کہ مختصر بیان کروں، لکھا ہے کہ:
“امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام روئے زمین پر افضل مقامات اور بزرگ ترین شہروں میں مکہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ ہےزادھماالله تشریفًاوتعظیمًا۔ اب ان دو شہروں میں سے کس کو دُوسرے پر فضیلت اور ترجیح دی جائے؟ تو اس میں علمائے کرام کے عقول و اذہان بھی متحیر ہیں بایں ہمہ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کا وہ خطہ اور متبرک حصہ جو رحمت للعالمین فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر اور اعضائے شریفہ سے مس کئے ہوئے ہیں وہ نہ صرف مکہ مکرّمہ بلکہکعبةاللہسے بھی افضل ہے، سمواتِ سبع تو کجا عرشِ عظیم سے بھی اس کی شان، بالا، اعلیٰ، برتر، اَرفع اور انتہائی بلند ہے۔”
آگے ایک حوالہ یہ بھی تحریر ہے کہ:
“امیر الموٴمنین سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہٴ کرام کی ایک جماعت اور حضرت مالک بن انس اور اکثر علمائے مدینہ، مکہ مکرمہ پر مدینہ منورہ کو فضیلت دیتے ہیں، اسی طرح بعض علمائے کرام بھی مدینہ طیبہ کی فضیلت کے قائل ہیں، مگر وہ شہر مدینہ طیبہ کو مکہ مکرمہ کے شہر پر تو فضیلت دیتے ہیں البتہکعبةاللہکو مستثنیٰ کرتے ہیں اور کعبہ معظمہ کو سب سے افضل قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات طے شدہ ہے اور اسی پر علمائے متقدین و متأخرین کا اتفاق ہے کہ قبر اطہر سید کائنات رحمت موجودات صلی اللہ علیہ وسلم مطلقاً اور بالعموم افضل و اکرم، انصب و ارفع ہے خواہ شہر مکہ مکرمہ ہو یا کعبةاللہ ہو یا عرش مجید ہو، اس کتاب میں حضرتعلامة العصر الشیخ محمد یوسف بنوری مدظلہ نے معارف السنن جلد:۳ ص:۳۲۳ میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ اس موضوع پر بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبر اطہر، سات آسمانوں، عرش مجید اورکعبةاللہسے افضل ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔”
میرے محترم بزرگ میں اس پر مکمل اتفاق کرتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے کہ اول ذات اللہ کی ہے اس کے بعد کوئی افضل ذات ہے تو اللہ کے آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جو افضل و اعلیٰ ہے، باقی ساری چیزیں افضلیت میں کم ہیں، یہ سچ ہے کہ کعبة اللہ شریف کی بڑی عظمت و افضلیت ہے اور عرش عظیم، لوح و قلم وغیرہ کی اپنی اپنی عظمت اور افضلیت ہے، اس کا کوئی بھی مسلمان انکار کرنہیں سکتا، اگر انکار کرے تو وہ مسلمان نہیں، لیکن پہلے اللہ اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میرے محترم بزرگ میرے دوستوں اور احبابوں میں سے بعض حضرات اس کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ روضہٴ اطہر صلی اللہ علیہ وسلمکعبةاللہ اورعرش اعظم سے افضل ہو نہیں سکتا اور ایسی باتیں کہنا نہیں چاہئے، اور وہ قرآن کی ٹھوس دلیل چاہتے ہیں، تو لہٰذا میں بہت پریشان ہوں کس کو سچ مانوں اور کس کو غلط، میں حضرت والا سے نہایت ادب و احترام سے گزارش کرتا ہوں کہ قرآن کی دلیل اور احادیث کی روشنی میں تحریری جواب سے نوازیں کہ درست کیا ہے؟
ج… جو مسئلہ اس کتاب میں ذکر کیا ہے وہ قریب قریب اہل علم کا اجماعی مسئلہ ہے، وجہ اس کی بالکل ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلق ہیں، کوئی مخلوق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل نہیں اور ایک حدیث میں ہے کہ آدمی جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے اسی میں دفن کیا جاتا ہے، لہٰذا جس پاک مٹی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کی تدفین ہوئی اسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہوئی، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلق ہوئے تو وہ پاک مٹی بھی تمام مخلوق سے افضل ہوئی۔
علاوہ ازیں زمین کے جن اجزاء کو افضل الرسل، افضل البشر، افضل الخلق صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے وہ باقی تمام مخلوقات سے اس لئے بھی افضل ہیں کہ یہ شرف عظیم ان کے سوا کسی مخلوق کو حاصل نہیں۔
آپ کا یہ ارشاد بالکل بجا اور برحق ہے کہ “پہلے اللہ اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں” مگر زیر بحث مسئلے میں خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کے درمیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقابل نہیں کیا جارہا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور دُوسری مخلوقات کے درمیان تقابل ہے، کعبہ ہو، عرش ہو، کرسی ہو، یہ سب مخلوق ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے افضل ہیں، اور قبر مبارک کی جسد اطہر سے لگی ہوئی مٹی اس اعتبار سے اشرف و افضل ہے کہ جسد اطہر سے ہم آغوش ہونے کی جو سعادت اسے حاصل ہے وہ نہ کعبہ کو حاصل ہے، نہ عرش و کرسی کو۔
اور اگر یہ خیال ہو کہ ان چیزوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، اور روضہٴ مطہرہ کی مٹی کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، اس لئے یہ چیزیں اس مٹی سے افضل ہونی چاہئیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس پاک مٹی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملابست کی نسبت ہے، اور کعبہ اور عرش و کرسی کو حق تعالیٰ شانہ سے ملابست کا تعلق نہیں، کہ حق تعالیٰ شانہ اس سے پاک ہیں۔