انکارِ حدیث، انکارِ دین ہے
س… ایک صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ احادیث کی بنا پر ہی مسلمان مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لئے احادیث کو نہیں ماننا چاہئے، نیز ان صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حفاظت کا ذمہ تو لیا ہوا ہے مگر احادیث کی حفاظت کا ذمہ بالکل نہیں لیا، اس لئے احادیث غلط بھی ہوسکتی ہیں، لہٰذا احادیث کو نہیں ماننا چاہئے۔
ج… احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو کہتے ہیں، یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو وہ آپ کے ارشادات مقدسہ کو بھی سر آنکھوں پر رکھے گا، اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ماننے سے انکار کرتا ہے وہ ایمان ہی سے خارج ہے۔
ان صاحب کا یہ کہنا کہ مسلمانوں میں فرقہ بندی احادیث کی وجہ سے ہوئی، بالکل غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ قرآن کریم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے ارشادات کی روشنی میں نہ سمجھنے بلکہ اپنی خواہشات و بدعات کے مطابق ڈھالنے کی وجہ سے تفرقہ پیدا ہوا، چنانچہ خوارج، معتزلہ، جہمیہ، روافض اور آج کے منکرین حدیث کے الگ الگ نظریات اس کے شاہد ہیں، اور ان صاحب کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، احادیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا، یہ بھی غلط ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی ضرورت جس طرح آپ کے زمانے کے لوگوں کو تھی اسی طرح بعد کی امت کو بھی ان کی ضرورت ہے اور جب امت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ کے ارشادات کے بغیر اپنے دین کو نہیں سمجھ سکتی تو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعد کی امت کے لئے اس کی حفاظت کا بھی انتظام ضرور کیا ہوگا، اور اگر بعد کی امت کے لئے صرف قرآن کریم کافی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و ارشادات کی اسے ضرورت نہیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں کو بھی نعوذ باللہ آپ کی ضرورت نہ ہوگی، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بے کار مبعوث کیا؟